سب سے پہلے تو میں آپ معزز مہمانوں کو جو مختلف ممالک سے تشریف لائے ہیں اور ایران کے یونیورسٹی اساتذہ کو بھی خوش آمدید کہتا ہوں۔ ڈیڑھ سال سے اب تک اسلامی بیداری کے موضوع پر متعدد اجلاسوں اور نشستوں کا انعقاد ہوا لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ اساتذہ کے اجلاس کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ معاشرے کے اندر ایک نئی فکر اور نئی تحریک کی تخلیق معاشروں کے خاص افراد کے ہاتھوں عمل میں آتی ہے، معاشرے کے دانشوروں کے ذریعے انجام پاتی ہے۔ وہی کسی قوم کے فکری رجحان کو خاص سمت و جہت عطا کر سکتے ہیں جو قوموں کی نجات کی ضمانت بن جائے۔ اسی طرح وہ معاشرے کو ایسی ڈگر پر بھی لے جا سکتے ہیں جس کی منزل تباہی و بدبختی ہو۔ بد قسمتی سے یہ دوسری صورت حال گزشتہ ستر اسی برسوں کے دوران دنیا کے بعض ممالک منجملہ خود ہمارے ملک میں حکمفرما رہی۔ رسول اسلام سے روایت ہے کہ: «لا تصلح عوامّ هذه الأمّة الاّ بخواصّها قيل يا رسولالله و من خواصّها قال العلماء»؛ آپ نے سب سے پہلا نام علماء کا لیا، اس کے بعد مزید چند صنفوں کا ذکر کیا ہے۔ مختصر یہ کہ یونیورسٹی کے اساتذہ، دانشور اور مفکر طبقہ کسی بھی ملک میں عوام کو خاص سمت میں لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ اس کے لئے اخلاص کی شرط ہے، شجاعت کی شرط ہے اور دشمنوں سے نہ گھبرانا شرط ہے۔ اگر خوف پیدا ہو جائے، اگر لالچ پیدا ہو جائے، اگر غفلت برتی جائے اور تساہلی سے کام لیا جائے تو پھر سب کچھ خراب ہو جائے گا۔ اگر خوف کو قریب نہ آنے دیا جائے، شجاعت سے کام لیا جائے، حرص و طمع سے آزاد رہا جائے، غفلت نہ برتی جائے، ہوشیار و بیدار رہا جائے تو سارے کام بحسن و خوبی انجام پائیں گے۔
اکتیس بتیس سال قبل اوائل انقلاب کے زمانے میں ایک نہایت اہم مسئلے میں مشاورت کے لئے، میں دو افراد کے ساتھ جو میری طرح اس زمانے میں انقلابی کونسل کے رکن تھے، امام خمینی سے ملاقات کے لئے قم گیا۔ امام خمینی اس وقت قم میں ہی تھے، ابھی آپ تہران تشریف نہیں لائے تھے۔ ہم امام خمینی سے اس مسئلے میں مناسب اقدام کے لئے ان کی رائے دریافت کرنا چاہتے تھے۔ جب ہم نے صورت حال سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے ہم سے سوال فرمایا کہ کیا آپ لوگ امریکا سے ڈرتے ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ نہیں۔ امام خمینی نے کہا کہ تو جائيے اپنا اقدام شروع کیجئے۔ ہم نے ویسا ہی کیا اور کامیابی بھی ملی۔ اگر ہمارے اندر خوف گھر کر جائے، حرص و طمع پیدا ہو جائے، غفلت کی کیفیت پیدا ہو جائے اور اگر انحرافی رجحان پیدا ہو جائے تو کاموں کی انجام دہی مشکل ہو جاتی ہے۔
