1395/04/16 ہجری شمسی مطابق 6 جولائی 2016 کو آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے نماز عید کے خطبوں میں ملت ایران اور امت اسلامیہ کو عید کی مبارکباد دی اور ایران کے لئے اس سال کے ماہ رمضان کو روحانیت، خضوع و خشوع، توسل و مناجات سے معمور مہینہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم عہدیداران کو ان مومن عوام کے نورانی دلوں پر رشک کرنا چاہئے، ساتھ ہی خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اس بات پر توجہ دینا چاہئے کہ ان عوام کے تعلق سے ہمارے دوش پر کیا ذمہ داریاں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ دنوں عراق، ترکی، بنگلہ دیش اور بعض دیگر ملکوں میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے اس سال بعض ملکوں میں مسلمانوں کی عید فطر ان دہشت گردوں کے ہاتھوں جو اپنے آقاؤں کی ہدایات کے مطابق حقیقی اسلام کی جگہ جعلی اسلام پھیلانا چاہتے ہیں، یوم سوگ میں تبدیل ہو گئی اور یہ جرائم امریکا، برطانیہ اور صیہونی حکومت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ہاتھوں دہشت گردوں کی پرورش کا نتیجہ ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ علاقے میں جنگ اور بد امنی پھیلانے سے استکباری طاقتوں کا مقصد مسئلہ فلسطین کو ذہنوں سے نکال دینا ہے۔ تاہم فلسطین کی آزادی کی لڑائی ایک ہمہ گیر اسلامی جدوجہد ہے اور اس مہم کو جاری رکھنا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے، جبکہ مسئلہ فلسطین کو داخلی یا صرف عربوں کا مسئلہ قرار دینا بہت بڑی غلطی ہے۔
عید الفطر کے خطبوں کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌ الله‌ الرّحمن ‌الرّحیم‌
الحمد لله ربّ ‌العالمین، الحمد لله الّذى خلق السّماوات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الّذین کفروا بربّهم یعدلون و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابى ‌القاسم المصطفى محمّد و على آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فى الارضین نحمد الله و نشکره و نستعینه و نستغفره و نتوب الیه.

آپ تمام حاضرین محترم، عزیز نمازیوں، تمام ملت ایران اور عظیم الشان مسلم امہ کو عید سعید فطر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس عید کی عظمت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ عید کے دنوں میں جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کے قنوت میں اللہ تعالی کو ہم اس دن کی قسم دیتے ہیں، اس سے اس دن کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ مومن عوام کی ایک مہینے کی عبادتوں، ذکر و مناجات، خضوع و خشوع اور توسل و تضرع کی تکمیل کا نام عید ہے۔ یہ سب کے لئے عید کا دن ہے اور پیغمبر اکرم کے لئے شرف اور ذخیرہ ہے۔
