رہبر انقلاب اسلامی نے کورونا کی ویکسین لگوانے کے بعد وہاں موجود افراد سے خطاب میں خوزستان کے پانی کے مسئلے کی طرف اشارہ کیا اور حالیہ واقعات  کو دردناک بتاتے ہوئے کہا: پچھلے سات آٹھ دنوں میں ہماری تشویش خوزستان کے مسئلے اور عوام کے لیے پانی اور دیگر مسائل کے باعث تھی۔ واقعی یہ بڑی تکلیف دہ بات ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ خوزستان کے صوبے میں، جہاں اتنے وفادار عوام، اتنے قدرتی وسائل، صلاحیتیں اور اتنے زیادہ کارخانے ہیں، عوام کی یہ حالت ہو جائے کہ وہ ناراض ہو جائیں، انھیں اتنی تکلیف پہنچے!

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

محققین اور میڈیکل اسٹاف کی کوششیں قابل تعریف

بحمد اللہ ویکسین کا دوسرا ڈوز بھی انجیکٹ کروا لیا ہے۔ پہلے ڈوز کے بعد مجھے کسی بھی طرح کا کوئي عارضہ لاحق نہیں ہوا اور بحمد اللہ بڑی اچھی طرح سے پايۂ تکمیل کو پہنچا۔ نہ درد تھا، نہ بخار آيا اور نہ ہی وہ دوسرے سائڈ افیکٹ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے، کوئی عارضہ لاحق نہیں ہوا۔ سب سے پہلے میں آپ محترم حضرات کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں تشریف لائے، خاص طور پر ان عزیز محققین اور سائنسدانوں کا جنھوں نے عرق ریزی کی اور اس مدت میں ملک کے اندر تیار کی جانے والی ویکسین کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور اسی طرح میں ملک کے پورے میڈیکل اسٹاف کا شکر گزار ہوں جس نے اس مسئلے میں، اس طویل عرصے میں حقیقت میں بہت زیادہ زحمت اٹھائي، اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور مجاہدانہ کوششیں انجام دیں، ہم دل کی گہرائيوں سے ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

دیگر ممالک کی بنی ہوئي ویکسین کے استعمال کے ساتھ ہی ملکی ویکسین پر پوری توجہ

عوام کے درمیان ویکسین کی تقسیم کے معاملے میں کچھ رکاوٹیں سامنے آ‏ئيں، البتہ یہ رکاوٹیں زیادہ تر ان لوگوں کی وعدہ خلافی کی وجہ سے پیدا ہوئيں جنھوں نے ہمیں ویکیسن بیچنے کا وعدہ کیا تھا لیکن انھوں نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا۔ خیر یہ چیز ایک بار پھر ایرانی قوم اور ملک کے حکام کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہمیں تمام مسائل میں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہیے اور دوسرے پر انحصار مسائل پیدا کرتا ہے جیسا کہ اس مسئلے میں بھی اس نے مشکلات کھڑی کیں۔ البتہ ہمارے پاس کوئي چارہ نہیں تھا اور ویکیسن کی ملکی پیداوار کے ساتھ ہی ہم اس بات کے لیے مجبور تھے اور اب بھی ہیں کہ دوسرے ملکوں کی ویکسین کو بھی اطمینان کی حد تک استعمال کریں اور ہم استعمال کریں گے لیکن کوشش ملکی ویکسین کی تیاری پر مرکوز رہنی چاہیے اور لوگوں کو انتظار نہیں کروانا چاہیے۔ ان شاء اللہ تمام لوگوں کے درمیان ویکسین کی تقسیم پوری آسانی اور روانی سے انجام پائے گي اور ان شاء اللہ محترم عہدیداران اس نکتے پر توجہ دیں گے۔

کووڈ- 19 کی بیماری کے عدم پھیلاؤ کے لیے میڈیکل پروٹوکولز کی پابندی کی ضرورت

ایک اور بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں جس کے مخاطب عزیز عوام ہیں اور وہ میڈیکل پروٹوکولز پر عمل کے بارے میں ہے۔ اس وائرس کی نوعیت میں لگاتار تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اب تک اس کے پانچ یا چھے ویریینٹس سامنے آ چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خطرہ برقرار ہے۔ چونکہ مدت تھوڑی سی بڑھ گئي ہے، مثال کے طور پر ڈیڑھ سال کی مدت ہو چکی ہے، تو یہ اس بات کا سبب نہیں بننا چاہیے کہ میڈیکل پروٹوکولز پر عمل کے مسئلے کو روا روی میں لیا جائے اور دھیرے دھیرے اس سلسلے میں عوام کی توجہ کم ہو جائے۔ نہیں، پروٹوکولز پر ضروری عمل کیا جانا چاہیے۔ مختلف مذہبی اور غیر مذہبی پروگرام اور اسی طرح کی اور بھی باتیں ہیں لیکن پروٹوکولز پر عمل کو بنیادی اصول قرار دینا چاہیے اور جتنا فاصلہ ہونا چاہیے، جو ماسک لگایا جانا چاہیے اور باقی دیگر جو مسائل ہیں، ان کی پابندی ضروری ہے جس پر وزارت صحت کے محترم عہدیداران مسلسل تاکید کرتے رہے ہیں اور آگے بھی انھیں یہ کام کرتے رہنا چاہیے۔ عوام کو بھی ضرور ان چیزوں کی پابندی کرنی چاہیے کیونکہ یہ حقیقت میں بڑا خطرہ ہے۔ اگر ہم یعنی تمام عوام اس سختی کو برداشت کریں اور ایک مدت تک ان زحمتوں کو تحمل کریں تو اس بیماری کی جڑ کٹ جائے گی یا کم سے کم اس کا پھیلاؤ رک جائے گا، تو یہ بہتر ہے یا یہ کہ اسی طرح جانی نقصان، مالی نقصان، مراکز کی بندش اور اسی طرح کی باتیں جاری رہیں؟! بہرحال ہمیں اس مسئلے سے نمٹنا ہی ہوگا، عہدیداروں کو بھی سنجیدگي سے اس سلسلے میں مصروف رہنا چاہیے، عوام کو بھی پوری توجہ سے اس معاملے کی پابندی کرنا چاہیے اور حکومتی اداروں کو بھی سنجیدگي سے ملک میں تیار کی جانے والی ویکسین کی حمایت کرنی چاہیے، یعنی یہی برکت ویکسین یا جو دیگر مراکز جیسے پاسچر انسٹی ٹیوٹ، رازی انسٹی ٹیوٹ اور ایسے ہی دیگر مراکز سے متعلق ٹیکے ہیں، ان کی ضرور حمایت اور پشت پناہی کی جانی چاہیے تاکہ وہ بہترین طریقے سے کام انجام دے سکیں۔

