قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے تیرہ خرداد سنہ تیرہ سو ستر ہجری شمسی مطابق تین جون سنہ انیس سو اکانوے عیسوی کو  بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی دوسری برسی کے موقعے پر اپنے پیغام میں امام خمینی کی رحلت کو ایران ہی نہیں پورے عالم اسلام کے لئے عظیم سوگ کا دن قرار دیا۔ آپ نے اپنے پیغام میں امام خمینی رحمت اللہ کی شخصیت اور عظیم خدمات کی جانب اشارہ کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے ملکی اور عالمی امور کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ کے موقف پر روشنی ڈالی۔
پیغام کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الم تر كيف ضرب‏اللَّه مثلا كلمة طيّبة كشجرة طيّبة اصلها ثابت و فرعها فى‏السّماء تؤتى اكلها كلّ حين باذن ربّها و يضرب‏اللَّه الامثال للنّاس لعلّهم يتذكّرون(1)
ایک بار پھر چودہ خرداد مطابق چار جون، عالم اسلام کے عظیم سوگ کا دن آ گیا، وہ دن کہ جب ایران میں سورج کے بغیر صج کا آغاز ہوا۔ جس دن انقلاب نے اس قلب تپاں کی دھڑکن نہ سنی۔ وہ دن جب پوری دنیا میں ہر مسلمان اور ہر حریت پسند انسان نے یتیمی کا احساس کیا۔ وہ دن جب ملت ایران نے اس مستحکم چٹان کو جس کا اس کو سہارا حاصل تھا، اس سرو بلند کو جس کے سائے میں وہ سکون سے رہ رہی تھی اور اس روح ‏عظیم کو جو اس قبلہ گاہ عشق و ایمان تھی، اپنے پاس نہ پایا۔ ‏عزاداری کا دن، امتحان کا دن، عظیم سانحے کا دن اور اس سے دائمی میثاق کا دن جس نے اس جامہ عارضی کو حیات ابدی سے تبدیل کر لیا تھا۔
جی ہاں اس دن، امام کی جسمانی موجودگی اور آپ کی عینی قربت کی نعمت ہم سے سلب کر لی گئی اور وہ شعلہ برق جو اس زمانے کی مادی اور آلودہ زندگی کی فضا میں قدرت الہی سے ضو فگن ہوا تھا، خاموش ہو گیا لیکن اسی کے ساتھ امام کی معرفت کے نئے پہلو وا ہوئے اور آپ کی حیرت انگیز و بے نظیر رہبری کے برسوں کے ناقابل تکرار لمحات کی یاد سے اذہان غور و فکر کرنے پر جو معمولا کسی شخصیت کے بارے میں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ زندہ رہتی ہے، مجبور ہو گئے اور آنکھیں اس خورشید فروزاں و آفتاب حیات آفریں کو ڈھونڈنے لگیں جو اب دسترس سے دور ایک ستارے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس مجدد دوراں اور یگانہ زمانہ کی تعریف و توصیف میں ایک دن میں اور ایک ہفتے میں جو زبانوں پر جاری ہوا، اشعار میں کہا گیا اور تحریروں میں لایا گیا، وہ ان کی رہبری کے تمام اداوار میں نہیں کہا گیا تھا۔ دوسری طرف امام کبیر و عظیم کے خلاء کے احساس نے ممکنہ خطرات کے اندیشوں میں مبتلا دلوں کو ایک کر دیا اور سب کو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر، ان کی گرانبہا میراث یعنی اسلامی نظام اور انقلابی اقدار کے دفاع میں ثابت قدم کر دیا؛ قوم کو نیا جوش و ولولہ، ملک کے خدمتگاروں کو بے مثال عزم اور حکومت اور قوم کے رابطے کو پہلے سے زیادہ استحکام حاصل ہوا۔ اس وارث انبیاء و منادی راہ صالحین کی برکات بیکراں اس کی رحلت کے بعد بھی انقلاب، ملک اور قوم کے شامل حال ہے۔ فسلام علیہ یوم ولد و یوم ارتحل و یوم یبعث حیا
