سوال: ایران میں ویکسین بنانے کا کام کب شروع ہوا اور ویکسین کے پروڈکشن میں ہمارا ملک کس مقام پر ہے؟
جواب: ویکسین بنانے کا ہمارا ریکارڈ سو سال پرانا ہے۔ آج جو ممالک ویکسین بنا رہے ہیں ان میں سے بعض کو یہ ٹیکنالوجی ایران سے ملی ہے۔ یعنی ایران نے ویکسین بنانے کے سلسلے میں ان ممالک کی مدد کی ہے۔ ایران میں میڈیکل سائنس ہمیشہ سے کافی پیشرفتہ رہی ہے۔ تاریخ میں ہمارے یہاں بڑے حاذق اطباء گزرے ہیں جن کی کتب اور نظریات دنیا کی میڈیکل کمیونٹی میں آج بھی معتبر مانے جاتے ہیں۔
سوال: اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں کیا پیشرفت ہوئی؟
جواب: انقلاب کے بعد دنیا میں نئی ویکسین بنیں اور عالمی برادری کے سامنے آئیں۔ ہمارے ملک کی بھی پوری کوشش رہی کہ جدید ٹیکنالوجی اور نئے ویکسین ڈیولپ کرے۔ انقلاب کے بعد ویکسین سے متعلق سبجیکٹ پر یونیورسٹیوں میں کام تیز ہوا۔ اگر انقلاب کے بعد ہم اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو ہایئر ایجوکیشن کے اسیٹج میں جو نئے سبجیکٹ لائے گئے ہیں ان کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ آج ہم دنیا کے ان دس ممالک میں ہیں جو دعوی کر سکتے ہیں کہ ہم نے ویکسین بنائی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کے پروڈکشن کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سوال: دنیا میں ویکسین بنانے کے لئے کیا ٹیکنالوجیز موجود ہیں؟ ایران ویکسین بنانے کے لئے ان میں سے کس ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے؟
جواب: ایک پرانی ٹیکنالوجی Inactivated vaccine)) کی ہے۔ جیسے جیسے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت ہوئی ویکسین کے دوسرے پلیٹ فارم بھی تیار ہو گئے۔ ان میں سے ایک ویکسین (Recombinant) ویکسین ہے۔
ایک اور ویکسین سب یونیٹ ویکسین ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اینٹی جن کو مائيکرو آرگینزم کے اندر داخل کرتے ہیں اور مائيکرو آرگینزم کو ری پروڈیوس کرتے ہیں۔ پھر اینٹی جن کا پیوری فیکیشن کیا جاتا ہے، پھر ایک فارمیولیشن کے تحت اسے انجیکٹ کیا جاتا ہے۔ الحمد للہ ان تمام مراحل میں ملک کافی پیشرفت حاصل کر چکا ہے اور پرائیویٹ سیکٹر کی کئی کمپنیوں کے پاس ویکسین بنانے کی توانائی پیدا ہو چکی ہے۔ ملک میں ٹیکنالوجی ڈیولپ ہو چکی ہے، پاسچر انسٹی ٹیوٹ اور رازی انسٹی ٹیوٹ کے پاس ویکسین بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔
البتہ حالیہ وقت میں ویکسین بنانے کے لئے جو جدید ٹیکنالوجی ڈیولپ کی گئی ہے وہ ایم آر این اے MRNA)) کی بنیاد پر ویکسین کا پروڈکشن ہے۔ ہمارے ملک میں نالج بیسڈ ٹیموں اور فرمان امام ایگزیکٹیو کمیٹی جیسے بڑے اداروں اور فارمیسی کے میدان کی برکت جیسی کمپنیوں نے ایم آر این اے کی بنیاد پر اپنی تحقیقات کا آغاز کیا۔
سوال: نالج بیسڈ کمپنیوں کی پیشرفت کی وجہ سے ویکسین کے پروڈکشن کی صنعت بھی بڑھ رہی ہے اور ان کمپنیوں کو بیشتر نوجوان چلا رہے ہیں، اس لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ ویکسین بنانے کے میدان میں سرگرم افراد کی اوسط عمر کیا ہے؟
