1393/03/14 ہجری شمسی مطابق 4 جون 2014 کو اس باعظمت و نشاط و تازگی سے سرشار اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ کی شکل میں ترقی کی راہ پر گامزن اٹل حقیقت کی شناخت کے سلسلے میں قوموں کے تجسس اور اشتیاق کے علل و محرکات کا جائزہ لیا اور اسلامی شریعت اور اس شریعت کے بطن سے نکلنے والی جمہوریت کو امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر کے دو بنیادی ستون قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس جدید سیاسی و تمدنی نظام کے تئیں ایران کے عوام اور حکام کی وفاداری پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکا کی مخالفتیں اور رخنہ اندازی اور عظیم الشان امام خمینی کی تحریک کی روح اور سمت و جہت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے امکانات ملت ایران کے سامنے دو اہم چیلنج ہیں اور ایرانی عوام ان چیلنجوں کے مکمل ادراک اور کنٹرول کے ساتھ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے باافتخار اور سعادت بخش راستے پر اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے پرشکوہ اجتماع سے خطاب میں دنیا کی اقوام اور بالخصوص مسلمانوں کے درمیان امام خمینی اور اسلامی جمہوریہ کی مسلسل بڑھتی مقبولیت کو ایک اہم حقیقت قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کے معمار کی رحلت کے پچیس سال بعد مختلف طبقات اور خاص طور پر اسلامی دنیا کی ممتاز شخصیات اور نوجوان بڑے والہانہ انداز میں اور خاص دلچسپی کے ساتھ دینی جمہوریت، ولی امر مسلمین سے متعلق نظریئے اور اسلامی انقلاب کے دیگر مسائل سے آگاہی کے خواہشمند ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پر دشمنوں کے ہمہ گیر اور متواتر سیاسی و تشہیراتی حملے اسلامی انقلاب کے بارے میں لوگوں کا تجسس بڑھنے کی اہم وجہ بنتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ عالم اسلام کی رائے عامہ میں اس حکومت کی ماہیت و حقیقت سے آشنائی کا اشتیاق اور بڑھ گیا ہے جو مربوط حملوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے اور عالم اسلام اس حکومت کی استقامت و کامیابی کا راز سمجھنے کا خواہاں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلامی بیداری اور سامراج مخالف جذبات کو اسلامی انقلاب کے سلسلے میں قوموں کے تجسس اور درست ادراک کا نتیجہ قرار دیا اور زور دیکر کہا کہ سامراجی محاذ نے ایک اسٹریٹیجک غلطی کے تحت یہ تصور کر لیا ہے کہ اس نے اسلامی بیداری کی بیخ کنی کر دی ہے مگر جو شعور و ادراک اسلامی بیداری کا سرچشمہ بنا ہے وہ ختم ہونے والا نہیں ہے، بلکہ یہ حقیقت بہت جلد یا کچھ تاخیر سے چاروں طرف پھیل جائے گی۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام على سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فى الارضین. رَبَّنا اغفِر لَنا وَ لِاِخوانِنَا الَّذینَ سَبَقونا بِالایمانِ وَ لا تَجعَل فى قُلوبِنا غِلًّا لِلَّذینَ ءامنوا رَبَّنآ اِنَّکَ رَءووفٌ رَحیم، (۱) رَبَّنآ اِنَّکَ ءاتَیتَ فِرعَونَ وَ مَلاءَهُ زینَةً وَ اَمواَلًا... رَبَّنا لِیُضِلّوا عَن سَبیلِکَ رَبَّنا اطمِس عَلى‌ اَمواَلِهِم وَ اشدُد عَلى‌ قُلوبِهِم فَلا یُؤمِنوا حَتّى‌ یَرَوُا العَذابَ الاَلیمَ. (۲)
قال الله الحکیم فى کتابه: اَ لَم تَرَ کَیفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِى السَّمآءِ. تُؤتى اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رِبِّها. (۳)

اس اہم اور یادگار دن میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں اپنے معروضات تین حصوں میں پیش کروں گا۔ پہلے حصے میں اسلامی جمہوریہ کے بارے میں ایک اہم حقیقت کا ذکر کروں گا، جس کی طرف توجہ دینا ہمارے لئے خاص طور پر ان ایام میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرے حصے میں اپنے بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کے پائیدار مکتب فکر کی مختصر تشریح پیش کروں گا۔ حالانکہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے مکتب فکر کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا جا چکا ہے، ہم نے بھی بیان کیا ہے اور سنا بھی ہے، لیکن معروضی حالات میں یہ مختصر تشریح ہمارے لئے بہت ضروری ہے تا کہ عصری دنیا میں ہمارے (عظیم الشان قائد) امام خمینی نے جو بے نظیر کارنامہ انجام دیا اس کی اختصار کے ساتھ تصویر کشی ہو جائے۔ تیسرے حصے میں دو اہم چیلنجوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا جو ملت ایران اور اسلامی جمہوری نطام کے سامنے موجود ہیں۔ ہماری درست پیش قدمی اور صحیح راستے پر گامزن ہونے کے لئے ان دونوں چیلنجوں کا ادراک ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔
پہلے حصے میں ہم نے جس حقیقت کے بارے میں گفتگو کرنے کی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کی رحلت کو پچیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، لیکن آپ سے متعلق باتیں اور حقائق سننے اور جاننے کا اشتیاق اور جوش و خروش ہرگز کم نہیں ہوا اور یہ صرف ہمارے وطن عزیز سے ہی مختص نہیں ہے، عالم اسلام میں بلکہ عالم اسلام سے بھی وسیع تر قلمرو میں یہ حقیقت آج بھی موجود ہے۔ صرف ہمارے ملک میں نہیں جہاں انقلاب کی تیسری نسل نشونما اور بالیدگی کے مراحل میں ہے بلکہ عالم اسلام میں بھی موجود مواصلاتی ذرائع اور انٹرنیٹ کی ترقی کے اس دور میں جب نوجوان اپنے گرد و پیش سے بہت دور کے حقائق کے بارے میں آسانی سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں، یہ نوجوان اسلامی انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور اس عظیم عمارت کے معمار کے بارے میں زیادہ سے زیادہ حقائق معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ دینی جمہوریت کا نظریہ، ولی امر مسلمین کا نظریہ، وہ موضوعات ہیں جو عالم اسلام کے فکری حلقوں کے لئے بڑی اہمیت اور خاص کشش رکھتے ہیں۔
