بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

 

اس نشست سے میری توقع یہی تھی کہ پر مغز باتیں اچھے الفاظ میں بیان کی جائيں اور الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے اور جو باتیں کی ہیں، ان میں سے کچھ باتوں سے میں متفق نہ ہوں لیکن بات بیان کرنے کے طریقے اور نکات کو منظم طریقے سے پیش کرنے پر میں بہت خوش ہوں اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری ایام ہیں، آپ لوگوں کے پاس بھی موقع تھا کہ بیٹھ کر سوچیں، مطالعہ کریں اور نکات کو مرتب کریں۔ اگر وقت ہوتا تو میرے لیے کوئي مضائقہ نہیں تھا کہ مزید دس لوگ اپنی باتیں پیش کریں لیکن وقت رفتہ رفتہ افطار کے قریب پہنچ رہا ہے اور باتیں رہ جائيں گے اور نشست ادھوری رہ جائيں گي۔

میں اپنے معروضات پیش کرنے سے پہلے دو تین باتیں، انھیں چیزوں کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں جو آپ حضرات نے فرمائي ہیں۔ اول تو یہ کہ بعض لوگوں نے مجھ تک کچھ لوگوں کا سلام پہنچایا، میری درخواست ہے کہ میرا سلام بھی ان بھائيوں اور بہنوں تک پہنچا دیجیے جنھوں نے آپ کے توسط سے مجھے سلام کہلوایا ہے، خاص طور پر شہیدوں کے اہل خانہ کو۔ جہاں تک میری پیدائش کی سالگرہ کی بات ہے تو یہ بالکل بھی درخور اعتنا نہیں ہے، بہت ہی کم اہمیت والا اور چھوٹا واقعہ ہے۔ جو باتیں، اعتراض اور تجویز کی شکل میں بیان کی گئيں، وہ بحث کے قابل ہیں، ان پرکہاں بحث کی جائے؟ ایسا نہیں ہے کہ یہ بہت واضح ہو، بہرحال قابل اعتراض اور قابل بحث ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم آپ کی ان تجاویز کو پلاننگ اور بجٹ کے ادارے کے سپرد کر دیں - جس میں بظاہر ایک نئي تبدیلی بھی آئي ہے - تاکہ وہ ان پر کام کریں تو یہ ایک اچھا کام ہے، آپ اپنی تجاویز اس ادارے تک منتقل کریں یا ہم واسطہ بن جائيں، ہمارا دفتر واسطہ بن جائے اور وہ آپ کو وہاں جا کر بات کرنے اور تفصیلی گفتگو کرنے کے لیے کہے اور آپ ان شاء اللہ کسی قابل قبول اور متفقہ نقطے تک پہنچ جائيے۔

جہاں تک نجکاری (Privatization) کی بات ہے، جس کے بارے میں آپ میں سے کچھ لوگوں نے بات کی، اسے دوہرایا اور باہر بھی یہیں باتیں کی جاتی ہیں تو وہ دلیل صحیح نہیں ہے جو آپ نے بیان کی۔ اس پر صحیح سے کام نہیں کیا گيا، ٹھیک ہے، ممکن ہے کہ ہر اچھے قانون پر، برے طریقے سے عمل کیا جائے۔ یہ کہ ہم ملک کے وسائل کو، پیداواری وسائل کو، کارخانوں کو، جن پر اچھے سے کام ہو رہا تھا، حکومت کے ہاتھ میں دے دیں، حکومت بڑے بڑے پیداواری یونٹس اور کارخانوں کو صحیح طریقے سے نہیں چلا سکتی، حکومت یہ نہیں کر سکتی، مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، بدعنوانیاں ہونے لگتی ہیں۔ ان برسوں میں ایسے کتنے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ان مسائل کی راہ حل صرف نجکاری تھی، واقعی دوسرا کوئي راستہ نہیں تھا۔ اور یہ کام دفعتاً انجام نہیں پایا ہے، غوروفکر کرکے، مطالعہ کر کے، آگے کا اندازہ لگا کر، گھنٹوں تک بحث و تمحیص کے بعد انجام پایا ہے۔

ہاں میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ نجکاری سے میری جو توقع تھی وہ اب تک پوری نہیں ہوئي ہے لیکن اچھے کام بھی ہوئے ہیں۔ یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ کسی سرکاری یونٹ کو، نجی سیکٹر کو دے دیا گيا ہے اور وہ یونٹ حکومت کو اپنے ڈالر واپس نہیں دے رہا ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ وہ جو ڈالر واپس نہیں دے رہا ہے، وہ وہی یونٹ ہے جو فی الحال سرکاری ہے، یہ وہ اعتراض ہے جو خود میں نے حال ہی میں حکومتی عہدیداروں(2) کے سامنے پیش کیا، اسے دوہرایا اور اس بات کو کئي بار پیش کیا۔ یعنی وہ خود سرکاری یونٹس ہیں جو تجارت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، ملک کے باہر بھی لین دین کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے ڈالرز رزرو بینک کو نہیں لوٹا رہے ہیں، مطلب یہ کہ اس بات کا تعلق نجی سیکٹر سے نہیں ہے۔ البتہ نجی سیکٹر کے سلسلے میں کچھ اعتراضات ہیں، اس کی نگرانی کی ضرورت ہے، بھرپور طریقے سے غور سے کام کرنے کی ضرورت ہے، قوانین کی تعمیل کی ضرورت ہے، یہ ساری باتیں ضروری ہیں، اس میں کوئي شک نہیں ہے۔

جہاں تک انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کی معاشی نشست کی بات ہے تو یہ ایک مستقل نہیں بلکہ عارضی چیز ہے، دوسری بات یہ کہ یہ کچھ خاص مقاصد کے لیے ہے، میں نے چار باتیں معین کر دیں اور ان کو بتا دیا: ایک بجٹ کا مسئلہ ہے، بجٹ کی تدوین اور بجٹ کی اصلاح، ہمارے بڑے مسائل میں سے ایک یہی بجٹ کا معاملہ ہے اور تین دوسری باتیں، اس نشست کا ہدف یہ تھا۔ البتہ جیسا ہونا چاہیے، اب تک تو ویسا نہیں ہوا ہے لیکن اس کا علاج، نشست کو ختم کر دینا نہیں ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ ہم پوری نظر رکھیں کہ یہ کام انجام پائيں۔ بعض مسائل ہیں جن کی خامی، اعلی سطحی حکام کے درمیان عدم اتفاق ہے، اسے کس طرح حل کیا جائے؟ اسے اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ ہم ان سے کہیں کہ وہ ساتھ بیٹھیں، بحث اور گفتگو کریں اور ایک متحدہ فیصلہ کریں اور اس پر عمل کریں، یہ کمیٹی اس لیے بنی ہے۔

بہرحال امید ہے کہ جو کچھ آپ چاہتے ہیں اور کہتے ہیں - اور میں جانتا ہوں کہ آپ دل سے کہتے ہیں، جو کچھ آپ کہتے ہیں، واقعی وہ آپ کا نظریہ ہے - خداوند عالم توفیق عطا کرے کہ جس حد تک میرے ذمے ہے، وہ انجام پائے، جس حد تک دیگر عہدیداروں کے ذمے ہے، ان شاء اللہ وہ بھی انجام پائے۔ آج کی باتوں کو بیان کرنے کی زبان بہت اچھی تھی، یعنی اچھی اور سنجیدہ تھی۔ میں "اچھی زبان میں بات پیش کرنے" کے مسئلے پر تاکید کرتا ہوں، اس کا اثر پڑتا ہے۔

خیر، ماہ رمضان، روحانیت اور عبادت کی عید ہے جو ختم ہوا چاہتا ہے، ان شاء اللہ آئندہ رمضان کے مہینے آپ کو ملیں گے، آپ جوانوں کے آگے دسیوں ماہ رمضان ہیں، ان سے فائدہ اٹھائيے، روحانیت کی بہار، عبادت و بندگي کی بہار۔ جوانی بھی بہار ہے، عمر کی بہار ہے۔ تو ماہ رمضان میں جوان کے لیے دوہری بہار ہے، بہار میں بہار ہے، اس سے فائدہ اٹھائيے۔ شب قدر سے آپ جو فائدہ حاصل کر سکتے ہیں، اس میں اور مجھ جیسی عمر کے لوگ جو فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس میں بہت فرق ہے۔ آپ کہیں زیادہ استفادہ کر سکتے ہیں، اسے غنیمت سمجھیے، اس کی قدر کیجیے۔

