آپ عزیزوں، ایک افتخار آفریں قومی و تقدیر ساز شعبے میں سرگرم عمل آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی آج اس زیارت پر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ ہم آپ کے لئے بڑی دعائیں کرتے ہیں، قلبی طور پر ہم آپ سے گہری وابستگی اور گہرا لگاؤ رکھتے ہیں۔ آج یہ بہت اچھا موقعہ میسر آیا ہے کہ آپ سے رو برو ہوکر بالمشافہ اظہار اخلاص و ارادت کر رہا ہوں۔ اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ بیشک یہ نعمتیں اللہ کی عطا کردہ ہیں۔ ساری نعمتیں اللہ تعالی نے عنایت فرمائی ہیں۔ «ما بكم من نعمة فمن اللَّه».(1) کارآمد، ماہر، دانشمند، ذی فہم، روشن فکر اور جوش و جذبے سے سرشار افرادی قوت کی شکل میں دستیاب نعمت بڑی عظیم نعمت ہے۔ یہ نعمت الہیہ ہے۔ ہم آپ کا جو شکریہ ادا کرتے ہیں وہ اپنی جگہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہم اللہ تعالی کا بھی بہت شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے آپ کو اس قوم اور اس نظام کی آغوش میں دیا۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ جو انسان بھی جس علاقے اور جس دائرے میں بھی مشغول خدمت ہے اسے اس خدمت کی قدر و قیمت کو سمجھنا چاہئے۔ اگر وہ خدمت گزار انسان اس خدمت کی قدر و منزلت سے واقف ہوگا تو اپنا کام بہترین انداز سے انجام دے گا۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو، اس محاذ کی نگہبانی پر مامور شحص، ٹاور پر کھڑے ہوکر ایک دائرے کی پہرے داری کرنے والا انسان جو یہ انتہائی اہم فریضہ انجام دے رہا ہے، اگر اس کو اس کی اہمیت کا صحیح طور پر اندازہ نہ ہو تو اس سے غفلت کا سرزد ہو جانا، اسے نیند آ جانا اور اس کی بے توجہی فطری ہے۔ تو سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ ہمیں یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنے دائرہ کار میں کتنی عظیم خدمت انجام دے رہے ہیں۔
میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ البتہ آپ جو کام انجام دے رہے ہیں اس کے مختلف پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہی ہے کہ آپ کے اس کام نے اس قوم اور اس ملک کی قومی عزت نفس میں اضافہ کیا۔ یہ بہت بڑی چیز ہے۔ قومیں اس وقت مشکلات میں گرفتار ہو جاتی ہیں جب ان کے اندر عزت نفس کا احساس مر جائے۔ ایسا ہو جائے تو قومیں بڑی آسانی سے اور بغیر کسی مزاحمت کے دوسروں کی غلامی کرنا گوارا کر لیتی ہیں۔ عزت نفس کی یہ اہمیت اور کلیدی حیثیت ہے۔ مظلوم قوم اس وقت قیام کرتی ہے جب اسے تاریخ میں کچل دی جانے والی اپنی عزت نفس کا احساس ہو جائے، شمالی افریقا کے ممالک اور بعض دیگر ملکوں میں یہی ہوا۔ یہ احساس جاگ جانے کے بعد قوم اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور پھر کوئی طاقت اس کے سد راہ نہیں ہو سکتی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ بالفعل یہ چیز ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ یہ ہے عزت نفس۔ انقلاب نے ہماری قوم کو اور ہمارے ملک کو عزت نفس سے نوازا۔ بار بار یہ کوششیں ہوئیں کہ اس قوم کی فکر و جذبات کو کچل دیا جائے۔ اس قوم کو باور کرا دیا جائے کہ اس میں کسی کام کی کوئی لیاقت نہیں ہے، بیشک تم نے انقلاب لانے میں تو کامیابی حاصل کر لی لیکن ملک چلانا تمہارے بس کی بات نہیں، آگے بڑھنا تمہارے بس کی بات نہیں، دنیا کے قدموں سے قدم ملاکر چلنا تمہارے بس کی بات نہیں۔ بنابریں ہر علمی پیشرفت اور کامیابی اس قوم کے لئے ایک عظیم کارنامہ اور اہم نوید ہے کہ اس کے اندر بھرپور لیاقت ہے۔ آپ کے اس ایٹمی شعبے نے قوم کو عزت نفس عطا کی۔ یہ آپ کے شعبے اور کام کا سب سے اہم پہلو ہے۔
