بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین و لعنۃ الله علی اعدائھم اجمعین.

رمضان کے مبارک مہینے کی آمد کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اپنے عزیز عوام اور عظیم الشان مسلم امہ کو۔ امید کرتا ہوں کہ یہ با برکت مہینہ حقیقی معنی میں ہماری قوم کے لئے اور عظیم امت اسلامیہ کے لئے ان شاء اللہ مبارک ثابت ہوگا۔ شکریہ ادا کرتا ہوں ان تمام برادران گرامی کا جنہوں نے یہ بڑی جاثب نظر، متنوع اور جدت طرازانہ نشست منعقد کی۔ محترم ناظم جناب یراق بافان کا شکر گزار ہوں کہ بڑی خوش اسلوبی سے نظامت انجام دی۔ تمام برادران عزیز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے تلاوت کلام پاک کی اور ہمیں مستفیض ہونے کا موقع دیا۔ ماضی کی یاد تازہ کرنے والے پروگرام پر مجھے خوشی ہوئی۔ امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے جس طرح ان برسوں میں ہماری عمر کو قرآن کی معیت میں رکھا، آخری سانس تک قرآن کی خدمت میں اور قرآن کے ہمراہ قرار دے۔ قرآن کے ساتھ زندہ رکھے، قرآن کی معیت میں ہمیں موت دے اور ہمیں ان شاء اللہ قرآن کے ساتھ محشور کرے۔

دنیا میں ایران کی اقتصادی رینکنگ کے سلسلے میں ایک وضاحت

آج میں قرآنی ہدایت کے تعلق سے، قرآنی ہدایت کے باب میں مختصر گفتگو کروں گا۔ البتہ ہدایت قرآنی کے بارے میں بحث اس طرح کی کسی نشست میں ہونے والی ایک گفتگو میں سمٹ نہیں سکتی۔ تاہم میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اگر وقت رہا تو دو چار باتیں دوسرے موضوعات کے بارے میں بھی محترم سامعین، محترم ناظرین اور تمام ملت ایران کی خدمت میں عرض کروں گا۔ تاہم گفتگو شروع کرنے سے پہلے میں ایک بات جو دو تین ہفتہ قبل میں اپنے عزیز عوام کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا تھا لیکن اس کا وقت نہیں ملا، یعنی مناسب موقع پیش نہیں آيا کہ عرض کر پاتا، اس وقت میں عرض کروں گا۔ وہ بات یہ ہے کہ میں نے 21 مارچ (2) کو اپنی تقریر میں اقتصادی رینکنگ میں ملک کی پوزیشن کے بارے میں کچھ اعداد و شمار پیش کئے اور ایک بات کہی تھی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے مجھے متوجہ کرایا کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔ میں نے اپنے دفتر کو اس مسئلے کی تحقیق کی ہدایت کی۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ ان چند افراد نے جو بات کہی تھی وہ درست تھی۔ وہ حق بجانب تھے۔ ہمارے اعداد و شمار درست نہیں تھے۔ میں نے عالمی سطح پر اٹھارہویں اقتصادی پوزیشن کی جو بات کہی تھی وہ چار پانچ سال یا پانچ چھے سال پہلے کی رینکنگ  تھی۔ لہذا جن حضرات نے متوجہ کرایا کہ اس غلطی کا تدارک ہو ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

قرآنی موضوعات میں سب سے با عظمت موضوع قرآنی ہدایت

قرآنی ہدایت کے موضوع کا جہاں تک سوال ہے تو دیکھئے اللہ تعالی نے رمضان کے مبارک مہینے کی متعدد فضیلتوں میں ایک نزول قرآن کا ذکر کیا ہے: شَهرُ رَمَضانَ الَّذی اُنزِلَ فیهِ القُرءان۔ ظاہر ہے کہ یہ شاید ماہ رمضان کی فضیلتوں میں سب سے بالاتر ہے۔ قرآن کے بارے میں بات کی جائے تو ہزاروں خصوصیات اس میں موجود ہیں، اس سے کہیں زیادہ جس کے ادراک پر ہماری عقل اور ہمارا ذہن قادر ہے۔ ان تمام خصوصیات میں (اللہ تعالی) ہدایت قرآنی کا تذکرہ فرماتا ہے: شَهرُ رَمَضانَ الَّذی اُنزِلَ فیهِ القُرءانُ هُدًی لِلنّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الهُدیٰ وَ الفُرقان (3)۔ اس سے واضح ہے کہ قرآن سے متعلق موضوعات میں ہدایت قرآنی کی شان و منزلت بہت بلند ہے۔ خود قرآن کریم کا آغاز ہدایت کے موضوع سے ہوتا ہے۔ سورہ حمد میں بھی یہ موضوع آیا ہے: اٍّهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم – کہ علامہ طباطبائی مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ کے بقول سورہ حمد شروع سے آخر تک ہمیں خالق سے گفتگو کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ یعنی خود اللہ تعالی ہمیں سکھا رہا ہے کہ اس سے ہمیں کس طرح ہمکلام ہونا ہے۔ «بِسمِ الله» سے ہونے والے آغاز سے لیکر طلب ہدایت تک: «اٍّهدِنَا الصِّراطَ المُستَقیم، صِراطَ الَّذینَ اَنعَمتَ عَلَیهِم»؛(4)  راہ مستقیم ان لوگوں کا راستہ جنہیں اللہ تعالی نے انعام سے نوازا ہے، انعام سے نوازے جانے والے وہ لوگ جو گمراہ نہیں ہوئے اور غضب الہی کے حقدار قرار نہیں پائے۔ سورہ بقرہ کے آغاز میں بھی ہے: بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحیمِ، الࣤمࣤ، ذٰلِکَ الکِتٰبُ لارَیبَ فیهِ هُدًی لِلمُتَّقین (5) یعنی قرآن کا آغاز بھی ہدایت قرآنی کے تذکرے سے ہوا ہے۔ اس کے بعد بھی قرآن میں متعدد جگہوں پر درجنوں مقامات پر قرآنی ہدایت، رہنمائی اور دستگیری کا ذکر ہے۔