یہ خوبصورت سنگم، یعنی دو بہاروں کا ملن، ایک دوسری جگہ، مقدس دفاع کے دوران بھی سامنے آيا تھا، وہاں بھی پیشرفت و عروج کے دو موقع مشترکہ طور پر ایک دوسرے کے ساتھ آ گئے تھے۔ دفاع کا محاذ یعنی جان دینے کا محاذ، مطلب یہ کہ جو بھی وہاں جاتا ہے وہ عام طور اپنی جان دینے یا اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، یہ بہت بڑا ایثار ہے۔ تمام وہ لوگ جو اس ایثار کی وادی میں قدم رکھتے ہیں، محاذ انھیں عروج عطا کرتا ہے، روحانی عروج عطا کرتا ہے لیکن جو لوگ محاذ پر گئے - جن میں زیادہ تر جوان تھے - ان کے لیے مسئلہ دوسری طرح سے تھا۔ یہ نوجوان جو میدان جنگ میں پہنچے، ان کا عمل اور ان کا عروج ایسا تھا کہ امام خمینی، عظیم الشان امام خمینی جیسا شخص، جنھیں برسوں کے عرفان اور روحانیت کا تجربہ حاصل تھا، ان کی پوزیشن پر رشک کرتا تھا! مجھے نہیں پتہ کہ آپ شہداء کی سوانح حیات کی کتابیں پڑھتے ہیں یا نہیں، میں پڑھتا ہوں، آنسو بہاتا ہوں اور استفادہ کرتا ہوں، میں واقعی استفادہ کرتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو جو کام ضرور کرنے چاہیے، ان میں سے ایک ان عزیز شہیدوں کی سوانح حیات کا، خاص طور سے ان میں سے بعض کی، جن میں بہت زیادہ روحانیت ہے، مطالعہ ہے، ان شہیدوں نے استفادہ کیا، مجھے لگتا ہے کہ آپ کو بھی ماہ رمضان سے استفادہ کرنا چاہیے، اب تو دو تین دن سے زیادہ نہیں بچے ہیں لیکن اگلے برسوں میں جو آپ کے سامنے ہیں، ان میں استفادہ کیجیے گا، ابھی سے خود کو اگلے ماہ رمضان کے لیے تیار کیجیے۔

میں نے ایک نصیحت بارہا کی ہے، میں نے دیکھا کہ جن دوستوں نے یہاں پر بات کی، ان میں سے بھی دو تین افراد نے اسی کو دوہرایا ہے – جسے میری مکمل تائيد حاصل ہے – وہ یہ ہے کہ اسٹوڈنٹس کو اسٹوڈنٹ سوسائٹی کو ایک مضبوط فکری انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔ یہ ان کی حتمی ضرورت ہے، میں نے اس کی ہمیشہ نصیحت اور سفارش کی ہے، میں ایک بار پھر اس پر زور دینا چاہتا ہوں۔ اگر ایک نوجوان، خاص طور پر نوجوان اسٹوڈنٹ کی علمی و معرفتی بنیادیں مضبوط ہوں تو اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے، اس کے قدم ٹھوس ہو جاتے ہیں، آگے کی جانب اس کی حرکت جاری رہتی ہے، پھر کوئي تھکن نہیں ہوتی۔ دل کا اطمینان اس بات کا سبب بنتا ہے کہ ایمان بھی بڑھتا جائے، خود ایمان بھی اطمینان لاتا ہے، دلی اطمینان اور قلبی سکون ایمان میں اضافہ کرتے ہیں۔ "ھُوَ الَّذی اَنزَلَ السَّکینَۃَ فی‌ قُلوبِ المُؤمِنینَ لِیَزدادوا ایماناً مَعَ ایمانِھِم" (3) پہلے مومن تھے لیکن جب خداوند عالم نے انھیں یہ دلی سکون عطا کیا تو روحانی و الہی حقائق پر بھروسے کی وجہ سے یہ ایمان بڑھ جاتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ معرفتی بنیادیں کیا ہیں؟ اسلام میں ذاتی، قلبی، سماجی، سیاسی اور بین الاقوامی معرفتی بنیادیں پائي جاتی ہیں، یہ سب اسلام میں ہیں، آزادی کا مسئلہ ایک معرفتی بنیاد ہے جسے اسلام میں پیش کیا گيا ہے، انصاف کا مسئلہ، سب سے اہم معرفتی مسائل میں سے ایک ہے۔ انھیں حل کرنا چاہیے، نوجوان اسٹوڈنٹ کو ان چیزوں کے بارے میں سوچنا چاہیے، ان پر کام کرنا چاہیے اور ان کی گہرائي تک پہنچنا چاہیے۔ کتاب پڑھیے، نہج البلاغہ پڑھیے، قرآن کی تلاوت کے دوران غور کیجیے۔ فرض کیجیے کہ انصاف کے بارے میں، البتہ عدل و انصاف کا ایک اہم مصداق معاشی، سماجی اور ایسے ہی میدانوں میں عدم مساوات کا خاتمہ ہے، لیکن صرف یہی نہیں ہے، یہ اس کی ایک اہم بات ہے۔ انصاف، ہمارے ذاتی فیصلوں سے شروع ہوتا ہے، انصاف ہمارے ذاتی کاموں سے، ہمارے بات کرنے سے، لوگوں کے بارے میں، کاموں کے بارے میں ہمارے فیصلوں سے شروع ہوتا ہے۔ "وَ لا یَجرِمَنَّکُم شَنَآنُ قَومٍ عَلی‌ اَلّا تَعدِلوا اِعدِلوا" (4) اگر کسی سے ہماری مخالفت بھی ہے، دشمنی بھی ہے، فکری اختلاف بھی ہے، تب بھی ہمیں اس کے سلسلے میں ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگی کہ قیامت میں کوئي کافر میرا گریبان پکڑ لے اور کہے کہ تم نے مجھ پر فلاں جگہ ظلم کیا، واقعی اس سے سخت چیز کوئي نہیں ہے! یا قیامت کے دن دشمن خدا کا میری گردن پر کوئي حق ہو، میرا گریبان پکڑے اور کہے کہ تم نے مجھ پر ظلم کیا۔ مطلب یہ کہ انصاف اس طرح کا ہوتا ہے۔ بین الاقوامی انصاف، یہ جو ہم سامراج سے مقابلے کی بات لگاتار دوہراتے ہیں، یہ انصاف کے سب سے اہم مصادیق میں سے ایک ہے۔ بعض لوگ انصاف کے تو خواہاں ہیں لیکن ان کا خیال نہیں کہ سامراج، امریکا اور صیہونیت سے مقابلہ بھی، انصاف پسندی کے مصادیق میں شامل ہے، بالکل ہے۔ تو یہ بات اس طرح کی ہے۔

آزادی؛ آزادی بہت اہم ہے۔ اسلام میں آزادی کے نظریے کا سب سے اہم حصہ، اس مادی ڈھانچے سے آزادی ہے۔ مادی سوچ کہتی ہے کہ آپ ایک دن دنیا میں آئے، کچھ سال یہاں زندگي گزاریں گے، پھر معدوم ہو جائيں گے، ہم سب معدوم ہونے والے ہیں۔ اس مادی پنجرے میں، آپ کو کچھ آزادیاں دی جاتی ہیں، شہوت کی آزادی، غصے کی آزادی، ظلم کی آزادی، ہر طرح کی آزادی، یہ آزادی نہیں ہے۔ آزادی، اسلامی آزادی ہے۔ اسلام ہمیں مادی ڈھانچے میں محصور نہیں کرتا۔ "خُلِقتُم لِلبَقاءِ لا لِلفَناء" (5) آپ باقی رہنے کے لیے خلق کیے گئے ہیں، نہ کہ ختم ہونے کے لیے۔ ہم معدوم نہیں ہوں گے، ختم نہیں ہوں گے۔ بقول مولانا روم:

