بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
برادران و خواہران عزیز، خوش آمدید!
محترم اراکین پارلیمان، یہ سالانہ ملاقات اس بات کا بھی ایک موقع ہے کہ مجلس شورائے اسلامی کی تکریم کی جائے، اس عظیم مرکز پر نگاہیں مرکوز رہیں اور سبھی پارلیمان کی اہمیت و عظمت پر توجہ دیں۔ یہ اس بات کا بھی موقع ہے کہ اراکین پارلیمان کی قدردانی کی جائے۔ ایک سال آپ نے محنت کی -اس بار تو تین سال محنت کی- اور حق تو یہ ہے کہ ہر سال کے اختتام پر تہہ دل سے محترم اراکین پارلیمان کی قدردانی کی جائے۔ اس نشست کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ بعض نصیحتیں اور یاد دہانیاں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں ہم سمجھتے ہیں کہ مفید واقع ہو سکتی ہیں اور آئين کی دفعہ ستاون کا تقاضا بھی ہے کہ ہم بعض یاددہانیاں اور کچھ نصیحتیں آپ کو کریں۔
میں نے کچھ باتیں آپ سے عرض کرنے کے لئے تیار کی ہیں لیکن ان باتوں کو شروع کرنے سے قبل فتح خرم شہر کی یاد ضروری ہے۔ حقیقتا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ یعنی انیس سو بیاسی کے مارچ کے اواخر، بائيس مارچ کو وہ فتح المبین آپریشن انجام دیا گيا، جس میں عظیم فتح حاصل ہوئي اور اس آپریشن میں دشمن کے 15 ہزار سے زائد فوجی گرفتار ہوئے، کوئي سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی جلدی ہماری مسلح افواج دوسرے آپریشن کی فکر میں ہوں گی چہ جائيکہ ایسے آپریشن کی فکر میں ہوں، جو آپریشن فتح المبین سے کئي گنا بڑا ہو۔ لیکن یہ ہوا۔ جب ہم خرم شہر پر نظر ڈالتے ہیں تو (دیکھتے ہیں) کہ یہ ایک معجز نما واقعہ تھا۔ واقعی معجزہ لگتا تھا۔ فتح خرم شہر کے بعد ثالثی کرنے والے، بعض صدور وغیرہ ایران آتے ہیں۔ مسٹر سیکو تورے (2) جو افریقا کی ایک اہم اور معروف شخصیت تھے، آئے اور مجھ سے کہا کہ آج آپ کی پوزیشن فتح خرمشہر کی وجہ سے کل سے مختلف ہے۔ اب بات کی اسٹیج الگ ہو گئی ہے۔
فتح خرم شہر کی عظمت نگاہوں کو اپنی طرف مرکوز کرتی ہے، لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ فتح خرم شہر سے بھی زیادہ یا کم سے کم اتنا ہی عظیم آپریشن "بیت المقدس" ہے۔ یہ آپریشن جو فتح خرم شہر پر منتج ہوا۔ وہ فداکاریاں، وہ بالکل نئی کارروائياں اور وہ جنگی منصوبے اور پلاننگ، میرے خیال میں ڈیفنس یونیورسٹیوں میں پڑھائي جانی چاہئے۔ بیچ کے راستے نکالنا، دشمن کو زمین سے لگا دینا، دشمن کو محاصرے میں لے لینا، افرادی قوت اور اسلحے کی قلت کے باوجود استقامت و پائیداری اور اس آپریشن میں ہمارے سپاہیوں کی شہادت، یہ سب بہت اہم ہے۔ لوگ اس سے متعلق کتابیں پڑھیں۔ میں نہیں جانتا کہ آپ عزیز بردران و خواہران گرامی کو ان آپریشنوں کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئي ہیں انہیں پڑھنے کا وقت ملتا ہے یا نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وقت ملے تو انہیں ضرور پڑھیں۔ اگر آپ کو اپنے شہر میں انتخابی کارروائيوں اور تشہیراتی مہم کا موقع ملتا ہے کہ عوام کے درمیان جائیں اور ان سے باتیں کریں اور پھر عوام اطمینان سے پولنگ اسٹیشنوں پر جائيں اور آپ کو ووٹ دیں، پھر آپ چار سال پارلیمنٹ میں رہیں، یہ سب انہی فداکاریوں کی وجہ سے ہے، ان شہادتوں کی وجہ سے اور حقیقی معنی میں ان جانبازیوں کی وجہ سے ہے۔ جب ایک کمانڈر جنگ کے درمیان یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے فوجی تھکے ہوئے ہیں، ان کے پاس جنگ کے وسائل و آلات نہیں ہیں اور دشمن دو سو ٹینکوں کے ساتھ ہمارے مورچوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو وہ اپنے فوجیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے مورچے کے اوپر جاکر اپنے فوجیوں سے خطاب کرتا ہے تو یہ زبان سے بیان کرنا آسان ہے- لیکن در حقیقت بہت بڑا کام ہے، واقعی یہ معمولی انسانی طاقت سے ماورا ہے یعنی عام طور پر انسان میں یہ طاقت و قوت نہیں ہوتی- یہ بہت عظیم اقدام ہے۔ اس کو فرسودہ نہ ہونے دیں۔ آپ کے پاس بہت اہم پلیٹ فارم ہے، مجلس شورائے اسلامی کا پلیٹ فارم۔ آپ کی آواز پورے ملک میں بلکہ پوری دنیا میں پہنچتی ہے۔ ان عظیم واقعات اور ان قابل فخر کارناموں کو فرسودہ اور فراموش نہ ہونے دیں۔ فتح خرم شہر کی سالگرہ سبھی ایرانی عوام کو مبارک ہو!
میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو عرض کروں گا۔ پہلی بات قانون کے مسئلے سے تعلق رکھتی ہے، اس سلسلے میں دو تین نکات عرض کروں گا۔ دوسری بات گیارہویں پارلیمنٹ کے بارے میں ہے، یہی آپ کی پارلیمنٹ۔ تیسری بات کچھ سفارشات ہیں جو عرض کروں گا۔
آج جو باتیں میں آپ سے کروں گا ان میں سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جو بارہا کہی جا چکی ہیں۔ گزشتہ سال اسی جگہ بہت سی باتیں ہم نے کہی ہیں(3) اس سے پہلے کے برسوں میں بھی اسی طرح، لیکن سننا، نصیحت کرنا اور بار بار کہنا اپنی جگہ ضروری ہے۔
قانون اور قانون سازی کی اہمیت کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ یہ صحیح ہے کہ آپ پارلیمنٹ کو دوہری اہمیت دیتے ہیں، قانون سازی اور نگرانی دونوں لحاظ سے- جیسا کہ قانون میں نگرانی کی تشریح کی گئی ہے- لیکن قانون سازی نگرانی سے بالاتر ہے۔ پارلیمنٹ کی بنیادی ذمہ داری قانون سازی ہے۔ قانون کا فلسفہ کیا ہے؟ اصل میں ہمیں قانون کی ضرورت کیوں ہے؟ اس لئے کہ زندگی میں ثبات و استحکام حیاتی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ثبات نہ ہو تو معاشرہ غیر قابل پیش بینی ہو جائے گا اور اس کے لئے منصوبہ بندی نہیں ہو سکے گی۔ منصوبہ بندی اس بات پر منحصر ہوتی ہے کہ آپ مستقبل کی طرف سے مطمئن ہوں تاکہ وسط مدتی اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کر سکیں۔ کیسے مطمئن ہوں گے؟ قانون سے۔ سبھی مسائل میں، اقتصادی مسائل میں، سیاسی مسائل میں، ثقافت وغیرہ کے مسائل میں۔ قانون اصول و ضوابط وضع کرتا ہے۔ قانون یہ ہے۔ اگر قانون نہ ہو تو زندگی درہم برہم ہو جائے گی۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں برا قانون بھی لاقانونیت سے بہتر ہے۔ جبکہ برا قانون بہت بڑی آفت ہے، لیکن کہتے ہیں کہ لاقانونیت سے بہتر ہے۔ بنابریں قانون سازی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ قانون سازی سے، عوام کو بھی اپنی زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی کا موقع ملتا ہے اور مختلف ثقافتی اور اقتصادی اداروں اور تنظیموں کو بھی اور ملکوں کے حکام اور حکومتوں کو بھی یہ موقع ملتا ہے۔ قانون اور قانون سازی کی اہمیت یہ ہے۔ جی ہاں، اگر قانون نہ ہو تو ظاہر ہے نراجیت کا ماحول ہوگا۔ مشہور ہے کہ قانون سازی، در اصل پٹری بچھانا ہے۔ ہم نے بھی اس بات کو بارہا کہا ہے۔ ابھی جناب قالیباف نے جو تقریر کی اس میں بھی یہ بات تھی۔ صحیح بات ہے۔ لیکن پٹری بچھانا یعنی ملک کی مجریہ کے لئے راستہ تیار کرنا کہ اس راستے پر وہ آگے بڑھے۔ لیکن ریلوے پٹری کی ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پر چلنے والے کے لئے دائيں اور بائیں نکل جانے کا اندیشہ نہیں رہتا- ریل گاڑی پٹری پر چلتی ہے- جبکہ تاریخ میں مجریہ اور حکومت کے عہدیداران بعض اوقات قانون کے راستے سے عدول کرتے نظر آتے ہیں۔ لہذا درحقیقت ہمیں قانون سازی کو (ریلوے لائن بچھانا کہنے کے بجائے) سڑک سازی کہنا چاہئے۔ بہرحال قانون سازی راستہ معین کرنا ہے۔
قانون سازی کلی پالیسیوں سے ایک نسبت رکھتی ہے۔ کیونکہ آئین میں کلی سیاست بیان کی گئي ہے۔ بعض اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کلی پالیسی کیا ہے؟ قانون سازی کیا ہے؟ اس کا جواب میں عرض کرتا ہوں: کلی پالیسی جہت کا تعین کرتی ہے اور قانون سازی کا عمل وہ راستہ تیار کرتا ہے جو اس طے شدہ سمت میں لے جاتا ہے۔ فرق یہ ہے۔ مثال کے طور پر کلی سیاست میں کہا جاتا ہے کہ شمال کی طرف جائيں۔ لیکن شمال کی طرف جانے کے متعدد راستے ہیں۔ ایک حکومت کہتی ہے کہ ہم اس راستے کا انتخاب کریں گے اور دوسری حکومت کہتی ہے کہ ہم اس دوسرے راستے کا انتخاب کریں گے۔ کوئي حرج نہیں ہے۔ یہ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ ہم اس سلسلے میں اس قانون کا انتخاب کرتے ہیں، دوسری پارلیمنٹ دوسرے قانون کا انتخاب کرتی ہے۔ فرق یہ ہے۔ لیکن یہ بہت اہم ہے کہ اصلی سمت فراموش نہ ہو۔ قانون کو اس جہت سے عدول نہیں کرنا چاہئے۔ پالیسی سازی اور قانون سازی میں یہ رابطہ پایا جاتا ہے۔
خود قانون نویسی اور قانون سازی کا بھی ایک اصول ہے، یہ اصول قانون بنانے کی پالیسیوں میں بیان کیا گیا ہے۔ ان پالیسیوں کو بھی قانون میں تبدیل ہونا چاہئے تھا لیکن افسوس کہ نہیں ہوا اور کئی سال سے ایسے ہی باقی ہے۔ ایک کام جس کا انجام پانا ضروری ہے، وہ طریقۂ قانون سازی کے ضوابط کا تعین ہے – قانون سازی کے طریقے کا قانون بنانا- تاکہ واضح ہو کہ قانون سازی کس طرح کی جائے۔
ہم نے کلی پالیسی(4) کے نوٹیفکیشن میں جو مصلحت نظام کونسل اور متعدد ماہرین کی مشاورت سے تیار کی گئي ہے، قانون کی خصوصیات کے بارے میں چند نکات کا ذکر کیا جن میں سے تین چار باتیں میں یہاں عرض کروں گا۔
