14 اردیبہشت 1394 ہجری شمسی مطابق 4 مئی 2015 کو ہونے والی اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے مخاطب افراد اور خاص طور پر نوجوانوں کو متاثر کرنے کے وسائل اور طریقوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ آج کے نوجوان کی توانائی، ہمت، عزم و ایمان 1980 کے عشرے کے نوجوان سے کم نہیں ہے، جبکہ آج کا نوجوان سنگین فکری خطرات سے روبرو ہے اور یہ انحرافی افکار بے شمار مواصلاتی ذرائع کی مدد سے بہت وسیع پیمانے پر پھیلائے جا رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم ‌(1)
بڑا مناسب اور شائستہ قدم ہے جو آپ نے اپنے صوبے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے اٹھایا ہے (2)۔ ان شاء اللہ آپ یہ کام انجام دیں گے۔ مسلط کردہ جنگ کا معاملہ اور اس سے متعلق گوناگوں پہلو یعنی یہی ایثار و قربانیاں اور یہ شہادتیں، کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ کوئی عام چیز نہیں ہے، یہ انتہائی غیر معمولی حقیقت ہے۔ اگر ہم بغور جائزہ لیں ان واقعات و تغیرات کا جو ان برسوں کے دوران رونما ہوئے اور ہمارے جوانوں نے ایثار و قربانی کی جو داستانیں رقم کیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ انقلاب کی بقاء کے لئے دائمی سرمایہ ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس سرمائے کو یونہی پڑا نہ رہنے دیں، اسے استعمال کریں۔ استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ شہیدوں کی یاد ہمیشہ زندہ رکھی جائے۔
جناب شاہ چراغی نے صوبہ سمنان کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کچھ نکات پر روشنی ڈالی۔ میں بھی ان باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ واقعی میرا نظریہ یہ ہے کہ آپ کا صوبہ بڑا ہی بابرکت صوبہ ہے۔ صاحب ایمان و دیندار عوام، علمی، سماجی اور سیاسی شخصیات کی اس صوبے میں کمی نہیں ہے؛ موجودہ حکومت میں بھی اور گزشتہ حکومت میں بھی، اسی طرح صدر مملکت بھی آپ کے صوبے نے دئے ہیں۔ اس پر بھی آپ کی توجہ رہنا چاہئے۔ بعض اوقات کچھ صوبوں کو حسد بھی ہونے لگتا ہے اور وہاں کے لوگ کہتے بھی ہیں کہ ہمارے صوبے سے کوئی اس عہدے پر کیوں نہیں پہنچ پاتا۔ الحمد للہ صوبہ سمنان علمی، سماجی، سیاسی اور مجاہد شخصیات اور ناموار افراد کے اعتبار سے واقعی مردم خیز صوبہ واقع ہوا ہے، اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔
بہرحال آپ نے جو قدم اٹھایا ہے وہ واقعی بہت گراں قدر قدم ہے۔ آج شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور ان کا نام اور ان کی یادوں کو زندہ رکھنا ایک فریضہ ہے۔ بعض لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان چیزوں کو فراموش کر دیا جائے۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں انقلابی تعلیمات، انقلاب کی امنگیں اور انقلاب کے اعلی اہداف بھی پسند نہیں ہیں، یہ لوگ شہیدوں کی یاد منائے جانے سے بھی عدم اتفاق رکھتے ہیں، اسے ناپسند کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے عوام شہداء سے محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے شہیدوں نے ایثار کیا ہے، اپنی زندگی قربان کر دی، اپنی راحت و آسائش قربان کر دی اور میدان جنگ میں جاکر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ بڑا عظیم عمل ہے۔ توصیف میں انسان بہت کچھ کہہ سکتا ہے لیکن جب عمل کا مقام آتا ہے تو یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اس کے لئے ایمان کے بلند درجات، پختہ ارادوں اور فولادی عزم کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی مدد سے انسان میدان کارزار میں قدم رکھتا ہے۔ شہدا نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
آپ نے اب تک جو اقدامات انجام دئے اور جو رپورٹ دی ہے وہ بہت مناسب ہے۔ یہ بہت اچھے اقدامات ہیں۔ شہیدوں کی یادوں کو زندہ رکھنا، ان کے نام کا تذکرہ کرنا، انھیں خراج عقیدت پیش کرنا، ان کی تصاویر اور ان کی کہی باتوں کی ترویج، یہ سب بہت اچھے کام ہیں۔ اب تک انجام دئے جا چکے اقدامات کے بارے میں جو فہرست آپ نے پیش کی وہ بھی بہت اچھی ہے۔ البتہ آپ کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ شہادت سے متعلق تعلیمات و معارف اور ایمان و ایثار کا جذبہ آپ کے سامعین کے اندر مستحکم ہو اور ان کے دل کی گہرائی میں اترے۔
