قائد انقلاب اسلامی نے 25 شہریور 1394 ہجری شمسی مطابق 16 ستمبر 2015 کو اپنے اس خطاب میں اسلامی انقلاب کے محافظ سپاہیوں 'پاسداران انقلاب اسلامی' کے مقام اور موجودہ حالات میں اور مستقبل میں ان کے اہم فرائض کی تشریح کرتے ہوئے چار الفاظ؛ 'سپاہ، پاسداران، انقلاب اور اسلامی پر روشنی ڈالی اور ان کے لوازمات اور خصوصیات کو بیان کیا۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین، و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

برادران و خواہران گرامی، خوش آمدید! ‌(۱( اس حقیر کے لئے انتہائی شیریں واقع ہونے والی ملاقاتوں میں سے ایک آپ سب سے ہونے والی یہ ملاقات ہے۔ خواہ آپ کے اندر موجود وہ افراد ہوں جو مقدس دفاع کے زمانے کی یادگار ہیں اور ہمارے ذہن میں بری قیمتی یادیں تازہ کر دیتے ہیں، یا وہ عزیز نوجوان اور بعد کی نسلوں سے تعلق رکھنے والے افراد جو ان چند عشروں کے دوران اس با برکت ادارے سے وابستہ ہوئے ہیں۔ دعا ہے کہ برکات الہیہ آپ سب کے شامل حال ہوں اور آپ ہر طرح کے حالات میں مقدس جہاد کے صراط مستقیم پر گامزن رہیں کہ یہی دنیا و آخرت میں انسان کی فلاح و کامرانی کا راز ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ذی الحجہ کا مبارک مہینہ بڑا اہم مہینہ ہے۔ اس کی ہمیں قدر کرنی چاہئے۔ عید غدیر اور عید قربان کے علاوہ اس مہینے میں جو عظیم مناسبتیں ہیں ان میں عرفہ ہے، یوم عرفہ کی قدر و منزلت ہمیں معلوم ہونی چاہئے۔ ہمیں بارگاہ رب العزت میں خشوع کے ساتھ حاضری کے لئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔ عرفہ کا دن بہت بڑا دن ہے۔ ہمارے دلوں پر گرد جم جاتی ہے، دل زنگ زدہ ہو جاتا ہے۔ خضوع و خشوع اور ذکر و توسل سے یہ زنگ اور یہ غبار ہٹ جاتا ہے۔ گرد و غبار کو جھاڑنے کے لئے کچھ معین ایام اور مواقع ہیں جن میں بہترین دن عرفہ کا دن ہے۔ یوم عرفہ کی ہمیں قدر کرنی چاہئے۔ عرفے کے دن ظہر کے وقت سے لیکر غروب آفتاب تک کے یہ چند گھنٹے بڑے اہم ہیں۔ ان چند گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اکسیر اور کیمیا کا اثر رکھتا ہے۔ ہمیں یہ لمحات غفلت میں بسر نہیں کرنا چاہئے۔
اس دن کے اعمال کا ایک نمونہ امام حسین علیہ السلام کی حیرت انگیز دعائے عرفہ ہے، جو بارگاہ خداوندی میں خضوع و خشوع، خاکساری اور مناجات و ابتہال (2) کا آئینہ ہے۔ ایک اور نمونہ امام سجاد علیہ السلام سے منقول دعا ہے جو صحیفہ سجادیہ میں ہے (3)۔ ان دعاؤں کو بڑی توجہ اور فکر و تدبر کے ساتھ پڑھئے۔ یہ آپ کا زاد سفر ہے۔
جو راستہ آپ کے سامنے ہے وہ بڑا طولانی، دشوار مگر بڑا باارزش ہے۔ زندگی گزارنے کے کئی طریقے اور راستے ہیں۔ زندگی تو ہر کوئی گزار رہا ہے۔ سب روزی روٹی کما رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، مباح کام، مستحب کام اور حرام کام۔ مگر جو راستہ آپ نے چنا ہے، وہ عدیم المثال ہے۔ اس کی مثال خس و خاشاک اور کنکر پتھر کی نسبت گوہر گراں بہا کی ہے۔ یہ بڑا اہم راستہ ہے۔ یہ زندگی گزارنے کے ان طریقوں میں سے ایک ہے جو تاریخ ساز ہوتے ہیں، قوموں کو سرفراز کرتے ہیں، ملکوں کو نجات دلاتے ہیں، مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں اور سب سے بالاتر اس کے نتیجے میں رضائے پروردگار اور بہشت دنیوی و اخروی آپ کا مقدر ہو سکتی ہے۔ یہ ایسا راستہ ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس راستے کی جو اہمیت ہے اسی سطح پر اس راستے میں دشواریاں، تھکن اور کانٹے بھی ہیں۔ اس کے لئے توانائی کی ضرورت ہے، جوش و جذبے کی ضرورت ہے۔ یہ اعمال اور یہ ذکر و توسل آپ کے وجود میں وہ جذبہ اور حوصلہ پیدا کرے گا۔ روحانیت سے، توسل سے اور خضوع و خشوع سے کبھی غافل نہ ہوئیے۔ پروردگار کی بارگاہ میں تضرع اور گریہ کا ہر لمحہ، انسان کے دل میں بڑا گراں قیمت خزانہ جمع کرتا ہے۔ تو یہ رہی ہماری پہلی گزارش۔
جہاں تک 'سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی' کا سوال ہے تو یہ چار کلمات پر مشتمل ہے اور ان میں ہر کلمے کی ایک الگ گہرائی، ایک الگ مضمون اور ایک الگ تشریح ہے۔ آپ سپاہ کے اندر مصروف عمل ہیں، اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ شاید آپ کو غور و خوض کرنے کے لئے بعد کے مفکرین اور اہل نظر جتنا موقع نہ ملے۔ لیکن بہرحال یہ گہرائی سے سوچنے والی چیز ہے۔ سپاہ، پاسداری، انقلاب اور اسلام۔ یہ چار کلمات ہیں جن سے آپ کا نام اور عنوان تشکیل پاتا ہے۔
پہلا لفظ ہے سپاہ؛ آپ سپاہ کا جز ہیں۔ انقلاب کی حفاظت و پاسبانی صرف سپاہ پاسداران انقلاب سے مختص تو نہیں ہے۔ یہ عمومی ذمہ داری ہے۔ ہر انسان اور ہر صاحب ایمان شخص پر اسکی ذمہ داری ہے۔ لیکن سپاہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک ادارہ ہے۔ ایک منظم تنظیم ہے، ایک فوج ہے۔ فوج ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نظم و ترتیب، ڈسپلن، انتظامی اقدامات اور ہر عمل کو نتیجہ خیز بنانے پر زور ہے۔ اگر پراگندگی اور انتشار کی کیفیت ہوگی تو افرا تفری ہوگی۔ محنت ضائع ہوگی۔ لیکن اگر ادارہ ہے، ایک منظم مجموعہ ہے، ایک سسٹم ہے، نظم و ضبط ہے تو یہ پانی سے بھرے ہوئے بند کے لئے نیٹ ورک تعمیر کرنے کی طرح ہوگا۔ یعنی اگر نیٹ ورک صحیح طور پر بچھا دیا گيا ہے تو پانی کا ایک قطرہ بھی ضائع نہیں ہوگا اور سب کو ضرورت بھر پانی مل جائے گا۔ ایک فوج ہونے کی یہ خصوصیت ہے۔
ملک کے اندر جو ادارے اور مراکز ہیں ان میں سپاہ پاسداران انقلاب کے علاوہ کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں ہے جو اس ملک کی تاریخ کی سب سے شیریں اور سب سے پسندیدہ تبدیلی اور آب دریا کی مانند جاری رہنے والے اس واقعے کی حفاظت کو اپنا محکمہ جاتی فرض سمجھے۔ مختصر یہ کہ 'سپاہ' (فوج) ہونے کا مطلب ہے منظم ہونا، ان کے اندر ڈسپلن اور نظم و ضبط پایا جانا، سپاہ ہونے کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس کے فرائض معین اور طے شدہ ہیں۔
'سپاہ' (فوج) اور منظم محکمہ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اس پر کبھی کہنگی طاری نہیں ہوگی۔ ادارہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ یکے بعد دیگرے نسلوں کا آنا، تجربات و معلومات کا ایک سے دوسری نسل تک منتقل ہونا کبھی کسی ادارے کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا، ہمیشہ اسے حیات نو ملتی رہتی ہے۔ معلومات و تجربات کی صرف منتقلی نہیں ہوتی بلکہ ان میں نمو اور فروغ بھی ہوتا رہتا ہے۔ یعنی آج سپاہ پاسداران انقلاب نے مختلف میدانوں میں جو معلومات و تجربات حاصل کئے ہیں، تیس سال پہلے اس کے پاس یہ معلومات اور یہ تجربات اس وضاحت اور اتنی تفصیلات کے ساتھ موجود نہیں تھے۔ مختلف میدانوں میں اطلاعات و معلومات کی سطح پر سپاہ پاسداران کی کامیابیاں روز بروز وسیع تر ہوتی گئی ہیں، ان میں زیادہ گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ یہ محکمہ اور ادارہ ہونے، سسٹم کے تحت ہونے اور منظم رہنے کی ایک اور خصوصیت ہے۔