ان اقدار کو مادی تخمینوں اور اندازوں کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ مادی دنیا تو خیر تمام چیزوں کو پیسے کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور اس نقطہ نگاہ سے تمام انسانی اقدار کی آخری منزل اور آخری ہدف پیسہ ہی ہوتا ہے۔ مادی دنیا کی سب سے بڑی مصیبت و آفت بھی یہی ہے اور یہی طرز فکر اسے نابود کر دینے والا ہے۔ حقیقت امر یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پیسے اور دولت کے ترازو پر تولنا ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ انسان کبھی تقابلی جائزے میں تسامح کی بنیاد پر پیسے کا نام لے لے۔ میں ملک کے ایک صوبے کے دورے پر گیا تھا۔ مختلف طبقات سے جو ملاقاتیں ہوئیں ان میں ایک ملاقات یونیورسٹی کی انتظامیہ، طلبہ اور اساتذہ سے ہوئی۔ جوش و جذبے سے معمور بڑی اچھی نشست تھی۔ ایک دانشور استاد نے جنہیں میں پہچانتا ہوں اور آج بھی موجود ہیں، تقریر کی۔ کئی افراد نے تقریریں کی تھیں ان میں ایک تقریر اس استاد کی تھی۔ اس حقیر کی اور انتظامیہ کی توجہ اس صوبے کی جانب مرکوز کروانے کے لئے وہ صوبے کی خصوصیات بیان کر رہے تھے کہ یہاں فلاں خصوصیت ہے، فلاں خصوصیت ہے، اس کی اتنی قیمت ہے اور مناسب ہے کہ فلاں شعبے پر اتنے ارب تومان کا بجٹ صرف کیا جائے۔ اس موقعے پر میں نے جو بات کہی تھی اس کا ماحصل میں یہاں بیان کر دوں، وہی الفاظ اور جملے تو میرے ذہن میں نہیں ہیں لیکن میری بات کا مضمون یہ تھا کہ آپ نے جو باتیں بیان کی ہیں، مادی ہیں، خود آپ کی ارزش و قیمت اربوں سے زیادہ ہے۔ کسی صوبائی مرکز اور کسی شہر میں مصروف کار ایک استاد اور دانشور کا کیا مادی وسائل و امتیازات سے موازنہ ہو سکتا ہے؟! انسان کی یہ اہمیت ہے، فکر کی یہ قیمت ہے، شخصیت کا یہ مقام ہے۔ تو آپ بھی یاد رکھئے کہ جو کام انجام دے رہے ہیں وہ کتنا حیاتی عمل ہے۔
البتہ آپ کے کام کے پہلو بہت زیادہ ہیں۔ پروپیگنڈے میں تو یہی تاثر دینے اور ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ محض فکری اور آئيڈیالوجیکل عمل ہے، اس کا قوم اور ملک کے مفادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جبکہ آپ کا کام ایسا ہے جس کا قومی مفادات سے براہ راست رشتہ ہے۔ ایٹمی توانائی کی افادیت کا یہ عالم ہے کہ اس کا قومی مفادات سے بلا واسطہ رابطہ ہے۔ ابھی جو رپورٹ جناب ڈاکٹر عباسی نے پیش کی اس میں قومی مفادات سے اس ٹکنالوجی کے رابطے کے ایک حصے کا ذکر ہے۔ ایٹمی سرگرمیوں کی انجام دہی قوم کے لئے، ملک کے لئے اور مستقبل کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔
دنیا کی استکباری طاقتیں، وہ عناصر جو پوری دنیا پر راج کرنے کے خواہشمند ہیں، یعنی یہی سامراجی ممالک، خود کو عالمی برادری کے طور پر متعارف کراتے ہیں، جبکہ عالمی برادری کچھ اور ہے۔ عالمی برادری تو دنیا کی قوموں اور ان کی حکومتوں پر مشتمل ہے۔ مٹھی بھر ملکوں نے خود کو عالمی برادری قرار دے رکھا ہے اور پھر عالمی برادری کے نام پر احکامات صادر فرماتے ہیں، خیال پردازیاں فرماتے ہیں، توقعات کا اظہار کرتے ہیں، دوسروں کی باتوں کو ٹھکراتے ہیں، ان مٹھی بھر ملکوں نے سائنس و ٹکنالوجی پر اپنی اجارہ داری کے ذریعے دنیا پر اپنا تسلط قائم کیا ہے۔ یہ ممالک جو اتنے وسیع پیمانے پر ہنگامے کرتے ہیں اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ یہ اجارہ داری ختم نہ ہونے پائے۔ اگر قومیں ایٹمی ٹکنالوجی کے شعبے میں، خلائی ٹکنالوجی کے شعبے میں، الیکٹرانک شعبے میں، گوناگوں صنعتی سائنسی اور تکنیکی شعبوں میں پیشرفت حاصل کر لیں تو پھر ان غنڈوں اور مستبد عناصر کے لئے دنیا پر حکمرانی کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
