قائد انقلاب اسلامی نے 30 مہر 1393 ہجری شمسی مطابق 22 اکتوبر 2014 کو جینیئس اور با صلاحیت نوجوانوں اور ملک کے تابناک مستقبل کی ضامن نوجوان نسل کے افراد سے ملاقات کو حد درجہ شیریں ملاقات قرار دیا اور تمام نوجوانوں کو سفارش کی کہ وطن عزیز کے اس افتخار آمیز آشیانے کو فکر و عزم و ارادے کی قوت سے اس طرح تعمیر کریں کہ وہ اس قابل فخر قوم اور اس کی تاریخ کے شایان شان معلوم ہو۔
قائد انقلاب اسلامی نے جینیئس و با صلاحیت قرار پانے والے طلبہ کو علمی امتیاز اور جینیئس ہونے کی حقیقت اور مفہوم کے بارے میں غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: علمی اعتبار سے جینیئس اور با صلاحیت افراد کی تین اہم خصوصیتیں؛ ہوش و استعداد، مطالعہ، لگن اور کام کرنے کے بھرپور حوصلے اور کام کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی قابل تعریف ہمت ہے اور اگر ان خصوصیات کا عالمانہ و حکیمانہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب رزق خداوندی اور خداداد نعمتیں ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

اس حقیر کے سن تک پہنچنے کے بعد اور اس عہدے پر رہتے ہوئے کسی بھی انسان کے لئے بہت کم ہی چیزیں ایسی ہوں گی جن کی لذت اور دلنشینی آپ جیسے افراد کے اجتماع سے ملاقات سے حاصل ہونے والی شیرینی جیسی ہو۔ ایسے نوجوانوں سے ملاقات کی شیرینی جو علمی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں اور ملک کے تابناک مستقبل کی نوید بن گئے ہیں۔ ہم جیسوں کی نگاہیں آپ لوگوں پر مرکوز ہیں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ لوگوں کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اپنے اس وطن اور اپنے اس مایہ ناز آشیانے کو اپنی قوت فکر اور عزم و ارادے سے اس طرح سنواریں کہ وہ اس سرزمین اور یہاں کی تاریخ کے شایان شان بن جائے۔ آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آج یہاں آپ لوگوں سے ملاقات پر مجھے بڑی خوشی ہے۔
جناب ستاری صاحب کی تقریر سے بھی میں واقعی بہت محظوظ ہوا۔ جناب عالی خود بھی ممتاز علمی شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کے والد شہید منصور ستاری بھی حقیقت میں ایک ممتاز علمی ہستی تھے۔ فکری لحاظ سے بھی، علمی و عملی اعتبار سے بھی، جوش و جذبے، ایمان اور دشوار میدانوں میں بھرپور شراکت و تعاون کے اعتبار سے بھی۔ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہید ستاری کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے اور جناب عالی کی توفیقات میں بھی اضافہ کرے۔ جو باتیں آپ نے بیان کیں، واقعی بہت اہم اور دلچسپ تھیں، بالکل صحیح باتیں تھیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ 'بنیاد نخبگان' (elite foundation) اور یہ ادارہ جو کئی سال تک ہمارے اصرار اور تاکید کے بعد بحمد اللہ وجود میں آیا اور اس نے اپنا کام شروع کر دیا، پروان چڑے اور اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر انجام دینے میں کامیاب ہو۔
ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں جو میری اصلی گذارش بھی ہے؛ ایک نکتہ جس پر ملک کے جینیئس افراد کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے، خود 'نخبہ' (elit) کا مسئلہ اور اس کا مفہوم ہے۔ اس مسئلے کا مدبرانہ اور عالمانہ انداز میں جائزہ لیجئے۔ اس سے مراد آپ کی صلاحیتوں اور سعی و کوشش کے لئے آپ کی ہمت و حوصلے کا امتزاج ہے، وہ حوصلہ جس کا آپ نے مظاہرہ کیا ہے اور جس تندہی کا ثبوت پیش کیا ہے، یہ ساری چیزیں، یعنی یہ استعداد، یہ ہمت اور یہ حوصلہ، آپ کو اللہ کی جانب سے ملنے والا عطیہ ہے۔ یہ رزق خداوندی ہے۔: وَ اللهُ فَضَّلَ بَعضَکُم عَلى بَعضٍ فِى الرِّزق؛ (۲) یہ ایسا رزق ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے۔ وہ استعداد اور ذہنی صلاحیت و توانائی جو آپ کے پاس ہے، اسی طرح وہ ہمت و حوصلہ جسے بروئے کار لاتے ہوئے آپ نے پڑھائی کی، تحقیق کی، مطالعہ کیا، کام کیا۔ بہت سے افراد کے پاس استعداد ہوتی ہے لیکن ہمت و حوصلے کا فقدان ہوتا ہے۔ آپ نے حوصلے کو بھی جو اللہ نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، استعمال کیا۔ بیٹھ کر پڑھائی کی، غور و فکر کیا، مطالعہ کیا، بحث و مباحثہ کیا۔ ان ساری چیزوں کو لئے تحمل اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمت اور مستقل مزاجی نعمت خداوندی ہے، یہ بھی رزق پروردگار ہے۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ یہ استعداد و صلاحیت، ہمت اور مستقل مزاجی کہاں سے حاصل ہوئی ہے، تو ہمیں یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ اسے استعمال کہاں کیا جائے، اسے کہاں صرف کیا جائے۔ اللہ تعالی نے اس کا تعین خود ہی کر دیا ہے۔: هُدًى لِلمُتَّقین. اَلَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون؛ (۳) انفاق کیجئے، یہ آپ کے لئے رزق پروردگار ہے، اسے خرچ کیجئے۔ انفاق رزق کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی جیب سے پیسہ نکالے اور ضرورتمند کی مدد کر دے۔ یہ رزق اس سے کہیں زیادہ بالاتر اور اس کی ارزش اس سے بیشتر ہے، چنانچہ اس کا انفاق بھی زیادہ اہم اور قیمتی ہوگا، اس کا انفاق کرنا چاہئے۔ رزق علم کے انفاق کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے معاشرے کی خدمت کیجئے، اپنی تاریخ کی خدمت کیجئے، اپنے مستقبل کی خدمت کیجئے، اپنی ملت کی خدمت کیجئے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ جو شخص 'نخبہ' (elit) قرار پایا ہے اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس رزق کے انفاق کا طریقہ یہ ہے کہ اسے آپ راہ خدا میں خرچ کیجئے، بندگان خدا کی بھلائی اور بہبود کی راہ میں استعمال کیجئے۔ احسان جتانے سے بھی اجتناب کیا جانا چاہئے، یہ بھی میں آپ کی خدمت میں عرض کر دوں کہ بیشک آپ یہ رزق جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے ان لوگوں پر صرف کرتے ہیں، جو عوام الناس کہے جاتے ہیں لیکن آپ کو بھی مستقل طور پر عوام الناس کی خدمات حاصل رہتی ہیں۔ تو یہ ایک طرح کا دو طرفہ لین دین ہے۔ یہی روٹی جو آپ کھاتے ہیں، یہ لباس جو آپ زیب تن کرتے ہیں، دیگر وسائل جو آپ استعمال کرتے ہیں، یہ گاڑی جس سے آپ کی آمد و رفت ہوتی ہے، یہ سب کن لوگوں کی زحمتوں کے ثمرات ہیں؟ یہ ان افراد کی محنتوں کے ثمرات ہیں جن کے لئے 'نخبہ' (elit) کا ٹائٹل استعمال نہیں کیا جاتا۔ وہ آپ کو ایک طرح سے خدمات فراہم کر رہے ہیں، تو آپ بھی اپنے انداز سے ان کی خدمت کیجئے، اسے کہتے ہیں 'نخبہ' (elit)۔ اگر اس انداز سے انفاق کیا گیا تو ہدایت پروردگار اور نصرت خداوندی کی شکل میں ثمرات حاصل ہوں گے۔ آپ دیکھئے اسی آیہ کریمہ میں میں: هُدًى لِلمُتَّقین؛ ہے۔ یہ کتاب متقین کو ہدایت عطا کرتی ہے۔ متقین کون لوگ ہیں؟ وہی جو؛ الَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون۔ جب آپ یہ انفاق کریں گے تو ان افراد کے زمرے میں شامل ہو جائیں گے کہ ہدایت پروردگار جن کے شامل حال ہے۔ یہ ہدایت عملی مہارتوں کی توسیع کے سلسلے میں بھی ہوتی ہے اور علمی مہارتوں کو بروئے کار لانے کی روش کے سلسلے میں بھی ہوتی ہے، اللہ تعالی ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں بھی خلاء موجود ہے آپ اسے پہچان کر پر کرنے کے لئے اقدام کرتے ہیں، وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہ کوئی بھی میدان ہو، اس سے فرق نہیں پرتا۔ آپ دیکھئے شہید چمران ایک ممتاز عملی شخصیت تھے۔ چمران کو سب ایک سپاہی، کمانڈر اور فوجی امور کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں، جبکہ چمران ایک ممتاز علمی ہستی تھے۔ میں نے خود ان کی زبان سے بھی اور دوسروں سے بھی سنا ہے کہ امریکا کے جن تعلیمی مراکز میں انہوں نے تعلیم حاصل کی وہاں جینیئس طلبہ میں شمار کئے جاتے تھے۔ وہ حقیقی معنی میں ایک ممتاز علمی شخصیت کے مالک تھے، لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب اس میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنی علمی استعداد کو، اپنی علمی توانائیوں کو اور اپنی اسی بلند ہمتی کو دفاعی میدان میں استعمال کیا اور عظیم کارنامے انجام دئے۔ اسے کہتے ہیں 'نخبہ' (elit)۔ اسی طرح شہید شہریاری بھی ایک 'نخبہ' (elit) ہیں۔ شہریاری نے جو کام انجام دیا اس کا تعلق جنگ اور دفاع سے نہیں ہے۔ ایک جگہ ایسی تھی جہاں کام کرنے کی ضرورت تھی، ایک احتیاج کی تکمیل کا مسئلہ تھا، وہ وہیں جاکر مشغول ہو گئے۔ اسی طرح ہمارے دیگر شہید 'نخبگان' ہیں، جنہوں نے واقعی اہم کارنامے انجام دئے۔ تو جب ہم یہ سمجھ لیں گے کہ یہ سب الہی عطیہ ہے، نعمت خداوندی ہے، رزق پروردگار ہے، تو ہماری سمجھ میں آ جائے گا کہ اس رزق خداوندی کو کہاں خرچ کرنا چاہئے۔ یہ میری اصلی گزارش تھی آپ لوگوں سے۔
علم و تحقیق کے موضوع پر ہم بہت کچھ بیان کر چکے ہیں۔ کئی سال سے یہ سلسلہ ہے اور بحمد اللہ یہ باتیں بے نتیجہ نہیں رہیں۔ گزشتہ دس بارہ سال کے عرصے میں ملک کے اندر صحیح سمت و جہت کے ساتھ ایک مہم انجام پائی۔ بحمد اللہ ہم پوری طرح چل نکلے ہیں۔ مگر یہ سفر جاری رہنا چاہئے۔ میں نے سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے لئے جو حکمنامہ جاری کیا ہے (4) اس میں بھی تاکید کی ہے کہ علمی تحریک کی پیش قدمی کے عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں آنا چاہئے، کیونکہ کوئي بھی وقفہ ہو، پسماندگی کا باعث ضرور بنتا ہے۔ ہم ایک عالمی مقابلے میں شریک ہیں، پسماندگی کے شکار بھی ہیں، البتہ اب ہماری رفتار اچھی ہے، لیکن پسماندگی اتنی زیادہ ہے کہ اس رفتار سے بھی ابھی پوری تلافی نہیں ہو سکی ہے۔ ابھی ہم اس منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں جہاں ہمیں پہنچنا ہے۔ لہذا ہمیں یہ سلسلہ جاری رکھنا ہوگا، محنت جاری رکھنی ہوگی۔ یہ علمی تحریک بہت ضروری ہے۔ اگر یہ علمی تحریک اسی انداز اور انہیں لوازمات کے ساتھ جاری رہے تو ملک نجات حاصل کر لیگا۔ ان لوازمات میں سے ایک نالج بیسڈ کمپنیاں قائم کرنا اور نالج بیسڈ معیشت کی طرف پوری طرح توجہ دینا ہے۔ یہ سب اس علمی تحریک کے لوازمات ہیں جو بحمد اللہ اپنے راستے پر آگے بڑھ رہی ہے۔
