سوال: اگر ہم تاریخ کی روشنی میں دیکھنا چاہیں تو بیت المقدس پر غاصبانہ قبضہ کرنے والی صیہونی حکومت سے تعلقات قائم کرنے کا پروجیکٹ خطے کے ممالک میں کب سے شروع ہوا؟

جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ صیہونی حکومت کا وجود ان تعلقات کا مرہون منت ہے جو شروع سے ہی سعودی عرب جیسے بعض عرب ممالک کے ساتھ تھے۔ شروع میں ہی صیہونی حکومت اور برطانیہ سے، جو اس حکومت کو وجود میں لانے والا تھا، بعض عرب ملکوں کے تعاون کے بغیر، صیہونی حکومت کے قائم ہونے کا کوئي امکان ہی نہیں تھا۔

جب انگریزوں نے آخری عثمانی حکمراں سلطان عبدالحمید پر دباؤ ڈالا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کو بسانے میں تعاون کرے تو سلطان نے کہا کہ یہ تو برادشت ہے کہ میرے دونوں ہاتھ کاٹ دیے جائيں مگر یہ گوارا نہیں کہ ہم فلسطین کو گنوا دیں۔ اس لیے انگریزوں نے عثمانی سلطنت کے زیر حکمرانی کام کرنے والے کچھ دوسرے لوگوں کا رخ کیا جن میں سے ایک شاہ عبدالعزیز تھے جو اس وقت نجد کے علاقے پر حکمرانی کر رہے تھے۔ یہ علاقہ، جزیرۃ العرب کا تقریبا چھٹا حصہ تھا۔ انگریزوں اور عبدالعزیز کے درمیان جو گفتگو ہوئي اس میں یہ معاملہ طے پا گیا اور شاہ عبدالعزیز نے اپنے دستخط کر کے واضح الفاظ میں اس بات کا اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں یہودیوں کو بسائے جانے اور وہاں ایک یہودی حکومت کی تشکیل سے متفق ہیں اور اس میں مدد کریں گے۔ آگے چل کر اسرائيلیوں نے خفیہ طور پر مختلف عرب گروہوں اور شخصیات سے تعلقات استوار کر لیے۔ پھر جب بھی صیہونیوں کے جرائم پر مسلمانوں کے غیظ و غضب کے شعلے بلند ہوتے تھے تو خود بعض عرب ممالک اور عرب شخصیات فلسطینیوں کے غصے کو ٹھنڈا کر دیتی تھیں اور ان کے غضب کو شعلہ ور نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ان میں سے ایک بہت ہی اہم فرد، سعودی عرب کے فرماںروا شاہ فیصل تھے۔ شاہ فیصل کے بھائي شاہ خالد نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ میں اپنے بھائي کی طرف سے فلسطین جاتا تھا اور فلسطینیوں کو یقین دلاتا تھا کہ برطانیہ، صیہونیوں کو مسلط نہیں ہونے دے گا اور وہ یقینی طور پر آپ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرے گا، میرے بھائي شاہ فیصل اس کی گارنٹی لیتے ہیں۔

جب بھی کسی معاملے میں، مثال کے طور پر مسجد الاقصی کو آگ لگانے کے معاملے میں، فلسطینیوں کا غصہ بڑھ جاتا تھا اور یہودیوں یا نئي نئي تشکیل پانے والی حکومت کے خلاف ایک بڑی لہر آ جاتی تھی تو عرب ممالک میں شاہ فیصل اور اردن کے بادشاہ، شاہ حسین جیسے لوگوں کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ اس غصے کو کنٹرول کریں اور  وہ کنٹرول کر لیتے  تھے۔ بنابریں، اسرائیل نامی اس ناسور کی، عالم اسلام کے جسم میں پھیلنے سے پہلے ہی بڑی آسانی سے سرجری کی جا سکتی تھی لیکن اس میں تاخیر ہو گئي، اب بھی سرجری کے علاوہ کوئي دوسرا راستہ نہیں ہے۔

سوال: صیہونی حکومت سے تعلقات کی استواری کا مغربی ایشیا کے خطے اور خاص طور پر فلسطینی قوم پر کیا اثر پڑے گا؟

