27 تیر 1394 ہجری شمسی مطابق 18 جولائی 2015 کو نماز عید الفطر کے خطبوں میں قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملت ایران کی صحیح شناخت کا طریقہ اسی قسم کے حقائق پر تدبر کرنا ہے، ایسے حقائق جو ثابت کرتے ہیں کہ یہ قوم عبادت کا موقع ہو تو کس انداز سے عمل کرتی ہے اور استکبار سے مقابلے کا مسئلہ ہو تو کس طرح دوسری قوموں کی رہنمائی کرتی ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے نماز عید کے دوسرے خطبے میں علاقے میں رونما ہونے والے ناگوار واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ سیاہ کارناموں میں مصروف کچھ نامبارک ہاتھوں نے یمن، بحرین، فلسطین اور شام جیسے علاقائی ملکوں میں عوام کے لئے مبارک مہینے رمضان کو بھی تلخ اور سخت بنا دیا ہے اور یہ مسائل ملت ایران کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی مسئلے سے متعلق مسودے کا جائزہ لینے والے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی مصلحت اور قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے پوری توجہ سے آپ اپنا کام کیجئے تاکہ آپ اس بحث و جائزے کے نتیجے کو سر اونچا کرکے ملت ایران اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں پیش کر سکیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس وقت دی جانے والی دھمکیوں اور ایران کے دفاعی امور پر ٹکی ہوئی دشمن کی نگاہوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: بفضل پروردگار ملک کی دفاعی توانائیوں اور سیکورٹی کی حدود کی حفاظت کی جائے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران دشمن کے بے جا مطالبات کے سامنے ہرگز نہیں جھکے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے امریکی حکام کو مخاطب کرکے فرمایا: ہم کسی بھی جنگ کا استقبال نہیں کرتے اور کوئی بھی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے لیکن اگر جنگ ہو گئی تو میدان سے نادم ہوکر باہر نکلنے والا جارح اور مجرم امریکا ہی ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
السّلام علیکم و رحمة الله. الحمد لله ربّ‌ العالمین، الحمد لله الّذی خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون. نحمده و نسبّحه و نتوب الیه و نصلّی و نسلّم علی حبیبه و نجیبه و خیرته فی خلقه سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی ءاله الاطیبین الاطهرین المنتجبین الهداة المهدیّین المعصومین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

اس عید سعید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں، عزیز ملت ایران کی خدمت میں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی خدمت میں۔ آپ نمازیوں کو اور خود کو سفارش کرتا ہوں تقوائے الہی و پرہیزگاری کو ملحوظ رکھنے اور نفس پر دائمی نگرانی اور گناہوں سے دوری کی۔