وقتِ مردن آمد و جستن ز جو

کلّ شیء ھالک الّا وجھہ (6)

(مرنے کا اور ندی سے کودنے کا وقت آ  گيا، اس دنیا میں اللہ کے چہرے کے علاوہ ہر چیز فانی ہے)

مرنا، انجام نہیں ہے، مرنا ایک نئے مرحلے اور درحقیقت اصل مرحلے کی شروعات ہے ۔ جب آپ اس نظر سے دیکھیں گے تو پھر آپ عروج حاصل کر سکتے ہیں اور پھر آپ کے آگے بڑھنے کی، پیشرفت کی اور اوپر اٹھنے کی کوئي حد نہیں ہے۔ یہ آزادی ہے۔ زندگي کی تمام آزادیاں، چاہے وہ ذاتی آزادی ہو، عقیدے کی آزادی ہو، قدامت پسندی، جمود، طرح طرح کے پچھڑے پن، بلاوجہ کے تعصب سے رہائي، بڑی طاقتوں سے رہائي، آمروں کی قید سے رہائي، یہ سب اسی اسلامی آزادی کی بنیاد پر ہے، ان پر غور کیجیے، ان پر کام کیجیے، اس کا راستہ یہ نہیں ہے کہ مثال کے طور پر میں آ کر آدھے گھنٹے آپ سے گفتگو کروں، آپ خود کام کیجیے، سوچیے، کتاب پڑھیے۔

یا انتظار فرج کا مسئلہ، ہماری فکری اور دینی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد، انتظار فرج ہے۔ انتظار فرج یعنی تمام سختیاں اور دشواریاں، برطرف اور ختم ہو سکتی ہیں۔ یہ نہیں کہ بیٹھ کر انتظار کیجیے، نہیں بلکہ آپ کا دل، پوری طرح سے تیار رہے۔ جس طرح سے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے معاملے میں ان کی ماں سے کہا گيا: "اِنّا رادُّوہُ اِلَیکِ وَ جاعِلوہُ مِنَ المُرسَلین"(7) ہم اس بچے کو تمھیں لوٹا دیں گے اور اسے مرسلین میں قرار دیں گے اور وہ تمھیں نجات دلائے گا۔ اس بات نے بنی اسرائيل کو مضبوط بنا دیا۔ فرعون کے مصر میں بنی اسرائيل نے برسوں مزاحمت کی تھی، البتہ بعد میں وہ لوگ بگڑ گئے لیکن انھوں نے برسوں تک استقامت کی تھی، یہی مزاحمت و استقامت تھی جو موسی کو لے کر آئي اور پھر انھوں نے اپنی تحریک شروع کی اور بنی اسرائيل ان کے پیچھے چل پڑے اور یہ تحریک فرعون اور فرعون والوں کی نابودی پر منتج ہوئي، یہ انتظار فرج ہے۔ انتظار فرج کا مطلب ہے، ان تمام کمیوں کے خاتمے کا انتظار، جو ابھی آپ نے بیان کیں، اس سے دس گنا زیادہ کمیاں ہیں جن کا آپ نے ذکر نہیں کیا۔ انتظار فرج کا مطلب یہ ہے، یعنی تیار ہونا، سوچنا، کسی بھی تعطل اور بند گلی کو خاطر میں نہ لانا، تعطل اور راستے کے بند گلی میں پہنچ جانے کی سوچ، بہت بری چیز ہے۔ یہ انتظار فرج کے معنی ہیں، اس چیز کو مدنظر رکھیے۔

البتہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں بار بار کہا ہے: "کَتَبَ اللہُ لَاَغلِبَنَّ اَنا وَ رُسُلی"(8) کَتَبَ اللَہ یعنی خداوند عالم کا قطعی قانون ہے کہ پیغمروں کی راہ کو غلبہ حاصل ہوگا اور اس میں کوئي شک نہیں ہے۔ "اِنَّ اللہَ یُدافِعُ عَنِ الَّذینَ آمَنُوا"(9) خداوند عالم، مومنین کا دفاع کرے گا، اس میں کوئي شک و شبہہ نہیں ہے۔ یا "وَ نُریدُ اَن نَمُنَّ عَلَی الَّذینَ استُضعِفوا فِی الاَرضِ وَ نَجعَلَھُم اَئِمَّۃ"(10) اس میں کوئي شک نہیں ہے، یہ خداوند متعال کا وعدہ ہے۔ خود ہم نے بھی حقائق کو دیکھا ہے،  ہم ان باتوں کو قرآن، نہج البلاغہ اور صحیفۂ سجادیہ سے نقل کیا کرتے تھے لیکن ہم نے انھیں خود اپنی زندگي میں بھی دیکھا ہے۔ آپ ابھی کافی جوان ہیں اور ان شاء اللہ جب آپ کی میری جتنی عمر ہو جائے گی، مجھ سے بھی دس بیس سال زیادہ آپ کی عمر ہوگي تو آپ ایسی بہت سی باتیں دیکھیں گے۔ ہم نے اپنی اس عمر میں دیکھا ہے، انقلاب کی کامیابی کو دیکھا ہے جو باطل پر حق کا غلبہ تھا۔ کوئي بھی سوچ نہیں سکتا تھا، کوئي سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مرحوم طالقانی صاحب نے خود مجھ سے کہا تھا کہ جن سے امام خمینی نے کہا تھا کہ شاہ کو جانا ہوگا(11) تو ہم نے کہا تھا کہ جناب آپ کیا بات کر رہے ہیں! طالقانی صاحب معمولی انسان نہیں تھے، مطلب یہ کہ مرحوم آیت اللہ طالقانی جیسا انسان، ایک زبردست اور تجربہ کار جدوجہد کرنے والا انسان پرامید نہیں تھا، لیکن ایسا ہوا، انقلاب کامیاب ہوا، لَاَغلِبَنَّ اَنا وَ رُسُلی۔

یا مسلط کردہ جنگ، آپ لوگ تو خیر نہیں تھے، آپ نے نہیں دیکھا ہے۔ مسلط کردہ جنگ ایک عجیب واقعہ تھا، سبھی ہمارے خلاف تھے، امریکا ہمارے خلاف تھا، سوویت یونین ہمارے خلاف تھا، نیٹو ہمارے خلاف تھا، مسلمان ممالک ہمارے خلاف تھے، ہمارا پڑوسی ترکیہ ہمارے خلاف تھا، سبھی! لیکن ہم فتحیاب رہے۔ ایک ایسی جنگ میں، جس میں سبھی ہمارے خلاف تھے، ہمیں فتح حاصل ہوئي۔ بنابریں ہمارے تجربات بھی اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انتظار فرج کا مطلب یہ ہے۔ انتظار فرج صرف یہی نہیں ہے کہ ہم منتظر بیٹھے رہیں اور دعا کریں کہ خدا، حضرت حجت کو ظاہر کر دے، البتہ یہ بھی واجب کاموں میں سے ایک ہے، ہمیں دعا کرنی چاہیے، ہمیں یہ چاہنا چاہیے، اس کے لیے کام کرنا چاہیے لیکن صرف یہی نہیں ہے۔ انتظار فرج کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام کاموں میں، جن میں مشکلات پائي جاتی ہیں، ہمارے مدنظر فرج کا واقع ہونا، مسلمہ مفروضوں میں ہے جو ہونا چاہیے، اور جو ہے، وہ یہ ہے کہ انسان منتظر رہے۔ البتہ اس کی شرطیں ہیں، ہمیں کام کرنا چاہیے۔ روٹی کھانے کی فرج کا انتظار، روٹی کی دکان پر جانا، روٹی خریدنا اور گھر لانا ہی تو ہے ورنہ بیٹھے رہنے سے روٹی خودبخود تو آئے گي نہیں۔ کوئي کام ہونا چاہیے تاکہ فرج انجام پائے۔ یہ وہ بنیادیں ہیں کہ جن میں کام کرنا ضروری ہے، اس طرح کی بنیادیں کافی ہیں۔ یا توحید کی بنیاد – غیر خدا کی حکمرانی ممنوع، توحید یعنی غیر خدا کی حکمرانی کی نفی – اور اسی طرح کی دوسری باتیں جو کافی ہیں۔ ان بنیادوں پر کام کیجیے، خاص کر آپ یونینز کو ان بنیادوں پر کام کرنا چاہیے۔ کسی ایک محدود نقطے پر تمرکز نہ کیجیے، وسیع پیمانے پر نظر دوڑائيے، تمام مسائل کو دیکھیے۔ میرے خیال میں یہاں پر جو مرحوم شہید مطہری، شہید بہشتی، مرحوم مصباح صاحب وغیرہ کا جو نام لیا گيا، یہی بہت اچھی بات ہے، ان لوگوں کی کتابیں، اچھی کتابیں ہیں۔ ہمارے جوانوں کا تجربہ بھی اچھا ہے، مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ ایک نوجوان رضاکار، تہران کے قریب کچھ کام کر رہا ہے، سرگرمیاں انجام دے رہا ہے، جیسے شہید مصطفی صدر زادہ۔ ان کے بارے میں دو تین کتابیں لکھی گئي ہیں جنھیں میں نے پڑھا ہے، پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ وہ کس طرح کام کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے بےتاب تھے۔ انسان، ان لوگوں کو دیکھے اور آگے بڑھے۔ یہ پہلا نکتہ تھا، جسے میں نے عرض کیا۔

