اس مبارک مہینے کی فضیلت اور اس مہینے میں بندگان صالح کے وظائف کے تعلق سے جو کچھ بھی بیان کیا جا سکتا ہے امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات میں وہ سب کچھ اپنی کامل ترین صورت میں جلوہ فگن ہے۔ میں اپنی بات کا آغاز امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ و السلام کے تذکرے سے کرنا چاہتا ہوں تاکہ کسی حد تک آپ کی معرفت کا اندازہ ہو سکے۔ یوں تو آپ کے فضائل کے سلسلے میں جو کچھ بیان کیا گیا ہےاور جو کچھ لوگوں نے سنا ہے وہ آپ کی حقیقی منزلت و مقام کے مقابلے میں بہت معمولی اور محدود ہے۔ ہم نہ آپ کی مجاہدانہ زندگی کی توصیف کر سکتے ہیں، نہ تقرب الہی کے لئے کی جانے والی آپ کی سعی پیہم کی تصویر کشی کر سکتے ہیں، نہ آپ کی سختیوں اور رنج و غم کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور نہ ہی آپ کے عمل کی عظمتوں کا ادراک کر سکتے ہیں۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات سے سبق حاصل کرنے کے لئے آپ کے کثیر الجہتی اقدامات کے ایک پہلو کے سلسلے میں چند باتیں عرض کروں گا، یہ پہلو اخلاقیات کا ہے۔ جب حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام اسلامی معاشرے میں بر سر اقتدار آئے تو حالات رحلت پیغمبر اسلام کے وقت کے حالات سے بہت مختلف ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رحلت اور حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے دور حکومت کے درمیان پچیس سال کے عرصے میں بہت سارے واقعات رونما ہوئے جن کا اسلامی معاشرے کے افکار و اخلاق و برتاؤ پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ تغیرات سے پوری طرح متاثر اس معاشرے کی باگڈور حضرت امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام کے ہاتھ میں آئی۔ آپ نے تقریبا پانچ سال حکومت کی اور ان پانچ برسوں کا ایک ایک دن اہم درس کا حامل ہے۔ آپ کے اہم ترین اقدامات میں معاشرے کی اخلاقی تربیت شامل ہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والے تمام انحرافات کی جڑ اخلاقیات میں پنہاں ہوتی ہے۔ انسان کا اخلاق، اس کا مزاج اور اس کی خصلتیں اس کے افعال کو رخ اور سمت عطا کرتی ہیں۔ اگر ہم کسی معاشرے یا دنیا میں کجروی دیکھ رہے ہیں تو اس کی وجہ ہمیں لوگوں کے نا پسندیدہ اخلاق و کردار میں تلاش کرنی چاہئے۔ اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک اور حقیقت سے پردہ ہٹایا کہ تمام بری خصلتوں اور برے کردار کی جڑ دنیا پرستی اور دنیا طلبی ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ 'الدنیا راس کل خطیئۃ' دنیا تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ ان خطاؤں کا ہماری انفرادی زندگی میں گہرا اثر ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا طلبی کیا ہے؟ اور دنیا کیا ہے؟
دنیا سے مراد تو یہی عظیم الشان عالم طبیعت اور کائنات ہے جسے خلق کرکے پروردگار عالم نے ہم انسانوں کے اختیار میں دے دیا ہے۔ دنیا یہ ہے۔ روئے زمین پر اللہ تعالی نے یہ جو بے شمار اشیاء و مخلوقات پیدا کی ہیں یہ سب دنیا کے عناصر ہیں۔ ہماری عمر، ہماری محنت کے ثمرات، یہ سب دنیا کے اجزا ہیں، اولادیں دنیا ہیں، مال دنیا ہے، علم دنیا ہے، قدرتی ذخائر دنیا کے اجزا ہیں، یہ پانی، یہ زمین دوز ذخائر اور کون و مکاں میں نظر آنے والی تمام اشیاء اور وہ تمام چیزیں جن سے ہماری اس دنیا کی زندگی چل رہی ہے یہی دنیا ہے۔ اس میں تو کہیں کوئی برائی نہیں ہے۔ ہماری دینی تعلیمات میں بھی کہا گیا ہے کہ دنیا کو آباد کرو 'خلق لکم ما فی الارض جمیعا' روی زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے خلق کی گئی ہیں۔ بڑھو دنیا کو آباد کرو، اپنے اور دیگر افراد کے لئے دنیا کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کی راہ ہموار کرو۔ کچھ روایتوں میں ہے 'الدنیا مزرعۃ الآخرۃ متجر عباد اللہ' دنیا آخرت کی کھیتی ہے، بندگان خدا کی جائے تجارت ہے۔ ان روایات میں دنیا کو مثبت نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بعض روایات ہیں جن میں دنیا کو خطاؤں کی جڑ اور برائیوں کا سرچشمہ قرار دیا گيا ہے۔ ان دو قسموں کی تعلیمات سے بڑا واضح پیغام ملتا ہے۔ یوں تو یہ بڑی علمی اور تجزیاتی بحث ہے جس کے سلسلے میں کام ہونا چاہئے اور کام ہوا بھی ہے اور بڑی اچھی بحثیں کی گئی ہیں اس کا لب لباب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے لئے کائنات کا دسترخوان بچھا دیا ہے اور انسانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس قدرتی دسترخوان کو خوب سجائیں، سنواریں، بھرپور استفادے کے قابل بنائيں، پھر خود بھی اس سے بہرہ مند ہوں اور دیگر افراد کو بھی مستفیض ہونے کا موقع دیں لیکن اس پورے عمل کے لئے کچھ اصول و ضوابط بھی وضع کر دئے گئے ہیں۔ کچھ چیزوں کی ممانعت بھی ہے۔ قابل ستائش دنیوی زندگی وہ ہے جس میں انسان قدرتی دسترخوان کی نعمتوں سے ان اصولوں اور ضوابط کے مطابق بہرہ مند ہو جو اللہ تعالی کی جانب سے معین کئے گئے ہیں۔ ان اصولوں اور ضوابط کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ ممنوعہ حدود میں قدم نہ رکھا جائے۔ قابل مذمت دنیوی زندگی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے عطیات سے خوب جی بھر کے استفادہ کرے اور اپنے حق سے زیادہ نعمتوں کا مطالبہ کرے اور دوسروں کے حصے کی نعمتوں کی جانب دست درازی کرے۔ چیزوں کی چاہت اس پر اس انداز سے سوار ہو جائے کہ 'حب الشیء یعمی و یصم' یہ چاہت اسے اندھا اور بہرہ بنا دے۔ وہ اس حد تک آگے بڑھ جائے کہ اپنی مطلوبہ اشیاء کے حصول کے وقت نہ کسی ممانعت پر توجہ دے اور نہ حدود کو تسلیم کرے۔ یہ مذموم دنیوی زندگی ہے۔ دنیا کی چاہت میں ڈوب جانا اور اپنے حق سے زیادہ کا مطالبہ، مذموم ہے۔ یوں تو مال و منال دنیوی شئے ہے، عہدہ و مقام دنیوی شئے ہے، طاقت و قوت دنیوی شئے ہے، نعمتیں دنیوی چیزیں ہیں، لذتیں دنیوی چیزیں ہیں اور اسلام اور دیگر ادیان نے ان چیزوں کو مباح قرار دیا ہے۔ لیکن اگر کوئی شئے کسی دوسرے کا حق ہے تو اس کی سمت دست درازی کرنا، قدرتی قوانین و ضوابط کو توڑنا، دوسروں پر ظلم، دنیوی لذتوں میں گم ہوکر اپنے بنیادی ہدف و مقصد خلقت سے غافل ہو جانا ان ادیان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ یہ دنیا معنوی ترقی و بلندی و سرافرازی کا وسیلہ ہے۔ اس وسیلے کو اپنا آخری ہدف نہیں بنانا چاہئے۔ اگر غفلت نے گھیرا تو دنیا مذموم ہو جائے گی۔