ہمارے دشمنوں نے روز اول سے ہی اپنی کوششیں شروع کر دی تھیں اور جیسے جیسے وقت گزرا انہوں نے ان کوششوں کا دائرہ وسیع تر کر دیا۔ سیکڑوں بلکہ ہزاروں ٹی وی چینل، ریڈیو نشریات اور انٹرنیٹ کو استعمال کیا اسلامی جمہوریہ اور اس کے عظیم بانی کو برا بھلا کہنے کے لئے، اس کے حامیوں کی توہین کرنے کے لئے۔ لیکن ان چیزوں سے ہمیں مدد ملی، یعنی دنیا بھر میں سامعین اور مخاطب افراد کے اندر ہمارے تعلق سے تجسس بڑھا چنانچہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس عناد و دشمنی، الزام تراشی اور کیچڑ اچھالنے کی وجہ کیا ہے اور جس عظیم حقیقت کو ان مخاصمتوں اور حملوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے اس حقیقت کی اصلی ماہیت کیا ہے، یہ کون سی حقیقت ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ ہمارے دشمنوں نے تو بغض و عناد میں ہمارا نام اچھالا، ہمارے امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اور ہمارے اسلامی نظام کے خلاف باتیں بنائیں «اِنَّهُم یَکیدونَ کَیدًا. وَ اَکیدُ کَیدًا»؛ (۴) یہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ انہوں نے اس نیت اور منصوبے کے ساتھ وسیع پیمانے پر یہ مہم چھیڑی لیکن سرانجام یہ ہمارے لئے بہترین موقعہ ثابت ہوئی۔ کیونکہ اس مہم کے نتیجے میں ساری دنیا میں سامعین کے اندر تجسس کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اسلامی ممالک میں اور ہمارے علاقے میں اسلامی بیدار کی لہر جس میں سامراج مخالف جذبات کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں اور غالب ہے، اپنے آپ میں اسی تجسس اور تلاش کی علامت ہے، یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ممکن ہے کہ مغربی اور امریکی انٹیلیجنس ادارے اپنے عہدیداروں کو یہ رپورٹ پیش کریں کہ انہوں نے ہمارے علاقے میں اسلامی بیداری کی لہر کو کامیابی سے کچل دیا ہے۔ اگر ان کی یہ سوچ ہے تو یہ ہمارے دشمنوں کی ایک اور اسٹریٹیجک غلطی اور غلط تجزیہ ہوگا۔ اسلامی بیداری کی لہر ممکن ہے کہ عالم اسلام کے بعض خطوں میں کچھ عرصے کے لئے کچل دی گئی ہو لیکن یہ طے ہے کہ اس کی بیخ کنی نہیں ہوئی ہے۔ یہ آگے چل کر توسیع کے مراحل طے کریگی۔ علاقے کے مختلف ملکوں اور نوجوان نسل کے اندر پیدا ہونے والا یہ شعور، یہ ادراک اور یہ دریافت ایسی چیز نہیں ہے جسے آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہو۔ بیشک کوششیں تو بہت ہو رہی ہیں، ممکن ہے کہ بعض خطوں میں وقتی طور پر یہ کوششیں کامیاب بھی معلوم ہوں لیکن سرانجام یہ کوششیں ناکام رہیں گی۔
آج ساری دنیا میں اور خاص طور پر عالم اسلام میں دینی جمہوریت نامی حقیقت کے سلسلے میں جو تجسس اور اشتیاق دیکھا جا رہا ہے اس کے وجود میں آنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کو منصہ ظہور پر نمودار ہوئے پینتیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اس پینتیس سال کے عرصے میں دنیا کی سامراجی طاقتوں نے اس نظام کے ساتھ انتہائی سخت، معاندانہ اور تشدد آمیز برتاؤ کیا۔ انہوں نے عسکری کارروائي بھی کی، تشہیراتی اقدامات بھی انجام دیئے، معاندانہ اقتصادی سرگرمیاں بھی کیں، چنانچہ روز اول سے ہی اقتصادی پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو روز بروز شدید سے شدیدتر ہوتا گیا۔ انہوں نے سیاسی سطح پر بھی ریشہ دوانیاں کیں۔ دنیا کے سامراجی نظام نے اس پینتیس سال کے عرصے میں ہر وہ کارروائی کی ہے جو اس کے بس میں تھی۔ اسلامی جمہوریہ پر فوجی حملہ کرنے والے کی مدد کی ہے، ایران کے اندر اسلامی جمہوریہ کے مخالفین کی ہر جگہ حمایت اور پشت پناہی کی ہے۔ اس کے خلاف وسیع تشہیراتی حملے کئے ہیں۔ پابندیوں اور اقتصادی ناکہ بندی کی کارروائیاں جہاں تک ممکن تھا انہوں نے انجام دیں، جس کی ماضی میں کوئی اور مثال نہیں ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ، اس ہمہ جہتی یلغار کی وجہ سے اور اس بے دریغ تشدد آمیز مخالفت کے نتیجے میں نہ تو ختم ہوا، نہ ہی اس نے کبھی کنزرویٹیو رویہ اختیار کیا، مغرب کو غنڈہ ٹیکس بھی ادا نہیں کیا اور اس کے باوجود روز بروز زیادہ سے زیادہ ترقی کرتا رہا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو تجسس اور اشتیاق کا سبب بنتی ہے۔ دنیا کی پہلے نمبر کی عسکری، سیاسی اور اقتصادی طاقتوں نے ایک ملک کے خلاف بڑے پیمانے پر سازباز کر لی، پینتیس سال سے یہ طاقتیں تگ و دو میں لگی ہیں، مگر یہ نظام وسیع معاندانہ کوششوں کے باوجود ختم نہیں ہوا، بلکہ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے، اس نظام نے نہ تو باج ادا کیا اور نہ ہی بڑی طاقتوں کو قابل اعتنا سمجھا۔ مختلف میدانوں میں اسلامی جمہوریہ نے اپنی مقتدرانہ پوزیشن اور پائيداری و دوام کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ آج جب اسلامی جمہوریہ کو لوگ دیکھتے ہیں تو انہیں نظر آتا ہے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب کی دوسری اور تیسری نسل میں دسیوں لاکھ طالب علم، ہزاروں دینی طلبہ اور افاضل، کئي ہزار محقق، دسیوں ہزار یونیورسٹی اور دینی مدارس کے اساتذہ، ہزاروں ممتاز علمی و فکری شخصیات کہ جن میں بعض کو عالمی شہرت بھی حاصل ہے، ہزاروں سیاسی رہنما، ثقافتی شعبے کی شخصیات، اقتصادی و پیداواری شعبے کے موثر افراد موجود ہیں، آج ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ایسی ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں اسلامی جمہوریہ، تمام تر پابندیوں کے باوجود خلاء میں اپنا راکٹ بھیجنے میں کامیاب