بسم اللہ الرّحمن الرّحیم(1)
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے منسوب اس حسینیہ میں منعقد ہونے والی یہ نشست سب سے اچھی، سب سے ضروری اور ان شاء اللہ سب سے مفید نشستوں میں سے ایک ہے۔ سینئرز کو خراج تحسین پیش کرنا، سبھی کا فرض ہے، ہر میدان کے سینئرز، اس میدان کے چاہنے والوں کے لیے قابل احترام ہوتے ہیں۔ مقدس دفاع - وہ ہیجان انگیز، حادثات سے بھرا ہوا، معانی و فوائد سے لبریز دور - ان ادوار میں سے ہے جو ہمارے گزشتہ کل، آج اور آنے والے کل کے لیے گہرے اثرات کا حامل ہے۔ بنابریں اس حادثے اور اس اہم واقعے کے سینئر افراد پر قطعی طور پر توجہ دی جانی چاہیے، ان کا احترام کیا جانا چاہیے اور ان کے سلسلے میں اہتمام ہونا چاہیے۔ مقدس دفاع کے آپ سینیئر سپاہیوں کی خدمت میں، جو لوگ یہاں پر موجود ہیں، یا مختلف شہروں میں (ویڈیو لنک کے ذریعے) ہماری باتیں سن رہے ہیں اور نشستوں میں موجود ہیں یا پھر وہ دسیوں ہزار سپاہی جو نشستوں میں نہیں ہیں لیکن سینیئر سپاہیوں میں شامل ہیں، آپ سب کی خدمت میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتا ہوں۔
در حقیقت سینیئر سپاہی "اَلسّابِقونَ الاَوَّلون"(2) کے مصداق ہیں "وَ السّابِقونَ السّابِقون" کے مصداق ہیں، یعنی وہ لوگ جنھوں نے دوسروں سے پہلے ضرورت کو سمجھ لیا اور پہچان لیا اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دوڑ پڑے، وہ بھی میدان جنگ، میدان جہاد اور میدان ایثار جیسے سخت میدان میں، سابقون (سب سے آگے رہنے والے) یہ لوگ ہیں، بنابریں انھیں خراج تحسین پیش کرنا اور ان کا احترام کرنا، ہم سب کا فرض ہے۔
خیر، مقدس دفاع کو تیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ واقعات کا نتیجہ دور سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ جب ہم واقعے کے مرکز میں ہیں تو اس واقعے کے تمام پہلوؤں کو صحیح طریقے سے نہیں دیکھ سکتے۔ مطلب یہ کہ جب آپ مقدس دفاع کے دوران جدوجہد میں مصروف تھے تو قطعی طور پر آج کی طرح اس روداد کے پہلوؤں کو نہیں دیکھ سکتے تھے اور اس کی خصوصیات، اس کے طول و عرض، اس کی گہرائی اور اس کے اثرات کا مشاہدہ نہیں کر سکتے تھے، لیکن آج یہ کام ہو سکتا ہے۔ آج مقدس دفاع کو اس طرح دیکھا جا سکتا ہے، جس طرح سے وہ رونما ہوا تھا اور میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا، جنرل باقری نے جو کام یہاں بتائے ہیں وہ بخوبی اور مکمل انداز میں انجام پا گئے اور ان کے نتائج پر توجہ بھی رکھی گئی تو اس معرفت اور آگاہی میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا اور مقدس دفاع کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے گا۔ پھر فطری طور پر ہماری تاریخ میں، اس دور کو ایک درخشاں اور مؤثر دور کی حیثیت سے صحیح طریقے سے پہچانا جائے گا۔ بنابریں یہ کام ضروری ہے اور اسے انجام پانا چاہیے۔ مقدس دفاع کے سلسلے میں جو کام ہونے چاہیے ان کاموں -یعنی اس اہم واقعے کے مختلف پہلوؤں کی تشریح- کے بارے میں اس سے پہلے تفصیل سے بات کر چکا ہوں، آج بھی اپنی باتوں کے آخر میں اس سلسلے میں دو تین نکات عرض کروں گا لیکن اس بات پر توجہ ہونی چاہیے کہ یہ مسئلہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ مقدس دفاع کے بارے میں آپ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن نئي نسل نہیں جانتی، نئی نسل مقدس دفاع کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح سے آپ لوگ، جو مقدس دفاع کے دوران موجود تھے، مسائل اور واقعات کو جانتے ہیں، ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ آج کی نسل بھی مقدس دفاع کو اسی طرح جانے اور پہچانے، یہ وہ توقع ہے جو اس سلسلے میں مجھے، اپنے آپ سے اور دوسروں سے ہے۔
اب میں مقدس دفاع کے کچھ حقائق بیان کرنا چاہتا ہوں اور میرا مقصد بھی یہ ہے کہ یہ باتیں ہمارے نوجوانوں کے کانوں تک پہنچ جائيں، ہمارے بچوں کے کانوں تک پہنچ جائيں۔ میں نوجوانوں سے کسی حد تک رابطے میں ہوں، کبھی کوئي سوال کیا جاتا ہے، کبھی کوئي بات کی جاتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ لوگ بہت سی باتوں کے بارے میں نہیں جانتے، واقعی انھیں اطلاع نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ حقائق، مقدس دفاع کے حقائق ان کے کانوں تک پہنچ جائيں۔ البتہ ہم اس محدود نشست میں چند جملوں سے زیادہ عرض نہیں کر سکتے لیکن اصل کام، اس امر کے ذمہ داروں کے کندھوں پر ہے جن میں سے بعض اس نشت میں تشریف رکھتے ہیں۔ وہ حقائق جن پر ہم جنگ اور مقدس دفاع کے بارے میں توجہ دیتے ہیں - جن کے بارے میں ہم بارہا کہہ چکے ہیں - آج صرف ایک دعوی نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کبھی ہم دعوی کرتے تھے کہ دنیا کی تمام بڑی طاقتیں ہم سے لڑ رہی تھیں، ہماری جنگ ایک عالمی جنگ تھی، ہم یہ کہتے تھے، مشرق، مغرب، نیٹو وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ ہمارا اس وقت کا دعوی تھا اور ممکن تھا کہ کوئي کہتا کہ یہ تو آپ کا دعوی ہے لیکن آج وہ لوگ خود یہ باتیں کہہ رہے ہیں، آج وہ لوگ خود دستاویزات اور ثبوت سامنے لا رہے ہیں اور ہم ان کے اعترافات دیکھ رہے ہیں، ان کے دستاویزات دیکھ رہے ہیں، لہذا ہماری وہی باتیں اور وہی دعوے، ثابت ہوتے جا رہے ہیں۔ میں جو حقائق عرض کر رہا ہوں وہ اسی طرح کے ہیں۔
