رہبر انقلاب اسلامی نے محنت کش طبقے کے مسائل کے حل، قومی پیداوار کے فروغ، کالا بازاری کی سختی کے ساتھ روک تھام، ایسی غیر ملکی اشیاء کی درآمدات کے امتناع جو ایران کے اندر بھی تیار کی جا رہی ہیں، پر زور دیا۔ آپ نے امریکا کی معاندانہ کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ناقابل اعتماد امریکی ایران کے خلاف گوناگوں پابندیوں کے جاری رہنے پر اصرار کرتے ہوئے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایران کو خطرے کی شکل میں پیش کرکے دیگر ممالک سے ایران کے اقتصادی لین دین میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں۔
بسم ‌الله ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

آپ تمام عزیزوں کو یوم محنت کشاں کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہر سال یہاں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں سے ہونے والی میری یہ ملاقات بڑی شیریں اور دل آویز ہوتی ہے۔ کہنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں، جن میں سب سے اہم اور سب سے پہلی بات ملک کے محنت کش طبقے کا شکریہ ادا کرنا ہے اور اس طبقے سے اپنے خاص انس و محبت کا اظہار کرنا ہے۔ آج میں آپ کو اور ملک بھر کے محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں تہہ دل سے دعا گو ہوں کہ ہمیں محنت کش طبقے کے تعلق سے اپنے فرائض پر عمل آوری کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے دوش پر اس سلسلے میں بڑی سنگین اور دشوار ذمہ داریاں ہیں۔
یہ رجب کا مہینہ ہے۔ برکتوں سے آراستہ یوم ولادت حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام اور یوم بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیانی ایام سے ہم گزر رہے ہیں۔ یہ دعا کا مہینہ ہے، توسل کا مہینہ ہے، ذکر خداوندی کا مہینہ ہے۔ عزیز قاری قرآن نے ابھی ان آیتوں کی تلاوت کی؛ یااَیُّهَا الَّذینَ ءامَنُوا اذکُرُوا اللهَ ذِکراً کَثیراً * وَ سَبِّحوهُ بُکرَةً وَ اَصیلاً * هُوَ الَّذِی یُصَلّی عَلَیکُم وَ مَلٰئِکَتُه (۲) ارشاد ہوتا ہے کہ تم ذکر خدا کرو، اللہ بھی تم پر درود و سلام بھیجے گا۔ ذات اقدس پروردگار بھی اور اس کے فرشتے بھی آپ مومنین پر درود بھیجتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر خدا، یاد پروردگار رہنما اور گرہ گشا ہے، دست گیری کرنے والی ہے۔ یہ ہمیں گرہیں وا کرنے پر قادر کر سکتی ہے۔ گرہیں تو بہت زیادہ ہیں، یہ گرہیں ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پنجے سے ہی کھلنی ہیں، لیکن ان گرہوں کو کھولنے والی توانائی ہمیں اللہ سے ملے گی۔ ذکر پروردگار بند دروازے کھولنے میں ہماری مدد کرے گا اور راہیں ہموار کرے گا۔
میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کرنی ہیں۔ ایک تو کام کے عمومی مفہوم سے متعلق بحث ہے، کام کے وسیع مفہوم کی بحث ہے۔ ایک بحث محنت کش طبقے کے بارے میں ہے۔ جہاں تک کام کے وسیع مفہوم کا سوال ہے تو جو بھی سماج میں کسی کام میں مصروف ہے، اس کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے۔ پیداواری کاموں میں، خدمت رسانی کے کاموں میں، انتظامی کاموں میں، علمی کاموں میں مصروف تمام افراد محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انتظامی امور انجام دینے والا عہدیدار بھی اس مفہوم کے تحت محنت کش ہے۔ یونیورسٹی کا استاد بھی، دینی مدرسے کا استاد بھی، طالب علم بھی، دینی طالب علم بھی، جو بھی یہ کام انجام دیتا ہے، دینی امور کی انجام دہی میں مصروف ہے، تبلیغ دین کر رہا ہے سب کے سب اس مفہوم کے اعتبار سے محنت کش ہیں۔
اس مفہوم کے اعتبار سے کام میں ایک ایسی برکت ہے جو کسی اور چیز میں نہیں ہے۔ کام اپنے اس وسیع مفہوم کے ساتھ تعمیری عمل ہے، یہ انسان کی بھی تعمیر کرتا ہے، سماج کی بھی تعمیر کرتا ہے اور دوسروں کی بھی تعمیر میں مددگار ہے۔ اس طرح اس کا شمار اقدار میں بھی ہوتا ہے۔ بیکار بیٹھنا، تساہلی، تضییع وقت، نوجوانی کی توانائیوں کو یونہی برباد کرنا، فکری توانائی اور جسمانی توانائی کی تضییع اقدار کے منافی ہے۔ یہ اسلامی طرز فکر کہتا ہے۔ جو شخص بھی کہیں کسی کام میں مصروف ہے وہ اقدار کی ترویج کر رہا ہے۔ اگر یہ کام اس نے خوشنودی پروردگار کے لئے انجام دیا ہے تو یہ عبادت اور باعث ثواب بھی ہے۔
کام کے اس خاص مفہوم کے بارے میں ایک عمومی سفارش یہ ہے کہ ہمیں کام کی عادت کو زیادہ سے زیادہ وسعت دینی چاہئے۔ ہر کسی کو یہ سفارش کرنا چاہئے کہ جو جس جگہ بھی کام کر رہا ہے اپنے کام کے معیار کو بلند کرے اور کام کی انجام دہی کا حق ادا کرے۔ مثال کے طور پر کوئی طالب علم اگر بخوبی درس نہیں پڑھ رہا ہے تو گویا اس نے کام کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اگر استاد تدریس کے لئے پوری طرح وقت نہیں دے رہا ہے، پوری تیاری کے ساتھ کلاس روم میں نہیں آتا، پیشگی مطالعہ نہیں کرتا، وقت صرف نہیں کر رہا ہے تو اس نے بھی کام کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اگر کوئی عہدیدار جو کسی منصب پر فائز ہے، کوئی وزیر ہے، یا بڑا عہدیدار ہے، رکن پارلیمنٹ ہے، اگر اس نے فرائض منصبی ادا کرنے کے لئے خود کو وقف نہ کیا تو اس نے گویا کام کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اگر ہم نے کوئی عہدہ قبول کیا ہے اور ہم اپنا وقت اور اپنی پوری توانائی اس فرائض منصبی کے ادا کرنے پر صرف نہیں کر رہے ہیں بلکہ دوسرے کاموں میں لگے ہوئے ہیں تو ہم نے اس منصب کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ اسی لئی حکومتی عہدیداروں اور حکام سے خواہ ان کا تعلق مجریہ سے ہو، عدلیہ سے ہو، مقننہ سے ہو یا دیگر اداروں سے ہو، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ نے جو ذمہ داری قبول کی ہے اسے پوری توانائی کے ساتھ انجام دیجئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ میں کسی کام کی ذمہ داری قبول کر لوں اور اپنا تھوڑا سا وقت اس پر صرف کروں اور باقی وقت اپنے ذاتی کاموں اور دوسرے امور کے لئے استعمال کروں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا کیا تو کام کا حق ادا نہیں ہوگا۔ کام کے اس عمومی مفہوم کے تحت ہماری یہ سفارش سب کے لئے ہے۔ ہم بہت کچھ پہلے بھی کہہ چکے ہیں، بہت سے نکات بیان کر چکے ہیں، یہاں ان کا اعادہ مقصود نہیں ہے۔