اسٹوڈنٹس کے بارے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے تیزی سے بیان کرنا ہوگا تاکہ ان ساری باتوں کو عرض کر سکوں۔ پہلا نکتہ یہ ہے، یہ بات آپ جان لیجیے، میری حتمی اور قطعی رائے یہ ہے: اسٹوڈنٹس کی سرگرمیاں، خود طالب علم کی طرح ملک کے لیے ایک پونجی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسٹوڈنٹس کی سرگرمیوں یا کسی بھی طرح کی سرگرمی سے، جو انجام پاتی ہے، البتہ صحت مند سرگرمی، اس کی بعض خرابیوں کی طرف بھی میں اشارہ کروں گا، ممکنہ طور پر خطرے کا احساس کریں، یہ غلط فہمی ہے، طلباء کے کام اور ان کی سرگرمیاں ملک کے لیے سرمایہ ہیں، اسٹوڈنٹس کے مطالبے ملک کے لیے سرمایہ ہیں، اسٹوڈنٹس کی زبان، سرمایہ ہے، ملک کے واقعات کے بارے میں طلباء جو ذمہ داری محسوس کرتے ہیں، وہ بھی سرمایہ ہے۔ یہ جو آپ یہاں آتے ہیں اور ذوق و شوق کے ساتھ، جوش کے ساتھ کوئی اعتراض کرتے ہیں، یہ ملک کے لیے ایک موقع ہے، یہ ملک کے لیے ایک قدر ہے۔ کمیوں کو دور کرنے کے لیے اسٹوڈنٹ سوسائٹی اور نوجوان طلباء میں جو جوش ہے، وہ ایک موقع ہے۔ مختلف واقعات میں، چاہے وہ قدرتی آفات ہوں، چاہے سیاسی واقعات ہوں جیسے یوم قدس، گيارہ فروری وغیرہ کی ریلیوں میں اسٹوڈنٹس کی پرجوش شرکت، یہ سب اہم مواقع ہیں۔ سیاسی و معاشی مسائل اور بعض فیصلوں کے بارے میں اظہار خیال سرمایہ ہے۔ اسٹوڈنٹس کا اظہار خیال سرمایہ ہے۔ میں یہ نہیں کہتا ہے کہ صحیح ہے، اس پر توجہ رکھیے۔ ممکن ہے کہ بعض اظہار خیال صحیح ہو، بعض صحیح نہ ہو لیکن خود اظہار خیال، سوچنا، مسئلے کے بارے میں غور کرنا، یہ ملک کے لیے ایک سرمایہ ہے۔ البتہ اس کی کچھ کمیاں بھی ہیں، اسٹوڈنٹ کی سرگرمیوں میں کمیاں نہیں ہونی چاہیے، اس کا خیال رکھیے۔ البتہ جوانوں کو اعتبار نہیں ہوتا کہ بوڑھے بھی کبھی جوان تھے لیکن ہم نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جوانی کا وقت کیسا ہوتا ہے۔

جوانی میں غلطی اور خطا کا امکان کم نہیں ہے، اس کا امکان زیادہ ہے، مختلف باتیں پیش آتی ہیں، چوکنا رہیے۔ اسٹوڈنٹس کی سرگرمیوں میں جو کمیاں ہیں، انھیں برطرف کرنا چاہیے، انھیں صحت مند بنانا چاہیے۔ اختلافات پیدا نہ ہوں، دو دھڑے نہ بنیں، اسٹوڈنٹ سوسائٹی کی سرگرمیوں کو دو دھڑوں میں نہ بانٹا جائے، یہ بہت ہی اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ یہ اختلافات اور دھڑے بندی، دشمن کی خواہش ہے۔ سرگرمیوں کو حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر آپ یہاں آتے ہیں، کوئي تجویز دیتے ہیں، اس تجویز پر کام میں وقت لگے گا، پیسے لگیں گے، ہو سکتا ہے کہ اس کا خرچ ادا کرنا ممکن نہ ہو، یا فورا ممکن نہ ہو، ان سب پر بھی توجہ دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اسٹوڈنٹ سوسائٹی کی سرگرمیاں اور اس کے مطالبے، حقیقت پسندی کے ساتھ ہونے چاہیے۔ حتی المقدور علمی و عملی راہ حل کے ساتھ ہونے چاہیے، پہلے تو علمی یعنی عالمانہ اور دانشمندانہ راہ حل ہو اور دوسرے وہ راہ حل عملی بھی ہو یعنی صرف کاغذ پر نہ ہو، ایسا کام ہو، جسے انجام دیا جا سکتا ہو۔ آپ میں سے جو بھی میدان عمل میں پہنچے گا – کہ آپ میں سے بعض کی درخواست بھی یہی تھی کہ جوانوں کو میدانوں میں کیوں نہیں لایا جاتا، ضرور لانا چاہیے – تو آپ کی رائے بدل جائے گي کیونکہ آپ حقائق کو دیکھیں گے، مشکلات کو دیکھیں گے، کام کی دشواریوں کو دیکھیں گے۔

ایک بار ایک صاحب امام خمینی کے پاس پہنچے– ان کی حیات مبارک میں – حکومت کے خلاف کچھ شکایت کی تھی۔ امام خمینی نے ان کی باتیں سنیں – جیسا کہ انھوں نے مجھ سے نقل کیا – اس کے بعد ان کے جواب میں صرف اتنا ہی کہا: "جناب! ملک چلانا سخت ہے۔" واقعی سخت ہے۔(12) اگر ہم لوگ ایک دوسرے کو ہی جواب دیتے رہیں گے تو کام آگے نہیں بڑھیں گے۔ لوگوں کی باتیں سننی چاہیے۔ لوگوں کی باتیں کہاں ملیں گي؟ تمام مسائل میں لوگوں کی باتیں ہیں اور ان کی صرف ایک بات نہیں ہے، سوچنا چاہیے، مطالعہ کرنا چاہیے۔ لوگوں کی باتوں کا طریقہ ہوتا ہے۔ لوگوں کا فیصلہ یہی ہے جو اس وقت سامنے موجود ہے، یعنی وہ ایک شخص کو صدر کے طور پر منتخب کرتے ہیں، یہ عوام کا فیصلہ ہے۔ کچھ لوگوں کو پارلیمنٹ کے رکن کے طور پر منتخب کرتے ہیں، یہ عوام کی بات ہے۔ لوگوں کی باتوں کو اسی طرح تو سمجھا جا سکتا ہے نا؟

