اس دین کا دائرہ، انسانی زندگي کے ہر شعبے پر محیط ہے، اس کے دل کی گہرائيوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل سے لے کر عالمی مسائل تک اور ہر اس مسئلے تک جس کا انسانیت سے تعلق ہے۔ قرآن مجید میں یہ بات پوری طرح واضح ہے، یعنی اگر کوئي اس بات سے انکار کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے یقینی طور پر قرآن کے بیّنات (واضح احکام و امور) پر توجہ نہیں دی ہے ... مالی احکام میں قرآن مجید ایک جگہ فرماتا ہے: وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ اَنفُسِھِمْ وَلَوْ كَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ (اور وہ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے انھیں خود (اس چیز کی) ضرورت ہو۔ سورۂ حشر، آيت 9) کہ جو ایک ذاتی فعل ہے اور ایک جگہ فرماتا ہے: كَيْ لَا يَكُونَ دُولَۃً بَيْنَ الاَغْنِيَاءِ (تاکہ وہ (مال) تمھارے دولتمندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے۔ سورۂ حشر، آيت 7) یہ ثروت کی صحیح تقسیم ہے جو سو فیصد سماجی مسئلہ ہے، یا فرماتا ہے: لیقومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائیں۔ سورۂ حدید، آيت 25) بنیادی طور پر سبھی انبیاء، اولیاء عدل و انصاف کے قیام کے لیے آئے ہیں، انصاف قائم کرنے کے لیے ... یعنی قرآن مجید، مالی مسائل کے تمام گوشوں اور تمام نکات کو اس بنیادی فکر، بنیادی نظریے اور بنیادی ہدایت کی شکل میں بیان کرتا ہے جن کے لیے عملی طور پر منصوبہ بندی ہونی چاہیے لیکن اس کی سمت اور اساسی نکات وہی ہیں جو قرآن بیان کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسائل پر اسلام کی نظر ہے۔

امام خامنہ ای

24/10/2021