بسم اللہ الرّحمن الرّحیم  

الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.

بہت خوش آمدید عرض کرتا ہوں۔ میں بھی، جیسا کہ جناب جنرل باقری صاحب نے بیان کیا، ایک طویل عرصے کے بعد ہونے والی اس ملاقات سے، خوش ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ سبھی کو اس کی مرضی کے مطابق عمل اور اس کام میں کامیاب کرے جو آپ کی اہم اور بڑی خدمت کے لیے ضروری ہے۔ میں آپ سبھی کو عید نوروز کی بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں، اگرچہ عید کو تقریبا ایک مہینہ گزر چکا ہے لیکن عید نوروز دو تین مہینے تک جاری رہتی ہے، مبارکباد دی جا سکتی ہے، کوئي قباحت نہیں ہے۔

جناب باقری صاحب کی باتیں، بہت اچھی تھیں، مطلب یہ کہ مسلح فورسز سے ہماری توقع انھیں باتوں کی ہے جو انھوں نے بیان کیں۔ اس کے علاوہ بعض موقعوں پر آپ نے خود تدبیر کی اور فیصلہ کیا – جو بہت اچھی سوچ ہے – لیکن فیصلہ، آدھا کام ہے، دوسرا آدھا کام اس پر عمل کرنا، اسے فالو اپ کرنا وغیرہ ہے، ان فیصلوں کو پرانا اور باسی نہ ہونے دیجیے کہ رفتہ رفتہ انھیں بھلا دیا جائے۔ میں آپ کو جو یہ سفارش کر رہا ہوں، اس پر تعجب نہ کیجیے کیونکہ ایسا بہت ہوتا ہے، مسلح فورسز میں بھی ہوتا ہے، مسلح فورسز کے باہر بھی ہوتا ہے۔ فیصلہ کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو ادارے میں سرفہرست ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں وہ پرعزم ہیں، سنجیدہ ہیں اور ان کا پورا یقین ہے اور وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں لیکن جب وہ کام عہدیداروں اور افرادی قوت کی مختلف صفوں میں انجام دہی کے مرحلے میں پہنچتا ہے تو رفتہ رفتہ کمزور ہو جاتا ہے، ڈھیلا پڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو انجام ہی نہیں پاتا! ایسا نہ ہونے دیجیے۔ یہ ایک بات ہوئي۔

دوسری بات یہ کہ جو چیزیں آپ نے شروع کی ہیں، ان پر کام کرتے رہیے، ان کے بارے میں پوچھتے رہیے۔ مثال کے طور پر گھروں کی تعمیر، آپ نے فلاں تعداد میں مکانات بنانے شروع کیے، بہت اچھا! لیکن ہمارے ملک میں تعمیرات کے ان پروجیکٹس کی ایک خامی یہ ہے کہ ان میں ضروری اور طے شدہ مدت سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک رہائشی کامپلیکس کو بالفرض تین سال میں پورا ہو جانا چاہیے، اس مدت کو سات سال یا دس سال نہ ہونے دیجیے۔ یہ بھی ہماری سفارشوں میں سے ایک ہے۔

میں نے آپ برادران عزیز کے سامنے عرض کرنے کے لیے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں۔ ان میں سے ایک بات آپ لوگوں کی پوزیشن ہے۔ یہ جو فرمایا گيا ہے "فَالجُنودُ بِاِذنِ اللّہِ حُصونُ الرَّعیَّۃ"(2) تو آپ دیوار ہیں، قوم اور معاشرے کے لیے مستحکم دیوار ہیں، یہ بہت زیادہ قابل افتخار بات ہے۔ اس سے زیادہ قابل فخر بات اور کیا ہوگي؟ امیر المومنین علیہ الصلاۃ و السلام مسلح فورسز کی اس طرح توصیف کرتے ہیں کہ یہ لوگ ملک و قوم کے اطراف میں مضبوط فصیلیں ہیں، اس سے بڑی اور اس سے زیادہ اہم چیز اور کیا ہو سکتی ہے؟ اگر آپ ایک شخص کو اپنی سرپرستی میں لے لیں اور اسے پناہ دیں تو یہ کتنی گرانقدر بات ہے، اب اس کو وسعت دے کر ایک پوری قوم سے موازنہ کیجیے۔ آپ ایک پوری قوم کو اپنی حفاظت مں لیتے ہیں۔ یہ بہت ہی اعلی پوزیشن ہے، بہت بڑی پوزیشن ہے۔ اس سے اتنی ہی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے، ان تمام چیزوں کی طرح جو زیادہ گرانقدر ہیں، اس کی ذمہ داری بھی، اس کی قدر کے لحاظ سے ہی ہے۔ آپ اپنی قدر، اس کام کی قدر، اس عہدے کی قدر، اس  ذمہ داری کی قدر سمجھیے اور ساتھ ہی تمام ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے سنبھالیے یعنی اپنے کندھوں پر اس ذمہ داری کو لیجیے اور اس سلسلے میں کام کیجیے۔