اس سال کا ماہ رمضان حقیقت میں بڑا بابرکت مہینہ تھا۔ اس قوم پر برکات الہیہ کی بارش ہوئی اور اس کی علامتیں طولانی اور تپتے ہوئے دنوں میں کی جانے والی روزہ داری میں، ملک گیر سطح پر وسیع قرآنی محفلوں کے انعقاد میں، دعا و توسل کی عظیم نشستوں میں جن میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں سب خضوع و خشوع سے دست دعا بلند کرتے تھے اور اپنے خالق سے مخلصانہ اور خاکسارانہ انداز میں ہمکلام ہوتے تھے، مساجد میں، چوراہوں اور سڑکوں پر وسیع پیمانے پر دی جانے والی افطاری میں جو بحمد اللہ گزشتہ چند سال سے رائج ہے، اسی طرح یوم القدس کے موقع پر نکلنے والے عظیم جلوسوں میں نمایاں اور آشکار رہیں۔ یہ سب رحمت پروردگار کی نشانیاں ہیں۔ روزہ دار عوام نے ماہ رمضان المبارک کی تیئیسویں شب کو شب قدر کی مناسبت سے بیداری میں بسر کرنے کے بعد اگلے دن موسم گرما کے جلتے ہوئے دن میں روزے کے عالم میں عظیم الشان جلوسوں میں شرکت کی۔ ملت ایران کی صحیح شناخت انھیں چیزوں سے حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ ہے ملت ایران۔ یہ ہے ایرانی قوم جو محراب عبادت میں اس انداز سے نمودار ہوتی ہے اور استکبار سے مقابلے کا مرحلہ ہو تو ایک الگ انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ ہماری قوم کو اغیار کے مفاد پرستانہ بیانوں اور پروپیگنڈوں کے آئینے میں نہیں دیکھنا چاہئے۔ ہماری قوم کو خود اس کی ذات کے ذریعے، اس کے نعروں کے ذریعے، اس کے اقدامات کے ذریعے، ان عظیم جلوؤں کے ذریعے پہچاننا چاہئے۔ یہ ہے ملت ایران۔ دشمن پروپیگنڈا کرکے ملت ایران کی جو تصویر پیش کرنا چاہتا ہے اور بعض کج فہم افراد جسے دہراتے رہتے ہیں وہ غلط اور منحرفانہ بات ہے۔ ملت ایران وہ قوم ہے جس نے اپنے گوناگوں پہلوؤں اور خصائص کی نمائش رمضان کے اس مہینے میں کی۔ ان شاء اللہ آج آپ سب کو شرف قبولیت حاصل ہوگا۔ آج عید کی مناسبت سے ان شاء اللہ لطف و رحمت پروردگار کے سرچشمے سے ملت ایران کو قبولیت کا سرٹیفکیٹ حاصل ہوگا، ممتاز درجات حاصل ہوں گے اور روحانی و معنوی ارتقاء کی منزل نصیب ہوگی۔ ملت ایران کے نعروں سے ثابت ہو گیا کہ اس کی سمت و جہت کیا ہے۔ یوم القدس کے موقع پر اسرائیل مردہ باد امریکا مردہ باد کے نعروں سے پورا ملک گونج اٹھا۔ یہ صرف تہران اور بڑے شہروں کی بات نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں اس عظیم عمل کے ذریعے ایک سماں بندھ گیا۔
پالنے والے اپنے لطف و کرم سے ملت ایران کے اعمال کو قبول فرما! پالنے والے اس قوم پر اپنی توفیقات، اپنی رحمت اور اپنے بیکراں الطاف کی بارش کر دے! پالنے والے ہمارے عزیز شہدا کو، ہمارے عظیم قائد کو، اس راستے میں ملت ایران کی مدد کرنے والے تمام افراد کو اپنی رحمت و مغفرت کے سائے میں رکھ۔

بِسمِ‌ اللهِ ‌الرَّحمنِ‌ الرَّحیمِ
وَ العَصرِ. اِنَّ الاِنسانَ لَفی خُسر. اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر. (۱)

خطبہ دوم

بسم‌ الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و صلّ علی ائمّة المسلمین و حماة المستضعفین، امیرالمؤمنین، و سیّدة نساء العالمین و الحسن و الحسین سبطی الرّحمة و امامی الهدی و علیّ بن الحسین زین‌ العابدین و محمّد بن علیٍّ و جعفر بن محمّدٍ و موسی بن جعفرٍ و علیّ بن موسی و محمّد بن علیٍّ و علیّ بن محمّدٍ و الحسن بن علیٍّ و الخلف الهادی المهدیّ، حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک.

