بسم ‌اللّہ ‌الرّحمن ‌الرّحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاہرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین.

محترم بھائيو اور بہنو! ملک کے کلیدی امور میں موثر رول ادا کرنے والی شخصیات! خوش آمدید! عدلیہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ملک کے سب سے اہم مسائل سے سروکار رکھتی ہے، آپ کا اس طرح کا کردار ہے، ان شاء اللہ، خدا آپ کو کامیاب کرے، یہ ایک توفیق ہے، مجھے خوشی ہے کہ اس متعدی بیماری اور وبا میں بحمد اللہ تھوڑی کمی آئی اور یہ توفیق حاصل ہوئي کہ آپ کی قریب سے زیارت کر سکوں۔

سب سے پہلے تو ہم پیارے شہید، مرحوم آیۃ اللہ بہشتی رحمۃ اللہ علیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ان تمام شہیدوں کو جو ان کے ساتھ شہید ہوئے اور عدلیہ کے تمام شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، خداوند عالم ان سب کے درجات بلند کرے۔ شہید بہشتی رضوان اللہ علیہ نمایاں ہستی تھے، واقعی وہ عظیم انسان تھے۔ انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے برسوں میں، جب وہ بیرون ملک سے آئے، اس وقت سے لیکر ان کی شہادت کے وقت تک ہم ان کے ساتھ لگاتار اور قریب سے کام اور تعاون کرتے رہے۔ واقعی ہم دیکھتے تھے کہ وہ ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔ جن اداروں میں ہم ان کے ساتھ کام کرتے تھے، وہاں بھی ایسا ہی تھا۔ انقلابی کونسل میں، لوگوں نے مل کر آيۃ اللہ طالقانی کو اس کونسل کا سربراہ منتخب کیا لیکن ان ہی لوگوں کا بالاتفاق یہ خیال تھا کہ انھیں ایک نائب سربراہ کی ضرورت ہے اور وہ نائب سربراہ جناب بہشتی ہیں چنانچہ انھیں منتخب کیا گيا۔ انقلابی کونسل چلانے کی ذمہ داری مرحوم بہشتی صاحب کی تھی، یہاں تک کہ مرحوم طالقانی صاحب کی حیات میں بھی۔ شہید بہشتی ایک نمایاں شخصیت تھے، خداوند عالم ان کے درجات بلند کرے۔

اس مناسبت سے میں چاہتا ہوں کہ اس وقت کے حالات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے کہ یہ نظر ہمارے لیے سبق آموز ہے، مشکلات کو حل کرنے والی ہے۔ اس وقت کے، 7 تیر (28 جون) کے حالات کو جو 41 سال قبل رونما ہوئے، نظروں کے سامنے لانا ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ان دنوں مسلط کردہ جنگ اپنے سخت ترین اور بدترین دور میں تھی۔ صدام حکومت نے اپنے فوجیوں کو جنوب اور مغرب میں ہمارے بڑے شہروں کے قریب تک پہنچا دیا تھا۔ کچھ شہروں پر تو انھوں نے قبضہ کر لیا تھا اور اہواز، دزفول اور مغرب میں ملک کے کچھ دوسرے شہروں کے قریب تک صدام کے فوجی پہنچ گئے تھے۔ سنہ 1981 کے ان ہی ابتدائي مہنیوں میں، فروردین، اردیبہشت اور خرداد (مارچ، اپریل اور مئي) میں، ميں ملک کے مغربی علاقے میں تھا، میں بھول نہیں سکتا، مطلب یہ کہ واقعی اس وقت بھی جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں، اس غم کا اثر اب بھی میرے دل میں ہیں جو اس وقت فضا میں چھایا ہوا تھا۔ مغرب کے پورے علاقے پر غم کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ انسان جہاں بھی جاتا تھا، کرمانشاہ کے قریب 'برآفتاب' کے نام سے مشہور ان پہاڑوں کے کنارے سے گاڑی سے کسی جگہ جا رہے تھے، اس طویل راستے کا کوئی ایک چپہ بھی محفوظ نہیں تھا، ہر لمحہ اس بات کا اندیشہ رہتا تھا کہ دشمن کے توپخانے کا کوئي گولہ یا مارٹر گولہ وہاں آ گرے۔ اس طرح سے انھوں نے محاصرہ کر رکھا تھا! پوری فضا غمگین تھی، دشمن کے فوجی پوری طرح آمادہ اور تربیت یافتہ تھے، ہمارے فوجی آمادہ نہیں تھے، ہمارے وسائل نہ ہونے کے برابر، اس کے وسائل بے حساب! اہواز میں ہماری فوجی بریگیڈ کے پاس، فرض کیجیے کہ ڈیڑھ سو ٹینک ہونے چاہیے تھے مگر اس کے پاس بیس یا تیس، مجھے صحیح تعداد یاد نہیں ہے، لیکن اسی حد میں ٹینک تھے، ہماری حالت ایسی تھی۔ یہ تو جنگ کی بات ہوئي۔

ملک کے اندر، خود تہران میں خانہ جنگي تھی، تہران کی ان سڑکوں پر خانہ جنگي تھی، منافقین (دہشت گرد گروہ ایم کے او کے افراد) ٹوٹ پڑے تھے اور ان کے ہاتھ میں جو کچھ آتا تھا، کٹر سے لے کر جو کچھ ان کے پاس تھا، اسی سے عوام، سپاہ اور پولیس فورس پر حملے کر رہے تھے، جنگ ہو رہی تھی۔ تہران میں جنگ تھی۔ تو اٹھائيس جون کے ان دنوں کے حالات ایسے تھے۔

ملک کے سیاسی حالات ایسے تھے کہ اٹھائیس جون سے قریب ایک ہفتہ پہلے، اس وقت کے صدر(2) کی نااہلی پارلیمنٹ میں ثابت ہو گئی تھے اور اسے اس کے عہدے سے ہٹا دیا گيا تھا۔ مطلب یہ کہ ملک بغیر صدر کے تھا، صورتحال ایسی تھی۔ ایسے حالات میں ملک نے بہشتی جیسے ایک ستون کو کھو دیا، بہشتی ستون تھے، واقعی ایک ستون تھے۔ انقلاب کے ستون، جو انقلاب کو سنبھالے رکھتے ہیں، ان کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، شہید بہشتی ان ہی ستونوں میں سے ایک تھے، اس طرح کے حالات میں شہید بہشتی چلے گئے۔