اس سانحہ جانکاہ کو دو سال ہو گئے۔ اگر چہ اس دن کی یاد سے جب زمین و آسمان نے گریہ کیا، ایک بار پھر دلوں پر غم و اندوہ کے بادل چھا گئے، لیکن یہ مشاہدہ کہ ہمارے امام عظیم الشان اب بھی انقلاب کے تمام مشاہدات و مناظر میں حاضر و ناظر اور خورشید تاباں کی طرح ضوفگن ہیں، دلوں کو امید و اطمینان سے سرشار کر دیتا ہے۔ خدا کا شکر کہ دشمنوں کی یہ خواہش اور توقع کہ امام کی رحلت کے بعد ملک میں نراجیت پھیل جائے گا، انقلاب بند گلی سے دوچار ہو جائے گا، ایرانی قوم کا شیرازہ بکھر جائے گا اور ان کی سازشیں کامیاب ہو جائیں گی، سراب ثابت ہوئی اور ان کا نیرنگ اور چالیں جنہوں نے کوشش کی کہ ملک، قوم اور حکومت، راہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ہٹ جائیں، حکام کی ہوشیاری اور میدان میں عوام کی موجودگی سے ناکام ہو گئیں اور قوم اور حکومت امام کے بتائے ہوئے راستے اور آپ کے معین کردہ خطوط پر اب بھی پوری قوت کے ساتھ گامزن ہے۔
اس وقت چار جون کی تلخ یادوں کے ساتھ ہی یہ شیریں حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اگر چہ جسمانی لحاظ سے ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن اپنی فکر، اپنے بتائے ہوئے راستے اور اپنی ہمیشہ باقی رہنے والی وصیت کے توسط سے ہمارے درمیان موجود اور زندہ ہیں اور خدا کے فضل و قدرت سے دنیا کی کوئی بھی طاقت نہ اس موجودگی اور حیات کو سلب کر سکتی ہے اور نہ ہی اسلامی جمہوریہ کو اس کے عظیم معلم اور بانی سے الگ کر سکتی ہے۔

اب میں چند نکات بیان کرنا چاہتا ہوں؛
دشمن، ایران اسلامی کو امام کے راستے اور ان کے فکری و سیاسی خطوط سے الگ نہیں کر سکے ہیں اور خدا نے چاہا تو کبھی الگ نہ کر سکیں گے، اب اپنے زہر آلود پروپیگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ اپنی بنیاد اور اساس سے الگ ہو چکی ہے۔ یہ خاص طور پر ان مواقع پر اپنے تشہیراتی لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے اپنے اس بے بنیاد پروپیگنڈے کو زیادہ زور و شور کے ساتھ دہراتے ہیں جب ملک کے اندر یا عالمی سطح پر اسلامی جمہوریہ کو کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اس زہریلے پروپیگنڈے سے ان کا مقصد اسلامی ملکوں کے انقلابی مسلمانوں کو متاثر کرنا ہے جو ایران اسلامی کی پائیداری اور بیداری سے فکر حاصل کرکے، اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور انہوں نے بہت سے ملکوں میں سامراجی زرخریدوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے۔ سامراج اور اس سے وابستہ تشہیراتی اداروں کی کوشش ہے کہ ان بیدار مسلمانوں کی امید اور توقع کو ناامیدی اور بد گمانی میں بدل دیں اور اس کے لئے اس سے بہتر اور موثر کوئی اور راستہ نہیں ہے کہ ملت ایران کے ہراول دستے اور تمام رکاوٹیں دور کرنے والے اسلامی انقلاب کو ناکام اور ناتواں ثابت کریں اور یہ ظاہر کریں کہ ایران اسلامی مشکلات سے دوچار ہوکر، حقیقی محمدی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اسلام کے راستے اور امام خمینی ( قدس سرہ ) کی معین کردہ جہت سے ہٹ گیا ہے۔ میں پورے وثوق سے اعلان کرتا ہوں کہ سامراج کی یہ چال خود ایران کے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں اس کی عاجزی کی محکم دلیل ہے اور اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلامی نظام کی جائے پیدائش میں یہ مقدس جہت اور راستہ جاری ہے۔ ملت ایران اس بات کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہے کہ سامراجی کیمپ بالخصوص غدار امریکا کی زر اور زور زبردستی کی پالیسیوں کے مقابلے میں جو کھلے عام مظلوم اور کمزور اقوام پر تسلط جمانے کی کوشش کرتا ہے، واحد محکم محاذ اسلام اور قرآن سے تمسک اور اس کے حیات آفریں اصولوں کی پابندی ہے اور اس اصول سے انحراف دشمنان اسلام کے نفوذ کا راستہ کھول دے گا اور انہیں اس قوم پر جس نے سامراجیوں کے ناجائز مفادات اور جھوٹی شان پر کاری ترین وار کئے ہیں، انتقام آمیز تسلط جمانے میں کامیاب بنا دے گا۔ بنابریں اس ہوشیار اور دلیر قوم نے اپنی عظیم تحریک کے اوج کے زمانے سے ہمیشہ اپنے پورے وجود سے حقیقی محمدی ( صل اللہ علیہ والہ وسلم ) اسلام کا دفاع کیا ہے اور سامراجی سربراہوں اور امریکی اسلام کی ترویج کرانے والوں کی سازشوں اور چالوں کے مقابلے میں مجاہدت کی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ اسی طرح یہ مجاہدت جاری رہے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ حالیہ مہینوں میں اسی سیاست کے تحت جس کا ابھی ذکر کیا گیا، سامراجی پروپیگنڈہ اداروں نے مغربی ملکوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے روابط کا مسئلہ اٹھایا ہے، اس کو بحث کا موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے دعوے، تجزیئے اور نظریات پیش کئے گئے ہیں۔ پروپیگنڈہ ادارے، مختلف سمتوں سے مگر مشترکہ مقصد کے تحت، اس عوامی اور اسلامی نظام پر سوالیہ نشان لگانے اور اس کی حیثیت کو مجروح کرنے کے لئے اس مسئلے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔
میں اس ہوشیاری اور قوت تجزیہ پر جو الحمد للہ انقلاب کی برکت سے ہمارے عوام کے اندر پیدا ہوئی ہے، مکمل اعتماد اور اطمینان کے ساتھ یہ اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سامراجی ترجمانوں کے دعوؤں اور ان کی خواہش کے برخلاف، اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی جس کی اصل بنیاد نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول ہے، تبدیل نہیں ہوئی ہے اور کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دشمنوں کا افواہ پھیلانا اور ہلڑ ہنگامہ ایران اسلامی کی قوم کو اس راہ سے ہٹانے پر قادر نہیں ہے جس کا اس نے بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا ہے۔