سلام و تہنیت اور مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام نماز گزار بھائیوں اور بہنوں کو، ساتھ ہی تقوی کی سفارش بھی کرتا ہوں۔ دوسرے خطبے میں یہ ہماری سب سے پہلی گزارش ہے۔
اس ماہ رمضان میں ہمارے علاقے میں رونما ہونے والے واقعات بڑے ناگوار واقعات تھے اور اب بھی رونما ہو رہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ کچھ ناپاک ہاتھوں نے ماہ مبارک کو علاقے کے بہت سے لوگوں کے لئے تلخ بنا دیا۔ یمن میں، بحرین میں، فلسطین میں، شام میں بہت سے صاحب ایمان مسلم عوام دشمنوں کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے بڑی سختیوں اور دشواریوں سے گزرے۔ یہ تمام واقعات ہماری قوم کے لئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
ایک داخلی مسئلہ ایٹمی مذاکرات کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنی ہیں۔ سب سے پہلے تو شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اس طولانی اور حساس مذاکرات سے تعلق رکھنے والے افراد کا، صدر محترم اور مذاکراتی ٹیم کا جنھوں نے واقعی بڑی زحمت اٹھائی، بہت محنت کی۔ جو متن تیار ہوا ہے وہ اپنے طے شدہ قانونی مراحل کو طے کرنے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، ان افراد کو ان کا اجر دونوں صورتوں میں ملے گا۔ یہ بات میں نے ان برادران عزیز کی خدمت میں بھی عرض کی۔ اس متن کی منظوری کے لئے ایک طے شدہ قانونی عمل ہے، اس متن کو یہ عمل طے کرنا ہے اور وہ ان شاء اللہ طے کرے گا۔ ہماری توقع یہ ہے کہ متعلقہ افراد پوری توجہ کے ساتھ ملکی مفادات کو اور قومی مفادات کو مد نظر رکھیں تاکہ جو چیز وہ ملت ایران کی خدمت میں پیش کرنے جا رہے ہیں اسے سرخروئی کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں بھی پیش کر سکیں۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ یہ متن منظور ہو یا نہ ہو، بفضل پروردگار کسی کو بھی اس سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ اسلامی نظام کے اساسی اصولوں میں رخنہ ڈالنے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی۔ بفضل پروردگار ملک کی دفاعی صلاحیتوں اور سیکورٹی کی حدود کی بخوبی حفاظت کی جائے گی۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ دشمن کی نگاہ اسی پہلو پر مرکوز ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی دفاعی اور سیکورٹی صلاحیتوں کی حفاظت کے معاملے میں، خاص طور پر دشمنوں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے اس ماحول میں، ہرگز دشمن کے کسی بھی بیجا مطالبے کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ متن منظوری کے مراحل طے کر پائے یا نہ کر پائے ہم علاقے میں اپنے دوستوں کی حمایت و پشت پناہی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔ مظلوم فلسطینی عوام، یمن کے مظلوم عوام، شام کی حکومت اور عوام، عراقی حکومت اور قوم، بحرین کے مظلوم عوام اور لبنان و فلسطین میں مزاحمتی محاذ کے سچے مجاہدین کی حمایت ہمیشہ جاری رہے گی۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات اور جو متن تیار ہوا ہے اس کی وجہ سے امریکا کی استکباری حکومت کے بارے میں ہماری پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ علاقائی و عالمی مسائل کے بارے میں ہم امریکا سے مذاکرات نہیں کر رہے ہیں۔ دو طرفہ مسائل کے بارے میں مذاکرات نہیں کر رہے ہیں۔ بعض اوقات کچھ استثنائی مسائل جیسے اسی ایٹمی مسئلے کے بارے میں مصلحتوں کی بنیاد پر ہم نے مذاکرات کئے ہیں، صرف ایٹمی مسئلے کی بات نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی کچھ دیگر امور کے بارے میں بھی مذاکرات ہوئے جن کا ذکر میں نے اپنی گزشتہ عمومی تقریروں میں کیا ہے۔ علاقے کے بارے میں امریکا کی پالیسیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی میں ایک سو اسی درجے کا فرق ہے۔ امریکی، حزب اللہ پر، لبنان کی مزاحمتی تنظیم پر جو ملک کی سب سے فداکار دفاعی فورس ہے، دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں! اس سے زیادہ ناانصافی اور کیا ہوگی؟ دوسری جانب وہ بچوں کی قاتل دہشت گرد صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسی پالیسی اور روش کے ساتھ کیسے تعاون کیا جا سکتا ہے، کیسے گفتگو کی جا سکتی ہے، کیسے کوئی اتفاق رائے ہو سکتا ہے؟ دوسرے بھی متعدد مسائل ہیں جن کی تفصیلات میں کسی اور موقع پر بیان کروں گا۔