جی ہاں، حملہ صدام نے کیا - جو اقتدار کا دیوانہ تھا - لیکن صدام کی پشت پر عالمی سامراج تھا، زیادہ تر مغرب اور دوسرے پلڑے میں سابق سوویت یونین اور اس کے پٹھو مشرقی ممالک، یہ لوگ صدام کے پیچھے تھے۔ انھوں نے اسے ورغلایا بھی کہ وہ یہ کام کرے - البتہ وہ خود بھی اقتدار پرست تھا اور اس کام کے لیے اس کی راہ ہموار تھی لیکن ان لوگوں نے اسے ترغیب دلائي اور دوسرے الفاظ میں، اسے گرین سگنل دیا - اس سے وعدہ بھی کیا کہ ہم تمھاری پشت پناہی کریں گے اور یہ کام انھوں نے کیا بھی یعنی انھوں نے صدام سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کیا۔ بنابریں جنگ میں ہمارا فریق صرف صدام اور عراقی کی بعثی حکومت نہیں تھی، بلکہ عالمی سامراج تھا، تسلط پسندانہ نظام تھا۔
ایک حقیقت جسے میں زور دے کر پیش کرنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ انقلاب کے بعد ملک پر فوجی حملہ، غیر متوقع نہیں تھا، انقلابی نظام پر ان کا حملہ ایک فطری بات ہے، کیوں؟ اس لیے کہ یہ لوگ انقلاب سے بہت زیادہ طیش میں تھے اور یہ، اس بڑے انقلاب پر ان کا ردعمل تھا۔ اس انقلاب نے وہ کام کیے جن کے بہت سے پہلوؤں کی طرف شاید خود ہم بھی متوجہ نہیں تھے، یہ لوگ اس دن ہم سے زیادہ یہ بات سمجھ رہے تھے کہ اس انقلاب سے دنیا میں کیا کچھ ہو گيا ہے۔ صرف یہ مسئلہ نہیں تھا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے امریکا یا سامراج یا پھر تسلط پسندانہ نظام کو ایک وقتی سیاسی شکست دے دی ہو، صرف یہ بات نہیں تھی، یہ انقلاب، تسلط پسندانہ نظام کے سامراج کے لیے ایک خطرہ تھا۔ آپ میں سے زیادہ تر کی عمر ایسی نہیں ہے کہ آپ نے ان دنوں کے واقعات کو اس وقت کے اخبارات و جرائد اور دستاویزات میں دیکھا ہو، لیکن حقیقت یہی ہے۔ ان دنوں دنیا میں حکومتیں اور قومیں یا اس دھڑے سے وابستہ تھیں یا اس دھڑے میں شامل تھیں۔ البتہ یہ وابستگي مختلف طرح کی تھی لیکن بہر حال وابستگي تھی، مطلب یہ کہ جو مغربی نظام سے وابستہ تھا، وہ اس کے سہارے مشرقی نظام کے خلاف کچھ باتیں بول سکتا تھا، اس طرف بھی ایسا ہی تھا۔ ان حالات میں اگر ایک قوم اور ایک ملک کھڑا ہو جائے اور تسلط پسندانہ نظام کے اس سامراج سے پوری طرح خودمختار رہتے ہوئے سینہ تان کر اپنی بات کہے، کوئي نیا پیغام دے تو یہ چیز بالکل قابل برداشت نہیں تھی۔ یہ بات کہ کوئي قوم، امریکا سے نہ ڈرے، اس وقت دنیا پر حکمراں فوجی، سیاسی اور اقتصادی طاقت سے خوفزدہ نہ ہو، مرعوب نہ ہو، ان کے لیے بالکل بھی قابل تحمل نہیں تھی، وہ بھی ایک ایسے سیاسی نظام کی طرف سے، جو ایک ایسی جگہ قائم ہوا تھا، جو ان میں سے دو طاقتوں یعنی امریکا کی امید، بھروسے اور لالچ کا مرکز تھا، یعنی ایران۔
مجھے پتہ نہیں آپ ان کتابوں کو، ان تحریروں کو دیکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، وقت ملتا ہے یا نہیں۔ اس وقت مغرب والے، امریکی اور خاص طور پر یہی مغربی طاقتیں یعنی امریکا اور بعض یورپی ملک، ایران کو جس طرح سے دیکھتے تھے وہ پوری طرح سے اطمینان والی نظر تھی یعنی وہ ایران پر تسلط قائم رکھ سکتے ہیں اور بغیر کسی خوف اور بغیر کسی تشویش کے یہاں کے بے شمار وسائل اور فوائد سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ ایک ایسی جگہ پر اچانک ہی ایک انقلاب آ جائے، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ جیسی ایک شخصیت سر اٹھائے، قوم کو لام بند کر دے، ایک صف میں لے آئے اور اس وقت تین کروڑ سے کچھ زیادہ کی ایک قوم پوری طاقت سے ڈٹ جائے، یہ چیز ان کے لیے قطعی قابل برداشت نہیں تھی، اس لیے انھیں بدلہ لینا تھا، انتقام لینا تھا، جوابی وار کرنا تھا، انھوں نے وار کیے بھی، لیکن ان کا اثر نہیں ہوا۔ انھوں نے بغاوت بھی کروائي، طبس میں فضائي فوجی حملے بھی کیے، ایرانی قبائل کو اکسایا بھی، اس طرح کے بہت سے کام کیے، لیکن کچھ نہیں ہوا، انھیں کوئي نتیجہ حاصل نہیں ہوا، اس لیے فوجی جنگ مسلط کرنے کی ضرورت تھی۔ فوجی حملہ بھی اصولی طور پر کسی ہمسائے کی جانب سے ہونا چاہیے تھا، ایک مکمل فوجی جنگ، ایک ہمسائے کی طرف سے شروع ہونی چاہیے تھی۔ یہ ہمسایہ انھیں بڑی آسانی سے مل گيا، اقتدار کا ایک دیوانہ، جاہ طلب، ایران کے پڑوس میں، ماضی میں بھی ایسے کچھ کام کر چکا تھا، ان لوگوں نے اسے ورغلایا، اکسایا اور اس نے جنگ شروع کر دی۔ بنابریں یہ فوجی کارروائي کوئي ایسی چیز نہیں تھی جو غیر متوقع ہو، یہ کام تو ہونا ہی تھا۔
