1392/07/17 ہجری شمسی مطابق 9/10/2013 عیسوی بدھ کی صبح یونیورسٹیوں کے ہزاروں ممتاز طلبہ سے ملاقات میں مختلف موضوعات کے تعلق سے طلبہ کے نظریات اور تحفظات سننے کے بعد قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں تیز رفتار اور روز افزوں علمی ترقی کے تسلسل کی ضرورتوں اور ظرافتوں کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس ملاقات کو بے حد دلنشیں، شیریں، الہام بخش اور پالیسیوں اور منصوبوں کے سلسلے میں ممد و معاون قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ممتاز نوجوان وطن عزیز کے مستقبل کے معمار ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے شروعاتی دور میں مغرب اور امریکا کے بعض مفکرین اور اہم شخصیات کے مقالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان مقالوں میں مغرب کے سیاسی حلقوں کو متنبہ کیا جاتا تھا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کا مطلب صرف حکمراں گروہ کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب کی فتح کا مطلب مغربی ایشیا میں ایک نئی طاقت کا ظہور ہے جو ممکن ہے اس حساس اور ثروت مند علاقے کو مغرب کے تسلط سے آزاد یا اس علاقے پر مغربی قبضے کے کمزور کر دے اور مغربی دنیا کو سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی چیلنج کرے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تین عشرے کا وقت گزر جانے کے بعد آج مغرب اور امریکیوں کا یہ 'اندیشہ' حقیقت کا روپ اختیار کر چکا ہے اور ایک عظیم ملی و علاقائی طاقت ابھرکر سامنے آئی ہے جسے گوناگوں سیاسی، اقتصادی، تشہیراتی اور سیکورٹی کے شعبے سے متعلق دباؤ اور حملوں سے شکست نہیں دی جا سکی بلکہ یہ عظیم طاقت مسلمانوں کے تشخص کی بحالی کا مقدمہ قرار پائی اور اس نے علاقائي قوموں پر اپنے اثرات مرتب کئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مشرق وسطی اور شمالی افریقا کے علاقوں میں گزشتہ دو سال کے دوران رونما ہونے والے انتہائی اہم واقعات اور ان تغیرات پر امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے رد عمل کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ قوموں کا بیدار ہونا اور خالی ہاتھ ہی، امریکا اور مغرب کے توہین آمیز برتاؤ کے مد مقابل ڈٹ جانا بہت عظیم تبدیلی ہے جو مغرب والوں کے تصور کے برخلاف، ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ واقعات در حقیقت ایک اہم تاریخی موڑ ہے جس سے یہ علاقہ گزر رہا ہے اور یہ تبدیلی ابھی اپنی آخری منزل میں نہیں پہنچی ہے اور مغرب کو اس سلسلے میں گہری تشویش لاحق ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے:۔
بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم

ہمیشہ کی طرح آج بھی آپ عزیز نوجوانوں کے ساتھ ہونے والی یہ نشست انتہائی دلنشیں، شیریں، حوصلہ بخش اور پالیسی سازی اور منصوبہ سازی کے تعلق سے عملی اقدامات کا اہم مقدمہ ثابت ہوئی۔ دوستوں نے اپنی تقاریر میں جو نکات بیان کئے، ان میں بیشتر انہائی پرمغز اور قابل توجہ نکات ہیں۔ میں نے خود کچھ نوٹ نہیں کیا کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ دوستوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ سب ان سے حاصل کر لوں۔ ہمارے دفتر کے متعلقہ افراد جو ہماری یہ گفتگو سن رہے ہیں، ان سے میں یہیں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ تمام تجاویز کو جمع کر لیں، پھر ان کی درجہ بندی کریں، کیونکہ بعض تجاویز ایسی ہیں جن پر خود ہمارے دفتر کو توجہ دینا ہے، بعض تجاویز وہ ہیں جن کا تعلق دیگر اداروں سے ہے، ان تجاویز کو یا تو ان متعلقہ اداروں کو ارسال کر دیا جائے گا یا انہیں متنبہ کیا جائے گا، یا اس تجویز کی روشنی میں ہم ان اداروں کے سامنے اپنی سفارشات پیش کریں گے۔ دوستوں نے بعض نکات ایسے بیان کئے جن کی تشریح ضروری ہے، یعنی میرے لئے وہ نکتے پوری طرح واضح نہیں تھے۔ جیسے ایک نوجوان نے کہا کہ علمی روڈ میپ تیار کیا جائے (2) میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اس جامع علمی منصوبے سے الگ ہٹ کر کوئی روڈ میپ تیار کرنے کی بات کہی گئي ہے، جسے دستاویزی صورت میں تیار کیا جا چکا ہے اور جس کے ابلاغ کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے، یا ان کی مراد یہی جامع علمی منصوبہ ہے؟ انہیں اس کی تشریح کرنا چاہئے۔ جن باتوں کی تشریح اور وضاحت ضروری محسوس ہوئی ان کے سلسلے میں ہمارے دفتر کی جانب سے وہ نکتہ بیان کرنے والے نوجوانوں سے رابطہ کیا جائے گا۔
آپ ممتاز صلاحیتوں کے مالک حضرات جو یہاں موجود ہیں اور اسی طرح پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، آپ خواہ کسی بھی شعبے میں مطالعہ اور تحقیق میں مصروف ہوں، آپ سب در حقیقت ملک کے مستقبل کے معمار ہیں۔ ملک کے مستقبل کا خاکہ آپ لوگ کے ہاتھوں کھینچا جا رہا ہے۔ اگر آپ نے عزم محکم کے ساتھ، بلند ہمتی کے ساتھ اور سعی پیہم کے ساتھ یہ سلسلہ اسی طرح جاری رکھا تو یقینا نتیجہ حاصل ہوگا اور مستقبل کے ایران کی آپ تعمیر کریں گے۔ میں آپ کی خدمت میں بس یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ تیز رفتاری کے ساتھ علمی ترقی کی پالیسی اسلامی نطام کی ایک بنیادی پالیسی ہے۔ ملک کی دانشور برادری اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دشواریوں سے عبور کرنا، لغزشوں اور خطرات کی جگہوں سے گزرنا اگر دو تین اہم مقدمات کا متقاضی ہوگا تو یقینی طور پر ان میں ایک علمی پیشرفت ہوگی۔ یہ ایک بنیادی پالیسی ہے۔ دس بارہ سال سے اس پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔ مختلف حکومتوں نے، مختلف حکام نے، متعلقہ افراد نے بلکہ خود نوجوانوں اور ممتاز صلاحیتیں رکھنے والے افراد نے بھی اس سمت میں بڑا کام کیا ہے۔ آج انسان جب ان محنتوں کا نتیجہ دیکھتا ہے تو امیدیں بڑھ جاتی ہیں۔ میں نے بارہا یہ بات نوجوانوں سے اور حکام سے کہی ہے اور آپ کی خدمت میں بھی عرض کر رہا ہوں کہ یقینی طور پر ہمارے ملک کی نوجوان افرادی قوت، ہمارے ملک کے نوجوان، ہمارے ملک کے ممتاز افراد، ہمہ جہتی ترقی کی چوٹی تک اپنے ملک اور اپنی قوم کو پہنچانے کی توانائی رکھتے ہیں۔ آپ کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے۔ یہ بات ہم پہلے تو دوسروں کے تجربات کی بنیاد پر اور دوسروں کے بارے میں کہتے تھے لیکن آج رفتہ رفتہ خود ہمیں تجربات حاصل ہو چکے ہیں۔ میں نے یہ بات بارہا کہی ہے کہ آج ملک کے اندر جس سائنسی شعبے کی بھی بنیادی تنصیبات اور سہولیات موجود ہوں ایرانی نوجوان، ایرانی فنکارانہ ہاتھ، ایرانی صلاحیت اس شعبے میں ترقی کرنے پر قادر ہے۔ کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ ایرانی استعداد، ایرانی ماہرین اور ایرانی جوان اسے انجام دینے، بنانے اور پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، سوائے اس کے کہ اس شعبے کی بنیادی تنصیبات ہی ہمارے ملک میں موجود نہ ہوں۔ بنابریں بنیادی تنصیبات اور انفراسٹرکچر کو وجود میں لانا ضروری ہے۔ ہمارے ملک کے اندر صلاحیتوں اور استعداد کا یہ عالم ہے۔ سائنسی شعبے میں ترقی کے بغیر حقیقی ترقی ممکن بھی نہیں ہے، ہم نے جو کہا کہ یہ بنیادی پالیسی ہے تو اس کی یہی وجہ ہے۔ علم و سائنس کے شعبے میں ترقی کے بغیر حقیقی ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔
بعض ممالک ممکن ہے کہ اپنی زیر زمین ذخائر سے ہونے والی پیداوار کو، اپنے تیل کو دنیا کے صاحبان ثروت و ٹکنالوجی کو دیکر ان کی مصنوعات خریدیں اور ظاہری طور پر ترقی بھی کر لیں لیکن یہ حقیقت میں ترقی نہیں ہے، ترقی تو وہ ہے جس کا چشمہ ملک کے اندر ابلے، جو قوم کی داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر استوار ہو۔ ملکوں، حکومتوں اور قوموں کا اعتبار اور ساکھ بھی اسی داخلی استعداد اور صلاحیت پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر اندر سے کوئی نمو اور پیشرفت ہوتی ہے تو اس سے ملک اور قوم کا اعتبار بڑھتا ہے، ساکھ بڑھتی ہے، اس کی قدر و قیمت اور عظمت و جلالت بڑھتی ہے۔ اگر اس کا سرچشمہ داخلی نہ ہو بلکہ باہر سے دوسرے افراد نے آکر دیا ہو تو اس سے اعتبار اور ساکھ ملنے والی نہیں ہے۔ طاغوتی شاہی حکومت کے دور میں برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں نے آکر ہمارے ملک میں ایٹمی ٹکنالوجی سے متعلق کچھ اقدامات انجام دئے تھے، معاہدہ ہوا تھا۔ آپ فرض کیجئے کہ یہی بوشہر ایٹمی بجلی گھر جسے ہم نے برسوں کی سخت اور طاقت فرسا محنت و مشقت سے بنایا ہے، اگر اس کے بجائے جرمنوں نے بنایا ہوتا جو اس کا پیسہ لیکر ہڑپ کر چکے ہیں اور انقلاب کے بعد انہوں نے اس بارے میں سانس تک نہیں لی۔ فرض کیجئے کہ انہوں نے یا کسی اور مغربی ملک نے آکر ہمارے یہاں ایک ایٹمی بجلی گھر بنا دیا اور خود ہی اسے چلایا اور بجلی پیدا کرکے ہمیں دے دی کہ ہم بجلی استعمال کریں تو اس میں قوم کا اعتبار نہیں بڑھے گا، اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوگی۔ یہ توانائی وقتی اور عارضی ہوگی جو آپ کو مل گئی ہے۔ ملک کا اعتبار اور وقار تب بڑھتا ہے جب وہ خود اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے۔ جب آپ کے اندر کی اس صلاحیت اور استعداد پر نکھار آ گیا تو پھر آپ برابری کی بنیاد پر دوسروں کی استعداد سے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور دوسرے آپ کی صلاحیتوں سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے بالکل بجا فرمایا (3) کہ کوئی بھی ملک سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہر سطح اور ہر شعبے کی ٹکنالوجی خود ڈیولپ کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا، اسے دوسروں سے مدد لینی ہوتی ہے۔ لیکن دوسروں سے تعاون حاصل کرنا ان کے سامنے دست نیاز دراز کرنے کے معنی میں نہیں ہونا چاہئے بلکہ برابری کی بنیاد پر انجام پانے والا دو طرفہ تعاون ہونا چاہئے۔ آپ سائنس کے شعبے میں مدد کریں، کوئی ٹکنالوجی دیں اور کوئي ٹکنالوجی دوسروں سے حاصل کریں، ایسے میں دنیا میں آپ کا احترام اور وقار قائم رہے گا، یہ ضروری بھی ہے۔