قرآن کا خطاب پوری انسانیت سے

یہ کسی مخصوص گروہ تک محدود نہیں ہے۔ قرآن کا خطاب تمام انسانیت سے ہے۔ قرآن کا دعوی یہ ہے کہ وہ تمام انسانیت کو صراط مستقیم دکھانا چاہتا ہے۔ انسانی زندگی کا صحیح راستہ جو صحیح منزل تک پہنچاتا ہے: اِن هُوَ اِلّا ذِکرٌ لِلعٰلَمین.(6)

انسانی زندگی کے تمام شعبے ہدایت قرآنی کے دائرے میں آتے ہیں

یہاں ایک بنیادی نکتہ ہے اور وہ یہ کہ قرآن کی ہدایت انسانی زندگی کے کسی خاص شعبے سے مختص نہیں ہے۔ ہدایت قرآنی کا تعلق انسانی زندگي کے تمام شعبوں سے ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ قرآن کسی خاص میدان میں انسان کی  ہدایت کرتا ہے اور انسانی زندگی کی ضرورت کے دوسرے میدانوں میں اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے اور لا تعلق ہوکر وہاں سے گزر جاتا ہے۔ نہیں، قرآن میدان زندگی کے ہر گوشہ و کنار اور انسان کی موجودگی کے ہر گوشے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ انسان کی روحانی معراج اور معنوی تکامل سے لیکر- یقینا بشر کی سب سے بڑی آرزو بھی یہی روحانی ارتقاء، قرب الہی، معرفت الہی، حب پروردگار اور جوار الہی ہے: هَب لی کَمالَ الاِنقِطاعِ اِلَیکَ وَ اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضیاءِ نَظَرِها اِلَیک (7) یہ سب سے بڑی حاجت ہے- انسانی معاشروں کے مسائل، انسانی معاشرے کے انتظامی امور چلانے، قیام عدل، انسانی معاشروں کا نظم و نسق چلانے سے متعلق طور طریقوں، گوناگوں دشمنوں کے مقابلے تک، باطنی دشمن بھی ہوتے ہیں، ظاہری دشمن بھی ہوتے ہیں، انسانوں میں سے ہوتے ہیں، جناتوں میں سے ہوتے ہیں- مجاہدت، جہاد، دشمنیوں کے خاتمے تک: «فَاِذَا الَّذی بَینُکَ وَ بَینَه‌ عَداوَةٌ کَاَنَّه‌ وَلِیٌّ حَمیم»(8)- ان تمام میدانوں کے لئے قرآنی ہدایت موجود ہے۔ اخلاقیات اور خاندان تک، جیسے: «رَبَّنا هَب لَنا مِن اَزواجِنا وَ ذُرِّیَّٰتِنا ‌قُرَّةَ اَعیُن» (9) یا «وَ اَنکِحُوا الاَیٰمیٰ مِنکُم وَ الصٰلِحینَ مِن عِبادِکُم وَ اِمائِکُم اِن یَکونوا فُقَراءَ یُغنِهِمُ اللهُ مِن فَضلِه» (10) یا اولاد کی تربیت وغیرہ جیسے امور تک، روحانی سکون و آسودگی سے لیکر فکری و ذہنی سکون و طمانیت تک جو انسان کی بڑی بنیادی ضرورتوں میں ہے: «فَاَنزَلَ اللهُ سَکینَتَه عَلیٰ رَسولِه؛ وَ عَلَی المُؤمِنین»،(11) اندرونی تلاطم کو قابو میں کرنے سے لیکر جو زندگی کے حادثات میں بار بار پیدا ہو جاتے ہیں، علم اور نیچر کی شناخت کی سفارش تک: «وَ استَعمَرَکُم فیها» (12) کہ انسان کو علم کی جانب، دانش کی جانب، نیچر کے حقائق اور عالم وجود کے رموز کو کشف کرنے کی جانب آگے بڑھنا ہوتا ہے، انسانی کے ذاتی اعمال تک: «وَ لا تُصَعِّر خَدَّکَ لِلنّاسِ وَ لا تَمشِ فِی الاَرضِ مَرَحًا» (13) یا «وَ اقصِد فی مَشیِکَ وَ اغضُض مِن صَوتِک» (14) اسی طرح دیگر امور ہیں۔ زندگی کے ان تمام شعبوں کے لئے قرآن میں درس و ہدایت موجود ہے۔ یعنی قرآن انسانی زندگی کے ہر میدان پر نظر رکھتا ہے اور سب کے لئے اس کے پاس رہنمائی اور ہدایت موجود ہے، وہ انسانی زندگی کے ہر شعبے کے لئے ایک درس رکھتا ہے۔ چند بنیادی ابواب یہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا، ان کے علاوہ بھی بہت سے ابواب موجود ہیں۔ یہ سب قرآن میں زیر بحث آئے ہیں۔ کتنے غافل ہیں وہ لوگ جو خیال کرتے ہیں کہ قرآن کو زندگی کے امور، سیاست کے امور، اقتصاد کے امور اور حکومتی امور سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، قرآن کا ایک بڑا حصہ زندگی کے انھیں سماجی امور سے مربوط ہے۔