ان دنوں میں وزارت دفاع میں تھا۔ میری آمد و رفت زیادہ تھی، جب ہم ملک کے اعلی فوجی عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرتے تھے تو وہ کچھ خدشات ظاہر کرتے تھے، کچھ اندازے لگاتے تھے لیکن انقلابیوں کو بالکل یقین نہیں تھا کہ اس طرح کا کوئي سنجیدہ حملہ ہو سکتا ہے۔ جی ہاں، سرحدی جھڑپیں تھیں لیکن اس طرح کے ایک ہمہ گیر اور مکمل حملے کا ہم لوگوں کو بالکل بھی اندازہ نہیں تھا مگر ہم سے زیادہ تجربہ کار لوگ - اس وقت ہمارے پاس کوئي تجربہ نہیں تھا - وہ لوگ جن کے پاس ہم سے زیادہ تجربہ تھا، سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کی چیز ہونے والی ہے۔ گنی کے صدر احمد سکوتورہ، جو افریقا کی نمایاں سیاسی شخصیات میں سے ایک تھے اور خود مختار انسان بھی تھے، کئي بار ایران آئے، میری صدارت کا ابتدائي دور تھا کہ وہ ایک وفد کے ساتھ آئے تاکہ ہم سے درخواست کریں کہ ہم عراق سے جنگ بندی کر لیں، جنگ کو شروع ہوئے ایک دو سال ہی ہوئے تھے، وہ لوگ سیز فائر کرانے کے لیے آئے تھے، لیکن انھوں نے اکیلے میں مجھ سے کہا کہ آپ یہ بات جان لیجیے کہ یہ جنگ آپ کے لیے ناگزیر تھی- ان کی باتوں کا مفہوم یہی تھا- کسی بھی انقلاب کو اگر وہ لوگ گرا نہیں پاتے اور انقلابی قوم کو جھکا نہیں پاتے تو آخر میں اس طرح کی جنگ ہوتی ہے، اس طرح کی جنگ یقینی طور پر مسلط کر دی جاتی ہے اور انھوں نے اس کی کچھ مثالیں بھی دیں کہ اس طرح ہو چکا ہے اور یہ سامراجی طاقتوں کا کام ہے۔ وہ عمر رسیدہ انسان تھے، بوڑھے شخص تھے، اس وقت جب وہ مجھ سے یہ باتیں کہہ رہے تھے، انھوں نے کہا: امپیرئلزم - ان کے الفاظ میں امپیرئلزم اور ہمارے الفاظ میں سامراج - پیچھا نہیں چھوڑے گا، وہ اپنا کام جاری رکھے گا اور اس جنگ کو مسلط کر دے گا۔
تو یہ ایک حقیقت ہے۔ اب کچھ لوگ یہ پروپیگنڈہ شروع کر دیں کہ "جناب، آپ نے عراق سے کیوں جنگ کی؟" گویا ہم نے لشکر کشی کی تھی اور عراق کو فتح کرنے گئے تھے! ایسی کوئي بات نہیں تھی۔ یا "خرمشہر کی فتح کے بعد آپ نے کیوں جنگ جاری رکھی؟ آپ جنگ روک سکتے تھے۔" خوش قسمتی سے - مطلب یہ کہ ایک زاویے سے خوش قسمتی سے کہنا چاہئے- جنگ کے آخری حملے میں ایک تلخ واقعہ رونما ہوا، جب ہم نے تسلیم کر لیا، امام خمینی نے قرارداد کو تسلیم کر لیا اور میں نے صدر کی حیثیت سے اس کا اعلان کر دیا اور اقوام متحدہ کو بتا دیا، اس کے بعد عراق نے ہم پر حملہ کیا، ہماری جانب سے قرارداد نمبر 598 کو تسلیم کیے جانے کے بعد، جب عراق تقریبا سرحدوں کے پیچھے چلا گيا تھا، خاص طور پر خوزستان کے علاقے سے اور تمام مقبوضہ علاقوں سے باہر نکل گيا تھا، وہ ایک بار پھر حمید چھاؤنی(4) تک آيا کہ جو ایک اہم اور حساس علاقہ ہے اور دوبارہ ملک میں گھس گيا۔ پھر جب ہماری فورسز نے دفاعی حملہ کیا اور پورے ملک سے سپاہیوں نے وہاں پہنچ کر حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب دیا اور انھیں نکال باہر کیا تو ملک کے مغرب میں مرصاد آپریشن کا معاملہ شروع ہو گيا۔
وہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اگر خرمشہر کے واقعے کے بعد ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے اور کنارے ہو جاتے تو معاملہ ختم ہو جاتا، جی نہیں، ختم نہیں ہوتا بلکہ تبھی شروع ہوتا۔ جب خرمشہر، بیت المقدس آپریشن میں فتح ہوا، اس وقت ہماری سرزمین کا کچھ اہم حصہ دشمن کے کنٹرول میں ہی تھا، مطلب یہ کہ بے بنیاد بات کرنا، غیر ذمہ دارانہ بیان دینا، ان مشکلات میں سے ہے جو واقعی موجود ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ ہم جنگ شروع کرنا چاہتے تھے، ہم حملہ کرنا چاہتے تھے، ہم جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے، نہیں، اصل مسئلہ دشمن کی، تسلط پسندانہ نظام کی اور تسلط پسندانہ سامراج کی ایک سیاسی حکمت عملی تھی، مسئلہ یہ تھا۔ انھیں ایرانی قوم کو جھکانا تھا، وہ اسی کوشش میں تھے، انھیں اسلامی جمہوری نظام کو، جو ان کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا، تباہ کرنا تھا، ان کی خواہش یہ تھی، وہ اس کے لیے کوشاں تھے۔ مقدس دفاع کے اہم حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ ہم یہ جانیں کہ مقدس دفاع میں ہمارا فریق مقابل کون تھا؟ اس کا محرّک کیا تھا؟ اور اس نے کیوں حملہ کیا؟ یہ ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جس کی طرف میں نے ایک اشارہ کیا۔ تو یہ پہلی حقیقت ہوئي۔