ہوئی، بایو کیپسول میں زندہ جانور کے ساتھ میزائل خلا میں ارسال کرتی ہے اور بحفاظت واپس لاتی ہے، ایٹمی انرجی پیدا کر رہی ہے، بہت سی جدید ٹکنالوجیوں میں اس کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کی علمی پیشرفت کی رفتار، دنیا کے ذمہ دار اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق سائنسی پیشرفت کی اوسط عالمی رفتار سے تیرہ گنا زیادہ ہے، ایران دنیا کے مختلف ممالک کو سائنسی اور تکنیکی خدمات فراہم کر رہا ہے، عجیب و غریب پابندیوں کے باوجود ساڑھے سات کروڑ کی آبادی کا انتظام چلا رہا ہے، علاقائی سیاست میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے، دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی حمایت یافتہ غاصب صیہونی حکومت کے مد مقابل اکیلے ہی ڈٹا ہوا ہے اور ظالم سے ہر طرح کی ساز باز سے انکار کرتے ہوئے مظلوم کی حمایت کر رہا ہے، ظاہر ہے کہ ہر بیدار مغز انسان کو یہ تجسس ضرور ہوگا کہ آخر یہ کون سا ملک ہے، یہ کیسی سرزمین ہے جو اتنی دشمنیوں کے باوجود اس قدر توانائيوں اور بقاء و دوام کی صلاحیتوں سے آراستہ ہے؟ ایران کے بارے میں تجسس کی اصلی وجہ یہی ہے۔ یہ تو رہی سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ایران کی پیشرفت کی بات۔
سیاسی و سماجی مسائل کو دیکھا جائے تو اسلامی انقلاب کے بعد کے گزشتہ پینتیس سال میں ہمارے ملک میں جمہوریت کے بہترین مظاہر نظر آئے ہیں۔ پینتیس سال کے دوران ہمارے یہاں بتیس انتخابات ہوئے، 32 ملک گیر انتخابات ہوئے، کیا یہ معمولی بات ہے؟ ایک بے نظیر نمونہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں پرشکوہ عوامی شراکت کے ساتھ منعقد ہونے والے انتخابات جمہوریت کے حقیقی مظاہر ہیں، یہ شراکت دنیا کی اوسط شراکت سے زیادہ اور بسا اوقات تو بہت زیادہ ہوتی ہے، 70 فیصدی، 72 فیصدی کی شراکت ہمارے انتخابات کی خصوصیت ہے۔ اس کے علاوہ جمہوریت کے دو اور نہایت اہم نمونے ہیں جنہیں دیکھنے کے ہم عادی ہو گئے ہیں، لیکن جب کوئی بیرونی مبصر اسے دیکھتا ہے تو اس کی نظر میں یہ چیز غیر معمولی، پرکشش اور انتہائی اہم محسوس ہوتی ہے۔ ان میں ایک ہے بائیس بہمن (مطابق گیارہ فروری، اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے جلوس اور دوسرے ماہ رمضان المبارک میں یوم قدس کی مناسبت سے نکلنے والے جلوس۔ انقلاب کا جشن عوام پینتیس سال سے لگاتار ہر سال منا رہے ہیں۔ بہمن مہینے (جنوری فروری) کے آخری دنوں میں شدید سردی کے باوجود عظیم و پرشکوہ جلوس نکلتے ہیں۔ یہ دیکھنے کے ہم عادی ہو گئے ہیں لہذا اس چیز کی عظمت و اہمیت ہمیں بہت زیادہ محسوس نہیں ہوتی مگر جب عالمی مبصر ان چیزوں کو دیکھتے ہیں تو ششدر رہ جاتے ہیں۔ یہ ان اسباب میں ہے جو تجسس میں اضافہ کرتے ہیں اور دلچسپی رکھنے والے افراد، اہل تحقیق و مطالعہ افراد کے ذہنوں کے سامنے ایک نئی راہ پیش کرتے ہیں۔ یہ موجودہ دور کی ایک اٹل حقیقت ہے کہ توفیق الہی اور تائید خداوندی سے اسلامی مملکت ایران میں جو چیزیں رونما ہوئی ہیں ان کی نسبت عالم اسلام کی سطح پر نوجوانوں کے اندر، روشن خیال افراد کے اندر، اہل علم اور اہل نظر افراد کے اندر خاص کشش اور تجسس کی کیفیت پائي جاتی ہے اور اس تجسس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ تو رہی پہلی بات۔
یہ عظیم حقیقت عظیم معمار کا شاہکار ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ شاید بعض لوگ یہ خیال کریں کہ ہم مبالغہ آرائی کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنے بزرگوار امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس میں کہیں کوئی مبالغہ نہیں ہے، یہ حقیقت کا ایک جز ہے۔ ہم نے جو توصیف کی ہے اور جو کچھ بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، ہمارے عزیز اور بزرگوار امام خمینی اس سے کہیں زیادہ بلند حقیقت و مفہوم کے حامل ہیں۔ آج جو کچھ ملت ایران کی نگاہ کے سامنے ہے اور ساری دنیا کی اقوام جو کچھ دیکھ رہی ہیں وہ امام خمینی کے دست توانا کی تخلیق ہے۔ ہم اگر صحیح طریقے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں معمار کے نقشے کا علم ہونا چاہئے۔ اگر کسی معمولی اور عام سی عمارت کا نقشہ آپ کے پاس نہ ہو، اصلی نقشہ معلوم نہ ہو تو عمارت تعمیر کرنے والے لوگ کتنے ہی ماہر اور چیرہ دست کیوں نہ ہوں ان سے غلطی کا امکان رہے گا۔ اصلی نقشے کا علم ہونا چاہئے تا کہ اس نقشے کی بنیاد پر تعمیر و مرمت کا فن بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ امام خمینی نے جو نقشہ تیار کیا وہ ایسا نقشہ نہیں ہے جو انسان کے ذہن کی اپج ہو، یقینی طور پر اس نقشے کو اللہ کی تائید بھی حاصل تھی۔ اس حقیقت کو خود امام خمینی بھی جانتے تھے اور اس جانب باقاعدہ ان کی توجہ بھی تھی۔ خود وہ کہتے تھے کہ جو کچھ رونما ہوا ہے دست قدرت الہی کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے بالکل صحیح سمجھا تھا اور آپ کی با بصیرت اور دور رس نگاہوں نے بالکل صحیح دیکھا تھا۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئے کہ اس نقشے سے پوری آگاہی رہے تا کہ ہم اس راستے پر چل سکیں۔ اگر ہمیں نقشے سے واقفیت نہ ہوگی تو ہم بھٹک سکتے ہیں، جب ہم بھٹک گئے تو روز بروز جتنا آگے بڑھیں گے اصلی راستے اور صراط مستقیم سے اتنا ہی دور ہوتے جائیں گے۔ جب ہم صحیح اور سیدھے راستے سے دور ہو گئے تو اہداف اور منزل سے بھی دور ہو جائیں گے۔ منزل اور ہدف تک پہنچنا ہے تو ضروری ہے کہ راستہ بھول نہ جائیں۔ راستہ گم نہ کریں، اس کے لئے ہمارے سامنے اصلی نقشہ ہونا چاہئے، ہمیں اس کی شناخت اور اس کا علم ہونا چاہئے۔ امام خمینی کا تیار کیا ہوا نقشہ اور آپ کا نصب العین تھا اسلامی دانش کی بنیاد پر ایک سیاسی و شہری نظام کی تشکیل۔ اس کا لازمی مقدمہ یہ تھا کہ سلطنتی نظام جو بدعنوان بھی تھا، اغیار غلام بھی تھا اور حقیقت میں ایک آمرانہ نظام تھا، یہ تین خصوصیتیں اس سلطنتی نظام کے اندر نمایاں تھیں: ایک طرف (یہ نظام) مالیاتی و اخلاقی بدعنوانی اور کرپشن میں ڈوبا ہوا تھا، دوسری جانب بڑی طاقتوں پر منحصر بھی تھا، کبھی برطانیہ کی غلامی تو کبھی امریکا کی فرمانبرداری، یہ نظام اغیار کے مفادات کی حفاظت کے لئے ملک کے قومی مفادات کو قربان کرنے میں تامل نہیں کرتا تھا، اس کے ساتھ ہی ڈکٹیٹر اور آمرانہ نظام تھا، استبداد پر استوار نظام تھا، عوام کی مرضی، عوام کی خواہشات کی اس سلطنتی نظام میں کہیں کوئی جگہ نہیں تھی۔ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر باقاعدہ ایک وسیع باب ہے، ایک کتاب ہے۔ جو عظیم ہدف امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اغیار کے پٹھو اس بد عنوان اور ڈکٹیٹر نظام کی بیخ کنی تھی، امام خمینی نے اس کے لئے کمر ہمت کسی اور سلطنتی نظام ختم ہو گیا۔ ہمارے ملک میں تحریک کا مقصد یہ نہیں تھا کہ شاہی نظام ختم ہو جائے اور اس کی جگہ کوئی اور شاہی نظام یا اسی سے ملتا جلتا کوئی نظام تشکیل پا جائے، ہدف یہ تھا کہ شاہی نظام میں جو برائیاں اور منفی باتیں تھیں ان کا خاتمہ ہو، امام خمینی رضوان اللہ نے یہی کیا اور ان برائیوں کا خاتمہ کر دیا۔ ، امام خمینی کی تقاریر، آپ کی ہدایات اور آپ کا طرز عمل سب کچھ اسی ہدف کی جانب مرکوز نظر آتا ہے۔
اس شہری و سیاسی نظام کی تعمیر میں دو بڑے بنیادی نکات ہیں اور یہ دونوں بنیادی نکات آپس میں جڑے ہوئے ہیں، ایک طرح سے یہ ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے ملکی امور کو جمہوریت اور انتخابات کے ذریعے عوام کے سپرد کرنا اور دوسرے یہ کہ تحریک اور یہ عمل جو خود بھی اسلام سے ہی نکلا تھا وہ اسلامی شریعت کے دائرے میں رہے، جمہوریت کی تحریک اور امور کو عوام کے ہاتھوں میں سونپنے کا عمل اسلامی ضوابط کے دائرے میں ہو۔ یہ دو باتیں ہیں اور ایک طرح سے ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔
کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے انتخابات کو مغربی ثقافت سے حاصل کیا اور پھر اسے اسلامی افکار اور اسلامی شریعت سے جوڑ دیا۔ نہیں، اگر انتخابات، جمہوریت اور عوامی رائے پر انحصار دین کا جز نہ ہوتا اور اسلامی شریعت سے ماخوذ نہ ہوتا تو امام خمینی جو ہمیشہ قطعیت کے ساتھ اور دو ٹوک انداز میں اپنی بات بیان کرنے والے انسان تھے، اسے بھی ضرور بیان کر دیتے۔ یہ چیز دین کا جز ہے، اسی لئے اسلامی شریعت کو پیرائے کے طور پر منتخب کیا گيا۔ اسی قانون سازی کے عمل میں، اجرائی امور میں، عہدیداروں کو معزول و منصوب کرنے میں، اس سیاسی و شہری نظام کے تابع عمومی عادات و اطوار سب میں اسلامی شریعت کی پابندی لازمی ہے۔ اس نظام میں جملہ امور جمہوری انداز میں انجام پاتے ہیں، یعنی عوام الناس ہی پارلیمنٹ کے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں، صدر مملکت کا بھی انتخاب کرتے ہیں، وزرا کا انتخاب عوام بالواسطہ طور پر کرتے ہیں، ( قائد انقلاب اسلامی کے انتخاب اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کے فرائض انجام دینے والی) ماہرین کی کونسل کے ارکان کا انتخاب عوام کرتے ہیں اور ان کے توسط سے بالواسطہ طور پر قائد انقلاب اسلامی کا انتخاب کرتے ہیں۔ امور عوام کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی تحریک کی اصلی بنیاد ہے۔ امام خمینی نے یہ جو عظیم عمارت تعمیر کی، دو ستونوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ اسلامی شریعت کا التزام اور پابندی، اسلامی نظام کی روح و حقیقت ہے، اس پر سب کی توجہ ہونا چاہئے۔ اسلامی شریعت اگر معاشرے میں مکمل طور پر نافذ ہو جائے تو اس سے عمومی آزادی بھی مل جائے گی اور شہری و شخصی آزادی بھی حاصل ہو جائے گی۔ اسی طرح قوم کی آزادی کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا جسے خود مختاری کہا جاتا ہے۔ خود مختاری در حقیقت ایک قوم کی سطح پر پائی جانے والی آزادی کو کہتے ہیں، یعنی قوم ایسی ہو کہ کسی پر منحصر نہ ہو۔ ایک آزاد قوم کا مطلب ہے ایسی قوم جو کسی بھی صورت میں اپنے مخالفین، اپنے دشمنوں یا اغیار کے تسلط میں نہ ہو۔ اسی طرح معاشرے میں سماجی انصاف بھی قائم ہو جائے گا، روحانیت کا قیام بھی عمل میں آئے گا، یہ چاروں اصلی اور کلیدی عناصر ہیں: آزادی، خود مختاری، انصاف اور روحانیت۔ بنابریں ہمارے بزرگوار امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) اسلامی شریعت پر جو اسلامی جمہوریہ کی روح ہے، حقیقی معنی میں تکیہ کیا۔ دینی جمہوریت پر تکیہ کیا جو در حقیقت ایک ذریعہ و وسیلہ ہے اور جو خود بھی اسلامی شریعت سے ماخوذ ہے۔
امام خمینی کے مکتب فکر میں کوئی بھی توانائی اور برتری جو طاقت کے زور پر حاصل ہوئی ہے قابل قبول نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں تسلط اور غلبے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بیشک طاقت و توانائی کا مفہوم ہے، اقتدار کا ایک مفہوم ہے، لیکن وہ اقتدار جو عوام کے انتخاب اور عوام کی رائے پر استوار ہو۔ ہتھیار اور زور زبردستی کے ذریعے حاصل ہونے والے اقتدار کی اسلام میں، اسلامی شریعت میں اور امام خمینی کے مکتب فکر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ عوام کے انتخاب سے حاصل ہونے والی قدرت و توانائی ہی قابل احترام ہے۔ پھر اس انتخاب کی مخالفت کسی کو نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے مقابلے میں کسی کو بھی طاقت استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو اس کا یہ اقدام فتنہ قرار پائےگا۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے یہ نئی فکر دنیا کے سامنے پیش کی اور دنیا کی سیاست میں اس نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس نئے باب میں ایک اہم ترین عنصر جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، مظلوم کی مدد اور ظالم کی مخالفت کرنا ہے۔ مظلوم کی مدد کرنا چاہئے اور آج ہمارے زمانے میں مظلومیت کی حقیقی مصداق فلسطینی قوم ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ہمارے بزرگوار امام نے روز اول سے لیکر تا دم حیات ہمیشہ فلسطین پر توجہ دلائی، اس پر دھیان دیا، اس کی حمایت کی اور وصیت کی کہ ملت ایران اور ملک کے حکام اس مسئلے کو فراموش نہ کریں۔ مظلوم کی مدد اور ظالم کے سامنے سینہ سپر ہو جانا، ظالم کی ریشہ دوانیوں کی نفی، ظالم کے رعب و دبدبے سے متاثر ہونے سے انکار، اس کی ہیبت کے طلسم کو توڑ دینا، یہ بھی اس نظام اور امام خمینی کے ذریعے متعارف کرائے گئے نئے باب کے اجزاء ہیں۔ یہ اجمالی تصویر اور مختصر تعارف ہے اس سیاسی نظام اور اس مکتب فکر کا جو ہمارے عظیم الشان امام خمینی ملک میں شاہی نظام کے انہدام کے بعد نعم البدل کے طور پر لیکر آئے اور جسے ملک کے عوام نے کھلے دل سے قبول کیا۔ یہ نیا باب دیگر سیاسی باتوں کی طرح صرف کتابوں کے اوراق تک محدود نہیں رہا بلکہ عملی زندگی میں اتر آیا، منعکس ہوا، عوام الناس نے بھی بلند ہمتی کا ثبوت دیا، وفاداری کا ثبوت دیا اور قربانیاں دیکر اس کی حفاظت کی۔ روز بروز اس کی قوت و طاقت اور استحکام میں اضافہ کیا اور خود کو اس منزل تک پہنچایا جہاں آج ہم موجود ہیں۔
امام خمینی کامیاب ہوئے، امام خمینی جو منصوبہ اور جو ہدف پورا کرنا چاہتے تھے اسے انہوں نے پورا کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ عظیم کارنامہ آئندہ بھی جاری رہے گـا؟ جو نقشہ تیار کیا گیا اس کے خالی خانے، ظاہر ہے کہ اس کے کچھ سماجی و تاریخی خانوں کا خالی ہونا فطری ہے، یہ خانے پر ہوں گے یا نہیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اور آپ کہاں تک ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہم کہاں تک اس روشن راستے پر ثابت قدم رہتے ہیں اور کب تک اس پر گامزن رہتے ہیں۔ بیشک یہ چیز ممکن ہے، جو قوم آج ہماری نظروں کے سامنے ہے، اب تک جو تجربات ہوئے ہیں اور پینتیس سال کے اس عرصے میں جو عمل دیکھنے میں آیا ہے اور امام خمینی کی رحلت کے بعد پچیس سال کے عرصے میں جو سلسلہ رہا ہے، اس کے ذریعے اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ بیشک اس راستے پر گامزن رہنا ممکن ہے، نقشے کے خالی خانے بھی پر ہو جائيں گے اور یہ قوم اذن پروردگار سے اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے بام ثریا پر پہنچے گی۔
لیکن دیگر بڑے اور عظیم اہداف کی طرح ہمارے اس راستے میں بھی کچھ چیلنج اور مشکلات ہیں، کچھ رکاوٹیں ہیں، ہمیں ان رکاوٹوں کی شناخت ہونی چاہئے، تاکہ ہم آسانی سے انہیں عبور کر سکیں۔ اگر ہم رکاوٹوں سے واقف نہ ہوئے تو ایسی صورت میں یا ان رکاوٹوں کو عبور کرنا بہت دشوار ہوگا یا پھر سرے سے محال ہو جائے گا۔ میں اس باعظمت اور پرشکوہ نشست میں اور ملک کے عوام کے سامنے جو ان باتوں کو سنیں گے، یہ حقیقت عرض کر رہا ہوں۔ ہمارے نوجوان، ہمارے دانشور، ہمارے ممتاز مفکرین، ان تمام نکات کے بارے میں غور و فکر کریں، ان کا تجزیہ کریں، ان پر کام کریں، صرف ذہنی و لفظی بحث نہیں بلکہ باقاعدہ عملی کاوشیں انجام دیں، زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے بحث و مباحثہ کریں۔ ہم جو باتیں عرض کر رہے ہیں یہ عناوین اور فصلیں ہیں جن پر ان شاء اللہ ہمارے نوجوان جو ہم سے زیادہ بہتر اور آمادہ ہیں، کام کریں گے۔
میں نے دو چیلنجوں کے بارے میں عرض کیا کہ ایک چیلنج بیرونی ہے اور دوسرا چیلنج داخلی۔ بیرونی چیلنج تو عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں ہیں، بلکہ صاف صاف یوں کہا جائے کہ امریکا کی ریشہ دوانیاں ہیں، ہمیشہ رخنہ اندازی کرتا ہے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ خود ان کے اپنے بعض سیاسی مفکرین اپنے تجزیوں میں یہ اعتراف کرنے لگے ہیں کہ ان منفی اقدامات کا کوئي فائدہ نہیں ہے، ان اقدامات سے عظیم لہر کا مقابلہ ممکن نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ رخنہ اندازی سے باز نہیں آتے۔ امریکیوں کی سازش کو سمجھنے کی ضرورت ہے، امریکیوں کی سازش طشت از بام ہو چکی ہے۔ یہ امریکا کی طولانی مدت سازش ہے جو اس وقت امریکیوں کے بیانوں، تجزیوں اور رپورٹوں میں آشکارا ہو گئی ہے۔ امریکا نے دنیا کے ممالک، دنیا کے لوگوں اور دھڑوں کو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ ایک قسم تابعداروں کی ہے، فرمانبردار ممالک، فرمانبردار سیاسی و سماجی جماعتوں، فرمانبردار افراد اور گروہ کی ہے۔ ایک صنف ایسے ممالک اور لوگوں کی ہے۔ دوسری قسم ان ممالک کی ہے جو فرمانبردار نہیں ہیں، مگر امریکا کو ان سے مدارات کرنی ہوتی ہے۔ کچھ ممالک، کچھ شخصیات اور کچھ حلقے ایسے ہیں جو امریکا کی جی حضوری نہیں کرتے مگر امریکا کو ان کے ساتھ مدارات کرنی ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ امریکا کے کچھ مشترکہ مفادات ہیں، ان سے عارضی طور پر امریکا کی ایک طرح کی مفاہمت ہے۔ اس کی تشریح میں بعد میں کروں گا۔ تیسری قسم نافرمان ملکوں کی ہیں، یہ وہ ممالک ہیں جو امریکا کے دباؤ میں نہیں آتے۔ امریکا کو غنڈہ ٹیکس دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ایک قسم اس طرح کے ممالک اور حلقوں کی ہے۔ امریکا کی نظر میں دنیا کے تمام ممالک اور دنیا کی تمام سیاسی و سماجی تنظیمیں اور شہری و اقتصادی ادارے نمایاں اور معروف شخصیات سب کے سب انہیں تین قسموں میں کسی ایک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یا پوری طرح مطیع و فرمانبرار ہیں، یا خود مختار ہیں اور امریکا ان کے ساتھ مدارات کرتا ہے یا نافرمان ہیں جو شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں، گستاخانہ روش پر چلتے ہیں، ان سے امریکا ایک الگ انداز سے پیش آتا ہے۔