آج دنیا کے سامنے ایک عظیم واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ یہ عظیم واقعہ ہے اسلامی بیداری، یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ مسلم اقوام اور اسلامی ملتیں بتدریج بیدار ہو رہی ہیں۔ اب مسلمان قوموں کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنا اتنا آسان نہیں رہا جیسا پہلے عالمی جنگ کے بعد اور انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران تھا۔ دنیا کی استکباری طاقتیں اگر آج مسلم اقوام پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہیں تو یہ ان کے لئے آسان نہ ہوگا۔ امت اسلامیہ میں بیداری کی لہر پیدا ہو چکی ہے، ان کے اندر اپنی جگہ بنا چکی ہے۔ کچھ ملکوں میں یہ بیداری انقلاب میں تبدیل ہو گئی اور بدعنوان پٹھو حکومتوں کی سرنگونی پر منتج ہوئی، البتہ ابھی اسلامی بیداری کا صرف ایک حصہ سامنے آیا ہے، یہ یہیں تک محدود نہیں رہے گی، اسلامی بیداری کا دائرہ بہت وسیع اور اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
دشمن اسلامی بیداری کے نام سے ہی ہراساں ہے، اس کی یہی کوشش ہے کہ اس عظیم تحریک سے اسلامی بیداری کے عنوان کو الگ کر دے، کیوں؟ اس لئے کہ جب اسلام اپنی حقیقی شکل میں اور پورے آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوتا ہے تو دشمن طاقتوں پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ انہیں ڈالروں کے غلام اسلام سے کوئی خوف نہیں ہے، بدعنوانی اور عیش و عشرت میں غرق اسلام سے انہیں کوئی ڈر نہیں ہے، انہیں اس اسلام سے کوئی خطرہ نہیں جو عوام الناس کی رگوں اور طرز عمل میں سمایا ہوا نہ ہو۔ ہاں اگر عمل کی صورت اختیار کر جانے والا اسلام، عوام الناس کے دلوں پر محیط اسلام، اللہ پر توکل کا متقاضی اسلام، اس وعدہ خداوندی پر یقین رکھنے کی تلقین کرنے والا اسلام کہ «و لينصرنّ الله من ينصره»،(1) انہیں مضطرب کر دیتا ہے۔ اگر اس اسلام کے آثار کہیں دکھائی پڑ جائیں تو دنیا کی استکباری طاقتیں پیچ و خم کھانے لگتی ہیں۔«كأنّهم حمر مستنفرة. فرّت من قسورة»(2) - یہی وجہ ہے کہ وہ اس تحریک کو اسلامی بیداری کا نام دئے جانے پر بوکھلا جاتی ہیں۔ تا ہم ہمارا یہی موقف ہے کہ یہ اسلامی بیداری ہے، یہ حقیقی بیداری ہے جو دلوں کی گہرائیوں میں سما گئی ہے، دور دور تک پھیل گئی ہے اور جسے دشمن آسانی سے ہائی جیک نہیں کر سکتے۔ البتہ ضروری ہے کہ کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی جائے۔ یہی وہ پہلا نکتہ ہے جس پر میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ عالم اسلام کی ان تحریکوں کی، مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک میں رونما ہونے والے انقلابات کی کمزوریوں کی نشاندہی کیجئے، انہیں لاحق خطرات کا تعین کیجئے۔ ان کی مشکلات کو پہچانئے۔ جو انقلاب آئے ہیں انہیں ہم اسلامی انقلاب کیوں قرار دے رہے ہیں؟ آپ عوام الناس کے نعروں پر غور کیجئے۔ اس پوری مدت میں بدعنوان حکومتوں کی سرنگونی کے عمل میں اسلام نواز حلقوں کے کلیدی کردار پر غور کیجئے! اگر اسلام پر گہرا عقیدہ رکھنے والے، اگر عوام کے اندر گہرے اسلامی نظریات کے حامل افراد نہ ہوتے تو مصر اور تیونس میں یہ عظیم اجتماعات نہ ہو پاتے۔ جن لوگوں نے اپنی تحریک اور اپنی عظیم افرادی قوت کے ذریعے حسنی مبارک اور بن علی کے اقتدار کے ایوانوں کو زلزلے کی نذر کر دیا وہ مسلمان عوام تھے جن کی زبانوں پر اسلامی نعرے تھے۔ ان بدعنوان حکومتوں کے سقوط میں اسلام نواز حلقوں کا کلیدی کردار بہترین دلیل اور بین ثبوتہے کہ یہ تحریکیں اسلامی تحریکیں ہیں۔ اس کے بعد جب بھی ووٹنگ کا مسئلہ آیا عوام نے اسلام نواز رہنماؤں کو ووٹ دیا، ان کی حمایت دی، انہیں ترجیح دی۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر آج پورے عالم اسلام میں آزادانہ انتخابات کرائے جائیں اور مسلم رہنما انتخابی میدان میں موجود ہوں تو شاید معدودے چند استثنائات کے علاوہ ہر جگہ عوام اسلام نوازوں کو ہی منتخب کریں کے۔ یہ صورت حال ہر جگہ ہے۔ بنابریں اس تحریک کے اسلامی ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔
ہم نے کمزوریوں اور خطرات کی نشاندہی کی بات کہی۔ کمزوریوں کی نشاندہی کے ساتھ ہی اہداف کا بیان کر دیا جانا بھی ضروری ہے۔ اگر اہداف بیان نہ کئے گئے تو تذبذب کی کیفیت پیدا ہوگی، آشفتگی و انتشار کی کیفیت پیدا ہوگی۔ اہداف کا بیان کر دینا ضروری ہے۔ اس بیداری کا ایک اہم ترین ہدف عالمی استکبار کے تسلط کے شر سے رہائی ہے۔ اس کو پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان کرنا چاہئے۔ اگر ہمارا یہ خیال ہے کہ امریکا کی قیادت میں عالمی استکبار اسلامی تحریک کو ممکن ہے تسلیم کر لے تو بہت بڑی بھول ہے۔ جہاں اسلام ہوگا، اسلام نوازی ہوگی، اسلام نواز ہوں گے وہاں امریکا کی پوری کوشش ہوگی کہ انہیں راستے سے ہٹا دے، البتہ ممکن ہے کہ اس کے ہونٹوں پر ظاہری مسکراہٹ بھی نظر آئے۔ اسلامی تحریکوں کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے فرق کو نمایاں رکھیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ امریکا کے خلاف جنگ شروع کر دیجئے! ہم صرف یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ ان کے سلسلے میں امریکا اور مغربی استکبار کی سوچ اور موقف کیا ہے۔ اسے وہ خوب سمجھ لیں۔ اگر انہوں نے اس کو نہ سمجھا تو یقینا دھوکا کھائیں گے، فریب کا شکار ہوں گے۔
اس وقت عالمی استکبار دولت، ہتھیار اور علم کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کر رہا ہے لیکن وہ فکری خلا سے دوچار ہے، رہنما افکار کے خلا میں مبتلا ہے۔ یہ عالمی استکبار کے سامنے بہت بڑا بحران ہے۔ اس کے پاس بشریت کے سامنے پیش کرنے کے لئے کوئی نیا نظریہ نہیں ہے، عوام الناس کی نظروں کے سامنے، دانشوروں اور روشن فکر طبقے کے سامنے رکھنے کے لئے کوئی آئيڈیا نہیں ہے۔ لیکن آپ کے پاس موجود ہے، آپ کے پاس اسلام ہے۔ جب ہمارے پاس فکر ہے، روڈ میپ اور منصوبہ ہے تو ہم اپنے اہداف کا تعین بھی کر سکتے ہیں اور اپنے راستے پر ثابت قدمی سے ڈٹ بھی سکتے ہیں۔ ایسا ہو جائے تو ان کا ہتھیار کام آئےگا نہ علم، پیسہ نہ دولت۔ ایسا نہیں ہے کہ ان چیزوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اثر تو ہوتا ہے لہذا ہمیں اس کا مقابلہ کرنے کا طریقہ بھی سوچنا پڑے گا، اگر وقت رہا تو اس بارے میں بھی گفتگو کروں گا۔ تاہم سب سے پہلے ہمیں روڈ میپ اور آئیڈیالوجی پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ اہداف کا تعین ہونا چاہئے۔ ان انقلابوں کے سلسلے میں ایک اہم ہدف یہ ہے کہ اسلام محوری حیثیت سے خارج نہ ہونے پائے۔ اسلام ہی محور بنا رہے۔ اسلامی فکر اور اسلامی شریعت کو محور میں رکھا جائے۔ یہ تاثر دینے اور غلط فہمی پیدا کرنے کی بڑی کوششیں ہوئیں کہ اسلامی شریعت پیشرفت، تبدیلی اور تمدن جیسی چیزوں کے لئے سازگار نہیں ہے۔ یہ خیال دشمن کا ہے۔ حقیقت یہ نہیں ہے، اسلام پوری طرح ان چیزوں سے سازگار ہے۔ البتہ دنیائے اسلام میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جنہوں نے اپنے رجعت پسندانہ طرز عمل، فکری جمود اور اجتہاد و استنباط کی کمزوری کے نتیجے میں دشمن کے اس خیال کو درست ثابت کیا ہے۔ یہ کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن دشمن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم اپنے گرد و پیش، بعض اسلامی ممالک میں اس طرح کے افراد دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نام تو مسلمانوں جیسے ہیں لیکن ان کے اندر اسلامی معارف و تعلیمات کے تعلق سے ذرہ برابر جدت نظری اور جدت فکری دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا کو اسلام کی تا ابد ضرورت ہے، اسلام ہر دور اور ہر صدی میں درکار ہے، انسانی ارتقاء کے لئے اس کی ضرورت ہر دور اور ہر زمانے کو ہے۔ وہ فکر جو اسلام کے اندر سے جملہ ضرورتوں کی تکمیل کی راہیں اخذ کر سکے، اس فکر کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض افراد ہیں جو اس فکر سے محروم ہیں، وہ بس کفر کے فتوے دینا جانتے ہیں، دوسروں کو فاسق و فاجر ٹھہرا دینا انہیں خوب آتا ہے اور خود کو بڑے طمطراق سے مسلمان قرار دیتے ہیں۔ بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ چیزوں کے معاملے میں یہ نام نہاد مسلمان، دشمنوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں! مختصر یہ کہ ہمیں شریعت اسلامیہ اور اسلامی افکار کو اپنی سرگرمیوں اور مجاہدتوں کا محور قرار دینا چاہئے۔ یہ ایک بڑا ہدف ہے۔
ایک اور ہدف ہے نظام سازی۔ ان ملکوں میں جہاں انقلاب آئے ہیں اگر نظام سازی نہ کی گئی تو انقلاب خطرے میں رہے گا۔ شمالی افریقا کے انہی ملکوں میں ساٹھ ستر سال قبل بیسویں صدی کے وسط کا ایک تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ اسی تیونس میں انقلاب آیا، عوامی تحریک چلی، کچھ نئے چہرے اقتدار میں آئے۔ اسی مصر میں انقلاب آیا، کودتا ہوا، تحریک چلی اور کچھ نئے افراد نے زمام مملکت اپنے ہاتھ میں لی۔ کچھ اور جگہوں پر بھی یہی عمل دہرایا گيا لیکن کہیں بھی نظام سازی نہیں ہو سکی۔ نظام سازی نہ کئے جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلاب تو مٹے ہی، وہ افراد جو انقلاب کے نام پر اقتدار میں پہنچے تھے خود بھی منقلب ہوکر رہ گئے۔ ان کی پالیسیوں میں ایک سو اسی درجہ کی تبدیلی پیدا ہو گئی۔ وہ بھی بہک گئے۔ تیونس میں بھی یہی ہوا، مصر میں بھی یہی ہوا اور اس زمانے کے سوڈان میں بھی یہی عمل دہرایا گيا۔ میرے خیال میں یہ سنہ انیس سو چونسٹھ پینسٹھ یا چھیاسٹھ کی بات ہے، شہر مشہد میں میں چند احباب کے ساتھ صوت العرب ریڈیو کی نشریات سن رہا تھا۔ مصر کے صوت العرب ریڈیو کے پروگرام قاہرہ سے نشر ہوتے تھے۔ ریڈیو سے جمال عبد الناصر، معمر قذافی اور جعفر نمیری کی تقریریں نشر ہو رہی تھیں جو اس وقت ایک جگہ پر جمع تھے۔ اس زمانے میں ملک کی آمر حکومت کے استبداد کی چکی میں ہم پس رہے تھے۔ ہمیں ان شعلہ بیانیوں سے بڑا لطف آتا تھا اور ہم جوش و جذبے سے بھر جاتے تھے۔ عبد الناصر دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے جانشینوں نے جو کارنامے کئے وہ آپ کے سامنے ہیں۔ قذافی کا انجام کیا ہوا وہ بھی آپ نے دیکھا، نمیری کا انجام بھی جو ہوا اس سے سب واقف ہیں۔ یہ انقلاب الٹ گئے۔ کیونکہ ان میں نہ تو فکر تھی اور نہ ہی وہ نظام سازی کر سکے۔ لہذا اب جن ملکوں میں انقلاب آئے ہیں وہاں نظام سازی ہونا چاہئے، مستحکم بنیاد قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ عوامی پشتپناہی اور حمایت کو قائم رکھنے کا ہے۔ عوام سے ہرگز دوری نہیں ہونا چاہئے۔ عوام کی کچھ توقعات ہیں، ضروریات ہیں۔ اصلی طاقت بھی عوام کے ہی ہاتھ میں ہے۔ جہاں عوام جمع ہو جاتے ہیں، جب عوام متحد ہو جاتے ہیں، جب ملک کے رہنماؤں اور قائدین کے پیچھے متحد اور ہمفکر عوام پشت پناہی کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں وہاں امریکا تو کیا امریکا سے بڑی طاقت بھی بے دست و پا ہوکر رہ جاتی ہے۔ عوام کو ساتھ رکھنا چاہئے، انہیں اپنے قریب رکھنا چاہئے، یہ کام آپ حضرات کر سکتے ہیں۔ یہ ذمہ داری دانشور، مصنفین، شعرا اور علمائے دین ہی پوری کر سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر علمائے دین واقع ہوئے ہیں۔ علمائے دین کے دوش پر سنگین فرائض ہیں، انہیں عوام الناس کو آگاہ کرنا ہے، حالات سے باخبر رکھنا ہے، انہیں سمجھانا ہے کہ ہم کس منزل پر کھڑے ہیں، بتائیں کہ ہمارے سامنے کیا رکاوٹیں ہیں، ہمارے دشمن کون لوگ ہیں؟ عوام میں آگاہی اور بصیرت پیدا کریں۔ اگر یہ کام انجام پا گیا تو دشمن کوئی زک نہیں پہنچا سکتا۔
اسلامی ملکوں کو چاہئے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں آگے بڑھیں۔ میں نے عرض کیا کہ مغرب اور امریکا علم کی مدد سے دنیا کے ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کا ایک حربہ سائنس و ٹکنالوجی کا حربہ تھا۔ انہوں نے دولت بھی اپنے علم کی مدد سے حاصل کی۔ البتہ کچھ دولت تو انہوں نے فریب، خباثت اور سیاسی چالوں سے جمع کی لیکن سائنس و ٹکنالوجی کا رول بہت موثر تھا۔ علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک روایت ہے؛«العلم سلطان من وجده صال و من لم يجده صيل عليه»(3) علم حاصل کرنا ضروری ہے، علم مل گیا تو آپ کے بازوؤں کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ اگر آپ کے پاس علم نہیں ہے تو مضبوط پنجہ رکھنے والے لوگ آپ کا ہاتھ مروڑ دیں گے۔ اپنے نوجوانوں کو علم و دانش کی رغبت دلائیے۔ آپ کو اس میں کامیابی ملے گی۔ ہم نے اپنے ملک میں اس کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ انقلاب سے قبل علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہم آخری صف میں تھے۔ ہم پر کسی کی نگاہ بھی نہیں پڑتی تھی لیکن انقلاب کی برکت سے، اسلام کی برکت سے اور شریعت اسلامی کی بدولت آج یہ عالم ہے کہ دنیا میں جو لوگ تخمینے اور اعداد و شمار کا کام کرتے ہیں انہوں نے تسلیم کیا اور ان کی بات عالمی سطح پر پیش کی گئی کہ ایران سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے دنیا میں سولہویں مقام پر ہے۔ یہ رپورٹ چند ماہ قبل کی ہے۔ جن اداروں نے یہ اعداد و شمار جاری کئے ان کا یہ تخمینہ بھی تھا کہ آئندہ چند برسوں میں، آنے والے دس بارہ برسوں میں ایران عالمی رینکنگ میں ایک ہندسے والی پوزیشن حاصل کر لیگا۔ ان کے اندازے کے مطابق ایران چوتھے نمبر پر ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران کی علمی پیشرفت کی رفتار بہت تیز ہے۔ البتہ اس وقت ہم کافی پیچھے ہیں۔ ہماری رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے کئی گنا زیادہ ہے، پھر بھی ہم ابھی پیچھے ہیں۔ اگر ہم اسی سرعت سے آگے بڑھتے رہے تو آگے نکل جائیں گے۔ عالم اسلام میں یہ حرکت جاری رہنا چاہئے۔ اسلامی ممالک کے پاس توانائی و استعداد کی کمی نہیں ہے۔ ان کے پاس با صلاحیت نوجوان ہیں، بہترین دماغ ہیں۔ تاریخ کے ایک دور میں دنیا کا علم ہمارے اختیار میں تھا تو آج اس عہد کو دہرایا کیوں نہیں جا سکتا؟ ہم یہ توقع کیوں نہیں رکھ سکتے کہ آئندہ تیس سال میں دنیائے اسلام ایک بار پھر ساری دنیا کا علمی مرکز بن جائے اور علمی امور میں اسلامی ممالک سے رجوع کیا جائے؟ یہ مستقبل ہماری دسترسی میں ہے۔ بس ہمت سے کام لینے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب اسلام کی برکتوں سے حاصل ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظام نے ثابت کر دیا ہے کہ برق رفتاری سے ترقی کرنے پر قادر ہے۔ ایک اور کلیدی موضوع اتحاد کا ہے۔ میرے بھائیو اور بہنو! میں آپ کی خدمت میں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے دشمنوں کے ہاتھ میں جو سب سے بڑا حربہ ہے اور جسے وہ ہمارے خلاف جی بھر کے استعمال کر رہے ہیں وہ ہمارے اختلافات ہیں، شیعہ سنی اختلافات، قومیتی اور نسلی اختلافات، بیجا غرور اور تعلی۔ وہ شیعہ سنی اختلافات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ اختلافات کی آگ شعلہ ور کریں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی ممالک میں، انہی ملکوں میں جہاں عوامی انقلاب آئے ہیں اختلاف پیدا کرنے کی پراسرار کوششیں ہو رہی ہیں۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ مغرب اور امریکا عالم اسلام کے دشمن ہیں۔ اس نقطہ نگاہ سے ان کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا چاہئے۔ وہ اشتعال انگیزی کرتے ہیں، ان کی خفیہ ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں، جہاں بھی ان کے قدم پڑے ہیں انہوں نے تباہی مچائی ہے۔ فلسطین کے مسئلے میں جہاں تک ہو سکا انہوں نے تخریب کاری کی ہے، البتہ انہیں شسکت سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے برخلاف ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، عالم اسلام پیشرفت کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ فلسطین کا حالیہ واقعہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ غزہ اور صیہونی حکومت کے درمیان جو علاقے کی سب سے طاقتور فوج کی مالک ہونے کا دعوی کرتی ہے، آٹھ روزہ جنگ ہوئی۔ جب جنگ بندی کی بات آئی تو جس فریق نے شرطیں عائد کیں وہ فلسطینی فریق تھا۔ کیا یہ قابل یقین بات ہے؟ اگر دس سال پہلے آپ سے یہ بات کہی جاتی تو کیا آپ اس پر یقین کر سکتے تھے کہ ایک دن فلسطینی وہ بھی سارے فلسطینی نہیں بلکہ فلسطین کے ایک گوشے یعنی غزہ کے فلسطینی صیہونی حکومت کی جارحیت کا جواب دیں گے اور جب جنگ بندی کی بات آئے گی تو فلسطینیوں کی جانب سے شرطیں رکھی جائیں گی؟ صد آفرین ہے فلسطینیوں کو، قابل تعریف ہیں حماس، جہاد اور وہ مجاہد تنظیمیں جنہوں نے غزہ میں جنگ کی اور شجاعت کے جوہر دکھائے! اسے کہتے ہیں شجاعت۔ میں اپنی طرف سے تمام فلسطینی مجاہدین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، ان کے ایثار و قربانی کے لئے، ان کی مجاہدانہ کوششوں کے لئے، ان کے صبر و ضبط کے لئے۔ انہوں نے آپنی آنکھوں سے دیکھا کہ؛ «انّ مع العسر يسرى»
اگر ہم صبر و ضبط سے کام لیں گے تو اللہ ہمارے لئے راستوں کو کھول دے گا۔ انہوں نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا، اللہ نے ان کے لئے راستے کھول دئے۔ یہ ایک سبق ہے، خود ان کے لئے بھی سبق ہے اور دوسروں کے لئے بھی سبق ہے۔ تو اتحاد بین المسلمین کو معمولی نہ سمجھئے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
ہمارے بحرینی بھائی نے بحرین کے سلسلے میں عالم اسلام کی خاموشی اور بے اعتنائی کی یہاں جو بات کہی وہ بالکل درست ہے۔ اس مسئلے میں بعض افراد کے سکوت کی وجہ بد قسمتی سے یہی فرقہ واریت کا قضیہ ہے۔ اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ اگر کوئی قوم کسی ڈکٹیٹر کے خلاف قیام کرتی ہے تو اس قوم کی حمایت کی جانی چاہئے مگر یہ کہ وہ قوم شیعہ ہو جیسے بحرینی عوام۔ اگر شیعہ ہے تو دفاع نہ کیا جائے! بعض لوگوں کے اندر یہ کج فکری پائی جاتی ہے۔ اسے ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
دشمن کی شناخت ضروری ہے، دشمن کے حربوں کی پہچان ضروری ہے، دشمن کے حیلوں اور بہانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے حملہ شروع کرتا ہے؟ ہم شام کے مسئلے کو اسی معیار پر تولتے ہیں۔ ہمیں تو یہ تک گوارا نہیں کہ کسی مسلمان کے خون کا ایک قطرہ بھی بہے، اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ شام کو جو لوگ خانہ جنگی کی طرف گھسیٹ رہے ہیں وہ قصوروار ہیں، جو لوگ شام کو تباہی اور برادر کشی کی آگ میں جھونک رہے ہیں وہ خاطی ہیں۔ قوموں کے مطالبات تشدد کے بغیر رائج طریقوں سے پورے ہونے چاہئے۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہماری ہدایت فرمائے۔ آپ کی محنت و مجاہدت میں برکت دے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ عالم اسلام کی اس عظیم بیداری کو امت اسلامیہ کے منور و تابناک مستقبل سے جوڑ دے۔
1) حج: 40
2) مدثر: 50 و 51
3) شرح نهجالبلاغه ابنابىالحديد، ج 20، ص 319