اس زمانے میں جب دنیا کی مشرقی اور مغربی بلاک میں تقسیم کے باعث حکومتیں، حتی ملکوں میں آنے والے سیاسی اور انقلابی تغیرات بھی، ان دونوں میں سے کسی ایک سے ملحق ہونے اور امریکا یا سوویت یونین میں سے کسی ایک کے حکام کا تسلط قبول کرنے پر مجبور تھے، نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول اس طلسم کو توڑنے اور دونوں سپر طاقتوں سے آزادی کے لئے اپنایا گیا تھا اور آج جبکہ سوویت یونین اور یورپ کے تغیرات کے نتیجے میں مشرقی بلاک ٹوٹ چکا ہے، روس کی سپر پاور کی حیثیت ختم ہو چکی ہے اور امریکی حکومت کا بظاہر میدان میں کوئی حریف نہیں رہا اور وہ دیوانے پن اور غرور آمیز حرکتوں میں سرگرم ہے، عالمی روابط کے اصول و ضوابط کی کوئی پابندی کئے بغیر تمام اقوام کی مصلحتوں پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتی ہے، تمام امور میں خودسرانہ مداخلت کرتی ہے، اس چیز کے حصول کے لئے جس کو اس نے اپنا مفاد فرض کر رکھا ہے، بے لگام ہوکر جرائم کا ارتکاب کرتی ہے، اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک بے گناہوں کے خون سے آلودہ کرتی ہے اور دونوں، سابق مشرقی اور مغربی بلاکوں کو اپنی افواج، جاسوسوں اور تشہیراتی کارندوں کی جولانگاہ بنا رکھا ہے، نہ مشرقی اور نہ مغربی کے اصول کا مطلب اس کے سامراجی تسلط کو نہ تسلیم کرنا، امت اسلامیہ کے مفادات پر اس کی دست درازی کے خلاف مجاہدت اور ان تمام ضوابط اور طریقوں کی نفی ہے جو اس حکومت نے مسلمہ بین الاقوامی اصولوں کی جگہ، اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے وضع کئے ہیں اور گڑھ لئے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ امریکی حکومت سے روابط کو مسترد کرتی ہے جو ناحق تسلط اور زور زبردستی کی علامت اور دنیا کی کمزور اقوام پر ستم کا مظہر ہے۔ جب تک یہ حکومت اقوام پر مستکبرانہ مظالم کرتی رہے گی، ملکوں اور حکومتوں میں مداخلت کرے گی، غاصب صیہونی حکومت جیسی ناجائز حکومتوں کی حمایت کرے گی، ستم رسیدہ اقوام کی بیداری اور آزادی کی تحریکوں کی مخالفت کرے گی اور خاص طور پر مسلمان ایرانی قوم اور دیگر مسلم اقوام کی دشمنی جاری رکھے گی، اس کے ساتھ ہرگز روابط بر قرار نہیں کئے جائیں گے۔
دوسرے ملکوں سے روابط چاہے وہ یورپی ہوں یا ایشیائی، افریقی ہوں یا ترقی یافتہ صنعتی ممالک ہوں، چاہے دوسرے ممالک ہوں، اگر حکام کی تشخیص ہو کہ ملک اور قوم کے مفاد میں ہیں، تو ہمارے لئے ہمیشہ پسندیدہ بلکہ ضروری ہیں اور حکومتی عہدیداروں کا فریضہ ہے کہ ہوشیاری کے ساتھ ان روابط کو برقرار کریں۔ حکام اور قوم کو معلوم ہونا چاہئے اور معلوم ہے کہ ان روابط کے قیام اور استحکام سے ہمارا نہ مشرقی اور نہ مغربی کا اصول مخدوش نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگرچہ تنقید اور حکام کی مشفقانہ نصیحت، خدائی نعمتوں اور اسلام کی قابل فخر باتوں اور امور میں رشد، ترقی اور پیشرفت کے اسباب میں سے اور امر بالمعروف کی واضح ترین مصداق ہے اور معاشرے میں اس کو باقی رہنا چاہئے بلکہ اس میں فروغ آنا اور اس کی کیفیت کو بہتر ہونا چاہئے لیکن اس مستحسن اور ضروری کام کو ملک کے اصلی خادمین کی نسبت بد ظنی اور بد گمانی پھیلانے اور ان کی برائی کرنے سے جو حوصلوں کے پست ہونے اور ان کی حیثیت کے کمزور ہونے پر منتج ہو، مخلوط کرنا بہت بڑی غلطی اور بد دیانتی ہے۔
