روحانی ارتقاء کی بے وقفہ کوشش

رسول اللہ اپنی اس عظیم منزلت اور عصمت کے اعلی ترین مرتبے پر فائز ہونے کے باوجود، مرتے دم تک اس کوشش کو ترک نہیں کرتے تھے جو انھیں مسلسل خداوند عالم سے مزید قریب کرے۔ بعثت کے پہلے سال کے پیغمبر اور بعثت کے تیئیسویں سال کے پیغمبر یکساں نہیں تھے؛ وہ پروردگار عالم کے تقرب میں تیئیس سال آگے بڑھ چکے تھے۔

 

اللہ کا شکر گزار بندہ

اصحاب نے آنحضرت سے عرض کی: اے خدا کے رسول! آپ نے تو کوئي گناہ کیا ہی نہیں، پھر اتنی زیادہ دعا، عبادت اور استغفار کس لیے؟ وہ فرماتے تھے: "افلا اکون عبداً شکورا" کیا میں خدا کا شاکر بندہ نہ رہوں جس نے مجھے یہ ساری نعمتیں عطا کی ہیں؟

 

لغزشوں سے ہوشیار

پیغمبر اکرم، عصمت کے مقام پر فائز ہیں لیکن اس کے باوجود، اپنے حرکات و سکنات کی ایسی کڑی نگرانی رکھتے ہیں، اپنی یہی گہری دیکھ بھال اور لغزشوں سے حفاظت ہی عصمت کا سبب بنتی ہے۔

 

صداقت و جوانمردی کا پیکر

اپنی ولادت سے لے کر بعثت کے وقت تک یعنی چالیس سال، ہمارے پیغمبر عزیز کے لیے پاکیزگي، امانت داری، جوانمردی اور صداقت کے امتحان کے سال تھے۔ سبھی اس بات کے معترف تھے اور گواہی دیتے تھے کہ یہ عظیم اور باشرف انسان، پاکیزگي، دیانت داری، صداقت اور جوانمردی کا پیکر ہے۔

 

دوست، دشمن سبھی کے درمیان امانت داری کی شہرت

پیغمبر اکرم کا امین ہونا اور ان کی امانت داری ایسی تھی کہ عہد جاہلیت میں انھیں 'امین' کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اسلام کی دعوت شروع ہونے اور قریش کے ساتھ دشمنی کی آگ بھڑکنے کے بعد بھی، اگر وہی دشمن کسی چیز کو کہیں امانت کے طور پر رکھوانا چاہتے تھے تو آ کر اسے پیغمبر کے حوالے کرتے تھے۔

 

لوگوں سے اچھا سلوک اور اپنی تکلیفوں کی پردہ پوشی

عام انسانوں کے ساتھ پیغمبر اکرم کا رویہ، بہت اچھا تھا۔ وہ لوگوں کے سامنے اپنے چہرے پر اپنے غم و اندوہ کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے، ہشاش بشاش رہتے تھے۔ سبھی کو سلام کرتے تھے۔ اگر کوئي انھیں رنجیدہ کرتا تھا تو وہ چیز ان کے چہرے پر دکھائي دیتی تھی لیکن وہ زبان سے شکوہ نہیں کرتے تھے۔

 

فحش کلامی کی سختی کے ساتھ روک تھام

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ کوئي ان کے سامنے کسی کو گالی دے یا بدگوئي کرے۔ وہ خود بھی کسی کو گالی نہیں دیتے تھے اور کسی کی بدگوئي نہیں کرتے تھے۔

 

عوام الناس اور غریبوں کے ساتھ نشست و برخاست

پیغمبر اکرم، غلاموں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ ایک بدو عورت وہاں سے گزری اور اس نے حیرت سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ غلاموں کی طرح کھانا کھاتے ہیں؟ آپ مسکرائے اور کہنے لگے: "ویحک ای عبد اعبد منّی" مجھ سے بڑا غلام کون ہے؟