بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

میں خداوند عالم کا شکر گزار ہوں اور واقعی دل سے خوش ہوں کہ اللہ تعالی نے ایک بار پھر اس اہم اور غیر معمولی نشست کے انعقاد کی خوشی ہمیں عطا کی۔ یہ اہم ہے کیونکہ ملک کے مختلف شعبوں کے عہدیداران – چاہے وہ موجودہ عہدیدار ہوں یا سابق عہدیدار ہوں – یہاں پر آتے ہیں اور اس نشست میں ملک اور نظام کے تمام عہدیداران کے درمیان ایک مشترکہ ذہنیت اور سوچ کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، اسے تیار کیا جا سکتا ہے اور بعض غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ یہ جو آپ ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں، ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں، یہ سیاسی، سماجی اور ملکی کارکنوں کے اتحاد کی علامت ہے اور اس کا ملک کے عمومی ماحول اور رائے عامہ پر ان شاء اللہ مفید اثر پڑے گا۔ یہ نشست بڑی اہم اور حساس نشست ہے۔

میں نے عرض کرنے کے لیے کچھ نکات تیار کئے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں محترم صدر مملکت جناب رئيسی صاحب کا واقعی شکریہ ادا کرتا ہوں، انھوں نے بڑی اچھی رپورٹ پیش کی۔ اس طرح کی رپورٹیں‌ ضروری ہیں، صرف عوام اور را‏ئے عامہ کے لیے نہیں بلکہ خود مختلف شعبوں کے عہدیداروں کے لیے بھی ضروری ہیں۔ ہمارے اندر ایک کمی یہ ہے کہ بسا اوقات، مختلف شعبوں کو ایک دوسرے کے کاموں کی خبر نہیں ہوتی، اطلاع نہیں ہوتی۔ میں نے ایک بار جو کہا تھا کہ فوجی، غیر فوجی اور دوسرے شعبوں کے بعض عہدیداروں کے لیے ایک ٹور رکھا جانا چاہیے(2) واقعی ایسا ہونا چاہئے۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر کچھ دن بعد ملک کے مسائل، ملک کی پیشرفت، انجام پانے والے اقدامات کے بارے میں ایک واضح طور پر دکھائي دینے والی اور محسوس ہونے والی رپورٹ سب کی نظروں کے سامنے رکھیں اور سب مطّلع ہوں۔ اس جہت سے موصوف کا بیان بحمد اللہ بہت مفید تھا۔ میں بھی لگ بھگ انھیں مسائل کے بارے میں کچھ باتیں عرض کروں گا جو انھوں نے پیش کیں۔

سب سے پہلی بات جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ ایک روحانی مسئلہ ہے، اپنے لیے اور آپ کے لیے ایک یاددہانی ہے اور وہ یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ، خدا کے ذکر کا مہینہ ہے، خدا کی یاد کا مہینہ ہے، دلوں پر ذکر الہی کے انوار کی تابش کا مہینہ ہے، اسے آسانی سے ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ سال کے کسی بھی وقت میں دل انوار الہی اور اللہ کی برکت و رحمت کے لیے اتنا زیادہ تیار نہیں ہوتے، یہ ماہ رمضان کی خاصیت ہے، وہ مہینہ جس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے برتر ہے: "خَیرٌ مِن اَلفِ شَھر"(3) یہ بہت اہم چیزیں ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے کہ "اَنفاسُکُم فیہِ تَسبیحٌ وَ نَومُکُم فیہِ عِبادَۃ"(4) یہ دل و جان کی لطافت کا مہینہ ہے۔ یہ مادی زندگي، خاص طور پر مشینی زندگي ہمارے رشتوں کو، ہمارے ضمیر کو، ہمارے باطن کو، ہماری کارکردگي کو لطافت سے دور کر دیتی ہے، اس پہئے کی طرح جسے گریسنگ کی ضرورت ہے تاکہ وہ آسانی سے گھوم سکے اور اس کا نقصان دہ گھساؤ نہ ہو، اس مہینے میں ذکر اور دعا ایسا ہی کردار ادا کرتے ہیں، ہمارے دلوں کو، ہماری جانوں کو قرآن کی تلاوت سے، دن رات کی دعاؤں سے، خود روزے سے، شب قدر سے نرم و لطیف بناتے ہیں۔ تو پہلی بات یہ کہ ذکر خدا، دل کو انوار الہی کی تابش کے سامنے لے آتا ہے، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے۔

یہ ہمیں غفلت سے باہر نکالتا ہے۔ غفلت ایک بڑی بری بلا ہے۔ ہم مبارک دعا، دعائے ابو حمزہ ثمالی میں پڑھتے ہیں: "یا مَولایَ‌ بِذِکرِکَ‌ عاشَ‌ قَلبی‌ وَ بِمُناجاتِکَ بَرَّدتُ اَلَمَ الخَوفِ عَنّی"(5) تیری یاد سے، تیرے ذکر سے، میرے دل کو زندگي ملی، تجھ سے مناجات کر کے اضطراب اور خوف مجھ سے دور ہوا اور میں نے رہائي پائي۔ یہ جو قرآن مجید میں، بہت سی آیتیں - دسیوں آیتیں، شاید سو کے قریب آيتیں، البتہ میں نے گنا نہیں ہے- ذکر خدا کے بارے میں ہیں، اس سے ہماری زندگي میں، ہمارے روابط میں، ہمارے انجام میں اور ہمارے سفر کے آخری مرحلے میں اس حقیقت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ جو خداوند عالم فرماتا ہے: "اُذکُرُوا اللَہَ ذِکراً کَثیرًا، وَ سَبِّحوہُ بُکرَۃً وَ اَصیلا"(6) یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے اور کثرت سے کرنا بھی ضروری ہے، زیادہ ذکر کرنا ضروری ہے۔ تو یہ ذکر کا ایک پہلو ہے کہ یہ دلوں کو متنبہ کرتا ہے اور انھیں غفلت سے باہر نکالتا ہے۔ اللہ کے ذکر کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ عمل میں اس ذکر کا اثر ہے۔ جب ذکر اللہ حاصل ہو جاتا ہے تو وہ ہمارے عمل پر اثر ڈالتا ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام سے منسوب ایک کلام میں کہا گيا ہے: "مَن عَمَرَ قَلبَہُ بِدَوامِ الذِّکرِ حَسُنَت‌ اَفعالُہُ‌ فِی‌ السِّرِّ وَ الجَھرِ"(7) ذکر کا تسلسل اور مسلسل ذکر کرتے رہنا، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ہمارا عمل - ہمارا پنہاں عمل بھی، جو کام ہم اپنے دل میں کرتے ہیں، اپنے گھر میں کرتے ہیں، اپنے کمرے میں کرتے ہیں اور ساتھ ہی وہ عمل بھی جو ہم سماجی سطح پر انجام دیتے ہیں- سنور جائے، نیک ہو جائے۔

ہم ملک کے ذمہ دار ہیں نا! ملک میں جاری کاموں کا ایک حصہ، اجرائی امور، قانون سازی، عدلیہ، ہدایت اور دفاع وغیرہ، ان لوگوں کے ذمے ہے جو یہاں تشریف رکھتے ہیں، ہم لوگ جو یہاں اکٹھا ہوئے ہیں۔ ہمارا کام کیا ہے؟ عوام کی خدمت۔ ہمارا کام کیا ہے؟ ملک کو اچھے طریقے سے چلانا۔ تو "حَسُنَت‌ اَفعالہُ‌ فِی‌ السِّرِّ وَ الجَھرِ" ہمارے بارے میں یہ ہے۔ اگر ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو وہ لوگوں کی خدمت کی ہماری کوششوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے جو خداوند عالم کے نزدیک ہماری بڑی ذمہ داری ہے۔

اس "خدمت" کو ہم دعاؤں میں بھی دیکھتے ہیں۔ دعائے کمیل میں ارشاد ہوتا ہے: "اَساَلُکَ بِحَقِّکَ وَ قُدسِکَ وَ اَعظَمِ صِفاتِکَ وَ اَسمائِکَ اَن تَجعَلَ اَوقاتى مِنَ اللَیلِ وَ النَّھارِ بِذِکرِکَ مَعمورَۃً وَ بِخِدمَتِکَ مَوصولَۃ" ذکر اور خدمت، ایک ساتھ ہیں۔ "وَ اَعمالى عِندَکَ مَقبولَۃً حَتّىٰ تَکونَ اَورادى وَ اَعمالى کُلُّھا وِرداً واحِداً وَ حالى فى خِدمَتِکَ سَرمَدا" مستقل تیری خدمت میں رہوں۔ اس کے بعد کہا گيا ہے: "قَوِّ عَلىٰ خِدمَتِکَ جَوارِحى وَ اشدُد عَلَى العَزیمَۃِ جَوانِحى وَ ھَب لِىَ الجِدَّ فى خَشیَتِکَ وَ الدَّوامَ فِى الاِتِّصالِ بِخِدمَتِک"(8) پھر "خدمت"، دیکھیے سب کچھ خدمت ہے۔ خدا کی خدمت کا مطلب کیا ہے؟ خدا کو تو ہماری اور آپ کی خدمت کی ضرورت ہی نہیں ہے، خدا کی خدمت یعنی زندگی کی خدمت، عوام کی خدمت، اللہ کی مخلوق کی خدمت، اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے خدمت، یہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے جسے دعاؤں میں بھی بار بار کہا گيا ہے، دوہرایا گيا ہے۔ جس چیز کو ہم 'لوگوں کے ساتھ بھلائي' کہتے ہیں وہ، لوگوں کی اس خدمت کا ایک حصہ ہے: اِنَّ اللَہَ یَامُرُ بِالعَدلِ وَ الاِحسان(9) اس احسان یا نیکی کے سلسلے میں امیرالمومنین علیہ السلام کی ایک حدیث ہے، جسے میں (کتاب) غرر الحکم سے نقل کر رہا ہوں، وہ فرماتے ہیں: "اَحَقُّ النّاسِ بِالاِحسانِ مَن اَحسنَ اللہُ اِلَیہِ وَ بَسَطَ بِالقُدرَۃِ یَدَیہ"(10) سبھی کو بھلائي کرنی چاہیے، سبھی کو نیکی کرنی چاہیے، خدمت کرنی چاہیے لیکن اس ذمہ داری کی ادائيگي کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہے جسے خدا نے کام کی طاقت دی ہے، جیسے آپ۔ آپ عہدیدار ہیں، منتظم ہیں، آپ میں سے بعض عوام کی سوچ اور افکار کے منتظم ہیں، بعض لوگوں کے کاموں کے منتظم ہیں، یہ آپ کی قوت ہے، یہ آپ کی توانائي ہے۔ اسلامی جمہوریہ میں خداوند عالم نے مومنوں کے لیے یہ امکان فراہم کیا ہے کہ وہ دین اسلام کے مطابق اور اسلام کے مطالبات کے مطابق لوگوں کی خدمت کریں، یہ بہترین موقع ہے۔ تو یہ ہمارا سب سے اہم کام ہے، ہمارے الہی امتحان کا سب سے اہم ذریعہ ہے اور خداوند عالم ہمارا امتحان لیتا ہے۔