اگر کوئی اپنی گفتگو یا تحریر سے یا اپنے عمدی روئے سے، ملک کے اعلی رتبہ حکام کے بارے میں دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرے، ماحول کو تاریک اور مایوس کن ظاہر کرے، اس کو کسی بھی طرح خدمتگزار اور خیر خواہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ ہمارے ملک میں جس کا نظام اسلامی اور انقلابی ہے، حکام مکمل طور پر عوامی ہیں، قوم مخلص اور فداکار ہے، عوام اور حکام کے درمیان بے مثال پرخلوص رابطہ پایا جاتا ہے، کام اور پیشرفت کی درخشاں صلاحیت و استعداد موجود ہے اور اس کو دنیا اور اقوام عالم میں نمایاں حیثیت حاصل ہے، یہ کام بیشک ملک کے مستقبل پر وار، انقلابی اقدار سے خیانت اور ناقابل معافی جرم شمار ہوگا۔
میں اپنے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روشن اور لا زوال راہ و روش کی پیروی کرتے ہوئے، ملک کے تمام قانونی اداروں کا دفاع اپنا فریضہ اور حکومت، مجلس شورائے اسلامی(پارلیمنٹ)، عدلیہ اور دیگر قانونی اداروں کی پشت پناہی کو اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں اور ملک کے سچے ہمدرد حکام کی نسبت کو‏ئی بھی دشمنانہ اور کمزور کرنے والا طرز عمل برداشت نہیں کروں گا۔ خاص طور پر محترم صدر مملکت اور خدمتگزار حکومت کے دفاع کو جس کو الحمد للہ آج خدا کے فضل سے ایک ایسی ہستی چلا رہی ہے جو درخشاں ترین انقلابی شخصیات اور ملک کے لئے کارآمد ترین ذہین ہستیوں میں سے ہے، جو جد و جہد کے سولہ برسوں اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بارہ برسوں کے دوران ہمیشہ انقلاب کی اگلی صف اور ممتاز حیثیت میں رہی ہے، سب پر واجب سمجھتا ہوں۔ البتہ ملک کے حکام اور ذمہ دار عہدیداروں کو بھی معلوم ہونا چاہئے اور وہ جانتے ہیں کہ تنقید اور نصیحت پر توجہ، کاموں کے نقائص اور عیوب کو دور کرنا، اسلامی اصول و ضوابط کی پابندی اور انقلابی موقف کا تحفظ ایسا فریضہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ میں تمام حکام کی لیاقت کا انحصار اس کی ادائیگی اور اس کو محترم سمجھنے پر ہے۔
اسلامی نظام میں عدل و انصاف تمام فیصلوں کی بنیاد ہے اور نظام کے تمام ذمہ داروں کو، مجلس شورائے اسلامی کے اراکین سے لیکر مجریہ کے مختلف شعبوں کے حکام، بالخصوص ماہرین اور پالیسیاں تیار کرنے والوں اور عدلیہ کے ججوں، سب کو چاہئے کہ پورے خلوص کے ساتھ معاشرے میں عدل کے نفاذ کے لئے جدوجہد کریں۔ آج ہمارے معاشرے میں قیام عدل کا سب سے بڑا اقدام، محروم، غریب اور کم آمدنی والے طبقات کی محرومیت کو دور کرنا ہے جنہوں نے تمام مراحل میں نظام کا بوجھ سب سے زیادہ اٹھایا ہے اور اب بھی یہ بوجھ انہی کے کندھوں پر ہے، ہمیشہ خلوص اور دل کی گہرائیوں سے انقلاب اور اسلام کا دفاع کیا ہے۔ محروم طبقات کے دفاع کو جو اس انقلاب کے حقیقی مالک ہیں، ملک کے تمام منصوبوں میں سب سے اوپر، مختلف شعبوں میں اقتصادی اقدامات کا کلیدی محور اور تمام طویل المیعاد اور قلیل المیعاد اقتصادی منصوبوں اور پالیسیوں کا معیار ہونا چاہئے اور اس کو اس طرح پرکھا جائے کہ اس ہدف میں کتنی پیشرفت ہوئی ہے۔