میں آپ نوجوانوں کی خدمت میں جو فرزندان انقلاب ہیں، جو فرزندان اسلامی نطام ہیں، یہ عرض کرنا جاہتا ہوں کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل جو دشمن محاذ ہے اور مخاصمانہ اقدامات کر رہا ہے اس کی ساری ریشہ دوانیاں ایران کی بڑھتی طاقت کو نشانہ بنا کر انجام دی جا رہی ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ سیاسی امور ہوں، اقتصادی مسائل ہوں، دیگر عالمی تغیرات ہوں جن کا تعلق آپ کے وطن عزیز سے ہو سکتا ہے، ان سب کے بارے میں آپ دور رس اور دراز مدنی نقطہ نگاہ اختیار کیجئے، یہ چیز آپ کبھی فراموش نہ کریں۔ آج دنیا میں ایک طاقتور محاذ موجود ہے جو ایران کو مستحکم اور طاقتور ملک میں تبدیل ہوتے نہیں دیکھ پا رہا ہے، اس قوم کے اثر و نفوذ کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے۔ یہ چیز اسلامی انقلاب کے ابتدائی برسوں سے جاری ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ بتاتا ہوں۔ سنہ انیس سو اناسی میں ایران میں انقلاب آیا، جس پر ساری دنیا میں ایک زلزلہ سا آ گیا۔ مغرب کی ممتاز سیاسی شخصیات جیسے کیسینجر، ہینٹنگٹن، جوزف نائے وغیرہ نے جو امریکا اور یورپ کے سینیر سیاسی مفکرین میں شمار کئے جاتے ہیں، اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے ابتدائی ایام میں کچھ مقالے لکھے۔ ان مقالوں اور تحریروں میں مغرب کے سیاسی نظام کو اور مغربی حکومتوں کو انتباہ دیا جاتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ایران میں جو انقلاب آیا ہے یہ محض اقتدار کے ایوانوں میں آنے والی تبدیلی نہیں ہے، یہ صرف کابینہ کی تبدیلی نہیں ہے، یہ انقلاب ایک نئی طاقت کے طلوع سے عبارت ہے اس علاقے میں، جسے وہ مشرق وسطی کا نام دیتے ہیں اور مجھے یہ نام قطعی پسند نہیں ہے۔ ہمارے اعتبار سے یہ مغربی ایشیا کا علاقہ ہے۔ (ان مفکرین کے بقول اس علاقے میں) ایک نئی طاقت منصہ ظھور پر نمودار ہوئی ہے جو سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ممکن ہے کہ مغرب کے ہم پلہ نہ ہو لیکن سیاسی اثر و نفوذ اور اپنے اطراف کے علاقوں پر اثرانداز ہونے کے اعتبار سے یا تو مغربی ملکوں کے ہم پلہ ہے اور یا پھر ان سے بھی بالاتر مقام کی حامل ہے۔ یہ طاقت مغرب کے لئے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔ یہ انتباہات ان مفکرین نے اس زمانے میں د‏‏‏‏‏ئے تھے، ممکنہ خطرے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس طرح کی طاقت کا ظہور و طلوع اس انتہائی حساس، دولتمند، خاص اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل خطے کو، تین بر اعظموں کے سنگم کا درجہ رکھنے والے اس علاقے کو، تیل، سرمائے اور انسانی ضرورت کی انتہائی اہم معدنیات کے اس مرکز کو جس پر مغرب اپنا تسلط ہمیشہ قائم رکھنا چاہتا ہے، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی غلبہ قائم رکھنا چاہتا ہے، مغرب کے چنگل سے خارج کر دےگا۔ یا کم از کم مغربی تسلط کو متزلزل ضرور کر دےگا۔ اس کا اندازہ انہوں نے اسی زمانے میں لگا لیا تھا، اور بالکل درست اندازہ لگایا تھا۔ آج تین عشرے کا وقت گزر جانے کے بعد ان کا ڈراونا خواب رفتہ رفتہ حقیقت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یعنی ایک بڑی علاقائی طاقت نمودار ہو چکی ہے جسے گوناگوں اقتصادی، سیاسی، نفسیاتی، تشہیراتی اور فوجی دباؤ بھی زیر کرنے میں بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طاقت علاقے کی اقوام پر اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ عمومی اسلامی ثقافت کی ترویج اور تقویت میں کامیاب ہوئي ہے، علاقے کی اقوام کو ان کی اصلی شناخت سے آراستہ کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، وہ اپنے تشخص کا احساس کرنے لگی ہیں۔