تقریبا دو مہینے بعد نئے صدر اور وزیر اعظم - شہید رجائي اور شہید باہنر - کو ایک ساتھ ایک نشست میں شہید کر دیا گيا۔ یہ باتیں شاید آپ میں سے بہت سے لوگوں کو یاد ہوں گي لیکن عزیز نوجوانوں نے یہ چیزیں نہیں دیکھی ہیں، تاریخ اور اس کی تفصیلات سے وہ صحیح طریقے سے واقف نہیں ہیں، ہمارے عزیز جوانو! عزیز فرزندو! ان پر غور کیجیے۔ اس صورتحال کے تقریبا دو مہینے بعد، اس وقت کے صدر اور وزیر اعظم شہید رجائي اور شہید باہنر پر ایک نشست میں حملہ کیا گيا اور وہ شہید ہو گئے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد یا اس کے ایک مختصر سے وقفے کے بعد فوج اور سپاہ سے تعلق رکھنے والے جنگ کے کئي بڑے کمانڈر طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے، شہید فلاحی، شہید فکوری، شہید کلاہ دوز وغیرہ۔(3) یعنی تین مہینے سے بھی کم کے عرصے میں اتنے سارے تلخ واقعات، اتنے سارے وحشتناک حوادث، اتنی ساری گہری چوٹیں! آپ کی نظر میں ہے ایسا کوئي ملک اور ایسی کوئي حکومت جو اس طرح کے تلخ اور وحشتناک واقعات کے سامنے ٹک سکے اور ڈھیر نہ ہو جائے؟! آپ اس طرح کے نظام کی عدلیہ ہیں۔ لوگ ڈٹ گئے، امام خمینی 'کوہ دماوند' کی طرح سر اٹھا کر ڈٹ گئے، مخلص عہدیداران اور انقلابی نوجوان ڈٹ گئے اور انھوں نے ملک کے حالات کو ایک سو اسی ڈگری کے زاویے تک بدل دیا، جنگ کو لگاتار شکست سے، مسلسل فتح میں تبدیل کر دیا، منافقین کو سڑکوں پر سے ہٹا دیا، فوج اور سپاہ کو روز بروز زیادہ منظم بنایا اور ملک کو معمول کے حالات پر لے آئے۔

ان واقعات میں ایک نکتہ موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ جب یہ واقعات ہو رہے تھے، چاہے شہید بہشتی کی شہادت کا واقعہ ہو، چاہے بعد کے واقعات ہوں، دشمن بہت خوش ہو رہے تھے، وجد میں آ رہے تھے، پرامید ہو رہے تھے کہ اس انقلابی نظام کی بساط لپٹ گئي، لیکن انھیں مایوسی ہاتھ لگی۔ اس وقت وہ ناامید ہو گئے، ان چار عشروں میں بھی یہ مایوسی بار بار دوہرائي گئي ہے۔ کبھی کسی وقت دشمن نے اسلامی جمہوری نظام میں کسی چیز سے،  کسی کمزوری سے، کسی کمی سے امید لگا رکھی تھی مگر بعد میں اسے مایوس ہونا پڑا، ایسا بارہا ہوا ہے لیکن دشمن کی مشکل یہ ہے کہ وہ اس مایوسی کی وجہ نہیں سمجھ پاتا، اسے معین نہیں کر سکتا، یہ نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں؟ اس کی وجہ کیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ہر بار، اتنے زیادہ دباؤ سے باہر نکل آتی ہے، کھڑی ہو جاتی ہے، سینہ تان کر ڈٹ جاتی ہے، اپنا سفر جاری رکھتی ہے، وہ اسے نہیں سمجھ پاتا۔ یہ لوگ سمجھ ہی نہ سکے کہ عالم بشریت میں سیاسی اسباب و عوامل کے علاوہ کچھ دوسرے اسباب و عوامل بھی موجود ہیں، جنھیں سمجھنے سے وہ قاصر ہیں اور وہ سنت الہیہ ہے، میں اس پر اختصار سے روشنی ڈالوں گا۔

سنّت کا مطلب ہے قانون، قاعدہ۔ مادی دنیا میں، انسانی دنیا میں خداوند عالم کے کچھ قاعدے ہیں، کچھ قانون ہیں۔ وَ الشَّمسُ تَجری لِمُستَقَرٍّ لَھا ذَلِکَ تَقدیرُ العَزیزِ العَلیم. وَ القَمَرَ قَدَّرناہُ مَنازِل ... (4) یہ سب قانون ہی تو ہیں۔ لَا الشَّمسُ یَنبَغی لَھا اَن تُدرِکَ القَمَر(5) یہ قوانین ہیں، یہ قوانین جاری ہیں لیکن یہ وہ قوانین ہیں جو آنکھوں کے سامنے ہیں۔ کشش ثقل کا قانون، آنکھوں کے سامنے موجود ایک قانون ہے اور سبھی اسے سمجھتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی قانون ہیں جنھیں سب نہیں سمجھ سکتے۔ واقعی پورا قرآن اس طرح کے قوانین کے بیان سے  بھرا ہوا ہے، مثال کے طور پر اَنَّ اللَہَ مَعَ المُتَّقین(6)، مَن جاھَدَ فَاِنَّما یُجاھِدُ لِنَفسِہ(7) اور اسی طرح کی دوسری مثالیں جن میں سے کچھ کا میں ذکر کروں گا۔ یہ بھی قوانین  ہیں۔ وَ مَن اَصدَقُ مِنَ اللَہِ قیلًا(8) اللہ سے زیادہ سچا کون ہے؟ خدا کہہ رہا ہے کہ یہ قانون ہے۔ ایک قانون یہ ہے: لَیَنصُرَنَّ اللَہُ مَن یَنصُرُہ(9) جو بھی خدا کی مدد کرے گا، خدا اس کی مدد کرے گا، لَیَنصُرَنَّ اللَہُ – تاکید کی کئي علامتوں کے ساتھ – یا اِن تَنصُرُوا اللَہَ یَنصُرکُم(10) یہ سنت الہیہ ہے۔ جس راستے پر آپ چل رہے  ہیں، جو کام آپ کر رہے ہیں، جو موقف آپ اختیار کر رہے ہیں، اگر وہ خدا کی مدد کا مصداق ہے –خدا کی مدد یعنی دین  خدا کی مدد، یعنی الہی اقدار کی مدد– اگر آپ اس سمت میں بڑھ رہے ہیں، تو فتحیاب ہوں گے، خدا آپ کی مد د کرے گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ آپ آگے بڑھیں، عمل کریں، یہ نہیں کہ صرف کہتے رہیں! عمل کیجئے۔ یہ ایک سنت الہی ہے۔ لَئِن شَکَرتُم لَاَزیدَنَّکُم(11) اگر آپ نے اللہ کی نعمت کو اس کی صحیح جگہ پر استعمال کیا تو خدا آپ کے لئے اس نعمت میں اضافہ کرے گا، یہ سنت الہی ہے۔ اَلَّذینَ جاھَدوا فینا لَنَھدیَنَّھُم سُبُلَنا و اِنَّ اللَہَ لَمَعَ المُحسِنین(12) یہ سنت الہیہ ہے، یہ ساری الہی سنتیں ہیں۔