آج اس خطبے میں، مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ بحمد اللہ ہمارے مومن عوام نے بڑا اچھا ماہ رمضان گزارا۔ روحانیت سے پر، توجہ، توسل اور خشوع و خضوع سے معمور رمضان بسر کیا۔ ہم عہدیداران کو چاہئے کہ ان مومن عوام کی اس کیفیت اور ان کے نورانی قلوب پر رشک بھی کریں اور ساتھی ہی اللہ کا شکر بجا لائيں کہ ایسی باایمان قوم کے تعلق سے اللہ تعالی نے ہمیں ذمہ داریاں سونپی ہیں۔ سال کے سب سے طولانی ایام میں اور سب سے گرم دنوں میں ملک بھر کے عوام نے روزہ رکھا، روزے کے عالم میں شدید گرمی کو تحمل کیا۔ یہاں تک کہ ہمارے نوجوانوں، ہمارے بچوں نے بھی بڑے شوق و رغبت کے ساتھ روزے رکھے۔ کچھ خبیثانہ ہاتھوں نے، کچھ عناصر نے ہمارے کمسن بچوں کو روزہ شکنی کے لئے ورغلانے کی کوشش بھی کی، لیکن بحمد اللہ انھیں کامیابی نہیں ملی اور آئندہ بھی وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ لیکن ملک کے حکام اور عوام یہ توجہ رکھیں کہ خبیث اور موقع پرست دشمن کا ذہن کہاں تک پہنچتا ہے، وہ کن چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے؟ ملک کی نوجوان نسل کو دین سے دور کرنے کے لئے بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں، نوجوانوں کو روزہ شکنی پر اکسانے کے لئے سازشیں رچتے ہیں۔ بحمد اللہ ملت ایران نے انھیں اچھا جواب دیا۔
یہ مہینہ صیافت پروردگار کا مہینہ ہے۔ الہی میزبانی کا اپنا خاص الوہی انداز ہوتا ہے۔ اس مہینے میں الہی میزبانی عبارت ہے دلوں کی نورانیت سے، گناہوں کی مغفرت سے، بڑے اور نیک کاموں کی انجام دہی کی توفیق سے۔ ایک عظیم اور اہم کام یہی عظیم جلوس تھے جو ماہ رمضان کے آخری جمعے کو ہمارے عظیم الشان قائد امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی سفارش کے مطابق یوم القدس کی مناسبت سے ملک بھر میں نکلے۔ دوسرے بہت سے مسلم ممالک میں بھی یہ جلوس نکلے۔ یوم القدس والے جمعے کو ہمارے بعض شہروں میں گرمی اتنی شدید تھی کہ عام حالات میں انسان ایسی گرمی میں باہر نہیں نکلتا، مگر عوام نے شرکت کی۔ ملک میں ہر جگہ اور خاص طور پر ان شہروں میں جو گرم صوبوں میں واقع ہیں، ملک کے جنوبی صوبوں میں واقع ہیں۔ واقعی عوام نے جہاد کیا۔ روزہ رکھ کر، شدید دھوپ میں نکلے تا کہ فلسطین کے مرکزی مسئلے کے تعلق سے اپنے موقف کو ببانگ دہل بیان کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بعض مسلمان حکومتیں فلسطین کے مسئلے میں خیانت کر رہی ہیں، کچھ کوتاہی کر رہی ہیں، بعض قوموں کے پاس اطلاعات کی کمی ہے تب بھی ملت ایران اپنے پورے وجود کے ساتھ تمام دشمنوں کے سامنے ڈٹ جانے کے لئے آمادہ ہے، مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے کے لئے کمربستہ ہے۔
اس سال کا ماہ رمضان ملک گیر سطح پر روحانیت کی جانب عوام کی گہری رغبت اور قرآن کی پرشکوہ نشستوں کا آئینہ قرار پایا، قرآنی نشستیں بہترین انداز میں قومی میڈیا میں منعکس بھی ہوئیں۔ یہ جو مقدس مقامات پر ایک پارے کی اجتماعی تلاوت کا سلسلہ رائج ہو چلا ہے، اس کو عوام میں خوب پذیرائی ملی ہے۔ اس سال بہت سے شہروں میں یہ پروگرام منعقد ہوئے۔ عوام کی طرف سے دی جانے والی افطاری بھی قابل دید تھی۔ اس سال خاص طور پر تہران میں، دیگر شہروں اور قریوں کی مکمل رپورٹیں ابھی مجھے نہیں مل سکی ہیں، البتہ مشہد مقدس میں حرم امام رضا علیہ السلام کے بعض مناظر میں عمومی افطاری نظر آئی۔ امام بارگاہوں میں، مساجد میں، سڑکوں پر، محلوں میں، گلی کوچوں میں، عوام نے افطاری کے دسترخوان بچھائے اور راہگیروں کا روزہ افطار کروایا، لوگ ایک ساتھ بیٹھتے تھے۔ مجھے اس کی تصاویر ملی ہیں۔ واقعی عوام کی یہ رغبت اور ایک دوسرے کی خدمت کے جذبے کو دیکھ کر انسان بہت متاثر ہوتا ہے۔ اس سال اس عمل کی باقاعدہ ترویج نظر آئی۔ سال گزشتہ بھی یہ سلسلہ تھا، لیکن اس سال دیگر برسوں سے زیادہ وسیع پیمانے پر رہا۔ تہران میں تو تقریبا یہ چیز بالکل عام ہو گئی ہے۔ دوسرے شہروں اور بستیوں میں بھی یقینا ایسا ہی ہوگا، البتہ حقیر کو اس کی مکمل اطلاعات نہیں ملی ہیں۔ یہ انداز اس پرتکلف اور خرچیلی افطاری دینے اور فضول خرچی سے بہت بہتر ہے جو عام طور پر ایسے افراد کو دی جاتی ہے جو مستحق بھی نہیں ہوتے، بعض اوقات حکومتی اداروں کی طرف اس طرح کی افطاری دی جاتی ہے جس میں کوئی قابل تعریف بات نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کو کسی ہوٹل میں جمع کر لیتے ہیں، ایسے لوگوں کو جنھیں اس افطاری کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں عوامی سطح پر انجام پانے والا یہ عمل ہے۔ کچھ لوگ نکل پڑتے تھے اور انھوں نے اپنے لئے 'کوچہ گردان ھای عاشق' کا نام منتخب کیا تھا۔ یہ واقعی اسم با مسمی بھی ہے۔ وہ جاکر لوگوں کو گھروں میں افطاری پہنچاتے تھے۔ اس کی مجھے رپورٹیں ملیں، تصاویر میں نے دیکھیں۔ لوگوں کو دروازے پر جاکر افطاری دینا۔ یہ بہت با عظمت عمل ہے۔ اس عمل کی بڑی قیمت ہے۔ ان چیزوں کے علاوہ دعا کی نشستیں، مناجات کے جلسے، راتوں کو سحر کے وقت تک، مساجد میں، امام بارگاہوں میں، مختلف مقامات پر، خاص طور پر شبہائے قدر میں، یہاں تک کہ شہدا کے مزار پر لوگ جمع ہو جاتے تھے، اپنے دلوں کو بارگاہ خداوندی میں پیش کرتے تھے، یہ سب کچھ رحمت الہیہ کے نزول کے اسباب ہیں۔ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف بھی رفتہ رفتہ ایک عام روایت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ یہ بھی بڑی بابرکت روایت ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ بعض اطباء ماہ رمضان کی راتوں اور دنوں میں مفت علاج کر رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ایثار اور یہ قربانی کا جذبہ تمام عوامی طبقات میں پھیل گیا ہے۔ یہ ماہ رمضان گزر گیا، اس طرح کا رمضان رحمت خداوندی کے نزول کی تمہید بنے گا ان شاء اللہ۔
آج عید کا دن ہے، پیغمبر اکرم کی تکریم کا دن ہے؛ جَعَلتَهُ لِلمُسلِمینَ عیدا، وَ لِمُحَمَّدٍ صلّی اللهُ علیهِ وَ آلِه ذُخرًا و شَرَفًا و کرامتًا وَ مَزیدا؛ یہ پیغمبر اکرم کا احترام اور تکریم ہے عوام الناس کی جانب سے، ان عوام کی جانب سے جن کے تعلق سے پیغمبر اکرم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے؛ عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّم؛(۱) عوام الناس کو سختی میں دیکھنا پیغمبر کو بہت گراں گزرتا ہے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ اس ماہ رمضان کو، اس روز عید کو ملت ایران اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مبارک قرار دے۔

بِسمِ‌ اللهِ‌ الرَّحمنِ‌ الرَّحیمِ
وَ العَصرِ . اِنَّ الاِنسانَ لَفى خُسر . اِلَّا الَّذینَ ءامَنوا وَ عَمِلُوا الصّالِحاتِ وَ تَواصَوا بِالحَقِّ وَ تَواصَوا بِالصَّبر .