ہماری بنیادی بحث اور اصلی گفتگو محنت کش طبقے کے بارے میں ہے، یہاں کام کا ایک خاص مفہوم مد نظر ہے، کام سے مراد ہے پیداواری سرگرمیاں، خدمت رسانی کا شعبہ، صنعتی و زرعی سرگرمیاں، آج بنیادی طور پر ہماری گفتگو اسی پہلو پر ہوگی۔ میں اپنا فریضہ سمجھتا ہوں کہ پہلے چند جملے وطن عزیز کے محنت کش طبقے کی تعریف میں عرض کر دوں۔ ہم یہ بات سو بار کہہ چکے ہیں لیکن اگر مزید سو دفعہ اسے دہرائیں تو بھی بیجا نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کا مزدور طبقہ ملک اور اسلامی نظام کا وفادار طبقہ ہے۔ ان 37 یا 38 برسوں کے دوران مزدور طبقے سے اپنے قریبی رابطے کی بنیاد پر میں یہ بات عرض کر رہا ہوں۔ مزدور طبقے نے انقلاب کے دوران اپنی وفاداری ثابت کی، اپنی شراکت کو ثابت کیا، اوائل انقلاب کے دوسرے گوناگوں واقعات اور فیصلہ کن تغیرات کے وقت یہ طبقہ پیش پیش نظر آیا۔
اوائل انقلاب میں اس زمانے کے لیفٹسٹ، اس وقت کے مارکسسٹ جو بعد میں سب کے سب امریکی استکبار کے ایجنٹ بن گئے، ملک کے اندر اس کوشش میں لگ گئے تھے کہ ملت ایران کی ہمہ گیر تحریک کو انھیں کے بقول مزدور انقلابوں کی محدود اور منجمد فضا کی سمت موڑ دیں اور زمام امور عوام کے ہاتھوں سے، دین کی گرفت سے اور اسلام کے ہاتھ سے لیکر ایسے عناصر کے ہاتھوں میں سونپ دینا چاہتے تھے جو خود کو مزدور حکومت اور مزدور انقلاب کا علمبردار کہتے تھے۔ انقلاب کے اوائل میں یہ سب ہو رہا تھا۔ میں خود بھی کرج روڈ پر واقع ایک کارخانے میں گیا تھا۔ مزدوروں کے اجتماع میں شرکت کی تھی اور انھیں قریب سے دیکھا تھا۔ وہ لوگ بھی آئے تھے جن کا تعلق مزدور طبقے سے نہیں تھا، وہ وہاں سے ایک نئی مہم شروع کرنا چاہتے تھے، تہران سے مہم کا آغاز کرکے سارے ملک کے مزدور طبقے کو امام خمینی، انقلاب اور عوام کے خلاف لام بند کرنا چاہتے تھے۔ میں نے انھیں قریب سے دیکھا ہے۔ میں وہاں گیا، دن میں بھی گيا، رات میں بھی گيا اور میں نے خود دیکھا کہ مومن اور اسلام کا پیرو مزدور طبقہ کس طرح دشمنوں کی سازشوں کے مقابلے میں اپنی بصیرت و آگاہی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ ہمارے محنت کش طبقے نے اس بصیرت و آگہی کا ثبوت پیش کیا۔ انقلاب کی تحریک کے دوران بھی اور انقلاب کامیاب ہو جانے کے بعد شروعاتی تغیرات و واقعات کے دوران بھی۔ اس کے بعد مسلط کردہ جنگ کا مرحلہ پیش آیا اور گوناگوں سیاسی واقعات رونما ہوئے، مختلف سیاسی دھڑے سرگرم عمل ہو گئے۔ ان تمام مسائل میں محنت کش طبقے نے اسلامی نظام سے اپنی وفاداری جاری رکھی۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے اور جسم و جان سے اس وفاداری کا ثبوت پیش کیا اور بڑا موثر کردار نبھایا۔ یہ ایک زمینی سچائی ہے۔ آج تک یہ سلسلہ اسی طرح چلا آ رہا ہے۔
محنت کش طبقے کی زندگی کے مسائل ہیں جن میں بعض کا ذکر وزیر محترم نے کیا، کوششیں ہو رہی ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی وزیر محترم اور تمام عہدیداران کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ان باتوں کو عملی جامہ پہنا سکیں جن کا ذکر انھوں نے کیا، جو کچھ انجام دیا جا چکا ہے اللہ تعالی اس میں برکت دے، درجہ قبولیت عطا فرمائے اور جو انجام نہیں دیا گيا ہے اسے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مشکلات ہیں لیکن پھر بھی محنت کش طبقے نے کبھی بھی انقلاب مخالف پیغامات پر توجہ نہیں دی، لائق اعتنا نہ سمجھا۔ کوششیں تھیں کہ عوام کو اسلامی نظام کے مد مقابل کھڑا کر دیں، مزدور طبقہ مخالفت میں اٹھ کھڑا ہو، یونیورسٹیاں مخالفت پر اتر آئیں، لیکن مزدور طبقہ ہرگز مقابلے پر نہیں آیا بلکہ اسلامی نظام کی پشت پناہی کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے دفاع میں مصروف ہو گیا۔ یہ مزدور طبقے کی تعریف ہے۔
میں سب سے پہلے تو اللہ تعالی کا سجدہ شکر بجا لانا چاہتا ہوں، کیونکہ یہ دست قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے، دل تو اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ اس کے بعد میں پورے محنت کش طبقے کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ واقعی اس صنف نے بہترین طریقہ کار اپنایا۔ انقلاب کے امور میں اور اسلامی نظام کے مسائل کے تعلق سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ تو رہی پہلی بات۔
جہاں تک مزدور طبقے کے کردار، کام، صنعتی مراکز محنت کش طبقے کا سوال ہے تو استقامتی معیشت میں ان کا بڑا اہم مقام ہے۔ میں نے استقامتی معیشت کی بات کی ہے تو یہ صرف لفاظی نہیں ہے۔ میں نے کہا ہے؛ 'اقدام و عمل' تو اس کا مطلب یہ ہے کہ استقامتی معیشت کی پالیسیوں (3) کی ہر شق پر حقیقی معنی میں عمل کیا جائے۔ یعنی ہر شق کے لئے ہمارے یہی برادران عزیز، محترم عہدیداران جو واقعی خود بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں، بیٹھ کر منصوبہ بندی کریں اور قدم بہ قدم اس منصوبہ کو رو بہ عمل لائیں۔ استقامتی معیشت میں کام اور محنت کا بڑا اہم مقام ہے۔