ابھی ہمارے ایک بھائي نے کہا کہ ریفرنڈم، اس طرح سے کہا کہ اگر آپ شروع سے ان تمام مسائل میں جو پیش آئے ہیں، ریفرنڈم کراتے تو اس وقت ریفرنڈم پر وہ حساسیت نہیں ہوتی۔ دنیا میں کہاں یہ کام کیا جاتا ہے؟ کیا ملک کے گوناگوں مسائل ریفرنڈم کے لائق ہیں؟ کیا وہ تمام لوگ جنھیں ریفرنڈم میں شرکت کرنی چاہیے اور جو شرکت کرتے ہیں، مسئلے کے تجزیے کا امکان رکھتے ہیں؟ یہ کیسی بات ہے؟ ان مسائل میں کیسے ریفرنڈم کرایا جا سکتا ہے جن میں پروپیگنڈہ کیا جا سکتا ہے، ہر طرف سے بات کی جا سکتی ہے؟ ایک مسئلے پر ریفرنڈم کرانے کے لیے ملک کو چھے مہینے تک بحث، مباحثے، گفتگو اور اختلاف میں الجھائے رکھتے ہیں تاکہ کسی ایک مسئلے پر ریفرنڈم  کرایا جا سکے۔ ہم تمام مسائل میں ریفرنڈم کرائيں؟ مطلب یہ کہ باتیں ایسی نہیں ہیں کہ انسان اس طرح سے یوں ہی ان سے گزر جائے۔

ایک بڑی مشکل جلد بازی ہے۔ جلدبازی نہیں ہونی چاہیے۔ اسٹوڈنٹ کی زبان صرف مشکلات اور مسائل کو بیان کرنے والی نہ ہو۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مشکلات کو بیان نہ کیجیے لیکن صرف مشکلات ہی بیان نہ کیجیے۔ ملک میں بہت سی اچھی اور روشن باتیں ہیں، اسٹوڈنٹ انھیں بھی بیان کرے، وہ بھی بیان کرے اور یہ بھی بیان کرے یعنی ایسا نہ ہو کہ وہ صرف ان چیزوں اور مشکلات کو پھیلانے والا بن جائے۔ طالب علم کو تندخو نہیں ہونا چاہیے، سطحی سوچ اور نظر والا نہیں ہونا چاہیے۔ محلے کے مسئلے کو قومی مسئلہ نہ بنا دیا جائے۔ مثال کے طور پر کبھی ہوتا ہے کہ ملک کے کسی گوشے میں کوئي واقعہ رونما ہوتا ہے، کوئي حادثہ ہو جاتا ہے، فلاں اسٹوڈنٹ تنظیم آئے اور اسے ایک قومی مسئلے میں بدل دے، یہ غلطی ہے، یہ ملک کے نقصان میں ہے۔ یہ مشکل سے دور بھاگنا نہیں ہے یا مشکل کا حل نہیں ہے، یہ ملک کے نقصان میں ہے کہ ایک معمولی اور محلے کی مشکل کو ایک قومی مسئلے میں بدل دیا جائے۔

طالب علم کی نیت دکھاوے کی نہ ہو، دیکھیے! میں اس بات کی تاکید کرتا ہوں۔ نہ تو طالب علم اور نہ ہی طلبہ تنظیم کو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ دکھاوے کے لیے کوئي بات کرے، اس سے کام کی برکت جاتی رہتی ہے، بات کی برکت ختم ہو جاتی ہے، بات بے اثر ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی اس میں نقصان بھی ہے۔

اسٹوڈنٹس، سائبر اسپیس میں غرق نہ ہو جائيں۔ اس طرف اور اس طرف سے کی جانے والی تمام باتوں کے باوجود سائبر اسپیس ملک میں موجود ہی ہے، سوشل میڈیا ہے، انٹرنیٹ ہے۔ بعض لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کہ سائبر اسپیس کی طرف سے انھیں لگاتار تجزیے، خبریں، موضوعات اور بنیادیں فراہم کی جاتی رہیں، یہ غلط ہے۔ آپ سائبر اسپیس پر حاوی ہو جائیے، آپ سائبر اسپیس کو گائیڈ کیجیے، آپ کی طرف سے سائبر اسپیس پر فکر، خبر اور تجزیہ جائے، اس کے برخلاف نہ ہو۔ یہ سب اسٹوڈنٹس کی سرگرمیوں کی مشکلات ہیں۔ باایمان اور دردمند طالب علم کی، جو کبھی ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے – کبھی لکھتے ہیں، کبھی دفتر میں آتے ہیں اور دوستوں سے بات کرتے ہیں جس سے انسان کو پتہ چلتا ہے کہ وہ فکرمند ہیں اور کچھ کرنا چاہتے ہیں – ایک ذمہ داری یہی ہے کہ اسٹوڈنٹس کے اہم کاموں کو، اسٹوڈنٹس کی سرگرمیوں کو، جو ملک کے لیے ایک مغتنم موقع اور ایک قدر ہے، اس طرح کی کمیوں سے دور کریں۔

اسٹوڈنٹس کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ: یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں ان کے ساتھ، میں آپ کے سوالوں کا جواب نہیں دینا چاہتا – یعنی میں اس وقت اس کی کوشش نہیں کر رہا ہوں، اس محدود وقت میں یہ کام کیا بھی نہیں جا سکتا – میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کاموں کو ٹھوس بنیاد عطا کیجیے یعنی اپنے سامنے موجود اعلی آفاق کو دیکھتے ہوئے اپنی حرکت کو طے کیجیے۔ آپ حرکت کرنے والے اور آگے بڑھنے والے ہیں، یعنی ملک کے بہترین نوجوان زیادہ تر ہمارے اسٹوڈنٹس ہیں اور آپ مومن طلباء آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ منزل حاصل ہو۔ دور ترین افق پر نظر رکھیے۔ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کی نظر میں ایک اچھے، بلند حوصلے والے اور مستقبل پر نظر رکھنے والے طالب علم کی ذمہ داری کیا ہے؟ میرا جواب یہ ہے: پہلے اپنے معاشرے کے ذہن میں اور حقیقت میں تبدیلی اور پھر دنیا کے ذہن میں اور حقیقت میں تبدیلی۔ آپ کو تعجب ہوا؟ اسٹوڈنٹ مثال کے طور پر دنیا کی حقیقت بدل سکتا ہے؟ اس میں کوئي تعجب نہیں ہے۔ آپ آج اسٹوڈنٹ ہیں لیکن آج کا یہی اسٹوڈنٹ کل کا سیاسی منتظم ہے، ملک کے کسی اہم شعبے کا انتظام چلانے والا ہے۔ یہ جو آج ملک کے عہدیدار ہیں، کل آپ کی طرح ہی طالب علم تھے، اس وقت ملک کا انتظام چلا رہے ہیں، سیاسی، معاشی، سفارتی سطح پر ملک کا انتظام چلا رہے ہیں۔ آج کا طالب علم، کل کا فلسفی ہے، کل کا محقق ہے، آج کا اسٹوڈنٹ کلچر اور میڈیا کے میدان میں کل کا بااثر کارکن ہے، آج کا اسٹوڈنٹ، کل کسی شعبے کا سربراہ، کل کا تھنک ٹینک اور کل کا بااثر عنصر ہے۔ انسان ہمیشہ تو جوان اور اسٹوڈنٹ رہنے والا نہیں ہے، آپ آج اس طرح راہ ہموار کر سکتے ہیں کہ کل جب آپ انھیں ذمہ داروں میں تبدیل ہو گئے جن کا میں نے ذکر کیا تو حقیقی معنی میں اثر انداز ہوں، معاشرے کے ذہن کو بھی بدلیے اور اس کی حقیقت کو بھی بدلیے۔ آج سبھی کہتے ہیں – ہم نے بھی کہا اور دوسرے سبھی کہتے ہیں – کہ دنیا بدل رہی ہے، اس تبدیلی کو کون وجود میں لاتا ہے؟ دانشور، سرگرم افراد، بڑے کام انجام دینے والے لوگ، یہی لوگ تبدیلیاں لاتے ہیں۔ وہ، آپ ہی لوگ ہیں، آپ آج طالب علم ہیں، کل آپ وہی ہوں گے جو وہ تبدیلی لا سکتا ہے۔ بنابریں ہماری توقع یہ ہے کہ آپ مستقبل کو اس طرح دیکھیے۔