پہلی قسم کے ممالک اور جماعتوں کے ساتھ امریکا کا رویہ مکمل حمایت سے عبارت ہے۔ البتہ یہ حمایت مفت کی نہیں ہے۔ امریکا حمایت تو کرتا ہے لیکن انہیں چوس بھی لیتا ہے۔ در حقیقت ان کی توانائیوں اور ان کے وسائل کو اپنے مفادات کے لئے، اپنے اغراض و مقاصد کے لئے جی بھر کر کے استعمال کرتا ہے۔ ان سے ہر طرح کی خدمت لیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، انہیں چوس لیتا ہے اور انہیں کوئی اہمیت بھی نہیں دیتا۔ البتہ ایسے کسی ملک نے کوئی ایسا اقدام کر دیا جو عرف عام میں مذموم مانا جاتا ہے تو اس اقدام کی مذمت نہیں کرتا بلکہ اس کا دفاع کرتا ہے، اس کی توجیہ پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کچھ استبدادی ممالک ہیں جہاں رجعت پسند حکومتوں کے ہاتھ میں زمام امور ہے، امریکیوں سے ان کے بڑے اچھے تعلقات ہیں، وہ امریکیوں کے سامنے سجدہ ریز رہتی ہیں، امریکا کے سامنے دست بستہ کھڑی رہتی ہیں، بے چوں و چرا اطاعت کرتی ہیں، ان کا تعلق اسی پہلی قسم اور صنف سے ہے۔ جب امریکیوں کو ان ممالک اور حکومتوں کے بارے میں بات کرنی ہوتی ہے تو انہیں ڈکٹیٹر حکومتیں ہرگز نہیں کہتے، وہ انہیں 'پدر سالار یا patriarchal' حکومتوں کا نام دیتے ہیں! یعنی ان کی آمریت کو چھپاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ ڈکٹیٹر نہیں ہیں، یہاں 'پدر سالاری' والا نظام ہے۔ سیاسی نظام میں پدر سالاری یا patriarchal کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس کا مفہوم کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے وہ ملک جہاں نہ کوئي پارلیمان ہو، نہ انتخابات کرائے جاتے ہوں، نہ کسی کو لب کشائی کی جرئت ہو، نہ قلم کی آزادی ہو، نہ آزادی اظہار خیال ہو، حکمراں کی مرضی کی ذرہ برابر بھی مخالفت ہوئی تو اس مخالفت کو شدت اور بے رحمی سے کچل دیا جاتا ہو۔ ایسے ملک کو patriarchal یا پدر سالاری والا ملک کہا جا سکتا ہے؟
صدام حسین اپنی زندگی کے ایک حصے میں ایسے ہی فرمانبرداروں اور تابعداروں کے زمرے میں شامل تھا، اس زمانے میں امریکی اس کی بے دریغ حمایت کرتے تھے، اس کی خوب مدد کی، اسے کیمیائی ہتھیار بھی دیئے، ہماری دفاعی نقل وحرکت کی تصاویر سیٹیلائٹ کے ذریعے تیار کرکے اسے دیتے تھے، جنگ کے نقشے فراہم کرتے تھے، کیونکہ صدام ان کی خدمت کر رہا تھا، نافرمانی کرنے والے اسلامی جمہوری نظام کے خلاف بر سر پیکار تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران تیسری قسم اور صنف سے تعلق رکھنے والا ملک ہے۔ ایک صنف ایسے ممالک کی ہے۔
دوسری قسم ہم نے عرض کیا کہ ان ممالک کی ہے جن کے ساتھ مدارات کرنا امریکا کا منصوبہ اور اسٹریٹیجی ہے۔ مدارات کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ فی الحال ان ممالک کے ساتھ امریکا نے اپنے کچھ مشترکہ مفادات معین کر رکھے ہیں اور انہیں اپنے ساتھ رکھتا ہے، مگر جیسے ہی موقعہ ملتا ہے ان کی پشت سے اپنا خنجر ان کے دل میں پیوست کر دیتا ہے، ان کا جگر چاک کر دیتا ہے، پھر ان کا کوئی خیال نہیں کرتا۔ یہ کون سے ممالک ہیں؟ اس کی مثال یورپی ممالک ہیں۔ آج یورپی ممالک کی مثال یہی ہے۔ امریکا ان سے مدارات بھی کرتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ان کے مفادات کا محافظ ہو، نہیں، جہاں ممکن ہوتا ہے انہیں دو لتی لگانے سے بھی نہیں چوکتا۔ اپنے اتحادی ملک کے سربراہ کی انٹرنیٹ کے ذریعے جاسوسی کرتا ہے (5)، موبائل فون کے ذریعے جاسوسی کرواتا ہے، اس کی ذاتی زندگی کی بھی جاسوسی کرتا ہے اور اسے ذرہ برابر شرم بھی نہیں آتی۔ جب پول کھل جائے تو کہہ دیتا ہے کہ معاف کیجئے گا۔ اب تو یہ کام ہو ہی گيا ہے، کوئی اور چارہ نہیں تھا، لہذا ایسا کیا گيا ہے! یعنی قاعدے سے معذرت خواہی کرنے پر بھی آمادہ نہیں ہے۔ سیاسی مسائل کے سلسلے میں اس حقیر کا ادراک یہ کہتا ہے کہ یورپی ممالک بہت بڑی اسٹریٹجک غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں جو انہوں نے خود کو امریکا کی خدمت کے لئے وقف کر دیا ہے۔ امریکا کے مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ امریکا ان کے مفادات کا ہرگز خیال نہیں رکھتا اور نہیں رکھے گا، یہ سلسلہ آخر تک اسی طرح جاری رہے گا۔ تو یہ دوسری قسم اور صنف کے ممالک ہیں۔
تیسری صنف میں وہ ممالک ہیں جو امریکا کے دباؤ میں نہیں آتے۔ ان ممالک کے بارے میں امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ ان نافرمان ممالک کے خلاف ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا جائے، جو بھی ممکن ہو کیا جائے، اس کی کوئی حد معین نہیں ہے۔ اگر کوئی ملک امریکا کی نافرمانی کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا نے اس پر پابندیاں نہیں لگائی ہیں یا فوجی حملہ نہیں کیا ہے تو جان لیجئے کہ ضرور کوئی مشکل ہے۔ یعنی امریکا کو کوئی بہت بڑی رکاوٹ نظر آ رہی ہے۔ سادہ الفاظ میں یوں کہا جائے کہ امریکا کے پاس کچھ کرنے کی توانائی ہی نہیں، اگر اس کے لئے ممکن ہوتا تو ضرور یہ کام کرتا۔ اس نافرمان ملک کا واحد جرم یہ ہے کہ امریکا کے سامنے سر جھکانے پر تیار نہیں ہے، باج دینا پسند نہیں کرتا، امریکی مفادات کو اپنے قومی مفادات پر فوقیت نہیں دینا چاہتا، ایسا ملک نافرمان قرار دے دیا جاتا ہے۔ ایسے ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے لئے امریکی ہر ممکن کارروائي کرتے ہیں اور کوئی بھی اقدام کرنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ ان کے لئے جو بھی ممکن ہو کر گزرتے ہیں، اگر انہوں نے کوئی کارروائی چھوڑ دی ہے تو اس کی وجہ یقینا یہ رہی ہوگی کہ وہ ان کے دائرہ امکان میں نہیں رہی ہوگی۔
