تقوی یعنی ایک انسان کا سب کچھ، ایک پوری قوم کی دنیا ؤ آخرت اور اس طویل راہ کا حقیقی زاد سفر جس کے طئے کرنے پر ہر انسان مجبور ہے، تقوی یعنی خبردار رہنا کہ ہر وہ عمل جو آپ سے سرزد ہوتا ہے وہ اس مصلحت کے مطابق ہو جو خداوند متعال نے آپ کے لئے پیش نظر رکھی ہے؛ یہ ٹھیک نہیں کہ کوئی ایک لمحے کے لئے بھی اس سے دستبردار ہو۔ اگر ہاتھ سے گیا تو راہ میں پھسلن ہوگی، گہری کھائی سامنے ہوگی، پھسلیں گے اور پستیوں میں جا گریں گے، اس امید کے ساتھ کہ پھر سے کوئی پتھر، درخت یا جھاڑ سہارے کے لئے ہاتھ آ جائے کہ جس کی مدد سے ہم خود کو اوپر کھینچ سکیں؛ ’’ انَّ الَّذِينَ اتَّقَوْ ِاذَا مَسَّھُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَاذَا ھُم مُّبْصِرُونَ ‘‘ (سورۂ اعراف/ آیت نمبر ۲۰۱) ‘‘ (جو لوگ پرہیزگار ہیں جب انہیں کوئی شیطانی خیال چھو بھی جائے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور یادِ الٰہی میں لگ جاتے ہیں اور ان کی بصیرت تازہ ہو جاتی ہے (اور حقیقتِ حال کو دیکھنے لگتے ہیں۔) جب بھی ایک متقی و پرہیزگار آدمی شیطان کے لمس کو محسوس کرلے فورا ہوش میں آجاتے ہیں اور اس کے حواس جمع ہو جاتے ہیں، شیطان تو ہم کو کبھی نہیں چھوڑتا۔
امام خامنہ ای
04/ مارچ /1994