ہمارے علاقے میں دو سال سے جو واقعات ہو رہے ہیں ، بڑے فیصلہ کن تغیرات ہیں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان تغیرات پر مغربی ملکوں کا کیا رد عمل ہے؟ مصر کے تغیرات، شمالی افریقا کے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات، یہ بہت اہم واقعات ہیں۔ قوموں کا بیدار ہو جانا، اس توہین آمیز صورت حال کے خلاف خالی ہاتھ ڈٹ جانا جو مغرب اور خاص طور پر امریکا نے اپنے مہروں کی مدد سے ان پر مسلط کر رکھی تھی، یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔ البتہ یہ تبدیلی ابھی ختم نہیں ہوئي ہے۔ مغربی ممالک اس خام خیالی میں ہیں کہ انہوں نے اسے کچل دیا ہے۔ لیکن ہماری نظر میں اسے کچلا نہیں جا سکا ہے۔ یہ ایک اہم تاریخی موڑ ہے جس سے یہ علاقہ گزر رہا ہے۔ ابھی اس کے مستقبل کا تعین نہیں ہوا ہے۔ خود مغربی حکومتیں بھی جانتی ہیں، ان کے تجزیوں میں یہی چیز ہے، وہ اب تک تشویش میں مبتلا ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ علاقے میں کیا ہو رہا ہے؟! یہ ملت ایران کے قیام کی برکت سے، اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کی برکت سے اور اس اسلامی انقلاب کی برکت سے ہوا ہے جو ایک باایمان، ثابت قدم، با صلاحیت اور ارتقائی منزلیں طے کرنے والی قومی طاقت کے ظہور کی خوش خبری لیکر آیا تھا۔
آپ سارے لوگ، ملک بھر سے تعلق رکھنے والے ممتاز صلاحیتوں کے مالک آپ تمام نوجوان جو سائنس و ٹکنالوجی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، آپ یہ عظیم تاریخی ذمہ داری نبھانے والے مجموعے کا اہم حصہ ہیں، آپ آج اس عظیم تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ آپ کا یہ عمل کند نہ ہو۔ بہت لازمی ہے کہ آپ کی پیش قدمی کے عمل میں کوئي وقفہ نہ ہو۔ تمام سماجی، سیاسی اور دفاعی تحریکوں میں یہ ضروری ہوتا ہے۔ جب تحریک کا آغاز ہو جاتا ہے، جب کوئي عظیم اور طویل المیعاد عمل شروع ہو جاتا ہے تو پھر اسے بیچ میں رکنے نہیں دینا چاہئے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی ہم نے یہی چیز اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ جب کوئی مہم شروع ہوتی تھی تو اگر اس میں کہیں کوئي کندی یا وقفہ نہ آئے تو یقینا کامیاب ہو جاتی تھی۔ لیکن اگر کبھی بیچ راستے میں ارادوں میں اضمحلال پیدا ہو جائے، شک و تردد کی کیفیت پیدا ہو جائے، سستی اور تساہلی غالب آ جائے اور وہ لگن باقی نہ رہے تو پھر یقینی طور پر ناکامی کا سامنا ہوتا تھا۔ تو آپ علمی پیش قدمی کی اس رفتار میں ہرگز کوئي کمی نہ آنے دیجئے۔
البتہ میرا خطاب اس مسئلے سے تعلق رکھنے والے تمام فریقوں سے ہیں۔ آپ عزیز نوجوانوں سے بھی میرا خطاب ہے جو مصروف کار ہیں، علم حاصل کر رہے ہیں، تحقیقاتی کام انجام دے رہے ہیں، خود کو باطنی طور پر سنوار رہے ہیں اور وقفے وقفے سے آپ کے نمایاں اور دلچسپ کارنامے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں، آپ نے یہاں جو گتفگو کی، جو باتیں بیان کیں وہ بھی ایسے ہی کارناموں کے زمرے میں آتی ہیں۔ کارنامہ ہمیشہ جسمانی محنت سے انجام پانے والا فعل ہی نہیں ہوتا بلکہ کوئي نئی فکر پیش کرنا، کوئی نظریہ متعارف کرانا، بلند افکار تک پہنچنے کے لئے سعی و کوشش بھی بافضیلت کام ہیں۔ البتہ یہ صرف ذہنی کاوش تک محدود نہیں رہنا چاہئے، (بلکہ عملی شکل میں سامنے آنا چاہئے)۔ تو میرا خطاب آپ سب سے بھی ہے اور متعلقہ اداروں، وزارت تعلیم، وزارت صحت اور تعلیمی امور میں صدر جمہوریہ کے نائب سے بھی ہے۔ تعلیمی امور کے نائب صدر کا عہدہ بڑا اہم اور حساس ہے یہ عہدہ اور اس کے ماتحت کام کرنے والا ادارہ چند سال قبل حقیر کے اصرار پر اور مسلسل تاکید کے بعد وجود میں آیا۔ اسی طرح ممتاز صلاحیتیں رکھنے والے طلبہ کی معاونت کے لئے قائم کیا جانے والا فاؤنڈیشن۔ جو لوگ ان اداروں میں تھے انہوں نے واقعی بڑا کام کیا۔ محترمہ سلطان خواہ ( تعلیمی امور کی سابق نائب صدر) جناب واعظ زادہ ( فاؤنڈیشن کے سابق سربراہ) جناب ستاری صاحب ( تعلیمی امور کے موجودہ نائب صدر) یہ شہید کے بیٹے بھی ہیں (4)۔ انہیں یہ ادارہ اور اسی طرح یہ فاؤنڈیشن سونپا گيا ہے جو بہت اہم ذمہ داری ہے۔ ان دونوں اداروں کے عہدیداروں کے لئے میری سفارش یہ ہے کہ کاموں کو آگے بڑھائیں۔ یعنی صفر سے شروع کرنے کے بجائے جو کام ہوا ہے اسی کو آگے بڑھائیے اس میں جو خلا رہ گیا ہے جو نقص رہ گیا ہے اسے دور کیجئے۔ ماضی میں انجام پانے والے کاموں کے مثبت پہلوؤں کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔ میری نظر میں یہ دونوں مذکورہ وزارتیں اور دونوں ادارے سب سے اہم کام یہ کر سکتے ہیں کہ اپنی ساری توجہ اور محنت علمی میدان کی نئی ایجادات پر مرکوز کریں۔ نئي ایجادات کی جو مہم چل رہی ہے، رکنے نہ پائے۔ ایک قدم اٹھایا جائے تو اس کے بعد فورا دوسرا قدم بھی اٹھانے کا بندوبست کر لیا جائے۔ نئی ایجادات کے عمل کو اسی طرح قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس پر مسلسل نظر رکھیں۔ ان اداروں میں عہدیدار مصروف کار ہیں ہمیشہ علمی تحریک اور نئی ایجادات کی مہم پر نظر رکھیں، جائزہ لیں کہ رکاوٹیں کہاں پر ہیں، مشکلات کہاں پر ہیں۔ عدم ہم آہنگی کی مشکل کہاں پر ہے، انہیں دور کریں۔ سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب اپنی جگہ پر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے دائرے میں ان امور کا جائزہ لیتی ہے۔ علمی امور کے نائب صدر کا عہدہ مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنے کے لئے ہے۔ جبکہ جو علمی و تعلیمی ادارے ہیں یعنی دونوں وزارتیں، تحقیقاتی مراکز، تجربہ گاہیں اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں کام کرنے والے دیگر مراکز ان سب میں باہمی ہم آہنگی ضروری ہے۔ عدم ہم آہنگی ختم ہونا چاہئے۔
البتہ اس وقت سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہماری پیشرفت کی موجودہ شرح عالمی پیمانوں کے اعتبار سے بہت اچھی ہے۔ مجموعی طور پر بھی ہمارا نمو اچھا ہے، نمو کی رفتار بہت ہی اچھی ہے، یعنی ترقی کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہ معیار نہیں ہے، یہ رفتار اسی طرح قائم رہنا چاہئے، تیز رفتار علمی نمو کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے ہیں یا اپنی آخری منزل سے قریب ہو گئے ہیں۔ کیونکہ ہم بہت پیچھے تھے۔ دنیا ٹھہر کر ہمارا انتظار تو کرنے والی ہے نہیں، دنیا مسلسل آگے بڑھ رہی ہے، البتہ ہماری رفتار زیادہ ہے۔ ہمیں یہی رفتار قائم رکھنا ہوگی۔ اگر علمی نمو کی یہ رفتار اسی طرح قائم رہے تو قوی امید ہے کہ ہم بلند چوٹیوں پر پہنچ جائیں گے، فرنٹ لائن کا حصہ بن جائیں گے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ وطن عزیز کو دنیا کے علمی مرکز میں تبدیل کر دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ضرور ہونا چاہئے اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ البتہ میرا یہ خیال نہیں ہے کہ پانچ سال یا دس پندرہ سال میں یہ ہدف ہورا ہو جائے گا۔ میں نے کئی سال قبل کہا کہ آپ چالیس سال اور پچاس سال بعد اس مستقبل کا تصور کر سکتے ہیں کہ جب دنیا میں اگر کوئی بھی نئي سائنسی ایجادات کو سمجھنا چاہے تو فارسی زبان سیکھنے پر مجبور ہو۔ آپ اسے اپنا ہدف قرار دیجئے۔ خود کو اس مقام پر پہنچائیے کہ دوسرے آپ کی سائنس و ٹکنالوجی کے متمنی ہوں، آپ کی زبان سیکھنے پر مجبور ہوں۔ یہ ممکن ہے۔