میں نے کبھی اسی امام بارگاہ میں ایک نشست میں کہا تھا کہ (13) جب حضرت موسی، بنی اسرائيل کو لے کر را ت کے وقت سمندر کی طرف چل پڑے تاکہ وہاں سے نکل جائيں – اب اگلے دن نکلنا تھا یا اس کے بعد والے دن، اس کی صحیح تاریخ واضح نہیں ہے – فرعون کے لوگ سمجھ گئے اور ان کا تعاقب کرنے لگے، یہ لوگ پیدل بڑی مشقت سے آگے بڑھ رہے تھے جبکہ وہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہوکر۔ جب وہ قریب آ گئے اور دکھائي دینے لگے، فَلَمَّا تَراءَتِ الفِئَتان(14) حضرت موسی کے اصحاب نے حضرت کی طرف رخ کرکے کہا: اِنّا لَمُدرَکون (15) حضرت موسی کے صحابیوں –بنی اسرائيل– میں ڈرپوک اور کمزور ایمان والوں نے حضرت موسی سے کہا: اِنّا لَمُدرَکون، ابھی آ کر ہمیں پکڑ لیں گے، ہماری شامت آ گئي ہے۔ حضرت موسی نے فرمایا: کلّا، ہرگز نہیں! اِنَّ مَعِیَ رَبّی سَیَھدین(16) خدا میرے ساتھ ہے۔ یہ سنت الہیہ ہے، یہ الہی سنتیں ہیں۔

سنّت الہی یعنی قانون، قانون کس طرح کام کرتا ہے؟ قانون کا ایک موضوع ہے، ایک حکم ہے، ایک موضوع ہے، ایک نتیجہ ہے۔ آپ خود کو اس موضوع کے مطابق ڈھالیں، نتیجہ یقینی طور پر حاصل ہوگا۔ اِن تَنصُرُوا اللَہَ یَنصُرکُم(17) "تَنصُرُوا اللَہَ" موضوع ہے، خدا کی مدد کیجیے، حکم اور نتیجہ "یَنصُرکُم" ہے۔ اگر آپ نے خود کو اس کے مطابق ڈھالا تو یقینا نتیجہ حاصل ہوگا، اس میں کوئي شک نہیں ہے، خدا کا وعدہ ہے نا! قرآن مجید، ہم سے اللہ جل جلالہ کا براہ راست خطاب ہے، اس میں نعوذ باللہ مبالغے اور وعدہ خلافی وغیرہ کی کوئي بات ہی نہیں ہے۔ لیکن شرط یہی ہے کہ آپ، خود کو اس موضوع کے مطابق ڈھالیے، اگر آپ نے ایسا کر دیا تو وہ نتیجہ حاصل ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ نے اس وقت اس طرح قدم بڑھایا، جب بھی ہم فتحیاب ہوئے، ہم اسی طرح آگے بڑھے تھے، یعنی ہم نے اپنے آپ کو ایک سنت الہی کے مطابق ڈھال لیا تھا تو خداوند عالم نے بھی نتیجہ عطا کیا۔ وَ اَن لَوِ استَقاموا عَلَى الطَّریقَۃِ لَاَسقَیناھُم ماءً غَدَقًا(18) فرمایا: اگر تم ڈٹ جاؤ تو خدا تمھیں سیراب کرے گا، تمھیں بے نیاز بنا دے گا، ہم نے استقامت دکھائي، ڈٹ گئے، خدا نے ہمیں بے نیاز کر دیا۔ اس کا برعکس پہلو بھی ایسا ہی ہے۔ الہی سنتوں کی مختلف قسمیں ہیں۔ وہاں قرآن فرماتا ہے: لَئِن شَکَرتُم لَاَزیدَنَّکُم پھر کہتا ہے: "وَ لَئِن کَفَرتُم اِنَّ عَذابی لَشَدید(19) یہ بھی سنّت ہے – کَفَرتُم یعنی ناشکری – اگر تم نے نعمت کی ناشکری کی، نعمت کا صحیح استعمال نہیں کیا، غلط استعمال کیا، اس طرح کے کام کیے تو اِنَّ عَذابی لَشَدید، یہ بھی ایک الہی سنت ہے۔ اگر ہم نے اپنے آپ کو اس موضوع کے مطابق ڈھال لیا، تو اسی کے مطابق نتیجہ برآمد ہوگا، مطلب یہ کہ دونوں پہلو سنت الہی کے ہیں، معاملے کا دوسرا رخ بھی ایسا ہی ہے۔

سورۂ آل عمران میں دو مواقع ہیں اور تعجب کی بات ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں ایک ہی سورے میں اور ایک ہی قضیئے سے متعلق ہیں، البتہ دو معاملوں سے متعلق ہیں لیکن یہ دونوں معاملے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ دو طرح کی سنتوں کو بیان کیا جا رہا ہے: فتح کی سنت، شکست کی سنت۔ ایک سورۂ آل عمران کی آيت نمبر 173 میں ہے: اَلَّذینَ قالَ لَھُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم فَزادَھُم ایماناً وَ قالوا حَسبُنَا اللَہُ وَ نِعمَ الوَکیلُ. فَانقَلَبوا بِنِعمَۃٍ مِنَ اللَہِ وَ فَضلٍ لَم یَمسَسھم سُوء(20) اس کا قصہ آپ نے سنا ہی ہوگا، جنگ احد ختم ہو گئي، حمزہ سیدالشہداء جیسا انسان اس جنگ میں شہید ہو گيا، پیغمبر مجروح ہو گئے، امیر المومنین زخمی ہو گئے، کافی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے، تھک ہار کر، زخمی ہو کر مدینہ واپس  لوٹے، ادھر قریش، یہی دشمن جو کچھ نہیں کر پایا تھا – اس نے چوٹ پہنچائي تھی لیکن مسلمانوں سے جیت نہیں پایا تھا – یہ لوگ مدینے کے باہر، مدینے سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر اکٹھا ہوئے، انھوں نے فیصلہ کیا کہ آج رات حملہ کریں گے، یہ لوگ تھکے ہوئے ہیں، یہ کچھ کر نہیں پائيں گے، آج ہی کام ختم کر دیں گے۔ ان کے ایجنٹ مدینے کے اندر آ گئے اور انھوں نے خوف پھیلانا شروع کر دیا: اَلَّذینَ قالَ لَھُمُ النّاسُ اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم، انھوں نے کہا: تمھیں پتہ ہے، خبر بھی ہے کہ وہ لوگ اکٹھا ہو گئے ہیں، لشکر تیار کر لیا ہے، تمھیں تباہ کر دینا چاہتے ہیں! آج رات حملہ کر دیں گے اور ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے! خوف پھیلانے کا کام۔ جن لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، انھوں نے کہا: قالوا حَسبُنَا اللہُ وَ نِعمَ الوَکیل، انھوں نے کہا: جی نہیں، ہم نہیں ڈرتے، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پیغمبر نے فرمایا: وہ لوگ جو آج احد میں زخمی ہوئے ہیں، اکٹھا ہوں۔ وہ سب اکٹھا ہو گئے، آپ نے فرمایا: ان کے مقابلے میں جاؤ! وہ لوگ گئے اور انھیں شکست دے کر لوٹے: فَانقَلَبوا بِنِعمَۃٍ مِنَ اللہِ وَ فَضل، کافی زیادہ مال غنیمت کے ساتھ لوٹے اور انھیں کوئي مشکل بھی پیش نہیں آئي، دشمن کو شکست دی اور لوٹ آئے۔ یہ سنت الہیہ ہے۔ بنابریں اگر دشمن کی جانب سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کے جواب میں آپ نے حقیقی معنی میں اس بات پر یقین رکھا کہ "حَسبُنَا اللہُ وَ نِعمَ الوَکیل" اور اپنے فرائض کو پورا کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہے۔ سورۂ آل عمران کا یہ حصہ، ہمارے سامنے اس سنّت کو بیان کرتا ہے۔ یہ احد کے بعد کا واقعہ تھا، مثال کے طور پر احد کی جنگ ختم کے کچھ گھنٹے بعد کا۔