ہمارے عزیز ستاری صاحب نے بالکل صحیح بات کہی کہ جو ملک اور جو معیشت زیر زمین ذخائر اور وسائل پر منحصر ہو اور ہوا کے جھونکے کے ساتھ آ جانے والی دولت کی حکمرانی جہاں قائم ہو، وہاں نہ ممتاز صلاحیتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے، نہ تو ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، بلکہ ایسی صلاحیتوں کے مالک افراد کی ضرورت محسوس ہی نہیں کی جاتی۔ جب ہم نے یہ طے کر لیا کہ زیر زمین تاریخی سرمائے کو ہم باہر نکال کر خام مال کی شکل میں فروخت کرتے رہیں گے، رئیس زادوں کے نہج پر چلیں گے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اگر ہم رئیس زادوں کی طرح، جنہیں اپنے پیسے کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہے اور جو اپنا پیسہ جیسے بھی ممکن ہو خرچ کرتے ہیں، ملک کا نظم و نسق چلائيں گے تو پھر نہ تو علمی لیاقت والے افراد کی نشاندہی کی ضرورت ہوگی اور نہ ان کی افادیت کے بارے میں ہم سوچیں گے اور نہ ہی علمی استعداد والے افراد کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ملک کا مستقبل ایسے افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے گا جو زیر زمین ذخائر اور تیل کی پالیسیاں وضع کر رہے رہیں۔ آج یہی صورت حال ہے۔ ان کی پالیسی یہ ہے کہ کبھی تیل کی قیمت گرا دیں اور اچانک آپ دیکھیں گے کہ یکبارگی تیل کی قیمت بیس ڈالر کم ہو گئی ہے، کل تک مثال کے طور پر ایک سو پانچ ڈالر کے ریٹ پر بیچ رہے تھے مگر اب پچاسی ڈالر کی قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ یہ سب عالمی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جو ملک اپنی معیشت کو ایسے منصوبہ سازوں اور پالیسی سازوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے جو اس کے قومی مفادات کے دائرے کے باہر ہیں، اس ملک کا حال و مستقبل کیا ہوگا، آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ملک کے انتظامی امور داخلی توانائیوں کی بنیاد پر انجام دئے جانے چاہئے۔ بالکل صحیح اصطلاح (جناب ستاری نے) روئے زمین پر موجود سرمائے کی استعمال کی جس سے مراد ہماری اندرونی صلاحیتیں ہیں۔ ملک کا نظام ہماری افرادی قوت کی مدد سے، ہمارے نوجوانوں کی فکری صلاحیتوں کی مدد سے چلایا جانا چاہئے۔ اگر یہ ہو جائے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت وطن عزیز کی معیشت یا مستقبل پر اپنا تسلط قائم کرنے پر کامیاب نہیں ہو سکے گی اور ہماری معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہیں کر سکے گی۔ لہذا ہمیں علم و تحقیق کی طرف بڑھنا چاہئے، یہ بہت ضروری عمل ہے۔
البتہ علمی پیداوار اور علمی ایجادات کے سلسلے میں ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اسے ریسرچ پیپر تیار کرنے تک محدود نہ سمجھا جائے۔ جو اعداد و شمار دئے جاتے ہیں، شائع ہونے والے ریسرچ پیپر کے اعداد و شمار ہوتے ہیں، یہ ریسرچ پیپر دنیا کے اہم میگزینوں میں شائع ہوتے ہیں اور ان میں بعض ریسرچ پیپر واقعی بہت اہم اور قیمتی بھی ہوتے ہیں، ان سے لوگ رجوع بھی ہوتے ہیں اور یہ بہت اچھی چیز بھی ہے لیکن اسی پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ ریسرچ پیپر کے لئے ضروری ہے کہ کسی نئی ایجاد کے رجسٹریشن کا مقدمہ ثابت ہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ریسرچ پیپر ملکی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھے جائیں، اس پر یونیورسٹیاں بھی دھیان دیں اور علمی و تحقیقاتی مراکز اور ادارے بھی اس نکتے پر توجہ رکھیں۔
یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علمی پیشرفت، سب کی ذمہ داری ہے، یہ ایسا فریضہ ہے جو ملک کے تمام اداروں پر عائد ہوتا ہے۔ بیشک (elite foundation) جیسے اداروں پر اس کی ذمہ داری زیادہ ہے، انہیں بہت سے ضروری امور انجام دینے ہیں لیکن ملک کی تمام یونیورسٹیوں بلکہ گوناگوں اداروں جیسے تعلیم و تربیت کے ادارے، وزارت تعلیم، دیگر مختلف اداروں میں ہر ایک تعاون کر سکتا ہے۔ یہ جامع علمی روڈ میپ جو پیش کیا جا چکا ہے مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کر سکتا ہے۔ ہمیں ملک کی یونیورسٹیوں کو ایک مکمل علمی زنجیر کی طرح ایک دوسرے سے جوڑ دینا چاہئے۔ ایسا عظیم علمی نیٹ ورک قائم ہو جو ضرورت کے ہر شعبے کے لئے اور ہر پہلو سے علمی ایجادات اور علمی پیداوار کا کام انجام دے۔ ساتھ ہی وہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے بھی مددگار ثابت ہوں۔ ہمارے تحقیقاتی مراکز بھی، یونیورسٹیاں بھی، اسی طرح دیگر ادارے بھی جن کا علمی امور سے رابطہ ہے، ایک دوسرے سے تعاون کریں تو ان شاء اللہ جو ہمارا مطمح نظر ہے وہ حاصل ہو جائے گا۔ ہمارا ہدف یہی مکمل علمی نیٹ ورک اور زنجیر معرض وجود میں لانا ہے۔
میں آپ تمام نوجوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ اللہ سے اپنا رابطہ جہاں تک ممکن ہے، مستحکم کیجئے۔ آپ کے لئے جو بھی پروگرام ترتیب دئے جائيں اسی سمت و جہت سے مطابقت رکھتے ہوں۔ آپ نوجوانوں کے دل ابھی پاکیزہ ہیں، یہ پاکیزہ اور نورانی قلوب اللہ سے جتنا زیادہ قریب ہوں گے، اللہ سے جتنا زیادہ راز و نیاز کریں گے، خدا کی پناہ میں رہیں گے، خداوند عالم سے اپنا درد بیان کریں گے، آپ کے اندر یہ کیفیت جتنی زیادہ مستحکم ہوگی، یقین جانئے کہ مستقبل میں آپ کی کامیابیاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ اسی آیہ شریفہ : اَلَّذینَ یُؤمِنونَ بِالغَیبِ وَ یُقیمونَ الصَّلوةَ وَ مِمّا رَزَقنهُم یُنفِقون، (۶) میں اس انفاق سے پہلے نماز قائم کرنے کا حکم ہے، نماز اللہ تعالی سے رابطے کا مظہر اور آئینہ ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب فرمائے، ہمارے عظیم الشان امام اور ہمارے شہدائے عزیز کو آپ سب سے راضی و خوشنود رکھے، وہ آپ کے لئے دعا کریں۔ میں بھی ہمیشہ آپ نوجوانوں کے لئے دعا کرتا رہتا ہوں۔

والسّلام و علیکم و رحمةالله و برکاته

۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل سائنس و ٹکنالوجی کے امور کے نائب صدر اور (elite foundation) کے سربراہ ڈاکٹر سورنا ستاری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) سوره‌ نحل، آیت ۷۱ کا ایک حصہ «اللہ تعالی نے رزق کے اعتبار سے تم میں بعض کو بعض دیگر پر برتری دی ہے۔»
۳) سوره‌ بقره، آیه‌ ۲ اور آیه‌ ۳ کا کچھ حصہ «متقین کے لئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔»
۴) سپریم کونسل برائے ثقافتی انقلاب کے ارکان کی تقرری کا حکمنامہ مورخہ (۱۳۹۳/۷/۲۶ ہجری شمسی مطابق18 اکتوبر 2014)
5) سوره‌ بقره، آیه‌ ۳؛ « جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو روزی ہم نے انہیں دی ہے اس میں سے انفاق کرتے ہیں۔»