 
خطبہ دوم
بسم‌ الله‌ الرّحمن‌ الرّحیم
و الحمد لله ربّ العالمین نحمده و نستعینه و نستغفره و نتوب الیه و نصلّی و نسلّم علی حبیبه و نجیبه و خیرته فی خلقه سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما علیّ امیرالمؤمنین و حبیبته الزّهراء المرضیّة سیّدة نساء العالمین و الحسن و الحسین سیّدی شباب اهل الجنّه و علیّ بن الحسین و محمّد بن علیّ و جعفر بن محمّد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمّد بن علیّ و علیّ بن محمّد و الحسن بن علیّ و الخلف القائم المهدی، حججک علی عبادک و امنائک فی بلادک.

تمار برادران و خواہران گرامی کو تقوائے الہی کی دعوت دیتا ہوں۔ اس خطبے میں مجھے جو بات عرض کرنا ہے اس کا تعلق دنیائے اسلام سے ہے، امت مسلمہ کو مد نظر رکھ کر عرض کرنا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض ملکوں کے عوام کی عید سوگ میں بدل چکی ہے۔ بغداد میں کئی سو خاندان اپنے عزیزوں کا سوگ منا رہے ہیں ان جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی وجہ سے، ان افراد کی وجہ سے جو اپنے آقاؤں کے احکامات کے مطابق عوام کے درمیان جعلی اور غلط اسلام پھیلانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح استانبول میں، بنگلہ دیش میں، بعض دیگر ممالک میں ماہ رمضان کے ایام میں، روزہ دار عوام پر دہشت گردوں کے حملے ہوئے۔ یہ امریکا، صیہونی حکومت اور برطانیہ کے سیکورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے پرورش پانے والی دہشت گردی کا نتیجہ ہے جس نے عالم اسلام میں یہ حالات پیدا کر دئے ہیں۔ البتہ خود ان کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ وہ اس کا نتیجہ بھگت بھی رہے ہیں۔ یہ ان کا گناہ اور جرم ہے۔ یہ ان کا ایسا جرم ہے جو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ بد قسمتی سے ماہ رمضان میں بعض اسلامی ممالک میں؛ شام میں، یمن میں، لیبیا میں اور دیگر جگہوں پر جنگ کے شعلے بلند ہوتے رہے۔ حقیقت میں انتہائی صدمہ پہنچتا ہے جب انسان دنیائے اسلام کی اس حالت زار کا مشاہدہ کرتا ہے۔ بعض سیاسی تنازعات کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ سیاسی تنازعہ الگ چیز ہے اور خانہ جنگی بالکل الگ چیز ہے۔ یہ بڑی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ تھا کہ آج شام میں اور بعض دیگر جگہوں پر یہ حالات پیدا ہو گئے۔ یمن میں آج عوام ایک سال تین مہینے سے بمباری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ لیکن آفرین صد آفرین یمن کے عوام کو جنھوں نے یوم قدس کے موقع پر اس شدید گرمی اور بمباری کے باوجود ایسا عظیم جلوس نکالا۔ مرحبا ان عوام کو اور مرحبا یمن کے عوام کی حکیمانہ قیادت کو! شام میں بھی عوام اس بھیانک المئے سے دوچار ہیں جو استکبار نے ان پر مسلط کر دیا ہے۔
دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کو فراموش کر دیا جائے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیائے اسلام اس طرح اپنے داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جائے کہ مسئلہ فلسطین اسے یاد ہی نہ رہے تاکہ صیہونی حکومت کو اپنے خبیثانہ مقاصد کی تکمیل کا موقع مل جائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ فلسطین کی آزادی کی لڑائی اسلامی لڑائی ہے، ہم سب کی لڑائی ہے۔ یہ صرف عربوں کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں، جس طرح بھی ممکن ہے، یہ جنگ لڑیں، اس جدوجہد میں حصہ لیں، اس مہم کو جاری اور اس آواز کو بلند رکھیں۔ اس عظیم مسئلے ک اہمیت کو گھٹا کر اسے عربوں کا داخلی معاملہ سمجھ لینا بہت بڑی بھول ہے۔