معاملے کا دوسرا حصہ، خود احد کے اندر کا ہے، جنگ احد میں پہلے مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئي تھی، یعنی انھوں نے پہلے حملہ کیا اور دشمن کو مغلوب کر دیا، پھر جب اس درّے کو دنیا طلبی کی وجہ سے گنوا دیا تو معاملہ بالکل پلٹ گيا، قرآن مجید سورۂ آل عمران میں ہی اسے بیان کرتا ہے اور کہتا ہے: وَ لَقَد صَدَقَکُمُ اللہُ وَعدَہ، اللہ نے تم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا – ہم نے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم راہ خدا میں جہاد کروگے تو ہم تمھیں فاتح بنا دیں گے، ہم نے اپنے وعدے کو پورا کر دیا – اِذ تَحُسّونَھُم بِاِذنِہ، اللہ کے اذن سے تم ان پر دباؤ ڈالنے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہو گئے، پہلے تمھیں کامیابی حاصل ہوئي۔ تو یہاں خدا نے اپنا کام کر دیا، خدا نے تم سے جو وعدہ کیا تھا، اسے پورا کر دیا لیکن پھر تم نے کیا کیا؟! خدا کے اس وعدے کی تکمیل پر شکر کرنے کے بجائے، اس الہی فضل و کرم کا شکر کرنے کے بجائے، حَتّىٰ اِذا فَشِلتُم، تمھارے قدم ڈھیلے پڑ گئے، تمھاری آنکھیں مال غنیمت پر ٹک گئيں، تم نے دیکھا کہ کچھ لوگ، مال غنیمت اکٹھا کر رہے ہیں تو تمھارے قدم ڈھیلے پڑ  گئے، وَ تَنازَعتُم؛ تم ایک دوسرے سے جھگڑنے لگے، تم میں اختلاف ہو گيا۔ دیکھیے، ان قرآن جملوں پر سماجیات کے لحاظ سے علمی تحقیق ہونی چاہیے، یہ کہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ملک، ایک حکومت، ایک ریاست پیشرفت کرے، کیسے وہ جمود میں پڑ سکتی ہے اور کیسے زوال کا شکار ہو جاتی ہے؟ ان باتوں کو قرآن کی ان آیات میں تلاش کیجیے۔ حَتّىٰ اِذا فَشِلتُم وَ تَنازَعتُم فِی الاَمرِ وَ عَصَیتُم. تم نے نافرمانی کی، پیغمبر نے تم سے کہا تھا کہ یہ کام کرو، تم نے نہیں کیا، پھر جب ایسا ہو گيا، مِن بَعدِ ما اَراکُم ما تُحِبّون، جو تم چاہتے تھے، یعنی نصرت الہی، اسے اللہ نے تمھیں دے دیا تھا، دکھا دیا تھا، تم مکمل نصرت تک پہنچنے ہی والے تھے لیکن تم نے اس طرح کا عمل انجام دیا، پھر مِنکُم مَن یُریدُ الدُّنیا وَ مِنکُم مَن یُریدُ الآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُم عَنھُم(21) یہاں بھی خداوند عالم نے اپنی سنّت پر عمل کیا، صَرَفَکُم عَنھُم، ان پر سے تمھارا تسلط ختم کر دیا، یعنی تم مغلوب ہو گئے، یہ سنت الہی ہی تو ہے۔ وہاں سنت الہی یہ تھی کہ دشمن کی طرف سے خوف پھیلائے جانے کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور آگے بڑھو، یہاں سنت الہی یہ ہے کہ دنیا، دنیا طلبی، آرام پسندی کی خواہش، کام نہ کرنے، زحمت نہ اٹھانے اور آسان کام تلاش کرنے وغیرہ جیسی باتوں کے ذریعے اپنے آپ کو اور دوسروں کو تباہ کرو۔ یہ دونوں آیتیں سورۂ آل عمران میں ایک دوسرے کے قریب ہیں، یہ دو سنّتوں کو بیان کرتی ہیں۔

قرآن مجید الہی سنتوں کے بیان سے بھرا ہوا ہے، میں نے عرض کیا کہ قرآن کی ابتدا سے لے کر اختتام تک جیسے جیسے آپ دیکھتے ہیں، الہی سنتوں کو بیان کیا جاتا ہے اور دوہرایا جاتا ہے، کئي جگہ یہ بھی کہا گيا ہے: سُنَّۃَ اللہِ الَّتی قَد خَلَت مِن قَبلُ وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبدیلًا(22) –چار پانچ مقامات پر اس طرح کا بیان ہے– کہ خداوند عالم فرماتا ہے: الہی سنتوں میں کوئي تبدیلی نہیں آتی، اللہ کے قوانین، ٹھوس قوانین ہیں۔ کسی کے ساتھ خدا کی رشتہ داری نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ ہم مسلمان ہیں، شیعہ ہیں، اسلامی جمہوریہ ہیں اس لیے ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، نہیں! دوسروں اور ہم میں کوئي فرق نہیں ہے، اگر ہم نے اپنے آپ کو پہلی طرح کی سنتوں کے مطابق ڈھالا تو اس کا نتیجہ وہ ہے، اگر دوسری طرح کی سنتوں کے مطابق خود کو ڈھالا تو اس کا نتیجہ یہ ہے، یہ یقینی ہے، اس میں کوئي تبدیلی نہیں ہوگي۔

سنہ انیس سو اکاسی میں ہم اتنے سارے واقعات اور سختیوں کے مقابلے میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے اور دشمن کو مایوس کرنے میں کامیاب رہے، آج بھی ہم ایسا کر سکتے ہیں، سنہ انیس سو اکاسی کا خدا ہی اس سال کا بھی خدا ہے، سخت حالات اور مختلف زمانوں کا خدا ایک ہے، سبھی الہی سنتیں بھی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پیشرفت کی راہ میں خود کو الہی سنتوں کا مصداق قرار دیں، ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے۔