اگلا نکتہ یہ ہے کہ بحمد اللہ ہماری مسلح فورسز پیشرفت کی سمت گامزن ہیں، تمام مدنظر اشاریے، اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں کمی نہیں ہے، ہے اور اس میں کوئي شک نہیں ہے، کمزوریاں بھی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں، یہ یقینی بات ہے۔ رک نہیں رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، یہ بہت اہم نکتہ ہے، اسے ہاتھ سے جانے مت دیجیے۔ رک جانا بھی پیچھے ہٹنے جیسا ہی ہے، دونوں میں کو‏ئی فرق نہیں ہے، اپنی موجودہ صورتحال پر مطمئن نہ رہیے، آگے بڑھتے رہیے۔ میں نے "تغیر"(3) لفظ کا استعمال کیا تھا، تغیر، اس حرکت کا بالائي نقطہ ہے۔ جو چیز ضروری ہے، وہ تحرک اور آگے کی سمت، پیشرفت کی سمت بڑھنا ہے۔ دیکھیے، غور کیجیے کہ آپ جس شعبے میں ہیں، وہیں پر اس سلسلے میں کیا کام کر سکتے ہیں۔

ایک دوسرا بڑا اہم نکتہ تیاری ہے۔ انھوں نے وار گیمز(4) کی طرف اشارہ کیا، یہ اہم چیز ہے، مطلب یہ کہ وار گیمز کو اس میدان میں جس کی مسلح فورسز کٹّر دشمن ہیں - اس کے تمام میدانوں میں، فضائي میدان میں، زمینی میدان میں، بحری میدان میں، سیکورٹی کے امور کے میدان میں، دراندازی کے میدان میں - ان تمام میدانوں میں جو مسلح فورسز کے کام کے دائرے میں آتے ہیں، تیاری ہونی چاہیے۔ جب خطرہ ہے تو تیاری ہونی چاہیے اور خطرہ تو ہمیشہ ہی رہتا ہے کیونکہ ایسا کوئي وقت فرض نہیں کیا جا سکتا، جس میں خطرہ نہ ہو، ایسا وقت فرض کیا جا سکتا ہے امن ہو اور جنگ نہ ہو لیکن یہ کہ ہم ایسا وقت فرض کریں کہ جس میں بالکل بھی خطرہ نہ ہو، میرے خیال میں ایسی چیز ممکن نہیں ہے اور ایسا نہیں ہوتا ہے۔ بنابریں تیاری ہمیشہ رہنی چاہیے۔ یہ "وَ اَعِدّوا لَھُم مَا استَطَعتُم" یہی تو ہے، یعنی تیاری رکھو، اعدوا یعنی تیاری رکھو، کتنی تیاری رکھو؟ "ما استطعتم" جتنی تم میں توانائي ہے، "مِن قُوَّۃٍ وَ مِن رِباطِ الخَیل." یہی تیاری، خود یہ تیاری، ڈیٹرنس ہے، تیار رہنا ہی ڈیٹرنس ہے۔ اسی لیے اسی آیت میں کہا گيا ہے "ترھبون بہ" اسی اِعداد سے، اسی تیاری سے، "تُرھِبونَ بِہِ عَدُوَّ اللَّہِ وَ عَدُوَّکُم"(5) مطلب یہ کہ جب تم تیار ہو اور دشمن یہ سمجھ جائے کہ تم تیار ہو تو یہی چیز، ڈیٹرنس ہے۔ فضائي میدان میں ڈیٹرنس ہے، ڈیفنس میں ڈیٹرنس ہے، سمندری گشت میں ڈیٹرنس ہے، فوجی مشقوں میں جو آپ سمندروں اور زمین پر انجام دیتے ہیں، ڈیٹرنس ہے، دیگر تمام مختلف میدانوں میں ایسا ہی ہے۔ اس لیے اس تیاری کو محفوظ رکھیے کہ دشمن اسے دیکھے۔