معارف قرآن کے ادراک کے لئے تدبر کی ضرورت

قرآن کا بیان انسانی کتابوں کے بیان جیسا نہیں ہے کہ فصل بندی کی گئی ہو، موضوع بندی کی گئی ہو۔ نہیں، اللہ تعالی قرآن میں کبھی ایک لفظ سے، ایک اشارے سے معرفت کا سمندر انسان کے سامنے متلاطم کر دیتا ہے، اب اگر ہم تدبر کریں، غور کریں، اگر پہلوؤں کو پرکھیں، اگر اس کے ادراک کے لئے فہم انسانی کو بروئے کار لائیں تو بعض اوقات کسی ایک لفظ کے اندر سے حیرت انگیز معارف انسان کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر کسی حکایت کے اندر جو قرآن بیان کرتا ہے، خواہ وہ مختصر ہو یا طولانی، پیغمبروں کے بارے میں ہو یا غیر انبیاء سے متعلق ہو، قرآن میں گزشتگان کی بڑی داستانیں مرقوم ہیں، اس کے ضمن میں ہمیں کچھ چیزوں کی تعلیم دے دی جاتی ہے جس سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے۔ مثال کے طور پر دو لوگوں کی گفتگو ہے، یا کوئی خاص واقعہ ہوا ہے جس کے بارے میں قرآن میں ایک بیان موجود ہے۔ لیکن یہ بیان حالانکہ ایک واقعے سے مربوط ہے مگر اسی واقعے سے مختص نہیں ہے، اس میں اطلاق ہے۔ میں اگر اس کی مثال دینا چاہوں تو سورہ ‏آل عمران کی یہ آیت ہے: الَّذینَ قالَ لَهُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوهُم فَزادَهُم ایمانًا وَ قالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل (15) یہ جنگ احد کے قضیئے کے بعد کے حالات سے مربوط ہے۔ مسلمان جب جنگ احد سے ناکام، مجروح، تھکے ماندے، خستہ حال، شہیدوں کی قربانیاں دیکر، مصیبت و غم اٹھا کر لوٹے تو کچھ منافقین عوام کے درمیان یہ افواہ پھیلانے لگے کہ آپ لوگ یہاں بیٹھے ہیں اور دشمن وہاں تیاری کر چکا ہے۔ مدینے کے قریب ایک جگہ جمع ہو گیا ہے اور بہت جلد حملہ کرکے آپ کا کام تمام کر دے گا۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ صرف وہ لوگ جو جنگ احد میں آج زخمی ہوئے ہیں وہی آئیں۔ رات کے وقت سب اٹھ کھڑے ہوئے اور جاکر دشمن کو شکست دی اور لوٹ آئے۔  اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم۔ منافقین افواہ پھیلا رہے تھے کہ اب تو آپ کی خیر نہیں ہے۔ آپ کے خلاف یہ ہونے جا رہا ہے، وہ ہونے جا رہا ہے۔ یہ لوگ گئے اور فتنے کو کچل کر واپس آ گئے۔ فَانقَلَبوا بِنِعمَةٍ مِنَ اللهِ وَ فَضلٍ لَم یَمسَسهُم سوء (16)۔ اب یہ ایک واقعہ ہے۔ ایک ماجرا ایک خاص واقعے سے مربوط ہے۔ لیکن یہ صرف اسی زمانے تک محدود نہیں ہے۔ اس کی آج بھی افادیت ہے۔ ہر دور میں اس کی افادیت رہی ہے۔

قرآن کی دائمی ہدایت اور میدان میں ڈٹے رہنے اور عمل کرنے کی ضرورت

جب بھی ہم قرآن کے ایسے کسی بھی واقعے سے کچھ پیغام حاصل کرنا چاہیں، قرآن سے ہدایت طلب کریں تو قرآن ہمیں یہ چیز عطا کرے گا۔ آج بھی یہ چیز ہے۔ آج بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ آکر ہمارے درمیان افواہ پھیلائیں کہ مثلا فلاں حکومت، فلاں گروہ، فلاں سپر پاور، فلاں مجموعہ، آپ کے خلاف سازش میں لگ گيا ہے،  اب تو آپ کی خیر نہیں ہے! اس قسم کی اگر باتیں کریں تو یہاں بھی وہی چیز صادق آتی ہے: فَزادَهُم ایمانًا وَقالوا حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل (17) البتہ «حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل» گھر کے ایک گوشے میں بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوگا۔ اس کے لئے میدان میں اترنا پڑے گا۔ جس طرح وہ لوگ میدان میں گئے۔ سبق یہی ہے: میدان میں اتر جائیے، جو ضروری ہے وہ انجام دیجئے اس کے بعد کہئے: "حَسبُنَا اللهُ وَنِعمَ الوَکیل"۔

فُضیل ‌بن‌ یسار جو امام محمد باقر اور امام صادق علیہما السلام کے معتمد اور بڑے ممتاز اصحاب میں سے تھے، کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر علیہ  السلام سے سوال کیا کہ اس روایت کا کیا مطلب ہے: ایک روایت ان کے پاس تھی جس میں ارشاد ہوتا ہے: «ما فِی القُرآنِ آیَةٌ اِلّا وَ لَها ظَهرٌ و بَطن» اس روایت میں مزید بھی کچھ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ روایت کہتی ہے کہ قرآن کی آیتوں کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سوال کیا کہ یہ ظاہر و باطن کیا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ «بَطنُهُ تَأویلُه» اس کا ظاہر تو ظاہر ہے، مگر اس کا باطن وہ ہے جو اس ظاہر کی تاویل پیش کرتا ہے۔ تاویل سے مراد یہ ہے کہ یہ آیت اور اس کا مضمون کس چیز پر منطبق ہوتا ہے۔ مِنهُم ما مَضیٰ وَ مِنهُم ما لَم یَکُن بَعدُ یَجری کَما تَجرِی الشَّمسُ وَ القَمَر (18)۔ سورج اور چاند کے مثل جو دائمی طور پر انسان کے سر کے اوپر رہتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا کہ  ایک دن رہیں اور دوسرے دن نہ رہیں۔ قرآن کی یہ آيتیں بھی آفتاب کی مانند ہمارے سر کے اوپر موجود ہیں، ہمیشہ موجود رہتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ ایک دن رہیں اور دوسرے دن نہ رہیں۔ تو ہدایت قرآنی کا یہ انداز ہے۔