اب عدلیہ کے امور کی بات کریں۔ جناب محسنی نے اچھی رپورٹ پیش کی، بعض نکات، جنھیں میں نے یاد دہانی کے لیے نوٹ کیا تھا، انھوں نے اپنی رپورٹ میں بیان کر دیے اور کہا کہ یہ چیزیں انجام پا چکی ہیں، میں انھیں ایک بار پھر بیان کروں گا۔

عدلیہ، دوسرے بنیادی اداروں کی طرح ہی ہے، کیونکہ ملک کے بنیادی ستونوں میں سے ایک عدلیہ ہے۔ صرف ہمارے ملک میں نہیں بلکہ ہر جگہ۔ آپ کی کامیابیاں اور ناکامیاں، دونوں ہی الہی سنتوں کے احکام کے تحت ہیں اور پورے ملک پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سورۂ حج کی اس آيت مبارکہ نے ہم سب کی ذمہ داری کو واضح کر دیا ہے: اَلَّذینَ اِن مَکَّنّاھُم فِی الاَرضِ اَقامُوا الصَّلوۃَ وَ آتَوُا الزَّکاۃَ وَ اَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَ نَھَوا عَنِ المُنکَر.(23) اَقامُوا الصَّلوۃ، یعنی نماز قائم کرنا، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ الہی اور اسلامی حکومت کو اللہ کی بندگي اور اس کی جانب توجہ کو، روحانیت کی طرف توجہ کو فروغ دینا چاہیے۔ نماز قائم کرنے کا مقصد یہ ہے۔ بندگي کی روح، اسلامی جمہوریہ میں پھیل جانی چاہیے۔ وَ آتَوُا الزَّکاۃَ یعنی زکات دیں، زکات تو واضح ہے کہ کیا ہے لیکن اس "آتَوُا الزَّکاۃَ" یا "آتُوا الزَّکَوۃ" میں، جو قرآن میں کئي جگہ آيا ہے، جو اشارہ اور نکتہ مضمر ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں ہر چیز کی تقسیم میں عدل و انصاف پیش نظر ہونا چاہیے، یہی بات ہے۔

وَ اَمَرُوا بِالمَعرُوفِ، نیکی کا حکم دینا۔ نماز، زکات اور اس طرح کی چیزوں میں کچھ نہ کچھ کام ہوئے ہیں لیکن "اَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَ نَھَوا عَنِ المُنکَر" میں ہم پیچھے ہیں۔ معروف (نیکی) کیا ہے؟ عدل، انصاف، اخوت، اسلامی اقدار، یہ سب معروف یا نیکیاں ہیں، ہمیں نیکیوں کا حکم دینا چاہیے۔ ہمارے آئين میں بھی، آٹھویں آرٹیکل میں ہمارے فرائض میں یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے۔ نَھَوا عَنِ المُنکَر، برائيوں سے روکیں، منکر کیا ہے؟ ظلم ہے، بدعنوانی ہے، امتیازی سلوک ہے، ناانصافی ہے، اللہ کی اطاعت نہ کرنا ہے، یہ سب ظلم ہیں، یہ سب منکر (برائياں) ہیں، ان سے روکا جانا چاہیے، یہ چیزیں فرائض میں شامل ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نماز کی طرح، زکات کی طرح فرائض کا حصہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق تو امر بالمعروف، ان الہی احکام حتی جہاد سے بھی اوپر ہے۔(24) ہم ان تفصیلات میں نہیں جانا چاہتے۔ بہرحال یہ ایک ذمہ داری ہے جو عدلیہ کے بھی فرائض میں شامل ہے اور اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو چوٹ کھا جائيں گے۔

اس وقت آپ کے پاس وسائل ہیں۔ عدلیہ کا مطلب ہے ملک میں انصاف کا ادارہ، ملک کی عدالتیں آپ کے ہاتھ میں ہیں، یہ وسیلہ آپ کے ہاتھ میں ہے، اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیجیے، آپ کو اس اَقامُوا الصَّلوۃَ وَ آتَوُا الزَّکاۃَ وَ اَمَرُوا بِالمَعرُوفِ وَ نَھَوا عَنِ المُنکَر کے معاملے میں اور قرآن میں فریضے کے عنوان سے مذکور دیگر چیزوں کے لئے اسے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے، بروئے کار لانا چاہیے، اگر آپ نے استعمال نہیں کیا تو گویا نعمت ضائع ہوئی۔

عام طور پر بڑی طاقتیں دو پہلو سے چوٹ کھاتی ہیں: ایک پہلو، طاقت کا غلط استعمال ہے اور دوسرا پہلو، طاقت کا عدم استعمال ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے پاس ایک طاقت ہے، قوت ہے، وہ اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اپنی ذاتی خواہشات، گروہی خواہشات، بدعنوانی وغیرہ کے لیے اسے استعمال کرتا ہے، یہ ایک طرح سے قوت کو ضائع کرنا ہے، ایک دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اس طاقت کو استعمال ہی نہ کرے، اسے یوں ہی رہنے دے، یہ بھی قوت کو ضائع کرنا ہے، یہ بھی اللہ کی نعمت کی ناشکری ہے، کوئي فرق نہیں ہے، سستی، کاہلی، غفلت اس بات کا سبب بنتی ہے کہ یہ قوت، ختم ہو جائے۔

تو عدلیہ نظام مملکت چلانے میں طاقت و قوت کا ایک اہم شعبہ ہے۔ میں نے ہمیشہ کچھ سفارشیں کی ہیں، چاہے وہ اس وقت کی عدلیہ ہو، ہماری دو لوگوں کی، تین لوگوں کی نشست میں جو جناب محسنی صاحب کے ساتھ ہوئي ہے، یا عمومی نشست میں جو عدلیہ کے محترم افراد کے ساتھ بارہا ہوئي ہے، میں نے ہمیشہ کچھ سفارشیں کی ہیں۔ بحمد اللہ جناب محسنی صاحب، عدلیہ کے سربراہ، ایک مومن اور انقلابی انسان ہیں، واقعی یہ مومن ہیں، انقلابی ہیں، محنتی ہیں، عوامی شخصیت ہیں، دکھاوے سے دور ہیں، یہ بہت اہم بات ہے۔ یہ ایک عوامی شخصیت ہیں جس کا ذکر انھوں نے یہاں بھی کیا، لوگوں سے ملتے ہیں، ان کے درمیان جاتے ہیں۔ یہ عدلیہ کے مختلف امور سے آگاہ ہیں، برسوں سے عدلیہ میں ہیں اور اس کے مختلف امور سے آگاہ ہیں اور ساتھ ہی بات سننے والے بھی ہیں، تنقید کرنے والوں اور دوسروں کی ہر باتیں سنتے ہیں، یہ سب ان کی قابل تعریف خصوصیات ہیں۔ تو جو سفارشیں میں عرض کرتا ہوں – چاہے وہ محترم محسنی صاحب سے عرض کروں یا آپ عزیز بھائيوں اور بہنوں سے – ان شاء اللہ ان پر عمل کیا جائے، اسے صرف ایک سفارش یا نصیحت نہ سمجھا جائے۔