انسانیت پر بہت بڑا ستم یہ ہوا کہ دنیا کے صنعتی انقلاب کے دوران ان دو تین صدیوں کے دوران علم و دانش کو غنڈہ گردی کے حربے کے طور پر استعمال کیا گيا۔ برطانیہ جو صنعتی انقلاب میں سب سے آگے تھا، اس نے اپنی اس کامیابی کو دنیا کو اپنی جولان گاہ میں تبدیل کرنے اور قوموں کو اپنا بندہ بے دام بنانے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا۔ آپ جانتے ہیں کہ بر صغیر پر برطانیہ کی حکمرانی کے دور میں اس وسیع و عریض اور انتہائی دولتمند علاقے پر کیا گزری؟ صرف برصغیر نہیں بلکہ مشرقی ایشیا کا پورا علاقہ سو سال سے زیادہ عرصے تک انگریزوں کی زنجیر میں جکڑا رہا اور انہوں نے اپنے علم و دانش کے ذریعے اس خطے کے عوام کے سروں پر خود کو مسلط رکھا۔ پوری آبادی جاں بلب ہوکر رہ گئی، انسانوں کی کتنی بڑی تعداد نابود ہو گئی، کیسی کیسی امنگیں دم توڑ گئیں، کیسی کیسی قومیں پسماندگی کی کھائی میں گرا دی گئیں، کتنے ممالک ویرانوں میں تبدیل ہو گئے؟! ان انگریزوں نے علم و دانش کو ان مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ یہ علم و دانش کے ساتھ سب سے بڑی خیانت ہے، اسی طرح انسانیت کے ساتھ بھی یہ سب سے بڑی خیانت ہے۔ سامراجی ممالک کی کوشش یہ ہے کہ یہ اجارہ داری بدستور قائم کرے۔ اگر کوئی قوم خود مختار ہوکر یعنی ان کے تابع فرمان نہ رہتے ہوئے اور ان کے اجازت نامے کی پابند نہ ہوتے ہوئے، اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو اس سے اس اجارہ داری کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ آج ملت ایران کے ہاتھوں یہی کارنامہ سرانجام پا رہا ہے۔
آپ پوری محنت و لگن کے ساتھ اس عظیم، انتہائی اہم اور بنیادی ترین کام کو آگے بڑھائیے۔ اللہ پر توکل کیجئے، انشاء اللہ خداوند عالم آپ کی مدد فرمائے گا۔ استعداد کی کوئی کمی نہیں، انسانی صلاحیت و لیاقت کی کوئی کمی نہیں، قدرتی و انسائی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن سیاسی صلاحیتوں کی کمی ہے، دشمن کے تسلط کا یہ عالم ہے کہ عوام کو سانس لینے کی اجازت نہیں ہے، اپنی انسانی و قدرتی صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کار لانے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے حالات میں انقلاب آتا ہے اور سیاسی فضا کو سازگار بنا دیتا ہے۔ اب آپ آزادی کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں، پیشرفت حاصل کر سکتے ہیں۔
دشمن یہ جو ہنگامہ آرائی کرتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ ہماری پیشرفت کے اس عمل کو روک دیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ ہم ایٹم بم بنانے کی کوشش میں نہیں ہیں، اسے وہ سمجھ چکے ہیں اور خوب جانتے ہیں۔ مجھے ذرہ برابر شک نہیں کہ آج ہمارے مقابل جو ممالک کھڑے ہوئے ہیں ان کے پالیسی سازوں اور اہم فیصلے کرنے والے اداروں کو پوری اطلاع ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ واقعی ایٹمی ہتھیار ہمارے لئے کفایتی چیز نہیں ہے۔ مزید برآں ہم فکری و نظری و فقہی لحاظ سے اسے غیر قانونی مانتے ہیں، اس عمل کو انحرافی اور خلاف قانون عمل جانتے ہیں۔ ہم ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو گناہ عظیم سمجھتے ہیں اور اس کی نگہداشت کو عبث، ضرر رساں اور خطرناک مانتے ہیں، ہم اس کی جانب ہرگز نہیں بڑھیں گے۔ انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم بھی ہے لیکن اس کے باوجود ان کا دباؤ جاری ہے کہ کسی صورت سے اس شعبے کی پیشرفت پر روک لگا دیں۔