اب آئيے یہ دیکھتے ہیں کہ امریکی جو جو اقدامات کرتے ہیں وہ کیا ہیں؟ اس وقت امریکیوں کے نزدیک فوجی حملہ ترجیحات سے نکل گیا ہے۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ عراق کے معاملے میں اور افغانستان کے قضیئے میں لشکر کشی کرکے انہیں نقصان اٹھانا پڑا، انہیں اندازہ ہوا کہ لشکر کشی سے جتنا نقصان نشانہ بننے والے ملک کو ہوتا ہے بسا اوقات اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ نقصان حملہ آور ملک کو اٹھانا پڑتا ہے، اس سے خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ حقیقت صحیح طور پر ان کی سمجھ میں آ گئی ہے۔ لہذا کہا جا سکتا ہے کہ امریکا فوجی حملے اور عسکری اقدامات سے منصرف ہو گیا ہے، اب دوسرے راستوں کو آزما رہا ہے۔ امریکا کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس ملک سے دشمنی نکالنی ہے، اس کے اندر اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے وہیں کے داخلی عناصر کو استعمال کرتا ہے۔ یہ معاملہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ نہیں ہے، وہ ساری دنیا میں اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ہم اس کے متعدد نمونے دیکھ رہے ہیں۔ یا پھر وہ ملک کے اندر بغاوت کروا کے کچھ لوگوں کی پوزیشن مضبوط کر دیتے ہیں، بغاوت کروا کے اس حکومت اور اس نظام کو جو ان کی بات ماننے پر تیار نہیں ہے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، امریکیوں کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ ان کا ایک اور حربہ عوام کے ایک گروہ کو سڑکوں پر لے آنا ہے۔ اس علاقے میں مختلف جگہوں پر حالیہ کچھ برسوں کے دوران جو رنگین انقلاب آئے ہیں وہ اسی زمرے میں آتے ہیں۔ جب کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو ظاہر ہے کہ حکومت کی تشکیل میں اگر ساٹھ فیصدی رائے دہندگان نے حمایت میں ووٹ دیا ہے تو چالیس فیصدی لوگ ایسے ہوں گے جن کے ووٹ اس حکومت کو نہیں ملے ہوں گے۔ امریکی انہیں چالیس فیصدی لوگوں پر نظر رکھتے ہیں، ان کے درمیان سے کچھ افراد اور رہنماؤں کا انتخاب کرتے ہیں۔ انہیں لالچ دیکر، پیسے دیکر یا ڈرا دھمکا کر اس بات پر آمادہ کرتے ہیں کہ وہ ان چالیس فیصدی عوام یا ان میں سے کچھ لوگوں کو ہی سہی سڑکوں پر لے آئيں۔ یہی رنگین انقلابات، یہ نارنگی انقلاب یا دوسرے انقلاب جو حالیہ کچھ برسوں کے دوران مختلف ممالک میں نمودار ہوئے ان کے پس پردہ امریکیوں کا ہاتھ تھا۔ آج یورپ کے ایک خطے میں (6) جو واقعات رونما ہو رہے ہیں ان کے بارے مین ہم کوئی فیصلہ سنانا نہیں چاہتے لیکن جب انسان جائزہ لیتا ہے تو یہی دیکھتا ہے کہ امریکی سنیٹر، امریکی عہدیدار (7) ایک ملک کے خلاف ایک اقلیت کے مظاہرے میں نظر آتا ہے، آخر اس کا وہاں کیا کام ہے؟ مظاہرے میں جاتے ہیں۔ ان کا ایک حربہ یہ ہے کہ عوام کے ایک گروہ کو سڑکوں پر لاتے ہیں، سول نافرمانی کی صورت حال پیدا کرتے ہیں اور اس طرح اس حکومت کو اقتدار سے ہٹا دیتے ہیں جو انہیں باج دینے پر تیار نہیں ہے۔ ان کا ایک اور حربہ ٹارگٹ کلنگ کرنے والی تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کو حرکت میں لانا ہے۔ انہوں نے یہ کام عراق میں کیا، افغانستان میں کیا، بعض عرب ممالک میں کیا۔ خود ہمارے ملک میں بھی یہ کام کیا۔ دہشت گرد تنظیمیں تشکیل دلواتے ہیں جو ٹارگٹ کلنگ کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں سائنسدانوں کو قتل کیا، ایٹمی انرجی کے ماہرین کو نشانہ بنایا اور شہید کیا۔ اس سے پہلے دوسرے افراد کو، سیاسی شخصیات کو، علمی ہستیوں کو، ثقافتی شعبے کی شخصیات کو علمائے کرام کو قتل کروایا۔ یہ تنظیمیں امریکا کے سائے میں پھلتی پھولتی ہیں۔ جبکہ بعض تنظیمیں امریکا کی خدمت کرنے کی وجہ سے اس کے قریب ہو جاتی ہیں۔ آج منافقین (دہشت گرد تنظیم ایم کے او) امریکا کی آغوش میں ہیں۔ وہ امریکا کی سرکاری میٹنگوں میں، امریکی کانگریس کے کمیشنوں میں شرکت کرتے ہیں، وہی منافقین جنہوں نے یہاں ایران میں بے گناہ عوام کا قتل عام کیا، عظیم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کی، علماء کو قتل کیا، سائنسدانوں کو نشانہ بنایا، سیاسی شخصیات کا قتل کیا، دھماکے کئے۔ آج وہ امریکیوں کے ساتھ ہیں۔ ان کا ایک اور حربہ اعلی قیادت کے اندر اختلافات کا بیج بو دینا ہے۔ یہ طریقہ بھی امریکی اپناتے ہیں۔ جو حکومت اور جو نظام ان سے تعاون نہیں کر رہا ہے اس کی اعلی سیاسی قیادت میں وہ اختلاف اور خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، موازی قیادت قائم کرتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر انہیں کامیابی نہیں مل پاتی لیکن بدقسمتی سے وہ بعض جگہوں پر کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ان کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ ان کا ایک اور حربہ یہ ہے کہ اپنے تشہیراتی اداروں کی مدد سے لوگوں کے دلوں اور عوام کے ذہن کو ایمان و عقیدے سے برگشتہ کر دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کے دوسرے مختلف حربے ہیں۔ امریکی حکومت نے ہمارے وطن عزیز ایران کے سلسلے میں، ہمارے اسلامی ملک ایران کے سلسلے میں یہ سارے حربے استعمال کئے اور فضل پروردگار سے انہیں ہر موڑ پر منہ کی کھانی پڑی۔ فوجی بغاوت، فتنہ پرور عناصر کی حمایت، عوام کو سڑکوں پر لانا، انتخابات کی مخالفت، خلیج پیدا کرنا، یہ ساری سازشیں انہوں نے کیں یا کرنے کی کوشش کی لیکن بحمد اللہ ہر دفعہ انہیں شکست ہوئی، کیوں؟ اس لئے کہ ایرانی قوم بیدار تھی۔ اب میں بات کروں گا دوسرے چیلنج کی جو داخلی چیلنج ہے۔