البتہ وہ شخص جو کل تبدیلی لا سکتا ہے، وہ لازمی طور پر ایک نمایاں مومن، متقی اور وفادار نہیں ہے، کبھی کچھ لوگ منحرف بھی ہو جاتے ہیں۔ کوشش کیجیے کہ راستے سے نہ ہٹیے، کوشش کیجیے کہ صحیح راہ پر اور اللہ کے سیدھے راستے پر آگے بڑھیے، آپ اُس طرح کے کل کی سمت میں بڑھ رہے ہیں۔ اپنی بنیادوں کو، اپنی فکری بنیادوں کو، ایمانی بنیادوں کو، عقلی بنیادوں کو آج ہی سے مضبوط بنائيے تاکہ اُس طرح کے کل کے لیے تیار ہو سکیں۔ یہاں پر میرے خیال میں چار بنیادی باتیں ہیں: دین، عقل، علم اور عزم۔ یہ چار چیزیں ضروری ہیں۔ دینی بنیادیں، علمی بنیادیں، عقلی بنیادیں اور عزم و ارادے کی بنیادیں، مصمم ارادہ، ٹھوس عزم، ان چیزوں کو اپنے اندر مضبوط بنائيے۔ جو بھی ان چیزوں میں اپنے اندر زیادہ کام کرے گا، کل اس کے بااثر ہونے کا امکان زیادہ ہوگا۔ کچھ لوگ چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں، کچھ لوگ چوٹی تک نہیں پہنچ پاتے لیکن کسی حد تک وہ بھی بااثر ہوتے ہیں۔ یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ، خود کو کتنا تیار کرتے ہیں۔ یہ ایک بات ہوئي۔

اسٹوڈنٹ سوسائٹی کے بارے میں ایک دوسری بات۔ جب ہم کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹ تو یہ لفظ ہماری آنکھوں کے سامنے کئي عناوین کو مجسم کر دیتا ہے، ہمارے ذہن میں مجسم کر دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم کہتے ہیں اسٹوڈنٹ تو علم کا حصول، جوان ہونا، سرگرم ہونا، جدت پسندی، جدت طرازی، بدعنوانی سے دشمنی، ناانصافی سے دشمنی جیسے انسان دوستانہ جذبات اور ایسی ہی باتیں ہمارے ذہن آتی ہیں لیکن میرے خیال میں ان سب سے زیادہ اہم، ایک بنیادی فکری نظام کا حامل ہونا ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا۔ فکری بنیادوں کو مضبوط کیجیے، مستحکم کیجیے۔ دیکھیے، میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ آپ فی الحال دوسرے پروگراموں کو کنارے رکھ دیں اور جا کر سوچنے اور مطالعہ کرنے میں مشغول ہو جائيں، نہیں! انھیں ایک ساتھ انجام دینا چاہیے، یعنی عمل کے ساتھ ہی غوروفکر، مطالعے اور خودسازی میں پیشرفت کا امکان اس صورت سے کہیں زیادہ ہے کہ انسان سارے کام چھوڑ کر بیٹھ جائے، اسٹوڈنٹ کی ساری سرگرمیوں کو چھوڑ کر مثال کے طور پر صرف اچھی کتابوں کے مطالعے میں مصروف ہو جائے۔ مذہبی مآخذ سے انسیت پیدا کیجیے، گہری سوچ والے اور امانت دار مفکرین سے رابطہ قائم کیجیے۔ آج مفکرین کے درمیان، اچھے مفکر علماء اور اچھے مفکر انسان موجود ہیں۔

میں نے آپ سے عرض کرنے کے لیے یہاں ایک بات اور نوٹ کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں دشمن کی چال اور اس کی اسٹریٹیجی کی شناخت کے سلسلے میں اپ ٹو ڈیٹ ہونا چاہیے، ہم سب کو اپ ٹو ڈیٹ ہونا چاہیے۔ البتہ بعض لوگ ہیں کہ جیسے ہی ہم "دشمن" لفظ زبان پر لاتے ہیں، وہ چڑ جاتے ہیں کہ پھر انھوں نے سب کچھ غیر ملکی دشمنوں کی گردن پر ڈال دیا! گویا جب ہم کہتے ہیں کہ "ہمارے دشمن ہیں" تو ہم اپنی کمزوریوں، کمیوں اور تساہلی کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں! یہ سب ہیں لیکن اسے بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ دشمن ہے، ہم چاہیں یا نہ چاہیں، سمجھیں یا نہ سمجھیں، دشمن موجود ہے، کام بھی کر رہا ہے، لگاتار کام کر رہا ہے، دشمن پیسے خرچ کر رہے ہیں، وسائل فراہم کر رہے ہیں، حق کے محاذ کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ہم چاہے غافل رہیں، وہ غافل نہیں ہوتا۔ "مَن نامَ لَم یُنَم عَنہ"(13) ایسا نہیں ہے کہ اگر آپ کو محاذ پر نیند آ گئي ہے تو دشمن کے محاذ میں بھی نیند کا غلبہ ہوگا اور وہ بھی سو چکا ہوگا، نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ سو رہے ہوں اور وہ بیدار ہو۔ بنابریں دشمن ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

دشمن کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ ہم خود اپنی طرف سے بدگمان ہو جائيں۔ ایک بھائي نے یہاں امید کے مسئلے پر بات کی، ان کی گفتگو اچھی تھی اور میں ان کی باتوں کی تردید نہیں کرتا لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ ناامیدی کا سرچشمہ زیادہ تر داخلی ہوتا ہے۔ جی ہاں! اندر کچھ مشکلات ضرور موجود ہیں اور ہم ان مشکلات کو سمجھتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ مشکلات، پرجوش نوجوان اسٹوڈنٹ کو مایوس کر دیں۔ پرجوش نوجوان اسٹوڈنٹ، کسی اور طرح سے ناامید ہوتا ہے، جب پروفیسر یا فلاں انسان جو ذمہ دار نہیں ہے، جوان کے پاس بیٹھتا ہے – انفرادی طور پر اور یہی کام دوسری شکل میں اور اجتماعی اور وسیع پیمانے پر بھی کیا جاتا ہے – اور کہتا ہے کہ "تم کس خوش فہمی کے ساتھ یہاں پڑھائي کر رہے ہو؟ چھوڑو اور جاؤ!" جدوجہد کرنے والے نوجوان سے کہتا ہے کہ "تم ڈالر کی فلاں قیمت، فلاں شرح کی کئي سالہ افراط زر! کس امید میں اور کس خوش فہمی کے ساتھ یہاں پڑھ رہے ہو، کام کر رہے ہو؟" مایوسی اس طرح در آتی ہے، اثر انداز ہوتی ہے۔ البتہ مومن، جدوجہد کرنے والے، آگاہ اور بابصیرت جوان کا جواب، دو ٹوک اور صاف ہے کہ "ہاں، ملک میں مشکلات ہیں، لیکن میں اس لیے پڑھ رہا ہوں کیونکہ میں دسیوں سال تک اس ملک میں زندگي گزارنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تاکہ سیکڑوں سال تک میرے بچے، میرے بچے، میرے اخلاف اور میرے ہم وطن اس ملک میں زندگي گزار سکیں، میں مشکلات کو دور کرنا چاہتا ہوں، میں اس لیے پڑھ رہا ہوں تاکہ مشکل کو ختم کر دوں، میں جدوجہد کر رہا ہوں تاکہ مشکل کو دور کر دوں۔" مسلمان نوجوان کا جواب یہ ہے۔ لیکن وہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور بعض لوگوں پر اثر بھی ڈالتا ہے۔ تو یہ ایک مثال تھی۔