مخاطب افراد ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔ میرا یہ خیال ہے کہ آج کا نوجوان سنہ اسی کے عشرے کے نوجوان سے عزم و ہمت، ایمان و ایقان اور توانائی میں کمتر نہیں ہے۔ یہ میرا نظریہ ہے۔ زمینی حقائق کے مطالعے، متعلقہ رپورٹوں اور اطلاعات کی بنیاد پر میری یہ رائے ہے۔ البتہ یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ آج کا نوجوان گوناگوں فکری خطرات کی زد پر ہے۔ سنہ اسی کے عشرے میں یہ چیزیں نہیں تھیں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ ان خطرات کے پس پردہ کارفرما عزائم اس زمانے میں نہیں تھے۔ تخریبی عزائم کے سلسلے میں آج اور کل میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ عزائم ہمیشہ سے موجود تھے اور آئندہ بھی موجود رہیں گے۔ تاہم آج جتنے وسائل نہیں تھے۔ آج وسائل و ذرائع بہت زیادہ ہیں۔ آج جو مواصلاتی ذرائع ہیں ان کی مدد سے کسی بھی غلط بات اور غلط فکر کو بہت بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں یہ وسائل نہیں تھے، لیکن آج سب کو دستیاب ہیں۔ اس نکتے پر توجہ دینا چاہئے۔
آپ نے بتایا کہ موبائل کی سطح پر آپ نے کچھ اقدامات کئے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ میں اس کی نفی نہیں کرتا۔ تاہم آپ یہ جائزہ لیجئے کہ کیا چیز ہے جو نوجوان کے ذہن کو ایمان اور ایثار کے موضوع کی طرف متوجہ کر سکتی ہے؟ کیا چیز اس کے قلبی التزام کو عمیق اور اس فکر سے ذہنی وابستگی کو مستحکم بنا سکتی ہے۔ اس کا مطالعہ کیجئے! یہ چیز کسی کو بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے مخاطب افراد کو بخوبی پہچانے۔ آج ہمارے مخاطب افراد کی تعداد کروڑوں میں ہیں، جن میں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم نوجوان، اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم نوجوان اور دیگر میدانوں میں موجود نوجوان سب شامل ہیں۔ یہ سب ہمارے مخاطب افراد ہیں۔ مخاطب افراد کو بھی پہچاننا ضروری ہے اور ان کی صلاحیتوں کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا ضروری ہے کہ ان سے کس طرح بات کرنی چاہئے؟ یہ بہت اہم ہے۔ غور کیجئے کہ کیا بات کہنی چاہئے۔ آپ کے ارادے بہت اچھے ہیں، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آپ کی نیت بھی بہت اچھی ہے اور آپ کی مساعی و اقدامات بھی بہت اچھے ہیں۔ لیکن بعض کام ایسے ہیں کہ جن کے سلسلے میں ماہرین سے، اس میدان کے تجربہ کار افراد سے مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے آپ کبھی نہ بھولئے۔ غور کیجئے کہ کس طرح یہ کام آپ انجام دے سکتے ہیں۔ فی الحال آپ صوبے کی سطح پر جائزہ لیجئے! جناب نے فرمایا کہ چھوٹا سا صوبہ ہے۔ مگر یہ بہت چھوٹا بھی نہیں ہے۔ یعنی وسعت کے اعتبار سے یہ چھوٹا صوبہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آبادی کچھ کم ہو، یہ بہت زیادہ آبادی والا صوبہ تو نہیں ہے، لیکن چھوٹا صوبہ نہیں ہے۔ ثقافت کے اعتبار سے اس صوبے کے علاقوں میں فرق ہے۔ آپ دیکھئے کہ سمنان اور شاہرود یکساں نہیں ہیں۔ آپ تو خود اس صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ لیکن مجھے بھی آپ کے صوبے سے آشنائی ہے۔ آپ تحقیق کیجئے کہ اس صوبے میں آپ کے جو مخاطب افراد ہیں اور صوبے میں جو کلچر کا تنوع پایا جاتا ہے اس کے پیش نظر، کس طرح بات کی جانی چاہئے؟ کیا بات کرنی چاہئے کہ اس کا اثر ہو؟ اگر آپ کی اس کانفرنس میں اس چیز کی نشاندہی ہو سکے تو واقعی یہ بہت نمایاں کام ہوگا، واقعی بہت عظیم کام کہا جائے گا۔
علمائے کرام کی خدمات حاصل کیجئے، مواصلاتی امور کی مہارت رکھنے والے افراد کی مدد لیجئے، جو مسائل موجود ہیں ان میں انتخاب کیجئے۔ فن و ہنر کو بنحو احسن بروئے کار لائیے۔ آپ نے ترانے کا ذکر کیا۔ یہ بہت اہم ہے۔ اگر آپ اثر انگیز، پرکشش اور پرمغز ترانہ تیار کر لے جائیں، ایسا ترانہ کہ بچے جب گلی کوچے سے گزر رہے ہوں، گھر سے اسکول جا رہے ہوں تو اسے گنگنائیں، تو واقعی یہ بہت عظیم کارنامہ ہوگا۔ یعنی ہنر کا بہترین استعمال۔ یہ چیز آپ کا کام آسان کر دیگی، آپ کے ہدف کو سہل کر دیگی۔ محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