انسانوں کے تمام سماجی و سیاسی میدانوں میں قرآن کا عمل دخل

جو لوگ قرآن کو اور اسلام کو ذاتی مسائل اور عبادی امور وغیرہ تک محدود سمجھتے ہیں اور انسانوں کو گوشہ نشینی کی دعوت دیتے ہیں کہ جب معاشرے میں آنا ہو تو قرآن کو کنارے رکھ دیں۔ ایسے افراد قرآن سے واقف ہی نہیں ہیں۔ واقعی وہ قرآن سے آشنا نہیں ہیں۔ انھیں قرآن کی شناخت نہیں ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ انھوں نے قرآن کو پڑھا ہی نہیں ہے۔ اسی لئے ایسی غلط باتیں اور غلط فیصلے کرتے ہیں۔ واقعی وہ قرآن سے نابلد ہیں۔ قرآن خود کو سیاسی و سماجی چیلنجوں سے ہرگز لا تعلق نہیں رکھتا اور طاغوتی قوتوں، مستکبرین، اسراف کرنے والوں اور ظالمین کے مقابلے سے گریز نہیں کرتا۔ ہمیشہ ان کے مد مقابل ڈٹا رہتا ہے۔ اگر آپ اہل قرآن ہیں تو لا محالہ آپ کی زندگی کے میدان میں قرآن کا بھرپور عمل دخل ہوگا۔ تو قرآن تمام شعبوں میں انسانوں کی ہدایت اور دستگیری کا ذمہ دار ہے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

قرآنی ہدایت سے مستفیض ہونے کے لئے تقوی ضروری ہے

یہاں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن ہمارے استفادے کے لئے موجود ہے لیکن کیا ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم اس سے استفادہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ یہ اپنی جگہ بہت اہم بات ہے۔ ہاں قرآن نے ہمیں کچھ درس دئے ہیں، ہمیں ہدایت دی ہے۔ لیکن ہم اس قرآنی ہدایت سے کب فائدہ اٹھانے کے قابل ہو سکتے ہیں؟ هُدًی لِلمُتَّقین (19) جب تقوی ہوگا۔ اگر تقوی ہوگا تو یہ ہدایت حقیقی معنی میں، صحیح معنی میں ہمیں میسر ہوگی۔ البتہ قرآن میں الگ الگ انداز سے بیان کیا گيا ہے لیکن سب کا آخری مرجع ایک ہی ہے جو ابتدائے قرآن میں ذکر ہے: «هُدًی لِلمُتَّقین» ایک جگہ ہے: «هُدًی وَ بُشریٰ لِلمُؤمِنینَ»(20) ایک جگہ ہے: «هُدًی وَ رَحمَةً لِقَومٍ یُؤمِنون»(21) ایک جگہ ہے «هُدًی وَ بُشریٰ لِلمُسلِمین»(22) ایک جگہ ہے «هُدًی لِلنّاس» یہ ہدایت کے الگ الگ درجات ہیں: «هُدًی لِلنّاس» یعنی ان کے سامنے رکھ دی گئی ہے، وہ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ «هُدًی لِلمُتَّقین» یا «هُدًی وَ بُشریٰ لِلمُؤمِنین» نے انسانوں کے لئے اس ہدایت سے بہرہ مند ہونے کے الگ الگ درجات معین کر دئے ہیں۔ تو یہ تقوی سے متعلق کچھ باتیں تھیں جو ہدایت کے مراتب بیان کرتا ہے۔

'خشیت' یا خوف پروردگار

دوسری آیتوں میں «خشیت» کو معیار قرار دیا گیا ہے۔ میں ابھی عرض کروں گا کہ خشیت کا مرجع بھی تقوی ہی ہے۔: «اِنَّما تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکرَ وَ خَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیبِ فَبَشِّرهُ بِمَغفِرَةٍ وَ اَجرٍ کَریم» (23) سورہ مبارکہ یاسین میں ہے کہ جو لوگ قرآنی انتباہات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان پر ان انتباہات کا اثر ہوتا ہے، یہ انتباہات انھیں کے کام آتے ہیں اور آگے بڑھنے میں ان کی مدد کرتے ہیں جو «خشیت» رکھتے ہوں۔ یا سورہ مبارکہ طہ میں ہے: ماٰ اَنزَلنا عَلَیکَ القُرءانَ لِتَشقیًّ، اِلّا تَذکِرَةً لِمَن یَخشیٰ (24)۔ قرآن میں دوسری بھی کئی آیتیں ہیں جو اسی «خشیت» سے مربوط ہیں۔ «خشیت» بھی اہل  تقوی کی صفت ہے۔ یعنی اگر ہمارے پاس تقوی ہوگا تو ہمارے اندر «خشیت» بھی پیدا ہوگی۔ میں یہاں اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرنا چاہوں گا: وَ لَقَد ءاتَینا موسیٰ وَ هٰرونَ الفُرقانَ وَ ضِیاٰءً وَ ذِکرًا لِلمُتَّقین (25) حضرت موسی و ہارون علیہما السلام کو جو چیز عطا کی گئی وہ متقین سے متعلق ہدایت اور ذکر تھا۔ متقین مراد کون سے افراد ہیں؟ قرآن متقین کی تعریف بیان کرتا ہے: الَّذینَ یَخشَونَ رَبَّهُم بِالغَیب (26)۔ بنابریں تقوی اور «خشیت» یا تو ساتھ ساتھ رہتے ہیں، یا بنیادی طور پر وہ ایک دوسرے سے الگ ہیں ہی نہیں بلکہ مفہوم واحد کے تحت آتے ہیں۔

