قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 29 اسفند سنہ 1372 ہجری شمسی مطابق 20 مارچ سنہ 1994 عیسوی کو نئے ہجری شمسی سال 1373 کے آغاز کی مناسبت سے اپنے پیغام میں نوروز کا جشن منانے والی اقوام بالخصوص ملت ایران اور شہدائے انقلاب کے اہل خانہ کو مبارکباد پیش کی۔ آپ نے گزرے ہوئے سال کا جائزہ لیا اور نئے سال کو جذبہ عمل اور سماجی نظم و ضبط کا سال قرار دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے پیغام نوروز کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب والابصار۔یا مدبر اللیل والنہار۔یامحول حول والاحوال۔ حول حالنا الی احسن الحال۔

عید نوروز تمام ہم وطنوں اور پوری دنیا کے تمام ایرانیوں کو مبارک ہو۔ خاص طور پر ایثار و فداکاری کرنے والوں، ان گھرانوں کو جنہوں نے ایرانی قوم کی عظیم تحریک میں کوششیں کیں اور مشکلات برداشت کیں، بالخصوص شہیدوں کے اہل خاندان اور دفاع وطن کی جد و جہد میں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانبازوں اور ان کے گھروالوں کو، اسی طرح دشمن کی جیلوں سے رہا ہوکر آنے والوں اور ان اسیروں کو جو اب بھی دشمن کی قید میں ہیں اور ان کے گھر والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ دعا کرتا ہوں کہ ہمارے لاپتہ افراد اور دشمن کی قید میں موجود افراد جلد سے جلد واپس آکر ہمارے دلوں کو شاد کریں۔ اسی طرح ان تمام اقوام کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں جو عید نوروز مناتی ہیں۔ جمہوریہ آذربائیجان کے عوام کو اور اپنے ملک کے اطراف کی ریاستوں کے عوام کو جو عید نوروز مناتے ہیں، مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خدا سے نئے ہجری شمسی سال میں سب کے لئے توفیق طلب کرتا ہوں۔
ہم تحویل سال کے آغاز کی دعا میں خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہمارے حال کو بہترین حال میں تبدیل کر دے۔ رمضان المبارک میں بھی ہم نے خدا سے دعا کہ اللہم غیر سوء حالنا بحسن حالک ہمارے حال کی برائیوں، مشکلات، ہماری سرشت، رمضان المبارک کی روزانہ کی دعاوؤں میں ہم خداوند عالم سے کہتے ہیں کہ ہماری زندگی، ہماری روح اور ہمارے جسم کو اپنے خیر و رحمت کی برکت سے تبدیل کر دے۔ یہ تغیر و تبدل انسان کی تکاملی رفتار کے اہم ترین اسرار میں سے ہے جس کا اسلام نے ہمیں حکم دیا ہے۔ یہ کچھ خاص لوگوں سے مخصوص نہیں ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ حال کی تبدیلی ان لوگوں کے لئے ہے کہ جو اسلامی معیاروں کے مطابق بد حالی کا شکار ہیں۔ جو اچھے اخلاق اور حال کے مالک ہیں، وہ بھی چونکہ بہترین نہیں ہیں، اس لئے خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں بہترین صورت حال کی طرف لے جائے۔ ہم جو بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، علم و دانش، معرفت، کمال اور اخلاق کے جس مرتبے پر بھی ہوں، ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہئے کہ ہمارے حال کو بہتر کر دے اور کمال کے راستے پر آگے بڑھائے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اس کامل ہونے کی علامت اور جہت کیا ہے اور کس طرح انسان کا حال بہتر ہوتا ہے اور وہ منزل کمال کی طرف جاتا ہے؟ میں آپ عزیزوں سے جو آغاز سال پر میری یہ گفتگو سماعت کر رہے ہیں، دو علامتیں بیان کرتا ہوں۔ یہ دونوں علامتیں خدا کی قربت اور بندگان خدا سے محبت ہے۔ ہم جہاں بھی ہوں جس کیفیت اور حالت میں بھی ہوں، خدا سے انس و محبت اور قربت کی طرف بڑھیں۔ یعنی اپنے کردار میں گناہوں کی جستجو کریں اور انہیں ترک کریں۔ انسان عام طور پر اپنے کام کی برائیوں کو نہیں پہچانتا۔ دوسرے الفاظ میں حب نفس کے سبب ہم اپنے نقائص اور عیوب کو نہیں دیکھ پاتے۔ بنابریں پہلے ان نقائص اور عیوب کا پتہ لگائیں اور پھر انہیں دور کرکے خدا کا تقرب حاصل کریں۔ تقرب خدا حاصل کرنے کے بعد، عوام سے محبت کریں، ان کے لئے مخلص رہیں، باوفا رہیں، نیکی کریں، اچھا سلوک کریں۔ یعنی تمام طبقات کے لوگوں بالخصوص کمزور لوگوں، چاہے وہ جسمانی لحاظ سے کمزور ہوں، یا مالی لحاظ سے، سماجی حیثیت میں کمزور ہوں یا بے یار و مددگار ہونے کی وجہ سے کمزور ہوں، ان کے ساتھ محبت اور نیک رفتاری کو اپنا شعار بنائیں۔ جس کا بھی سامنا ہو بالخصوص اگر وہ کمزور ہو تو اپنے رویئے کی اصلاح کریں اور کوشش کریں کہ بندگان خدا کے ساتھ ہمارا سلوک اور طرزعمل اچھا ہو۔ اگر اس راستے پر چلیں اور لمحہ بہ لمحہ اپنی اصلاح کریں تو تحویل حال بہ احسن حال کا عمل انجام پائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بہترین ہو جائیں گے لیکن بہترین ہونے کے راستے پر انشاء اللہ آگے بڑھیں گے۔
میں اس وقت ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جو بہترین ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ پہلے یہ عرض کر دوں کہ موجودہ حالات میں ایک طرف ہر منصف مزاج انسان کے لئے بہت اہم معیاروں اور اعلی اقدار پر استوار ہمارا نظام انتہائی پر کشش ہے جو ابھی جوانی کے مرحلے میں ہے، اور دوسری طرف ہمارا ملک عظمت و شوکت، درخشاں ماضی، اعلی تہذیب و ثقافت، قابل فخر تاریخ، ماضی کی قیمتی میراث اور فراواں مادی دولت و ثروت کا مالک ہے کہ اسی دولت و ثروت میں سے ایک تیل اور گیس ہے جو پتہ نہیں سب سے بڑی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ دیگر زمین دوز ذخائر بھی ہیں اور اس عظیم اور دولت و ثروت سے مالامال ملک میں ایک عظیم قوم رہتی ہے، مناسب ہے کہ ہمارے عوام اپنے اندر اسی معیار کی تبدیلی لائیں۔
جو اخلاقی نکتہ میں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آغاز سال سے دو باتوں کو اپنا شعار بنائیں۔ یہ دو باتیں کام کا جذبہ اورسماجی نظم و ضبط ہے۔ یہ دونوں معیار ہمارے لئے ہم جہاں بھی مصروف کار ہوں، بہت اہم ہیں۔ کام کا جذبہ یعنی یہ کہ اگر کوئی کام قبول کیا، اس کو انجام دینے کا وعدہ کیا تو چاہے یہ کام اپنی ذات کے لئے ہو، اپنے خاندان کے لئے ہو، روزی کمانے کے لئے ہو، یا سماج اور عوام کے لئے ہو اور دوسروں سے تعلق رکھتا ہو، جیسے اہم سماجی امور اور ملکی ذمہ داریاں، اس کو اچھی طرح بھرپور توجہ کے ساتھ اور بنحو احسن انجام تک پہچائیں اور پوری دلجمعی سے کام کریں۔ اگر کسی قوم میں کام کا جذبہ ہو تو اس کے کام کا نتیجہ بہت اچھا ہوگا۔ جب کام کا نتیجہ اچھا ہو تو یقینا سماج کی حالت اچھی ہوگی۔ ممکن ہے کہ سیاسی اور اقتصادی ماہرین میں سے ہر ایک ملک کے مختلف امور اور مسائل کے بارے میں مختلف تجزیئے پیش کرے۔ لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ جو بھی تجزیہ پیش کیا جائے، مشکلات کا حل انہیں دو باتوں کام کے جذبے اور سماجی نظم و ضبط میں ہے۔
