آيۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے ٹی وی سے نشر ہونے والے اپنے اس پیغام کے آغاز میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا اصحاب کو سلام عرض کیا اور ملک کے حکام اور عوام کے لیے کچھ اہم نکات بیان کیے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا کی سرکش بیماری بے تحاشا پھیل رہی ہے، صرف ایران میں نہیں بلکہ تقریبا پوری دنیا میں یہ تیز رفتاری سے پھیل رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ دشمن یعنی کورونا وائرس نئي شکل اختیار کر لیتا ہے تو ہماری دفاعی حکمت عملی اور کام کا طریقہ بھی اسی کے حساب سے بدل جانا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام حسب ذیل ہے؛
بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
السلام علی الحسین و علی علی بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین الذین بذلوا مھجھم دون الحسین علیہ السّلام.
میرا تقریر کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ کورونا کی بیماری کے بے تحاشا پھیلاؤ کے بارے میں حکام اور اپنے عزیز عوام سے کچھ ضروری باتیں عرض کرنی ہیں۔
یہ سرکش بیماری بری طرح پھیل گئي ہے، صرف ایران میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ بیماری بے تحاشا پھیل رہی ہے۔ فطری طور پر جب بیماری، وائرس اور دشمن نئي شکل اختیار کر لیتے ہیں تو ہماری دفاعی حکمت عملی اور ہمارے پروٹوکولز بھی بدل جانے چاہیے۔ وہ نئے طریقے سے آ رہا ہے تو ہمیں بھی اس بیماری سے مقابلے کے لیے نئے اور مضبوط طریقے اور روشیں اور مستحکم پروٹوکول اختیار کرنے چاہیے کیونکہ آج یہ بیماری ایک اہم خطرہ ہے اور کورونا کی بمیاری کا مسئلہ میرے خیال میں ملک کا سب سے اولیں مسئلہ ہے، ملک کا سب سے ہنگامی اور اہم مسئلہ ہے جس سے نمٹا جانا چاہیے۔ اس بیماری میں مبتلا ہونے اور اس سے ہونے والی موتوں کا مسئلہ واقعی بڑا دردناک ہے؛ زبان سے کہنا آسان ہے لیکن جب آپ یہ دیکھیں کہ ایک دن میں پانچ سو سے زیادہ گھرانے سوگوار ہو جائيں تو کیا یہ کوئي معمولی بات ہے؟ یہ کوئي چھوٹی چیز ہے؟ یا دسیوں ہزار لوگ ایک دن میں اس بیماری میں مبتلا ہو جائيں! مشکل صرف سوگوار ہونا نہیں ہے، البتہ یہ بھی بہت ہی دردناک اور اہم ہے، بیمار ہونا بھی بہت سخت ہے۔ یہ لوگ جو بیمار ہوتے ہیں، کورونا کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، دوا کے لیے، علاج کے لیے، ٹیسٹ کے لیے، مختلف طرح کی مشکلات کے لیے کتنی سختیاں برداشت کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر ہر مسلمان کا دل، ہر وطن پرست کا دل حقیقتا تڑپ جاتا ہے، وہ درد محسوس کرتا ہے؛ بنابریں ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ بحمد اللہ صدر محترم نے کچھ دن قبل (کورونا کی نئي لہر سے نمٹنے کے لیے) ایک ہفتے کی مدت طے کی تھی کہ جو بہت اچھا کام تھا تاکہ تمام ذمہ داران، مسئلے کی سنگینی کو سمجھ لیں اور فیصلوں اور اقدامات کے لیے ضروری رائے اور تجاویز پیش کریں۔ یہاں میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام ذمہ داران اس مہلت میں، اس ایک ہفتے کی مدت میں ضرور بالضرور اپنے ٹھوس فیصلوں سے، اپنے تمام اقدامات سے، جو کچھ وہ ضروری سمجھیں اور جو کچھ وہ کر سکتے ہیں، انجام دیں، اقدامات کریں اور پوری گہرائي سے معاملے کے پہلوؤں کا جائزہ لیں اور جو بھی کام ضروری ہو، اسے انجام دیں۔ میں نے ابھی اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بارے میں بات کی، اس بیماری میں مبتلا ہونا، اس بیماری سے مرنا اور جو مصیبتیں آتی ہیں یہ سب معاملے کا ایک پہلو ہے۔