یہ برائی عالم اسلام میں مولائے متقیان کی حکومت کے دور میں بھی نظر آئی۔ اسی وجہ سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام جیسی ملکوتی شخصیت کے سلسلے میں تنازعہ کھڑا کر دیا گيا تھا۔ لوگوں نے آپ کے علمی و روحانی مرتبہ و مقام کو نظر انداز کر دیا۔ آپ کی بے مثال صلاحیتوں کی نا قدری کی۔ اسلامی معاشرے کا نظم و نسق چلانے کی آپ کی مہارت و لیاقت کو نظر انداز کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ آپ کے خلاف محاذ کھول دیا گیا۔ اس کی وجہ دنیا پرستی تھی۔ آپ آج دنیا کو دیکھئے یہی سب کچھ آپ کو پھر نظر آئے گا۔ جب بھی دنیا کی باگڈور تسلط پسند، موقع پرست، جاہ طلب اور جارح طاقتوں کے ہاتھ میں ہوگی تو وہی سب کچھ ہوگا جو آج آپ کی نظروں کے سامنے ہے۔ اس بے کراں دسترخوان الہی پر ایک دوسرے کا حق نظر انداز کیا جائے گا۔ دنیا پرست عناصر اپنے اہداف کے حصول کے لئے فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے۔ جنگیں، جھوٹے پروپیگنڈے، بزدلانہ سیاست یہ سب کچھ دنیا طلبی کا نتیجہ ہے۔ معاشرے میں فتنہ غبار آلود فضا کی مانند ہے۔ جب معاشرے میں یہ پیدا ہو جاتا ہے تو لوگوں کی فکریں آلودہ ہو جاتی ہیں اور انسان دو قدم آگے کی چیزیں بھی دیکھنے اور سمجھنے میں دقت محسوس کرتا ہے۔ اس قسم کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی حالت میں لوگ غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ دور اندیشی کی صلاحت ختم ہو جاتی ہے۔ اس فضا اور ماحول میں تعصب پھیلتا ہے اور دنیا تسلط پسندوں کے ارد گرد گھومنے لگتی ہے۔ اس فضا میں بسا اوقات وہ افراد بھی جو دنیا پرست نہیں ہیں، دنیا پرستوں کے اہداف کے لئے کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالات اس طرح بدل جاتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات صادق آتی ہے 'الدنیا راس کل خطیئۃ' دنیا سے قلبی وابستگی تمام برائیوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اس نکتے پر توجہ دی اور اسے اخلاقی تربیت کے اہم نکات میں قرار دیا۔
آپ نہج البلاغہ کو شروع سے آخر تک دیکھئے، آپ کو محسوس ہوگا کہ مولائے کائنات نے دنیا سے بے رغبتی، دنیا کے سلسلے میں عدم دلچسپی، اور زہد و تقوی کے سلسلے میں جتنی نصیحتیں اور ہدایتیں کی ہیں وہ نہج البلاغہ میں بیان کی گئی دیگر تمام باتوں اور مضامین سے زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام دنیا سے کٹ کر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے والے انسان نہیں تھے۔ وہ دنیا سے الگ تھلگ نہیں تھے۔ وہ تو دنیا کی تعمیر و ترقی کی لئے بے تکان جد و جہد کرنے والے شخص تھے۔ ظاہری خلافت کا زمانہ ہو یا اس سے قبل کا دور، امیر المومنین ہمیشہ کاموں میں مصروف دکھائی دئے۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب آپ مدینہ منورہ میں تھے اور ابھی آپ کو خلافت نہیں ملی تھی تو آپ نے باغ لگائے اور باغوں اور نخلستانوں کی آبیاری میں مصروف رہتے تھے۔ دنیا اور ان قدرتی مناظر کے بارے میں غور کرنا جو اللہ تعالی کی صناعی کے مظہر ہیں اور لوگوں کی معیشت پر توجہ دینا، ان کے مالی امور کو چلانا، ان کی خوشحالی کے لئے وسائل فراہم کرنا، یہ سب پسندیدہ اور لازمی امور ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ امور ایک مسلمان اور ایک اسلامی عہدہ دار کے فرائض میں شامل ہیں۔ آپ ان خصوصیات کی حامل شخصیت کے مالک تھے لیکن دنیا کی چاہت اور دنیا پرستی کا جہاں تک سوال ہے تو اس کا کہیں کوئی شائبہ بھی آپ کے اندر نظر نہیں آیا۔ یہ ہے آپ کی شخصیت اور آپ کی اخلاقی تربیت۔