سب سے پہلی بات تبدیلی کے اسی دستاویز کے بارے میں ہے جس کا موصوف نے ذکر کیا۔  تبدیلی کا یہ دستاویز، تغیر و اصلاح کے سلسلے میں سب سے پیشرفتہ دستاویزوں میں سے ایک ہے۔ سب سے پہلے اسے  تیار کیا گيا، پھر جناب رئيسی صاحب کے زمانے میں اس پر نظر ثانی کی گئي، اس نظر ثانی میں مزید کئي اہم نکات اس میں شامل کیے گئے، یہ مکمل ہو گيا، اب اس پر عمل ہونا چاہیے۔ عدلیہ کے محترم سربراہ کی ذمہ داری ہے اور وہ اس پر نظر رکھیں گے لیکن عدلیہ کے مختلف شعبوں میں اس پر کام ہونا چاہیے، ججوں کو بھی، دیگر متعلقہ افراد  کو بھی اور عہدیداروں کو بھی اس سلسلے میں کام کرنا چاہیے۔ ہم تک جو رپورٹیں پہنچتی ہیں، ان کے مطابق اس سلسلے میں ابھی اس سطح تک کام نہیں ہوا جیسا انسان سوچتا ہے کہ ہونا چاہیے۔ اس دستاویز کے مطابق اسٹاف تیار ہونا چاہیے۔

اس دستاویز کے مطابق عمل ہونا چاہیے، یعنی عدلیہ کو، افواہوں، باتوں، مخالفت اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے سامنے پسپائي نہیں اختیار کرنی چاہیے۔ اس کے سامنے ایک سیدھا راستہ ہے اور اسے پوری قوت سے اس راستے پر چلنا ہے، افواہوں سے اور اس قسم کی باتوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے کہ اس کام سے چار لوگوں خوش ہوں گے اور چار کو برا لگے گا۔ یہ پہلی سفارش۔

دوسری سفارش یہ ہے کہ بدعنوانی سے مقابلے پر بہت سنجیدگي سے کام کیا جائے۔ بدعنوانی پائی جاتی ہے۔ جناب محسنی صاحب نے کسی حالیہ نشست میں بڑی اچھی بات مجھ سے کہی، انھوں نے کہا – اس کا ظاہری مفہوم یہ تھا – کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے خود عدلیہ کے اندر بدعنوانی سے مقابلہ کریں گے، یہی درست ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عدلیہ کے اندر بدعنوانی نہیں ہے۔ البتہ زیادہ تر جج حضرات ایماندار، شریف، مومن، محنتی اور واقعی باوقار ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے لیکن اگر ایک ہزار لوگوں کے ایک گروپ میں دس خراب افراد آ جائيں تو وہ دوسروں کو بھی عزت اور کام وغیرہ کے لحاظ سے نقصان پہنچا سکتے ہیں، ان ہی دس افراد کو تلاش کرنا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ کرپشن کے اسٹرکچر کا مقابلہ کیا جائے، کبھی کبھی بعض جگہوں پر – چاہے وہ عدلیہ میں ہو، انتظامیہ میں ہو یا دوسری جگہوں پر ہو– کچھ اسٹرکچر ایسے ہوتے ہیں کہ  فطری طور پر بدعنوانی پیدا کرتے ہیں، ان ڈھانچوں کو منہدم کیا جانا چاہیے، اس طرح کے ڈھانچوں کو تلاش کیجیے، انھیں منہدم کیجیے، یہ دوسری سفارش تھی۔

تیسری سفارش عدالتی علم کی تقویت کے بارے میں ہے۔ عدالتی علم کی تقویت ہونی چاہیے۔ بہت سے فیصلے یا کمزور ہیں یا ادھورے ہیں – کبھی اتفاق سے کسی رپورٹ کے مطابق، کوئي بات، بعض فیصلے ہم تک پہنچے، ہمیں دکھائے گئے– انسان جب انھیں دیکھتا ہے تو پاتا ہے کہ ان میں سے بعض فیصلے بہت کمزور ہیں۔ مثال کے طور پر جج نے ایک فیصلے کے لیے جو دس دلیلیں پیش کی ہیں، ان میں سے زیادہ تر دلیلوں پر اعتراض کیا جا سکتا ہے، کمزور ہیں۔ دلیل کو ٹھوس ہونا چاہیے، مضبوط ہونا چاہیے۔ صرف عدالت کے سلسلے میں ہی نہیں بلکہ پبلک پراسیکیوشن تک کے معاملے میں بھی۔ پبلک پراسیکورٹر، چارج شیٹ میں جو دلائل پیش کرتا ہے، انھیں ٹھوس دلائل ہونا چاہیے، وہ ان دلائل کا دفاع کر سکے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پراسیکیورٹر نے جو بھی کہا ہے اسے  آخرکار قبول کر ہی لیا جائے گا، لیکن ان دلیلوں کو ایسا ہونا چاہیے جن کا دفاع کیا جا سکے۔ جہاں تک جج اور عدالت کی بات ہے تو اس پہلو کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ تو یہ علمی و عدالتی مہارت کا مسئلہ ہوا، موضوع پر بھی مہارت ہو اور حکم پر بھی، یعنی عدالتی علم کی سطح مزید اونچی ہونی چاہیے۔

چوتھی سفارش عدلیہ کے اندر حوصلہ افزائي اور انتباہ کے مسئلے کے بارے میں ہے۔ انتباہ کے بارے میں تو ہم عرض کر چکے، حوصلہ افزائي بھی ہونی چاہیے۔ دیکھیے واقعی کچھ لوگ ہوتے ہیں، انسان دیکھتا ہے – یعنی جانتا ہے، دیکھتا ہے کہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ہمیں دور سے معلومات حاصل ہوتی ہیں – واقعی وہ کوشش کرتے ہیں، زحمت اٹھاتے ہیں، بعض اوقات تو اپنے آرام کا وقت بھی عدالتی کاموں میں صرف کر دیتے ہیں، ایسے افراد کی شناخت ہونی چاہیے، ان کی حوصلہ افزائي ہونی چاہیے، مختلف طرح سے حوصلہ افزائي ہو سکتی، صرف مالی پہلو سے ہی نہیں، عزت افزائي ہے، لوگوں کے سامنے تعارف ہے اور اسی طرح کی دوسری باتیں، بہرحال ان کی حوصلہ افزائي ہونی چاہیے۔ یہ اگلی سفارش تھی۔