اس کی ایک اور خصوصیت نئے عناصر کی تربیت ہے۔ اندرونی عناصر کی بھی تربیت اور بیرونی عناصر کی بھی تربیت۔ جب باقاعدہ ایک سسٹم موجود ہے، جب یہ پوری طرح مںظم ہے، تو ظاہر ہے کہ اس سسٹم کے تحت کام کرنے والے افراد تربیت بھی حاصل کرتے رہیں گے اور انتہائی کارآمد اور ذی فہم بنتے جائيں گے۔ اگر ادارے کے اندر انتشار کا عالم ہو تو یہ ثمرہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اندرونی افراد کی تربیت کے ساتھ ہی ساتھ باہر کے افراد کی تربیت اور ٹریننگ بھی ہوتی رہے گی۔ آج سپاہ پاسداران انقلاب کے اثرات رائے عامہ پر مرتب ہو رہے ہیں۔ انسانوں اور نوجوانوں کی تعمیر میں اس کا گہرا اثر ہے۔ سپاہ کے ذریعے دیگر محکموں کو ملنے والے افراد کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب نے ان برسوں کے دوران مختلف اداروں کے انتظامی امور سنبھالنے کے لئے مسلسل اپنے اندر سے قابل افراد فراہم کئے ہیں جو ان دیگر محکموں اور اداروں پر اثر انداز ہوئے۔ اس طرح انسانوں کی تربیت اور صاحب استعداد افراد کی پرورش کرنا بھی اس ادارے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب میدان میں نظر آنے والی قوت اور اقتدار کا مظہر ہے۔ یہ اس کے عسکری ادارہ ہونے کی خصوصیت ہے۔ سیاسی میدان میں اور تشہیراتی پلیٹ فارم پر قوت دکھانا الگ ہے اور میدان جنگ میں طاقت کا لوہا منوانا الگ ہے۔ میدان جنگ کی طاقت، ساسی اقتدار کا راستہ ہموار کرتی ہے۔ جب زمین پر آپ کے پاس قوت و طاقت ہے، آپ غلبہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کام کرنے پر قادر ہیں، جسے چاہیں دور بھگا سکتے ہیں اور جسے چاہیں اپنے قریب کر سکتے ہیں، جب کسی قوم کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے، جب کسی ادارے کے اندر یہ خصوصیت پیدا ہو گئی ہے تو اس کے سیاسی اقتدار کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا، اس کے تشخص کی بالادستی کا راستہ بھی ہموار ہو جائے گا، اسے وقار بھی حاصل ہوگا۔
سپاہ، میدان کی قوت و طاقت کی مظہر ہے۔ البتہ میدانی قوت و توانائی معیشت کے تعلق سے بھی بامعنی چیز ہے۔ معیشت میں بھی اگر ایک موثر اور فعال مجموعہ سرگرم عمل ہو تو معیشت میں بھی میدانی اقتدار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ الگ بحث ہے جس کا اپنا خاص موقع و محل ہے۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ سپاہ نے اسلامی انقلاب کی جو حفاظت کی ہے اور کر رہی ہے، ایک ادارے کی حیثیت سے، ایک لشکر کی حیثیت سے اور ایک سسٹم کی حیثیت سے، وہ حفاظت بے معنی ہوتی اگر با قاعدہ ایک سسٹم نہ ہوتا، اگر اس کے اندر انتشار کی کیفیت ہوتی۔ مثال کے طور پر اگر ایک گروپ ہوتا مومن انسانوں کا اور سب اسلامی انقلاب کے طرفدار ہوتے، یہ لوگ اسلامی انقلاب کی پاسداری و پاسبانی کرنا چاہتے تو ادارہ جاتی نظم و ضبط کے فقدان کی صورت میں، تو بالکل الگ ہی کوئی نتیجہ برآمد ہوتا۔ یہ محکمہ جاتی نظم و نسق، باقاعدہ ایک سسٹم کا موجود ہونا بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ سپاہ اور فوج کی خصوصیات ہیں۔
یہ جو خصوصیات ہم نے بیان کیں ان سب کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے عرض کیا ہے کہ سپاہ کو مسلسل نئی زندگی ملتی رہتی ہے۔ یہ کہنہ ہو جانے والا ادارہ نہیں ہے۔ بیشک افراد پر بڑھاپا آتا ہے لیکن ادارہ بوڑھا نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام عناصر جو اس خصوصیت میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، ان سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ جیسے جوانوں پر توجہ، خوش قسمتی سے سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر اس پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ رجحان صاف نظر آتا ہے جو مثبت چیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی تجربہ کار اور کہنہ مشق افراد کی خدمات بھی ضرور لی جائیں۔ یعنی سپاہ پاسداران انقلاب کے پرانے تجربہ کار افراد جو امتحانوں پر کھرے اترے ہیں، جنھوں نے اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائی ہیں، وسیع سرگرمیاں انجام دی ہیں۔ ادارے کی دائمی جدید کاری کے عمل میں ان افراد کی خدمات لی جائیں۔ ان کے بغیر یہ عمل مشکل ہوگا اور بسا اوقات ناممکن بھی ہو سکتا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے اندر نسلوں کے بیچ قطع تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ ہمارے پرانے مجاہدین نے واقعی بڑے کام انجام دئے ہیں، کارنامے رقم کئے ہیں، وہ بڑے عظیم امتحانوں سے سرخرو ہوکر باہر نکلے ہیں۔
میں اس زمانے میں تمام خبروں سے مطلع رہتا تھا اور بعد میں جنگ سے متعلق کتابیں بھی میں نے پڑھیں۔ لیکن اس کے باوجود کوئی نئی کتاب آتی ہے اور مجھے پڑھنے کا موقع ملتا ہے تو میں دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی نیا باب کھل رہا ہے۔ نئی باتیں نظر آتی ہیں۔ یہ آٹھ سالہ دور واقعی ملت ایران کے سامنے کسی عمیق و بیکراں سمندر کی مانند ہے جو اتنی آسانی سے ختم ہونے والا نہیں ہے۔ تو اس زمانے میں جو لوگ سرگرمیاں انجام دے رہے تھے، موثر کردار ادا کر رہے تھے، ان کی خدمات لی جانی چاہئیں۔ البتہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ جو بھی اس زمانے میں مصروف کار رہ چکا ہے، اسی زمانے کو مد نظر رکھ کر آج بھی اسے نمبر دیا جائے۔ نہیں، میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم سارے لوگ، میں بھی جو 80 سال کے قریب پہنچ چکا ہوں، آپ نوجوان بھی اور سن رسیدہ افراد بھی امتحان سے گزر رہے ہیں۔ لغزش کا اندیشہ رہتا ہے۔ کبھی بھی انسان کے قدم پھسل سکتے ہیں۔

حکم مستوری و مستی همه بر عاقبت است‌
کس ندانست کز اینجا به چه حالت برود(۴)

کبھی انسان پوری عمر اچھے انداز میں گزار لینے کے بعد کسی ایک سخت امتحان میں بالکل منقلب ہو جاتا ہے۔ تو ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ جو بھی اس زمانے میں سرگرمیاں انجام دے رہا تھا اسے ہر غلطی سے محفوظ تصور کریں اور اس کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی کوئی جرئت نہ کرے۔ ہمارا یہ کہنا نہیں ہے۔ لیکن بہرحال ماضی کی خدمات کی بھی قدر کی جائے۔ جو لوگ ان برسوں میں اس عظیم سرمائے کی حفاظت کرتے رہے ہیں، اس کو اپنے پاس محفوظ رکھا ہے، اس کی بڑی قیمت ہے۔ تو یہ رہی لفظ سپاہ کے بارے میں گفتگو جو ایک ادارے کی حیثیت سے اور منظم محکمے کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ یہ آپ کے عنوان کا پہلا جز ہے۔ ویسے ابھی اگر بیان کی جائیں تو بہت سی باتیں ہیں۔ مگر اس وقت کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