خوزستان کے عوام کے حالات پر تشویش اور اس صوبے سے متعلق سفارشات پر حکام کی بے توجہی پر تنقید

وقت سے استفادہ کرتے ہوئے ایک اور بات میں یہیں پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پچھلے سات آٹھ دنوں میں ہماری ایک تشویش خوزستان کے مسئلے اور عوام کو در پیش پانی کی قلت اور دیگر مسائل سے متعلق تھی۔ واقعی یہ بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کہ انسان یہ دیکھے کہ خوزستان کے صوبے میں، اتنے وفادار عوام، اتنے قدرتی وسائل اور صلاحیتوں اور اتنے زیادہ کارخانوں کے باوجود عوام کی حالت یہاں تک پہنچ جائے کہ انھیں ناراض کر دے اور پانی اور سیوریج کا مسئلہ انھیں دل برداشتہ کر دے۔ اگر خوزستان کے پانی اور اہواز کے سیوریج کے بارے میں کی گئی سفارشات پر توجہ دی گئي ہوتی -اہواز کے سیوریج اور پانی کے مسائل پر کتنی زیادہ تاکید کی گئي تھی- تو یقینی طور پر اس وقت یہ مشکلات نہ ہوتیں۔ خیر اب جب عوام نے اپنی ناراضگی دکھا دی ہے اور ظاہر کر دی ہے تو ان سے کسی طرح کا گلہ شکوہ نہیں کیا جا سکتا، وہ پریشان ہیں۔

مقدس دفاع کے دوران نظام اور انقلاب کے سلسلے میں خوزستان کے عوام کی وفاداری

پانی کا مسئلہ کوئي چھوٹا مسئلہ نہیں ہے اور وہ بھی خوزستان کے اس موسم میں، وہ بھی خوزستان کے عوام کے لیے۔ خوزستان کے لوگ بہت باوفا ہیں۔ آٹھ سالہ مقدس دفاع میں جو لوگ مشکلات کی فرنٹ لائن پر تھے، وہ خوزستان کے عوام تھے اور سچائی یہ ہے کہ وہ لوگ ڈٹے رہے، میں نے اس کا قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے قریب سے دیکھا ہے کہ خوزستان کے عوام نے کتنی وفاداری اور کتنے اہتمام سے اپنے نوجوانوں کو  بھیجا، اپنے مردوں کو بھیجا، ان کی خواتین نے مدد کی۔ ان باوفا اور محب وطن افراد کو ان مشکلات کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔ واقعی عوام کی ملامت نہیں کی جا سکتی، ان کی مشکلات کا تدارک کیا جانا چاہیے اور پہلے ہی اس کا تدارک ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر صحیح وقت پر ضروری اقدامات کیے گئے ہوتے تو یقینی طور پر عوام کے لیے یہ صورتحال پیش نہیں آتی۔ اس وقت بحمد اللہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ادارے کام میں مصروف ہو گئے ہیں، وہ اپنا کام سنجیدگي سے جاری رکھیں اور اگلی حکومت بھی جب اپنا کام شروع کرے تو وہ بھی سنجیدگي سے اس مسئلے پر کام کرے۔

عوام کی جانب سے دشمن کو غلط فائدہ نہ اٹھانے دینے کی ضرورت

البتہ عوام بھی چوکنے رہیں کیونکہ دشمن، چھوٹی سے چھوٹی چیز سے ملک کے خلاف، انقلاب کے خلاف، اسلامی جمہوریہ کے خلاف اور عوام کے عمومی مفادات کے خلاف فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ عوام چوکنا رہیں کہ دشمن غلط فائدہ نہ اٹھانے پائے اور دشمن کے ہاتھ کوئي بہانہ نہ دیا جائے۔

ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ خداوند عالم اس قوم پر اپنا فضل و برکت نازل کرے اور اپنی رحمت و لطف کو اس قوم کے شامل حال کرے جو ان شاء اللہ لطف و رحمت الہی کی مستحق ہے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