سب سے پہلے میں اس عظیم کیڈٹ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے الحمد للہ یونیورسٹی کا کورس پورا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح میں ان کیڈٹوں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جو میڈل لینے میں کامیاب ہوئے اور افتخار آمیز نتائج کی سمت میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ اسی طرح اس تربیتی مرکز کے اساتذہ، یونیورسٹی کے ذمہ داروں اور فوجی امور کے عہدیداروں کو بھی مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے الحمد للہ، آپ نوجوانوں کی شکل میں اپنی کامیابیوں کا ثبوت دیا ہے۔ اگرچہ ہمارے تمام فوجی مراکز، الحمد للہ اس لحاظ سے کہ ایمان، توانائی اور مسلط کردہ جنگ میں مجاہدت کے تجربے سے سرشار ہیں، مایہ اطمینان و نشاط خاطر ہیں اور ان کو دیکھنے سے شادمانی اور خوشی حاصل ہوتی ہے، لیکن کیڈٹ یونیورسٹی ہمارے تمام فوجی مراکز میں، ممتاز ہے۔
کیڈٹ یونیورسٹی ایسے نوجوانوں کی تربیت کا مرکز ہے جنہوں نے اپنے وطن عزیز اور پرشکوہ انقلاب کے دفاع کی پرافتخار صف میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ آج الحمد للہ ہمارے فوجی چاہے وہ فوج کے رکن ہوں یا پاسداران انقلاب کے۔ اسی طرح عوامی رضا کار سپاہی بسیجی جو جہاد کی صفوں میں شامل ہوئے ہیں، یعنی رضا کار فورس بسیج کے ارکان، یہ سب استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت کا بیان ہے۔ یہ انقلاب، اسلام اور مسلط کردہ جنگ کے تکلیف دہ مگر پرشکوہ تجربے کی برکت ہے۔
آج ہماری فوج ایک قابل فخر، سرافراز اور باایمان فوج ہے۔ آج الحمد للہ ان ظاہری باتوں کے لحاظ سے بھی جن کا دنیا کی فوجوں میں اہتمام کیا جاتا ہے اور ان پر توجہ دی جاتی ہے اور ایمان، مجاہدت، تقوا اور فداکاری کے لحاظ سے بھی ہماری افواج ممتاز ہیں اور سب سے بڑھکر یہ کہ ہماری فوج عوامی فوج ہے۔ ظاہری رکھ رکھاؤ اچھی بات ہے مگر کافی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں ایرانی فوج کا ظاہر بہت اچھا تھا، اس پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ مگرحساس لمحے میں جب دشمن نے انیس سو اکتالیس میں اس ملک کی سرحدوں پر حملہ کیا تو فوج نے معمولی سی بھی مزاحمت نہیں کی۔ بد عنوان پہلوی حکومت کے اعلا حکام جو دعوی کرتے تھے اور کہتے تھے کہہم نے فوج کی دیکھ بھال کی ہے اور فوج کو چلایا ہے اس کی رسوائی اس حساس لمحے میں آشکارا ہوئی۔ اپنے خیال خام کے تحت انہوں نے بہت زیادہ خرچ کرکے فوج تیار کی تھی۔ مگر ملک کے لئے اس کا فائدہ صفر تھا۔ کیونکہ اس نے ملک کا دفاع نہیں کیا۔
مگر اسلامی حکومت کے دور اور اسلامی جمہوریہ کے سربلند نظام کی فوج نے جنگ کے میدانوں میں، شجاعت کے ساتھ مزاحمت کی، استقامت کی، فداکاری کی اور بڑے شہدا کے نذرانے دیئے۔ ابھی چند ہی دنوں میں فوج اور پاسداران انقلاب کے بڑے کمانڈروں کی شہادت کی برسی ہے۔ تینوں مسلح افواج کے کمانڈروں نے مسلط کردہ جنگ کے دوران، اس سے پہلے اور اس کے بعد، اسلام کی برکت سے فداکاریاں کی ہیں اور اپنے اور فوج کے نام کو درخشاں اور جاودانی بنا دیا۔ آج بھی آپ اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج کو دیکھیں الحمد للہ ایسے مومن اور سرافراز افسروں سے سرشار ہے جو اسلامی وطن کے دفاع پر فخر کرتے ہیں۔ یہ ایسے فوج افسران ہیں جو دشمن سے نہیں ڈرتے مگر دشمن ان سے ڈرتا ہے۔ آج ہماری فوج، پاسداران انقلاب اور عوامی رضاکار فورس بسیج کے سپاہی، بڑی بڑی باتیں کرنے والے دشمنوں اور ان کاغذ کے شیروں سے ذرہ برابر نہیں ڈرتے۔ مگر دشمن واقعی اس عظیم فورس سے ڈرتے ہیں۔ ان کے بیانات سے بھی اس کی عکاسی ہوتی ہے۔
