12 اگست 2025 کو صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو کا ایک انٹرویو آئی-24 نیٹ ورک پر نشر ہوا جس میں انھوں نے واضح طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خیال کا ذکر کیا اور اسے اپنا روحانی اور تاریخی مشن قرار دیا۔ یہ واضح بیان درحقیقت مزاحمت کے حامیوں کے اس نظریے کی تصدیق کرتا ہے کہ صیہونی حکومت زمینی اور سیکورٹی کی توسیع کے درپے ہے اور یہ توسیع محض 1948 اور 1967 کے مقبوضہ علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے جبک کئی عرب اور غیر عرب گروہ اور ممالک دو ریاستی حل اور صیہونی حکومت سے تعلقات معمول پر لانے کے خیال کے حامی ہیں تاکہ مغربی ایشیا کے خطے میں ثبات و استحکام پیدا ہو سکے اور وہ اس بنیاد پر مزاحمت کو خطے کے لیے ایک مہنگی چیز سمجھتے ہیں حالانکہ اس معاملے کی صحیح سمجھ، خطے کے حالات کے زیادہ درست تجزیے پر منتج ہو سکتی ہے۔
'گریٹر اسرائیل' کا خیال ایک مرکزی نظریے کے طور پر، اسرائیل کی زمینی توسیع پسندی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ یہ خیال، جس کی جڑیں "ارض اسرائیل" (سرزمین اسرائیل) کے تصور کی غلط مذہبی اور تاریخی تشریحوں میں پیوست ہیں، توسیع پسندی کے دائرۂ کار اور جغرافیا کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ اس خیال کی ترویج کرنے والے، پیدائش، اعداد، تثنیہ اور حزقیایل جیسی کتابوں کے حوالوں کی بنیاد پر نیل سے فرات تک کے علاقوں پر دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ نظریاتی تناظر، توسیع پسندانہ اقدامات کو روحانی اور تاریخی جواز فراہم کرتا ہے اور اسے ایک خالص سیاسی پروگرام سے ایک تشخصی مشن میں تبدیل کر دیتا ہے۔
مغرب، یہاں تک کہ عالم اسلام کی بیشتر تحریروں میں اس بات کی کوشش کی گئي ہے کہ اس نظریے کو دائیں بازو کے انتہا پسند صیہونی دھڑوں سے جوڑا جائے جو صیہونی حکومت کے سیاسی اقتدار پر حاکم اصل دھڑے سے الگ ہیں۔ تاہم اگر بغور دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ اسرائیل کے اسٹریٹجک فیصلوں اور عملی اقدامات کا محرّک رہا ہے۔ اسی سوچ کے ذریعے عسکریت پسندی، وسیع پیمانے پر سیکورٹی اداروں کی تشکیل، مختلف طرح کے سیکورٹی بفر زونز کی تعمیر، علاقائی سیکورٹی آرڈرز کی تشکیل، صیہونی کالونیوں کی تعمیر اور مقبوضہ علاقوں پر فوجی کنٹرول جیسی پالیسیوں کو نہ صرف جائز ٹھہرایا جاتا ہے بلکہ اس مقصد کے حصول کی راہ میں ضروری قدم قرار دیا جاتا ہے۔
اس نظریے کی حامل جماعتیں اور تحریکیں اسے سرکاری پالیسی میں تبدیل کر کے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سیاسی عزم فراہم کرتی ہیں اور اسے زمین پر ناقابل تردید آبادیاتی اور جغرافیائی حقائق کی شکل میں پیش کرتی ہیں۔ یقیناً یہ نقطۂ نظر زیادہ عمیق اور گہرا ہے اور گریٹر اسرائیل کے نظریے کو محض انتہا پسند اور ذیلی گروہوں سے متعلق سمجھنا ایک سطحی اور گمراہ کن تجزیہ ہے جو زمینی حقائق اور صیہونی حکومت کی توسیع پسندانہ تاریخ کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر 27 مارچ 1992 کو رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے بیان میں فرمایا: "صیہونی اپنے اہداف سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ انھوں نے 'نیل سے فرات تک' کے اپنے اعلان کردہ ہدف کو واپس نہیں لیا ہے۔ ان کا ارادہ اب بھی یہی ہے کہ وہ نیل سے فرات تک کے علاقے پر قبضہ کر لیں! البتہ، صیہونیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ پہلے دھوکے اور مکر و فریب سے اپنے قدم مضبوط کریں اور جب ان کا قدم جم جائے تو دباؤ، حملے، قتل و غارت اور تشدد کے ذریعے جہاں تک ممکن ہو آگے بڑھیں! جب بھی ان کا سامنا کسی سنجیدہ مقابلے سے ہوتا ہے، خواہ وہ سیاسی مقابلہ ہو یا فوجی تو وہ رک جاتے ہیں اور دوبارہ فریب اور سازش کی راہ اختیار کرتے ہیں تاکہ مکر کے ذریعے ایک قدم اور آگے بڑھ سکیں! جب وہ ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں تو دوبارہ وہی دباؤ اور تشدد کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جو وہ ساٹھ ستر سال سے آج تک کرتے آ رہے ہیں۔"
اس نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صیہونی حکومت کے اقدامات
یہ نظریہ، چاہے خفیہ اور چاہے اعلانیہ، صیہونزم کی اسٹریٹیجی پر حاکم ایک بڑے نظریے میں تبدیل ہو چکا ہے جو اس حکومت کے اصل سیاسی اور عسکری دھڑوں کے اقدامات کا تعین کرتا ہے۔ مندرجہ ذیل باتوں کو اس کے مصادیق کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ایہود اولمرٹ نے بھی 29 مارچ 2006 کو الیکشن کے بعد کھل کر کہا تھا: "ہزاروں سال سے ہم گریٹر اسرائیل کے خواب کو اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ یہ سرزمین ہمیشہ کے لیے، اپنی تاریخی سرحدوں کے ساتھ ہماری روح کے ساتھ جڑی رہے گی۔ ہم کبھی بھی اپنے دلوں کو ان جگہوں سے جدا نہیں کریں گے جو ہماری ثقافت کا گہوارہ ہیں اور جہاں سے ایک قوم کے طور پر ہماری سب سے قیمتی یادیں وابستہ ہیں۔"
ان بیانوں سے پتہ چلتا کہ صیہونی حکومت کے سرغنہ، چاہے ان کی سیاسی اور مذہبی سوچ جیسی بھی ہو، آخر کار گریٹر اسرائیل کے خیال کو خطے پر تسلط کے لیے یہودیوں کے بڑے نظریے کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور گریٹر اسرائیل کا دعویٰ صیہونیوں کے درمیان کسی خاص طبقے تک محدود نہیں ہے۔
گریٹر اسرائيل کے نظریے کے ممکنہ نتائج
اگر "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کا سنجیدگی سے مقابلہ نہ کیا گیا اور اس کے خلاف بھرپور مزاحمت نہ کی گئی تو یہ علاقائی اور اسلامی اور عرب ممالک میں داخلی سطح پر بحرانوں اور چیلنجوں کا باعث بن سکتا ہے جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
کل ملا کر کہا جا سکتا ہے کہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے اور خطے کے امن، سلامتی اور ثبات و استحکام کے لیے ایک سنجیدہ خطرے کی حیثیت سے گریٹر اسرائيل کے نظریے سے مقابلہ کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ نظریہ، جس کی صیہونی حکام نے واشگاف لفظوں میں تایید کی ہے، علاقائی سسٹمز کی تباہی، انسانی المیے اور ثقافتی ورثے کی نابودی پر منتج ہو سکتا ہے۔ اگر اس نظریے کے خلاف سنجیدہ ردعمل نہیں دکھایا گیا اور متحد ہو کر مزاحمت نہیں کی گئی تو اسلامی اور عرب ملکوں کو بہت سخت چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا جو نہ صرف ان کی قومی حکمرانی کو خطرے میں ڈالیں گے بلکہ عالمی سطح پر وسیع انسانی اور سماجی بحران بھی پیدا کر سکتے ہیں۔ بنابریں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانا اور مؤثر اسٹریٹیجیز اختیار کرنا، مغربی ایشیا کے علاقے کے ملکوں اور عالم اسلام کی سلامتی اور تشخص کی حفاظت کے لیے ایک حیاتی کام ہے۔
تحریر: حسین آجر لو، بین الاقوامی روابط کے محقق