ہمیں اپنے آپ سے بدگمان کرنے کی ایک دوسری مثال یہ ہے کہ طرح طرح کے بداندیش ذرائع ابلاغ کا اصرار یہ ثابت کرنے پر ہے کہ ایرانی قوم، اپنے مذہبی عقائد سے منہ موڑ چکی ہے، اپنے انقلابی جذبات سے منہ موڑ چکی ہے۔ وہ اس پر بضد ہیں اور بار بار یہ بات دوہراتے رہتے ہیں، ان کے کچھ پٹھو یہاں بھی ہیں جو کہتے ہیں، انٹرنیٹ پر کہتے ہیں، اخبارات میں کہتے ہیں، اپنی طرح طرح کی باتوں میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے دین کی طرف سے منہ پھیر لیا ہے۔ وہ یہ باتیں دوہراتے رہتے ہیں، ایک انسان جو غفلت کا شکار ہو اور غوروفکر بھی نہ کرے، وہ ان کی بات مان لیتا ہے، یقین کر لیتا ہے، لیکن شب قدر آ گئي، اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ اس سال (دعا و اعمال) کی مجلسیں پچھلے سال کی مجلسوں سے زیادہ ہیں، یوم قدس کی ریلیوں میں لوگوں کی تعداد پچھلے سال سے زیادہ ہے، بائیس بہمن (11 فروری) کے جلوسوں میں لوگوں کی تعداد، پچھلے سال سے دوگنا زیادہ ہے۔ یعنی جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، حقیقت اس کے برخلاف ہے لیکن وہ وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔ میں نے کہا "مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاس * اَلَّذی یُوَسوِسُ فی صُدورِ النّاس * مِنَ الجِنَّۃِ وَالنّاس"(14) "ناس" یہی لوگ ہیں جو مسلسل وسوسہ ڈاتے رہتے ہیں۔

ایک دوسری مثال، فرض کیجیے کہ چار سرمایہ داروں یا انٹرپرینیورز نے ملک چھوڑ دیا، انھوں نے اپنے پیسے لیے اور ایک دوسرے ملک میں چلے گئے۔ کہا جاتا ہے "دیکھو! تم کس امید میں یہاں معاشی سرگرمیاں انجام دینا چاہتے ہو؟ لوگ تو جا رہے ہیں۔" ہاں ٹھیک ہے، چار لوگ چلے گئے ہیں، چالیس، ملک میں ہی رکے ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ہزاروں نالج بیسڈ کمپنیاں بنتی جا رہی ہیں، جوان نوکری پر لگ رہے ہیں، سماج کی سچائي یہ ہے لیکن دشمن اپنی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ سبھی کو ناامید کر سکے۔ یہ دشمن کی پلاننگ ہے۔ تو اس بات پر توجہ رہے کہ آج دشمن کی پلاننگ، ہمیں اپنے آپ سے بدگمان کرنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں خود سے ہی بدگمان کر دیں، ہم اپنی حکومت سے بدگمان ہو جائيں، اپنے اسٹوڈنٹس کے ماحول سے بدگمان ہو جائيں، اپنے عوام سے بدگمان ہو جائيں، نہیں، ملک آگے بڑھ رہا ہے، اچھی طرح سے آگے بڑھ رہا ہے۔

البتہ، ہمارے یہاں کمیاں بھی ہیں، اگر توقع کی بات کی جائے تو مجھے آپ لوگوں سے کہیں زیادہ توقع ہے اور میں آپ لوگوں سے زیادہ اعتراض بھی کرتا ہوں۔ البتہ کبھی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان علی الاعلان بات کرے لیکن میں کہتا ہوں، اعتراض کرتا ہوں لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ہم آگے بڑھ رہے ہیں، بحمد اللہ ملک آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلے ہمارے ملک میں اتنے مومن، سرگرم، پرجوش، خوش فکر نوجوان نہیں تھے لیکن بحمد اللہ آج ہیں۔ تو یہ بھی ایک اہم بات ہے۔

ایک دوسری بات یہ ہے کہ دشمن، ایرانی نوجوان سے کینہ رکھتے ہیں۔ آپ یہ بات جان لیجیے، ہمارے جوان یہ بات جان لیں، آپ لوگ، دوسروں سے زیادہ اس بات پر توجہ رکھیں، ملک کے سبھی جوان جان لیں کہ دشمن، سامراج، صیہونی کارٹلز(15) جو یورپ اور امریکا پر مسلط ہیں، بلاشبہ اسلامی جمہوریہ کے حکام کے کٹر دشمن ہیں، اگر انھیں موقع ملے تو ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں لیکن وہ ایرانی جوانوں کے زیادہ کٹر دشمن ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ اگر آپ جوان، جوانوں کے محرکات و جذبات اور ملک کے جوان نہ ہوں تو ملک کے حکام کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ کام اصل میں جوان کرتے ہیں، پیشرفت اور  تحرک، جوانوں کے ہاتھ میں ہے اس لیے یہ لوگ جوانوں سے کینہ رکھتے ہیں۔ انقلاب کے اوائل سے آج تک یہ جوان ہی تھے جنھوں نے مختلف محاذوں پر، مختلف میدانوں میں بڑے بڑے کام اپنے ذمے لیے اور انھیں آگے بڑھایا۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ملک کے عہدیداران توجہ دیں اور بحمد اللہ وہ توجہ دیتے بھی ہیں، بہت سے نوجوانوں سے استفادہ کرتے ہیں لیکن اس سے زیادہ استفادہ ہونا چاہیے۔ مختلف میدانوں میں ایرانی جوانوں نے کام کیا ہے۔

میں نے یہاں نوٹ کیا ہے: سرکاری مینجمنٹ کے میدان میں – سرکاری مینیجر – شہید موسی کلانتری اور شہید تندگویان جیسے جوان تھے، یہ وزیر تھے، سبھی جوان، یا شہید قندی، شہید عباس پور، یہ سب شہید ہوئے، یہ جوان تھے۔ یہ سبھی، جن کے میں نام لے رہا ہوں، کچھ لوگوں کے نام اور لوں گا، یہ سب بیس سے تیس اور تیس سے چالیس سال کے درمیان تھے یعنی بیس سال سے لے کر انتالیس چالیس سال کی عمر کے تھے۔ سرکاری مینجمنٹ کے میدان میں یہ لوگ تھے۔ مرحوم موسی کلانتری نے کہا: میں نماز جمعہ کی دوسری یا تیسری صف میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شخص میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ اگلی صف میں شہید عباس پور – یہ بھی وزیر تھے اور شہید ہوئے – بیٹھے ہوئے تھے۔ کلانتری نے بتایا کہ جو شخص میرے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا اس نے عباس پور کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ دیکھو، وزیر آکر نماز جماعت کی صف میں بیٹھے ہیں! دیکھو بات کہاں تک پہنچ گئي ہے۔ انقلاب کا ابتدائي زمانہ تھا۔ شہید کلانتری نے، جن کا بڑا پیارا ترک لہجہ تھا، اس سے کہا کہ میں اس سے بھی عجیب بات تمھیں بتاؤں، میں بھی وزیر ہوں!(16) یہ اچھے وزیر تھے، اچھے مینیجر تھے۔ فوجی میدان میں شہید ہمت، شہید خرازی، شہید بابائي، شہید حسن باقری، شہید شیرودی، شہید اردستانی، شہید صیاد شیرازی – البتہ جب صیاد شہید ہوئے تو ان کی عمر زیادہ تھی لیکن جب وہ جنگ میں شریک تھے تو ان کی عمر اتنی ہی تھی جتنی میں نے عرض کی – ان لوگوں نے جنگ کی حقیقت کو بدل دیا، جنگ کا نقشہ پلٹ دیا اور اسے تمام رجعت پسند اور سامراجی اتحادیوں کے خلاف اسلامی جمہوریہ کے دست قدرت میں تبدیل کر دیا۔