ہم فوج، سپاہ پاسداران انقلاب، مسلح افواج اور پولیس پر توجہ دیتے ہیں، ان کے امور کو دیکھتے ہیں، وہ اسلامی جمہوری نظام کے باشرف ترین اراکین ہیں۔ مگر ہماری کوشش یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے، اس عظیم فوج کا سرحد کے اس پار کی دنیا سے انحصار کم سے کم کریں۔ لہذا ہماری بیرونی خریداری خلیج فارس کے ساحلی ملکوں سے بہت کم ہے جو ایران کے ایک ضلع کے برابر بھی سربلند اور بڑے نہیں ہیں۔ ان کے ہاں امپورٹڈ ساز و سامان ہم سے بہت زیادہ ہے اور وہ بھی بیکار کی چیزیں خریدتے ہیں۔ کیا جنگی وسائل، ہوائی جہاز اور ٹینک کسی ملک کو بچا سکتے ہیں؟ عزم و ارادے اور انسان ہیں جو اپنے وطن، اپنی اقدار اور قوم کا دفاع کرنے پر قادر ہیں۔ وہ اپنی غلط سیاست اور حکومتوں کی بدعنوانیوں کی وجہ سے اس عظیم عنصر سے محروم ہیں۔ مسلسل پیسے خرچ کرتے ہیں اسلحے بنانے والے کارخانوں کو دیوالیہ ہونے سے نجات دلاتے ہیں مگر اپنی قوم اور علاقے کے نقصان میں۔ اس کے باوجود ان کی اور ان کے فریبی آقاؤں کی فریاد بلند ہو رہی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران عسکریت پھیلا رہا ہے۔
ساٹھ ملین افراد پر مشتمل اس قوم کے لئے، اپنی درخشاں تاریخ، اپنے عظیم انسانوں، اپنی عوامی حکومت اور اپنی مجاہدت کے تجربے کے ذریعے جس نے پوری دنیا کے انسانوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا ہے، قابل فخر یہ ہے کہ اپنا دفاع خود کر سکے، یقینا وہ اس پر قادر ہے۔ جی ہاں ہم ان بھونکنے والے کتوں اور خون آشام بھیڑیوں کے مقابلے میں اپنی دفاعی صلاحیت کی تقویت کر رہے ہیں۔ عالمی طاقتوں اور صیہونی کمپنیوں کی آنکھیں اندھی ہوئی جا رہی ہیں کہ ہم بیرونی دنیا پر انحصار کم کر رہے ہیں۔ خود بنا رہے ہیں، خود تیار کر رہے ہیں، اور پرودگار کے فضل سے خود کو نمایاں کر رہے ہیں۔ انہوں نے برسوں سے اپنی کمزوریوں کو اپنے جھوٹے نعروں میں چھپا رکھا ہے۔
آج خلیج فارس کے بعض ساحلی ملکوں نے اپنی تاریخ اور عرب ملکوں کی تاریخ کے ساتھ بہت بڑی خیانت کی ہے۔ یعنی اسرائیل کو جس نے ایک اسلامی ملک اور ایک عرب قوم کی سرزمین کو غصب کیا ہے، اس کے اس غاصبانہ فعل اور ظلم کی تائید اور اس کی حمایت کی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب یہی ہے۔ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کو ختم کر رہے ہیں اور یہ اسلامی اور عرب اقوام کے ساتھ خیانت اور فلسطینی قوم سے بہت بڑی خیانت ہے۔ کیا خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ملکوں کی حکومتیں اس خیانت کو نظرانداز کر دیں گی؟ کیا ان ملکوں کی اقوام اپنے حکام کی اس خیانت سے چشم پوشی کر لیں گی؟ حقائق عالم، سیاسی بازیگری اور موسمی واقعات سے تبدیل نہیں ہوتے۔ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ صیہونیوں کی حکومت غاصب اور جعلی حکومت ہے۔ اسرائیل کا کوئی حقیقی شہری، مقامی فلسطینی عوام کے علاوہ، نہیں ہے۔ جو پوری دنیا سے اکٹھا ہوئے ہیں اور انہوں نے فلسطینیوں کے گھروں پر قبضہ کر رکھا ہے، مسلمان اقوام کی کوششوں سے ان گھروں کو ان کے مالکین کو لوٹانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس دن کے آنے میں ممکن ہے دیر لگے مگر اس کا آنا یقینی ہے۔
یہ ہمارا موقف ہے۔ ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم ہیں۔ ہم سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں کیا کر رہا ہے اور وہ کیا کہتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے کہنے کےمطابق اپنا دستور العمل طے کریں۔ ہم اپنے ملک و قوم کے مفاد اور صحیح و درست استدلال کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتے ہیں۔ ہم خدا اور اس عظیم قوم پر بھروسہ کرتے ہیں اور آپ مسلح افواج، اس قوم کے طاقتور اور قوی بازو ہیں۔ خود کو مضبوط بنائیں۔ کیڈٹ اور نوجوان افسران، جتنا ممکن ہو، اپنے اندر ایمان، فوجی دانش، نظم و ضبط، اخلاص اور شجاعت کو تقویت پہنچائیں۔ آپ کا کردار با شرف اور عظیم ہے۔ آپ کا افتخار بے نظیر ہے۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم اپنی رحمت اور لطف و کرم، اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج،پاسداران انقلاب، عوامی رضاکار فورس بسیج کے شہداء اور اس قوم کے تمام شہیدوں اور فوج اور پولیس کے تمام خدمتکاروں کے شامل حال کرے۔