سپاہ پاسداران میں اگلا لفط ہے پاسدار، آپ پاسدار ہیں۔ انقلاب کی پاسداری در حقیقت ملک کے انقلابی عزم و جذبے کا آئینہ ہے۔ انقلابی عزم، انقلابی شراکت اور انقلابی تشخص کا آئینہ ہے۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اس ادارے کی ذمہ داری انقلاب کی پاسداری ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انقلاب کا عزم اب بھی پورے استحکام کے ساتھ باقی ہے اور انقلاب میدان میں پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ انقلاب کو صرف آغاز انقلاب، انقلاب کے شروعاتی دور اور انقلاب کی فتح کے ایام میں رونما ہونے والے واقعات و تغیرات تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔ وہ واقعات اس انقلاب کا ایک جز تھے۔ آپ اگر لفظ انقلاب کے معنی پر بخوبی غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ انقلابی تحریک، انقلاب کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ انقلاب کے معنی ہیں کسی سماج، کسی ملت، یا اس سے بالاتر کسی نسل اور تہذیب میں پیدا ہونے والی ہمہ جہتی تبدیلی۔ دنیا میں بعض دفعہ بغاوت کو بھی انقلاب کا نام دے دیا جاتا ہے۔ لیکن انقلاب کے بہت گہرے معانی ہیں اور ہمارے ملک میں جو ہوا وہ اسی گہرے معانی کا حامل انقلاب ہے۔ ہمارے ملک میں جو واقعہ رونما ہوا وہ حقیقی معنی میں ایک مکمل انقلاب تھا، ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔ انقلاب کے بارے میں اپنی بحث میں میں اس لفظ کی تشریح پیش کروں گا، تاہم جہاں تک انقلاب کی پاسداری اور اس بات کا سوال ہے کہ آپ خود کو انقلاب کا پاسدار قرار دیتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انقلاب زندہ ہے اور ہمارے سامنے موجود ہے۔ اگر انقلاب مر چکا ہوتا جیسا کہ بعض لوگ دعوی یا آرزو کرتے ہیں، تو اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں تھی۔ مردہ شئے کی حفاظت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انقلاب موجود ہے۔ یعنی انقلاب کی پاسداری کا مفہوم انقلاب کے زندہ ہونے کے مفہوم کا بھی حامل ہے۔ آپ اپنے عمل سے یہ اعلان کر رہے ہیں کہ انقلاب موجود ہے۔ میں ابھی تشریح کروں گا کہ انقلاب موجود بھی ہے اور پوری قدرت و توانائی سے آگے بھی بڑھ رہا ہے۔
جب آپ کہتے ہیں کہ 'پاسدار انقلاب' (محافظ) انقلاب ہیں، محافظ ہونے کا ایک مفہوم اور معنی یہ بھی ہے کہ انقلاب کو کچھ خطرات لاحق ہیں۔ اگر کوئی خطرہ نہ ہو تو حفاظت کی کیا ضرورت ہے؟ انسان وہاں محافظت کرتا ہے جہاں خطرہ در پیش ہو۔ اس طرح آپ اپنے اس عنوان سے اور اپنے اس نام سے انقلاب کی بھی تائید کرتے ہیں اور ساتھ ہی انقلا کو لاحق خطرات کا بھی عندیہ دیتے ہیں۔ جب ہم انقلاب کے محافظ ہیں تو ہمیں ان خطرات کا علم بھی ہونا چاہئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کا ایک اساسی کام خطرات کی شناخت کے مقصد سے عالمی مساغل کا جائزہ لیتے رہنا ہے۔ عالمی مسائل، بین الاقوامی تغیرات اور بین الاقوامی اطلاعات کا مستقل طور پر جائزہ لیتے رہنے کے نتیجے میں ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ خطرات کیا ہیں؟ اسی طرح ملک کے داخلی حالات پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ سپاہ پاسداران انقلاب کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو کسی گوشے میں سرجکھائے دفتری کاموں میں مصروف ہو۔ یہ ایک آگاہ، تیز بیں، گرد و پیش سے باخبر، ملک کے اندر بھی گرد و پیش کے حالات سے باخبر اور بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر بھی اطراف کی صورت حال سے آگاہ ہے۔ کسی ذی روح اور گرمی حیات رکھنے والی مخلوق کی حیثیت سے ایک بیدار جاندار کی مانند یہ ادارہ دیکھتا ہے، جائزہ لیتا رہتا ہے کہ کہاں سے خطرہ ہو سکتا ہے۔ کس شخص اور کس چیز کو خطرہ ہے؟ یہاں کسی شخص کی بات نہیں ہے، یہاں تو انقلاب کو لاحق خطرات کا معاملہ ہے لہذا دائمی طور پر نگرانی کرنی ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹیلیجنس ادارے اور انٹیلیجنس کے امور پر توجہ دینے والے محکمے اسی مقصد کے لئے ہیں۔ البتہ سلسلہ مراتب، کیڈر اور درجہ بندی کے اعتبار سے سب کو ان امور کی اطلاعات ملنی چاہئیں تاکہ سب کو یہ علم ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر سلسلہ مراتب کے اعتبار سے سپاہ پاسداران انقلاب کے تمام افراد کو یہ علم نہ ہوگا کہ وہ کن خطرات سے انقلاب کی حفاظت کر رہے ہیں تو پھر یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ اپنے فریضے پر صحیح طریقے سے عمل کر پائیں گے یا نہیں۔ جب انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ کیا خطرہ لاحق ہے اور اس کا سرچشمہ کیا ہے تو پھر دفاعی اقدامات کا اس کے اندر جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
بنابریں پاسداری و پاسبانی کے لفظ کا ایک پہلو انقلاب کی حفاظت کے لئے ہمیشہ کمربستہ اور بیدار رہنا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا ہے؛ وَ اِنَّ اَخَا الحَربِ لَاَرِق (۵) جنگ کا بھائی (سپاہی) بیدار رہتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ یہ جنگ اس وقت جاری ہو۔ نہیں، جس نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا ہے، اسے ہمیشہ بیدار رہنا چاہئے۔ جنگ کس سے ہے؟ ہم جنگ کا آغاز کرنے والے تو نہ تھے اور نہ آئندہ ہوں گے۔ غیر جانب اور موذیانہ اقدامات نہ کرنے والے افراد، حکومتوں اور ملکوں سے تو ہمارا کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ ہماری لڑائی تعرض کرنے والوں، رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں اور دھمکیاں دینے والوں سے ہیں۔ «لَاَرِق» کا مطلب ہے بیدار، دائمی طور پر چوکنا رہنے والا۔ تو لفظ 'پاسداری' کا ایک پہلو ہے دائمی بیداری اور ہمیشہ کمربستہ رہنا۔
ظاہر ہے جب آپ خطرات کی شناخت کر لیں کے تو اسی سطح پر تیاریاں بھی کریں گے۔ ایک زمانہ وہ تھا جب الیکٹرانک خطرات نہیں تھے تو اس زمانے میں الیکٹرانک میدان میں کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آج یہ خطرات پیدا ہو گئے ہیں تو ضروری ہو گیا ہے کہ اس میدان میں کام کیا جائے۔ ہمارے عزیز کمانڈر نے اس کی تشریح بھی کی۔ سپاہ پاسداران سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے یہاں اس حسینیہ میں آکر اپنی نمایاں، قابل دید اور انتہائی اہم مصنوعات کو متعلقہ ماہرین کے سامنے نمائش کے طور پر پیش کیا تو معلوم ہوا کہ سپاہ پاسداران انقلاب نے اس میدان میں بھی بہت کام کیا ہے۔ دوسرے شعبوں کا بھی یہی عالم ہے۔ جب آپ خطرات سے آگاہ ہوں گے تو ان کے سد باب کے طریقے بھی تلاش کریں گے اور اس کے لئے کام کریں گے۔ اگر ضروری وسائل موجود ہیں تو ان وسائل کی حفاظت کریں گے اور اگر موجود نہیں ہیں تو ان کے حصول کا راستہ نکال لیں گے۔