ایک زمانے میں - آپ میں سے اکثر لوگ جوان ہیں، وہ وقت آپ کو یاد نہیں ہوگا - مومن لوگوں اور دینی و اسلامی سوچ والے لوگوں کے پاس ملک کے انتظامی امور میں معمولی سا بھی اختیار نہیں تھا، وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے، سارے امور طاغوتوں اور ان کے پٹھوؤں کے ہاتھ میں تھے، ایک زمانہ ایسا تھا۔ خداوند عالم نے انھیں مسندوں سے نکال باہر کیا، ان کی جگہ آپ کو سونپی۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بنی اسرائيل سے فرمایا: "عَسىٰ رَبُّکُم اَن یُھلِکَ عَدُوَّکُم وَ یَستَخلِفَکُم فِی الاَرضِ فَیَنظُرَ کَیفَ تَعمَلون"(11) خداوند عالم نے مجھے اور آپ کو یہ جگہ عطا کی ہے، تو ہمیں امتحان دینا ہوگا۔ ہم کس طرح کام کرتے ہیں؟ انھوں نے خراب کام کیا، ہم کس طرح کام کریں گے؟ بنابریں ذکر کا ایک دوسرا رخ اور دوسرا پہلو، خدمت ہے۔ رمضان کا مہینہ، ذکر کا مہینہ ہے، یعنی خدمت کا مہینہ ہے۔

جہاں تک ملک چلانے اور ایسے ہی امور سے متعلق مسائل اور موضوعات کی بات ہے تو اس سلسلے میں بہت سی باتیں ہیں لیکن معیشت کا مسئلہ، مرکزی اور بنیادی مسئلہ ہے۔ جیسا کہ آپ نے صدر مملکت کی تقریر میں ملاحظہ کیا، مرکز اور محور معیشت ہے، میری آج کی گفتگو بھی زیادہ تر معاشی مسائل کے بارے میں ہے، البتہ کچھ دوسرے مسائل بھی ہیں اور اگر آپ نہ تھکے اور ہم بھی نہ تھکے تو ان شاء اللہ آخر میں ان پر بات کریں گے۔

معیشت، ملک کا اولیں اور بنیادی مسئلہ ہے، ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے، لوگوں کی معیشت کا مسئلہ، ملک کی ہر فرد کو محسوس ہونے والا مسئلہ ہے۔ اس سال کا نعرہ(12)، ایک اہم نعرہ ہے، ایک حساس نعرہ ہے، البتہ پچھلے برسوں کے نعرے بھی، لگاتار پچھلے کئي برسوں سے، عام طور پر معیشت پر ہی مبنی رہے ہیں لیکن اگر ہم نے سال کے نعروں کو، معیشت کے پہلو پر مبنی رکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ثقافتی و سماجی اور دوسرے میدانوں کے مسائل کی طرف سے بے توجہی ہے۔ وہ بھی اپنی جگہ پر اہم ہیں مگر ایک نامناسب معیشت، معاشرے کی ثقافت پر بھی اثر ڈالتی ہے، مطلب یہ کہ سماجی مسائل پر اور ثقافتی مسائل پر ملک کی معیشت کے غیر متوازن اور ناموزوں ہونے کے اثرات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ لگاتار کئي برسوں سے افراط زر کی شرح میں اضافہ بہت اہم چیز ہے، کئي برس سے، لگاتار بہت زیادہ افراط زر۔ یہ چیز ملک میں آمدنی کی تقسیم کے سسٹم پر اثر انداز ہوتی ہے، ملک کی آمدنی کی تقسیم کو غیر متوازن بنا دیتی ہے، کچھ لوگ محروم رہ جاتے ہیں اور مختلف طریقوں سے کچھ لوگوں کی جیبیں بھر جاتی ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں بدعنوانی پیدا ہوتی ہے، ان لوگوں کی طرف سے بھی جنھوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے، غیر قانونی فائدہ اٹھایا ہے، حرام خوری کی ہے اور جو محروم رہ گئے ہیں ان کی طرف سے بھی کچھ بدعنوانیاں وجود میں آتی ہیں۔ افراط زر، بظاہر ایک خالص معاشی مسئلہ دکھائي دیتا ہے لیکن ایسا ہے نہیں، یہ لوگوں کے کلچر پر، لوگوں کی سوچ پر، لوگوں کے رویے پر اور ملک کے سماجی مسائل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بہت سی سماجی اور معاشی برائياں ہیں جن کی جڑوں کو تلاش کیا جائے تو ہم انھیں حرام پیسوں اور تفریق آمیز سہولتوں تک پہنچیں گے۔

اب افراط زر پر کنٹرول اور پروڈکشن میں اضافے کی بات کرتے ہیں۔ جناب رئيسی صاحب نے صحیح اشارہ کیا، کبھی ایسا ہوا کہ ہم نے افراط زر کو کنٹرول کر لیا لیکن دوسری طرف وہ کساد بازاری بھی اپنے ساتھ لایا، یہ ملک کے نقصان میں ہے۔ یہ کوئي اچھی چیز نہیں ہے کہ افراط زر کم ہو جائے لیکن کساد بازاری ملک کی معیشت پر حکمرانی کرے۔ اہم چیز یہ ہے کہ ہم افراط زر کو بھی کنٹرول کر لے جائيں اور پیداوار بھی رکنے نہ پائے، پروڈکشن میں اضافہ ہو، اور یہ چیز ممکن ہے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ممکن ہے تو یہ میری بات نہیں ہے، معاشی ماہرین کی بات ہے جو وہ ہم سے کہتے ہیں، اسے ثابت کرتے ہیں، دلیلیں پیش کرتے ہیں، ہم ان کی بات مان سکتے ہیں۔ اگر کوشش کی جائے، اچھی کوشش کی جائے اور کاموں کو سنجیدگي سے آگے بڑھایا جائے - بحمد اللہ اچھے کام انجام پا رہے ہیں اور میں اس سلسلے میں بعض نکات عرض کروں گا- تو ہم "افراط زر پر کنٹرول اور پروڈکشن میں فروغ" کے اس نعرے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔

اگر ہم اس نعرے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملک کے مختلف ادارے اور مختلف شعبے اس چیز کی ترجیح کو تسلیم کریں، سب سے پہلی بات یہ ہے۔

ترجیح کو تسلیم کریں کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ پورے سال - ہمارے سامنے ایک پورا سال ہے - تمام عزم و حوصلہ اور تمام ارادے، اس مرکزی نکتے کی جانب مرکوز رہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کچھ دن تک اس بارے میں بات کریں، بولتے رہیں، لیٹر ہیڈز پر چھپوا دیں، تشہیر کریں اور پھر رفتہ رفتہ یہ بات پرانی ہو جائے، الگ تھلگ پڑ جا ئے، کنارے لگ جائے، ہم اسے فراموش کر دیں، نہیں۔ البتہ یہ نعرہ، صرف ایک سال کا نہیں ہے، زیادہ تر ان نعروں کا تسلسل ہے اور انھیں جاری رہنا ہی چاہیے لیکن اس سال، سنہ 1402 ہجری شمسی کے آخر تک سارا عزم و ارادہ چاہے وہ قانون سازی میں ہو، چاہیے انتظامیہ میں ہو، چاہے عدلیہ میں ہو یا پھر دوسرے مختلف شعبوں میں ہو، اسی مرکزی مسئلے کی جانب مرکوز ہونا چاہیے، یعنی اس بات کی جانب متوجہ رہیں کہ یہ ذمہ داری ایک اصلی اور مرکزی ذمہ داری ہے۔

ترجیح دینے کا ایک مطلب اور بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کے تمام وسائل اور صلاحیتوں کو اس کام کے لیے استعمال کیا جائے، ہمارے ملک میں بہت زیادہ وسائل اور صلاحیتیں ہیں۔ ہمارے بعض وسائل، عملی صورت میں ہیں، قدرتی ذخائر ہیں، جغرافیائي پوزیشن ہے، معاشی انفراسٹرکچر ہے - کارخانے، ادارے -  بعض امکانات سافٹ ویئر کی نوعیت کے یعنی فکری ہیں، تعمیری سوچ والی افرادی قوت ہے، پرجوش نوجوان ہیں، علمی و سائنسی صلاحیتیں ہیں، ٹیکنالوجی کی استعداد ہے، نئي سوچ اور جدت عمل ہے۔ بہت سے صاحبان فکر مجھے خط لکھتے ہیں، میں بھی وقت نکال کر ان افراد کے بہت سے خط جو ان مسائل کے ماہر ہیں، پڑھتا ہوں، البتہ اجرائی امور انجام دینا، میرا کام نہیں ہے، میں اداروں کو بھیج دیتاہوں لیکن ان کے خطوط پڑھتا ہوں۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ کبھی کبھی بہت اچھی سوچ اور بڑی نئي سوچ دکھائي پڑتی ہے، یہ سب ملک کے وسائل ہیں، ان سب کو افراط زر پر کنٹرول اور پیداوار میں فروغ کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس انتظامی وسائل ہیں، قانون سازی کے وسائل ہیں، عدلیہ کے وسائل ہیں، میڈیا کے وسائل ہیں، تجربات اور تجربہ کار افراد ہیں، ایسے لوگ ہیں جن کے پاس بھرپور تجربات ہیں، انھوں نے کام کیا ہے، وہ جانتے ہیں، انھیں آتا ہے، ان سب سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ غیر ملکی روابط سے استفادہ کرنا چاہیے، غیر ملکی روابط، صرف امریکہ اور دو چار یورپی ملکوں تک تو محدود ہیں نہیں، دنیا میں دو سو سے کچھ زیادہ ممالک ہیں، ان میں سے ہر ایک کی کچھ نہ کچھ گنجائش ہے، اس کام کے لیے ان خارجہ روابط سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ تو یہ ترجیح کا ایک دوسرا پہلو تھا۔