خوف و 'خشیت' کا فرق

البتہ خشیت اور خوف میں فرق ہے۔ خشیت اس حالت کو کہتے ہیں جو فریق مقابل کی عظمت کے فہم و ادراک کی وجہ سے انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس حالت کو خشیت کہتے ہیں۔ اللہ کے سامنے خشیت حق  تعالی جل جلالہ کی عظمت کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔: «اِنَّما یَخشَی اللہ مِن عِبادِہ العُلَمَاءُ» (27)۔ جن افراد کے پاس زیادہ معرفت ہے، زیادہ علم ہے، انھیں کے اندر اللہ کی خشیت پیدا ہوتی ہے۔ خوف و خشیت کے معنی کے سلسلے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ پروردگار کی ذات اقدس کو کبھی ڈراونی چیز سمجھ لیا جاتا ہے۔ نہیں، اِنَّما تُنذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکرَ وَ خَشِیَ الرَّحمٰنَ بِالغَیب۔ خشیت ہے لیکن رحمانیت بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ وہی رحمان اور وہی بشر کے لئے لطف و عنایات کا سرچشمہ ہے جس کی بارگاہ میں اس کی عظمت کی وجہ سے خشیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے۔ واقعی اس مہینے میں قرآنی ہدایت سے کسب فیض کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کی تلاوت کریں، خوب تلاوت کریں، توجہ سے پڑھیں، غور و فکر کے ساتھ پڑھیں، اللہ تعالی کی ذات پر توجہ مرکوز کرکے پڑھیں۔ اللہ تعالی سے قرآن کی تلاوت کے سلسلے میں مدد مانگیں اور یاد رکھیں کہ دل کو قرآن سے روشنی ملتی ہے۔ یہ امیر المومنین علیہ السلام کا قول ہے «وَ اِنَّ اللَہ سُبحانَہ لَم یَعِظ اَحَداً بِمِثلِ ھذَا القُرآن»۔ یہ نہج البلاغہ کا بڑا پرکشش 176 واں خطبہ ہے جو امیر المومنین علیہ السلام نے قرآن کی بابت بیان فرمایا ہے۔ اس کے کچھ فقرے ہم کبھی کبھی اپنی گفتگو میں پڑھتے ہیں۔ یہاں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنَّ اللَہ سُبحانَہ لَم یَعِظ اَحَداً بِمِثلِ ھذَا القُرآن۔ اللہ تعالی نے کسی بھی آسمانی صحیفے میں قرآن کی طرح انسانوں کو موعظہ نہیں کیا ہے، انھیں درس نہیں دیا ہے، ان کی رہنمائي نہیں فرمائی ہے۔ فَاِنَّہ حَبلُ اللہ المَتینُ وَ سَبَبُہ الاَمینُ وَ فیہ رَبیعُ القَلب۔ بہار دل، دل میں بہار کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، دل کو تازگی عطا کرتا ہے، دل کو شاداب بنا دیتا ہے، دل کو معارف اور حقیقی توجہ کی زرخیز وادی بنا دیتا ہے۔ وَ فیہ رَبیعُ القَلبِ وَ یَنابیعُ العِلمِ وَ ما لِلقَلبِ جِلاءٌ غَیرُہ۔ یہ 'جلا' کا لفظ امیر المومنین علیہ السلام کے فرمودات میں آیا ہے۔

قاریان قرآن بحیثیت مبلغ قرآن خشوع کے ساتھ اور معانی کے مطابق تلاوت کریں

آپ عزیز قاریان قرآن ہماری اس گزارش کے سب سے پہلے مخاطب ہیں، آپ خود کو مبلغ قرآن سمجھئے۔ صرف قرآن پڑھنے والا نہیں بلکہ مبلغ قرآن۔ تمام قدیمی قاریوں میں جن کے ناموں کا یہاں ذکر ہوا اور جن میں بعض کی تلاوت بھی سنوائی گئی، کچھ ایسے ہیں کہ جب تلاوت کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا انسان پر (یہ آیتیں) اتر رہی ہیں۔ یعنی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، کیا پڑھ رہے ہیں۔ معانی پر توجہ رکھتے ہوئے حضور قلب کے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں۔ البتہ بعض میں یہ بات نہیں ہوتی، اسی لئے سامع کے دل پر ان کی تاثیر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قاری خود کو مبلغ قرآن تصور کرے۔

آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آپ قرآن کے مبلغ ہیں۔ تلاوت کرنے والوں کا واقعی بڑا رول ہے۔ تلاوت کی ان نشستوں کا بڑا اہم کردار ہے۔ قاریوں کی تربیت بڑا عظیم اور بہت اہم کام ہے جو انجام دیا جا رہا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سلسلہ رائج ہو گیا ہے۔ بیدار ذہن، خشوع اور معنی پر گہری توجہ کے ساتھ تلاوت۔ معانی پر توجہ دیجئے۔ مثال کے طور پر آپ کسی محفل میں قرآن کے ایک حصے کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو اپنے ذہن میں پہلے ہی اس کی تیاری کیجئے۔ اگر تفسیر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے، ترجمہ دیکھنے کی ضرورت ہے تو رجوع کیجئے۔ خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے بہت سے قاری قرآن کو سمجھتے ہیں اور معانی قرآن کا ادراک رکھتے ہیں، انھیں ترجمہ دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی لیکن اگر ترجمے کی ضرورت یا تفسیر کی ضرورت ہو تو رجوع کر لیں اور پوری توجہ کے ساتھ، دقت نظری کے ساتھ یہ کام انجام دیں۔