جواب: دیکھیے اسرائيل ملک نہیں بلکہ ایک ایجنڈا ہے اور مغربی دنیا نے بھی اس کے ایجنڈا ہونے کی بات تسلیم کی ہے۔ خود اسرائيلیوں جیسے بن گورین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ مقدس سرزمین فلسطین میں مسلمان مخالف حکومت کی تشکیل عالم اسلام کو کنٹرول کرنے، عالم اسلام کے مضبوط ہونے کے عمل کو روکنے اور عالم اسلام پر یورپ کے تسلط کو یقینی بنائے رکھنے کے لیے کی گئي ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو تاریخی دستاویزوں میں بھی ہے اور بیانوں میں بھی کھل کر کہی گئي ہے۔ اسرائيل کے سابق حکام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ اسرائيل کا واحد مشن ہے عالم اسلام کو متحد نہ ہونے دینا۔ اس لیے کہ عالم اسلام کا اتحاد، مغرب کو تین طاقتور سلطنتوں کی یاد دلاتا ہے۔ پہلی عثمانی سلطنت، جس نے تقریبا سات سو سال تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی، دوسری صفوی سلطنت اور تیسری مغل سلطنت جس نے برصغیر پر حکمرانی کی۔ اس طرح کی طاقت دوبارہ تیار نہ ہو جائے، اس کے لیے صیہونی حکومت کو ایک خاص رول دیا گيا ہے۔

سوال: اسرائيل سے تعلقات معمول پر لانے کے اس عمل کا پس منظر کیا ہے اور اسے غیر مؤثر بنانے کے لیے کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جانا چاہیے؟

جواب: اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کا مطلب ایک متنازعہ معاملے کو ختم کرنا ہے اور اگر یہ تنازعہ جاری رہتا ہے تو اسرائيل کے وجود کے ستون ٹوٹ کر بکھر جائيں گے اور اس حکومت کا خاتمہ، اسلام خطے میں مغرب کی طاقت کے ستونوں کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اسی وجہ سے "اسرائيل کو ہمیشہ باقی رہنا چاہیے" کا ایجنڈا امریکا، یورپ، خود صیہونی حکومت اور خطے میں اس کے پٹھوؤں کی مشترکہ پالیسی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں تک لائحۂ عمل کی بات ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کا اتحاد ہے، دوسری بات فلسطینیوں کا میدان میں ڈٹے رہنا اور جدوجہد سے نہ تھکنا ہے، تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک فلسطینیوں کی حمایت اور پشت پناہی کریں اور اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح، اسلامی ممالک کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے سے فلسطین کی ترجیح کبھی بھی باہر نہ نکلے۔

سوال: آخری سوال یہ کہ اس سیاسی پروجیکٹ کو علاقے کے عوام میں کتنی مقبولیت حاصل ہے؟

جواب: خود مغرب والوں نے کئی بار سروے کروائے ہیں، مثال کے طور متحدہ عرب امارات اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کے باضابطہ قیام کے موقع پر پچھلے سال جون میں ایک سروے کرایا گيا اور کہا گيا کہ ان تمام عرب ممالک میں، جن میں یہ سروے کرایا گيا، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے اور اسے باضابطہ طور پر تسلیم کیے جانے کی مخالفت، ستّر سے نوے فیصد تک تھی۔ یہاں تک کہ امارات میں بھی، جہاں کی بڑی آبادی غیر مقامی ہے اور مقامی آبادی مختصر سی ہے، کہا گيا کہ اسّی فیصد سے زیادہ لوگ اسرائیل سے تعلقات استوار کیے جانے کے مخالف ہیں۔ بنابریں عوام کا موقف تو بالکل واضح ہے۔ اقوام فلسطین کی مقدس سرزمین پر غاصبانہ قبضے کے تلخ واقعے کو کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گي۔ لہذا وقت جتنا بھی گزر جائے، اقوام، اسرائیل کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گی اور نہ ہی اس کے جرائم کو فراموش کریں گي۔