دوسری حقیقت بھی بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ انقلاب کی طاقت کے ان تین عناصر یعنی انقلاب کا وہ عظیم اقتدار، انقلاب کی وہ موجیں مارتی ہوئي طاقت اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت، کہ جو بہت ہی اہم اور مؤثر عنصر کا درجہ رکھتی تھی اور ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات - اگر مجھے یاد رہا اور وقت نے اجازت دی تو ان نمایاں خصوصیات کے بارے میں بھی اختصار سے کچھ عرض کروں گا- اس بات کا سبب بنیں کہ یہ خطرہ موقع میں تبدیل ہو جائے۔ جنگ ایک تلخ حادثہ ہے، ایک حتمی خطرہ ہے لیکن انقلاب کے جوش، انقلاب کی طاقت، امام خمینی کی قیادت اور ایرانی قوم کی خصوصیات نے اس بڑے خطرے کو ایک بڑے موقع میں تبدیل کرنے میں کامیابی حاصل کی جو مقدس دفاع کے ولولہ انگیز ابواب میں سے ایک ہے۔ اس سلسلے میں بہت کام ہونا چاہیے، بہت کام کیا جانا چاہیے۔ مقدس دفاع کی وجہ سے ملک میں جو مواقع پیدا ہوئے، زیادہ تر لوگوں کے لیے وہ ناشناختہ ہیں، کچھ واقعات ہوئے ہیں جن میں سے بعض کی طرف میں ایک مختصر سا اشارہ کروں گا لیکن پوری حقیقت صرف وہ نہیں ہے جو میں عرض کروں گا، اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ کے اہداف کیا تھے؟ ہم پر کیوں حملہ کیا گيا؟ کیوں صدام نے ہم پر حملہ کیا؟ پہلے مرحلے میں اس کا ہدف، ملک کی تقسیم اور ملک کے ایک اہم حصے یعنی خوزستان کو الگ کرنا تھا، پہلے مرحلے میں ہدف یہ تھا کہ اس حصے کو ملک سے الگ کر دے، مگر خوزستان کے عوام نے، خوزستان کے عرب عوام نے دشمن کی خواہش کے برخلاف اپنی طرف سے بہترین دفاع کا مظاہرہ کیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پورے ملک سے لوگ خوزستان گئے لیکن خود خوزستان میں شہید علی ہاشمی(5) جیسا ایک مجاہد اور دلیر، جو اہواز سے ہے، اہوازی عرب ہے، دفاع کے پہلے درجے کی نمایاں شخصیت میں قرار پاتا ہے، مطلب یہ کہ خوزستان کے لوگوں نے دشمن کے مقابلے میں اس طرح سے کام کیا، تو یہ پہلے مرحلے کا ہدف تھا۔
اگلے مرحلوں میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، مسئلہ ایرانی قوم کو گھٹنوں پر لانا تھا۔ وہ لوگ چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کو اکھاڑ پھینکیں، چاہتے تھے کہ ایران کے مستقبل کو بدل دیں، ہدف یہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اسلامی انقلاب کے ذریعے جو مستقبل رقم کیا جا رہا تھا، اسے بدل دیں اور ایران کی قسمت تبدیل کر دیں، ہدف یہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایرانی قوم کی آواز کو اس کے گلے میں ہی گھونٹ دیں۔ ایرانی قوم کا ایک نیا پیغام تھا، اس نے دنیا کے سامنے ایک نئي بات پیش کی۔ 'اسلامی جمہوریہ' ایک نئي بات ہے۔ 'مذہبی جمہوریت' ایک نئي بات ہے، زندگي کے لیے ایک پروگرام ہے، اقوام کی زندگي کے لیے ایک نئي روش ہے، وہ چاہتے تھے کہ یہ پیغام، جو استقامت کا پیغام ہے، ڈٹ جانے کا پیغام ہے، منہ زوری کے سامنے نہ جھکنے کا پیغام ہے، ظلم سے مقابلے کا پیغام ہے، عالمی سطح پر امتیازی سلوک سے مقابلے کا پیغام ہے، عام نہ ہونے پائے، وہ اس پیغام کو دبا دینا چاہتے تھے، ہدف یہ تھا۔
اس قوم نے ایک بد عنوان اور پٹھو حکومت کو ختم کیا تھا اور اس کے علاوہ امریکا جیسی ایک بڑی طاقت کو ذلیل کیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کچھ ایسا کریں کہ دوسری اقوام کے لیے عبرت بن جائے اور وہ سمجھ جائيں کہ اگر کسی نے امریکا کے خلاف قیام کیا اور اس طرح کے کام کیے تو جس طرح سے ایرانی قوم کی سرکوبی کر دی گئي ہے، اسی طرح اس کی بھی سرکوبی ہوگي، دوسری اقوام یہ بات سمجھ جائيں اور استقامت کا دروازہ ہی بند ہو جائے، حتمی اور بنیادی ہدف یہ تھا۔
تو ایرانی قوم کا جواب کیا تھا؟ ایرانی قوم نے ان سارے اہداف کو ناکام بنا دیا اور اپنے آپ کو اوپر اٹھایا اور پھر جو کام وہ لوگ چاہتے تھے ٹھیک اس کے برخلاف ہوا۔ یہ جو میں نے کہا کہ یہ ایک انتہائي ولولہ انگیز باب ہے، ہیجان انگیز باب ہے، وہ اس جہت سے ہے۔ ایرانی قوم نے اس چیز کے ٹھیک برخلاف کام کیا جو وہ لوگ چاہتے تھے، جس کی انھیں آرزو تھی اور جس کے لیے انھوں نے اتنا کچھ خرچ کیا تھا۔