اب سوال یہ ہےکہ محنت کش طبقہ کیا کرے کہ استقامتی معیشت میں شریک ہو جائے؟ کردار تو سب کو ادا کرنا ہے۔ محنت کش طبقے کا اس میں اپنا کردار ہے، مالکان کا الگ کردار ہے، حکومت کا اپنا کردار ہے، دیگر عہدیداران کو بھی اپنے اپنے حصے کا کام انجام دینا ہے۔ محنت کش طبقے کی سب سے پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ اپنے فریضے کا احساس کرے۔ یعنی محنت کش شخص اس کام کے تعلق سے جو اسے سونپا گیا ہے فرض شناسی کا جذبہ اپنے اندر متحرک رکھے۔ ہم سب کو ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ جو کام اسے سونپا گیا ہے اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دے۔ کوالٹی کو بہتر بنائے۔ محنت کش طبقے کے ہر فرد کو اس کی فکر ضرور ہونی چاہئے۔ ہمیشہ اس کوشش میں رہیں کہ کام اور مصنوعات کا معیار بہتر ہو۔ اس سے برکت ہوگی، خود اس محنت کش انسان کے لئے بھی اور معاشرے کے لئے بھی۔ مشہد کے 'بازار بزرگ' میں جوتوں کی ایک دوکان تھی۔ اس کے مالک کے بارے میں یہ شہرت تھی کہ جو جوتے وہ بنا کر دے دیتا تھا اس کا چمڑا ممکن ہے کہ پھٹ جائے، تلوا ممکن ہے کہ پھٹ جائے لیکن سلائی ہرگز نہیں ٹوٹ سکتی تھی۔ یعنی اتنی محکم سلائی وہ کرتا تھا۔ تو ہماری کوشش یہ ہونا چاہئے کہ جو کام ہمارے ہاتھ سے انجام پا رہا ہے وہ معیاری ہو اور پورے استحکام کے ساتھ انجام پائے۔ یہ محنت کش طبقے کا فریضہ ہے۔ یہ کہہ دینا تو آسان ہے، لیکن عملی طور پر ایسا کرنا کتنا سخت ہے؟ پیغمبر اکرم کی زبان سے اللہ تعالی نے یہ کہلوایا ہے کہ؛ رَحِمَ اللهُ اِمرَأً عَمِلَ عَمَلاً فَاَحکَمَه (۴) میں نے درجنوں بار اس کا حوالہ دیا ہے۔ اللہ رحمت نازل کرے اس شخص پر جو کام کو پوری محکم کاری کے ساتھ انجام دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کام انجام دینے کے کچھ لوازمات ہیں۔
ہم کیا کریں کہ محنت کش طبقے کے اندر بہترین کوالٹی کی مصنوعات تیار کرنے کی توانائی پیدا ہو جائے؟ ان لوازمات میں سے کچھ ایسے ہیں جو حکومت کے ذمے ہیں، کچھ کی ذمہ داری عہدیداران پر ہے اور کچھ کا تعلق عوام الناس سے ہے جبکہ کچھ لوازمات خود محنت کش طبقے کو پورے کرنے ہیں۔ کوالٹی کو بہتر بنانے کے لئے ایک کام یہ انجام پانا چاہئے کہ محنت کش افراد کی مہارت بڑھے۔ یہی جو فنی اور پیشہ ورانہ مہارت کی بات آپ ( وزیر محنت) نے کی۔ میں برسوں سے ہر وزیر تعلیم اور ہر وزیر محنت سے گفتگو میں اسی نکتے پر زور دیتا رہا ہوں۔ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بنیادی کام ہے۔ محنت کش طبقے کی مہارت بڑھانا چاہئے۔ ایک عام مزدور صرف اپنے تجربے سے تو بہت آگے نہیں جا سکتا۔ بیشک تجربہ بھی کافی اثر رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹریننگ ضروری ہے۔ کاموں کی مہارت سکھانا عہدیداران کا کام ہے۔ یہی پیشہ ورانہ مہارت اور دوسرے جو کام مزدوروں کی مہارت بڑھانے کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں ان میں مالکان اور صنعت کار افراد بھی کردار ادا کر سکتے ہیں اور حکومت بھی موثر انداز سے کام کر سکتی ہے۔
ایک اور مسئلہ مزدور طبقے کی نوکری کی سیکورٹی کا ہے۔ اگر مزدور کو یہی فکر لاحق رہے گی کہ کل وہ اس کارخانے میں ہوگا یا نکال دیا جائے گا تو کام نہیں کر پائے گا۔ روزگار کی ضمانت ہونا ضروری ہے۔ اس کے اپنے راستے ہیں۔ یہ بھی حکومتی عہدیداران، صنعت کاروں اور دیگر افراد کی ذمہ داری ہے۔ صرف وزارت محنت سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ اس کا تعلق مختلف شعبوں سے ہے۔ روزگار کی گارنٹی کے لئے اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔ کارخانوں کا بند ہونا بہت بڑی مصیبت ہے۔ محنت کش طبقے کی آفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ کارخانہ بند ہو جائے۔ کارخانے کا بند ہونا دو طریقے کا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ تو کارخانہ اس لئے بند ہو جاتا ہے کہ مالک کے وسائل ناکافی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے پاس نقدی کی کمی ہے، یا خام مال نہیں ہے، یا مشینیں فرسودہ ہو گئی ہیں، کام نہیں کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں ان لوگوں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے جن کے پاس خام مال ہے، نقدی ہے، مشینوں کی مرمت اور جدیدکاری جن کے ہاتھ میں ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ مدد کریں اور اس مالک سے تعاون کریں۔ بینکوں کی ذمہ داری ہے، ایکسپورٹ امپورٹ کا شعبہ ذمہ دار ہے۔ صنعتی و فنی شعبے ذمہ دار ہیں، نالج بیسڈ کمپنیاں ذمہ دار ہیں۔ کارخانہ بند ہونے کی یہ ایک صورت ہے۔ ایسی صورت میں مالک نے کوئی ایسی غلطی نہیں کی ہے جس کے نتیجے میں کارخانہ بند ہو رہا ہے۔ اس کی کچھ خاص وجوہات ہیں جنھیں برطرف کیا جا سکتا ہے۔ بیشت دشوار کام ہے لیکن انجام دیا سکتا ہے۔ ان وجوہات کی نشاندہی کی جانی چاہئے اور پھر ان کا ازالہ ہونا چاہئے۔ ہم عہدیداران اور متعلقہ اداروں کی ایک بڑی ذمہ داری یہی ہے۔ ایک تو کارخانہ بند ہونے کی ایک صورت ہے۔ کارخانہ بند دونے کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ مالک سوئے استفادہ کرتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے ایک کارخانہ خرید لیا ہے۔ کسی حکومتی ادارے سے اسے ملا ہے یا اس نے کسی طرح اسے خرید لیا ہے۔ بعد میں اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ کارخانے کی زمین کو کسی اور مقصد کے تحت استعمال کرے، کیونکہ کارخانہ چلانے میں اتنا منافع نہیں ہے۔ وہ کسی بہانے سے یہ کارخانہ بند کر دیتا ہے۔ ایسی بھی مثالیں ہیں اور میرے پاس اس کی رپورٹ بھی ہے۔ ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے، سنجیدگی کے ساتھ کارروائی کی جانی چاہئے۔ میں نے یہ بات ایک دفعہ اور شاید اسی محنت کش طبقے سے ملاقات میں کہی تھی کہ لون لیتے ہیں خام مال امپورٹ کرنے یا ورکشاپ لگانے کے لئے، لیکن اس قرضے کو کسی جگہ پر عمارت بنانے میں لگا دیتے ہیں تاکہ زیادہ منافع مل جائے۔ ایسے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ اس پر نظر رکھنا چاہئے۔ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، حکومت کی ذمہ داری ہے، دیگر مختلف متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔ مشکل یہ نہیں ہے کہ ایک شخص دولت مند بننا چاہتا ہے اور اس کے لئے ایک راستہ اس نے اپنا لیا ہے۔ ہم کسی کے دولت مند ہونے کے مخالف نہیں ہیں۔ کوئی بھی ہو جتنا چاہے دولت مند ہو جائے، لیکن محنت کش طبقے کی گردن پر پاؤں رکھ کر اور عوام کے ایک طبقے کا حق مار کر دولت مند ہونے کا کیا تک ہے؟ اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔
دیکھئے یہ ادارے زنجیر کے حلقوں کی مانند ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ بینک، ملک کا بینکنگ سیکٹر، ایکسپورٹ امپورٹ کا شعبہ، پروڈکشن اور انڈسٹری کا شعبہ، یہ سب ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ ہر شعبہ دوسرے کی مدد کر سکتا ہے، اسی طرح خلاف ورزی بھی کر سکتا ہے۔ ملک کی اعلی سطحی انتظامیہ کو چاہئے کہ ان خلاف ورزیوں کا سد باب کرے۔ سارے ادارے ایک دوسرے کی مدد کریں اور کام انجام دیں۔
محنت کش طبقے کو کامیاب بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایرانی محنت کش طبقے کے ہاتھوں تیار ہونے والی چیزوں اور مصنوعات کے استعمال کی ترویج کی جائے۔ اسے میں بعد میں عرض کروں گا۔ ایرانی محنت کش طبقے کے ہاتھوں بننے والی اشیاء کے استعمال کی ترویج کے تعلق سے بیان کرنے کے لئے میرے پاس بہت کچھ ہے۔ اس سلسلے میں چند جملے میں بعد میں عرض کرو گا۔ بہترین انداز سے کام انجام دینے میں مزدور کی کامیابی کا ایک راز یہ ہے کہ کارخانے کا ماحول اچھا ہو، پروڈکشن کے اخراجات میں مزدور کی مزدوری کا حصہ زیادہ رکھا جانا چاہئے۔ اس چیز کے لئے ایسی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے کہ صنعت کار اور سرمایہ کار کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔ اضافی اخراجات کم کر دئے جائیں اور مزدوری کا حصہ بڑھا دیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو مزدور طبقے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس کے صحیح راستے موجود ہیں۔ دنیا میں کچھ ملکوں نے ان چیزوں کا تجربہ کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے حکام واقعی دل سے خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایمان اور اس گہرے لگاؤ کی برکت و طاقت سے یہ روشیں تلاش کر سکتے ہیں اور اس میدان میں کام کر سکتے ہیں۔
دوسرا پہلو مالکان اور صنعت کاران سے متعلق ہے۔ میں برسوں سے بار بار کہتا آ رہا ہوں کہ صنعت کار اور مزدور ایک دوسرے کے اجزائے ترکیبی کی مانند ہیں، ایک دوسرے کے مخالف نہیں۔ مارکسی اور ڈائلیکٹک مارکسی نظرئے کی بنیاد ٹکراؤ اور تصادم پر رکھی گئی تھی مگر اسلامی تفکر تعاون، قدم سے قدم ملا کر چلنے اور دونوں کے امتزاج پر استوار ہے۔ صنعت کار اور مزدور ایک دوسرے کی مدد کرنے والے دو اعضائے بدن کی مانند ہیں، ایک دوسرے کے مخالف اور دشمن نہیں ہیں۔ دو رفقائے کار ہیں اور ان میں ہر کسی کے اپنے کچھ حقوق ہیں۔ ظاہر ہے سرمایہ کار کے پاس یہ راستہ موجود تھا کہ وہ اپنا سرمایہ لے جاکر کسی بینک میں رکھ دیتا اور بے فکری کے ساتھ اس کا انٹرسٹ لیتا رہتا۔ اس طرح شاید اسے منافع بھی زیادہ ملتا۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے صنعتی میدان میں قدم رکھا۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اگر اس نے یہ کام روحانی و معنوی نیت کے ساتھ انجام دیا ہے تو اللہ اسی پر اسے بہشت عطا کر سکتا ہے۔ میں ایک مرد مومن کو جانتا ہوں جن کی زندگی بڑی سادہ تھی۔ پیسے والے تھے لیکن بہت سادگی سے زندگی بسر کرتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا تم پاگل ہو گئے ہو جو اپنا پیسہ لاکر اس پروڈکشن مشین میں لگا دیا ہے جس میں اتنا زیادہ رسک ہے۔ جاؤ یہ پیسہ لے جاکر بینک میں رکھ دو اور اس سے ملنے والے انٹرسٹ سے اپنی زندگی گزارو۔ لیکن میں نے جواب دیا کہ نہیں، میں یہ پیسہ ملک کی ترقی کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بہت اچھی چیز ہے۔ اس معاملے میں جو حقوق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مالک اور مزدور کے مابین دلی تعاون ہو۔
مالکان اور سرمایہ کاران کا ایک حق یہ بھی ہے کہ حکومت اور اجرائی ادارے ان کے کاموں کو آسان بنائیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اگر نقدی کی کمی ہے تو اسے فراہم کریں، اگر خام مال نہیں ہے، کارخانہ اور اس کی مشینیں فرسودہ ہو گئی ہیں تو اس کی مدد کریں تاکہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ سرمایہ کارو اور مالکان کی ایک مدد یہ کی جا سکتی ہے کہ ان کے لئے ایکسپورٹ کی زمین ہموار کی جائے۔ البتہ یہ کام خود سرمایہ کار کرتا ہے لیکن اس میں حکومت کی طرف سے مدد ہو سکتی ہے۔ ہماری وزارت خارجہ مدد کر سکتی ہے، دوسری وزارتیں بھی تعاون کر سکتی ہیں۔ سرمایہ کاروں کی ایک مدد جو حکومت کر سکتی ہے یہ ہے کہ غیر ملکی خریداروں کے معاملے میں وہ سرمایہ کاروں اور کارخانوں کے مالکان کی حمایت کرے۔ کبھی ہمارا صنعت کار اپنی مصنوعات کسی ملک کے لئے ایکسپورٹ کرتا ہے، لیکن اسے وہاں پریشان کیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ سینہ سپر ہوکر کھڑی ہو جائے، مدد کرے، یہ نہ ہونے دے کہ کسی غیر ملک کی حکومت، کمپنی یا کوئی شخص سوئے استفادہ کرتے ہوئے ہمارے صنعت کار کا حق مارے۔ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کی اس طرح مدد کی جا سکتی ہے۔
ایک کام اور بھی بہت ضروری ہے اور وہ ہے ایکسپورٹ ہونے والی مصنوعات کی کوالٹی کی نگرانی۔ بعض لوگ غیر معیاری اشیاء ایکسپورٹ کرکے ملک کو بدنام کرتے ہیں۔ جب یہ چیز غیر ممالک کے بازار میں پہنچتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ غیر معیاری ہے تو اس سے ملک کی آبرو کو نقصان پہنچتا ہے۔ صرف آبرو ہی نہیں، برآمدات پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔ لہذا نگرانی ہونی چاہئے۔ یہ کام انجام دئے جانے چاہئے۔