اسی طرح نظام کے حکام، مجلس شورائے اسلامی کے اراکین، مجریہ کے ذمہ داروں اور عدلیہ کے عہدیداروں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ان بیماریوں سے جو غیر عوامی اور طاغوتی نظاموں میں عام ہوتی ہیں، پوری دقت اور حساسیت کے ساتھ خود کو دور رکھیں۔ رفاہ و آسائش کی خواہش، عیش و عشرت کی طلب، غیر قانونی جوڑ توڑ، مالی اور دفتری بدعنوانی، تکبر، عوام سے دوری، عوام کی ضروریات و مطالبات اور ان کی موجودگی سے بے اعتنائی، غلط پارٹی بازی، عوام کی مصلحتوں پر گروہی مصلحتوں کو ترجیح دینا وغیرہ، یہ وہ بیماریاں ہیں جو لگ جائیں تو کسی بھی نظام کی جڑوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔ اسی طرح طاغوتی طور طریقوں کو پسند کرنا اور ان کے احیاء کی رغبت، اسلامی اور انقلابی اقدار سے بے اعتنائی دل کو مردہ کر دیتی ہے اور عوامی خدمت کے جذبے اور شوق و ذوق کو سلب کرلیتی ہے جنہوں نے راہ انقلاب میں اپنی جان و مال سب کچھ نثار کر دیا ہے۔ ان کو ناامید اور غمگین کر دیتی ہے۔
ہر شعبے میں بالخصوص منصوبہ بندی اور ماہرین کے شعبوں میں نظام کے اہلکاروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ واحد چیز جو ملک و قوم کو دشمنوں اور جابروں کے تسلط اور غربت و جہالت کے شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے، اسلامی اقدار اور عدل اسلامی کی پابندی اور اس قوم اور اس کی مخلص اور خالص افرادی قوت پر بھروسہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو ملک کو غیروں پر انحصار اور دشمنوں کی محتاجی سے بچا سکتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ حضرت امام خمینی (قدس سرہ الشریف) کی دو برسیوں کے درمیان حضرت حق (تعالی) کی عنایات اور حضرت ولی اللہ الاعظم (امام زمانہ علیہ السلام) کی توجہات ہماری قوم کے شامل حال رہیں اور اس سرفراز و عظیم الشان قوم کے پامال کئے گئے حقوق اس کو واپس ملے جن میں سب سے اہم ہمارے سربلند جنگی قیدیوں کی فاتحانہ وطن واپسی ہے۔ میں خدا کے حضور شکر و سپاس کے ساتھ ایک بار پھر ان عزیزوں کو جنہوں نے اس وقت تہران میں ایک عظیم الشان اجتماع تشکیل دیا ہے اور اپنے پیشوا سے تجدید عہد کے لئے پورے ملک سے یہاں آئے ہیں، خراج تحسین اور عظیم شہداء کے پسماندگان، اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے فداکار جانبازوں اور مخلص و غیور سپاہیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور اس بات کی یاد دہانی کراتا ہوں کہ یہ بھی آپ کے صبر و پائیداری اور امام عالی مقام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رہبری کی دین ہے و لینصرن اللہ من ینصرہ ان اللہ قوی عزیز (2)
اسی طرح ضروری ہے کہ پندرہ خرداد مطابق پانچ جون کے خونیں قیام اور اس دن کے شہداء کو جو طاغوتی تاریکیوں سے نکلنے کی کوششوں میں مظلومانہ انداز سے اپنے خون میں غلطاں ہوئے، یاد کریں اور خداوند عالم سے ان کے لئے بلندی درجات کی دعا کریں۔ خداوند عالم سے اس قوم اور تمام مسلمین عالم کے لئے برکات و فیضان رحمت اور دنیا کے کمزوروں اور مظلوموں کی نصرت کی دعا کرتا ہوں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ

19 ذیقعدہ 1411 ہجری قمری مطابق 13 خرداد 1370 ہجری شمسی برابر 3 جون 1991 عیسوی
1- ابراہیم ؛ 24 و 25 2- حج : 40