پانچواں نکتہ یہ ہے کہ عدلیہ کے اختیارات اور مشن کا کوئي بھی حصہ، جو آئين اور اس کے قوانین کے تحت طے کیے گئے، بیکار نہ رہے، کوئي بھی حصہ بیکار نہ رہے۔ فرض کیجیے، سماجی قوانین کے میدان میں پراسیکیوٹر جنرل کی کچھ ذمہ داریاں ہیں اور سماجی حقوق کے سلسلے میں پوری نگرانی ہونی چاہیے – اس کے ایک مسئلے کی طرف میں بعد میں اشارہ کروں گا – کہ سماجی حقوق ضائع نہ ہوں۔ جہاں بھی یہ محسوس ہو کہ سماجی اور عمومی حقوق ضائع ہو رہے ہیں، قانون کے مطابق سنجیدگي کے ساتھ میدان میں آ جانا چاہیے۔ ان معاملوں میں جذبات کو شامل کر کے اور نعرے بازی کے ساتھ میدان میں اترنے سے میں متفق نہیں ہوں لیکن ٹھوس قانون کے تحت سامنے آئیں۔ یہ ایک اہم کام ہے، یا جرم کی روک تھام کے مسئلے پر، جو عدلیہ کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے اور آئین میں بھی موجود ہے، سنجیدگي سے کام ہونا چاہیے اور اس سلسلے میں بالکل بھی تساہلی نہیں ہونی چاہیے۔

عام قوانین اور عدلیہ کے روٹین کے کاموں کے بارے میں عرض کروں کہ زمینوں سے متعلق یہ جو قانون تھا کہ شہروں اور دیہی علاقوں میں یہ واضح کیا جائے ہر ایک میٹر زمین کا حکم کیا ہے، یہ کس کی ہے، وغیرہ وغیرہ، اسے نتیجے تک پہنچنا چاہیے، اسے انجام دیا جانا چاہیے، اگر یہ کام ہو گيا تو، زمین ہڑپنے اور پہاڑ ہڑپنے وغیرہ کا سلسلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ زمین ہڑپنے کی وجہ سے دوسری مشکلات بھی شروع ہو جاتی ہیں۔

چھٹا نکتہ: عدالتی ناظر یا لیگل آفیسرز کے ساتھ عدلیہ کے رابطے کا طریقہ بھی بہت اہم ہے۔ کئي پہلوؤں سے اس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ایک پہلو یہ ہے کہ لیگل آفیسرز کے رویے کی نگرانی کی جائے کہ انھوں نے کچھ عرصے پہلے ہی کچھ احکامات جاری کیے ہیں – میں نے ٹیلی ویژن سے سنا ہے – لیگل آفیسرز جو کام  کرتے ہیں ان میں سے بعض کام، ملزم کے سلسلے میں نہیں ہونے چاہیے۔ یہ معاملے کا ایک پہلو ہے کہ لیگل آفیسر کے رویے پر نظر رکھی جائے کہ وہ زیادہ سختی اور شدت پسندی وغیرہ سے کام نہ لے۔

ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ عدلیہ، لیگل آفیسر کی رائے سے متاثر نہ ہو، یہ آفیسرز بااثر اور اہم ہیں، ان کے پاس طاقت ہے، لوگوں اور امور کے بارے میں ان کی رائے ہیں، عدلیہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، اسے اپنے طور پر جانچ کرنی ہوتی ہے، وہ ان کی رائے سے متاثر نہ ہو، یہ بھی ایک پہلو ہے۔

معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ان ہی لیگل آفیسرز کی کبھی کوئي ماہرانہ رائے ہوتی ہے جس پر تحقیق ہو چکی ہوتی ہے، اس طرح کی ماہرانہ رائے کو نظر انداز نہ کریں، عدلیہ اس طرح کی ماہرانہ رائے سے فائدہ اٹھائے، اب چاہے پولیس میں، چاہے انٹیلی جینس منسٹری میں یا پھر دوسری جگہوں پر، کچھ لیگل آفیسر ہیں جن کی رائے کبھی ماہرانہ اور تحقیق والی ہوتی ہے، اس طرح کی رائے پر توجہ دی جانی چاہیے۔

ایک دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے لیگل آفیسرز مسلسل یہ شکایت کرتے ہیں کہ مثال کے طور پر جب ہم اعتراض کرتے ہیں کہ کیوں فلاں معاملے میں آپ نے اقدام نہیں کیا تو کہتے ہیں کہ ہم نے اقدام کیا، عدلیہ کے پاس معاملے کو بھیجا لیکن عدلیہ نے اسے یوں ہی چھوڑ دیا۔ ہم عدلیہ سے پوچھتے ہیں کہ کیوں؟ عدلیہ والے کہتے ہی کہ قانون نہیں تھا! تو اگر آپ کے پاس قانون نہیں ہے، تو قانون کون فراہم کرے گا؟ آپ ہی کو فراہم کرنا ہوگا نا، بل تیار کیجیے، اس کی تدوین کیجیے، پارلیمنٹ کو دیجیے تاکہ وہ اسے آپ کے لیے منظور کرے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ ایک لیگل آفیسر کوئي زحمت کرے، کوشش کرے، کوئي کام انجام دے اور پھر وہ کام عدلیہ میں آئے اور اسے عدلیہ کی بے توجہی یا اس خاص معاملے میں جج کی عدم مہارت کا سامنا کرنا پڑے اور وہ ہاتھ سے نکل جائے۔ بنابریں یہ چھٹا نکتہ ہے کہ عدلیہ اور لیگل آفیسرز کے درمیان رابطے پر ایک ہمہ گير نظر ہو۔

ساتواں نکتہ لوگوں کی نفسیاتی سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ ایک سماجی حق، جس کے بارے میں، میں نے کہا کہ اشارہ کروں گا، یہ ہے، عوام کا ایک سماجی حق یہ ہے کہ انھیں ذہنی سکون اور نفسیاتی سیکورٹی حاصل ہو۔ ذہنی سکون اور نفسیاتی سیکورٹی کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ کہ ہر دن کوئي نہ کوئي افواہ، جھوٹ اور خوف پھیلانے والی بات نشر نہ ہو۔ کل تک صرف اخبار تھے جو یہ کام کیا کرتے تھے، اب سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا کا بھی اضافہ ہو گيا ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد یا کئي دن میں ایک بار، کبھی کبھی کچھ گھنٹوں میں ایک بار کوئي افواہ، کوئي جھوٹ اور کوئي بات کوئي معلوم یا نامعلوم انسان سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا میں پھیلا دیتا ہے، لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیتا ہے، لوگوں کے ذہن میں الجھن پیدا کر دیتا ہے۔ ایک جھوٹ بولتا ہے، اسے پھیلا دیتا ہے، تو اس سے عوام کا ذہنی سکون اور نفسیاتی سیکورٹی ختم ہو جاتی ہے۔ عدلیہ کی ایک ذمہ داری اس مسئلے سے نمٹنا ہے۔ البتہ یہاں بھی میں نے سنا کہ بعض لوگوں نے کہا کہ اس سلسلے میں قانون نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ ان ہی موجودہ قوانین کو استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے حکم کو سمجھا جا سکتا ہے، اگر آپ کے پاس قانون نہیں ہے تو فورا قانون تیار کیجیے، یہ اہم چیزیں ہیں۔ تو یہ بھی ایک مسئلہ تھا۔ البتہ کبھی کبھی ان میں سے بعض خبروں کا منبع خود عدلیہ ہے۔ یعنی کبھی عدلیہ کا کوئي آدمی کہیں پر چپکے سے کسی شخص کے بارے میں، کسی ادارے کے بارے میں کوئي بات کہہ دیتا ہے اور خود یہ بات رائے عامہ پر اثر ڈالتی ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ جو کیس آپ کھولتے ہیں اس پر آخر تک کام کیجیے اور اسے پورا کیجیے۔ مختلف کیس ہیں جن کا تعلق عمومی مسائل سے ہے اور ان میں عدلیہ داخل ہو چکی ہے، مثال کے طور پر بعض کارخانوں کے بارے میں، بعض غیر قانونی قبضوں کے بارے میں اور ایسے دوسرے مسائل کے بارے میں، انھیں مکمل کیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ زخم کھول دیجیے اور پھر اسے یوں ہی چھوڑ دیجیے۔ البتہ شروع میں کچھ آوازیں اٹھتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ کام ہو رہا ہے، پھر رفتہ رفتہ اسے فراموش کر دیا جائے، نہیں۔ جو بھی کام آپ شروع کرتے ہیں، جو بھی مسئلہ - انھوں نے کہا کہ مسئلہ بہ مسئلہ؛ اچھی بات ہے، ایک ایک مسئلے پر کام کرنا اچھی بات ہے - اس کی ترجیح کی وجہ سے آپ اس پر خاص طور پر کام کرتے ہیں، اس مسئلے کو انجام تک پہنچائيے، کیس کو ختم کیجیے، اس کے بعد ہی ہٹیے۔