اب آتے ہیں داخلی پیداوار کے موضوع کی طرف۔ داخلی پیداوار کو میں بہت زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ داخلی پیداوار کو مقدس عمل کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ داخلی پیداوار کی حمایت کو ایک فریضے کے طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ ہر کوئی خود کو داخلی پیداوار کی حمایت کا پابند سمجھے۔ اس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جو چیز ملک کے اندر پیدا ہو رہی ہے اسے کسی بھی صورت میں بیرون ملک سے امپورٹ نہ کیا جائے۔ یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں۔ اسمگلنگ کے بارے میں بھی ابھی بات کروں گا۔ اسمگلنگ کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔ رسمی اور سرکاری طریقے سے امپورٹ نہیں ہونا چاہئے۔ اس کے کئی راستے ہو سکتے ہیں جیسے ٹیرف میں اضافہ یا جس چیز کی مماثل مصنوعات ملک میں موجود ہیں اس کے امپورٹ پر پابندی۔ البتہ اس سلسلے میں بہانہ جوئی بھی کی جاتی اور میں وہ بہانے بھی جانتا ہوں، ان کے بارے میں بھی میں نے سنا ہے۔ ابھی میں اس کا ذکر بھی کروں گا۔ بہرحال ہدف داخلی پیداوار کا فروغ ہونا چاہئے۔ مجھے تہران کے بارے میں اطلاع ملی ہے اور شاید بعض دیگر صوبوں میں بھی یہی کیا گيا ہے کہ کچھ شاپنگ سینٹرز نے خود کو پابند بنا لیا ہے کہ صرف ایرانی اشیاء اور مصنوعات فروخت کریں۔ بورڈ بھی لگا دئے گئے ہیں۔ ان کی تصاویر بھی لی گئی ہیں اور میں نے یہ تصاویر دیکھی ہیں۔ بڑے بڑے بورڈ لگا دئے گئے ہیں کہ اس شاپنگ سینٹر میں صرف ایران کی بنی ہوئی اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ ما شاء اللہ، صد آفرین اس غیرتمند انسان پر، اس مصلح شخص پر! اس شاپنگ سینٹر میں جو کچھ ہے سب ایران کا بنا ہوا ہے۔ اس کے برخلاف کچھ شاپنگ سینٹر ایسے بھی ہیں کہ انسان اندر جاکر دیکھتا ہے کہ جس چیز پر بھی نظر پڑتی ہے غیر ملکی ہوتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض شاپنگ مال جو بہت بڑے مال شمار کئے جاتے ہیں اور حکومت کے ہیں، ان میں یہ صورت حال ہے۔ یہ شاپنگ مال ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس عمل کو برا سمجھا جانا چاہئے۔ آپ صرف دکھانے اور رعب جمانے کے لئے ایرانی مزدور کو بے روزگار کرنا اور غیر ملکی مزدور کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟! غیر ملکی مارک والی اشیاء لاتے ہیں اور کچھ پیسے والے جو نو دولتئے ہیں اور جن کی تعداد ہمارے ملک میں کم نہیں ہے، غیر ملکی برانڈ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مجھے اس برانڈ لفظ سے بڑی الجھن ہوتی ہے۔ سماج میں غیر ملکی اشیاء اور مصنوعات کی فروخت کو گری نظر سے دیکھا جانا چاہئے، سوائے ان غیر ملکی مصنوعات کے جو ملک کے اندر نہیں بنتیں۔ اگر وہ چیز ملک میں نہیں بن رہی ہے تب کوئی حرج نہیں ہے۔ ہم نے اپنے گرد حصار تھوڑی کھینچ لیا ہے۔ دنیا سے ہمارا رابطہ ہے، تعاون ہے، لین دین ہے، خرید و فروخت ہے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی چیز ایسی ہو جسے ملک کے اندر پیدا کرنا کفایتی نہ ہو۔ ایسی بھی چیزیں ہیں، تو ان اشیاء کے امپورٹ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو چیزیں ہم ملک کے اندر پیدا کر رہے ہیں، ہمارا محنت کش طبقہ جو چیزیں اور مصنوعات پیدا کر رہا ہے، اگر ہم ان چیزوں کو امپورٹ کرکے داخلی پیداوار کو بند کروا دیں صرف برانڈ کے چکر میں، صرف اس لئے کہ فلاں یورپی ملک کے فلاں کارخانے کی چیزیں استعمال کی جائیں تو اسے غلط فعل تصور کیا جانا چاہئے۔
غیر ملکی اشیاء کی درآمدات کو دانشمندی کے ساتھ کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ میں ان معاملات میں افراط و تفریط کا قائل نہیں ہوں، میں ان معاملات میں مدبرانہ اور دانشمندانہ انداز میں کام کئے جانے کا طرفدار ہوں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دروازے بند کر دئے جائیں۔ میرا یہ کہنا ہے کہ نگرانی کیجئے اور جائزہ لیجئے کہ کس چیز کو امپورٹ کرنا چاہئے اور کس چیز کو امپورٹ نہیں کرنا چاہئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ امریکی گاڑیوں کی امپورٹ کا یہ کیا معاملہ ہے جو آج کل لوگوں کی زبان پر ہے اور کچھ لوگ اس کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ امریکی گاڑیاں تو خود امریکا کے لوگ استعمال نہیں کر رہے تھے۔ امریکی اخبارات میں یہ خبر شائع ہو چکی ہے اور ہم نے پڑھی بھی ہے۔ ان گاڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ اب ہم آکر اس امریکی کارخانے کی گاڑیاں خریدنے لگیں جو دیوالئے پن کے دہانے پر پہنچ گيا ہے (5)۔ وہ بھی امریکی کارخانہ۔ اس کا سختی کے ساتھ سد باب کیا جانا چاہئے۔ اس کا سد باب کون کرے گا؟ خود عہدیداران، وزرائے محترم۔ مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ دباؤ ڈالیں گے، چونکہ انھیں منافع ملنے والا ہے اس لئے وہ دباؤ ڈالتے ہیں۔ اس دباؤ کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ملک میں اربوں دالر کی مالیت کے کاسمیٹکس امپورٹ کئے جا رہے ہیں، یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس بارے میں میں نے تحقیق نہیں کی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ آپ نے بھی اس بارے میں تحقیق کی ہوگی۔ لیکن اگر یہ سچ ہے تو بہت بری بات ہے۔ آرائشی اشیاء کی اربوں ڈالر کی درآمدات وہ بھی ہمارے جیسے ملک میں جس کے لئے اتنی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں، اتنے بڑے پیمانے پر درآمدات اس لئے کہ کچھ نو دولتئے افراد اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس کا سد باب کیا جانا چاہئے۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ ان میں بعض چیزیں تو مضر بھی ہیں۔