سماجی نظم و ضبط یعنی تمام امور میں ڈسپلن کا خیال رکھنا۔ آپ یہ نظم و ضبط چھوٹے کاموں سے شروع کریں۔ فرض کریں، سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کے لئے بنائی گئی مخصوص علامت پر گاڑیوں کا نہ آنا یا پیدل چلنے والوں کا سڑک عبور کرنے کے لئے بنائی گئی مخصوص جگہوں کے علاوہ کہیں اور سے سڑک عبور نہ کرنا۔ یہ کام پہلے مرحلے میں معمولی نظر آتا ہے۔ لیکن سماجی ضابطے کو یہیں سے شروع کریں اور تمام امور میں نافذ کریں تاکہ ملک کی اعلا ذمہ داریاں اور مسائل سے نمٹنے میں نظم و ضبط سے کام لیا جائے۔ جو لوگ ایسی جگہوں پر کام کرتے ہیں جہاں لوگوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے، لوگوں سے ملنے میں نظم وضبط کی پابندی کریں۔ جن لوگوں نے کوئی کام اپنے ذمہ لیا ہے، اس کام کی انجام دہی میں نظم و ضبط کی پابندی کریں تو ملک و قوم کو شادابی ملے گی اور ان کا کام اچھی طرح آگے بڑھےگا۔
آج خوش قسمتی سے اچھی پیشرفت ہو رہی ہے۔ میں ملک کے مسائل سے پوری آگاہی کی بنیاد پر آپ سے یہ بات عرض کر رہا ہوں۔ البتہ ہمارے بہت سے عوام، بالخصوص وہ جو ملک کے موجودہ مسائل پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اس پیشرفت کو محسوس کرتے ہیں۔ ایرانی قوم اور خود مختاری کی مخالف تسلط پسندطاقتوں کی جانب سے ہمارے اوپر دباؤ بہت ہے مگر اس دباؤ کو ہماری عظیم قوم اور مخلص حکام پوری طرح ناکام بنا رہے ہیں اور ان کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔ ممکن ہے کہ مختصر مدت کے لئے وہ بعض مشکلات کھڑی کر دیں لیکن ان کو اچھی طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ ہم تعمیر و ترقی، پیشرفت اور ایک عظیم تمدن کی بیناد رکھنے میں مصروف ہیں۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم خود کو بچا لیں اور اپنے بارے میں ہی سوچیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اپنی منزلت اور شان کے مطابق، ایک تمدن وجود میں لا رہی ہے۔ اس تمدن کی بنیاد، صنعت، ٹکنالوجی اور سائنس نہیں بلکہ ثقافت، بینش، معرفت اور فکر انسانی کا ارتقاء ہے۔ جو چیز کسی قوم کو فراہم کرتی ہے اور اس کو علم کا تحفہ بھی دیتی ہے ہم اسی راستے پر اور اسی جہت میں گامزن ہیں۔ یہ نہیں ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ کام کریں بلکہ، اس تمدن کو وجود میں لانے کے لئے ملت ایران کی تاریخی تحریک شروع ہو چکی ہے۔
ان حالات میں عظیم ملت ایران کی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے، سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور کس راستے پر آگے بڑھنا ہے۔ میری نظر میں یہ دو باتیں، یعنی کام کا جذبہ اور سماجی نظم و ضبط ہمارے لئے دو معیار اور شعار ہو سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ دونوں خصوصیات ہمارے اندر تبدیلی اور تکامل لا سکتی ہیں۔ انشاء اللہ وہ تبدیلی خدا کے تقرب، خدائی اقدار سے انس اور عوام کے ساتھ مہربانی اور محبت کی شکل میں ہوگی۔
دعا ہے کہ ہمارے عوام کے لئے سن تیرہ سو تہتر نیکی اور برکتوں کا سال ہو۔ حضرت ولی عصراروحنا فداہ کی پاک دعائیں ان کے شامل حال ہوں۔ حکام بھی ان بڑی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں جو انہوں نے قبول کی ہیں، کامیاب ہوں۔
میں دورد بھجیتا ہوں اپنے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر پر کہ یہ عظیم راستہ ہماری قوم کو آپ ہی نے دکھایا۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اس سال بھی گذشتہ برسوں کی طرح آپ کی روح مقدس کو اپنی برکت، مغفرت اور فضل و کرم میں شامل کرے اور آپ کے لئے اور اپنی زندگی کے امور کے لئے عوام کی دعاؤں کو قبول فرمائے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