دوسرا پہلو میڈیکل اسٹاف کی طاقت فرسا مشقتیں ہیں۔ یہ بھی حقیقت میں ایک بڑی تشویش ہے۔ گرمیوں کے اس سخت موسم میں، اسپتالوں میں، دن رات ان مشکلات کا سامنا کرنا، واقعی ایک اہم مسئلہ ہے، ان لوگوں پر شدید جسمانی اور نفسیاتی دباؤ پڑتا ہے۔ حقیقت میں میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹر، نرس وغیرہ جہاد کر رہے ہیں۔ مجھے دل کی گہرائي سے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے، البتہ ہمارے شکریے کی کوئي اہمیت نہیں ہے، اصل شکریہ تو خداوند متعال کی طرف سے ہے جو شاکر اور علیم ہے اور ان کی زحمتوں کا شاہد ہے۔
میں حکام اور ذمہ داران سے کچھ باتیں یاد دہانی کے طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں اور کچھ باتیں عوام سے بھی کہنا چاہتا ہوں۔ جو چیز میں حکام اور عہدیداران سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی ابتداء میں اس بیماری میں مبتلا ہونے والوں کی پہچان کے لیے ٹیسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو بہت ہی اچھا کام تھا، یہ کام انجام پانا چاہیے، یعنی حقیقی معنی میں اس کام کو انجام دینے کی کوشش کی جانی چاہیے، میڈیکل اسٹاف بھی اور رضاکار فورس بھی اس معاملے میں فعال ہو جائے اور کوشش کی جائے کہ کورونا کی بیماری کا یہ ٹیسٹ سبھی کے لیے مفت میں اور وسیع پیمانے پر مہیا ہو۔ آج یہ چیز سبھی کے لیے فراہم نہیں ہے، متعدد مشکلات ہیں، بظاہر لوگوں کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے، کچھ لوگوں کے لیے اس کی قیمت کافی زیادہ بھی ہوتی ہے۔ ایسا ہو کہ سبھی لوگ یہ ٹیسٹ کروا سکیں اور اس بیماری کی تشخیص کا ٹیسٹ سبھی کے لیے ہو۔ البتہ انشورنس کمپنیوں کو بھی مدد کرنی چاہیے، حکومت کو بھی مدد کرنی چاہیے تاکہ یہ معاملہ آگے بڑھ سکے اور انجام پا سکے۔
اگلا نکتہ ویکسین کے بارے میں ہے۔ بحمد اللہ ملک کے اندر ویکسین کی تیاری شروع ہوئي اور ملکی پیداوار ایک طرح سے اس بات کا سبب بنی کہ ویکسین کی غیر ممالک سے درآمدات بھی زیادہ آسان ہو جائے، جیسا کہ عہدیداران نے یہ بات کہی ہے، یعنی درآمدات کا معاملہ ایسا تھا کہ حکومت اور وزارت صحت نے بعض جگہوں سے کچھ مقدار میں ویکسین خریدی تھی، بعض ملکوں اور ان کویکس وغیرہ نے، جن کو ویکسین کی قیمت بھی ادا کر دی گئي تھی، وعدہ خلافی کی اور ویکسین نہیں دی۔ جب ہماری ویکسین بازار میں آ گئي اور لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کر دیا تو یہ معاملہ بہتر ہو گيا یعنی درآمدات کا راستہ کھل گيا۔ بہر حال (ویکسین کی) درآمدات کے لیے بھی اور ملکی پیداوار کے لیے بھی دگنی کوشش ہونی چاہیے اور جس طرح سے بھی ممکن ہو لوگوں تک ویکسین پہنچائي جانی چاہیے، ویکسین کے دسیوں لاکھ ڈوز ہمارے پاس ہونے چاہیے۔
اگلا نکتہ دوا کا ہے کہ ہم سنتے ہیں کہ میڈیکل اسٹور یا اسپتالوں میں دوا نہیں ہے یا کم ہے یا پھر بڑی مشکل سے ملتی ہے لیکن فری مارکیٹ میں کئي گنا قیمت پر (آسانی سے دستیاب ہے)۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو یہ دواؤں کی تقسیم کے نیٹ ورک میں بنیادی مشکل کی غماز ہے۔ اس مسئلے سے ضرور نمٹا جانا چاہیے اور اسے روکا جانا چاہیے۔ عوام کو دوا ملنی چاہیے۔
اگلا نکتہ مسلح فورسز کی مدد کا ہے۔ شروعات میں، ابتدائي مہینوں میں اور کرونا کے پھیلاؤ کے آغاز میں مسلح فورسز بھرپور طریقے سے میدان میں آ گئيں، فوج بھی اور سپاہ پاسداران بھی، اور انھوں نے اہم کام انجام دیے۔ رضاکار فورس کی موجودگي بھی بہت اچھی اور مضبوط تھی۔ میرے خیال میں اس وقت بھی اس سلسلے میں، حالانکہ وہ اس وقت بھی مصروف ہیں اور کچھ کام انجام دے رہے ہیں، لیکن جتنا بھی ممکن ہے وہ اپنی توانائي اس مسئلے میں صرف کریں، لوگوں کی مدد کے لیے آئيں۔ یہ وہ کام ہیں جو حکام اور عہدیداران سے متعلق تھے اور ضروری تھے۔ وہ کوئي تکلف اور رعایت نہ کریں۔ میں تعطیل کی ضرورت یا تعطیل نہ کرنے کی ضرورت کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ یہ ماہرین کا موضوع ہے، اس کا انسداد کورونا کی قومی کمیٹی میں جائزہ لیا جانا چاہیے اور اگر کسی ایک نتیجے پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو اسے ٹھوس طریقے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔
جہاں تک عوام کی بات ہے تو ہمارے عزیز عوام اس تلخ حادثے اور مشکل سے روبرو ہیں لیکن مشکل کا ایک حصہ بعض لوگوں کی جانب سے پروٹوکولز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ بعض جگہوں پر کہا جاتا ہے کہ عوام کی جانب سے میڈیکل پروٹوکولز پر عمل کی شرح چالیس فیصدی یا پینتیس فیصدی ہے۔ یہ بہت کم ہے، لوگوں کو سو فیصدی عمل کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کو پریشانی ہو اور وہ ماسک نہ لگا سکتے ہوں یا سماجی فاصلے وغیرہ کا خیال نہ رکھ سکتے ہوں لیکن کم از کم عوام کی اکثریت کو تو عمل کرنا ہی چاہیے۔ یہ مشکل ہے تو ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم احتیاط نہیں کریں گے تو اپنی جان اور اپنی صحت کو بھی خطرے میں ڈالیں گے اور دوسروں کی صحت کو بھی، خاص طور پر اپنے قریبی لوگوں کو خطرے میں ڈالیں گے۔ بنابریں مشکل کا ایک حصہ، پروٹوکولز پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔ کورونا کے پھیلاؤ کے ابتدائي مہینوں میں جس طرح سے لوگوں نے حساسیت کا مظاہرہ کیا تھا اور حقیقی معنی میں احتیاط سے کام لیا تھا، اسی حساسیت کا اب بھی مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دو تین مہینے، جیسا کہ اہل نظر افراد کا کہنا ہے، دو تین مہینے میڈیکل پروٹوکولز پر سختی سے عمل کیا جائے تو یہ بیماری کم ہونے لگے گی اور میڈیکل اسٹاف کو بھی سانس لینے کا موقع ملے گا اور تمام ادارے صحیح طریقے سے کام کر سکیں گے۔ ویکسین بھی ان شاء اللہ اطمینان بخش مرحلے میں پہنچ جائے گی، اگلے کچھ مہینوں میں ان شاء اللہ ویکسین، بہترین طریقے سے دستیاب ہوگي اور خداوند عالم کی جانب سے عطا کردہ توفیق سے ان شاء اللہ اگر پورے حوصلے سے کام کیا جائے اور ان شاء اللہ کیا جائے گا، تو پھر خطرہ کم ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ اس بیماری کا انفیکشن ہو لیکن بحران، موت کا خطرہ اور گھرانوں کا سوگوار ہونا نہیں رہے گا اور کچھ مہینے، ایک مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ اگر پوری طرح سے پروٹوکولز پر عمل کیا گيا تو ان شاء اللہ مشکل کم ہو جائے گی یا ختم ہو جائے گی۔
ایک مسئلہ مجالس حسینی اور عاشورا کی عزاداری کی مجلسوں کا ہے جو بہت اہم ہے۔ یہ مجالس، برکت کی موجب ہیں، رحمت الہی کا سبب ہیں، ملک اور قوم کی طرف خدا کی برکتوں کی توجہ کی موجب ہیں، ہمیں ان مجلسوں کی ضرورت ہے، یہ مجلسیں ہونی چاہیے لیکن پوری احتیاط اور پروٹوکولز پر سختی سے عمل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ یعنی جو لوگ مجالس کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی، مجالس پڑھنے والے خطباء اور نوحہ خوان بھی اور ان مجالس میں شرکت کرنے والے عوام بھی، پوری طرح احتیاط کریں، سختی سے پروٹوکولز پر عمل ہو اور (سماجی) فاصلوں کا خیال رکھا جائے۔ خدانخواستہ یہ مجالس (وائرس کے) پھیلاؤ کا ذریعہ نہ بن جائیں کہ مخالفین اور دشمن، ان مجلسوں کو طعنہ دیں اور کہیں کہ مجالس حسینی کی وجہ سے کورونا پھیل گیا، ایسا نہ ہونے دیجیے۔ ان مجالس میں مکمل احتیاط کی جائے اور پوری سختی سے پروٹوکولز پر عمل ہو۔ یہ ہوئي ایک بات۔
اگلی بات عوامی امداد کی ہے۔ بعض لوگ واقعی، امداد کے محتاج ہیں۔ عمومی امداد کی یہ تحریک پچھلے ڈیڑھ سال کے ایک حصے میں اور خاص طور پر ابتدا میں بہترین طریقے سے انجام پائي اور حقیقت میں امداد کرنے والے افراد نے اور مدد کرنے کے مشتاق افراد نے مدد کی، میدان میں آئے، جسمانی محنت سے مدد کی اور اپنے مال سے مدد کی۔ جو لوگ مدد کے مستحق تھے، ان کی طرح طرح کی امداد کی۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ یہ تحریک ایک بار پھر عروج پر پہنچنی چاہیے۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے روزگار مجبورا بند ہو جاتے ہیں، چاہے چھٹی ہو یا نہ ہو، بعض کام واقعی چھٹی کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں، اس طرح کے لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ان امداد کا مرکز، مساجد کو ہونا چاہیے۔ لوگوں کی مدد، تعاون، خیرات اور مواسات کا مرکز مساجد کو قرار دیا جا سکتا ہے، شناخت کی جا سکتی ہے، ہر مسجد میں عزت دار ضرورت مند افراد کی شناخت کی جا سکتی ہے، واقعی یہ لوگ عزت دار ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی ضرورت مند بھی ہوتے ہیں، ان تک امداد پہنچائي جائے اور لوگ مدد کر سکتے ہیں اور کرتے ہی ہیں۔
یہ میرے کچھ عرائض تھے اور میری آخری یاد دہانی دعا، توسل اور خدا کے حضور گڑگڑانا ہے۔ ہم نے یہ ساری چیزیں جو عرض کیں، یہ سب اسباب ہیں، سبب ہیں اور مسبب الاسباب خداوند قادر و حکیم ہے کہ جو اسباب کا بنانے والا ہے اور خداوند عالم سے درخواست کرنی چاہیے، عزاداری کی یہ مجلسیں، تضرع، توسل، پروردگار عالم کی جانب توجہ اور اس سے دعا کے لیے بہت اچھی جگہ ہے۔ ہم دعا کریں، استغفار کریں اور خداوند متعال سے اس کا لطف و کرم طلب کریں، ان شاء اللہ خداوند عالم بھی لطف و کرم کرے گا۔ خدا ان شاء اللہ ایرانی قوم پر اپنی عنایت اور لطف و کرم نازل کرے گا اور اس خبیث اور مشکلوں سے بھری بیماری سے ان شاء اللہ جلد ہی ایرانی قوم، تمام مومنین اور پوری دنیا کے تمام انسانوں کو نجات دے گا اور پوری دنیا کے تمام انسانوں سے اس بیماری کو برطرف کر دے گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