پاسداری کا لفظ دو معانی کا حامل ہے۔ پاسداری کے ایک معنی ہیں حفاظت و پاسبانی کرنا اور اس لفظ کے دوسرے معنی ہیں کسی چیز کا پاس و لحاظ رکھنا، اس کی قدردانی کرنا۔ یعنی انسان اس کی قدر کرے، اسے محترم جانے۔ یہ بھی شامل ہے۔ انقلاب کی پاسداری کا مطلب صرف انقلاب کی حفاظت کرنا نہیں ہے۔ ابھی جو ہم نے تشریح کی وہ حفاظت سے متعلق تھی۔ اس کا مفہوم انقلاب کی قدردانی کرنا، انقلاب کو اہمیت دینا اور اسے محترم سمجھنا بھی ہے۔ انسان کسی کا پاس و لحاظ رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے محترم سمجھتا ہے، اس کی قدر و منزلت کو جانتا ہے، اس کی اہمیت سے واقف ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انقلاب کی بخوبی پہچان ہو۔ اس لئے انقلاب کی معرفت ضروری ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی سطح پر، سپاہ کے تمام سلسلہ مراتب میں انقلاب کی معرفت آگاہانہ روشن اور جامع معرفت ہونی چاہئے۔ انقلاب کو صحیح شناخت ہونی چاہئے۔ اگر اس سلسلے میں ثقافتی کاموں میں کمی رہ گئی ہے، تو اسے ضرور دور کیا جائے۔ نظر دورائیے غور کیجئے۔ سپاہ میں اوپر سے لیکر نیچے تک ہر سطح پر لوگوں کو انقلاب کی مستحکم منطق سے آراستہ ہونا چاہئے۔ کیونکہ انقلاب مخالف عناصر مختلف راستوں سے دراندازی کرتے ہیں۔ دراندازی کا ایک طریقہ نظریات اور عقائد میں، دینی و انقلابی نظریات میں رخنہ اندازی کرنا ہے۔ میں ابھی دراندازی کے موضوع پر کچھ گفتگو کروں گا۔ ہم لگاتار دشمن کی دراندازی کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اسے بار بار بیان کر رہے ہیں، اس پر تاکید کر رہے ہیں۔ دینی و انقلابی تعلیمات میں رد و بدل کرتے ہیں، ان میں رخنہ اندازی کرتے ہیں۔ تمام طریقے استعمال کرتے ہیں اور مختلف طرح کے افراد بھی ان کے پاس ہیں۔ یونیورسٹی کے اساتذہ بھی ہیں، سرگرم طلبا بھی ہیں، علمی و فکری شخصیات بھی ہیں۔ اس رخنہ اندازی کے لئے ان کے پاس ہر طرح کے آدمی موجود ہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب میں مختلف سطح پر برادران عزیز یہ آمادگی رکھیں اور منطقی و استدلالی قوت حاصل کریں۔ انقلاب سے پہلے ہم نے منطق کی اس قوت کو بہت سے مقامات پر استعمال کیا۔ اس زمانے میں جو بحثیں ہم کیا کرتے تھے، قرآنی بحثیں تھیں، نہج البلاغہ اور قرآن سے متعلق بحثیں یہ حقیر کیا کرتا تھا، ان بحثوں کی وجہ سے اس زمانے کے نوجوان کہتے تھے کہ ہم یونیورسٹی میں مارکسی نظریات کے لوگوں کا سامنا ہوتا ہے تو پیچھے نہیں ہٹتے۔ پہلے ہم کمزور پڑ جاتے تھے، لیکن اب کمزور نہیں پڑتے، اب ہمارے پاس کہنے کے لئے بہت کچھ ہے، ہمارے پاس منطقی بیان ہے، استدلال ہے۔ صرف فریق مقابل کی بات کو رد کرنے کی حد تک نہیں بلکہ اپنی بات کو دلائل سے ثابت کرتے ہیں، حقائق بیان کرتے ہیں۔ آج سپاہ پاسداران انقلاب میں جو نوجوان مشغول خدمت ہے اس کے اندر اس طرح کی استدلالی قوت، منطقی توانائی اور لوگوں کو قائل کر لینے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ یہ بڑا اساسی کام ہے۔ یہ انقلاب کی پاسداری اور اس کی قدردانی ہے۔ یہ انقلاب کو خراج عقیدت پیش کرنا ہے، یہ انقلاب کا قرض اتارنا ہے، یہ انقلاب کی قدر و منزلت کو سمجھنا ہے۔
انقلاب کی قدردانی اور انقلاب کی پاسداری کا ایک اور ضروری پہلو ہے دشمن کی شناخت۔ دشمن کی ہمیں شناخت ہونی چاہئے۔ البتہ آپ تو دشمن سے واقف ہیں۔ دشمن عالمی استکبار ہے جس کا کامل مصداق امریکا ہے۔ اس کے آلہ کاروں میں رجعت پسند حکومتیں، خود فروش انسان اور کمزور ارادے کے افراد وغیرہ ہیں۔ آپ دشمن سے واقف ہیں۔ آپ اس شناخت سے استفادہ کیجئے۔ آپ دشمن کی کمزوریوں کو، اس کی فکری و عملی خامیوں کو تلاش کیجئے اور یہ کمزوریاں ان لوگوں کے سامنے پیش کیجئے جنھیں اس کی ضرورت ہے اور جن کے سامنے انھیں پیش کیا جانا چاہئے۔ اسلامی انقلاب کے دشمن وہی لوگ ہیں جو پندرہ سال پہلے اس علاقے میں داخل ہوئے۔ ان نعرہ تھا امن و سلامتی کا قیام۔ آج آپ دیکھئے کہ اس علاقے میں کہاں امن و سلامتی ہے؟ پورا علاقہ بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ مغربی ایشیا سے لیکر شمالی افریقا تک۔ جب انھوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو ان کا نعرہ تھا دہشت گردی سے جنگ۔ لیکن آج دہشت گردی پورے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔ وہ بھی کیسی دہشت گردی! حد درجہ وحشیانہ اور اذیت پسندانہ دہشت گردی۔ ایسی دہشت گردی جس میں ملوث افراد انسانوں کو، اپنے دشمنوں کو سب کے سامنے آگ میں زندہ جلا دیتے ہیں۔ یہی نہیں گوناگوں تکنیکوں کا استعمال کرکے اس منظر کو ساری دنیا کے لوگوں کے سامنے تفصیل کے ساتھ پیش کرتے ہیں، منعکس کرتے ہیں۔ اس طرح کی دہشت گردی! آج تکفیری عناصر اس قسم کے افراد ہیں۔ بچے کو اس کی ماں کے سامنے قتل کرتے ہیں، بچے کے سامنے ماں باپ کا گلا کاٹ دیتے ہیں۔ یہ لوگ آئے علاقے میں آئے تھے اپنے ان دعوؤں اور نعروں کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے، میں یہ نہیں کہتا کہ ان کا اصلی ہدف اور نعرہ یہی تھا، مگر آج علاقے میں کون سی جگہ بچی ہے جہاں دہشت گردی نہیں ہے؟ اپنے دعوے کے مطابق وہ یہاں جمہوریت کی سوغات لیکر آئے تھے اور آج علاقے کی انتہائي مستبد، رجعت پسند اور ڈکٹیٹر حکومتیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہیں اور مجرمانہ کارروائياں انجام دے رہی ہیں۔ واقعی امریکا کی یہ ایک بنیادی مشکل ہے اور یہ مشکل امریکی رہنماؤں کو بھی بری طرح پریشان کرتی ہے، وہ بھی الجھے ہوئے ہیں۔ وہ ایسی حکومتوں کی حمایت کر رہے ہیں کہ جن کا وجود برسوں سے امریکا کے آمریت مخالف نعروں اور انسانی حقوق کی پاسبانی کے دعوؤں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس صورت حال نے امریکا کے دانشوروں اور مفکرین کے حلقوں کی سطح پر اچھا خاصا تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ امریکی حکام سے جواب نہیں بن پڑ رہا ہے۔ تو یہ دشمن اس طرح کی ماہیت کا حامل ہے۔ جو دشمن ہمارے مد مقابل ہے اس کے انسانی حقوق کے نعروں، جمہوریت کے دعوؤں، دہشت گردی سے متعلق باتوں، امن قائم کرنے کے وعدوں اور آشتی نعروں کی یہ حقیقت ہے۔ فرماتے تھے کہ ہم صلح و آشتی کے لئے جنگ کر رہے ہیں، کہاں ہے امن و صلح؟ پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا۔ آج اس علاقے میں کہاں جنگ نہیں ہو رہی ہے؟ یہ ہے دشمن کا اصلی چہرہ۔ جس کے مقابلے میں انقلاب ڈٹا ہوا ہے اور آپ سینہ سپر ہے اس دشمن کی حقیقت یہ ہے۔ ایک ایسا ملک ہے جس کے اندر اتنے سارے تضادات، نقائص اور فکری و عملی عیوب پائے جاتے ہیں۔ یہ ہے وہ دشمن۔ انقلاب کی پاسبانی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، ان حقائق کو دیکھیں اور دشمن کو بخوبی پہچانیں! انقلاب کو بھی پہچانیں اور دشمن سے بھی آگاہ رہیں! یہ چند باتیں تھیں 'پاسداری' کے تعلق سے۔ البتہ پاسداری کے بارے میں اور پاسداری کے معنی و مفہوم کی گہرائی کے سلسلے میں اگر تفصیلی گفتگو کی جائے تو پوری کتاب تیار ہو جائے گی۔