خوشی کی بات ہے کہ آج ملک کسی فوجی جنگ سے روبرو نہیں ہے، لیکن سیاسی جنگ جاری ہے، اقتصادی جنگ میں مصروف ہے، سیکورٹی کی جنگ میں مصروف ہے اور اس سب سے بڑھ کر ثقافتی جنگ میں مصروف ہے۔ یہ ایک جنگ ہے۔ اگر کسی کو یہ نہ معلوم ہو تو وہ غفلت میں ہی رہ جائے گا۔ اگر کسی کو یہ نہ پتہ ہو تو سوتا رہ جائے گا۔ اگر آپ کو یہ نہ پتہ ہو کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے اور یہ علم نہ ہو کہ حملہ کہاں سے اور کیسے کیا جائے گا تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی شکست یقینی ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ دشمن کیا کر رہا ہے۔ آج ملک کے حالات یہی ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ثقافتی جنگ اور اقتصادی جنگ ہو رہی ہے تو یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ ملک میں سکون و چین کی کیفیت رہے۔ ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ احساس تحفظ رہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ لوگ خود کو محفوظ سمجھیں۔ یعنی پکڑ دھکڑ اور ہنگامہ نہ ہو۔ سب کے اندر احساس تحفظ رہے۔ یہ چیز ہمیں بھی پسند ہے۔ لیکن ہماری یہ بات اس انتباہ سے متصادم نہیں ہے کہ دشمن بڑے خاص انداز میں ہم پر حملے کر رہا ہے۔ اس خاص انداز کو پہچاننے اور اس کے مقابلے کا طریقہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بہت سے طریقے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ ہیں جو اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتے، اسے باور کرنے کو ہی تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ اگر انھوں نے باور کر لیا تو ان کے دوش پر کچھ فرائض بھی آ جائیں گے اور بعض لوگوں میں فرائض کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں ہے۔ لیکن حقیقت امر یہی ہے۔ آج مختلف میدانوں میں، جیسا کہ میں نے عرض بھی کیا کہ اقتصادی میدان میں بھی، ثقافتی میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی، ملک کے اندر ایک جنگ جاری ہے۔ وَ اِنَّ اَخَا الحَربِ الاَرِق (3)، جو جنگ کے میدان کا سپاہی ہوتا ہے وہ بیدار رہتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا: وَ مَن نامَ لَم یُنَم عَنه (4)، محاذ جنگ پر اگر آپ کو نیند آ گئی تو ضروری نہیں ہے کہ فریق مقابل کو بھی نیند آ گئی ہو اور وہ بھی غافل ہو۔ اگر آپ اس کی جانب سے غافل ہو گئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بھی آپ کی طرف سے غافل ہو گیا ہے۔ بالکل نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کو نیند آ جائے لیکن دشمن بیدار ہو۔ اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔ اسی وجہ سے یہ بڑا اہم میدان ہے۔
ہم شکر گزار ہیں آپ تمام حضرات کے کہ آپ نے ہمت دکھائی، محنت کی اور یہ اچھی شروعات کی ہے۔ ایسے وسیع کاموں کے لئے دس سال کی مدت بہت مناسب ہے۔ جناب شاہ چراغی صاحب نے اشارہ کیا کہ آپ دس سال سے کام کر رہے ہیں۔ مجھے اس طرح کے کام بہت اچھے لگتے ہیں جو اطمینان کے ساتھ اور فرصت سے انجام دئے جاتے ہیں۔ بس آنا فانا میں فیصلہ کیا اور چھے مہینے کے اندر شروع کر دیا۔ اس طرح کام نہیں ہوتا۔ سکون اور اطمینان سے ہونا چاہئے۔ آپ نے اطمینان سے یہ کام کیا ہے۔ اللہ تعالی آپ کی زحمتوں کو قبول فرمائے اور آپ کو کامیابی عطا کرے۔
۱) قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل سمنان کے امام جمعہ اور ولی امر مسلمین کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین سید محمد شاہ چراغی اور صوبہ سمنان میں پاسداران انقلاب کی قائم آل محمد عجّل اللہ تعالی فرجہ الشریف بٹالین کے کمانڈر، جنرل شاہ چراغی نے رپورٹیں پیش کیں۔
 
۲) اس کانفرنس کے لئے 7 مئی 2015 کی تاریخ کا انتخاب کیا گیا۔
3) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۶۲
4) ایضا