سوال: رہبر انقلاب اسلامی نے 4 نومبر کی مناسبت سے اسکولی طلبہ سے ملاقات میں حالیہ ہنگاموں میں دشمن کے اقدامات اور پلاننگ کو ایک ہائبرڈ جنگ بتایا ہے۔ دیگر جنگوں اور ہائبرڈ جنگ میں کیا فرق ہے؟ سیاسیات میں یہ اصطلاح کب سے رائج ہوئي ہے؟

جواب: ہائبرڈ جنگ، جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہے، ٹارگٹ ممالک کو تباہ کرنے کے لیے تمام سیاسی، سماجی، ثقافتی اور معاشی وسائل کو اکٹھا بروئے کار لانا ہے۔ یہ چیز سرد جنگ اور دوسری جنگ عظیم کے بعد رائج ہوئي اور فرینک ہافمین کو اس کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ دشمنوں کی جانب سے اس جنگ میں کئي طرح کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ الیکشن کو غلط بتانے اور دشمن کے مد نظر نتیجے کے حصول کے لیے کئي رنگوں کے نام والے انقلابات اور غیر روایتی فورسز کا استعمال۔ ہم نے اپنے ملک کے اندر حالیہ ہنگاموں میں دیکھا کہ سماج میں بعض لوگوں کے کچھ مشن تھے اور انھوں نے ہنگامے کروائے، دشمنوں کی جانب سے ملک کے اندر بدامنی کی حمایت، نیابتی جنگ، نفسیاتی حملے، سفارتکاری کا غلط استعمال، پروپیگنڈہ وار اور سائبر اسپیس میں سائبر حملے وغیرہ ان طریقوں میں سے ہے جو اس جنگ کی مثالیں ہیں۔ ہمارے ملک کے حالیہ ہنگاموں کے دوران سائبر حملے اور تشہیراتی جنگ بہت شدت سے جاری تھی اور جیسا کہ بتایا گيا ہے، روبوٹس تک سے استفادہ کیا گيا تاکہ معاشرے میں ایک خاص طرح کی سوچ پیدا کی جا سکے۔

کافی عرصے سے مغربی ممالک نے، ان ملکوں کے خلاف جن سے ان کا ٹکراؤ ہے، ایک طرح کی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ معاشی جنگ اور پابندی لگانا بھی، ان ملکوں پر حملے میں استعمال ہونے والے دشمن کے حربے ہیں۔ بعض ملکوں میں تو وہ صحیح موقع پر اپنی خاص فورسز اور فوجیوں کو بھی اتار دیتے ہیں اور ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ انھوں نے اپنے اہداف کے حصول کے لیے داعش تک سے استفادہ کیا ہے۔ تو یہ ہائبرڈ جنگ ایک ایسی جنگ ہے جو سیاسی، کلاسیکل، غیر روایتی، سائبر جنگوں کا مجموعہ ہے اور اس میں دہشت گردوں، سفارتکاری، داخلی بدامنی اور عالمی عدالتوں تک سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے حالیہ ہنگاموں کے بارے میں امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی غیر رسمی نشست طلب کیا جانا، اس عالمی ادارے کو حربے کے طور پر استعمال کیے جانے کی ایک مثال ہے۔

دشمن کا ایک دوسرا کام ملک کے غیر معمولی صلاحیت کے حامل افراد کی بیرون ملک ہجرت کی راہ ہموار کرنے کے لیے سماجی ڈھانچے کو بدلنے کی کوشش ہے۔ اس کا ایک دوسرا حربہ، عوام کے مذہبی عقائد کو کمزور کرنے کے لیے ثقافتی یلغار ہے۔ وہ لوگ معاشرے کے عقائد کی جگہ نئے افکار لانے کی کوشش میں ہیں تاکہ جوانوں کو اپنی طرف مائل کر سکیں۔

سوال: حالیہ ہنگاموں نے، ملک کے لیے سیاسی اور سیکورٹی نقصان کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کو اور کیا فائدہ پہنچایا؟ ملک کس راہ پر گامزن تھا کہ دشمن نے ان حالیہ ہنگاموں کے ذریعے اس کے قدموں کی رفتار کم کرنے کی کوشش کی؟

جواب: وہ لوگ سمجھ گئے کہ معاشی پابندیاں، جو ان کے خیال میں مفلوج کر دینے والی تھیں، ناکام ہو گئي ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ مذاکرات ایران کی جانب سے اختیار کیے گئے  ٹھوس موقف کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، جسے اور مضبوط بنایا جانا چاہیے، اور چونکہ امریکیوں نے کھیل بگاڑا تھا، اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز رہیں اور ایران کو سکون و اطمینان حاصل ہو جائے۔ اسی طرح سے یہ ہنگامے، خطے میں اسلامی جمہوریہ کی کامیابیوں کا انتقام تھے۔ ا مریکیوں نے ہمارے خطے کے لیے کافی پلاننگ کر رکھی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ شام میں حکومت اور نظام کو بدل دیں، لبنان میں حزب اللہ کو ختم کر دیں اور عراق و افغانستان میں کچھ مسائل پیدا کریں لیکن ان کی ساری پلاننگ کو اسلامی جمہوریہ اور خطے میں استقامتی محاذ نے ناکام بنا دیا۔ اسی لیے انھوں نے ایران میں ثبات و استحکام، قومی اتحاد اور ترقی و پیشرفت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ہنگامے شروع کروا دیے کیونکہ ایک متحدہ اور پیشرفتہ ایران ان کے اہداف و مقاصد کے لیے نقصان دہ اور خطرناک ہے۔