ترجیح کا ایک اور بھی مطلب ہے - ہم نے کہا کہ اس مسئلے کو ترجیح دینی چاہیے - اور وہ یہ ہے کہ فضول کی رکاوٹیں نہیں ڈالی جانی چاہیے۔ کبھی آپ دیکھتے ہیں کہ افراط زر پر کنٹرول کے لیے ایک اچھا کام شروع ہوا ہے، اس کا قانون بھی ہے، حکومت بھی کام کر رہی ہے، عملی جامہ پہنا رہی ہے، اچانک کہیں سے، کسی گوشے سے ایک بل سامنے آتا ہے جو افراط زر کو بڑھانے والا ہے، کام کو روکنے والا ہے، ایسی باتوں پر نظر رکھنا چاہیے۔ کبھی کبھی سیاسی نظریات اور جماعتی نظریات مداخلت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ چونکہ ایک شخص، حکومت میں فلاں شخص یا خود حکومت سے اتفاق رائے نہیں رکھتا، اس لیے وہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ایک اچھے اقدام کی راہ میں رکاوٹ ڈالتا ہے! ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ سبھی حقیقت میں ترجیح دیں۔

خیر تو یہ پہلا اہم نکتہ ہوا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ نعرہ عملی شکل اختیار کرے تو ہمیں انھیں باتوں کے ساتھ، جنھیں عرض کیا گيا، اس نعرے کو ترجیح دینی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ صرف اس کی پالیسیوں کا اعلان ہو۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک پالیسی کا اعلان ہوتا ہے، ایک ورکنگ گروپ بھی بنا دیا جاتا ہے، احکامات بھی صادر ہو جاتے ہیں لیکن یہ سب کافی نہیں ہوتا، مسئلے کو اسی طرح سے آگے بڑھایا جانا چاہیے، جیسا ابھی عرض کیا گيا۔ آگے بڑھانے کے سلسلے میں بھی کچھ نکات ہیں جنھیں میں عرض کروں گا۔ اگر اس مسئلے کو ترجیح دی گئي تو سال کے آخر میں اس کے واضح اثرات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے ماہرین، معاشی اشاریوں کو دیکھیں گے - منجملہ پیداوار میں فروغ کے اشاریے کو جسے انھوں نے بیان کیا اور جو بہت اہم ہے، یا سرمایہ کاری کے انڈیکس کو یا افراط زر کے انڈیکس کو اور اسی طرح کی دوسری باتوں کو - اور یہ اشاریے واضح ہو جائيں گے، دوسرے یہ کہ لوگ اپنی زندگي میں اسے محسوس کریں گے، یعنی کسی طرح اور کسی حد تک ایک آسائش محسوس کریں گے، اگر ان شاء اللہ ہم نے اس کام کو آگے بڑھایا اور اس نعرے کو عملی جامہ پہنایا تو ایسا ہوگا۔

اب اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس نعرے پر عمل درآمد ہو تو کئي باتیں ضروری ہیں جنھیں میں نے نوٹ کیا ہے اور عرض کروں گا۔ پہلی ضروری بات یہ ہے کہ مختلف ادارے ایک دوسرے کی مدد کریں، یعنی حکومت ایک طرح سے، پارلیمنٹ ایک طرح سے، عدلیہ ایک طرح سے۔ سب ایک دوسرے کی مدد کریں، قانون، عمل درآمد کی ضرورت کے مطابق ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام انجام پائے تو سبھی کا تعاون ضروری ہے۔ بنابریں آپ سب لوگ جو یہاں موجود ہیں - پارلیمنٹ کے لوگ بھی یہاں ہیں، حکومت کے افراد بھی یہاں ہیں، عدلیہ والے بھی یہاں ہیں اور مسلح فورسز کے لوگ بھی یہاں ہیں - فیصلوں پر سبھی حقیقت میں عمل کریں، سبھی ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ کام آگے بڑھے۔ یہ ایک ضروری کام ہوا۔

اگلا ضروری کام، جو میری رائے میں بہت اہم ہے، فیصلوں کے بارے میں سنجیدگي سے نظر رکھنا ہے۔ میں جب محترم عہدیداروں کے ساتھ خصوصی نشستوں میں بیٹھتا ہوں اور ہم باتیں کرتے ہیں تو میں اس مسئلے پر تاکید کرتا ہوں، فیصلوں پر عمل درآمد پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ کبھی بہت اچھے فیصلے کیے جاتے ہیں لیکن چونکہ اچھی طرح سے فالو اپ نہیں کیا جاتا، اس لیے فیصلے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ جو ادھورے پروجیکٹس کی بات انھوں نے کی، اس کی وجہ فیصلوں پر سنجیدگي سے نظر نہ رکھنا ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ پارلیمنٹ یا حکومت میں ایک بہت ہی اچھے پروجیکٹ کا فیصلہ ہوا، حکومت نے اقدام کرنا شروع کر دیا، اس پروجیکٹ کو تین سال میں، چار سال میں پورا ہو جانا چاہیے لیکن تیرہ سال ہو چکے ہیں اور وہ پروجیکٹ پورا نہیں ہوا! کیوں؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس پر نظر نہیں رکھی گئی اور یوں ہی چھوڑ دیا گيا، تو فالو اپ کرنا بہت اہم ہے۔ میں ایک مثال پیش کروں اور یہ مثال ابھی کی ہے۔ حکومت کی کئي بڑی کمپنیوں نے، جنھوں نے اچھا منافع کمایا تھا، صدر مملکت صاحب سے وعدہ کیا کہ وہ مختلف شعبوں میں عوام کے لیے مفید شہری پروجیکٹس پر کام کریں گی، اس کا مطالبہ صدر صاحب نے ان سے کیا ہے، انھوں نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ فلاں پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنائيں گي۔ میں نے دو تین ہفتے پہلے ان سے پوچھا کہ معاملہ کہاں تک پہنچا، ان کمپنیوں نے کیا کیا؟ ان کمپنیوں نے ایک رپورٹ تیار کر کے انھیں دی، انھوں نے ہمیں دی، ہم نے رپورٹ کو دیکھا، ہمیں لگا کہ یہ اطمینان بخش نہیں ہے، مطلب وہ کام جو ہونا چاہیے تھا، نہیں ہوا ہے، کچھ کام ہوا ہے لیکن وہ چیز، جو اصل اور مرکزی نقطہ ہے، یعنی لوگوں کی خدمت اور کام کا فائدہ لوگوں تک پہنچنا ہے، اس نے عملی جامہ نہیں پہنا ہے۔ بنابریں ایک دوسرا ضروری کام، فالو اپ ہے، کاموں کی نگرانی ہونی چاہیے، محترم عہدیداروں کو کام پر نظر رکھنی چاہیے اور یہ کام خاص طور پر انتظامیہ میں انجام پانا چاہیے۔

ایک دوسرا ضروری کام، معاشی پالیسیوں اور فیصلوں میں ثبات و استحکام ہے۔ اگر ہم اپنی مانیٹری پالیسیوں میں، مالی پالیسیوں میں ہمیشہ لگاتار تبدیلیاں کرتے رہیں تو یہ ملک کے لیے بہت نقصان دہ ہے، بہت ضرر رساں ہے۔ اس سے عدم اطمینان کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، یہ انٹرپرینیورز کو شک و تردید میں مبتلا کر دیتی ہے، یہ سرمایہ کاری کا ارادہ رکھنے والے اور انٹرپرینیور کو پس و پیش میں ڈال دیتی ہے۔ ہم غیر ملکی سرمایہ کاری کے بھی خواہاں ہیں، غیر ملکیوں سے کہتے ہیں کہ وہ  یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں، ملک کے اندر والے سرمایہ کاروں کو ترجیح ہی حاصل ہے۔ خدا مرحوم عسکر اولادی صاحب(13) کو غریق رحمت کرے! برسوں پہلے یہاں ایک نشست تھی، انھوں نے گفتگو کی اور کہا کہ آپ غیر ملکیوں سے چاہتے ہیں کہ وہ یہاں آ کر سرمایہ کاری کریں، غیر ملکی، ایرانی سرمایہ کاروں کو دیکھتے ہیں، یہ لوگ - ان کے بقول - نظام کا شوکیس ہیں، نظام کا آئينہ ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ آپ ملکی سرمایہ کاروں اور ملکی انٹرپرینیورز کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں، اگر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ اچھا سلوک کرتے ہیں تو وہ بھی آ جاتے ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک بات ہے۔ پالیسیوں میں تبدیلی، سمت و سو میں تبدیلی بہت نقصان پہنچاتی ہے۔ بنابریں، ایک اہم مسئلہ مانیٹری پالیسیوں اور مالی پالیسیوں وغیرہ میں ثبات و استحکام کا ہے۔

اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری کاموں میں سے ایک عوام کی مشارکت ہے۔ یہ ایک فیصلہ کن مسئلہ ہے، بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہم نے اس معاملے میں کمزور کارکردگي دکھائي ہے، پچھلے کچھ لگاتار برسوں میں واقعی ہماری کارکردگي کمزور رہی ہے۔ اگر ہم زبانی طور پر نہیں، جسے ہم مسلسل کہتے آ رہے ہیں، بلکہ عملی طور پر، جس کی میں اختصار سے وضاحت کروں گا، عوامی مشارکت کو حاصل کر سکے تو پیداوار میں اضافہ یقینی ہوگا۔ جو چیز یقینی طور پر پیداوار میں اضافے کو وجود میں لاتی ہے، پیداوار میں عوام کی شرکت ہے، مختلف شعبوں میں، چھوٹے پروڈکٹس سے لے کر بڑے پروڈکٹس تک عوام کے ذریعے انجام پائيں۔ خود یہی پروڈکشن میں اضافہ، افراط زر کو کنٹرول کرنے میں موثر ہے، یعنی اس پر بھی اثر ڈالتی ہے۔

یہ بات صرف باتوں اور نعرے سے نہیں ہوگي یعنی اگر ہم صرف زبانی طور پر کہیں کہ "لوگو! آؤ شرکت کرو" تو کوئي نہیں آئے گا، اس کا کوئي مطلب ہی نہیں ہے، اس کا کوئي نتیجہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں سے کہیں کہ وہ شرکت کریں۔ کس طرح شرکت کریں؟ کہاں شرکت کریں؟ مشارکت کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔

اچھے تجربوں میں سے ایک یہی نالج بیسڈ کمپنیاں ہیں۔ یہ اچھا تجربہ ہے۔ البتہ صرف اسی تک محدود نہیں رہنا چاہیے جس کے بارے میں عرض کروں گا لیکن یہ ایک اچھا تجربہ تھا۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کی مشارکت کے لیے اصول اور طریقۂ کار وضع کیے گئے جو اس بات کا سبب بنے کہ وہ افراد جو باصلاحیت تھے، غیر معمولی صلاحیت والے تھے، توانائي رکھتے تھے، جوش و جذبہ رکھتے تھے، آئيں اور ہزاروں نالج بیسڈ کمپنیاں وجود میں لائيں، انھوں نے پروڈکشن میں پیشرفت کو بڑھایا، مدد کی، یہ کمپنیاں بہت موثر واقع ہوئيں، ان کی تعداد بڑھنی ہی چاہیے۔ خود اس کام یعنی کاموں کو نالج بیسڈ بنانے کے لیے بھی پروگرامنگ کی ضرورت ہے۔ کون سے حصے اور کون سے شعبے نالج بیسڈ ہونے چاہیے؟ مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ تیل کا شعبہ یا زراعت کا شعبہ نالج بیسڈ ہونا چاہیے، کس طرح؟ کس پروگرام کے ساتھ؟ کون لوگ اس کام میں شامل ہو سکتے ہیں؟ اس کے لیے ایک منصوبے اور پروگرام کی ضرورت ہے جس کا ان لوگوں کے لیے اعلان ہونا چاہیے جو صلاحیت رکھتے ہیں، دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کام میں شرکت کرنا چاہتے ہیں۔ پڑھی لکھی جوان افرادی قوت کے لحاظ سے ہماری توانائي بہت زیادہ ہے، بحمد اللہ اب تک ہمارے یہاں پڑھے لکھے تیار نوجوان بہت زیادہ ہیں، ان میں سے بہت سے، ایسے کاموں میں مصروف ہیں جو ان کی  تعلیمی لیاقت سے میل بھی نہیں کھاتے لیکن وہ کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ کام جو ان کے سبجیکٹ کے لحاظ سے موزوں ہو، انھیں نہیں ملا ہے۔ اگر ہم اس پروگرام کو صحیح طریقے سے انجام دے پائيں، تو یہ مشکل دور ہو جائے گي۔ قومی معیشت کو نالج بیسڈ  کرنے کا روڈ میپ اور اس پر عمل درآمد کا پروگرام، حکومت کے محترم عہدیدار تیار کریں، لوگوں کو اس کی اطلاع بھی دیں اور ان کی مشارکت کی راہ بھی ہموار کریں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، یہ واضح ہونا چاہیے کہ کن شعبوں کو نالج بیسڈ ہونے کے لیے ترجیح حاصل ہے اور ان کے نالج بیسڈ ہونے کا طریقۂ کار کیا ہے؟ یہ باتیں واضح ہونی چاہیے اور لوگوں کو اس کی اطلاع ملنی چاہیے۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کی صورت میں عوامی مشارکت کے لیے ڈھانچہ تیار ہونا چاہیے اور اس کی بھی لوگوں کو اطلاع ہونی چاہیے۔

البتہ لوگوں کی مشارکت کے بارے میں میں نے جو اشارہ کیا، وہ صرف انھیں چیزوں تک محدود نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کی مشارکت صرف نالج بیسڈ کمپنیوں کے دائرے تک محدود رہے۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہیے کہ لوگ، وہ سبھی لوگ جو صلاحیت رکھتے ہیں، کام کی توانائي رکھتے ہیں، کام کے دائرے میں ہیں، ایسا کام کر سکیں جو ان کی زندگي میں مدد کرے، ان کی معیشت کو بہتر بنائے، عام لوگوں کی زندگي میں ان کے دسترخوان پر رونق آ جائے، استقامتی معیشت کی پالیسیوں کی پہلی شق میں اسی بات پر تاکید کی گئي ہے۔ ایسی تدابیر اختیار کیجیے کہ کم آمدنی والے طبقوں کی آمدنی اس وسیلے سے بڑھ جائے۔ اس طرح سے کمزور طبقوں کو مضبوط بنانے کا کام بھی ہو جائے گا، مطلب یہ کہ اس سلسلے میں ایک مکمل روڈمیپ تیار ہو اور وہ تیار ہو سکتا ہے، یعنی حکومت کا پلاننگ کمیشن اور ایسے ہی دوسرے ادارے بیٹھ کر پلاننگ کر سکتے ہیں اور طے کر سکتے ہیں کہ لوگ، عوام کے کمزور طبقے کس طرح معاشی سرگرمیوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔ معیشت کو مساوات بیسڈ کرنے کی بہترین راہ یہی ہے۔ یہ جو ہم سماجی مساوات کے مسئلے پر تاکید کرتے ہیں کہ اسلام میں معیشت کے کام کی بنیاد، انصاف ہے -"لِیَقومَ النّاسُ بِالقِسط"(14)- عدالت بیسڈ کرنے کا کام، اسی راہ سے حاصل ہوگا، ہم سبھی کے لیے کام کرنے اور آمدنی حاصل کرنے کی راہ فراہم کر سکیں۔

مجھے اطلاع ہے کہ بعض اداروں نے ملک کے دور دراز علاقوں میں یعنی تہران سے بہت دور مثال کے طور پر دیہاتوں میں جا کر کچھ کام کیے ہیں، انھوں نے کچھ خانوادوں کو، فرض کیجیے کہ کچھ عدد بھیڑوں کے ذریعے- یہ اس طرح کی سب سے چھوٹی مثالیں ہیں - اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، کچھ بھیڑوں والی ایک فیملی کو یا ایرانشہر کی بعض جگہوں پر، جہاں ہم تھے، کچھ بکریوں والی ایک فیملی کو، وہاں خاص طرح کی بکریاں ہیں، اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا ہے۔ اس چھوٹے سے کام سے لے کر بہت بڑے بڑے کاموں تک، جو ایک شہر کو، ایک علاقے کو آباد کر سکتے ہیں۔ بنابریں یہ ضروری کام کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم اس نعرے کو عملی جامہ پہنانا چاہیں تو یہ کچھ ضروری کام ہیں جو میں نے عرض کیا۔ البتہ کام تو اس سے زیادہ ہیں لیکن نشست کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ میں اس سلسلے میں اس سے زیادہ کچھ عرض کروں۔ محترم عہدیداران، صاحبان فکر، جو لوگ ان مسا‏ئل میں غور و خوض کرنے والے ہیں، وہ ان کاموں میں مزید امور کو جوڑ سکتے ہیں، اس پر زیادہ کام کر سکتے ہیں۔ یہ سب، اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے کے ضروری کام ہیں۔

معیشت کے مسئلے میں کچھ کلیدی سفارشات بھی ہیں جنھیں میں اختصار سے عرض کروں گا اور عہدیداران ان پر توجہ مبذول کریں گے۔ ان سفارشوں میں سرفہرست بدعنوانی سے مقابلہ ہے، بدعنوانی سے مقابلہ، جو صدر محترم کے انتخاب کے دوران کے اور انتخابات کے بعد کے نعروں میں بھی شامل رہا ہے اور ہم سب حقیقت میں یہی سوچ رکھتے ہیں۔ بدعنوانی سے مقابلہ ایک ضروری کام ہے، البتہ یہ بہت سخت کام ہے۔ میں نے آج سے کچھ سال پہلے، جب اس مسئلے کے بارے میں ایک تفصیلی بیان جاری کیا تھا(15) تو اس میں کہا تھا کہ اس کا خطرہ -میرے خیال میں میرے الفاظ یہی تھے- سات سروں والے ڈریگن کی طرح ہر طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس لیے بدعنوانی سے مقابلے میں پوری طاقت سے میدان میں اتر جانا چاہیے۔ بدعنوانی، لوگوں کو ناامید کر دیتی ہے، مایوس کر دیتی ہے، لوگوں کے اندر ایمانداری کے جذبے کو کمزور کر دیتی ہے۔ جب کوئي دیکھتا ہے کہ فلاں شخص غلط اور غیر قانونی طریقے سے اپنی جیب بھر رہا ہے تو اس انسان میں بھی وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ بدعنوانی ایک متعدی بیماری ہے، بہت خطرناک بیماری ہے اور واقعی معاشرے کی ہلاکت کا سبب ہے۔ بدعنوانی سے مقابلہ ضروری ہے۔ بغیر کسی تکلف کے، بغیر کچھ لحاظ کیے ہوئے، بدعنوانی سے مقابلہ کرنا چاہیے، وہ چاہے جہاں بھی ہو اور یہ ان تمام اہم کاموں میں سرفہرست ہے جو معاشی مسائل کے سلسلے میں ضروری ہیں۔

اگلا موضوع، مالی نظم و ضبط کا مسئلہ ہے۔ مالی ڈسپلن، پہلے مرحلے میں بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاح کے ساتھ ہے، جب ہم نے پچھلی حکومت میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے محترم سربراہوں کے ساتھ اقتصادی مسئلے کے جائزے کے لیے شروع میں یہ نشست منعقد کی تھی تو ایک اہم ہدف جس کا ہم نے اعلان کیا تھا اور وہ تحریری بھی تھا اور اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا تھا، بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاحات انجام دینا تھا، البتہ اب تک یہ کام پوری طرح سے انجام نہیں پایا ہے۔ بجٹ کے ڈھانچے کی اصلاح کا مسئلہ بہت اہم ہے، یہ مالی ڈسپلن کا سبب بنتا ہے۔ مالی ڈسپلن کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ ان مالی وعدوں سے یقینی طور پر پرہیز کیا جانا چاہیے جن کا کوئي ٹھوس منبع نہیں ہے۔ اس سلسلے میں میرا خطاب خاص طور پر پارلیمنٹ سے ہے۔  یقینی اخراجات کے لیے غیر یقینی اور متزلزل مالی ذخائر کا تخمینہ، بے ضابطگي پیدا کرتا ہے اور بلاشبہ بہت سارے مسائل وجود میں لاتا ہے۔

کفایت شعاری کرنی چاہیے، مالی ڈسپلن میں جو کام اہم ہیں ان میں سے ایک، کفایت شعاری ہے۔ ہمیں کفایت شعاری سیکھنی چاہیے۔ افسوس کی بات ہے کہ یہ چیز، ہماری اجتماعی قومی مشکل ہے، ہم فضول خرچی کرتے ہیں،  زیادہ فضول خرچی ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ملکوں کی کفایت شعاری بہت اچھی اور قابل تعریف ہے، عام لوگ بھی، عہدیداران بھی اور مختلف سرکاری ادارے بھی۔

بقول سعدی شیرازی:

چو دخلت نیست خرج آھستہ ‌تر کن

کہ میگویند ملّاحان سرودی

اگر باران بہ کوھستان نبارد

بہ سالی دجلہ گردد خشک‌رودی(16)