آپ کا کام سخت ہے، آپ کا کام مشقت طلب ہے! واقعی جو کام بہت سخت ہیں، ان میں سے ایک عدلیہ کا کام ہے۔ میں انقلاب کے آغاز سے، انقلاب کے اجرائي کاموں میں شامل رہا ہوں، میں ہمیشہ کہتا تھا کہ میں عدلیہ سے متعلق کاموں کو قبول کرنے سے ڈرتا ہوں اور ان سے اجتناب کرتا ہوں کیوںکہ یہ بہت سخت ہے، بہت بھاری ہے، آپ نے بہت بھاری کام اپنے ذمے لیا ہے۔ تو اسی تناسب سے اس کا اجر بھی بہت بھاری ہے، یعنی کام کی سنگینی کے تناسب سے خدا کا اجر و ثواب بھی زیادہ ہے، ان شاء اللہ۔

خدا کے لیے کام کیجیے اور ہدایت الہی کے ساتھ کام کیجیے اور ان شاء اللہ، اجر الہی آپ کے شامل حال ہوگا۔ ممکن ہے کہ آپ کوئي اچھا کام کریں اور کوئي بھی اسے جان نہ پائے یہاں تک کہ آپ سے اوپر والا عہدیدار بھی، آپ کا سربراہ بھی، آپ کا ماتحت بھی نہ جان پائے کہ آپ نے یہ کچھ گھنٹے اضافی کام کیا ہے، اس بدعنوانی سے، اس انحراف سے پوری سنجیدگي سے مقابلہ کیا ہے، ممکن ہے کہ ان باتوں کو کوئي جان نہ پائے لیکن کرام الکاتبین جانتے ہیں اور ان سب کے پیچھے خداوند متعال بھی حاضرو ناظر ہے اور دیکھ رہا ہے اور ان شاء اللہ آپ کا اجر خدا کے ذمے ہے۔

ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم امام خمینی کی پاکیزہ روح کو شاد کرے، شہداء کی پاکیزہ ارواح کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور کرے، عزیز شہید بہشتی کی روح کو ان شاء اللہ خداوند عالم اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کرے اور ہم سب اور آپ کی عاقبت کو بخیر کرے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں عدلیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین محسنی اژہ ای نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) سید ابوالحسن بنی صدر

(3) فوجی کمانڈروں بریگيڈیئر ولی اللہ فلاحی، بریگيڈیئر جنرل جواد فکوری، بریگیڈیئر جنرل سید موسی نامجو، یوسف کلاہدوز اور محمد جہان آرا 29 ستمبر 1981 کو ایک طیارے کے ذریعے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے تہران روانہ ہوئے تھے لیکن ان کا طیارہ تہران کے نواح میں واقع کہریزک کے علاقے میں گر گيا اور طیارے میں بیٹھے سبھی افراد شہید ہو گئے۔

(4) سورۂ یسین، آيت 38 اور 39، اور سورج، وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلا جا رہا ہے، یہ زبردست علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند، اُس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں۔

(5) سورۂ یسین، آيت 40، نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے۔

(6) منجملہ، سورۂ بقرہ، آيت 194، اور جان لو کہ خدا، متقیوں کے ساتھ ہے۔

(7) سورۂ عنکبوت، آيت 6، جو بھی کوشش کرتا ہے، وہ صرف اپنے لیے کرتا ہے۔

(8) سورۂ نساء، آیت 122، اور بات میں، اللہ سے زیادہ سچّا کون ہے؟

(9) سورۂ حج، آيت 40، یقینا خدا اس کی مدد کرے گا، جو اس (کے دین) کی مدد کرے گا۔

(10) سورۂ محمد، آيت 7، اگر تم خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔

(11) سورۂ ابراہیم، آيت 7، اگر تم حقیقت میں شکر ادا کرو تو ہم تمھاری نعمتوں کو بڑھا دیں گے۔

(12) سورۂ عنکبوت، آيت 69، اور جنھوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی ہے، یقینا ہم انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(13) ملک بھر سے آئے ہوئے رضاکاروں کے اجتماع سے خطاب، 23 نومبر 2016

 (14) سورۂ انفال، آيت 48، پھر جب دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا۔

(15) سورۂ شعراء، آيت 61

(16) سورۂ شعراء، آيت 62

(17) سورۂ محمد، آيت 7، اگر تم خدا کی مدد کروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا۔

(18) سورۂ جن، آیت 16، اور اگر لوگ راہ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم انھیں گوارا پانی سے سیراب کرتے۔

(19) اور جب تمھارے پروردگار نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تمھاری نعمت کو اور زیادہ بڑھا دوں گا اور اگر نعمت کی ناشکری کرو گے تو یقینا میرا عذاب بہت سخت ہے۔

(20) اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، ان سے ڈرو، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین حامی ہے۔ پھر وہ اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ (میدان جنگ سے) پلٹ آئے جبکہ انھیں کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا۔

(21) سورۂ آل عمران، آيت 152

(22) سورۂ فتح، آيت 23، یہ اللہ کی سنت ہے جو پہلے سے چلی آ رہی ہے اور تم اللہ کی سنت میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤگے۔

(23) سورۂ حج، آیت 41، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، اچھے کاموں کا حکم دیں گے اور برائي سے روکیں گے۔

(24) نہج البلاغہ، حکمت نمبر 374