سب سے پہلے تو، جیسا کہ میں نے اشارہ کیا، جن علاقوں کو ملک سے الگ کرنا چاہتے تھے، ان علاقوں کے لوگ خود ہی پورے جوش کے ساتھ ڈٹ گئے، عرب ہونے، ہم زبان ہونے اور اسی طرح کی باتوں اور وسوسوں کو انھوں نے درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا اور ڈٹ گئے۔ خود میں نے اہواز کے اطراف میں ایک گاؤں میں ایک عرب گھرانے کو دیکھا کہ دشمن فورسز، بعثی فوجی وہاں سے نکل گئے اور ہم وہاں پہنچے تو ہمیں دیکھ کر انھوں نے اس طرح خوشی منائي جیسے ان کے لئے جشن کا لمحہ آن پہنچا ہے۔ ایک عرب گھرانہ تھا، وہاں کے لوگ فارسی سمجھتے بھی نہیں تھے، یہ چیز ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ وہ لوگ ان کے ساتھ نہیں ہوئے، ان کا ساتھ نہیں دیا، ان کے خلاف کھڑے ہوئے، قیام کیا، جدوجہد کی اور شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کے وسوسے، جو مسلسل جاری تھے، ان لوگوں کو کمزور نہ کر سکے۔ ملک کے اندر بھی ان کے کچھ افراد تھے جو ان کے لیے کام کرتے تھے، یہ بھی تھا لیکن ان میں سے کوئي بھی وہ کام نہیں کر سکا جو وہ لوگ چاہتے تھے۔
دوسرے یہ کہ مقدس دفاع، ایرانی قوم کے مذہبی عقائد اور اخلاقی خوبیوں کے ظہور کا میدان بن گيا۔ قوموں میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو تاريخی، ثقافتی، جغرافیائي اور علاقائي اثرات کے سبب پیدا ہوتی ہیں - وہ چاہے جو بھی ہوں - قوموں میں کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو کبھی کبھی سامنے نہیں آ پاتیں، یعنی انھیں سامنے آنے کا پلیٹ فارم نہیں ملتا۔ مقدس دفاع ایرانی قوم کی اخلاقی خوبیوں کے سامنے آنے کا ایک پلیٹ فارم بن گيا، یہ ایثار، یہ مجاہدت، یہ دین پر اعتقاد، کون یقین کر سکتا تھا؟ کون سوچ سکتا تھا؟ پورے ملک سے خانوادوں نے اپنے بچوں کو بہ رضا و رغبت مقدس دفاع کے میدان میں بھیجا، انھیں یہ بھی علم تھا کہ ممکن ہے کہ وہ قتل ہو جائيں لیکن اس کے باوجود انھوں نے پوری رضا و رغبت کے ساتھ اپنے بچوں کو بھیجا، ایثار پیشہ والدین، قربانی دینے والی بیویاں۔ درحقیقت پورا ملک محاذوں کی دفاعی لائن بن گيا۔ محاذوں کی پہلی لائن ملک کا جنوبی اور مغربی علاقہ تھا لیکن پورا ملک اس پہلی صف کی دفاعی لائن بن گيا، چاہے وہ لوگ ہوں جو جنگ کے لیے گئے ہوں، چاہے وہ لوگ ہوں جنھوں نے پشت پناہی کی، چاہے وہ لوگ ہوں جنھوں نے فکری طور پر ساتھ دیا، چاہے وہ لوگ ہوں جنھوں نے لوگوں کو محاذ پر جانے کے لیے ترغیب دلائي اور زبانی ہمراہی کی، چاہے وہ لوگ ہوں جنھوں نے بیٹھ کر جنگ کی مذہبی بنیادوں کو معین کیا، ان سب نے پشت پناہی کی، یہ ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات تھیں، یہ سامنے آئیں، نمایاں ہوئيں۔ لوگوں کی پشت پناہی، عوامی تحائف، شہر اور گاؤں، مسجد اور انجمن، دینی مدارس اور یونیورسٹیاں، سب کے سب جنگ کی خدمت میں، مقدس دفاع کی خدمت میں اور انقلاب کی خدمت میں لگ گئے، یہ ایرانی قوم کی خصوصیات کے سامنے آنے کا کارنامہ تھا۔
ایک دوسرا کارنامہ قوم کا اتحاد تھا۔ جن لوگوں کو وہ زمانہ یاد ہے، وہ جانتے ہیں کہ ملک کی سیاست کی اعلی سطحوں پر اختلافات پیدا ہو جاتے تھے، جب جنگ شروع ہوئي تو اس وقت ہماری جو مشکلات تھیں، ان میں سے ایک یہی تھی: صدر کی بداخلاقی اور ترشروئي کے سبب صدر اور وزیر اعظم میں اختلاف جس نے لوگوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا، یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا اور اختلاف پیدا کر دیا تھا۔ مخالف گروہ بھی اپنے فائدے کے لیے لوگوں میں تفرقہ ڈالنے میں مصروف تھے، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کر رہے تھے۔ مقدس دفاع آيا اور اس نے لوگوں کو متحد کر دیا، وہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آيا، مقدس دفاع کے پیچھے پورا ملک متحد ہو گيا۔ البتہ ہمیشہ کچھ لوگ اجتماع سے الگ ہوتے ہیں لیکن عمومی طور پر سبھی لوگ متحد ہو گئے اور سبھی مقدس دفاع کی خدمت میں لگ گئے۔
ایک دوسرا کارنامہ اور خطرے کو موقع میں تبدیل کرنے کی ایک مثال، ملک کی فوجی طاقت تھی۔ جب جنگ شروع ہوئي تو فوجی لحاظ سے ہماری صورتحال اچھی نہیں تھی: فوج چوٹ کھا چکی تھی، انقلاب سے پہلے اسے چوٹ پہنچائي گئي تھی، انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد بھی اسے کچھ نقصانات ہوئے تھے، سپاہ پاسداران ابھی مضبوط نہیں ہوئي تھی، اس میں جان نہیں پڑی تھی۔ مقدس دفاع ایک طرف تو مقدس اسلامی جمہوری نظام سے فوج کی وفاداری کا امتحان بن گيا کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو میدان میں لے آئی اور اس کی نمایاں شخصیات نے بڑے بڑے کام انجام دیے، دوسری طرف سپاہ پاسداران ایک درخشاں حقیقت کی شکل میں منصۂ شہود پر آئي۔ اگر مقدس دفاع نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ سپاہ کا جسم اور ڈھانچہ تک باقی نہ رہتا، مثال کے طور پر اس کا انجام بھی کمیٹیوں جیسا ہوتا۔ مقدس دفاع ہی سپاہ کو اس نظم و ضبط اور اس تدبیر کے ساتھ میدان کے مرکز میں لے کر آيا۔
