رہبر انقلاب اسلامی کا یہ خطاب پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ ربّ العالمین، و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا، ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین، سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

خدائے بزرگ اور پروردگار عظیم و کریم کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمیں اتنی مہلت اور اتنی عمر عطا فرمائی کہ ہم نے تاریخ کے ایک عظیم معجزہ الہی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اس بیابان میں جہاں اس وقت ہم جمع ہوئے ہیں، ایک دن ہمارے بہترین نوجوان اور خدا کے مومن، صالح، مخلص اور پاکیزہ ترین بندے، عالم غربت میں خاک وخوں میں غلطاں ہوئے اور انھوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس دن کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ عالم غربت میں شہید ہونے والے یہ شہدائے عزیز اتنی جلدی یہ معنوی جاہ و جلال اور عظمت حاصل کر لیں گے اور لوگ دور و نزدیک سے ان کی زیارت کے لئے آئیں گے۔ لیکن خداوند عالم نے ارادہ کیا اور وہ ہو گیا جس کا تصور بھی نہیں تھا۔ جو چیز بہت دور نظر آتی تھی وہ نزدیک ہو گئی۔ آج ان شہیدوں کے مزار کا یہ گنبد اور یہ معنوی درگاہ پروردگار عالم کی قدرت لایزال کی طرف لوگوں کے متوجہ ہونے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
خداوند عالم کی قدرت سبھی مادی طاقتوں پر غالب ہے۔ حضرت حق کا ارادہ انسانوں کے ارادوں پر غلبہ اور تسلط رکھتا ہے۔ اس دن یہ عزیز نوجوان خدا کے لئے اٹھے اور آگے بڑھے۔ جب یہ عزیز نوجوان جہاد، شہادت اور قربانی کے میدان کی طرف بڑھ رہے تھے تو میں نے نزدیک سے انھیں دیکھا تھا۔ کرخہ نور کے نزدیک میں نے شہید حسین آقا علم الھدی رضوان اللہ تعالی علیہ اور ان دیگر نوجوانوں سے ملاقات کی جو ان کے ساتھ ، خالی ہاتھ، بغیر وسائل کے، لیکن عشق و ایمان سے سرشار، محکم اور خدا پر توکل کرنے والے قلب کے ساتھ اس طرف بڑھ رہے تھے۔ واقعی جب ان نوجوانوں کو دیکھتے تھے، جو عزم محکم کے ساتھ دشمنوں کے سمندر کے قلب پر حملہ کرتے تھے، تو آنکھوں کے سامنے صدر اسلام کی جنگوں کے میدان، عاشورائے حسینی اور میدان کربلا مجسم ہو جاتا تھا۔
یہ بیابان جارح فوجیوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ پوری پاکیزہ، مظلوم اور خون سے رنگین سرزمین جارحین کے بوٹوں تلے دبی ہوئی تھی۔ ہماری مسلح افواج اور فوجی ادارے دشمن کو پسپا کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ لیکن یہ نوجوان خالی ہاتھوں دشمن سے مقابلے کے لئے جا رہے تھے۔ اس دن ان نوجوانوں کی تعداد بیس تیس سے زیادہ نہیں تھی۔ بیس تیس نوجوان خالی ہاتھ، لیکن ایمان سے مملو قلب محکم اور خدا پر توکل کے ساتھ یہاں، اس بیابان میں جہاں دشمن کے کئی ہزار ٹینک اور بکتر بند فوجی گاڑیاں تعینات تھیں، یہ چھوٹا سا دستہ اس لشکر سے مقابلے کے لئے آ رہا تھا جو ظاہری طور پر بڑا تھا؛ خدا پر ایمان اور توکل کے ساتھ ، جس طرح حسین ابن علی علیہ السلام اپنے تھوڑے سے ساتھیوں کے ساتھ دشمن فوج کے سمندر کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے، آپ کے قلب مبارک میں کوئی لرزش پیدا نہیں ہوئی، ارادہ کمزور نہ ہوا اور اپنے راستے کے بارے میں کوئی شک اور تردد آپ کے اندر پیدا نہ ہوا، یہ نوجوان بھی واقعی اسی طرح کے تھے۔ میں نے اسی جگہ شہید علم الھدی سے پوچھا کہ تمھارے پاس اسلحے اور وسائل جنگ میں کیا ہے جو اتنے محکم انداز میں دشمن سے جنگ کے لئے جا رہے ہو؟ میں نے دیکھا کہ ان کے دل نور ایمان اور توکل بر خدا سے اتنے محکم ہیں کہ انہیں اپنے خالی ہاتھ ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