ہم دنیا پر یہ بات ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار سے طاقت میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک دلیل یہی ہے کہ جن طاقتوں کے پاس آج ایٹمی ہتھیار ہیں وہ سخت ترین مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کی دھونس جما کر اپنا تسلط تو قائم کر لیا لیکن آج اب یہ روش بے سود ہوکر رہ گئی ہے۔ ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ہمارا مطمح نظر نہیں ہے اور ہم اسے طاقت کا ذریعہ نہیں مانتے بلکہ ہم ایٹمی ہتھیار پر استوار فوجی طاقت کو متزلزل کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ قوم یہ کارنامہ انجام دیگی۔
میں آپ کی خدمت میں یہ بھی عرض کر دوں کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ دشمنوں کی جانب سے پابندیوں، دھمکیوں اور دہشت گردانہ ٹارگٹ کلنگ جیسے اقدامات کی صورت میں جاری دباؤ ان کی کمزوری اور اضمحلال کی علامت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن جو حرکتیں کر رہا ہے اس سے ہماری قوم کا استحکام اور اس کی قوت اور بھی بڑھ رہی ہے۔ ہمارے عوام کو اس طرح بخوبی ادراک ہو گیا ہے کہ ان کا تیر صحیح نشانے پر لگا ہے، انہوں نے بالکل صحیح ہدف کا تعین کیا ہے اور بہترین انداز میں پیش قدمی کی ہے جس کی وجہ سے دشمن چراغ پا ہیں۔ اس تلملاہٹ کی وجہ صرف ایٹمی شعبے کی ترقی نہیں ہے۔ بیشک اس وقت ان کا سب سے بڑا بہانہ ایٹمی پروگرام ہی ہے، ایٹمی پروگرام کے بہانے ہی پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایٹمی سرگرمیوں کا قضیہ کتنا پرانا ہے؟ پابندیاں تو تیس سال سے جاری ہیں۔ پہلے تو ایٹمی پروگرام کی کوئی بات نہیں تھی، اس وقت کیوں پابندیاں عائد کی تھیں؟ یہ در حقیقت اس قوم کی دشمنی و مخالفت کا قضیہ ہے جس نے آزاد رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس نے ظلم برداشت نہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے، ظالم کے چہرے سے نقاب الٹ دینے کی جرئت دکھائي ہے، جس نے ظالم کے مقابل ڈٹ جانے کا شجاعانہ عزم کر لیا ہے اور جس نے اپنے اس عزم و ارادے سے پوری دنیا کو آگاہ کر دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، بلکہ آگاہ کر دیا ہے اور مزید انکشافات بھی کرنے والی ہے۔ پابندیوں اور سیاسی حربوں کا کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے۔ جب قوم فیصلہ کر لیتی ہے، جب عوام کے اندر نصرت خداوندی اور اپنی باطنی طاقت اور اندرونی صلاحیت کا یقین پیدا ہو جاتا ہے تو پھر کوئي چیز ان کے سد راہ نہیں ہو سکتی۔ میری سفارش یہ ہے کہ آپ اپنے حوصلے بلند رکھئے۔ اپنے ادارے کے اندر اور ان تمام افراد میں جو اس مہم کو آگے بڑھانے میں معاونت کر رہے ہیں، اس سفر کو جاری رکھنے کا عزم و حوصلہ بڑھائیے۔ آپ بہت عظیم کام انجام دے رہے ہیں، بہت اہم کام پورا کر رہے ہیں جو اس ملک کے مستقبل کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی کہ ہم ایٹمی صنعت کو اپنے قومی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کریں گے بلکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس مہم سے ہمارے ملک کے نوجوانوں میں، اس ملک کے سائنسدانوں میں، اس ملک میں بسنے والے عوام میں عزم راسخ پیدا ہوگا اور ان کی ثابت قدمی میں اضافہ ہوگا۔ یہ سب سے اہم بات ہے۔ قوم کو استوار و ثابت قدم رکھنا، عوام میں جوش و جذبے کو کم نہ ہونے دینا ایسا عمل ہے جس کے فوائد اس ایٹمی صنعت سے بھی زیادہ ہیں۔ آپ یہی کام انجام دے رہے ہیں، انشاء اللہ خداوند عالم آپ کی مدد فرمائے گا۔
ہماری دعائیں بھی آپ کے ساتھ ہیں۔ جب بھی ضرورت پڑے گی ہم آپ کی پشتپناہی کے لئے آگے آئیں گے، آپ کی ہر ضروری مدد کریں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ آپ یکے بعد دیگرے تمام رکاوٹوں کو دور کرتے جائيں گے اور اپنی پیشرفت کے عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ انشاء اللہ آپ کا مستقبل زمانہ حال سے بدرجہا بہتر ہوگا۔
1) نحل: 53