 

سوال: حالیہ ہنگاموں میں ہم نے دیکھا کہ دشمن کے میڈیا اور پروپیگنڈہ خیمے کی جانب سے شدید حملے ہوئے اور خاص طور پر بہت زیادہ دروغگوئي کی گئي۔ ان میڈیا حملوں کی خصوصیات کیا تھیں اور انھوں نے ملک سے باہر کے انصاف پسند تجزیہ نگاروں کے سامنے کون سے حقائق برملا کر دیے؟

جواب: یہ حملے اتنے وسیع اور شدید تھے کہ بتایا گيا کہ ان میں روبوٹس کا بھی استعمال کیا گيا ہے۔ البتہ یہ ہائبرڈ یا سائبر وار، حالیہ ہنگاموں سے مختص نہیں ہے بلکہ کافی عرصے پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ دشمن نے سائبر اسپیس پر اس طرح سے کام کیا کہ لوگوں خاص کر بچوں اور جوان نسل کے عقائد اور افکار کو کمزور بنا دے، ان کے اندر بے راہ روی کا کلچر پیدا کر دے، انھیں تشدد سکھائے اور طرح طرح کے جھوٹ بول کر – وہ ہر دن رائے عامہ میں کئي طرح کے جھوٹ پھیلا رہے تھے – دشمن کی کوشش تھی کہ حالات کو یوں ظاہر کرے جیسے نظام کا کام تمام ہو گيا ہے۔ میڈیا کے یہ کام انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلاتی ٹیکنالوجی، آرٹیفیشیل انٹیلیجنس اور اسی طرح کے دوسرے وسائل اور ٹیکنالوجیز کے سہارے جو، ان کے پاس ہیں، انجام پا رہے تھے اور اسی طرح مختلف ملکوں میں انٹیلیجنس کے ذریعے انھیں جو معلومات حاصل ہوتی تھیں، وہ ان سے بھی استفادہ کرتے تھے۔ یہ وہ طریقہ تھا جو انھوں نے استعمال کیا تھا۔

البتہ بعض غیر ملکی تجزیہ نگار، مفکرین اور دانشور اتنے شدید حملوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد حقیقت پسندانہ موقف اختیار کر رہے تھے اور صحیح تجزیہ پیش کر رہے تھے لیکن کل ملا کر حالات ایسے راستے پر گئے کہ ہم نے دیکھا کہ امریکی صدر یہاں تک کہ جرمنی جیسے ممالک تک نے ان ہنگاموں کے بارے میں کھل کر مداخلت پسندانہ بیانات دیے۔

 

سوال: کیا حالیہ ہنگاموں اور واقعات کا عوام اور اسلامی جمہوری نظام کی مجموعی پیشرفت پر کوئی اثر ہے؟ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

جواب: دشمن کا ہدف یہ تھا کہ ہائبرڈ جنگ سے فائدہ اٹھا کر نظام کی مجموعی پیشرفت کو روک دے اور اس پیشرفت کو نتیجہ خیز نہ ہونے دے لیکن خداوند عالم کے لطف و کرم سے اور عوام کے بروقت میدان میں آ جانے سے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ البتہ ہمیں بھی اس تجربے سے بہت زیادہ سبق لینے کی ضرورت ہے۔ اصل بات جوان نسل اور تعلیم یافتہ نسل کو آگاہ کرنے کی ہے جو ہمارے معاشرے میں شامل ہو رہی ہے اور دشمن کی کوشش تھی کہ اس نسل کو عقیدے، طرز زندگي اور طرز سلوک کے لحاظ سے اسلامی جمہوریہ سے الگ کر دے۔ ہمیں اپنے اس کمزور پوائنٹ کو برطرف کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں خانوادوں کو اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ قریب ہونا ہوگا، ان سے دوستی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے انھیں حالات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ تعلیم و تربیت کی وزارت بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ہمیں، اپنی جوان اور تعلیم یافتہ نسل کے خلاف دشمن کی جانب سے شروع کی گئي اس جنگ کو سنجیدگي سے لینا ہوگا تاکہ ہم اس میدان میں اپنی کمزوریوں کی تلافی کر سکیں۔

اسی طرح ہمیں میڈیا پر مسائل کا اندازہ لگانا ہوگا اور ذرائع ابلاغ کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھا کر را‏‏ئے عامہ کو مسائل سے باخبر کرنا ہوگا۔

دشمن، ہائبرڈ جنگ میں کوشش کر رہے ہیں کہ حالات اور کمزوریوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائيں اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اس حملے کے مقابلے میں پوری طرح سے تیار رہیں۔

دشمن سے مقابلے کا ایک اہم راستہ، اپنے بچوں اور جوانوں کے اندر امید بڑھانا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں اور جوانوں کو مایوس نہیں ہونے دینا چاہیے بلکہ ہمیں مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے مختلف میدانوں میں امید پیدا کرنی چاہیے۔ اس کام کا عنوان، تشریح کا جہاد ہے جس کی رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کی ہے، البتہ یہ تشریح اور بیان، نئي نسل کی زبان میں ہونا چاہیے تاکہ ان سے صحیح طریقے سے رابطہ استوار کیا جا سکے۔