ایک اور نکتہ ان چند دنوں کے دوران سنائی دینے والی امریکیوں کی رجز خوانی سے متعلق ہے۔ مذاکرات ختم ہونے کے بعد، ان چند دنوں کے دوران امریکی حکام، امریکی حکومت کے مرد اور خاتون عہدیداران رجز خوانی میں مصروف ہیں۔ ہر کوئی اپنے انداز میں رجز خوانی کر رہا ہے۔ البتہ ہمیں ان کے اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ان کی داخلی مشکلات انھیں اس رجز خوانی پر مجبور کرتی ہیں کہ؛ ہم نے ایران کو مذاکرات کی میز پر گھسیٹ لیا، ہم نے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، ہم نے ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے سے روک دیا، ہم نے ایران سے فلاں مرعات حاصل کر لیں، وغیرہ! جبکہ حقیقت ماجرا کچھ اور ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روک دیا۔ ایران کے ایٹمی ہتھیار کا امریکا اور دوسرے ملکوں کے بیانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ خود بھی اس حقیقت سے واقف ہیں اور بعض اوقات انھوں نے خود بھی ایٹمی ہتھیار کی حرمت سے متعلق فتوے کا ذکر کیا ہے۔ ہم حکم قرآن اور شریعت اسلامیہ کی روشنی میں ایٹمی ہتھیار کی ساخت، نگہداشت اور اس کے استعمال کو حرام مانتے ہیں، لہذا اس سلسلے میں ہم کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ ہمارے اس موقف کا امریکیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی مذاکرات سے اس کا کوئی ربط ہے۔ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک سچائی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اگر ایٹم بم نہیں بنایا ہے تو اس کی وجہ ان کی دھمکیاں اور ہتھیاروں کا خوف نہیں بلکہ ایک شرعی مسئلہ ہے۔ وہ اس فتوے کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا دعوی ہے کہ ایران کو انھوں نے روکا ہے۔ وہ اپنے عوام سے سچ نہیں بولتے، حقیقت بیانی سے کام نہیں لیتے۔ وہ دوسرے بھی متعدد مسائل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہم نے ایٹمی صنعت کے مسئلے میں یہ کر دیا، یہ کہہ دیا، ایران کو جھکا دیا! وہ ایران کو جھکانے کا بس خواب ہی دیکھتے رہیں گے۔ انقلاب کے آغاز سے اب تک امریکا کے پانچ اور صدور اسی آرزو میں کہ اسلامی جمہوریہ کو جھکا لیں، یا مر گئے یا تاریخ میں گم ہوکر رہ گئے۔ انھیں کی مانند آپ بھی ہیں اور آپ بھی ایران کو جھکانے کی آپ کی بھی آرزو بھی بس دل ہی میں رہ جائے گی۔
ان چند دنوں کے دوران امریکا کے صدر کے بیانوں میں ایک بات اور نظر آئی؛ انھوں نے امریکا کی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کیا۔ البتہ انھوں نے جو اعتراف کیا وہ 'مشتی از خروارے' ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ 19 اگست کو امریکیوں نے ایران میں جو کیا وہ ایک غلطی تھی۔ اعتراف کیا کہ صدام حسین کی مدد کرنا امریکیوں کی غلطی تھی۔ دو تین غلطیوں کا ذکر کیا۔ مگر درجنوں غلطیوں کو بیان نہیں کیا۔ انھوں نے پچیس سال تک چلنے والی دوسری ظالمانہ و جائرانہ پہلوی حکومت کا ذکر نہیں کیا، ایذارسانیوں، قتل عام، جرائم، المیوں، ملت ایران کے وقار کی تاراجی، ملت ایران کے داخلی و خارجی مفادات کی پامالی، جو امریکا کے ہاتھوں انجام پائی اس کی بات نہیں کی۔ صیہونیوں کے تسلط کا ذکر نہیں کیا، سمندر سے میزائل فائر کرکے ایران کے مسافر بردار طیارے پر سوار مسافروں کے قتل عام کا ذکر نہیں کیا۔ دوسری بہت سی چیزوں کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم چند غلطیوں کا ذکر کیا۔ میں ان حضرات کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں؛ برسوں کا طویل عرصہ گزر جانے کے بعد آج آپ 19 اگست یا آٹھ سالہ جنگ اور اسلامی جمہوریہ کے مقدس دفاع کے زمانے سے متعلق اپنی غلطیوں کا اعتراف کر رہے ہیں اور تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے غلطی کی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اس وقت بھی غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ آج بھی اس علاقے میں مختلف جگہوں پر اور اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کے تعلق سے غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ چند سال بعد کوئی اور آئے گا اور آپ کی انھیں غلطیوں کا ذکر کرے گا، جس طرح آج آپ اپنے پیشروؤں کی غلطیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔ آپ بھی غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جاگئے! اپنی اس غلطی سے خود کو نجات دلائیے! حقیقت کو سمجھئے! علاقے میں یہ لوگ بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔
میں ملت ایران کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ توفیق خداوندی اور نصرت پروردگار سے اسلامی جمہوریہ بہت مقتدر اور توانا ہے اور اس کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ دس بارہ سال ہو رہے ہیں کہ دنیا کی چھے بڑی حکومتیں جو اقتصادی ثروت اور دیگر پہلوؤں سے دنیا کی طاقتور حکومتیں تصور کی جاتی ہیں، یہ حکومتیں ایران کے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھی ہوئی ہیں اور یہ کوشش کر رہی ہیں کہ ایران کو ایٹمی صنعت کے میدان میں آگے بڑھنے سے روک دیں، یہ بات انھوں نے صریحی طور پر کہی بھی ہے۔ ان کا اصلی مقصد یہ ہے کہ ایٹمی صنعت کا ہر اسکرو کھول کر الگ کر دیا جائے۔ یہ بات انھوں نے کئی سال قبل بھی ہمارے حکام سے صریحی طور پر کہی تھی۔ آج بھی ان کی یہی آرزو ہے۔ دس بارہ سال سے اسلامی جمہوریہ سے کشمکش جاری ہے۔ اس کشمکش کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ چھ طاقتیں آج ہمارے ملک کے اندر کئی ہزار سنٹری فیوج مشینوں کی گردش کو تحمل کرنے پر مجبور ہیں۔ ایٹمی صنعت کے میدان میں ریسرچ کا کام جاری رہے گا، ایٹمی صنعت آگے بڑھتی رہے گی۔ اسے روکنے کے لئے انھوں نے برسوں ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن آج انھوں نے تحریری طور پر مانا ہے اور اس تحریر پر دستخط کرنے جا رہی ہیں کہ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہ ملت ایران کی قوت و توانائی کے علاوہ اور کس چیز کی علامت ہے؟ یہ قوم کی استقامت، ملت ایران کی ثابت قدمی اور ہمارے عزیز سائنسدانوں کی شجاعت اور خلاقیت کا ثمرہ ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں شہریاریوں، رضائی نژادوں، احمدی روشنوں اور علی محمدیوں پر ( ایران چار معروف جوہری سائنسداں جنھیں صیہونی حکومت نے اپنی سازش کا نشانہ بناکر شہید کروا دیا)، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں جوہری سائنسدانوں پر، اللہ کی رحمت نازل ہو ان کے اہل خانہ پر، رحمت خدا کا نزول ہو اس قوم پر جو اپنی حق بات پر ثابت قدم ہے اور اپنے حقوق کے حصول کے لئے ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔
ایک بات اور ہے جو آخری نکتے پر طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں۔ ان حضرت نے کہا ہے کہ وہ ایران کی فوج کو نابود کر سکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اس طرح کی باتوں کو «لاف در غریبى» (۲) کہا جاتا تھا۔ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ہے۔ جو لوگ ہماری یہ بات سنیں گے اگر وہ بخوبی سمجھنا چاہتے ہیں، اگر وہ چاہتے ہیں کہ اپنے تجربات کو صحیح طریقے سے استعمال کریں، تو وہ جان لیں، ہم کسی بھی جنگ کا استقبال نہیں کرتے، ہم کوئی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے، ہم شروعات نہیں کریں گے، لیکن اگر یہاں کوئي جنگ ہوئی تو جنگ سے ہزیمت اٹھاکر جو باہر نکلے گا وہ جارح اور جرائم پیشہ امریکا ہی ہوگا۔

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
اِذا جآءَ نَصرُاللهِ وَ الفَتح. وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فى دینِ اللهِ اَفواجًا. فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّکَ وَ استَغفِرهُ اِنَّهُ کانَ تَوّابًا. (۳)
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) سوره‌ عصر، آیت نمبر ۱ تا ۳؛ «زمانے کی قسم، بیشک انسان خسارے سے دوچار ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے شائستہ عمل انجام دیا اور جو ایک دوسرے کو حق اور صبر کی سفارش کرتے ہیں۔»
۲) سامعین ہنس پڑے‌
۳) سوره‌ نصر، آیت نمبر ۱ الى ۳؛ «جب نصرت الہی اور فتح آ پہنچے اور تم دیکھو کہ لوگ جوق در جوق دین خدا میں داخل ہو رہے ہیں تو حمد پروردگار کی تسبیح پڑھو، اس سے طلب مغفرت کرو کہ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔»