آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے 18 ستمبر 2021 کو ہونے والی اس ملاقات میں اسپورٹس کے مقابلوں میں فتح کو سماج کے لیے توانائي، نشاط، عزم اور ارادے کی طاقت کے پیغام کا حامل بتایا اور کہا: سبھی محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص، جو اس وقت فاتح کے پائيدان پر کھڑا ہوا ہے، اس نے عزم کیا، ارادہ کیا اور اپنی توانائي کو عملی شکل دی اور اس طرح وہ سماج کو نشاط عطا کرتا ہے۔ در حقیقت اسپورٹس کے چیمپین استقامت، امید اور نشاط کے معلم ہیں۔ (1)

رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمدللہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین و لعنۃ اللہ علی اعدائہم اجمعین۔

آپ سبھی کا بہت بہت خیر مقدم ہے، آپ لوگوں سے مل کر انسان خوشی اور فخر کا احساس کرتا ہے۔ اسپورٹس کے مقابلوں خاص طور پر عالمی سطح کے مقابلوں میں چیمپین شپ ایک اہم پیغام کی حامل ہے۔ اور وہ پیغام توانائی، نشاط، عزم اور ارادے کی طاقت سے عبارت ہے۔ یعنی سبھی اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص، جو چیمپین بنا ہے اور فاتح کے پائيدان پر کھڑے ہونے میں کامیاب رہا ہے، اس نے عزم کیا، ارادہ کیا اور اپنی توانائي کو عملی شکل دی ہے، یہ شخص معاشرے کو نشاط عطا کرتا ہے۔ یہ اسپورٹس کے عالمی میدانوں میں چیمپین شپ کے اہم پیغام ہیں۔ درحقیقت اس طرح کے چیمپین، استقامت، امید اور نشاط کے معلم ہیں۔

آپ اپنی چیمپین شپ سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ جو کام بظاہر ناممکن  ہیں، وہ اصل میں ممکن  ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لیے بہت ہی اہم چیز ہے۔ یہ پیغام ہمارے عہد کے لیے بہت گرانقدر ہے۔ بڑی تعداد میں ادارے ایسے پروگرام بنانے میں مصروف ہیں جن کے ذریعے ایران کے نوجوانوں کو امید اور نشاط سے دور کر دیں، انھیں ڈیپریشن میں ڈال دیں، ناامید کر دیں۔ اس طرح کے ماحول میں آپ امید کا یہ پیغام پورے سماج کو دے رہے ہیں، یہ بہت ہی گرانقدر ہے۔

اگر یہ حقیر ملک کے کھلاڑیوں کے چیمپین بننے پر کچھ الفاظ کا مختصر سے پیغام دیتا ہے تو آپ جان لیجیے کہ وہ دل کی گہرائيوں سے ہوتا ہے؛ کیوں کہ انسان آپ کے اس کارنامے کی قدر سمجھتا ہے۔ خیر، آپ میں سے بہت سے لوگوں کے پاس، جو عالمی سطح پر فاتح بننے اور اپنے ملک کا پرچم پوری دنیا کے سامنے اوپر اٹھانے میں کامیاب رہے ہیں، بہت ہی محدود وسائل تھے، بہت کم وسائل تھے، آپ کے وسائل نہ ہونے کے برابر تھے، خاص طور پر ملک کے بعض علاقوں میں جہاں وسائل کافی محدود ہیں، لیکن آپ  کا حوصلہ بلند تھا، آپ کا ارادہ مضبوط تھا اور آپ کا عزم، راسخ تھا۔ یہ ملک کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا، ان لوگوں کی ناپاک کوششوں کو ناکام بنانے والا ہے جو چاہتے ہیں کہ امید چھین لیں اور ملک میں ناامیدی کا ماحول پیدا کر دیں۔

البتہ ہمیں خداوند عالم کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ یہ چیمپین شپ، یہ فتوحات اور امید آفرینی صرف کھیل کے میدان تک نہیں ہے۔ ہم علم کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں اور ادب کے میدان میں بھی ایسے ہی ہیں۔ ملک میں بڑے بڑے کام انجام پا رہے ہیں اور ہمارے حکام کی ایک ذمہ داری ان کاموں کو سچائي سے اور صحیح طریقے سے لوگوں کو دکھانا ہے اور یہ کام صحیح طریقے سے انجام نہیں پا رہا ہے۔ علم و سائنس کے میدان میں، ادب کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، آرٹس کے میدان میں اور مختلف دیگر میدانوں میں ہماری بہت سی کامیابیاں ہیں۔

اسپورٹس کی چیمپین شپ کے سلسلے میں ایک نکتہ یہ ہے کہ میڈل لینے اور چیمپین شپ میں بھی دنیا کی بہت سی دوسری چیزوں کی طرح صحیح اور غلط پایا جاتا ہے، مناسب اور نامناسب پایا جاتا ہے۔ اسپورٹس کی کچھ فتوحات اور میڈل صحیح اور مناسب نہیں ہیں، نامناسب ہیں، قابل قدر نہیں ہیں۔ آپ نے دنیا میں اس کی بہت سی مثالیں دیکھی ہیں؛ جان بوجھ کر کیے جانے والے غلط فیصلے، سیاسی جوڑ توڑ اور رشوت دینے جیسے کام، جو اسپورٹس کے بعض عالمی میدانوں میں ہو چکے ہیں اور ایک کھلاڑی جو کام کر سکتا ہے، طاقت بڑھانے والی دواؤں کا استعمال اور ڈوپنگ جیسے کام، یہاں تک کہ ایک کھلاڑی وطن فروشی کے ذریعے یا خود فروشی کرکے میڈل حاصل کرتا ہے؛ اس میڈل کی کوئي وقعت نہیں ہے، اس چیمپین شپ کی کوئي قدر نہیں ہے۔ یہ باعث ننگ ہے؛ یہ چیمپین شپ، وہ گرانقدر چیمپین شپ نہیں ہے۔

لیکن  گرانقدر جلووں کا مظاہرہ آپ نے کیا ہے۔ آپ اس سال اس عالمی مقابلے کے میدان میں بھی اور پچھلے کچھ مقابلوں کے میدانوں میں بھی اعلی انسانی اقدار پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ میں نے ٹی وی پر جو کچھ دیکھا - جہاں تک مجھے موقع ملا - یا بعض باتیں جو میں نے سنیں، مجھے خود دیکھنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئي، لیکن مجھے پتہ چلا - انھیں میں عرض کرتا ہوں۔ معنویت کے ساتھ جس اخلاقی رویے اور اسپورٹس مین اسپرٹ کا آپ نے مظاہرہ کیا: اسپورٹس کے کاروان کا نام شہیدوں خاص طور پر شہید قاسم سلیمانی کے نام پر رکھنا، ایک بہت ہی گرانقدر کام ہے؛ کچھ چیمپینوں کی جانب سے کچھ خاص شہیدوں کواپنا میڈل ہدیہ کرنا، جن کا انھوں نے نام لیا کہ یہ میڈل فلاں شہید کو ہدیہ کیا جاتا ہے، یہ بہت گرانقدر ہے؛ ایثار اور استقامت کے مظہر کی حیثیت سے چفیے کا استعمال اور چفیے پر خدا کا سجدہ، یہ سب اقدار ہیں، یہ چیزیں عالمی رائے عامہ اور عالمی جذبات کی سطح پر معنویت کو پھیلاتی ہیں اور بہت گرانقدر ہیں؛ خواتین کھلاڑیوں کا حجاب، جو ہماری اس عزیز بیٹی نے کہا، واقعی بہت بڑی قدر ہے؛ ان مقابلوں میں گولڈ میڈل جیتنے والی ایرانی کھلاڑی کا چادر پہن کر چیمپین کے پائيدان پر کھڑے ہونا، ایرانی مسلمان خاتون کا لباس دنیا بھر کے لوگوں کی نظروں کے سامنے لانا، ایران کے عزیز پرچم سے عشق و محبت کے اظہار کا منظر، اوپر جاتے ہوئے پرچم پر شوق کے آنسو اور غیرت کے آنسو، نماز کی ادائیگي کا منظر، مغلوب حریف کو گلے لگانے کا منظر، والیبال کی ٹیم کی جانب سے شہید بابائي کی والدہ (2) کے احترام کا منظر، میں کئي برس پہلے اس محترم فیملی سے اپنی محبت اور احترام کے اظہار کے لیے ان کے گھر جا چکا ہوں اور مرحوم بابائي اور ان محترمہ کو پہچانتا ہوں۔ یہ ساری  چیزیں اسلامی و انقلابی اقدار کی تجلیاں ہیں، یہ چیزیں ایران کا تعارف کراتی ہیں۔

اسپورٹس میں چیمپین شپ کی اس وقت قدر و قیمت ہے جب وہ ایک قوم کے تشخص کو نمایاں کرے۔ جو لوگ کرائے کے اور زرخرید کھلاڑیوں کو استعمال کرتے ہیں، وہ اپنی قوم کے تشخص کا مظاہرہ نہیں کر سکتے؛ کسی دوسری جگہ سے، کسی دوسرے ملک سے ایک کھلاڑی کو کرائے پر لیا جائے، اسے پیسے دیے جائيں کہ آؤ ہماری قومی ٹیم کی طرف سے کھیلو، یہ ایک قوم کے تشخص کو نمایاں نہیں کر سکتا۔ آپ لوگوں نے اپنے رویے سے ایرانی قوم کے تشخص کو دکھایا ہے، آپ نے دکھایا کہ جوانمردی کا وجود ہے، معنویت کا وجود ہے۔

ہماری خاتون کھلاڑیوں نے، اس عالمی مقابلے میں اور اسی طرح اس سے پہلے کے عالمی مقابلوں میں بھی یہ ثابت کیا ہے کہ اسلامی حجاب، کسی بھی میدان میں پیشرفت میں رکاوٹ نہیں ہے، جیسا کہ ہم نے اسے سیاست کے میدان میں بھی ثابت کیا ہے، علم و سائنس کے میدان میں بھی ثابت کیا ہے، مینیجمینٹ کے میدانوں میں بھی اسے ثابت کیا ہے، اسپورٹس کے میدان میں بھی آپ نے ثابت کر دیا کہ حجاب، خواتین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، دشمنوں اور دشمن کی باتوں پر فریفتہ لوگوں کے پروپیگنڈوں کے برخلاف جو حجاب کے بارے میں کچھ باتیں کہتے تھے، اپنی طرف سے کچھ باتیں بیان کرتے تھے اور انھیں پھیلاتے تھے۔ آپ کے اس حجاب نے دوسرے مسلمان ممالک کی خواتین کو بھی حوصلہ دیا۔ میں نے سنا ہے کہ ان برسوں میں دس سے زیادہ مسلمان ملکوں کی خواتین کھلاڑی حجاب کے ساتھ اسپورٹس کے عالمی میدانوں میں پہنچی ہیں؛ یہ  چیز رائج نہیں تھی، یہ کام آپ نے کیا؛ ایران کی خاتون کھلاڑیوں اور چیمپینوں نے یہ کام کیا اور اس راستے کو کھول دیا۔

عالمی اسپورٹس کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ، مجرم صیہونی حکومت سے متعلق ہے؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ سفاک، نسلی تصفیہ کرنے والی اور غیر قانونی حکومت کوشش کر رہی ہے کہ عالمی اسپورٹس کے میدانوں میں اپنی شرکت کے ذریعے اپنا قانونی جواز بنا لے؛ اس کام کے لیے وہ اسپورٹس کے میدانوں کا سہارا لے رہی ہے اور عالمی سامراجی طاقتیں اور ان کے حواری اس کی مدد کر رہے ہیں اور اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں، میں آپ سے، اسپورٹس کے محترم عہدیداروں سے بھی اور خود کھلاڑیوں سے بھی عرض کرتا ہوں کہ کسی بھی صورت میں پسپائي اختیار نہ کیجیے؛ کسی بھی صورت میں پسپائي اختیار نہ کیجیے۔ البتہ وہ لوگ جوابی کارروائي کریں گے، یہ اسپورٹس کی وزارت، وزارت خارجہ اور قانونی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانونی اور سفارت کاری کے راستوں سے کھلاڑی کا دفاع کریں اور اس پر ظلم نہ ہونے دیں۔ ہمارا آزاد منش اور سربلند کھلاڑی ایک میڈل کی خاطر کھیل کے میدان میں ایک مجرم حکومت کے نمائندے سے ہاتھ نہیں ملا سکتا اور اسے عملی طور پر تسلیم نہیں کر سکتا۔

البتہ ماضی میں اس کام کا نمونہ بھی موجود ہے۔ آج صیہونی حکومت کے لیے ہنگامہ مچاتے ہیں لیکن ماضی میں جنوبی افریقا کی سابق اپارتھائیڈ حکومت اسی طرح کی تھی؛ دنیا کے بہت سے کھلاڑی اس کے (کھلاڑیوں کے) ساتھ نہیں کھیلتے تھے؛ وہ حکومت ختم ہو کر نابود ہو گئي، یہ بھی ختم ہوگي، یہ بھی نابود ہو جائے گي؛ اس لیے یہ بہت اہم مسئلہ ہے کہ ہمارے ادارے، ایرانی کھلاڑیوں کے حقوق حتی غیر ایرانی کھلاڑیوں کے حقوق کا دفاع کریں جنھیں صیہونی حکومت کے نمائندے کے ساتھ نہ کھیلنے کی وجہ سے پابندی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑا ہے، جیسے اس بار الجزائر کے ایک کھلاڑی کے ساتھ ہوا، ان کھلاڑیوں کی مدد اور حمایت کی جانی چاہیے۔

ایک اور بات، جسے میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور اس پر اصرار کرتا ہوں، عالمی اسپورٹس کو معیاری بنانے کا مسئلہ ہے۔ جن کھیلوں میں ہمیں میڈل مل سکتے ہیں، ان میں کھلاڑیوں کو بھیجیے - اسپورٹس کے بعض میدانوں میں ہماری صلاحیتیں بہت اچھی ہیں اور ان میں ہم کافی میڈل حاصل کر چکے ہیں - اسی طرح اس کھلاڑی کو بھیجیے جس کے میڈل جیتنے کا امکان ہے؛ مطلب یہ کہ قومی ٹیم کو، عالمی اسپورٹس کے میدان میں جانے والی ایرانی ٹیم کو اعلی کوالٹی کے ساتھ بھیجیے۔ تعداد کو جتنا کم کر سکیں، اتنا بہتر ہے۔ اس سال پیرالمپک کا ہمارا کارواں پچھلے سال سے کافی کم تھا لیکن اس کی جانب سے میڈلوں کا حصول بہت اچھا تھا، کارواں کے اراکین کام کرنے میں کامیاب رہے؛ کوالٹی کے ساتھ شرکت کے مسئلے کا انھوں نے کافی خیال رکھا؛ اسے جاری رکھیے۔ یہ نکتہ میرے خیال سے کافی اہم ہے۔

اسپورٹس کے اداروں کا ایک اہم مشن یہ ہے کہ اولمپک میں رینکنگ کو بڑھائيں۔ ابھی بتایا گيا کہ ہم اس میں شروع کے ایک چوتھائي ممالک میں شامل ہیں لیکن ایران ایک سرفراز ملک ہے؛ ہم رینکنگ کو جتنا اوپر لے جائيں، اتنا بہتر ہے۔ ہماری رینکنگ ستائيسویں رہی؛ ہمارے ملک کے شایان شان رینکنگ اس سے کہیں اوپر ہے، اس سے بہت اوپر ہے۔ اس کے لیے پروگرام تیار کیجیے؛ پروگرام تیار کیجیے تاکہ ان شاء اللہ ملک کی رینکنگ کو مزید اوپر لے جائيے۔ البتہ اس سال پیرالمپک کی رینکنگ اچھی تھی لیکن پچھلے برسوں کی نسبت سب سے اوپر نہیں تھی- اس بار ہماری ٹیم تیرہویں نمبر پر رہی لیکن مجھے لگتا ہے کسی پیرالمپک میں گيارہویں نمبر پر بھی رہی ہے، میرے ذہن میں یہی ہے- بہرحال اچھا رہا، جتنا زیادہ ہو سکے اس مسئلے پر کام کیجیے۔

ایک اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ ملک میں اسپورٹس کے سازوسامان تیار کرنے والوں کی حمایت کیجیے۔ میں نے سنا ہے کہ اس سال اسپورٹس کے اس لباس کو، جو ہمارے ملک کا پروڈکٹ تھا، کئي ملکوں نے استعمال کیا؛ ایران کا یہ برانڈ دنیا میں درخشاں ہوا؛ در حقیقت اس کام کے ذریعے بعض عالمی برانڈز کی روایتی اجارہ داری کو توڑ دیا گيا، یہ بہت گرانقدر ہے؛ اس کی حمایت کیجیے؛ اس پروڈکٹ کی بھی حمایت کی جائے اور اسپورٹس کے بقیہ سازوسامان بھی ملک کے اندر ہی تیار کیے جائيں اور جس طرح سے یہاں لباس کے سلسلے میں آپ یہ برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے، اسی طرح اسپورٹس کے دیگر سازوسامان کے بارے میں بھی آپ ممکنہ طور پر کامیاب رہیں گے۔

ایک نکتہ اصلی ایرانی کھیلوں کے بارے میں سفارش پر مبنی ہے۔ میں نے ماضی میں کئي بار اس پر زور دیا ہے۔ فرض کیجیے کہ چوگان (پولو) ایک ایرانی کھیل ہے؛ بلکہ ہمارا ہی ہے لیکن دوسرے چوگان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم بہت کم۔ جبکہ چوگان آپ کا ہے اور یہ سیاحت کو فروغ دینے اور اس طرح کے کاموں میں بھی اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے کھیل بہت اچھے ہیں۔ اسی طرح ایرانی ٹرینروں سے فائدہ اٹھانا، جس کی طرف ہمارے اس بھائي نے بھی اشارہ کیا، یہ بھی ان سفارشوں میں سے ایک ہے جن پر ہم ہمیشہ تاکید کرتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو سکے، ایرانی کوچ کو استعمال کیا جائے۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ آپ سب کو کامیاب کرے، آپ سب کو صحت مند رکھے۔

ایک بنیادی نکتہ جو، بعض لوگوں کی باتوں میں بھی تھا، یہ تھا کہ ملازمت کے لحاظ سے اور زندگي کی اور معاشی مشکلات کے لحاظ ان چیمپینوں کی جو ان معاملوں میں اس طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں، صحیح معنی میں مدد کی جائے یعنی اسپورٹس کا یہ انصاف ہر جگہ، جغرافیائي لحاظ سے بھی اور اسپورٹس کے شعبوں کے لحاظ سے بھی، آج جس طرح سے انصاف قائم کیا جاتا ہے، پیش نظر رہے۔ امید ہے ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو محفوظ رکھے، باقی رکھے، آپ نے اپنے ملک کو، اپنی قوم کو سربلند کیا، ان شاء اللہ خدا آ پ کو سربلند رکھے، خاص طور پر جنگ میں اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والے اور معذور افراد کی جسمانی مشکلات کم ہوں اور وہ ان مشکلات پر غلبہ حاصل کریں اور ان شاء اللہ اس سے زیادہ کامیابی حاصل کریں جس طرح کہ آج تک  کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتدا میں اسپورٹس اور جوانوں کے امور کے وزیر جناب سید حمید سجادی، محترمہ ہاشمیہ متقیان اور جواد فروغی نے مختصر تقریر کی۔

(2) شہید محمد بابائي کی والدہ محترمہ کونیکا یامامورا، اسٹیڈیم میں موجود تھیں اور ایران کی والیبال ٹیم کے اراکین نے چیمپین  بننے کے بعد ملنے والے اپنے گلدستے ان کی خدمت میں تقدیم کر دیے۔