امیر المومنین علی علیہ السلام نے خطبہ متقین میں دنیا پرستی کا علاج بھی بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے "عظم الخالق فی انفسھم فصغر ما دونہ فی اعینھم" (یعنی متقین وہ ہیں جن کے دل میں خالق حقیقی کی عظمت سمائی ہوئی ہوتی ہے اور ما سوا اللہ کوئی چیز ان کی آنکھوں کو بھاتی ہی نہیں۔) دنیا پرستی اور دنیا طلبی سے نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان تقوائے الہی اختیار کرے کیونکہ تقوی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ "عظم الخالق فی انفسھم" انسان کے دل و جان میں کچھ اس طرح اللہ تعالی کی محبت بھر جاتی ہے کہ ساری چیزیں اسے ہیچ نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ دنیوی مقام، یہ مال و دولت، یہ رنگینیاں اور چمک دمک، یہ مادی زندگی کے جلوے اور یہ گوناگوں لذتیں انسان کی نظر میں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ چونکہ اس کا دل عظمت پروردگار کے احساس سے محظوظ ہو چکا ہوتا ہے اس لئے ہر چیز اسے معمولی نظر آتی ہے۔ یہ تقوی کی خصوصیت ہے۔ امیر المومنین علی علیہ السلام کی ذات ان خصوصیات کا حقیقی مظہر تھی۔ معروف خطبہ نوف بکالی میں مذکور ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام ایک پتھر پر کھڑے ہوئے تھے۔ بہت معمولی سا لباس آپ کے زیب تن تھا اور کھجور کے درخت کی چھال سے بنی جوتی آپ کے پیروں میں تھی۔ جبکہ اس وقت آپ عظیم امت مسلمہ کے حاکم تھے۔ آپ اس انداز سے زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کی زبان سے علم و دانش کے دریا بہتے تھے۔
جنگ صفین کے دوران ایک شخص آپ کے پاس آکر سقیفہ سے متعلق امور کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ آپ نے سخت لہجے میں اسے جواب دیا "یا اخا بنی اسد انک لقلق الوضین ترسل فی غیر سدد" تمہیں نہیں معلوم کب کیا بات کرنی چاہئے۔ تم کو موقع و محل کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ اس اہم ترین سیاسی و فوجی واقعے کے بیچ میں تم گزشتہ باتوں کے بارے میں سوال کر رہے ہو کہ سقیفہ کا مسئلہ کیا تھا؟! لیکن آپ پھر بھی اختصار کےساتھ اس کا جواب دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ بہرحال تمہیں سوال کرنے کا حق حاصل ہے۔ تم نے کچھ پوچھا تو یہ تمہارا حق تھا اور مجھے اس کا جواب دینا ہے۔ "فانّها كانت اثرة شحّت عليها نفوس قوم و سخت عنها نفوس آخرين" یہ ایک جاہ طلبی تھی۔ کچھ نے اس پر آنکھیں بند کر لیں اور کچھ نے اسے جھپٹ لیا۔ دنیا پرستی اور جاہ طلبی امیر المومنین علی علیہ السلام کی نگاہ میں انتہائي مذموم ہے اور آپ ہمیں اپنی اسی نظر اور طرز فکر سے آشنا کروانا چاہتے ہیں۔ ہمیں امیر المومنین علیہ السلام سے یہ درس لینا چاہئے۔ ذکر خدا اور پروردگار سے مناجات امیر المومنین علیہ السلام کی نظر میں اس (دنیا طلبی اور جاہ پرستی) کا بہت موثر علاج ہے۔
ہمیں ان دنوں اور راتوں کی قدر کرنا چاہئے۔ ہمیں ان دعاؤں کی اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔ ان دعاؤں کے مفاہیم پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ہماری نفسانی بیماریوں کا علاج ہے جن سے انسان ہمیشہ دوچار رہتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے خود کو اس بیماری اور اس درد سے نجات دلائیں۔ اللہ تعالی کی ذات پر ذہن و دل کا ارتکاز اور اس کی عظمتوں کا تذکرہ (ان بیماریوں کا) بہترین علاج ہے۔ آپ امیر المومنین علیہ السلام کی دعاؤں کو دیکھئے، سب سے زیادہ پر جوش دعائيں یہی ہیں۔ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام سے ماثور دعائيں بہت اعلی مفاہیم کی حامل ہیں اور ان میں عشق حقیقی کا سوز و گداز موجود ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منقول دعائیں، یہی دعائے کمیل یا مناجات شعبانیہ، دونوں ہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے منقول ہیں آپ کی یہ مناجاتیں اور یہ تضرع اور خضوع و خشوع، ان دعاؤں کو توجہ سے پڑھنے والے شخص کو بالکل مختلف دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ ہمارے نوجوان ان دعاؤں کے کلمات کے معنی کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان پر غور کریں۔ دعا میں مذکور کلمات بھی فصیح و بلیغ اور بہت دلچسپ ہیں لیکن ان کےمعانی اور بھی بلند اور گہرے ہیں۔ ان راتوں میں اللہ تعالی سے مناجات کرنا چاہئے۔ اس سے دعا مانگنا جاہئے۔
میں آپ کی شہادت کی مناسب سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ جس طرح آپ کی مناجاتوں میں سوز و گداز ہے اسی طرح آپ کے مرثئے بھی دل دہلا دینے والے ہیں۔ جہاں آپ نے اپنے رفقاء کے فقدان کی بات کی ہے، جہاں ان شہیدوں کو یاد کیا ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں آپ کی ہمراہی میں جنگوں میں شریک ہوئے یا جو خود آپ کے دور حکومت میں رونما ہونے والی جنگوں جیسے جنگ صفین اور جنگ جمل میں مجاہدانہ انداز سے لڑے اور دلیری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ انہیں یاد کرکے مولا فرماتے ہیں "این عمار، این ابن التیھان، این ذو الشھادتین واین نظرائھم من اخوانھم الذین تعاقدوا علی المنیۃ" کہاں ہیں وہ عظیم شخصیتیں جنہوں نے عہد و پیمان شجاعت باندھا، راہ خدا میں جہاد کیا اور اسی عالم میں اس دنیا سے اپنا رخت سفر باندھا۔ "و ابرد برؤوسھم الی الفجرۃ" وہ لوگ جو راہ خدا میں شہید ہوئے، جن کے سر قلم کرکے فاسق و فاجر حکام کے لئے بطور ہدیہ پیش کئے گئے۔ کہاں ہیں وہ جانباز؟ امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے ان عزیزوں کے فراق میں آنسو بہائے۔ آپ نے سب سے زیادہ گریہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فراق میں کیا۔ آپ بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یاد کرکے روتے تھے۔ یہ غم انگیز باتیں اور جملے جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زبان پر جاری رہتے تھے ماہ رمضان کی انیسویں شب گزرنے کے بعد صبح کے وقت ضربت لگ جانے کے بعد تھم گئے۔ مسجد کوفہ کے در و دیوار اور وہاں جمع ہونے والے مومنین نے آپ سے بارہا یہ مناجاتیں اور دعائیں سنیں اور ان دعاؤں پر آپ کو روتے دیکھا تھا۔ مسجد کے در و دیوار اور مومنین آپ کی پر خلوص عبادت، آپ کے عارفانہ بیان اور کبھی کبھی اندوہناک شکوؤں کے گواہ تھے۔ لوگوں نے انیسویں شب کو اچانک آپ کی مانوس آواز سنی۔ آپ کی زبان پر "فزت و رب الکعبۃ" کا فقرہ بار بار آتا تھا۔ خائن ہاتھ نے رات کی تاریکی میں امیر المومنین کے فرق اقدس کو نشانہ بنایا تھا۔ کوئی اجالے میں علی کے سامنے کھڑے ہونے کی جرئت نہیں کر پاتا تھا، لڑنا اور مقابلہ کرنا تو دور کی بات ہے۔ کس میں اتنا دم تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام پر سامنے سے حملہ کرتا۔ رات کی تاریکی میں، محراب عبادت میں جب آپ محو نماز تھے تب آپ پر حملہ ہوا اور لوگوں نے آپ کے زخمی ہونے کی یہ جانکاہ خبر سنی۔ لوگ دوڑتے بھاگتے مسجد میں پہنچے، تو وہاں عجیب عالم نظر آیا۔ آپ خون میں نہائے زمین پر پڑے ہوئے تھے۔ صلّى اللَّه عليك يا اميرالمؤمنين!