اچھی آواز اور اچھی دھن کا استعمال اس کی صحیح حدود کی پاسداری کے ساتھ

یہ جو آڈیو کی شکل میں کچھ کام بعض افراد کرتے ہیں، کچھ قاری اور بعض بچے جو کرتے ہیں، اس پر زیادہ توجہ نہ دیجئے۔ معانی پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ میں اچھی آواز اور اچھی دھن میں تلاوت سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ یہ چیز کہ آپ اچھی دھن چنیں، سیکھیں اور بیان کریں، اچھی بات ہے، لیکن خیال رہے کہ درست حدود اور صحیح راستے سے آپ خارج نہ ہو جائیں۔ یہ قرآن سے متعلق ہمارے معروضات تھے۔

کورونا کے خلاف جنگ میں طبی ماہرین کے انتباہات پر توجہ دینے اور ٹھوس فیصلہ کرنے کی ضرورت

ایک بات اور بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس چیز نے ہم سب کو متاثر کیا ہے۔ یہ اسی ہمہ گیر بیماری کا معاملہ ہے۔ یہ ہمہ گیر اور واقعی منحوس وائرس ہے جو ہمارے ملک میں اور ساری دنیا میں موجود ہے اور اس نے ملک میں زندگی کو متاثر کیا ہے۔ سال کے سب سے خوبصورت ایام یہی ابتدائے بہار کے ایام ہوتے ہیں۔ افسوس کہ اس سال اس بیماری نے سب سے پرکشش اور سب سے شیریں ایام کو ہماری قوم کے لئے تلخ بنا دیا۔ اموات کی شرح اوپر چلی گئی، بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان خود کو لا  تعلق نہیں رکھ سکتا۔ یہ تلخ اور دہلا دینے والے اعداد و شمار ہم سب کے لئے، عہدیداران کے لئے بھی اور عوام کے لئے بھی آنکھیں کھول دینے والے اور بیدار کر دینے والے ہوں۔ ہم سنجیدگی سے توجہ دیں، بیماری کو مذاق نہ سمجھیں۔ عہدیداران کو چاہئے کہ جو اقدامات کرنا ہیں پوری قطعیت سے انجام دیں، جس حد تک ضرورت ہے۔ متعلقہ ماہرین اور ایکسپرٹ حضرات، ڈاکٹر، میڈیکل شعبے کے عہدیداران وغیرہ جو طے کر دیں اسی کے مطابق عمل کیا جائے۔ آپ دوسری کسی بھی مشکل کی تلخی کے بارے میں سوچئے تو وہ اس بیماری کے پھیلنے سے جو مشکلات پیدا ہو رہی ہیں، ان سے کم ہی نظر آئے گی۔ کیونکہ بیماری پھیلنے سے بیماری تو بڑھتی ہی ہے بے روزگاری بھی پھیلتی ہے، معیشتی مشکلات بھی پیدا ہوتی ہیں، عزیزوں کی اموات اور ان کا غم بھی اس کے ساتھ ہے۔ یعنی ملک کے تمام امور اس بیماری سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اس وقت یہی صورت حال ہے۔ ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ یہ بیماری رک جائے، اس پر ہمیں غلبہ مل جائے، قابو ہو جائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب پالیسی اور منصوبہ تیار کیا جائے، رو بہ عمل لایا جائے اور ہم عوام الناس کی جانب سے طبی ضوابط کی مکمل پاسداری کی جائے۔

میڈیکل کیڈر کی قدردانی

یہاں ایک نکتہ اور بھی عرض کر دینا ضروری ہے اور وہ ہے طبی و معالجاتی کیڈر کی تعریف و قدردانی۔ واقعی یہ ضروری ہے کہ انسان ان کی قدردانی کرے، ان کا شکریہ ادا کرے۔ انسان اگر ماسک لگاتا ہے تو یہی ماسک اس کے لئے کافی دقتیں پیدا کر دیتا ہے۔ اس گرمی کے موسم میں، اس تکلیف دہ لباس کے ساتھ، اگر اس لباس کے ساتھ یہ نوجوان، یہ نرس، یہ ڈاکٹر، یہ پیرا میڈیک اور طبی عملے کے بقیہ افراد اسپتال کے اندر یا باہر گھنٹوں کام کرنے پر مجبور ہوں تو آپ ذرا سوچئے کہ یہ کتنا دشوار کام ہے۔ واقعی یہ اللہ کی راہ میں مجاہدت ہے، جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ میری نظر میں اس کا بہت زیادہ ثواب ہے۔

میڈیکل کیڈر کا ہاتھ بٹانے کے لئے رضاکار فورسز کا میدان میں اترنا ضروری

عوام کو بھی چاہئے کہ تعاون کریں۔ جو لوگ اس کام میں مدد کر سکتے تھے، گزشتہ سال کے اوائل میں، بیماری پھیلنے کی جب شروعات ہوئی تھی تو کچھ لوگ میدان میں آئے تھے، اسپتالوں میں گئے، نرسوں وغیرہ کی مدد کی، اسپتالوں کے باہر بھی مدد کی۔ اس وقت بھی جو لوگ آمادہ ہیں وہ اس کام میں رضاکارانہ طور پر مدد کریں۔

کمک و دست گیری کی مہم کے تحت مومنانہ امداد کو اوج پر لے جانے، اس کا دائرہ بڑھانے اور اس کے تسلسل کی ضرورت