آرٹ اور ادب کے میدان میں، شہید آوینی، مرحوم سلحشور، مرحوم طالب زادہ۔ البتہ ان کی عمر زیادہ تھی لیکن انھوں نے اپنی جوانی میں بہت زیادہ کام کیا تھا اور ان کے جیسے لوگ کم نہیں ہیں۔ علم و سائنس اور تحقیق کے میدان میں، شہید تہرانی مقدم، مرحوم کاظمی آشتیانی، شہید مجید شہریاری، شہید رضائي نژاد، شہید احمدی روشن۔ ہمارے جوان یہ لوگ ہیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے، اسی آپ کے زمانے میں، اسی آپ کے ہم عصر وقت میں، شہید حججی، مصطفی صدر زادہ، آرمان علی وردی، روح اللہ عجمیان۔ یہ سب نمایاں ہیں، واقعی بہت نمایاں شخصیات ہیں۔ ہزاروں، دسیوں ہزار، لاکھوں ذمہ دار ایرانی جوان آج موجود ہیں، یہ انجن ہیں، یہ ملک کو اور نظام کو آگے بڑھانے والے انجن ہیں، ان میں سے ہر ایک، کسی نہ کسی شعبے میں۔ آپ سب، آپ میں سے ہر ایک، ایسا ہونا چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شہید ہو جائيے، خدا کرے کہ آپ شہید نہ ہوں – البتہ بڑھاپے میں کوئي قباحت نہیں ہے، آپ جب ستّر، اسّی سال کے ہو جائيں، تب شہید ہوں لیکن اس وقت، جب تک آپ جوان ہیں، ہمیں آپ سے کام ہے، آپ شہید نہ ہوں – لیکن شہیدوں کی طرح زندگي گزاریے، واقعی ان لوگوں کی طرح زندگي گزاریے، ان لوگوں کی طرح آگے بڑھیے۔ تو شیطانی طاقتیں اس جوان طبقے کی سخت مخالف ہیں۔

عزیز جوانو! پوری سنجیدگي سے روشن راستے پر آگے بڑھیے، انقلاب، اسلام، ملک اور نظام وغیرہ کی روشن راہ پر سنجیدگي سے آگے بڑھیے، ملک کو آپ کی ضرورت ہے۔ اس راہ میں آپ کو منزل پسندی کی ضرورت ہے – وہ کچھ چیزیں جن کی واقعی ضرورت ہے، ان میں سے ایک منزل پسندی ہے – آپ کو امید کی  ضرورت ہے، آپ کو عقلمندی کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے۔ منزل پسندی یعنی وہی دور کے افقوں پر نظر رکھنا، جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، اگر یہ نہ ہو تو آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ منزل پسندی، آگے بڑھانے کا انجن ہے، امید اس انجن کا ایندھن ہے، اگر امید نہ ہو تو یہ انجن کام نہیں کرے گا، منزل پسندی دل میں رہ جائے گی اور انسان صرف حسرت لیے رہ جائے گا اگر امید نہ ہوئي تو، عقلمندی، اس انجن کی اسٹیئرنگ ہے، عقلمندی کے ساتھ سوچیے، عقل سے کام لیجیے اور آگے بڑھیے۔

یونیورسٹی کے بارے میں بھی مجھے بہت کچھ کہنا ہے، آپ لوگوں نے کبھی کچھ اشارے کیے اور آپ کی باتیں بالکل صحیح ہیں، آپ نے جو اعتراضات کیے ہیں وہ بھی درست ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حقیقی معنی میں ایک جامع علمی پلان کی کمی، ہماری یونیورسٹی کی بہت بڑی کمی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ علمی سبجیکٹس کے حساب سے اسٹوڈنٹس کو مختلف یونیورسٹیوں میں کس معیار اور بنیاد پر بھیجا جاتا ہے۔ یہ علمی و سائنسی موضوعات ملک کی ضرورت کے ہونے چاہیے، ملک کے کام آنے چاہیے۔ فلاں سبجیکٹ میں ہمیں کتنے اسٹوڈنٹس کی ضرورت ہے؟ ان کے بارے میں سوچا جانا چاہیے، ان پر کام ہونا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ علم و سائنس کے محترم وزیر(17) بھی – جو یہیں ہونے چاہیے – ان باتوں کو فالو اپ کریں اور یہ ان اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے، جو انجام پانے چاہیے۔ ایران میں بعض ایسے سبجیکٹ بھی ہیں جو ضرورت کے نہیں ہیں، ان سبجیکٹس کی نوکری بھی نہیں ہے تو پھر اس کا فائدہ کیا ہے؟ یونیورسٹی کے بعض کام اور بعض سبجیکٹ ایسے ہیں جن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے پاس کام کے لیے تیار ایسے شاید کئي لاکھ انٹر پاس لوگ ہیں جو مختلف شعبوں میں کام کر سکتے ہیں، ہم انھیں یونیورسٹی میں لاتے ہیں، اس کے کچھ عرصے بعد ہم کئي لاکھ گریجویٹ یا ماسٹرز کیے ہوئے بے روزگار، نوکری کی توقع رکھنے والے اور غصے میں بھرے ہوئے لوگ ملک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہم سو چیں اور دیکھیں کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، اپنی ضرورت کے حساب سے آگے بڑھیں۔ اگر ہمارے پاس تعلیم سے فارغ بے روزگار لوگ ہیں تو آپ جان لیجیے کہ ہمارے تعلیمی و تربیتی نظام میں کمی ہے۔ اگر کوئي ملک کے فائدے کے لیے علم حاصل کرتا ہے تو اس کی نوکری تیار ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے پاس تعلیم سے فارغ شخص ہے لیکن اس کے پاس نوکری نہیں ہے تو واضح سی بات ہے کہ اسٹوڈنٹس کا داخلہ صحیح نظام اور صحیح حساب کتاب سے انجام نہیں پایا ہے۔

خیر وقت ختم ہوا لیکن باتیں بہت زیادہ ہیں، ہم آپ کو چاہتے ہیں اور آپ کے لیے دعا کریں گے۔

والسّلام علیکم و رحمت اللہ و‌ برکاتہ

(1) اس ملاقات کی ابتداء میں کچھ طلباء نے اظہار خیال کیا۔

(2) اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں تقریر، 4/4/2023

(3) سورۂ فتح، آيت 4، وہ (اللہ) وہی ہے جس نے اہلِ ایمان کے دلوں میں سکون و اطمینان اتارا تاکہ وہ اپنے (پہلے) ایمان کے ساتھ ایمان میں اور بڑھ جائیں۔

(4) سورۂ مائدہ، آيت 8، (خبردار) کسی قوم سے دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو اور عدل سے پھر جاؤ، عدل کرو۔

(5) اعتقادات صدوق، صفحہ 47، (تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ)

(6) مولانا روم، مثنوی معنوی، دفتر سوم، (تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ)

(7) سورۂ قصص، آيت 7

(8) سورۂ مجادلہ، آيت 21

(9) سورۂ حج، آيت 38

(10) سورۂ قصص، آيت 5، اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر احسان کریں جنھیں زمین میں کمزور کر دیا گیا تھا اور انھیں پیشوا بنائیں اور انھیں (زمین کا) وارث قرار دیں۔

(11) منجملہ، صحیفۂ امام، جلد 4، صفحہ 107، پیرس میں رہائش پذیر ایرانیوں کے اجتماع سے خطاب (25/9/1978)

(12) ایک طالب علم کے الفاظ: "سخت ہے بشرطیکہ لوگوں کی بات سنیں۔"

(13) نہج البلاغہ، مکتوب نمبر 62

(14) سورۂ ناس، آيات 4 سے 6، بار بار وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

(15) ایسی کمپنیاں جو کسی خاص میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ ہو جاتی ہیں اور ان کا مقصد کسی خاص چیز کی منڈی پر تسلط حاصل کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ اجارہ داری قائم کر کے اس چیز کی منڈی سے کمپٹیشن کو یا تو ختم کر دیتی ہیں یا بہت کمزور بنا دیتی ہیں۔

(16) رہبر معظم اور حاضرین کی ہنسی

(17) جناب ڈاکٹر محمّدعلی زلفی‌گل