جب انسان کی آمدنی کم ہے، آمدنی کے مسائل ہیں تو اسے کفایت شعاری کرنی چاہیے۔ البتہ جب آمدنی زیادہ ہو تب بھی کفایت شعاری کرنی چاہیے، یعنی اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب ہمیشہ کے لیے ہے، خاص طور سے اس وقت کے لیے جب آمدنی کم ہو۔ بنابریں مختلف شعبوں میں ہم فضول خرچی کا شکار ہیں، اس کا خیال رکھنا چاہیے، مثال کے طور پر فضول کے دورے، بلاوجہ کے اجتماعات اور مختلف شعبے جو کچھ کام انجام دیتے ہیں، کچھ چیزیں خریدتے ہیں اور اسی طرح کے دوسرے کام کرتے ہیں۔

اگلا مسئلہ، اور یہ بھی معیشت کے سلسلے میں بہت اہم ہے – یہ ماہرین کی سفارش ہے اور وہ یہ بات ہم سے مسلسل کہتے ہیں – صحیح پروڈکٹیوٹی کا مسئلہ ہے۔ چھٹے پروگرام میں – کہ جو پارلیمنٹ سے منظور شدہ اور ایک مسلمہ قانون تھا، جس کی مدت میں بعد میں توسیع کی گئي اور اس سال بھی اس کی مدت تھوڑی بہت بڑھائي گئي ہے – ملک کی معاشی پیشرفت کی شرح آٹھ فیصد طے کی گئي تھی، اس میں صراحت کے ساتھ کہا گيا تھا کہ اس میں سے  ایک تہائي پیشرفت، پروڈکٹیوٹی بڑھانے کے ذریعے ہونی چاہیے۔

ہم جب ان پچھلے برسوں پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف معاشی پیشرفت کا ایک تہائي حصہ پروڈکٹیوٹی کے ذریعے انجام نہیں پایا ہے یعنی پروڈکٹیوٹی میں کوئي پیشرفت نہیں ہوئي ہے اور اس نے معیشت کو آگے نہیں بڑھایا ہے بلکہ پروڈکٹیوٹی کی سطح بہت ہی کم ہے۔ اس کے اعداد و شمار موجود ہیں، مجھے بھی دیے گئے ہیں، میں یہاں اعداد و شمار بیان نہیں کرنا چاہتا لیکن پروڈکٹیوٹی کی سطح بہت کم ہے۔ پانی کے سلسلے میں ہماری پروڈکٹیوٹی دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے کم ہے، انرجی کے سلسلے میں ہماری پروڈکٹیوٹی بہت ہی کم ہے۔ میں نے کچھ سال پہلے، سال کے پہلے دن کی تقریر میں بھی کہا تھا کہ ہمارے ملک میں اینرجی کا استعمال، پیشرفتہ ممالک سے کئي گنا زیادہ ہے۔(17) یعنی استعمال زیادہ اور نتیجہ کم۔ یہ بھی ایک مشکل ہے۔

معاشی مسائل کے سلسلے میں ایک دوسری سفارش جو میں کرنا چاہتا ہوں وہ بڑی سرکاری کمپنیوں سے ذمہ دار اداروں کے منطقی رابطے کے بارے میں ہے۔ ہمارے یہاں بہت سی بڑی کمپنیاں ہیں جو حکومت کی ہیں، ان کا سرمایہ حکومت سے متعلق ہے، ان کی آمدنی بھی حکومت کی ہے، ان کے ساتھ حکومت کے رابطے کو منظم کیا جانا چاہیے، ان کمپنیوں کے ساتھ حکومت کے تعلقات کو منظم ہونا چاہیے۔ ان کمپنیوں میں بعض بہت اچھے اور لگن سے کام کرنے والے منتظمین ہیں جن کی حمایت اور مدد کی جانی چاہیے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ایسا ہی ہے، ایسے ہی اچھے اور محنتی منتظمین میں سے بعض، کچھ مہینے پہلے یہاں آئے تھے(18) ان میں سے کچھ نے گفتگو بھی کی، رپورٹیں دیں، ایک دم واضح اور صاف رپورٹیں، یعنی کیمرے سے ریکارڈ کی ہوئي اور آنکھوں کے سامنے کی رپورٹیں، جن میں کسی طرح کا شک و شبہہ نہیں ہو سکتا، انھوں نے بڑے اچھے کام کیے ہیں۔ میرے خیال میں ہماری اور خاص طور پر انتظامیہ اور حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے اچھے اور سرگرم منتظمین کی حمایت اور مدد کی جائے۔ ایک محنتی انٹر پرینیور کی جو بہترین حمایت ہو سکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس کے پروڈکٹ کے لیے منڈی فراہم کریں – چاہے غیر ملکی منڈی ہو، چاہے ملکی منڈی ہو – ہم اسے کمپیٹیشن کی طاقت دیں، کوالٹی کو بہتر سے بہتر بنانے میں اس کی مدد کریں۔ بعض پروڈکٹس میں ہماری تعداد اچھی ہے، معیار خراب ہے۔ یہ دنیا میں کمپٹیشن نہیں کر سکتا، ملکی منڈیوں میں بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہمیں مدد کرنی چاہیے۔ بازار اور منڈی فراہم کرنے میں، اس کی منڈی کو بڑھانے میں، اس کی فروخت کی منڈی کو بڑھانے میں بھی مدد کرنی چاہیے اور کوالٹی، کمپیٹیشن کی طاقت وغیرہ میں بھی مدد کرنی چاہیے۔ البتہ جن منتظمین کی میں نے بات کی ہے، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگ ان برسوں کی سخت معاشی جنگ کے عرصے میں کام کرنے میں کامیاب رہے ہیں، یہ لوگ ڈٹ کر کھڑے رہے ہیں، یہ لوگ بعض میدانوں میں ملک کو آگے لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اس لیے ان کی مدد کی جانی چاہیے اور ان کی حمایت ہونی چاہیے۔ البتہ ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، خاص طور پر حکومت کے لوگوں کی۔ حکومتی منتظمین کو یہ معین کرنا چاہیے کہ ملک کی معیشت کی بنیادی پالیسی کے سلسلے میں ان کی کارکردگي اور کردار کیا ہے؟ یہ طے ہونا چاہیے، یعنی فلاں بڑی کمپنی جو حکومت ہی سے تعلق رکھتی ہے، اس کا خام مال بھی ملک کے اندر سے ہی آتا ہے – ایسی متعدد بڑی کمپنیاں ہیں جن کی آمدنی کافی ہے اور خام مال بھی ملک کے اندر کا ہی ہے – لیکن وہ اپنے پروڈکٹ کی قیمت، ڈالر کی جعلی قیمت کے حساب سے طے کرتی ہے اور ڈالر کی یہ جعلی قیمت دشمن کے ذریعے طے کی جاتی ہے، ایسا کیوں ہے؟ آپ کیوں ڈالر کو حکمرانی عطا کر رہے ہیں؟ کیوں آپ ریال کے حریف کو طاقت عطا کر رہے ہیں؟ ہماری ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ملک کے اندر ریال کے حریف کو مضبوط نہ بنائيں۔

کسی زمانے میں - آج سے چالیس پچاس سال پہلے – امریکیوں نے اپنے ملک کے اندر ڈالر کو مضبوط بنانے کے لیے، سونے کو جو ڈالر کا حریف تھا، بڑی قیمت پر خریدا اور اکٹھا کر لیا تاکہ سونا عوام کے ہاتھوں میں نہ رہے، تاکہ امریکا کے اندر ڈالر کی حیثیت بن جائے لیکن ہم اپنے ریال کے لیے لگاتار حریف تیار کرتے رہتے ہیں! واقعی ہمارے ملک کی مصیبتوں میں سے ایک، ہماری معیشت کے مختلف شعبوں کا ڈالر سے جڑا رہنا ہے۔ میں نے مشہد میں کہا(19) کہ بعض ملکوں نے اپنے آپ کو ڈالر سے الگ کر لیا اور وہ اپنی تجارت اور لین دین دوسرے طریقوں سے انجام دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان ملکوں کو سوئفٹ(20) سے بھی نکال دیا گيا تھا، انھوں نے سوئفٹ سے بھی اپنے تعلقات منقطع کر لیے - اُنھوں نے بھی منقطع کر دیے تھے، اِنھوں نے بھی منقطع کر دیے - اِن کی صورتحال بہتر ہو گئي۔ اس وقت کئي ملک ہیں جن کی حالت بہتر ہو گئي ہے۔ بنابریں حکومت سے وابستہ بڑی کمپنی کو یہ طے کر دینا چاہیے کہ مثال کے طور پر اس سال، جب پالیسی افراط زر کو کنٹرول کرنے کی ہے، افراط زر کو کنٹرول کرنے میں اس کا کردار کیا ہے؟ اس سلسلے میں وہ کون سا کردار ادا کرے گي اور کیا کام کرے گی اور ملک کی معیشت کی بنیادی اسٹریٹیجی کے سلسلے میں کیا رویہ اختیار کرے گي؟ یہ بات سرکاری کمپنیوں اور پرائيویٹ سیکٹر کے لیے ہے کہ ہم نے کہا کہ واقعی اچھے منتظمین کی حمایت کی جانی چاہیے جنھوں نے سخت حالات میں ملکی معیشت کی مدد کی۔ اس کے مقابلے میں ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے ملک کے مالیاتی نظام اور مونیٹری سسٹم میں تخریبی کردار ادا کیا، ان کے ساتھ بھی بلاتکلف سختی سے نمٹا جانا چاہیے۔ بعض دھوکے باز کریڈٹ ادارے، بعض پرائيویٹ بینک جائيداد خریدیں، زمین خریدیں، رزرو بینک سے زیادہ پیسے نکالیں جو خود افراط زر اور دوسری متعدد مشکلات کا سبب ہے، ان سے نمٹا جانا چاہیے۔