اس سلسلے میں مزید ایک نکتہ عوامی تعاون کا ہے۔ رمضان کا مہینہ نیکوکاری کا مہینہ ہے۔ ہمیشہ سے یہ سلسلہ رہا ہے۔ عام حالات میں بھی ماہ رمضان آتا ہے تو نیکوکاری کا دسترخوان بچھا دیا جاتا ہے اور مومنین حاجتمند افراد کے لئے، ضرورتمند افراد کے لئے امداد کا دسترخوان بچھاتے تھے۔ اب جب کورونا کی وبا کے حالات ہیں تو اس چیز کی اہمیت دو بالا ہو جاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ مومنانہ امداد کی تحریک، دست گیری کی تحریک اس مہینے میں عوام کے اندر واقعی اپنے اوج پر پہنچے۔ البتہ مجھے معلوم ہے کہ کچھ لوگ اس حقیر کی سفارش کا انتظار کئے بغیر خود ہی شروع کر چکے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں، شہروں کے گوشہ و کنار میں امداد میں مشغول ہیں۔ یا تو اس کی تیاری کر رہے ہیں، یا امداد شروع کر چکے ہیں۔ یہ مجھے معلوم ہے۔ تاہم مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ اس عمل کو جاری رکھئے، اسے ہمہ گیر بنائيے، اس سلسلے میں ان شاء اللہ سب مدد کریں تاکہ مومنانہ امداد کی یہ تحریک اوج پر پہنچ جائے۔ یہ کچھ باتیں کورونا اور اس بیماری کے تعلق سے تھیں۔

ایٹمی ڈیل کے بارے میں ملک کی پالیسی بالکل واضح، تھکا دینے والے مذاکرات میں الجھنے سے اجتناب ضروری

دو چار جملے ان دنوں کے اس معروضی مسئلے، ایٹمی ڈیل، پابندیوں وغیرہ جیسی باتوں کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ باتیں تو بہت ساری ہیں۔ ہم نے ملک کی پالیسی کا اعلان کر دیا ہے۔ عہدیداران سے کہہ دیا ہے، قریب سے بھی کہہ دیا ہے، تحریری طور پر بھی بتا دیا ہے، اجلاسوں میں بھی کہا ہے اور عمومی تقاریر میں بھی بیان کر دیا ہے۔ ملک کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ اب ہمارے عہدیداران اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ہمیں مذاکرات کرنا چاہئے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن یہ خیال رہے کہ مذاکرات تھکا دینے والے نہ ہوں۔ یہ نہ ہو کہ دوسرے فریق یونہی مذاکرات کو طول دیتے جائیں۔ کیونکہ یہ ملک کے لئے نقصان دہ ہے۔

امریکیوں کے مذاکرات کا مقصد اپنی ناحق خواہشات مسلط کرنا

اس پر بھی توجہ رکھئے کہ امریکی جو ہمیشہ مذاکرات کا نام لیتے ہیں کہ ہم ایران سے براہ راست مذاکرات کے لئے تیار ہیں، اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو ایسا بالکل نہیں ہے کہ امریکہ اس لئے مذاکرات چاہتا ہے کہ حق بات کو قبول کر لے۔ ہرگز نہیں، وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی ناحق بات مسلط کر سکیں! ان کا کام ہی یہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کوئی حق بات سنیں، اس کی تصدیق کریں اور اس کے بعد اسے قبول کر لیں۔ چنانچہ یہ یورپی حضرات بھی بعض اجلاسوں میں جن کی رپورٹ ہمیں اپنے عہدیداران اور مامور افراد سے ملتی ہے، یہ اقرار کرتے ہیں کہ ایران حق بجانب ہے۔ ہم نے کہا ہے کہ پہلے پابندیاں ہٹائی جائیں! کیونکہ ہمیں ان کے وعدوں پر اعتبار نہیں ہے۔ اب تک درجنوں مواقع پر انھوں نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا بلکہ وعدوں کے برخلاف کام کیا۔ اس وقت بھی وہ یہی کریں گے۔ لہذا پہلے انھیں وہ کرنا پڑے گا جو ہم کہہ رہے ہیں، تاکہ ہمیں یقین ہو جائے کہ کام انجام دیا گيا ہے، اس کے بعد ہم اپنی ذمہ داری پر عمل کریں  گے۔ یہ یورپی مذاکرات کار کبھی کبھی نجی ملاقاتوں میں کہتے ہیں کہ یہ موقف بالکل درست ہے اور ایران حق بجانب ہے۔ لیکن جب فیصلے کی بات آتی ہے تو وہ امریکیوں کے تابع ہوتے ہیں۔ واقعی انھیں کوئی آزادی حاصل نہیں ہے۔ امریکہ کو دھونس جمانے کی عادت ہے، اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔ اس کی مشکل یہ ہے۔ اسی لئے جب وہ کچھ تجاویز دیتے ہیں تو وہ متکبرانہ ہوتی ہیں، تحقیر آمیز ہوتی ہیں، اس قابل نہیں ہوتیں کہ انھیں ایک نظر دیکھا بھی جائے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملک کے عہدیداران ان شاء اللہ اس مسئلے میں بھی پوری طرح کھلی آنکھ اور مضبوط ارادے کے ساتھ اللہ پر توکل کرتے ہوئے «حَسبُنَا اللهُ وَ نِعمَ الوَکیل» کے ورد کے ساتھ ان شاء اللہ آگے بڑھیں گے اور توفیقات خداوندی ان کے شامل ہوں گی اور وہ ملت ایران کو شادمانی کا پیغام دیں گے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس با شرف مہینے کو ملت ایران کے لئے اور تمام مسلم اقوام کے لئے مبارک قرار دے، اس کی برکتوں کا نزول فرمائے، ہماری خشک و تشنہ وادیوں پر اپنی باران رحمت کا نزول فرمائے۔ ان شاء اللہ اپنی روحانی و مادی برکتوں سے عوام الناس اور راہ حق کے مجاہدین کو بہرہ مند فرمائے۔ بزرگوار امام کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور فرمائے۔ شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کو صدر اسلام کے شہیدوں کے ہمراہ ان شاء اللہ محشور کرے۔ ہمارا سلام و خراج عقیدت و ارادت مولائے عالم حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی خاک پا تک پہنچائے اور ان بزرگوار کی رضامندی اور دعا ہمارے شامل حال کرے۔

و السّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

 

 

1) اس  پروگرام کے آغاز میں کچھ قاریوں نے آیات قرآن کی تلاوت کی اور قاریوں کی تلاوت کے درمیانی فاصلے میں گزشتہ برسوں میں رمضان المبارک میں قاریوں سے رہبر انقلاب کی سالانہ ملاقات کی کچھ جھلکیاں دکھائی گئیں۔

2) مورخہ 21 مارچ 2021 کو عید نوروز پر ایرانی قوم سے خطاب

3) سوره‌ بقره، آیت نمبر ۱۸۵ کا ایک حصہ «ماہ رمضان وہی مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا، (وہ کتاب) جو لوگوں کے لئے رہبر ہے، ہدایت کے آشکار دلائل سے آراستہ ہے اور حق و باطل کی شناخت (کا پیمانہ) ہے۔

4) سوره‌ حمد، آیت 6 اور 7

5) سوره‌ بقره، آیت 1 اور 2 «الف، لام، میم. یہ وہ کتاب ہے جس کی حقانیت میں کوئی شبہ نہیں اور متقین کے لئے ہدایت ہے۔

6) منجملہ سوره ص، آیت 87 «یہ (قرآن) دنیا والوں کے لئے خالص موعظہ ہے۔

7) بحارالانوار، جلد91، صفحہ 99

8) سوره‌ فصّلت، آیت نمبر ۳۴ کا ایک حصہ؛...تو آپ دیکھیں گے کہ آپ میں اور جس میں دشمنی تھی وہ گویا آپ کا جگری دوست بن گیا۔

9) سوره‌ فرقان، آیت نمبر ۷۴ کا ایک حصہ: ...اے ہمارے پروردگار! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیش رو بنا۔

10) سوره‌ نور، آیت نمبر ۳۲ کا ایک حصہ «اور تم میں جو (مرد و زن) بے نکاح ہیں ان کا نکاح کرو۔ نیز اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے بھی جو (نکاح کے) قابل ہوں۔ ان کا بھی نکاح کرو۔ اگر وہ غریب و نادار ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل و کرم سے مالدار بنا دے گا۔۔۔۔

11) سوره‌ فتح، آیت نمبر ۲۶ کا ایک حصہ؛ «... اللہ نے اپنا سکون و اطمینان اپنے رسول(ص) اور اہلِ ایمان پر نازل فرمایا...»

12) سوره‌ هود، آیت نمبر ۶۱ کا ایک حصہ؛ «... اور اس میں تم کو آباد کیا۔. ...»

13) سوره‌ لقمان، آیت نمبر ۱۸ کا ایک حصہ «اور (تکبر سے) اپنا رخسار لوگوں سے نہ پھیر اور زمین پر ناز و انداز سے نہ چل ...»

14) ایضا، آیت نمبر ۱۹ کا ایک حصہ «اور اپنی رفتار (چال) میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ...»

15) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۳؛ « اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ، "تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو"، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے

16) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۴ کا ایک حصہ  «تو اللہ کی جانب سے نعمت و فضل کے ساتھ پلٹے اس حالت میں کہ انھیں کوئي نقصان نہیں پہنچا تھا۔...»

17) سوره‌ آل‌عمران، آیت نمبر ۱۷۳ کا ایک حصہ «... ان کے ایمان میں اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا: ہمارے لئے اللہ کافی ہے  اور سب سے اچھا مددگار ہے۔»

18) بحارالانوار، جلد ۸۹، صفحہ ۹۴

19) سورہ‌ بقره‌، آیت نمبر ۲ کا ایک حصہ «...تقوی رکھنے والوں کے لئے ہدایت کا سبب ہے۔»

20) منجملہ سوره‌ بقره‌، آیت نمبر ۹۷ کا ایک حصہ «... مومنین کے لئے ہدایت و بشارت ہے۔ »

21) منجملہ سوره‌ اعراف، آیت نمبر ۵۲ کا ایک حصہ  «... اس گروہ کے لئے جو ایمان لایا ہدایت و رحمت ہے۔ »

22) سوره‌ نحل، آیت نمبر ۱۰۲ کا ایک حصہ «...مسلمین کے لئے ہدایت و بشارت ہے۔»

23) سوره‌ یس، آیت ۱۱؛ « تم تو اُسی شخص کو خبردار کر سکتے ہو جو نصیحت کی پیروی کرے اور بے دیکھے خدائے رحمان سے ڈرے اُسے مغفرت اور اجر کریم کی بشارت دے دو۔

24) سوره‌ طاها، آیات ۱ تا ۳؛ «طه ہم نے یہ قرآن تم پر اس لیے نازل نہیں کیا ہے کہ تم مصیبت میں پڑ جاؤ، یہ تو ایک یاد دہانی ہے ہر اس شخص کے لیے جو ڈرے

25) سوره انبیاء، آیت نمبر ۴۸؛ « پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور "ذکر" عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھَلائی کے لیے

26) ایضا، آیت نمبر ۴۹ کا ایک حصہ «(وہی) لوگ جو بے دیکھے اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔. ...»

27) سوره‌ فاطر، آیت نمبر ۲۸ کا ایک حصہ؛ «...اللہ کے بندوں میں صرف اہل علم ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔...»