مسلح فورسز کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ جب کسی ملک میں لوگ مسلح فورسز سے پیار کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں تو اس ملک میں سیکورٹی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے، جب فوج اور سپاہ کی طرف سے لوگ مطمئن ہیں تو فطری طور پر لوگوں میں تحفظ کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔ سیکورٹی کا یہ احساس بہت اہم ہے اور یہ کام ہوا، مقدس دفاع نے لوگوں کو تحفظ کا یہ احساس عطا کیا۔ البتہ یہیں پر میں جہاں فوج اور سپاہ کے محترم عہدیدار موجود ہیں، یہ عرض کر دوں کہ یہ مقبولیت اور یہ طاقت اسی وقت تک ہے جب تک مسلح فورسز، آگے بڑھنے کا عمل، اسی رفتار کے ساتھ جو اس وقت ہے، جاری رکھیں یعنی دشمن سے پیچھے نہ رہیں۔ یہ بھی عرض کر دوں کہ آج تک ہم بہت اچھی طرح سے آگے بڑھتے رہے ہیں، مختلف شعبوں میں، مختلف اداروں میں ہماری فورسز کی پیشرفت بہت اچھی رہی ہے، اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ پیشرفت، اچھی رہی ہے لیکن ٹھہراؤ کے خطرے کی طرف سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے۔ توقف اور ٹھہراؤ ایک خطرہ ہے اور ہر لمحہ اس کے سامنے آنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ٹھہراؤ کا مطلب ہے پیچھے ہو جانا، ٹھہراؤ کا مطلب ایک جگہ رک جانا نہیں ہے، جب آپ ایک لمحے کے لیے رکے تو، پیچھے ہو گئے کیونکہ دشمن آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، چوکنا رہنا چاہیے۔ اس پر فوجی عہدیداران بھی توجہ دیں اور ملکی حکام بھی، حکومت اور پارلیمنٹ کو جان لینا چاہیے کہ مسلح فورسز کی پشت پناہی، واجب امور میں سے ایک ہے۔
خیر بحمد اللہ آج ملک دفاعی قوت (ڈیٹرنس پاور) کے مرحلے میں پہنچ گیا ہے یعنی ملک کی فوجی صورتحال اور اس جہت سے حاصل ہونے والی سیکورٹی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ملک بیرونی خطروں کے لحاظ سے ڈیٹرنس کی حالت میں ہے، یعنی اسے کوئی اندیشہ نہیں ہے، وہ طاقت کا احساس کر رہا ہے اور یہ بات دوسرے بھی جانتے ہیں، مخالفین اور دشمن بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے۔
مسلح فورسز کے مسئلے میں، میں یہ بات بھی عرض کروں - البتہ آپ لوگ تو خود تھے ہی اور جانتے بھی ہیں، جو لوگ نہیں تھے یا آج کی جوان نسل جس نے جنگ کے واقعات کو قریب سے نہیں دیکھا، وہ بھی جان لے کہ - کبھی مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسانی موج، جوان اور اسی طرح کی چیزوں نے جنگ کو آگے بڑھایا، بات یہ نہیں تھی، آٹھ سالہ فوجی اقدامات میں ہر وقت تدبیر اور تعقل کو پوری طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جنرل باقری کی رپورٹ میں بھی تھا کہ ان میں سے بعض طریقے اور روشیں - یا ٹیکٹکس - جو مقدس دفاع میں استعمال کی گئيں، ہماری اپنی ایجاد کردہ تھیں اور طے پایا ہے کہ انھیں نصاب کی کتابوں میں شامل کیا جائے، یا شامل ہو چکی ہیں یا شامل ہوں گي۔ حقیقت یہ ہے۔ یعنی جب انسان دیکھتا کہ مثال کے طور پر وہ ٹیکٹک جو فتح المبین آپریشن میں استعمال کی گئي، پڑھانے کے لائق ہے، دنیا کو دکھانے کے لائق ہے، اس کی منصوبہ بندی، کوئي چھوٹا کام نہیں تھی، اس پر عمل درآمد تو ایک الگ بحث ہے، اس کی تیاری ہی بڑی بات ہے۔ یا بیت المقدس آپریشن میں، جہاں دشمن ہمارے مغرب میں ہے اور اہواز کے جنوبی علاقے کو، فرض کیجیے کہ اس بڑے صحرا اور وہاں کے علاقوں پر اس نے قبضہ کر لیا ہے، اصولی طور پر ہمیں شمال سے جنوب کی طرف آنا چاہیے اور دشمن سے مقابلہ کرنا چاہیے، فطری طور پر تو یہی ہونا چاہیے لیکن آپریشنل کمانڈ اور ہیڈکوارٹرز میں منصوبہ تیار کرنے والوں نے ایک نئي روش ڈھونڈ نکالی ہے: شمال سے آ کر لڑنے کے بجائے، مشرق سے مغرب کی طرف آئيں اور کارون ندی کا راستہ کاٹ دیں اور دشمن کا محاصرہ کر لیں، جب دشمن یہ محسوس کرے گا کہ اس پر اس طرح سے حملہ ہوا ہے تو محاصرے میں آنے کے خوف سے دشمن فوج کا ایک بڑا حصہ اس علاقے سے نکل جائے گا، یہ سب تدبیریں ہیں، یہ تعقل ہے، یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جنھیں آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے، یہ بہت اہم مسائل ہیں، تدبیر اور تعقل۔ ہمارے بہت سے آپریشنل علاقوں میں اس طرح کی روشوں کو دیکھا جا سکتا ہے، مغرب میں بھی، جنوب میں بھی متعدد بار اس طرح کی روشیں اختیار کی گئيں۔ یا والفجر8 آپریشن کا وہ مسئلہ اور اروند ندی کو عبور کرنا، کربلا5 آپریشن کا معاملہ، انتہائي اہم خیبر آپریشن اور دوسرے واقعات، جن میں اس طرح کے کام کیے گئے، وہاں جو منصوبہ بندیاں کی گئيں ویسی منصوبہ بندیاں انسان کو کم ہی نظر آتی ہیں، یہ تعقل تھا۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ تھا۔