جواب: ہمارے ملک میں رہبر انقلاب اسلامی نے حالیہ برسوں میں نالج بیسڈ کمپنیوں کا دائرہ بڑھانے پر خاص تاکید کی ہے۔ آپ نے بارہا نالج بیسڈ اکانومی کی بات کی۔ ایسی معیشت جو نالج بیسڈ کمپنیوں پر استوار ہو۔ نالج بیسڈ کمپنیاں عام طور پر وہ فارغ التحصیل طلبہ چلاتے ہیں جو اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں اور کام کر رہے ہیں، البتہ ممکن ہے کہ ایک دو تجربہ کار استاد بھی ان کے ساتھ کام کر رہے ہوں۔ لیکن اصلی ڈھانچہ نوجوانوں پر استوار ہوتا ہے۔ یہ بڑی اہم روش ہے۔
گزشتہ ایک سال میں کورونا وائرس کی وبا کے مسئلے میں فارمیسی کمپنی برکت نے کٹ بنانے کے سلسلے میں اور فرمان امام ایگزیکٹیو کمیٹی نے وینٹی لیٹر بنانے کے میدان میں بڑا کام کیا۔ اس کے بعد وہ ویکسین بنانے میں لگ گئے۔ ان تمام سرگرمیوں کی ایک طرح سے میں نگرانی کر رہا تھا۔ میں نے کبھی ان نوجوانوں کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ "یہ ہم سے نہیں ہوگا۔"۔ اس لئے نالج بیسڈ کمپنیاں اور نوجوان آئندہ برسوں میں ملک کے لئے امید کا سرچشمہ ہیں۔
ویکسین پر کام کرنے کے لئے تحقیقاتی ٹیم بنانے کے عمل میں تیس سے بتیس سال کے نوجوانوں کا بھرپور تعاون رہا۔ انھوں نے ریسرچ ٹیم بنائی۔ ایک زمانے میں ہم وینٹی لیٹر امپورٹ کیا کرتے تھے لیکن آج نالج بیسڈ کمپنیوں کی برکت اور انھیں نوجوانوں کی محنت سے ہم وینٹی لیٹر ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔
سوال: ویکسین، کٹ اور وینٹی لیٹر کے پروڈکشن میں ملنے والی اتنی بڑی کامیابی کے باوجود کچھ لوگوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ایران کوویڈ 19 کی ویکسین نہیں بنا سکتا؟
جواب: افسوس کی بات ہے کہ صرف ویکسین ہی نہیں بلکہ دوسری بہت سی چیزوں کے سلسلے میں یہ غلط فہمی ہے کہ ایرانیوں کے بس میں یہ چیزیں نہیں ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ افراد نالج بیسڈ کمپنیوں اور ان کے مرکز میں سرگرم تحقیقاتی ٹیموں کے اندر کبھی گئے نہیں اور ان کے بارے میں انھیں اطلاعات نہیں ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں ہماری درآمدات بہت زیادہ تھیں، ہماری نالج بیسڈ کمپنیاں اقتصادی توانائی سے خالی تھیں۔ چونکہ باہر سے سامان امپورٹ کر لیا جاتا تھا۔ زر مبادلہ کی قیمت بھی زیادہ نہیں تھی اس لئے ہماری کمپنیاں ان مصنوعات کو کمپٹیشن نہیں دے پاتی تھیں۔
اس دوران پابندیوں کی وجہ سے بہت ساری چیزوں کا امپورٹ کر پانا ہمارے لئے مشکل ہو گيا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات کا جو پورا ڈھانچہ ہے وہ کبھی کبھی ملک کی نالج بیسڈ کمپنیوں کو اس کا موقع ہی نہیں دیتا تھا کہ اپنی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔
سوال: دنیا کے ممالک منجملہ ایران میں ویکسین بنانے کے عمل پر کیا بین الاقوامی اداروں کی نگرانی رہتی ہے؟