اب انقلاب کے تعلق سے چںد باتیں۔ ہم نے عرض کیا کہ پاسداری و پاسبانی انقلاب کی کرنی ہے۔ انقلاب ایک حقیقت جاریہ ہے۔ یکبارگی وقوع پذیر ہوکر ختم ہو جانے والی چیز نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ صاحب فلاں تاریخ کو یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔ کچھ لوگ سڑکوں پر نکلے، دس دن، بیس دن، دو مہینے، چھے مہینے کا عرصہ لگا اور حکومت سرنگوں ہو گئی۔ بس یہی پورا واقعہ انقلاب ہے۔ جی نہیں، یہ انقلاب نہیں ہے۔ یہ تو انقلاب کا ایک چھوٹا سے جز ہے۔ انقلاب ایک پائیدار اور دائمی حقیقت کا نام ہے۔ انقلاب یعنی تبدیلی اور عمیق تبدیلیاں چھے مہینے اور ایک سال یا پانچ سال میں رونما نہیں ہوتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تبدیلی اور تغیر یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہو جانا ایسا عمل ہے جو کبھی رکتا نہیں۔ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ ہے انقلاب۔ انقلاب ایک دائمی عمل ہے۔ بعض لوگ کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جن کا سرچشمہ اور بقول خود ان لوگوں کے ان باتوں کے تھنک ٹینک بیرونی ممالک میں ہیں۔ انھیں باتوں کو یہاں کچھ لوگ اخبارات میں، جرائد میں اور اپنی گفتگو میں پھیلاتے رہتے ہیں، بار بار دہراتے رہتے ہیں۔ انھیں باتوں کو ایرانی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ مگر ان باتوں کی جڑیں بیرون ملک ہیں کہ 'جناب انقلاب تو ختم ہو چکا ہے۔' کچھ ایسے بے عقل افراد بھی ہیں جو صریحی طور پر کہتے ہیں کہ انقلاب کو میوزیم میں رکھ دینا چاہئے۔ کچھ اور لوگ ہیں جو اتنے احمق نہیں ہیں تو کھل کر یہ بات نہیں کہتے بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں یہ بات کہتے ہیں۔ اس طرح بات کرتے ہیں کہ اس سے یہ عندیہ ملے کہ انقلاب کا کام تمام ہو چکا ہے۔ انقلاب اب اسلامی جمہوریہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جبکہ یہ ہرگز تبدیل ہونے والی شئے نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ تو انقلاب کا مظہر و آئينہ ہے۔ یعنی اس میں بھی بار بار حیات نو حاصل ہونے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے، مسلسل تغیر و تبدل آنا چاہئے۔ اگر یہ اوصاف اسلامی جمہوریہ میں نہ ہوں تو وہ اسلامی جمہوریہ نہیں ہے۔ وہ اسلامی حکومت نہیں ہے۔ انقلاب کے دائمی عمل ہے۔
انقلاب کیا کرتا ہے؟ انقلاب نے شروع ہی میں جو کام انجام دیا وہ اعلی اہداف اور امنگوں کا تعین ہے۔ انقلاب اعلی اہداف و مقاصد کا تعین کرتا ہے۔ بلا شبہ اعلی اہداف و مقاصد کبھی تبدیل نہیں ہوتے،البتہ ان تک رسائی کے وسائل تبدیل ہو سکتے ہیں۔ روز مرہ کے امور میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ مگر بنیادی اصول اور اساسی امنگیں کبھی تبدیل نہیں ہو سکتیں۔ یعنی خلقت بشر کے آغاز سے اب تک عدل و انصاف اعلی مقاصد میں سے ایک رہا ہے، کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ اعلی ہدف تبدیل ہو جائے۔ انسانوں کی آزادی اعلی ہدف و مقصد ہے۔ اعلی اہداف و مقاصدد اور امنگیں اس طرح کے حقائق ہیں۔ انقلاب ان اعلی اہداف و مقاصد کا خاکہ کھینچتا ہے اور پھر ان کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ اگر ہم ان اعلی اہداف و مقاصد کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں اور قرآن کی زبان میں اس کا تعارف کرائیں تو اسے «حیات طیّبه» کہہ سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے: فَلَنُحیِیَنَّهُ حَیوةً طَیِّبَة (۶) اِستَجیبوا للهِ‌ وَ لِلرَّسولِ اِذا دَعاکُم لِما یُحییکُم (۷) جو چیز تمہیں حیات عطا کرے۔ پیغمبر اسلام اور تمام انبیاء کی دعوت زندگی کی دعوت تھی۔ کیسی زندگي۔ ظاہر ہے 'حیات طیّبه' کی دعوت تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ 'حیات طیبہ' کیا ہے؟ حیات طیبہ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کی انسان کو اچھی زندگی گزارنے اور سعادت و کمرانی تک پہنچنے کے لئے احتیاج ہے۔ مثال کے طور پر قومی وقار حیات طیبہ کا جز ہے۔ ذلیل و رسوا قوم، ہر کسی سے مار کھانے والی قوم، حیات طیبہ کی مالک نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح خود مختاری، اغیار کا محتاج نہ ہونا، حیات طیبہ کا جز ہے۔ حیات طیبہ کو صرف عبادتوں اور دعا کی کتابوں میں تلاش نہیں کرنا چاہئے۔ یہ چیزیں بھی زندگی کے حقائق میں شامل ہیں۔ ایک قوم کی حیات طیبہ کے تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قوم پروقار انداز میں زندگی بسر کرے۔ سر اٹھا کے جئے۔ دوسروں کی محتاج نہ ہو۔ خود مختار ہو۔ کچھ لوگ ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں جو خود مختاری کو سرے سے خارج کرتی ہیں! واقعی تعجب ہوتا ہے کہ ایک انسان کس طرح یہ باتیں کر سکتا ہے؟ ڈاکو کسی موڑ پر کھڑا ہوا ہے، قافلے کا راستہ روکتا ہے، جبرا ان سے اپنے مطالبات منواتا ہے، اس درمیان کوئي شخص اٹھ کر کہے کہ صاحب آج مصلحت اسی میں ہے کہ یہ جیسا کہہ رہے ہیں ہم اسی طرح عمل کریں! خود مختاری کے خلاف بات کرنے والوں کی یہی مثال ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ خود مختاری اور آزادی پوری ملت کی سطح کی ہونی چاہئے۔ آزادی کا صرف نام لیتے ہیں، خود مختاری کو کچل رہے ہیں۔ خود مختاری کے معنی آزادی کے ہیں لیکن اس سے مراد ایک شخص کی آزادی نہیں بلکہ زور زبردستی، توہین، پسماندہ رکھنے کی کوششوں اور استحصال کے مقابلے میں ایک قوم کی آزادی اس سے مراد ہے۔ قوم جب ان چیزوں سے آزاد ہو جاتی ہے تب حقیقی معنی میں ایک خود مختار قوم بنتی ہے۔
حیات طیبہ کا راستہ ہموار کرنے والی چیزوں میں ایک علم و تمدن میں پیش قدمی ہے۔ کوئی قوم اگر عالمی علم و دانش کے میدان میں اور عالمی تمدن کے میدان میں قائدانہ پیش قدمی کرنے اور دوسروں سے آگے نکل جانے میں کامیاب ہو جائے اور تمام بشریت کے ارتقاء کے لئے ایک نئی سیڑھی کا کام کرے تو اس کی یہ خصوصیت حیات طیبہ کے عناصر میں سے ایک اہم عنصر ہوگی۔ اہل مغرب کے یہاں یہ خصوصیت نہیں ہے۔ بیشک انھوں نے قابل لحاظ مادی ترقی کی ہے۔ مختلف میدانوں میں نئے افکار و نظریات انھوں نے متعارف کرائے ہیں اور اب بھی نئی نئي چیزیں پیش کر رہے ہیں، لیکن انھوں نے ان چیزوں کو کچھ ایسی خصوصیات سے وابستہ کر دیا ہے جن کی وجہ سے اس سیڑھی سے نیچے گرنا یقینی ہے۔ بیشک انھوں نے بشریت کے سامنے سیڑھی تو تیار کر دی ہے۔ لیکن اب ایسے کام انجام دے رہے ہیں کہ بشر اس سیڑھی سے نیچے ضرور گرے گا۔ وہ اخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں۔ آپ غور کیجئے آج مغربی کلچر میں پست ترین اور مذموم ترین افعال بھی معمولات کا جز اور قانونی فعل بنتے جا رہے ہیں، اب اگر کوئي ان افعال کی مخالفت کرے تو اس کی مذمت ہونے لگتی ہے کہ کیوں مخالفت کر دی؟ یہ سب صرف اس لئے کہ انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ فعل انجام دے! انسان کا دل تو اور بھی بہت سے کام کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح مغرب میں پرے چاک کرنے کا یہ عمل کہاں تک جائے گا؟ انھیں کوئی راہ حل سجھائی نہیں دیتی۔ واقعی ان کے پاس نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جس راستے پر یہ چل پڑے ہیں اور جس طرح وہ اخلاقی انحطاط کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں، اس سے مغرب تباہ ہوکر رہ جائے گا، نابود ہو جائے گا۔ قابل رحم ہیں ان ملکوں کے عوام۔ ان ملکوں اور ان قوموں سے تعلق رکھنے والے عوام کے لئے دل جلتا ہے۔ واقعی یہ قابل رحم ہیں۔ پالیسی ساز، منصوبہ ساز، موثر افراد اور اہم شخصیات اپنے پست اور پلید اہداف کے حصول کے لئے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ علم و تمدن میں پیشرفت روحانیت و معنویت کے ہمراہ ہونی چاہئے۔ ابھی اس دن میں نے ایک ملاقات (8) میں عرض کیا جو نشر بھی ہوا کہ مثال کے طور پر بیس سال بعد، تیس سال بعد جب اسلامی جمہوریہ ایران کو بیس کروڑ، اٹھاڑہ کروڑ یا پندرہ کروڑ کی آبادی والا ملک پائیں گے اور اسے روحانیت و انصاف کے زیر سایہ مادی و صنعتی و سائنسی ترقی کے اوج پر دیکھیں گے تو اس وقت کیا عالم ہوگا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اندر یہ منظر دیکھ کر کیسا رشک پیدا ہوگا۔ دشمن چاہتے ہیں کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ تو حیات طیبہ کا یہ مطلب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر زندگی کو اس منزل پر لے جائیں۔ انقلاب ہمیں اسی مقام پر لے جانا چاہتا ہے۔ رفاہ و آسائش، مساوات، امید و نشاط، کام کا جذبہ، کام سے دلچسپی، سائنس، ٹیکنالوجی، یہ سب حیات طیبہ میں شامل ہیں۔ ان چیزوں کے ساتھ روحانیت، رحمدلی، اسلامی اخلاقیات، اسلامی طرز زندگی، یہ سب حیات طیبہ کے اجزاء ہیں۔ نظم و ضبط بھی حیات طیبہ کا جز ہے۔ حیات طیبہ کی جانب یہ سفر ختم ہونے والا نہیں ہے۔؛ اَلآ اِلَی اللهِ تَصیرُ الاُمور (۹) یہ خدا کی سمت موڑنے والی تبدیلی ہے۔ 'تصیر' کے معنی ہیں ایک حالت سے دوسری حالت میں پہنچ جانا۔ یعنی کوئی شئے اپنے باطن کو تبدیل کرے اور روز بروز بہتر ہوتی جائے۔ یہ ہے 'تصیر' کو مفہوم۔ بشر سمت پروردگار میں لے جانے والی اس تبدیلی سے گزرتا ہے۔ مطلوبہ اسلامی معاشرہ یہی ہے کہ اس کے اندر اس انداز کی تبدیلی کا عمل پایا جاتا ہو۔ تغیر و تبدل کا یہ عمل کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ مستقل طور پر یہ عمل جاری رہتا ہے۔ یہی انقلاب ہے۔
حیات طیبہ اور اس انقلاب کی ایک خصوصیت، جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی صریحی طور پر ہوا ہے، اللہ پر ایمان رکھنا اور طاغوت کی نفی کرنا ہے۔: فَمَن یَکفُر بِالطّاغوتِ وَ یُؤمِن بِاللهِ فَقَدِ استَمسَکَ بِالعُروَةِ الوُثقی‌ (۱۰) «عروةالوثقی‌» یعنی آپ مثال کے طور پر کسی خطرناک جگہ سے، پھسل جانے والی جگہ سے گزر رہے ہیں، ایسے میں آپ کسی رسی وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں کہ کہیں گر نہ جائیں۔ نیچے نہ لڑھک جائیں۔ اسی رسی کو کہتے ہیں؛«عروةالوثقی‌» اگر اللہ تعالی پر ایمان ہے اور طاغوت کی نفی کی جا رہی ہے تو یہی «عروةالوثقی‌» ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتی ہیں؛ اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی۔ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرنا چاہئے۔ میں ایک بار پھر عرض کروں گا کہ لوگوں کا ایمان ختم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لہذا دشمن نے ساری توجہ طاغوت کی نفی والے مسئلے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ وہ طاغوت کی نفی کے جذبے کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ رفتہ رفتہ اس جذبے کو عوام کے اندر کمزور کرنا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بیشک آپ اللہ پر ایمان رکھئے، لیکن ساتھ ہی طاغوت پر بھی ایمان رکھئے۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی دونوں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔
آئیڈیالوجی کو ختم کرنا بھی بہت زیر بحث رہنا والا مسئلہ ہے۔ چند سال تک یہ موضوع بہت زیادہ زیر بحث رہا، پھر اسے نظر انداز کر دیا گيا، مگر اب پھر یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ سفارت کاری کو آئیڈیالوجی اور عقیدے سے عاری بنایا جائے، داخلہ پالیسیوں کو بھی عقیدے اور آئیڈیالوجی سے الگ رکھا جائے۔ جبکہ یہ حق و انصاف کے خلاف ہے، یہ حقیقت کے خلاف عمل ہوگا۔ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں اسلام اور انقلاب کو دخیل نہ ہونے دیں۔ کیسے ممکن ہے کہ ہم دخیل نہ ہونے دیں؟ ہمیں تو ان پالیسیوں کو انھیں بنیادوں پر وضع کرنا ہے۔ تمام میدانوں میں یہی صورت حال ہے۔ آپ غور کیجئے! یہ بڑا ظریف نکتہ ہے۔ علم کے معنی ہیں حقیقت کی جانب پیش قدمی، کسی حقیقت کا انکشاف کرنا اور اسے جان لینا۔ ظاہر ہے اس مرحلے پر تو عقیدے اور آئیڈیالوجی کے دخیل ہونے کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ جب ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو کہ کس حقیقت کی جانب ہمیں آگے بڑھنا ہے اور کس حقیقت کی سمت میں نہیں جانا ہے، فرنگی نوازوں کے بقول تب فکر و عقیدے اور آئيڈیالوجی کی بات آتی ہے۔ مگر ہم ایسے علم کی جانب نہیں جائيں گے۔ یہ علم تو ضرر رساں ہے۔ ہم علم و سائنس کے میدان میں بھی انتخاب کریں گے۔ کیونکہ نفع بخش علم بھی ہوتا ہے اور ضرر رساں علم بھی موجود ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو علم و تفکر کے میدان میں بھی عقیدہ اور فرنگی نوازوں کے بقول آئيڈیالوجی بہت موثر ہے۔
جو چیزیں بہت زیادہ سننے میں آتی ہیں ان میں دو باتیں ہمارے مخالفین اور ہمارے دشمن خاص طور پر بیان کرتے ہیں اور ملک کے اندر بھی کچھ لوگ وہی باتیں دہراتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے تضاد رکھتی ہیں، لیکن اس تضاد پر ان کی توجہ نہیں ہے۔ ایک جملہ تو یہ ہوتا ہے کہ صاحب آپ کا ملک بہت طاقتور ہے، بہت اثر و رسوخ والا ملک ہے۔ آجکل ہم یہ بات دنیا میں بہت زیادہ سن رہے ہیں۔ ملک کے اندر کچھ کوتاہ فکر اور کمزور قوت تدبر کے افراد یہ بات بھی قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ لیکن جو لوگ باہر سے معاملات و تغیرات کا جائزہ لے رہے ہیں وہ سب کے سب، ہمارے دوست بھی اور ہمارے دشمن بھی، یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج علاقے کا ایک طاقتور ملک ہے اور علاقے میں رونما ہونے تغیرات و واقعات کے سلسلے میں اس کا خاص اثر و رسوخ ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ انقلاب کے مسئلے اور انقلابی جذبات و احساسات کی جانب اتنا نہ بھاگئے۔ ظاہر ہے یہ دونوں باتیں آپس میں تضاد رکھتی ہیں۔ کیونکہ یہ جو قوت حاصل ہوئی ہے، یہ جو اثر و رسوخ پیدا ہوا ہے، یہ سب اسی انقلاب کی برکت سے ہوا ہے۔ اگر انقلاب نہ ہوتا، اگر انقلابی جذبات و احساسات نہ ہوتے تو یہ اثر و رسوخ ہرگز پیدا نہ ہوتا۔ یہ قوت و توانائی اور یہ اثر و رسوخ انقلاب کی دین ہے۔ اگر انقلاب نہ ہوتا، اگر انقلابی جوش و جذبہ نہ ہوتا، اگر انقلابی کارکردگی نہ ہوتی تو یہ اثر و نفوذ بھی نہ ہوتا۔ یہ کہنا کہ آپ تو طاقتور ہیں، آپ کا اثر و رسوخ ہے، لہذا آپ انقلاب کو کنارے کیجئے تاکہ ہم مل جل کر زندگی بسر کریں، تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ انقلاب کو ترک کیجئے تاکہ آپ کی یہ توانائی ختم ہو اور ہم آپ کو آسانی سے نگل لیں۔ آپ آخر کب تک یونہی انقلاب کا دم بھرتے رہیں گے۔ آئيے آپ بھی عالمی برادری کا جز بنئے۔ اس بیان کا یہ مفہوم ہے کہ اس وقت جو اثر و رسوخ اور جو طاقت و توانائی ہے، علاقے میں آپ کا جو اثر ہے، قوموں کے اندر آپ کی جو اسٹریٹیجک گہرائی ہے اسے نظر انداز کر دیجئے، اس سے دست بردار ہو جائیے۔ یعنی کمزور ہو جائيے، تا کہ ہم آپ کو بآسانی نگل لیں۔ کہتے ہیں کہ آپ عالمی برادری کے دائرے میں شامل ہوئیے۔ عالمی برادری سے ان کی مراد کچھ ظالم و جابر اور مستکبر حکومتیں ہیں۔ ان کا مقصد ہے کہ ہماری سازشوں میں ضم ہو جایئے۔ یہ ہے ان کا مطلب۔ تو انقلاب ان تمام پہلوؤں کا حامل ہے۔ اس انقلاب کی پاسبانی و پاسداری کے تعلق سے بیان کرنے کے لئے بہت کچھ ہے، مگر اب میں اس بارے میں اپنی گفتگو ختم کر رہا ہوں۔
اب اسلام کے تعلق سے چند باتیں۔ یہ انقلاب، اسلامی انقلاب ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرار ہے کہ اسے صرف 1979 کا انقلاب کہا جائے۔ اسلام کا نام نہیں لینا چاہتے۔ اسلام کے نام سے ڈرتے ہیں۔ اسلامی انقلاب کے نام سے ہراساں ہیں۔ جبکہ اسلام ہمارے انقلاب کی بنیاد اور سرمایہ ہے، اس انقلاب کی ماہیت و پیکر اسلامی ہے۔ البتہ ہمارا اسلام حقیقی و خالص اسلام ہے۔ یہ تکفیریوں جیسے افراد کی منحرف، غلط، عامیانہ اور احمقانہ فکر سے وابستہ اسلام نہیں ہے۔ 'عقل و نقل' پر استوار اسلام، عقل و خرد سے ہم آہنگ اسلام، قرآن پر تکیہ کرنے والا اسلام، نبوی تعلیمات اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی تعلیمات پر استوار اسلام ہے۔ یہ روشن افکار، محکم منطقی دلائل سے آراستہ اسلام ہے۔ یہ ہے اصلی اسلام، ایسا اسلام جسے آج کی دنیا کے کسی بھی فورم پر پورے اعتماد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔
بحمد اللہ اسلامی معاشروں میں اس انقلاب کے مختلف پہلو نمایاں ہو چکے ہیں۔ حالانکہ بڑا پیسہ خرچ کیا گيا، پیٹرو ڈالر لٹائے گئے کہ اس تحریک کے پھیلاؤ کو روک دیا جائے، مگر مستحکم دلائل پر استوار یہ فکر پھیلتی چلی گئی، حالانہ ہم نے اس کے لئے کوئی خاص کام بھی نہیں کیا۔ اس فکر کی تبلیغ و ترویج میں ہم سے بڑی کوتاہیاں ہوئی ہیں۔ آج عالم اسلام کے گوشے گوشے میں یہ فکر موجود ہے اور اس کے بے شمار دلائل و شواہد موجود ہیں۔ قومیں، مسلم اقوام حقیقت میں اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتی ہیں، اسلامی جمہوریہ کے حکام سے محبت کرتی ہیں۔ ان گزشتہ برسوں کے دوران ہمارے صدور جس ملک کے بھی دورے پر گئے اور عوام کو جذبات کے اظہار کا موقع ملا وہاں عوام نے قیامت کر دی۔ پاکستان میں یہی ہوا، لبنان میں بھی یہی ہوا، سوڈان میں بھی یہی منظر دیکھنے میں آیا، اسی طرح دوسرے متعدد ملکوں میں بھی یہی مناظر دیکھے گئے۔ البتہ جہاں عوام کو روک دیا گيا، وہاں کی بات الگ ہے۔ جس مسلم ملک میں بھی عوام کو یہ اندازہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر سکتے ہیں، وہاں یہی منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ اسلام کی برکت ہے، یہ قرآن سے متمسک ہونے کا ثمرہ ہے۔ وہ اسلام جو صرف ذاتی اعمال و عبادات تک محدود ہے، جو سیکولر اسلام ہے، جو «یؤمن ببعض و یکفر ببعض» (۱۱) کا مصداق ہے، وہ اسلام جس میں جہاد پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا ہے، وہ اسلام جس میں نہی عن المنکر کو حذف کر دیا گيا ہے، وہ اسلام جس میں راہ خدا میں شہادت کے تصور کو ختم کر دیا گیا ہے، وہ اس انقلاب کا اسلام نہیں ہے۔ انقلاب کا اسلام وہ جس کا مشاہدہ انسان قرآن میں، قرآن کی متعدد آیتوں میں بآسانی کر سکتا ہے۔ ہمارے لب و لہجے میں بھی اس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا وصیت نامہ دیکھئے، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی تقاریر اور تحریریں دیکھئے۔ یہ ہے ہمارا اسلام۔ ان مندرجات اور اس مضمون کے حامل انقلاب اور اس اسلامی ماہیت کے حامل انقلاب کا دفاع اور تحفظ کرنا ہے۔ یہ محض ایک رزمیہ مہم نہیں ہے۔ یہ حقیقی اسلامی مفاہیم کا حامل انقلاب ہے جس نے خوش قسمتی سے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کا یہ عنوان ان معانی و مفاہیم کا حامل ہے۔ آپ بہت محنت کیجئے، بہت محتاط اور ہوشیار رہئے، بہت قدر کیجئے، سب سپاہ پاسداران انقلاب کی قدر کریں۔ سپاہ پسداران انقلاب کو کمزور کرنے کی ہر کوشش اور بعض اوقات سپاہ کے خلاف کہی جانے والی باتیں، صرف دشمن کو خوش کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ باتیں صرف دشمن کے لئے خوش آئند ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ جو بھی اس طرح کی بات کرتا ہے، دشمن کا آلہ کار ہے۔ بعض لوگ غفلت میں اس قسم کی باتیں کر جاتے ہیں، نا سمجھی میں بول جاتے ہیں۔ البتہ بعض لوگ غالبا اس قسم کی باتیں کرنے کے لئے مامور کئے گئے ہیں، اس لئے ایسے بیان دیتے ہیں۔
سپاہ پاسداران انقلاب کا احترام کرنا چاہئے۔ ملک کے اندر سپاہ پاسداران انقلاب عظیم نعمت خداداد ہے۔ اور میں یہ بھی عرض کر دوں کہ سب سے پہلے جسے سپاہ پاسداران انقلاب کی قدر کرنی چاہئے وہ خود آپ ہیں۔ سپاہ پاسداران انقلاب کے فکری، روحانی، عملی اور اعتقادی ڈھانچے کو جہاں تک ممکن ہے مستحکم بنائيے۔ دوسروں کو تنقید کا موقع دینے سے پرہیز کیجئے، گوناگوں سیاسی، اقتصادی اور مالیاتی معاملات میں انقلاب کے صراط مستقیم پر چلنے کی کوشش کیجئے۔ ایسی چیزوں میں ہرگز نہ پڑئے جو سپاہ پاسداران انقلاب کے وقار کو مجروح کر سکتی ہیں۔ تو سب سے پہلے خود آپ اس وقار اور حیثیت کی حفاظت کیجئے۔ حقیقی حیثیت کی حفاظت یعنی ایسی حیثیت جو عین حقیقت ہے مسلط کردہ نہیں ہے کہ دوسروں سے کہا جائے کہ سپاہ کے بارے میں اس طرح سوچئے! چونکہ آپ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا جز ہیں اس لئے آپ خطرات پر نظر رکھئے۔