یہ جو میں نے خطرے کی بات کی، وہ کس کی طرف سے ہے؟ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ہمیں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ انسان کبھی دیکھتا ہے کہ مثال کے طور فرض کیجیے کہ ایک چھوٹی اور غیر اہم طاقت کوئي بات کرتی ہے، کوئی اقدام کرتی ہے اور انسان کا  ذہن اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ہمیں ان چھوٹی موٹی دشمنیوں کی طرف زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے، ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس کی پشت پر کون ہے، اس کی اصلی منصوبہ بندی کس نے کی ہے؟ یہ چیز اہم ہے۔ ہمارے خطے میں اور دنیا کے دوسرے علاقوں میں یہ جو جنگ کے شعلے بھڑکائے جا رہے ہیں، ان سب کے پیچھے بڑی طاقتیں ہیں۔ مثال کے طور پر آج یورپ میں یوکرین، جنگ میں پھنسا ہوا ہے، یہ جنگ کون شروع کرواتا ہے؟ اس کی منصوبہ بندی کون کرتا ہے؟ شام میں، لیبیا میں، سوڈان میں اور دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہی ہے۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے، یہ جو جنگیں ہو رہی ہیں، ان کے پیچھے ایک منصوبہ بندی ہے، اسے چھوٹے موٹے عناصر کے سر نہیں ڈالا جا سکتا۔ وہ منصوبہ بندی کرنے والے لوگ کون  ہیں؟ وہ بین الاقوامی شر پسند فورسز ہیں جنھیں ہم سامراج کہتے ہیں۔ سامراج کا مطلب وہی بین الاقوامی شرپسند، جارح اور توسیع پسند طاقتیں جو کسی بھی حد پر مطمئن نہیں ہیں۔ یہ لوگ دیکھتے ہیں، پروگرام بناتے ہیں کہ فلاں جگہ ایک تنازعہ کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ لوگ فلاں جگہ سے منافع کما سکیں، اس لیے یہاں پر جھگڑا کرا دیتے ہیں تاکہ وہاں انھیں فائدہ حاصل ہو! ان باتوں پر توجہ دینی چاہیے اور معاملے کی تہہ میں در حقیقت کون ہے، اسے دیکھنا چاہیے۔

دشمن کی منصوبہ بندی، میرے خیال میں طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے۔ ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ مثال کے طور پر انھوں نے ہمارے خلاف اس پانچ سال کے لیے یا دس سال کے لیے کیا سوچ رکھا ہے بلکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ انھوں نے طویل مدت کے لیے ہمارے خلاف کیا پلاننگ کر رکھی ہے۔ عام طور پر ان کی منصوبہ بندی طویل المدت ہوتی ہے، انسان یہ بات سمجھتا ہے۔ یہ لوگ طویل المدت اور وسط مدتی ہر طرح کے منصوبے بناتے ہیں اور بغیر منصوبہ بندی کے کام نہیں ہوتا۔ میں سوچتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ مثال کے طور پر تقریبا بائيس سال پہلے ہمارے مشرق اور مغرب میں تھوڑے فاصلے سے دو کارروائياں کی گئيں(6) یہ اتفاق تو نہیں ہو سکتا، ایک ملک کے ساتھ ہماری تیرہ سو کلو میٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد ہے اور دوسرے کے ساتھ آٹھ سو کلو میٹر سے زیادہ۔ اچانک ہمارے مشرق اور مغرب میں آگ بھڑک جاتی ہے۔ ہماری کوئي مداخلت نہیں ہے، ہم کنارے ہیں لیکن سامراجی عناصر کود پڑتے ہیں، جنگ شروع کرا دیتے ہیں، سنجیدہ جنگ۔ یہ کام عراق میں ہوا، وہاں امریکیوں کا گھسنا مذاق نہیں تھا۔ ایک حقیقی، بھرپور اور پوری طرح سنجیدہ جنگ تھی جس میں عراق میں امریکا کی پوری زمینی اور فضائي فوج کو استعمال کیا گيا۔ افغانستان میں بھی تقریبا ایسا ہی تھا، انھوں نے وہ جنگ بھی عراق کی جنگ سے تھوڑا پہلے شروع کی تھی۔ تو یہ کیا اتفاق کی بات ہے؟ ایران کے مشرق اور ایران کے مغرب میں تھوڑے سے فاصلے سے ایسی جنگ شروع ہونا کیا اتفاق ہے؟ قطعی طور پر یہ اتفاق نہیں ہو سکتا، اس کے پیچھے ایک سوچ اور منصوبہ بندی ہے۔ ممکن ہے کہ عراق میں بھی ان کے کچھ مفادات ہوں یا افغانستان میں بھی معمولی سے مفادات ہوں لیکن یہ مفادات ایسے نہیں ہیں کہ جن کے لیے اس طرح کی جنگ کی جائے۔ اس جنگ کا ہدف، اسلامی مملکت ایران ہے۔ جب انسان غور کرتا ہے تو اس بات میں شک کی گنجائش نہیں بچتی کہ ان دو جنگوں کا نشانہ ایران تھا، مختلف شکلوں اور مختلف تجزیوں کے ذریعے انسان اسے سمجھ سکتا ہے اور اس کے تجزیے مشکل بھی نہیں ہیں۔ فضول بہانے بناتے ہیں، مثال کے طور وہاں کوئي بہانہ اور یہاں کوئي بہانہ بناتے ہیں اور گھس جاتے ہیں، ایک جنگ شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر توجہ دینی چاہیے کہ ہمارا اصلی دشمن کون ہے۔

