میں نے ایک دستاویز دیکھا ہے کہ جو دسیوں سال پہلے یعنی شمالی افریقا میں استعمار کی آمد کے آغاز کے وقت کا ہے۔

شمالی افریقا کے ممالک، اہلبیت علیہم السلام سے بہت زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔ اسلامی مسلکوں میں سے ان کا جو بھی مسلک ہو، وہ محب اہلبیت ہے۔ سوڈان، مراکش اور دیگر ممالک میں مہدویت کا عقیدہ بڑا مضبوط ہے۔

جس وقت سامراج، مذکورہ علاقوں میں داخل ہوا- ان علاقوں میں سامراج پچھلی صدی میں داخل ہوا تھا- تو اس کی راہ میں رکاوٹ بننے والے مسائل میں سے ایک، مہدویت کا عقیدہ تھا!

جو دستاویز میں نے دیکھا، اس میں سامراج کے  بڑے سرغنہ اور کمانڈر اس بات کی تاکید کر رہے تھے کہ ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ عوام کے درمیان سے مہدویت کا عقیدہ رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔

جس وقت سامراجی اور انگریز سامراجی ان افریقی علاقوں کے بعض ممالک میں تھے - اس میں کوئي فرق نہیں ہے کہ سامراج کہاں کا ہو - غیر ملکی سامراجیوں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ جب تک ان لوگوں میں مہدویت کا عقیدہ رائج رہے گا، ہم ان کے ممالک کو اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکتے۔

دیکھیے، مہدویت کا عقیدہ کتنا اہم ہے!

وہ لوگ کتنی غلطی کرتے ہیں جو روشن فکری اور تجدد پسندی کے نام پر اسلامی عقائد پر، بغیر مطالعے کے، بغیر اطلاع کے اور یہ جانے بغیر کہ وہ کیا کر رہے ہیں، سوالیہ نشان لگاتے ہیں اور انھیں غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں! یہ لوگ وہی کام، جو دشمن چاہتا ہے، بڑی آسانی سے انجام دے دیتے ہیں! اسلامی عقائد اس طرح کے ہیں۔

امام خامنہ ای

16 دسمبر 1997