اگلا کام بھی بہت ضروری کام ہے اور وہ ہے پلاننگ سسٹم کی پیشگی تخمینے کی طاقت۔ ہمیں کبھی کبھی اپنی ضرورت کی بعض اشیاء میں کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا ہمیں اپنی پلاننگ میں اندازہ ہونا چاہیے، یعنی ملک کی معاشی پلاننگ کے ادارے - اس ذمہ دار ادارے - میں اندازہ لگانے کی طاقت ہونی چاہیے کہ اس طرح کی کمی پیش آ سکتی ہے۔ اگر ہم نے پہلے سے اندازہ نہیں لگایا تو بحران کے وقت اچانک ہمیں اس کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر ہم کیا کرتے ہیں؟ بوکھلا کر اور جلدبازی میں اس چیز کو باہر سے درآمد کرتے ہیں، ملکی پیداوار کی کمر توڑ دیتے ہیں، اگر پہلے سے اندازہ لگانے کی یہ طاقت نہ ہو تو ایسی ہی صورتحال پیش آتی ہے۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ کمیوں کو ہر میدان میں بحرانی کیفیت پیدا کرنے نہیں دینا چاہیے، جیسے ہی کمی کا احساس ہو - مثال کے طور پر گوشت، مرغ، چاول یا کوئي بھی دوسری چیز - یہ محسوس ہو کہ اس کی کمی ہو سکتی ہے، اس سے پہلے ہی عوامی وسائل اور عمومی گنجائشوں سے استفادہ کرنا چاہیے اور استفادہ کیا جا سکتا ہے اور مسئل کے حل کے لیے گنجائشوں کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور مسئلے کو بحرانی ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔

ایک دوسرا نکتہ جو میں یہاں عرض کروں گا، یہ ہے کہ بعض کلیدی اقدامات ہیں جو معیشت کو آگے بڑھاتے ہیں، بعض تو اقتصاد میں تیز رفتار ترقی کا سبب بنتے ہیں، ذمہ دار اداروں کو انھیں تلاش کرنا چاہیے۔ دو تین مثالیں میری نظروں میں آئيں اور میں نے انھیں نوٹ کر لیا ہے۔

ان میں سے ایک سمندر پر مبنی معیشت (The ocean economy) ہے جس کے بارے میں حالیہ عرصے میں ہمیں رپورٹیں دی جا رہی ہیں اور لگاتار تجاویز دی جا رہی ہیں اور یہ صحیح بات ہے۔ سمندر، برکتوں کا مرکز ہے، سمندر کے لحاظ سے بحمد اللہ ہمارے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، ہمارے ملک کے جنوب میں اور شمال میں سمندر ہے۔ سمندر پر مبنی معیشت، بڑی ہی بابرکت معیشت ہے، ایک یہ ہے، اس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے۔ اس کے لیے بھی کچھ ضروری امور ہیں جن پر ہمیں عمل کرنا چاہیے، نظر رکھنی چاہیے اور کام کرتے رہنا چاہیے۔

دوسری مثال شمال - جنوب کاریڈور کی ہے جس کے بارے میں عرصے سے ملک میں بات ہو رہی ہے اور یہ بھی بالکل صحیح ہے، اسے انجام پانا چاہیے۔ اس وقت ملکوں کے درمیان ایک کمپٹیشن شروع ہو گيا کہ عالمی تجارت کی راہوں کو اپنے اندر سے گزاریں۔ یہ ملک چاہتا ہے کہ اس کے اندر سے ہو کر یہ راستہ گزرے، وہ ملک چاہتا کہ اس کے اندر سے ہو کر گزرے۔ ہم بڑی حساس جگہ پر واقع ہیں۔ جغرافیائي لحاظ سے ہمارا محل وقوع بہت حساس ہے، اس خطے میں شاید ایک بھی ایسا ملک نہیں ہے جس کے پاس ایسی ممتاز جغرافیائي پوزیشن ہو۔ ہمارا محل وقوع ممتاز پوزیشن کا حامل ہے۔ ہمیں اس شمال - جنوب کاریڈور کو وسعت دینی چاہیے۔ البتہ دوسرے کاریڈور بھی ہیں جیسے مشرق - مغرب کاریڈور لیکن سب سے اہم یہی ہے۔ ہم شمال - جنوب کاریڈور پر کام کریں کہ اس کے لیے رضاکار بھی ہیں، غیر ملکی حکومتوں کے ایسے لوگ ہیں جو اس سلسلے میں تعاون کر سکتے ہیں۔ اس پر سنجیدگي سے کام کیجیے، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔

ایک دوسرا مسئلہ کانوں کے احیاء کا ہے، صدر مملکت صاحب نے بتایا کہ کانوں کے سلسلے میں یہ کام انجام پائے ہیں(21) جن کی مجھے اطلاع نہیں تھی، یہ بہت اچھا ہے، یہ واقعی خوشخبری ہے۔ کانوں کے وجود کے لحاظ سے ہم بہت مالامال ہیں۔ میں نے کبھی یہاں پر نظام کے عہدیداروں کی ایسی ہی ایک نشست میں اعداد و شمار کے حوالے سے - جو اعداد و شمار مجھے دیے گئے تھے اور بہت درست تھے - کہا تھا کہ ہماری آبادی دنیا کی ایک فیصد ہے، ہماری حساس کانیں ایک فیصد سے زیادہ ہیں، دو فیصد، تین فیصد، پانچ فیصد یا ایسا ہی کوئي عدد(22) مطلب یہ کہ کانوں کے لحاظ سے ہم بہت مالامال ہیں، کانوں کے تنوع، کانوں کی تعداد وغیرہ کے لحاظ سے۔ تو یہ کانوں کی بات ہوئي۔

ہاؤسنگ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہاؤسنگ، ملک کے لیے ایک روزگار پیدا کرنے والا اور ثروت فراہم کرنے والا کام ہے۔ غرضیکہ اس پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ بحمد اللہ حکومت میں ایسے افراد ہیں جن کی اقتصادی سوچ، معاشیات کا علم بہت اچھا ہے اور ہمیں ان سے واقعی فائدہ اٹھانا چاہیے، ان کی بات سننی چاہیے، ان سے سیکھنا چاہیے، ایسے افراد بہت ہیں اور ان کے ماہرین کبھی کبھی ہمیں کچھ رپورٹیں بھی دیتے ہیں، دوسرے ماہرین بھی ایسے ہی ہیں۔ ہم بھی کچھ باتیں عرض کرتے ہیں۔ یہ جو باتیں ہم نے عرض کی ہیں، یہ وہ باتیں ہیں جنھیں انجام پانا چاہیے۔ تو یہ معیشت کے مسئلے پر کچھ باتیں تھیں۔

دو تین باتیں اور بھی ہیں جنھیں میں جلدی جلدی عرض کر دوں۔ پہلا مسئلہ عالمی تغیرات کا ہے۔ میں نے کچھ عرصے پہلے کہا تھا کہ دنیا ایک اہم سیاسی  تبدیلی کے دہانے پر ہے(23) یعنی عالمی نظام کی صورتحال بدل رہی ہے اور یہ بات اب مختلف جگہوں سے سنائي دے رہی ہے، دوہرائي جا رہی ہے۔ میں آج یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بحمد اللہ یہ عالمی تبدیلی اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے محاذ کی کمزوری کی سمت میں ہے، یہ اہم چیز ہے۔ اول تو یہ کہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آ رہی ہیں، بہت تیز رفتاری سے، دوسرے یہ کہ اسی خصوصیت کے ساتھ جو میں نے عرض کی یعنی اس محاذ کی کمزوری کی سمت میں ہے، یہ تبدیلیاں اب تک اسی طرح کی ہیں۔ تو یہ صورتحال کس چیز کی متقاضی ہے؟ یہ اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم خارجہ پالیسی کے مسئلے میں اپنی جدت عمل کو بڑھائيں، جدت عمل، تحرک اور سرگرمیوں وغیرہ کو بڑھائيں اور موقع سے فائدہ اٹھائيں۔ میں نے کہا کہ اس نظام میں ہمارا مقابل محاذ کمزور ہوتا جا رہا ہے جس کے کچھ نمونے ہیں جنھیں میں عرض کرتا ہوں۔ عالمی سطح پر ہمارے سب سے اہم مخالفوں میں سے ایک امریکی حکومت ہے نا! اوباما کا امریکا، بش کے امریکا سے زیادہ کمزور تھا، ٹرمپ کا امریکا، اوباما کے امریکا سے زیادہ کمزور تھا، ان صاحب(24) کا امریکا، ٹرمپ کے امریکا سے زیادہ کمزور ہے۔ ہم کیوں کہہ رہے ہیں کہ کمزور ہے؟ اول یہ کہ امریکا کے اندر دو تین سال پہلے الیکشن کے مسئلے پر دو الگ الگ دھڑے پیدا ہو گئے تھے، یہ دو دھڑے پوری شدت سے اب بھی باقی ہیں، یہ کمزوری ہی تو ہے! یہ بہت اہم ہے۔ ابھی کچھ مہینے پہلے ان کی کانگریس کا جو حالیہ الیکشن ہوا، اس میں بھی واضح ہو گيا کہ یہ دو دھڑے اب بھی پوری شدت سے باقی ہیں۔

امریکا، صیہونی حکومت کے سیاسی بحران کو - جو اس کے لیے بہت اہم ہے - حل نہیں کر سکا ہے، یہ امریکا کی کمزوری ہے۔ صیہونی حکومت، امریکا کے لیے بہت اہم ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ صیہونی حکومت بھی کس حالت میں ہے، اس کے بارے میں بعد میں اختصار سے کچھ عرض کروں گا، امریکا اسے حل نہیں کر پایا ہے۔

امریکا نے اعلان کیا کہ وہ ایک ایران مخالف، اسلامی جمہوریہ مخالف متحدہ عرب محاذ تشکیل دینا چاہتا ہے تاکہ وہ متحد ہو کر ایران کے خلاف کام کر سکے، آج جو کچھ وہ چاہتا تھا، اس کے برخلاف ہو رہا ہے اور ایران کے ساتھ عرب ملکوں کے روابط روز بروز بڑھ رہے ہیں۔

امریکا پابندیوں کے دباؤ کے ذریعے ایٹمی مسئلے کو اپنے پروگرام کے مطابق ختم کرنا چاہتا تھا لیکن وہ ایسا نہیں کر سکا، یہ امریکا کی کمزوری ہے۔ اس نے بڑی کوشش کی - شور مچایا، میڈیا کے ذریعے، سیاست، پابندی، وغیرہ وغیرہ لیکن وہ نہیں کر سکا، وہ ایٹمی مسئلے کو اپنے پروگرام کے مطابق حل نہیں کر سکا۔