بحمد اللہ چونکہ اسلامی انقلاب کا ڈھانچہ مضبوط ہے – یہ جو میں بارہا اسے دوہراتا ہوں(7)، براہ مہربانی اس پر سوچا جائے، اسلامی انقلاب کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے، اسلامی انقلاب کے ستون بہت مستحکم ہیں – اس لیے دونوں معاملوں میں فریق مقابل کو ہزیمت اٹھانی پڑی، یعنی اسے واضح طور پر شکست ہوئي اور اس کی شکست کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ کا اثر و رسوخ بڑھ گيا، یہ وہ چیز تھی جو وہ نہیں چاہتے تھے، یہ وہ  چیز تھی جس کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں رہے تھے۔ خدا غریق رحمت کرے شہید قاسم سلیمانی کو، جن کا کردار اس معاملے میں واقعی بے مثال تھا، میں جو بہت قریب سے معاملات سے مطلع تھا، یہ بات جانتا ہوں۔ خدا ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے۔

تو دشمن کو شکست ہوئي جبکہ اس نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ تو ہم یہاں ایک نتیجہ نکال سکتے ہیں اور وہ نتیجہ یہ ہے کہ دشمن کو اس کے تمام بظاہر مضبوط و مستحکم کیلکیولیشنز کے باوجود مکمل شکست دی جا سکتی ہے، یہ بات ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے۔ اس وقت ہم جتنے بھی حساب کتاب کرتے ہیں اور اندازے لگاتے ہیں ان میں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ ٹھیک ہے کہ دشمن کی انٹیلی جنس مضبوط ہے، اس کے اندازہ لگانے اور حساب کتاب کرنے والے ادارے مضبوط ہیں، اس کی مسلح فورسز اچھی ہیں، پیسے تو اس کے پاس زیادہ ہیں ہی، یہ سب اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن اس بات کا پورا امکان ہے کہ انسان اس کے اندازوں کو غلط ثابت کر دے، اسے شکست سے دوچار کر دے۔ اگر ہم عاقلانہ طریقے سے آگے بڑھیں اور کام کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیں بلکہ اسے آگے بڑھاتے رہیں تو وہ دشمن کی تمام کوششوں اور چالوں کو شکست سے دوچار کر دے گا۔

اس کا ایک نمونہ اس وقت یہی صیہونی حکومت ہے جو آنکھوں کے سامنے ہے اور پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اُس سال رمضان کے مہینے میں فلسطینیوں کے خلاف ایک کارروائي ہوئي اور وہ اہم کارروائي تھی جس میں فلسطینیوں کو کافی نقصان ہوا – شیخ جراح کے محلے اور دوسری جگہوں پر – واقعی فلسطینیوں پر ظلم کیا گيا لیکن دنیا میں کہیں سے کوئي آواز نہیں اٹھی – میں نے نوٹ کیا ہے، اس سال کے نوٹ کو دیکھا – انسان کو واقعی تکلیف ہوتی ہے کہ واقعی دنیا میں کہیں سے کوئي آواز نہیں اٹھی، نہ تو انسانی حقوق کے اس ادارے سے اور نہ ہی کہیں اور سے۔ یوم قدس میں صرف یہاں سے اور کچھ دوسری جگہوں پر تھوڑی بہت جنبش ہوئي۔ مگر آپ اس سال دیکھیے، اسرائيل جو کچھ کر رہا ہے، اس کے مقابلے میں دنیا میں کیا ہو رہا ہے، خود امریکا میں جلوس نکل رہے ہیں، برطانیہ میں ریلی نکل رہی ہے، یورپ کے لوگ صیہونی حکومت کے سربراہ کی گاڑی پر حملہ کر رہے ہیں۔ اس وقت انھیں معاملوں میں دنیا میں جو موقف اختیار کیا گيا ہے وہ اچھا موقف ہے، فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائيلیوں کے خلاف ہے۔ تو یہ ساری چیزیں ایسے حقائق کی نشاندہی کرتی ہیں جنھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے اور ان سے دشمن کے قابل شکست ہونے اور اس کے اندازوں کے بھی قابل شکست ہونے کو سمجھا جانا چاہیے۔