ایک چیز ملک کے داخلی مسائل کے تعلق سے عرض کرنا ہے اور وہ ان بڑی تنخواہوں اور بیت المال سے غیر منصفانہ اور ظالمانہ طور پر حاصل کی جانے والی رقومات کا ہے۔ آج یہ موضوع عوام کے درمیان زیر بحث ہے اور اس کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اس طرح رقم کا حاصل کیا جانا غیر قانونی ہے۔ یہ گناہ ہے، یہ اسلامی انقلاب کی امنگوں سے خیانت ہے۔ یقینا ماضی میں کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں، کچھ غفلتیں برتی گئی ہیں، جن کا ازالہ کیا جانا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آج ہم بس شور شرابا مچا کر خاموش ہو جائیں اور سارا قضیہ بھلا دیا جائے۔ صدر محترم اور دیگر دونوں شعبوں (مقننہ، عدلیہ) کے سربراہان نے عہد کیا ہے کہ اس معاملے کو دیکھیں گے، اس پر سنجیدگی سے کام ہونا چاہئے۔ اس پر کارروائی ہونی چاہئے۔ غیر قانونی طریقے سے وصول کیا جانے والا پیسہ واپس لیا جانا چاہئے۔ اگر کسی نے قانون شکنی کی ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے اور اگر قانون کا غلط استعمال کیا ہے تو ان افراد کو ان عہدوں سے بطرف کیا جانا چاہئے۔ یہ اس لائق نہیں ہیں کہ ان مراکز میں کام کریں۔
البتہ اس نکتے پر بھی توجہ رکھئے کہ اسلامی نظام کے دشمن اس قضیئے کو اسلامی نظام کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہ ایک چھوٹی سی تعداد ہے ان عہدیداروں اور کارکنوں کے مقابلے میں جو اداروں کے اندر پوری پاکدامنی اور دیانت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ چھوٹی سی تعداد بھی بہت نقصان دہ ہے۔ یہ ایک عیب ہے۔ اس عیب کی اصلاح ہونی چاہئے۔ ہم نے غربت کے عواقب کو دیکھا ہے۔ انھیں دور کرنے کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں، ان کے بارے میں غور و فکر کے لئے اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ لیکن شاید اشرافیہ کلچر سے پہنچنے والے نقصانات کو بخوبی نہیں جانتے۔ جب اشرافیہ کلچر، فضول خرچی اور تجمل پرستی معاشرے میں پھیل جاتی ہے، گھر کر لیتی ہے تو اس طرح کے قضیئے پیش آتے ہیں۔ سب اس فکر میں لگ جاتے ہیں کہ کہیں سے ایک لقمہ ملے اور اسے شکم میں ڈال لیں، اپنا پیٹ مال حرام سے بھر لیں۔ اس چیز کا سختی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔ برطرفی، معزولی اور بیت المال سے جانے والی رقم کی واپسی کو دستور العمل میں شامل کیا جانا چاہئے۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے۔ عوام کی نظر میں یہ چیز اہم ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گيا اور کارروائی نہیں ہوئی تو نظام سے عوام کا اعتماد کم ہوگا جو بہت بڑا المیہ سمجھا جائے گا۔ ٹھوس کارروائی کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کیا جانا چاہئے۔ اللہ تعالی تمام عہدیداران کو اپنی توفیقات سے نوازے!

بِسمِ‌ اللهِ ‌الرَّحمنِ ‌الرَّحیم
قُل هُوَ اللهُ احدٌ . اَللهُ الصَّمَدُ . لَم یَلِد وَ لَم یولَد . وَ لَم یَکُن لَهُ کُفُوًا اَحَدٌ .
و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) سوره‌ توبه، آیت نمبر ۱۲۸ کا ایک حصہ؛ «... تماری سختیاں ان کے لئے ناقابل برداشت ہیں۔»
۲) سوره‌‌ عصر، آیات ۱ الی ۳؛ «زمانے کی قسم، بالتحقیق انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے، جنھوں نے شائستہ اعمال انجام دئے، ایک دوسرے کو حق اور صبر و تحمل کی سفارش کرتے ہیں۔