ایک اور مسئلہ اسمگلنگ کا ہے۔ مختلف حکومتوں کے عہدیداران سے جب میں درآمدات کے مسئلے کے بارے میں بات کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم امپورٹ روکنے کے لئے کسٹم ڈیوٹی بہت زیادہ بڑھا دیں تو پھر وہی چیز اسمگل ہوکر ملک میں آنے لگتی ہے۔ آپ کی نظر میں یہ دلیل صحیح ہے؟ اسمگلنگ کی سختی کے ساتھ روک تھام کی جانی چاہئے۔ اسمگلنگ کی روک تھام کے سلسلے میں اب تک ہم نے سنجیدگی سے کارروائی نہیں کی ہے۔ اس سلسلے میں سنجیدگی سے کارروائی کیجئے۔ اسمگلنگ کا مسئلہ اٹھانے سے میرا مقصد وہ بلوچستانی شخص نہیں ہے جو جاتا ہے اور ایک گٹھری پیٹھ پر لاد لاتا ہے۔ یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے خلاف کارروائی نہ ہو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ میں منصوبہ بند طریقے سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی اسمگلنگ کی بات کر رہا ہوں۔ گوناگوں اقسام کے درجنوں کنٹینر بلکہ سیکڑوں کنٹینر سامان اسمگل ہوکر ملک میں آ رہے ہیں! ہمیں خاطی افراد کے خلاف کارروائی کرنا چاہئے۔ حکومت کی حیثیت سے ہمارے پاس طاقت ہے، ہم ذمہ دار افراد کے خلاف سخت کارروائی کر سکتے ہیں۔ اگر کئی بار سنجیدگی سے کارروائي کر دی جائے تو یہ سلسلہ یا تو بند ہی ہو جائے گا یا کم از کم بہت زیادہ محدود ہو جائے گا۔ اسمگلنگ ملک کے لئے بہت بڑی مصیبت ہے۔ اسمگلنگ تو حکومتی سطح پر کئے جانے والے امپورٹ سے بھی بہت بری چیز ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ جو چیز ملک کے اندر آ رہی ہے اس کی کوالٹی کے بارے میں کچھ نہیں معلوم، دوسری بات یہ ہے کہ اس سے حکومت کو کوئی آمدنی نہیں ہو پاتی، تیسری چیز یہ ہے کہ اس کا بھی وہی منفی اثر ہوتا ہے جو درآمدات کا ہوتا ہے یعنی داخلی پیداوار اس سے متاثر ہوتی ہے۔ یہ چھوٹے نقصانات نہیں ہیں ۔ اسمگلنگ کا سختی کے ساتھ سد باب کیا جانا چاہئے۔ انسداد اسمگلنگ کے اداروں پر توجہ دینا چاہئے۔ اس کام کے لئے انتہائی قوی افراد کا انتخاب کیا جانا چاہئے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ ایسا کرنا ممکن ہے۔ اسے بالکل روکا جا سکتا ہے اور نہیں تو کم از کم حد درجہ محدود کیا جا سکتا ہے، اسمگلنگ کا بڑا حصہ بند ہو جائےگا۔ یہ بڑا اساسی مسئلہ ہے۔
ایک اور مسئلہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے اور میں اسے متعلق وزرا کے سامنے وزیر زراعت کے سامنے، وزیر صنعت کے سامنے اور دیگر حکومتی عہدیداروں کے سامنے تواتر کے ساتھ اٹھاتا رہا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ کبھی ایک چیز ملک کے اندر پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن بعض افراد جو اسے غیر ممالک سے امپورٹ کرکے کافی منافع کماتے ہیں، ملک کے اندر اس کا پروڈکشن ہونے نہیں دیتے۔ رشوت دیتے ہیں اور کارخانے سے کہتے ہیں کہ وہ پروڈکشن نہ کرے، اسے پیسہ دے دیتے ہیں کہ کام کرنا بند کر دے۔ اگر کارخانے نے پروڈکشن نہیں روکا تو اسے دھمکی دیتے ہیں، مجرمانہ اقدام بھی انجام دیتے ہیں۔ میں ان مصنوعات کا یہاں ذکر نہیں کرنا چاہتا، بس اتنا کہوں گا کہ ہم ایسی مصنوعات کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں جنھیں ملک کے اندر آسانی سے تیار کیا جا سکتا ہے، مگر پھر بھی اسے امپورٹ اس لئے کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں کو امپورٹ سے فائدہ پہنچ رہا ہے، وہ ملک کے اندر اس کی پیداوار نہیں ہونے دینا چاہتے۔ کوئی سرمایہ کار آتا ہے اور ایسی چیز جس کا ملک میں خاصا استعمال ہے ملک کے اندر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ جناب! آپ اس چیز کا پروڈکشن نہ کیجئے! دس ارب یا تیس ارب لے لو اور پروڈکشن کی فکر ذہن سے نکال دو۔ اس صورت میں وہ سرمایہ کار یا تو پیسے لیکر آرام سے بیٹھ جائے گا، یا کام کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر اس پر دباؤ ڈالیں گے، اس کے سامنے گوناگوں قسم کی مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں، اس کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ مجرمانہ اقدام بھی انجام دیتے ہیں، اسے نقصان پہنچاتے ہیں کہ وہ کان پکڑ لے۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ یہ سیکورٹی کے مسائل ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ ان چیزوں کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسمگلنگ داخلی پیداوار کے لئے مہلک زہر ہے۔
ایک اور مسئلہ پیشرفتہ ٹیکنالوجی کا ہے۔ کبھی ہم سوال کرتے ہیں کہ فلاں چیز کو آپ کیوں امپورٹ کرتے ہیں جبکہ اسے ملک کے اندر بھی پیدا کیا جا رہا ہے، جواب دیتے ہیں کہ ہماری گھریلو ٹیکنالوجی بہت پرانی ہے۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی آ چکی ہے۔ اس لئے یہ سامان ہم باہر سے لانے پر مجبور ہیں۔ اس کا جواب میرے پاس ہے۔ البتہ میں امپورٹ کا مخالف نہیں ہوں، اگر کوئی چیز ٹیکنالوجی کے ساتھ امپورٹ کی جا رہی ہے تو میں اس کا مخالف نہیں ہوں۔ میں خود بھی ملک میں صدر جمہوریہ کے عہدے پر رہ چکا ہوں، اجرائی امور سے میرا واسطہ رہا ہے، مجھے معلوم ہے، بعض اوقات یہ چیز ضروری ہو جاتی ہے، لیکن اس کی ایک حد اور معین مقدار ہونا چاہئے۔ جہاں بھی کمزور پڑتے ہیں فورا کہہ دیتے ہیں کہ ہماری داخلی ٹیکنالوجی قدیمی ہو گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے فعال دماغ موجود ہیں۔ جو دماغ ایسا میزائل بنا دیتا ہے کہ دو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ دس میٹر سے بھی کم کی غلطی کے امکان کے ساتھ اپنے ہدف کو تباہ کر دیتا ہے، وہ معمولی دماغ ہے؟ (6)، میں صرف مثال دینا چاہتا تھا۔ میزائل کا نام آ گیا تو نوجوانوں میں ہیجان برپا ہو گیا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو دماغ ایسا میزائل بنا سکتا ہے کہ دشمن بھی اس کی اہمیت کے اعتراف پر مجبور ہیں کیا وہی دماغ ایک گاڑی کا مائلیج آٹھ کلومیٹر فی لیٹر سے بڑھا کر بیس کلومیٹر فی لیٹر تک نہیں پہنچا سکتا؟ یہ کام انجام نہیں دے سکتا؟ یہ دماغ اس سے قاصر ہے؟ نوجوانوں کی مدد کیوں نہیں لی جاتی؟ ان خلاق اور اختراعی صلاحیتوں والے دماغوں کا سہارا کیوں نہیں جاتا؟ ان سے مدد کیوں نہیں حاصل کی جاتی؟