البتہ دشمن کی چال کی طرف سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے یعنی ہمیں اپنی پیشرفت اور کامیابیوں کے کسی بھی مرحلے میں اپنے سر کے  نیچے نرم تکیہ نہیں رکھنا چاہیے اور یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بس اب ختم ہو گيا، نہیں! وہ بیداری اور وہ تیاری جس کا میں نے پہلے ذکر کیا، ہمیشہ ہونی چاہیے۔ البتہ مسلح فورسز کے اندر جو فکری مراکز ہیں، میرے خیال میں ان پر بھاری ذمہ داری ہے، انھیں سوچنا چاہیے۔ میں نے ایک بار آپ لوگوں سے کہا تھا کہ حکمت عملی تیار کرنے والے اور رائج انگریزی اصطلاح کے مطابق ملٹری اسٹریٹیجیز بنانے والے ہمارے لوگ، آپ ہیں، بیٹھ کر منصوبہ بندی کیجیے، مقابلے کے لیے بالکل نئے انداز کی منصوبہ بندی کیجیے۔ مسلسل نئي پلاننگز کی سوچ میں رہیے، نئے کام، اہم کام، البتہ عاقلانہ طریقے سے کام کیجیے، یہ کام خطے کی گنجائش، ملک کی توانائي اور ایسی ہی دوسری چیزوں کو مدنظر رکھ کر انجام دیے جائيں۔

بہرحال راستہ اچھا راستہ ہے، کام اچھا کام ہے، نوکری قابل فخر نوکری ہے اور ان شاء اللہ اللہ کی مدد بھی آپ کی پشت پر ہے۔ اپنے اہل خانہ کو، اپنی بیویوں کو، اپنے بچوں کو میری طرف سے سلام کہیے گا، (عید کی) مبارکباد بھی پیش کیجیے گا اور ساتھ ہی آپ لوگوں کے سلسلے میں وہ اہل خانہ جو صبر کرتے ہیں، اس پر ان کا شکریہ بھی ادا کیجیے گا۔ واقعی آپ کی خواتین جو صبر کرتی ہیں، اس کے لیے ان کا بہت شکریہ ادا کیجیے گا۔ آپ لوگ کام اور لگاتار میٹنگز وغیرہ میں مصروف رہتے ہیں اور آپ کے کام کے ساتھ خطرات بھی جڑے ہوتے ہیں جبکہ وہ گھروں میں کام کرتی رہتی ہیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں مسلح فورسز کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) نہج البلاغہ، خط نمبر 53، سپاہی اللہ کے حکم سے رعایا کی (حفاظت کی) دیوار ہیں۔

(3)  امام رضا علیہ السلام کے روضے میں زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (21/3/2023)

(4) مسلح فورسز کی تقویت اور تیاری کی سطح بڑھانے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی طاقت کے مظاہرے کے لیے فوج، آئي آر جی سی اور پولیس فورس کی متعدد فوجی مشقوں کی طرف اشارہ۔

(5) سورۂ انفال، آيت 60، (اے مسلمانو!) تم جس قدر استطاعت رکھتے ہو ان (کفار) کے لیے قوت و طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اس (جنگی تیاری) سے خدا کے دشمن، اپنے دشمن کو اور ان کھلے دشمنوں کے علاوہ دوسرے لوگوں (منافقوں) کو خوفزدہ کر سکو۔

(6) اکتوبر 2001 میں افغانستان پر اور مارچ 2003 میں عراق پر امریکا کے حملے کی طرف اشارہ

(7) منجملہ، امام رضا علیہ السلام کے روضے میں زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (21/3/2023)