ہم نے عرض کیا کہ ملک کے اندر اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کی دشمن کی کوششیں اس وقت سب سے بڑا خطرہ ہے۔ دشمن اثر و نفوذ قائم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اثر و نفوذ قائم کرنے سے کیا مراد ہے؟ ممکن ہے اقتصادی اثر و نفوذ قائم کرے، البتہ اقتصادی میدان کے اثر و نفوذ کی اہمیت سب سے کم ہے۔ اسی طرح سیکورٹی کے شعبے میں بھی اثر و نفوذ ہو سکتا ہے لیکن اس کی بھی اہمیت کم ہے۔ سیکورٹی کے شعبے میں دشمن کا اثر و نفوذ معمولی چیز نہیں ہے لیکن فکری، سیاسی اور ثقافتی میدان میں دشمن کے اثر و نفوذ کے مقابلے میں اس کی اہمیت کمتر ہے۔ سیکورٹی کے شعبے میں اثر و رسوخ قائم کرنے کے خاص عناصر ہوتے ہیں، مختلف عہدیداران منجملہ سپاہ پاسداران انقلاب سیکورٹی شعبے میں دشمن کے اثر و نفوذ کا بھرپر انداز سے ان شاء اللہ سد باب کریں گے۔
اقتصادی شعبوں میں متعلقہ عہدیداران اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور محتاط رہیں کہ دشمن اقتصادی اثر و رسوخ قائم نہ کر سکے۔ کیونکہ دشمن معیشت کی مستحکم بنیادوں کو کمزور کر دیتا ہے۔ جہاں انھوں نے اقتصادی میدان میں اثر و رسوخ قائم کیا اور جہاں وہ کامیاب ہوئے وہاں انھوں نے ملکوں اور قوموں کی معیشت پر کسی ڈراونے خواب کی مانند مسلط کر دیا اور پھر ان ملکوں کی درگت بنا دی۔ دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے، ہمارے علاقے میں پیشرفتہ قرار دئے جانے والے ان ملکوں میں سے ایک ملک کے صدر نے اپنے دورہ تہران کے موقع پر مجھ سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ جناب اقتصادی شعبے میں غیروں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہم راتوں رات مفلس ہو گئے، فقیر ہو گئے۔ انھوں نے بالکل صحیح کہا۔ کوئی بڑا سرمایہ دار کسی وجہ سے یہ طے کر لیتا ہے کہ اس ملک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے تو بس اتنا کرتا ہے کہ اپنا سرمایہ وہاں سے باہر نکال لیتا ہے، یا ایسے اقدامات انجام دیتا ہے کہ اس ملک کی معیشت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ تو یہ اثر و رسوخ بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں سیاسی میدان میں اور ثقافتی میدان میں اثر و نفوذ کا معاملہ آ جائے تو اس کے مقابلے میں اقتصادی میدان کے اثر و نفوذ کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ سیاسی و ثقافتی میدانوں میں دشمن کا اثر و نفوذ بہت زیادہ خطرناک ہے۔
ثقافتی میدان میں دشمن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ معاشرے کے افکار و نظریات تبدیل کر دے۔ جن نظریات اور عقائد نے اس معاشرے کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے، ان میں رخنہ ڈالے، انھیں مخدوش بنائے۔ اس کے لئے بڑا پیسہ خرچ کرتے ہیں، اربوں ڈالر خرچ کر دیتے ہیں اس مقصد کی برآری کے لئے۔ یہ ہے ثقافتی میدان میں اثر و رسوخ۔
سیاسی میدان میں اثر و رسوخ کا یہ مطلب ہے کہ فیصلہ کرنے والے مراکز میں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اہم فیصلوں کی زمین ہموار کرنے والے مراکز میں دشمن اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہے۔ جب کسی ملک کے سیاسی ادارے اور انتظامی مراکز مستکبر دشمنوں کے غلبے میں آ جاتے ہیں، تو اس ملک کے سارے فیصلے استکباری طاقتوں کی مرضی و منشا کے مطابق کئے جاتے ہیں۔ یعنی وہ ملک مجبور ہو جاتا ہے۔ جب کوئی ملک دشمن کے سیاسی غلبے میں آ جاتا ہے تو وہاں ہر اقدام اور انتظامی اداروں کا ہر فیصلہ دشمنوں کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے۔ دشمن کو بس اسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے مد نظر یہ نہیں ہے کہ اپنے درمیان سے کسی شخص کو کسی ملک پر مسلط کر دیں جیسا کہ انھوں نے انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان میں کیا۔ وہاں انھوں نے اپنا آدمی بھیجا تھا۔ ایک انگریز ہندوستان کا سربراہ ہوتا تھا۔ آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں ہے۔ لہذا ان کے لئے بہتر یہ ہے کہ خود اسی ملک کا کوئی ایسا مقامی آدمی اقتدار کی باگڈور سنبھالے جو انھیں کے انداز میں سوچے، انھیں کے انداز میں اور انھیں کے مفادات کے مطابق فیصلہ کرے۔ یہ سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ تو دشمن کا مطمح نظر یہ ہے کہ اہم فیصلے کرنے والے مراکز میں اپنا اثر رسوخ قائم کر لے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تا تو ان مراکز پر اپنا غلبہ قائم کرے جو اہم فیصلوں کی زمین ہموار کرتے ہیں۔ کیونکہ کچھ ادارے ایسے ہوتے ہیں جو اہم فیصلوں کے مقدمات فراہم کرتے ہیں۔ دشمن یہ سارے کام کرتا ہے۔
اگر ہم بیدار رہیں، تو دشمن مایوس ہو جائے گا۔ دشمن اس تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کبھی غفلت سے دوچار ہو، وہ اس انتظار میں ہیں۔ دعوے کر رہے ہیں کہ دس سال بعد کا ایران آج کے ایران جیسا نہیں ہوگا اور کوئی ان کے سد راہ نہیں ہوگا۔ وہ اس گمان میں ہیں۔ دشمن کے ذہن میں یہ فکر اور یہ امید مستحکم ہونے کا کوئی موقع نہیں دینا چاہئے۔ یہاں انقلاب کی بنیادوں اور انقلابی فکر کو اس طرح مستحکم بنانا چاہئے کہ کسی عہدیدار یا کسی شخص کے مرنے جینے سے اس ملک کی انقلابی تحریک متاثر نہ ہو۔ یہ سپاہ پاسداران انقلاب کی ممتاز ہستیوں اور ملک کی تمام اہم انقلابی شخصیات کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
پالنے والے ہم اپنی برکت و ہدایت نازل فرما۔ ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اسے اپنے لئے راہ خدا میں کہی اور سنی جانے والی بات قرار دے اور اسے شرف قبولیت عطا فرما۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) یہ ملاقات سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں اور عہدیداروں کے اکیسویں قومی اجلاس کے موقع پر ہوئی جس کا انعقاد 15 اور 16 ستمبر کو ہوا۔ ملاقات کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کماندڑ انچیف جنرل محمد علی جعفری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
۲) اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا کرنا۔‌
۳) سینتالیسویں دعا‌
۴) دیوان حافظ، غزلیّات ( تھوڑے سے فرق کے ساتھ)
۵) نهج‌ البلاغه، مکتوب نمبر ۶۲ (معمولی سے فرق کے ساتھ)
۶) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۹۷ کا ایک حصہ «... یقینی طور پر ہم اسے پاکیزہ زندگی کی شکل میں حیات حقیقی عطا کریں گے...»
۷) سوره‌ انفال، آیت نمبر ۲۴ کا ایک حصہ «... جب اللہ اور اس کے پیغمبر تمھیں ایسی چیز کی دعوت دیں جو تمھیں حیات طیبہ عطا کرتی ہے تو اس پر لبیک کہو۔ ...»
۸) 'مجلس خبرگان (ماہرین کی کونسل) کے ارکان سے مورخہ 3 ستمبر 2015 کے خطاب کا حوالہ ہے۔
۹) سوره‌ شوری، آیت نمبر ۵۳ کا ایک حصہ «... خبردار کہ تمام امور اللہ کی طرف پلٹائے جاتے ہیں۔»
۱۰) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۲۵۶ کا ایک حصہ «...پس جو بھی طاغوت کی نفی کرے اور اللہ پر ایمان لائے، یقینی طور پر اس نے بہت مستحکم سہارا حاصل کر لیا ہے۔
۱۱) تفسیر الصّافی، جلد ۱، صفحہ ۱۹۳