وہ آگے بڑھے اور گئے۔ وہ راہ خدا میں جہاد کے لئے گئے تھے اور اس راہ میں شہادت انھیں منظور تھی۔ اس لئے کہ جانتےتھے کہ حق پر ہیں۔ اس عظیم محاذ کے ہر مقام پر ہمارے شہدا نے اسی جذبے اور ایمان کے ساتھ جنگ کی۔
میرے عزیزو! وہ بہنیں اور بھائي جو دشت آزادگان، ہویزہ، سوسنگرد، بستان اور مختلف عرب قبائلی علاقوں سے یہاں جمع ہوئے ہیں اور جو لوگ دوسرے علاقوں سے یہاں آئے ہیں، ( توجہ فرمائیں) نوجوان مجاہدین کا یہ خوبصورت میدان ایک درس ہے۔ آج ایرانی قوم کے لئے درس ہے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ایک عظیم درس رہے گا۔ انقلاب میں بھی ہم خالی ہاتھوں میدان میں آئے اور عشق و ایمان سے سرشار دل کے ساتھ دشمن کی سرتاپا مسلح حکومت سے جنگ کی اور کامیاب ہوئے۔ البتہ مجاہدت میں سختیاں ہیں۔ لیکن حق باطل پر کامیاب رہتا ہے۔ مسلط کردہ جنگ میں بھی ہم حق پر تھے۔ اگر چہ دشمن امریکا، مغرب اور مشرق پر انحصار کرتا تھا اور سب مادی لحاظ سے اس کی مدد کر رہے تھے لیکن معنوی لحاظ سے دشمن کے ہاتھ خالی تھے۔ ہماری قوم کے ہاتھ معنوی لحاظ سے خالی نہیں تھے۔ اس کے قلب عشق و ایمان سے مملو تھے اور وہ کامیاب ہوئی۔ ہماری قوم کی کامیابی کی علامت خوزستان ہے۔ ہماری قوم کی کامیابی اور اس مکمل کامیابی کے سچے گواہ اس علاقے کے غیور اور دلیر عوام ہیں۔ ہویزہ، سوسنگرد، حمیدیہ، بستان اور یہاں کے دیگر علاقوں کے عوام ہیں۔ میں نے اسی جگہ ہویزہ کے مظلوم مردوں اور خواتین کو دیکھا ہے جنہوں نے دشمن کے حملے سے مجبور ہوکے ، اپنا مختصر سا سامان اٹھاکے گھر چھوڑ کے مہاجرت اختیار کی ۔ مجاہدت میں یہ سختیاں ہیں۔ لیکن ہمارے نوجوانوں اور مومن عوام نے استقامت و دلیری سے کام لیا اور ہماری خواتین اور مردوں نے ایثار و فداکاری کی اور دشمن کو شکست دینے میں کامیاب رہے۔
میرے عزیزو! بھائیو اور بہنو! آج بھی وہی صورتحال ہے۔ آج بھی امریکا اور سامراجی نظام، اسلام اور اسلامی جمہوریہ سے جنگ کرنا چاہتا ہے۔ لیکن امریکا باطل پر ہے۔ سامراج باطل پر ہے۔ ایرانی قوم حق پر ہے۔ اسلامی جمہوریہ حق پر ہے۔ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ قیام کرے گی، مجاہدت کرے گی اور کامیاب ہوگی۔ اس علاقے، سبھی سرحدوں اور ملک کے تمام علاقوں کے ہمارے مومن اور استوار نوجوان، مومن عورتیں اور مرد، لڑکیاں اور لڑکے اذن خدا سے دشمن کے مکر و حیلے پر غالب آئيں گے۔ دشمنوں کی دشمنی پر غالب آئيں گے۔ لطف خدا سے، دنیا کا کوئی بھی دشمن ان لوگوں پرغالب نہیں آ سکتا جو حق پر ہیں۔ جن کے دلوں میں ایمان ہے۔ جو اللہ کے لئے قیام کرتے ہیں اور خدا کے لئے کام کرتے ہیں۔ جو بھی ہو اور جیسا بھی ہو۔ اسلامی جمہوریہ کا مستقبل حال سے بہتر ہے۔ جس طرح کہ اس کا حال ماضی سے بہتر ہے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ان شاء اللہ فلاح و بہبود کی سمت میں ایک ایک قدم آگے بڑھا ئیگی۔ یہ ملک اور یہ قوم خدا کے ارادے سے تمام مشکلات کو اپنے راستے سے ہٹا دے گی۔ ان شاء اللہ یہ قوم وحدت کلمہ اور ایمان کامل کے ساتھ ملک کی تعمیر کرے گی، اس کو آزاد و خود مختار رکھے گی اور کسی بھی دنیاوی طاقت کا کسی بھی قسم کا تسلط برداشت نہیں کرے گی۔ بفضل اللہ منّہ و لطفہ ان شاء اللہ۔
ہماری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں کو اپنی رحمت اور لطف و کرم سے نوازے۔ میں بہت خوش ہوں کہ اس بابرکت میدان میں ان شہدائے عزیز کے مزار میں آپ لوگوں کو دیکھا اور آپ سے ملاقات ہوئی۔ میرے لئے یہ دن یادگار اور ناقابل فراموش ہے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ ‎