امریکا نے یوکرین کی جنگ شروع کرائي - یہ میرا ادعا ہے، اس کے لیے بہت سی دلیلیں بھی ہیں، دنیا میں بہت سے لوگ بھی یہی مانتے ہیں، البتہ خود امریکی تسلیم نہیں کرتے لیکن انھوں نے ہی یہ جنگ شروع کرائي - مگر اس وقت یہ جنگ اس بات کا سبب بن گئي ہے کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان رفتہ رفتہ خلیج پیدا ہو جائے اور دونوں کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے۔ کیونکہ اس جنگ میں مار یورپ والوں کو کھانی پڑ رہی ہے، فائدہ امریکا اٹھا رہا ہے، اس بات نے فاصلہ پیدا کر دیا ہے، یہ امریکا کی کمزوری ہے۔ امریکا، لاطینی امریکا کو اپنا بیک یارڈ سمجھتا ہے لیکن اس وقت لاطینی امریکا کے متعدد ملکوں میں امریکا مخالف حکومتیں اقتدار میں آ رہي ہیں۔ امریکا، وینیزوئیلا میں مکمل تبدیلی لانا چاہتا تھا، اس نے موجودہ امریکا مخالف حکومت کی جگہ ایک دوسری حکومت بھی بنا دی تھی، ایک جعلی صدر بھی تیار کر دیا تھا، اسے عسکری طاقت بھی فراہم کر دی تھی، اسے پیسے بھی دیے، ہتھیار بھی دیے، دو تین سال تک کشیدگي بھی بنائے رکھی لیکن آخرکار وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا، یہ ساری اس کی کمزوری کی نشانیاں ہیں۔

دنیا میں ڈالر کمزوری کی طرف بڑھ رہا ہے، بہت سے ممالک ہیں جو ڈالر میں ہونے والے اپنے لین دین کو ایک دوسرے کی قومی کرنسی یا دوسری کرنسیوں میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ سب کمزوری کی علامتیں ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ مخالف محاذ کمزور پڑ گيا ہے، اس کی دلیلیں یہ ہیں۔ تو امریکا جو اسلامی جمہوریہ سے دشمنی میں سرفہرست ہے، یہ سب اس کی کمزوری کی نشانیاں ہیں۔ کچھ اور بھی علامتیں ہیں جنھیں فی الحال ہم نظر انداز کرتے ہیں۔

جہاں تک صیہونی حکومت کی بات ہے - کہ وہ بھی ہماری ایک دشمن ہے - تو وہ اپنی پچھتر سال کی عمر میں کبھی بھی آج جیسی ہولناک مصیبتوں میں گرفتار نہیں ہوئي تھی۔ سب سے پہلے سیاسی تزلزل، چار سال میں چار وزیر اعظم بدلے گئے، جماعتی اتحاد تشکیل پانے سے پہلے ہی ٹوٹ جاتے ہیں، اتحاد بناتے ہیں اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ اتحاد بکھر جاتا ہے۔ وہ پارٹیاں جو پہلے سے تشکیل پا چکی ہیں یا تشکیل پا رہی ہیں، رفتہ رفتہ ٹوٹتی جا رہی ہیں، تحلیل ہوتی جا رہی ہیں، یعنی وہ اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ وہ ٹوٹنے جیسی حالت میں پہنچ جاتی ہیں۔ پوری جعلی صیہونی حکومت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے اگر آپ موجودہ صورتحال کو دیکھیں - فلسطینیوں کا معاملہ الگ ہے - تو ان کے درمیان بری طریقے سے اختلاف پیدا ہو گيا ہے، تل ابیب اور مختلف دوسرے شہروں میں ایک لاکھ اور دو لاکھ لوگوں کے مظاہرے، اسی بات کی نشانی ہیں۔ ممکن ہے وہ (صیہونی) کسی جگہ دوچار میزائل مار دیں لیکن وہ اس معاملے کی تلافی نہیں کر سکتا ہے۔ حقیقی معنی میں صیہونی حکومت سیاسی کمزوری اور تزلزل کا شکار ہے۔ بتایا گيا ہے کہ جلد ہی، ان لوگوں کی تعداد جو اسرائیل سے نکل رہے ہیں، وہ یہودی جو باہر بھاگ رہے ہیں، ان کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ جائے گي۔ اس کا انھوں نے اعلان کیا ہے، یعنی انھوں نے کہا کہ مستقبل قریب میں تقریبا بیس لاکھ لوگ صیہونی حکومت کے مقبوضہ علاقوں سے نکل جائیں گے۔ ان کے خود کے حکام لگاتار اور مسلسل انتباہ دے رہے ہیں کہ عنقریب ہی شیرازہ بکھر جائے گا۔ ان کا صدر کہہ رہا ہے، ان کا سابق وزیر اعظم کہہ رہا ہے، ان کا سیکورٹی چیف کہہ رہا ہے، ان کا وزیر دفاع کہہ رہا ہے، وہ سبھی کہہ رہے ہیں کہ عنقریب ہی ہمارا شیرازہ بکھر جائے گا اور ہم اسّی سال کے نہیں ہو پائيں گے۔ ہم نے کہا تھا "تم اگلے پچیس سال نہیں دیکھ پاؤگے"(26) لیکن ان کو تو (مٹ جانے کی) اور بھی جلدی پڑی ہے۔

فلسطینی گروہوں کی طاقت، ماضی کی نسبت، یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کئي گنا، بلکہ شاید دسیوں گنا بڑھ چکی ہے۔ ہم تک ایک رپورٹ پہنچی کہ فلسطینیوں نے مقبوضہ علاقوں میں ایک چوبیس گھنٹے میں ستائيس کارروائياں انجام دیں، پورے فلسطین میں، بیت المقدس میں، غرب اردن کے علاقے میں، 1948 کے علاقوں میں(27) وہ ہر جگہ کام کر رہے ہیں۔ وہ اوسلو والا فلسطین – آپ کو یاد ہی ہوگا کہ یاسر عرفات اور دوسروں نے اوسلو معاہدے(28) میں فلسطین کے لیے کیسی فضیحت تیار کی تھی – عرین الاُسود(29) تک پہنچ چکا ہے، اُسود یعنی شیروں کا فلسطین! اتنا زیادہ فرق آ چکا ہے۔ فلسطینی اس طرح سے آگے بڑھے ہیں۔ تو جب صیہونی کمزور پڑے تو مزاحمتی محاذ بحمد اللہ مضبوط بنتا جا رہا ہے، جس کی ایک مثال یہی فلسطینی گروہ ہیں، جس کے بارے میں، میں نے عرض کیا۔ یہ بھی ایک بات تھی جسے میں عرض کرنا چاہتا تھا۔

اگلی بات، ہمارے ملک کے اندرونی حالات کے لیے دشمنوں کی سازش ہے، کچھ سازشیں تھیں، کچھ سازشیں رہیں گي۔ گزشتہ خزاں کے ہنگاموں میں عورت کے مسئلے کو بہانہ بنایا گيا، ہنگامے مچائے گئے، اس پورے قضیئے کی پشت پر دشمنوں یعنی مغربی حکومتوں کی خفیہ ایجنسیاں تھیں، وہ ممالک جو خود ہی عورت کے مسئلے میں سخت شک کے دائرے میں ہیں۔ حال ہی میں بتایا گيا کہ فلاں یورپی ملک کی پولیس نے کہا ہے کہ خواتین راتوں کو اکیلے سڑکوں پر نہ نکلیں، مرد کے ساتھ جائيں! مطلب یہ کہ عورتوں کے لیے سیفٹی نہیں ہے۔ بعض مراکز اور کیمپس میں جہاں عورت اور مرد دونوں ہیں، خواتین رات کو بیت الخلاء جانے کی ہمت نہیں کرتیں۔ ان کی ملٹری فورسز میں ایک طرح سے، ان کے کوچہ و بازار میں ایک دوسری طرح سے۔ پھر یہ ممالک خواتین کے مسئلے میں اسلامی جمہوریہ پر، جو عورت کو برترین درجہ عطا کرتی ہے، اعتراض کرتے ہیں، سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں!

ایک یورپی ملک میں ایک پردے دار مسلمان عورت کو عدالت میں پولیس اور عدالت کی نظروں کے سامنے قتل کر دیا گيا! ان کی نظروں کے سامنے۔ عورت کو زدوکوب کیا گيا تھا، اس نے عدالت میں کیس کر دیا تھا، عدالت تشکیل پائي، خود عدالت میں اسی شخص نے، جس نے پہلے زدوکوب کیا تھا، اس پر پھر وار کیا اور وہ عورت دنیا سے گزر گئي، شہید ہو گئي! یہ، عورتوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اندر بھی کچھ لوگ فریب کھا چکے ہیں – میرے خیال میں زیادہ تر لوگ فریب کھا گئے تھے – غیر ملکی دشمن اور باہر رہنے والے غداروں کی باتوں میں آ کر، وہ لوگ ورغلاتے تھے اور ان لوگوں نے عورت کی آزادی کے نعرے لگائے۔ اس مسئلے میں بھی انھوں نے ہنگامہ مچایا، بہت سے دوسرے معاملوں کی طرح، منطقی بات، صحیح اور ٹھوس بات پیش کرنے کے بجائے، جسے سنا جا سکتا ہو، بات کی جا سکتی ہو، شور مچایا۔

خواتین کا مسئلہ صرف پہناوا تو نہیں ہے، تعلیم کا مسئلہ ہے، روزگار کا مسئلہ ہے، شادی کا مسئلہ ہے، سیاسی سرگرمیوں کا مسئلہ ہے، سماجی امور میں شمولیت کا مسئلہ ہے، سرکاری سطح کے اعلی عہدوں پر فائز ہونے کا مسئلہ ہے، یہ سارے خواتین کے مسائل ہیں۔ ان میں سے کس مسئلے میں ملک میں آزادی نہیں ہے؟ اسلامی جمہوریہ نے ان میں سے کس میں، خواتین کے کام میں مداخلت کی ہے اور ان کی  آزادی کو روکا ہے؟  اتنی تعداد میں اسکولی طالبات، اتنی تعداد میں کالج اور یونیورسٹی کی طالبات، اتنی بڑی تعداد میں اعلی سرکاری عہدوں پر کام کرنے والی خواتین، اتنی تعداد میں بڑے بڑے اجتماعات تشکیل دینے والی خواتین، جدوجہد کے دور میں مؤثر اجتماعات میں خواتین کی سرگرم شرکت، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور بعد میں جنگ میں، محاذ کے پیچھے کی سرگرمیوں سے لے کر آج تک مظاہروں میں، ریلیوں میں بائيس بہمن (گيارہ فروری کے جلوسوں) میں، یوم قدس میں، دنیا میں کہاں عورت اتنی زیادہ سرگرمیاں انجام دیتی ہے جتنی ایرانی خواتین پورے افتخار اور سربلندی سے انجام دے رہی ہیں۔