ایک دوسرا مسئلہ، اور یہ بھی خطرے کو موقع میں تبدیل کرنے کے مصادیق میں سے ہے، یہ ہے کہ مقدس دفاع نے ایرانی قوم کے لیے ایک اصول کو ثابت کر دیا اور وہ اصول یہ ہے کہ دشمن کی دست درازی سے ملک کی حفاظت اور ملک کا ڈیٹرنس، گھٹنے ٹیکنے سے نہیں بلکہ استقامت سے ہاتھ آتا ہے، یہ ایک اصول بن گيا۔ اسی دن، ان ہی ابتدائي دنوں میں بھی کچھ لوگ تھے جو سر جھکا دینے کی بات مانتے تھے لیکن مختلف صورتوں میں، شاید ظاہری طور پر اسے سر جھکانے کا نام نہ دیا جائے لیکن بباطن اس کا مطلب سر جھکانا ہی تھا، امام خمینی مختلف مواقع اور مرحلوں میں ایسے افراد کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ مقدس دفاع کے دوران ایرانی قوم سمجھ گئي کہ فتح، پیشرفت، دشمن کو پسپا کرنا اور ملک کی حفاظت، گھٹنے ٹیکنے سے نہیں بلکہ استقامت سے ممکن ہے، ہم اسے سمجھ گئے، ایرانی قوم نے یہ بات سمجھ لی، یہ ہمارے لیے ایک اصول بن گيا۔ ہم نے اس اصول سے بہت سے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور دوسرے میدانوں میں فائدہ اٹھایا اور اب بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس طرح کے بہت سے مسائل اور موقعوں پر ملک کا موقف، استقامت کا موقف ہے، قدم اٹھانے کا موقف ہے، پیشرفت کا موقف ہے، گھٹنے ٹیکنے اور پسپائی کا موقف نہیں ہے۔ یہ احساس کہ ہمیں استقامت سے کام لینا چاہیے، اس بات کا سبب بنا کہ ملکی سطح پر اطمینان اور خود اعتمادی وجود میں آئے – یعنی ملک کے اندر سیاستداں، ملک کے سرگرم عناصر، ثقافتی شعبے کے سرگرم افراد میں ایک خود اعتمادی پیدا ہو اور کسی ملک کے لیے پیش آنے والے تمام گوناگوں مسائل میں ایک اطمینان پیدا ہو جائے – اور ساتھ ہی دشمن کو بھی یہ سبق ملے کہ اپنے تخمینوں میں ایران کی اندرونی طاقت کا بخوبی حساب کرے، ایران کی استقامت کو نظر انداز نہ کرے۔ بحمد اللہ اسی جذبے سے ہم نے دشمن کی بہت سی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ ہماری سیاسی فورسز، ہماری عسکری فورسز، بہت سے موقعوں پر دشمن کو شکست دینے میں کامیاب رہیں، دشمن نے زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی مسلط کی لیکن ناکام رہا، دشمن نے نئے مشرق وسطی(6) کا منصوبہ میدان میں اتارا، لیکن ناکام رہا، دشمن نے ایک طرح سے ہماری فضائي اور سمندری حدود پر حملے کیے، لیکن وہ ناکام رہا، ہم نے اس کے ڈرون کو مار گرایا(7)، اس کے سمندری جہاز پر قبضہ کر لیا (8)، قومی خود اعتمادی کا مطلب یہی ہوتا ہے، یہ مقدس دفاع میں سیکھے جانے والے اسی اصول کا نتیجہ ہے کہ ملک کی حفاظت کا راستہ، استقامت ہے۔
میں نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں باتیں بہت زیادہ ہیں، نہ تو اتنا وقت ہے اور نہ ہی یہ موقع اس بات کا متقاضی ہے کہ اس سلسلے میں اس سے زیادہ بات کروں لیکن اس سلسلے میں جن اہم نکات پر میرا اصرار ہے کہ انھیں دوہرایا جائے، ان میں سے ایک جنگ کی صحیح روایت یا تصویر کشی ہے، جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے۔(9) یہ جو کام اب تک ہوئے ہیں، وہ بہت اچھے رہے ہیں، یعنی یہ سرگرمیاں، اچھی سرگرمیاں ہیں۔ میں نے امام بارگاہ کے باہر اس نمائش کے معائنے کے وقت دوستوں سے کہا کہ اب تک جو کچھ ہوا ہے، وہ انفراسٹرکچر ہے، یہ ثقافتی سرگرمیوں، فکری سرگرمیوں، سیاسی سرگرمیوں، تاریخی سرگرمیوں وغیرہ کے لیے انفراسٹرکچر ہے، ان انفراسٹرکچرز سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن یہ سرگرمیاں ضروری ہیں، آپ کو کام کے نتائج کو دیکھنا چاہیے۔ آپ کو اس وقت کام سے راضی ہونا چاہیے جب آپ یہ دیکھیے کہ آپ کا ہائي اسکول جانے والا بچہ، آپ کا کالج جانے والا بچہ، مقدس دفاع کو اسی نظر سے دیکھتا ہے جس نظر سے آپ دیکھتے ہیں اور مقدس دفاع اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں وہی نظریہ رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہو گيا تو مستقبل میں مختلف میدانوں میں کامیابی یقینی ہے، جیسا کہ ہم نے اب تک صحیح تصویر کشی کے مختلف معاملے اور ان کے اثرات دیکھے ہیں۔ یہی نوجوان جنھوں نے جاکر حرم کا دفاع کیا اور شہید ہوئے، وہی ہیں جو جنگ کے خاتمے کے بعد کے برسوں میں پیدا ہوئے تھے۔ مقدس دفاع کے زمانے کے بڑے شہیدوں کے واقعات کا صحیح ادراک، فرض کیجیے کہ شہید حججی(10) جیسے ایک نوجوان یا درچہ کے اس نوجوان(11) یا اور دوسرے نوجوانوں کو میدان میں لے آتا ہے اور وہ مقدس دفاع کے زمانے جیسے ہی شجاعت و دلیری کے ساتھ جاتے ہیں، جہاد کرتے ہیں اور شہید ہوتے ہیں۔