میں کئی سال سے متواتر یہ کہتا آ رہا ہوں کہ صنعت اور یونیورسٹی کے درمیان تعاون ہونا چاہئے۔ صنعت اور یونیورسٹی کے تعاون کا ثمرہ یہیں پر ظاہر ہوتا ہے۔ انڈسٹری یونیورسٹی کی مدد کرتی ہے کہ وہ نئی نئی روشیں اور ٹیکنالوجیاں تیار کرے۔ اس سے دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ صنعت کو یونیورسٹی سے جوڑ دیجئے، سائنسدانوں سے متصل کر دیجئے۔ اس وقت بحمد اللہ نالج بیسڈ کمپنیوں کے بارے میں کافی کام انجام دیا گيا ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایرانی نوجوان کام کر سکتا ہے۔ اسی حسینیہ میں میرے لئے ایک نمائش لگائی گئی۔ میں نے آکر وہ نمائش دیکھی۔ ہائی اسکول کے کچھ طلبہ یہاں جمع تھے انھوں نے کچھ چیزیں بنائی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کیا کیا؟ تو کسی نے جواب دیا کہ میں نے یہ چیز بنائی، دوسری نے کہا کہ میں نے فلاں چیز بنائی ہے۔ ہائی اسکول کے طلبہ! ہمارے دماغ اس معیار کے ہیں، ہماری افرادی قوت اس سطح کی ہے، تو ہم افرادی قوت کے اس سرمائے کو بروئے کار کیوں نہ لائیں؟! ہم غیر ملکی گاڑیاں صرف اس لئے کیوں خریدیں کہ اس کی ٹیکنالوجی قدرے پیشرفتہ ہے؟ ہم ملک کے اندر پیشرفتہ ٹیکنالوجی کیوں نہ ڈیولپ کر لیں۔ میرے پاس اس کی متعدد مثالیں ہیں لیکن وہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ ان میں بعض چیزیں راز میں رکھی جانی ہیں۔ اگر آپ کو معلوم پڑتا کہ ہمارے نوجوانوں نے کن کن میدانوں میں کیسے کیسے بڑے کارنامے انجام دئے ہیں تو آپ حیرت زدہ رہ جاتے۔ ہمارے پاس اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں اور میرے پاس اس کی کافی اطلاعات ہیں۔ تو ان مہارتوں سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں کی ٹیکنالوجی بہت پسماندہ ہے یہ صرف بہانہ جوئی ہے امپورٹ کا راستہ کھولنے کے لئے۔
یہ ہماری چند باتیں تھیں۔ مجھے محنت کش طبقے سے، مالکان سے، عہدیداران سے اور حکومتی عمائدین سے ان تمام امور کے بارے میں بڑی امیدیں ہیں۔ مجھے کسی طرح کی کوئی ناامیدی نہیں ہے۔ البتہ کچھ خامیاں ضرور ہیں۔ آپ دیکھئے کہ خامیاں کہاں ہیں، کیوں ہیں، مشکل کیا ہے۔ آپ اس بڑے حوض میں موٹے پائپوں سے پانی بھر رہے ہیں، لیکن وہ بھرتا نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے اب آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ پائپ کہاں سے لیک ہو رہا ہے یا حوض میں کس جگہ سے رساؤ ہو رہا ہے اور وہ رساؤ حوض کو اوپر تک بھرنے نہیں دیتا۔ حکام اسے تلاش کریں۔
میرے عزیزو! یہ ملک ترقی کر سکتا ہے۔ میں جو بار بار اسلامی تمدن کی بات کرتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ ایران اسلامی تمدن کے بام ثریا پر پہنچ سکتا ہے تو یہ کوئی رجز خوانی نہیں ہے۔ یہ ملک کے زمینی حقائق کی بنیاد پر کہتا ہوں۔ ہم اپنے ملک کو نمو کے مراحل سے گزار سکتے ہیں، اپنی صنعتوں کو پیشرفتہ بنا سکتے ہیں، اپنی زراعت کو فروغ دے سکتے ہیں اور ان میدانوں میں خود کفائی حاصل کر سکتے ہیں جن میں خود کفائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ حکام کو چاہئے کہ محنت کریں۔ میں نے جیسا کہ شروع میں بھی عرض کیا؛ جو بھی کسی عہدے پر فائز ہے اسے چاہئے کہ اس عہدے کا حق ادا کرے اور ضروری خدمات انجام دے۔
البتہ ہمارے دشمن بھی موجود ہیں اور دشمن اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم کسی پختہ اور مسطح سڑک پر تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے سامنے مسلسل رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں۔ رکاوٹیں کون کھڑی کر رہا ہے؟ ہمارے دشمن اور ان میں سر فہرست امریکا اور صیہونزم ہے جو رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے، فریب دیتا ہے اور اس کا بہت دل چاہتا ہے کہ ہم اس فریب کو نہ سمجھ پائیں۔ کبھی کبھی دور سے وہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ آپ ہمارے بارے میں اتنی بدگمانی میں کیوں مبتلا ہیں؟ ظاہر ہے جب ہم ایسی چیزیں اپنی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں تو کیسے بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں؟ ہم اپنی آنکھیں تو بند نہیں کر سکتے۔ اس وقت ہمارے بینکنگ ٹرانزیکشن میں رکاوٹ آ رہی ہے۔ یہ بات سارے حکام کہہ رہے ہیں۔ بینکنگ ٹرانزیکشن پر منحصر لین دین بہت کند روی کے ساتھ اور بڑی مشکل سے انجام پاتا ہے۔ کیوں؟ کہتے ہیں کہ دنیا کے بڑے بینک تیار نہیں ہو رہے ہیں۔ کیوں تیار نہیں ہو رہے ہیں؟ کیا انھیں کوئی بیماری لگ گئی ہے؟ بینک قائم ہی اس لئے ہوا ہے کہ لین دین کرے۔ اتنی زیادہ ثروت رکھنے والے اور آٹھ کروڑ کی آبادی والے ملک کے ساتھ کوئی بھی بڑا بینک مالیاتی لین دینے کے لئے کیوں تیار نہیں ہے؟ اس لئے کہ کچھ رکاوٹیں موجود ہیں۔ وہ رکاوٹیں کیا ہیں؟ کم و بیش ہر جگہ امریکا رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ میں نے سو دفعہ کہا ہے کہ امریکا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہی حقیقت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ کاغذ پر تو وہ لکھ دیتے ہیں کہ بینک ایران سے لین دین کر سکتے ہیں۔ صرف کاغذ پر دو لفظ لکھ دئے ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کیونکہ عملی طور پر وہ بینکوں کو ہراساں کرتے رہتے ہیں کہ وہ ایران کے قریب نہ جائیں۔ ایران سے انھیں ہراساں کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایران تو دہشت گرد ملک ہے اور ممکن ہے کہ اس ملک کی دہشت گردانہ روش کی وجہ سے اس پر پابندی لگا دیں۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یہ بینکوں کے لئے انتباہ ہے کہ بہت احتیاط کریں۔ ممکن ہے ایران پر پابندیاں لگا دی جائیں، لہذا بینک تعاون کے لئے آگے آنے کی ہمت نہ کر پائیں، غیر ملکی سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ کاری کرنے کی ہمت نہ کر پائے۔ عملی طور پر وہ یہی کر رہے ہیں۔ جبکہ وہ خود تمام دہشت گردوں سے زیادہ بدتر ہیں۔ وہ جانے پہچانے دہشت گردوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور ہماری اطلاعات کے مطابق وہ اب بھی دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ایران دہشت گرد ملک ہے! امریکی حکام فرماتے ہیں کہ جناب ایران میں غیر ملکی سرمایہ کار جو سرمایہ کاری نہیں کرتے اس کی وجہ ایران کے داخلی حالات ہیں۔ ایران کے داخلی حالات کو کیا ہوا ہے؟ اس علاقے میں ایران سے زیادہ محفوظ اور پرامن ملک کون سا ہے؟ کیا خود امریکا میں ایران سے زیادہ امن ہے؟ خود امریکا کے اعداد کو شمار کے مطابق اس ملک میں ہر دن کئی افراد قتل ہو جاتے ہیں! تو زیادہ محفوظ اور پرامن جگہ کون سی ہوئی۔ یورپی ممالک جہاں عوامی مظاہرے تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں، جہاں محنت کش طبقے کی بے شمار مشکلات موجود ہیں، جو اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے کیا ایران سے زیادہ پرامن ہیں؟ ایران ایک محفوظ، پرامن اور متحد ملک ہے۔
ایران کے داخلی حالات دشمنوں کی دلی خواہش کے برخلاف بہت اچھے حالات ہیں۔ جب امریکی عہدیدار کہتا ہے کہ ایران مخالف پابندیوں کا ڈھانچہ ختم نہیں ہوا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کار ڈرے اور ایران کے قریب نہ آئے۔ یہ لوگ ایرانوفوبیا پھیلا رہے ہیں۔ بالکل کھلے عام، لوگوں کو ایران سے ہراساں کر رہے ہیں تاکہ کوئی نزدیک نہ آئے۔ یہ ہمارا دشمن ہے۔ جب یہ دشمن موجود ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ کوئی بھی اقدام کرتے وقت اس دشمن پر نگاہ رکھیں۔
ہم پچھلے 37 سال 38 سال سے اس دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے پیشرفت کی راہ پر آگے بڑھتے رہے ہیں۔ میں یہ عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ دشمنی آئندہ سو سال تک بھی جاری رہے گی اور ہم پیشرفت کی شاہراہ پر یونہی گامزن رہیں گے اور دشمن دیکھ کر جلیں گے۔ امریکا ہمارا دشمن ہے، ہم اسے ظاہر کریں یا نہ کریں۔ یہ حقیر اپنی تقاریر میں کہے کہ امریکا دشمن ہے یا نہ کہے۔ کہتے ہیں کہ آپ ہمیشہ دشمن دشمن کی رٹ کیوں لگائے رہتے ہیں۔ چلئے مان لیا کہ میں دشمن دشمن نہیں کہوں گا تو کیا دشمنی ختم ہو جائے گی؟ دشمن تو موجود ہے اس عوامی تحریک کا دشمن، بذات خود انقلاب اور اسلامی نظام کا دشمن موجود ہے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اس ملک میں امریکا ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا اور آج اس ملک میں ایک سفارت خانہ تک نہیں ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام تشکیل پا گيا ہے۔ وہ اسلامی نظام کا دشمن ہے، چاہتا ہے کہ وہی پہلے والے حالات بحال ہو جائیں۔ کہتے ہیں کہ کھڑکیاں کھولئے۔ ان جناب (7) نے عید کی مبارکباد دیتے ہوئے ایک ایرانی شاعر کا شعر پڑھا تھا کہ؛ «پنجره‌ها را بگشایید» (کھڑکیاں کھولئے) میں نے کہا جی ہاں بالکل؛ کھڑکیاں کھول دیں تاکہ آپ جو دروازے کے راستے سے باہر نکالے گئے تھے آرام سے کھڑکی کے راستے پھر گھس آئیں!
عہدیداران توجہ دیں، حکومتی عہدیداران بھی، عدلیہ اور مجریہ کے عہدیداران بھی اور پارلیمنٹ کے ارکان بھی توجہ کریں، اسی طرح انقلابی ادارے اور عوام بھی دھیان دیں کہ ہم مظلوم تو ہیں مگر طاقتور بھی ہیں۔ اپنے مولا حضرت امیر المومنین کی مانند۔ حضرت امیر المومنین مظلوم ترین انسان تھے لیکن ساتھ ہی قوی ترین انسان بھی تھے۔ اگر ہم اپنی طاقت کا ادراک رکھیں، اپنی توانائیوں کو اسلامی ترین اور انسانی ترین روش کے تحت بروئے کار لائیں تو تمام رکاوٹوں کو راستے سے ہٹا سکتے ہیں۔ بیشک ہمارے سامنے ہموار اور پکی سڑک نہیں ہے لیکن ہمارے اندر سنگلاخ راستوں پر چلنے کی توانائی موجود ہے۔ آج عوام اور عہدیداران سب توجہ کریں کہ ہمیں اپنی قوت و توانائی پر دھیان دینا ہے۔ دو دن بعد ملک کے بعض شہروں میں انتخابات ہیں۔ انتخابات کی قدر کیجئے۔ انتخابات میں سب شرکت کریں، ہرگز اسے نظر انداز نہ کریں۔ انتخابات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے اور عوام کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ حالیہ انتخابات میں بھی اور اس سے پہلے ہونے والے پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں بھی عوام سے میں نے کہا کہ انتخابات میں ضرور شرکت کیجئے۔ انتخابات میں شرکت فیصلہ کن ہوتی ہے۔ بعض لوگ توجہ نہیں دیتے۔ اگر آپ پولنگ مراکز پر نہیں جائیں گے، ووٹ نہیں دیں گے، اپنے جذبات واحساسات کو، اپنی شناخت اور پسند کو بیلٹ باکس میں منتقل نہیں کریں گے تو مشکلات پیدا ہوں گی۔ لہذا انتخابات میں شرکت کیجئے۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات کی اہمیت پہلے مرحلے کے انتخابات سے کم نہیں ہے۔ چنانچہ ہم نے عرض کیا کہ سب شریک ہوں، سب ووٹ ڈالیں۔ اللہ تعالی سے طلب نصرت کیجئے، خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سب کی مدد فرمائے گا۔

و السّلام علیکم و رحمة الله‌

۱) اس ملاقات کے آغاز میں وزیر محنت و رفاہ عامہ علی ربیعی نے اپنی رپورٹ پیش کی۔
۲) سوره احزاب، آیات ۴۱ و ۴۲ نیز آیت نمبر ۴۳ کا ایک حصہ «اے وہ لوگ جو ایمان لائے، اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو۔ صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔ وہی اپنے فروشتوں کے ساتھ تمہارے اوپر رحمتیں نازل کرتا ہے۔ ...»
۳) استقامتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن مورخہ 18 فروری 2014 کو جاری کیا گيا۔
۴) مسائل علیّ ‌بن ‌جعفر و مستدرکاتها، صفحہ ۹۳ (قدرے فرق کے ساتھ)
۵) حاضرین کے امریکا مردہ باد کے نعرے
۶) نعرہ تکبیر
۷) امریکی صدر باراک اوباما