جواب: ڈبلیو ایچ او کے نمائندوں کی شرکت سے جو آن لائن اجلاس ہوا وہ کلینکل ٹیسٹ سے پہلے کے مرحلے کے وقت تھا۔ ہم نے اس مرحلے کی ریسرچ میں حاصل ہونے والے نتائج ڈبلیو ایچ او کے سامنے رکھے۔ ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ میں ہماری ویکسین اس وقت کلینکل ٹیسٹ کے مرحلے میں ہے۔ ہم نے ایک ٹیم بنائی ہے جس کا کام ڈبلیو ایچ او کے سامنے پیش کرنے کے لئے متعلقہ دستاویزات تیار کرنا ہے تاکہ اس کے ایمرجنسی استعمال کی اجازت حاصل کی جائے۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ ملک کے اندر ویکسین کے استعمال کے لئے کیا ڈبلیو ایچ او کی منظوری ضروری ہے؟ تو اس کا جواب ہے: نہیں۔ فائزر، موڈرنا، ایسٹرازینیکا نے بھی پہلے ملک کے اندر استعمال کے لئے ضروری منظوری حاصل کی اس کے بعد اپنے دستاویزات اور ڈیٹا ڈبلیو ایچ او کے سامنے پیش کیا۔
ہم اس وقت ڈبلیو ایچ او کی نگرانی میں ٹریٹمنٹ اور تعلیمی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ادارے کے سامنے پیش کرنے کے لئے متعلقہ دستاویزات بھی آمادہ کر رہے ہیں۔
سوال: کورونا وائرس کی ویکسین بنانے کے عمل میں شروع سے آپ کو کن رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب: کورونا کے بارے میں ریسرچ کے بہت سارے پوائنٹ تھے۔ اب بھی بہت سی چیزیں دریافت کرنا باقی ہیں۔ اس وائرس کی ماہیت کے بارے میں درست پیش بینی مشکل ہے۔ تجربہ گاہ کے اندر بھی اس وائرس کا برتاؤ (behaviour) واضح نہیں تھا۔ یہ ہمارے سامنے بڑی مشکل تھی۔
دوسری طرف پابندیوں کی وجہ سے ہماری ریسرچ رکی تو نہیں لیکن اس کی رفتار ضرور کم ہو گئی۔ یعنی ان کی وجہ سے بہت سی اطلاعات اور تجربہ گاہ کے وسائل کی دستیابی مشکل ہو گئی۔ ویکسین پر ریسرچ میں استعمال ہونے والے وسائل کی سپلائی میں بھی وہ رکاوٹ ڈالتے تھے۔
مگر اس سب کے بعد بھی اس ویکسین کی طرف عوام کی رغبت غیر ملکی ویکسین سے بہت زیادہ ہے جو میرے لئے ناقابل تصور تھی۔ ہم نے ایک سال کے اندر ویکسین کے وسیع پیمانے پر پروڈکشن کا انفراسٹرکچر بھی تیار کر لیا۔
سوال: کیا ویکسین کے ایکسپورٹ کے لئے بھی کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
جہاں تک مجھے اطلاعات ہیں دنیا کے سات ممالک نے ہمارے سامنے ویکسین خریدنے کی ڈیمانڈ رکھی ہے۔ بعض نے خط لکھا ہے اور بعض نے فون پر یہ ڈیمانڈ رکھی ہے۔ کچھ ممالک نے پہلے مرحلے میں 2 کروڑ ڈوز کی مانگ رکھی ہے۔
سوال: آپ نے اشارہ کیا کہ ویکسین بنانے کا عمل کافی طولانی ہوتا ہے تو بعض ممالک کورونا وائرس کی ویکسین بنانے میں ہم سے آگے کیسے نکلے؟
جو ممالک کورونا کی ویکسین بنانے اور عوام کے استعمال کے لئے پیش کرنے میں جلدی کامیاب ہو گئے وہ ممالک ہیں جو اس سے پہلے سارس (SARS) اور مرس (MERS)وائرس پر کام کر چکے ہیں جو کورونا وائرس کی ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ پہلے سے ہی ویکسین بنانے پر کام کر رہے تھے۔ مثلا موڈرنا کے پاس پہلے سے تحقیقات تھیں۔ اس طرح وہ پہلے ہی کچھ حد تک راستہ طے کر چکے تھے۔ چونکہ ہمارے سامنے یہ مشکل نہیں تھی اس لئے ہم نے ریسرچ نہیں کی تھی۔
البتہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ویکسین بنانے کے ضوابط کو کافی حد تک کم کر دیا۔ لیکن بہرحال ویکسین کا معیاری، محفوظ اور موثر ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ ویکسین اور دوا میں فرق ہوتا ہے۔ اسے ہزاروں افراد پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ پورا سفر بڑی توجہ اور باریک بینی سے طے پانا ضروری ہوتا ہے۔