البتہ دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اسی روایت یا تصویر کشی کے مسئلے میں، حقیقت کے برعکس کام کرے۔ دشمن ہماری بلندیوں اور نکتہ ہائے عروج کا انکار کرتا ہے، اگر کسی مسئلے میں کوئي کمی یا پستی ہوتی ہے تو اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، بلاشبہ یہ دشمنوں کا کام ہے۔ وہ ثقاقتی کام، پروپیگنڈے کا کام، میڈیا کا کام پوری شدت سے انجام دے رہے ہیں، وہ کوشش کر رہے ہیں کہ پروپيگنڈے کے ذریعے، میڈیا ورک کے ذریعے، جوانوں کے سامنے سامراج کی ہیبت و عظمت پیش کریں، ان کی نظروں کے سامنے اس کی شان و شوکت لائیں، اس کی برائيوں اور تاریکیوں کو پنہاں کر دیں اور اس کے برخلاف، مقدس دفاع سے حاصل ہونے والے اوج، اہمیت اور فیض اور اس سے جڑے ہوئے مسائل پر پردہ ڈال دیں، وہ لوگوں کو سامراج سے ڈرانا چاہتے ہیں۔ جب ہماری سابق قوم کی طرح دیگر اقوام کے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے دشمن کی چمک دمک لائي جاتی ہے تو اس کا نتیجہ سیاسی میدان میں، دشمن سے خوف ہے، ثقافتی میدان میں دشمن کے مقابل میں جھک جانے اور اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کی شکل میں سامنے آتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ روایت اور تصویر کشی کا کام، بہت ہی اہم کام ہے۔
کوشش ہو کہ مقدس دفاع کے بارے میں غلط، بے بنیاد اور جھوٹی روایتوں کا جواب دیا جائے اور اسی طرح خود انقلاب کے بارے میں بھی اس طرح کی روایتوں کا جواب دیا جائے۔ وہ اس وقت بھی مصروف ہیں، میں ان کتابوں کو دیکھتا ہوں جو صیہونی یا امریکی یا یورپی لکھتے ہیں۔ فلم بناتے ہیں، کتاب لکھتے ہیں تاکہ انقلاب کے بارے میں، ایرانی قوم کی تحریک کے بارے میں اور ارکان انقلاب کے بارے میں کوئي جھوٹا تاریک نکتہ پیش کر سکیں، ان کے مقابلے میں کوشش ہونی چاہیے، جو لوگ کام کرنے والے ہیں، سوچنے والے ہیں، فن و ہنر والے ہیں، وہ ان شاء اللہ کچھ کام ضرور کر سکتے ہیں۔
بہرحال اس سلسلے میں اور بھی باتیں ہیں اور کافی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم آپ کو اس بات کی توفیق عطا کرے گا کہ ہم میں سے ہر ایک کے ذمے جو کام ہے، اسے ان شاء اللہ آپ انجام دیجیے۔ میں ایک بار پھر مقدس دفاع کے سینیئر سپاہیوں، پیش پیش رہنے والوں اور حقیقی معنی میں السابقون الاولون کی خدمت میں اپنی عقیدت پیش کرتا ہوں اور ہمیں امید ہے کہ خداوند عالم امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے درجات میں، جنھوں نے ہم سب کے سامنے یہ راستہ کھولا ہے، اضافہ کرے، ہمارے عزیز شہیدوں کی پاکیزہ ارواح کے درجات کو بلند کرے اور ان شاء اللہ انھیں ہم سے راضی رکھے۔
والسّلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کی ابتدا میں، جو صوبائي مراکز سے ویڈیو لنک کے ذریعے متصل تھی، مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف بريگيڈیر جنرل محمد باقری نے ایک رپورٹ پیش کی۔
(2) سورۂ توبہ، آيت 100، "سبقت کرنے والوں میں اولین لوگ"
(3) سورۂ واقعہ، آيت 10، "اور آگے رہنے والے تو آگے رہنے والے ہی ہیں۔"
(4) اہواز-خرمشہر شاہراہ سے تقریبا چالیس کلو میٹر دور
(5) خوزستان میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک کمانڈر
(6) یہ منصوبہ سنہ دو ہزار چھے میں امریکا کی اس وقت کی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت نام نہاد مشرق وسطی کے علاقے میں، جو لبنان، فلسطین، شام سے لے کر عراق، خلیج فارس، ایران اور افغانستان میں نیٹو کی سرحدوں اور شمالی افریقا تک پر محیط ہے، بدامنی، اختلافات، تشدد اور نراجیت کو پھیلایا جاتا۔ اس سے صیہونی حکومت، امریکا اور برطانیہ کو یہ موقع ملتا کہ وہ اپنی ضرورتوں اور اپنے اہداف کی بنیاد پر مشرق وسطی کا ایک نیا نقشہ تیار کریں۔
(7) منجملہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی فورسز کے ذریعے خلیج فارس کے علاقے میں امریکا کے گلوبل ہاک ڈرون کو مار گرائے جانے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(8) منجملہ تیس اگست 2022 کو ایرانی بحریہ کی جانب سے امریکی ہوور کرافٹ کو روکے جانے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(9) منجملہ چوبیس ستمبر سنہ 2018 کو مقدس دفاع کی یادیں تازہ کرنے کے پروگرام میں تقریر
(10) شہید محسن حججی اٹھائیس جولائي سنہ 2017 کو شام کے تنف علاقے میں داعش کے دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور اس کے دو دن بعد ان کا سر تن سے جدا کر دیا گيا اور وہ شہید ہو گئے۔
(11) شہید ابو الفضل علی خانی بائيس اگست 2022 کو شام میں ایک مشاورتی مشن کے دوران شہید ہو گئے۔