ڈاکٹر چمران شہید، ایک ممتاز علمی ہستی تھے۔ انہیں جنگی محاذ کے ایثار، شہادت، اسلحہ وغیرہ سے شہرت ملی لیکن حقیقت میں وہ سائنسی شعبے کی اہم شخصیت بھی تھے۔ امریکا کی ایک معروف یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے لیکن بعد میں وہا‎ں سے چلے آئے، پہلے لبنان میں اور پھر اپنے ملک میں انہوں نے جہاد میں حصہ لیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ امریکا کی یونیورسٹیوں میں اور خود اس یونیورسٹی میں جس میں وہ زیر تعلیم تھے، ممتاز طلبہ بس گنے چنے ہوتے تھے لیکن ان ممتاز طلبہ میں ایرانی طلبہ کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی تھی۔ ایرانیوں کی صلاحیت دنیا کی اوسط صلاحیت سے زیادہ ہے۔ یہ بات ہم نے دوسرے افراد سے بھی بارہا سنی ہے اور اب تجربے سے بھی عملی طور پر یہ حقیقت ثابت ہو گئی ہے۔
ایک نکتہ جس پر میں شروع سے ہی تاکید کرتا آیا ہوں اور اب تک پوری طرح اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے علم و صنعت، یونیورسٹی و انڈسٹری اور تحقیقاتی مراکز اور صنعتی شعبے کے باہمی رابطے کا نکتہ ہے۔ البتہ چند سال سے میں دیکھ رہا ہوں کہ طلبہ اور اساتذہ کی زبانوں سے بھی یہ بات سننے میں آ رہی ہے۔ یہ بڑا ہی اہم نکتہ ہے۔ ہمارے پاس ایک علمی حلقہ ہے اور ایک صنعتی میدان ہے۔ صعنتی شعبے کو یونیورسٹیوں اور سائنسی مراکز کی سائنٹیفک پیشرفت اور ٹکنالوجی کی ضرورت ہے۔ ہمارے علمی و تحقیقاتی مراکز کو بھی مسلسل جوش مارنے والے چشمے کی مانند کام کرنے کے لئے بازار اور صارف کی ضرورت ہے لیکن ان دونوں کے درمیان مکمل طریقے سے رابطہ اور ہم آہنگی نہیں ہے۔ اگر ہم یونیورسٹی اور انڈسٹری کے رابطے کو ، صنعت ارو تحقیقاتی مراکز کے رابطے کو اور صنعت و علم کے رشتے کو مکمل طور پر قائم اور مستحکم کرنے میں کامیاب ہو جائيں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہمارا صنعتی شعبہ بھی ترقی کرےگا، اپنے مسائل حل کرنے کے لئے یونیورسٹیوں سے رجوع کرے گا اور تحقیقاتی مراکز کی پیشرفت سے استفادہ کرےگا۔ اس سے ہماری یونیورسٹیوں میں بھی ایک نیا تحرک پیدا ہوگا۔ یعنی یونیورسٹیاں اس ڈیم کی مانند نہیں ہوں گی کہ جس سے آبیاری کا نیٹ ورک متصل نہ ہو۔ اس ڈیم کا کوئی فائندہ نہیں ہوتا جس سے سنچائي کا نیٹ ورک متصل نہ ہو۔ ڈیم کا نصف کام یہ ہے کہ ہم رکاوٹ تعمیر کریں جس کی مدد سے پانی جمع ہو جبکہ اس کا نصف حصہ یہ ہے کہ ہم آبیاری کے لئے نیٹ ورک تعمیر کریں تا کہ اس ڈیم کا پانی ان جگہوں اور زمینوں تک پہنچے جہاں پانی کی ضرورت ہے۔ یہ کرنا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ کمپنیاں اور کارخانے پہلے سے زیادہ علمی مراکز اور یونیورسٹیوں سے رجوع ہوں، اسی طرح علمی مراکز اور تجربہ گاہیں خود کو پہلے سے زیادہ آمادہ کریں۔ ایسا ہو کہ سالانہ سیکڑوں تحقیقاتی پروجیکٹ یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کو دئے جائیں اور یہ سب داخلی اور مقامی پروجیکٹ ہوں۔ اس وقت میری نظر میں ایک بہت بڑی خامی پائی جاتی ہے جس کا ذکر ہمارے طلبہ اور اساتذہ بھی کرتے ہیں کہ علمی و تحقیقاتی کام غیر ملکی مانگ پر انجام دیا جاتا ہے۔ یہ ایسا تحقیقات پروجیکٹ نہیں ہوتا جس کی ہمارے وطن عزیز کو ضرورت ہو۔ میں اس سے پوری طرح آپ کو روکنا نہیں چاہوں گا لیکن یہاں اپنے ملک میں بیٹھ کر آپ بیرون ملک کسی ادارے کے لئے تحقیقاتی کام انجام دیں کہ اس کی ضرورت پوری اور سستی قیمت پر اسے اس کی ضرورت کی ٹکنالوجی مل جائے تو یہ کوئي قابل تعریف بات نہیں ہے۔ آپ کے لئے بہتر ہے کہ غور کریں اور دیکھیں کہ ملک کے اندر کس چیز کی ضرورت ہے۔ آپ ڈاکٹریٹ یا اس سے بلند سطح پر جاکر کوئي نئي ریسرچ کرنا چاہتے ہیں تو دیکھئے کہ اس سے ملک کی کون سی ضرورت پوری ہوگی، ملک میں کس جگہ کا خلا پر ہوگا۔
ملک میں حقیقی معنی میں سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں رقابت کا ماحول پیدا ہو۔ آپ جو تھیسس لکھتے ہیں اس میں جس چیز پر خاص توجہ کی ضرورت ہے وہ ہے جدت عملی اور نئی ایجاد۔ نئی ایجاد اور نئی دریافت کو اہمیت دی جائے، اسے خاص امتیاز ملے۔ ممتازین کی قومی فاؤنڈیشن کو چاہئے کہ پوری سنجیدگی سے کام کرے، علمی نشونما کے لئے سازگار ماحول بنے، اگر ایسا ہو جائے تو بیرون ملک زندگی بسر کرنے والے ایرانی ماہرین اور سائنسداں بھی وطن لوٹنے میں دلچسپی لیں گے، نوجوان ایرانی طالب علم کی دلی خواہش یہ ہوگی کہ اپنے ملک کے اندر رہ کر اپنا پروجیکٹ پورا کرے، ایک انتہائی اہم اور اساسی نکتہ تقوی و پرہیزگاری سے متعلق ہے۔ ہمارے ممتاز نوجوانوں کا طبقہ، ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے، ہمارے نوجوان اور ان کے اساتذہ تقوی و پرہیزگاری اور پاکیزگی کے ذریعے اپنی توانائیوں میں خاطرخواہ اضافہ کر سکتے ہیں اور ان کی پیشرفت کا راستہ آسان ہو سکتا ہے۔ آپ کے پاس ایک بہت بڑی خصوصیت نوجوانی کی پاکیزگی ہے۔ یہ خصوصیت ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتی۔ نوجوانی کے ایام میں ایسی پاکیزگی انسان کے اندر ہوتی ہے تو رحمت الہی کے نزول کو آسان بنا دیتی ہے۔ اور جب اللہ تعلی انسان کے لئے راستہ کو آسان کرتا ہے:۔ فَسَنُيَسِّرُهُ لِليُسرى‌(۵) جب اللہ تعالی انسان کی مدد کرتا ہے اور کام کے لئے راستے کو ہموار کر دیتا ہے تو انسان بڑی آسانی سے اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ آپ کے اندر جو تقوی، پاکبازی، ایمان اور نورانیت ہے اور جو روحانیت و معنویت کا مقدمہ ہے، آپ اس کی قدر کیجئے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کیجئے کہ آپ کی نصرت فرمائے، آپ کے ملک کی مدد کرے، تا کہ اللہ کی توفیق سے ہم اپنے ملک و قوم کی مطلوبہ منزل پر پہنچ سکیں۔ میں ہمیشہ آپ کے لئے دعا گو رہوں گا جس طرح اب تک ہمیشہ آپ کے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔

 
والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

۱) یہ سیمینار 8 اکتوبر سے 10 اکتوبر 2013 کے بیچ منعقد ہوا۔
۲) خواجہ نصیر یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جناب محمد حسین نورانیان کی تجویز
۳) قزوین کی امام خمینی یونیورسٹی کے اکیڈمک بورڈ کے رکن جناب علی رجب پور کی تجویز: آج کی دنیا میں ہمارا ملک ٹکنالوجی کے تمام شعبوں میں پہلے مقام پر نہیں پہنچ سکتا۔ لہذا ہمیں چاہئے کہ اپنی موجودہ اور ممکنہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور عالمی بازاروں میں اپنی موجودہ پوزیشن کے پیش نظر ایسے چند شعبوں کی نشاندہی کر لیں جن میں ہم کامیابی سے سرمایہ کاری اور کام کر سکتے ہیں اور متعلقہ حکام اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔
۴) شہید ہو جانے والے پائلٹ، جنرل منصور ستاری کے بیٹے سورنا ستاری‌
۵) سوره‌ ليل، آيت ۷