پہناوے کے مسئلے کی بات کریں تو جی ہاں! حجاب کا مسئلہ، شرعی و قانونی پابندی ہے، یہ حکومتی پابندی نہیں ہے، قانونی ہے اور شرعی ہے، حجاب نہ کرنا، شرعی لحاظ سے حرام ہے اور سیاسی لحاظ سے حرام ہے، شرعی حرام بھی ہے اور سیاسی حرام بھی ہے۔ بہت سی عورتیں جو پردہ نہیں کرتیں، وہ اس بات کو نہیں جانتیں، اگر وہ جان جائيں کہ وہ جو کام کر رہی ہیں اس کی پشت پر کون لوگ ہیں تو قطعی طور پر وہ یہ کام نہیں کریں گي، میں جانتا ہوں۔ ان میں سے بہت سی خواتین وہ ہیں جو دیندار ہیں، اللہ کے سامنے گریہ کرنے والی ہیں، ماہ رمضان کے روزے رکھنے والی ہیں، دعائيں پڑھنے والی ہیں لیکن وہ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہیں کہ حجاب کی مخالفت کی اس چال کے پیچھے کون ہے۔ دشمن کے جاسوس، دشمن کی جاسوسی تنظیمیں، اس معاملے کی پشت پر ہیں۔ اگر وہ جان جائيں تو بالکل یہ کام نہیں کریں گی۔ بہرحال یہ مسئلہ قطعی طور پر حل ہو جائے گا۔ امام خمینی نے انقلاب کی کامیابی کے بعد کے ابتدائي ہفتوں میں حجاب کے مسئلے کو لازمی قرار دیا تھا اور یہ بات ٹھوس طریقے سے بیان کی تھی۔(30) یہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے سب سے ابتدائي کاموں میں سے ایک تھا۔ ان شاء اللہ یہ مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن سبھی کو یہ جان لینا چاہیے کہ دشمن نے پورے منصوبے اور چال کے تحت یہ کام شروع کیا ہے، ہمیں بھی پورے منصوبے اور تدبیر کے ساتھ کام شروع کرنا چاہیے۔ غیر اصولی اور بغیر پروگرام والے کام نہیں کرنے چاہیے۔ ذمہ داران کے پاس منصوبہ ہونا چاہیے اور ہے، ان شاء اللہ یہ کام پروگرام اور منصوبے کے ساتھ آگے بڑھے۔ یہ بھی ایک مسئلہ تھا۔

ایک دوسرا مسئلہ – شاید آخری یا آخر سے پہلے والا مسئلہ – اس سال کے آخر میں ہونے والے الیکشن کا ہے۔(31) یہ الیکشن بہت اہم ہے۔ انتخابات، قومی طاقت کے مظہر ہو سکتے ہیں۔ اگر ان کا صحیح طریقے سے انعقاد نہ ہوا تو یہ چیز ملک کی کمزوری اور قوم کی کمزوری کو عیاں کرتی ہے۔ اس سے حکومت کی کمزوری، عہدیداروں کی کمزوری، عوام کی کمزوری اور پورے ملک کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے۔ ہم جتنے کمزور ہوں گے، دشمنوں کا حملہ اور دباؤ بھی اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ دشمن کا دباؤ ختم ہو جائے تو ہمیں مضبوط ہونا ہوگا۔ ملک کی مضبوطی کے اہم وسائل میں سے ایک، یہی الیکشن ہے۔ متعلقہ عہدیداران ابھی سے - البتہ مجھے علم ہے کہ انھوں نے کام شروع کر دیا ہے – لوگوں کی مشارکت کی، انتخابات کی سیکورٹی کی، انتخابات کی سیفٹی کی، انتخابات میں کمپٹیشن کی اسٹریٹیجی کو طے کریں، ان شاء اللہ رواں (ہجری شمسی) سال کے آخر میں لوگوں کی بھرپور شرکت سے اچھا اور شفاف الیکشن منعقد ہو۔

آخری مسئلہ، میڈیا کا مسئلہ ہے جو اہم ہے۔ میں نے بارہا میڈیا کے بارے میں بات کی ہے، پھر عرض کر رہا ہوں۔ دشمن کی جانب سے صحیح بات کو غلط بنا کر پیش کرنے کی کوشش، شخصیات کو بدنام کرنے کی کوشش، سائبر اسپیس اور سوشل میڈیا وغیرہ میں دشمن کے ذریعے ملک کے مضبوط پہلوؤں کے خلاف سازشوں کو سامنے لانا چاہیے، یہ کام میڈیا کا ہے۔ بحمد اللہ قومی میڈیا مومن اور پرجوش افراد کے ہاتھ میں ہے، وہ کوشش کریں کہ اس سلسلے میں دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔

اے پروردگار! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سنا، اسے اپنے لیے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ اے پالنے والے! ہمیں اس چیز پر عمل کرنے کی اور اس کا وفادار رہنے کی توفیق عطا کر جس پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جس کا زبان سے اظہار کرتے ہیں۔ ایرانی قوم کو سر بلند کر دے۔ ایرانی قوم کو اس کے دشمنوں پر فتحیاب کر دے۔ مومن، پرجوش اور وفادار عہدیداروں کو توفیق عطا کر اور ان کی تائيد کر۔ اے پروردگار! اس مہینے میں ہم سبھی کو اپنے ذکر کی توفیق عطا کر۔ نیک کاموں اور لوگوں کے ساتھ بھلائي کی توفیق ہم سب کو عطا کر، ہمیں "اِنَّ اللَہَ یَامُرُ بِالعَدلِ وَالاِحسَان"(32) کا مصداق قرار دے۔ پالنے والے! ہم سب کو قرآن کی تلاوت، قرآن پر غور و خوض کرنے، قرآن سے استفادہ کرنے اور قرآن سے نور طلب کرنے کی توفیق عطا کر، امام خمینی کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور کر، انھیں ہم سے راضی کر، امام زمانہ کے مقدس قلب کو ہم سے راضی و خوشنود کر دے، ہمیں اپنے ولی کے سپاہیوں میں قرار دے، ہمارے عزیز شہیدوں کو شہدائے کربلا کے ساتھ محشور کر۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئيسی نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) یونیورسٹی کے پروفیسروں سے ملاقات (2/7/2014)

(3) سورۂ قدر، آيت 3، شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

(4) امالی صدوق، بیسویں مجلس، صفحہ 93

(5) اقبال الاعمال، صفحہ 73

(6) سورۂ احزاب، آیات 41 اور 42، اے ایمان والو! اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو۔ اور صبح و شام اس کی تسبیح کیا کرو۔

(7) غرر الحکم، صفحہ 644 (تھوڑے فرق کے ساتھ)

(8) مصباح المتہجد، جلد 2، صفحہ 849 (دعائے کمیل)

(9) سورۂ نحل، آيت 90، بے شک اللہ عدل و نیکی کا حکم دیتا ہے۔

(10) غرر الحکم، صفحہ 378

(11) سورۂ اعراف، آيت 129، عنقریب تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور تمھیں زمین میں (ان کا) جانشین بنائے گا تاکہ دیکھے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟

(12) افراط زر پر کنٹرول اور پروڈکشن میں فروغ کے نام سے نئے ہجری شمسی سال کے نعرے کی طرف اشارہ۔ (نئے سال کا پیغام، 21/3/2023)

(13) جناب حبیب اللہ عسگر اولادی

(14) سورۂ حدید، آيت 25، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو جائيں ...

(15) انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کے نام آٹھ نکاتی حکمنامہ

(16)گلستان سعدی، باب ہفتم، حکایت پنجم (اگر تمھاری آمدنی نہیں ہے تو کم خرچ کرو کیونکہ ناخدا ایک نغمہ گاتے ہیں کہ اگر پہاڑوں پر بارش نہیں ہوگي تو ایک سال میں دجلہ ندی سوکھ جائے گي۔)

(17) امام رضا علیہ السلام کے زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (21/3/2009)

(18) انٹرپرینیورز، مینوفیکچررز اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکان سے ملاقات میں خطاب (30/1/2023)

(19) امام رضا علیہ السلام کے زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (21/3/2023)

(20) ایک عالمی بینکنگ سسٹم (The Society for Worldwide Interbank Financial Telecommunication) جسے اختصار سے SWIFT کہا جاتا ہے۔

(21) صدر مملکت نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ملک میں موجود تین ہزار کانوں میں سے صرف تین سو کانیں ایسی ہیں جن پر کام کے سلسلے میں ابھی کچھ طے نہیں ہوا ہے۔

(22) اسلامی جمہوری نظام کے اہم عہدیداروں سے ملاقات میں خطاب (5/8/2004)

(23) سامراج سے مقابلے کے قومی دن کی مناسبت سے پورے ملک کے چنندہ طلباء کے اجتماع سے خطاب (2/11/2022)

(24) امریکا کے موجودہ صدر جو بائيڈن

(25) سنہ 2020 کے امریکا کے صدارتی انتخابات کی طرف اشارہ ہے جس میں ڈیموکریٹ امیدوار جو بائيڈن کامیاب ہوئے لیکن ری پبلکن پارٹی کے امیدوار اور اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الیکشن کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد امریکا کے کئي شہروں میں جھڑپیں ہوئي اور ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس پر حملہ کر دیا۔ آخرکار فوج سڑکوں پر آ گئي اور بعض شہروں میں کرفیو لگائے جانے کے بعد بظاہر ہنگامے ختم ہوئے۔

(26) عوام کے مختلف طبقوں سے ملاقات میں خطاب (9/9/2015)

(27) سنہ 1948 میں برطانیہ اور امریکا کی حمایت اور پشت پناہی سے فلسطینی علاقوں میں جعلی ملک اسرائيل کی تشکیل ہوئي، فلسطینی عوام پر صیہونیوں کے حملوں کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی اپنے آبائي وطن سے بے گھر ہو گئے۔ سنہ 1948 میں غرب اردن، بیت المقدس اور غزہ پٹی کے علاقے بدستور فلسطینیوں کے ہاتھ میں اور غاصبانہ قبضے سے دور رہے لیکن غرب اردن اور بیت المقدس، اردن کی نگرانی میں اور غزہ پٹی مصر کی نگرانی میں آ گئي۔

(28) یہ معاہدہ سنہ 1993 میں صیہونی حکومت کے وزیر اعظم اسحاق رابین اور پی ایل او کی ايگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ یاسر عرفات کے درمیان ہوا جس کے بموجب فریقین نے ایک دوسرے کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔

(29) عرین الاسود کے نام سے فلسطین کا ایک مزاحمتی گروہ۔

(30) صحیفۂ امام، جلد 6، صفحہ 329، علمائے دین کے اجتماع سے خطاب (5/3/1979)

(31) بارہویں مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کا الیکشن

(32) سورۂ نحل، آيت 90، بے شک اللہ عدل اور نیکی کا حکم دیتا ہے۔