محترم بھائیو اور بہنو! ایرانی قوم کے لئے داخلی چیلنج سے مراد یہ ہے کہ ہم خدانخواستہ اپنے عظیم الشان امام خمینی کی تحریک کی اصلی روح اور سمت کو نظر انداز کر دیں، اسے بھول جائيں اور ہاتھ سے گنوا دیں۔ یہ بہت بڑا خطرہ اور چیلنج ہے۔ اپنے دشمنوں کی شناخت میں غلطی کر بیٹھیں، اپنے دوستوں کو پہچاننے میں غلطی کریں، دوست اور دشمن محاذوں میں خلط ملط کر دیں، نہ سمجھ پائیں کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ہے؟ یا اصلی اور معمولی دشمن کی شناخت میں ہم سے غلطی سرزد ہو۔ یہ بہت بڑے خطرات ہیں۔ برادران عزیز، خواہران گرامی، تمام ایرانی عوام توجہ رکھیں کہ کبھی کوئی آپ سے دشمنی کا برتاؤ کر رہا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو اس کی دشمنی اصلی دشمنی نہیں ہے بلکہ کسی اور دشمن کے اقدامات کی ذیلی چیز ہے، اصلی دشمن کوئی اور ہی ہے۔ آپ اس اصلی دشمن کو تلاش کیجئے۔ ورنہ اگر انسان اسی معمولی دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑا ہو جائے تو ایک طرف اس کی طاقت بھی صرف ہوگی اور دوسری طرف وہ مطلوبہ نتیجہ بھی حاصل نہیں کر پائےگا۔
آج کل دنیائے اسلام کے مختلف خطوں میں ایک گروہ، تکفیری، وہابی اور سلفی گروہ کے نام سے ایران کے خلاف اور شیعوں کے خلاف سرگرم عمل ہے، بڑے مذموم اقدامات انجام دے رہا ہے، بڑی پست حرکتیں کر رہا ہے، لیکن یہ اصلی دشمن نہیں ہے، اس کو سب ذہن میں رکھیں۔ بیشک وہ معاندانہ اقدامات انجام دے رہا ہے، بہت بڑی حماقت کر رہا ہے۔ لیکن اصلی دشمن تو وہ ہے جو اسے اکسا رہا ہے اور اشتعال دلا رہا ہے، اصلی دشمن وہ ہے جو اس گروہ کو پیسے فراہم کر رہا ہے، اصلی دشمن وہ ہے جو اس گروہ کے اشتعال میں کوئی کمی آتے دیکھتا ہے تو گوناگوں طریقوں اور ذریعوں سے اسے پھر مشتعل کرتا ہے۔ اصلی دشمن وہ ہے جو ملت ایران اور اس جاہل و نادان گروہ کے مابین اختلاف کے بیج بوتا ہے، خلیج پیدا کرتا ہے۔ اصلی دشمن انٹیلیجنس اور سیکورٹی ادارے ہیں۔ لہذا ہم نے یہ بات بار بار کہی ہے کہ سلفی کے نام سے اور تکفیری کے نام سے جو بے عقل گروہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف لڑ رہے ہیں، ہم انہیں اپنا اصلی دشمن نہیں سمجھتے، ہم ان تنظیموں کو فریب خوردہ مانتے ہیں، ان سے ہمارا کہنا ہے: لَئِن بَسَطتَ اِلَىَّ یَدَکَ لِتَقتُلَنى ما اَنا بِباسِطٍ یَدِىَ اِلَیکَ لِاَقتُلَکَ اِنّى اَخافُ اللهَ رَبَّ العَلَمین؛ (۸) اگر تم غلطی کر رہے ہو، اگر تم خطا کر رہے ہو، اگر تم نے اپنے مسلمان بھائی کے قتل کے لئے کمر کس لی ہے تو ہم تم جیسے نادان اور جاہل کو ایسا نہیں سمجھتے کہ تمہارے قتل کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ بیشک ہم اپنا دفاع ضرور کریں گے، جو بھی ہم پر حملہ کرے گا ہمارے آہنی گھونسے کا اسے سامنا کرنا پڑے گا، یہ فطری امر ہے، لیکن ہمارا نظریہ یہی ہے کہ اصلی دشمن یہ نہیں ہیں، یہ تو دھوکا کھائے ہوئے لوگ ہیں۔ اصلی دشمن وہ ہے جو پردے کے پیچھے روپوش ہے، اصلی دشمن وہ ہاتھ ہے جو ہماری نظروں سے بہت زیادہ پوشیدہ بھی نہیں ہے، وہ ہاتھ جو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی آستین سے باہر نکلتا ہے اور مسلمانوں کے گریبان گیر ہو جاتا ہے، انہیں ایک دوسرے سے گتھم گتھا کر دیتا ہے۔
ہمارے داخلی چیلنج یہ ہیں: ملک کے داخلی اختلافات میں الجھ کر رہ جانا، جزوی اور فروعی الجھنوں میں پھنس جانا، ایک دوسرے کے مد مقابل اٹھ کھڑا ہونا، ٹکراؤ کی صورت حال پیدا کرنا، یہ چیزیں ہمیں اصلی مسائل اور اصلی راستوں سے دور کر دیں گی۔ یہ اسی چیلنج کے مصادیق ہیں جس کا ہم نے ذکر کیا۔ قومی یکجہتی کا ختم ہو جانا ہمارے سامنے بڑا چیلنج ہے۔ تساہلی اور جوش و جذبے سے عاری ہو جانا، کام اور محنت سے بھاگنا، مایوسی اور قنوطیت کا شکار ہو جانا، ذہن میں یہ خیال بٹھا لینا کہ ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں ہے، یہ سوچنا کہ اب تک ہم کچھ بھی نہیں کر سکے ہیں۔ جبکہ حقیقت امر یہ نہیں ہے، حقیقت امر تو وہی ہے جس کا ذکر امام خمینی نے کیا کہ 'ہم سب کچھ کر سکتے ہیں' (9) ۔ ہمارے اندر عزم ہونا چاہئے، قومی عزم اور مجاہدانہ مینیجمنٹ کے ذریعے تمام گرہوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ یہ سارے ہمارے داخلی چیلنج ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، ہمارے عزیز نوجوانوں کو، ممتاز شخصیات کو، علمائے افاضل کو چاہئے کہ بیٹھ کر ان مسائل کا جائزہ لیں، یہ اہم موضوعات ہیں۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی کا نام، اس عظیم انسان کی یاد اور اس عدیم المثال معمار کا نقشہ راہ ان تمام مسائل میں ہماری مدد کر سکتا ہے، ہمیں امید دے سکتا ہے، ہمارے اندر جوش و جذبہ بھر سکتا ہے، جیسا کہ آج تک ہم دیکھتے آئے ہیں اور توفیق خداوندی سے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
پالنے والے! اس عزیز قوم پر اپنی برکتیں نازل فرما۔ پروردگارا! اسلامی نظام کی امنگوں کی عمارت تعمیر کرنے میں ہمارے عزیز نوجوانوں کی مدد فرما۔ پالنے والے ہمیں کج روی اور انحراف سے محفوظ رکھ۔ پروردگارا! ملت ایران کو دشمنوں سے زیادہ طاقتور بنا، اسے دشمنوں پر فتحیاب کر، ہمارے امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مقدس کو ہمارے لئے مہربان بنا، امام زمانہ کی دعائیں ہمارے شامل حال فرما، امام خمینی اور عزیز شہیدوں کی ارواح مطہرہ کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ حشر،آیت نمبر ۱۰ کا ایک حصہ
۲) سوره‌ یونس، آیت نمبر ۸۸ کا ایک حصہ
۳) سوره‌ ابراهیم، آیت نمبر ۲۴ اور آیت نمبر25 کا ایک حصہ
۴) سوره‌ طارق، آیات ۱۵ و ۱۶
۵) جرمنی
۶) یوکرین
۷) جان میک‌ کین‌
۸) سوره‌ مائده، آیت نمبر ۲۸
۹) صحیفه‌ى امام خمینی، جلد ۱۹، صفحہ ۳۲۷