ایک بات قانون کا ناقابل تاویل ہونا ہے۔ یعنی قانون واضح اور شفاف ہونا چاہئے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے لئے پارلیمنٹ کی تشریح کی ضرورت ہو کہ ایک بار پھر اس پر بحث کی ضرورت پڑے۔ جامع مہارت پر منحصر ہونا چاہئے۔ متفقہ ہونا چاہئے، اس میں مہارت سے کام لیا گیا ہو اور قابل عمل ہو۔ اچھے قانون کی ایک خصوصیت قابل عمل ہونا ہے۔ اگر کوئی قانون، ملک کے مالی ذرائع اور ملک کی گنجائشوں کے لحاظ سے قابل نفاذ نہیں ہے تو وہ قانون، اچھا قانون نہیں ہے۔ انسان کی بہت سی آرزوئيں ہوتی ہیں، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس آرزو کو عملی بنائيں، یعنی اگر مثال کے طور پر آپ رکن پارلیمان کے بجائے حکومت کے وزیر قانون ہوتے، کسی حکومت کے سربراہ ہوتے، تو اس کو نافذ کر سکتے تھے؟ یہ اہم ہے۔ اس کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم قانون بنائيں تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ وہ قابل نفاذ ہے۔ ثبات بھی قانون کی ایک خصوصیت ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن قانون کا اپ ڈیٹ ہونا ایک بات ہے اوراس میں بار بار تبدیلی اور ذیلی شقوں کا اضافہ، دوسری بات ہے اس سے اس کی قانونی حیثیت گر جاتی ہے۔
قانون کی تنقیح (5) ہونا چاہئے۔ کسی تضاد اور تصادم کے بغیر ہونا چاہئے۔ یہ وہ خاصیتیں ہیں جنہیں موجود ہونا چاہئے، انہیں سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ کیا نہیں ہونا چاہئے۔
ایک بات جو نہیں ہونی چاہئے، وہ ڈھیروں قوانین کا جمع ہونا ہے، جو رپورٹ مجھے پیش کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ قوانین کو مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشیل انٹیلیجنس) کے ذریعے تضادات سے پاک کیا جا رہا ہے۔ قانون مین تضاد اس کے جمع ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سال کے بجٹ قانون میں ماحولیات سے متعلق قانون کی شق بیان کی جاتی ہے اور بعض دیگر قوانین میں بھی (اس سلسلے میں شقیں موجود ہوتی ہیں) یہ قوانین ممکن ہے کہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہوں۔ جب مختلف قوانین میں الجھ کر فریضہ معطل ہوکر رہ جائے تو جو اس سے غلط فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، غلط فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ قانون شکنی کرنے والے قانون داں، میں نے بارہا اس بات کی تکرار کی ہے(6) انہیں جگہوں پر غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔
افراد کے مفاد میں قانون سازی، قانون سازی کی آفات میں سے ایک یہ ہے کہ قانون سے کسی خاص طبقے، یا فلاں شخص یا فلاں گروپ کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے۔ یہ قانون کی مصیبتیں ہیں جن پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
میں نے اس سے پہلے – اب مجھے یاد نہیں ہے کہ گزشتہ سال یا اس سے پہلے- پروپوزل کی تعداد میں اضافے کے تعلق سے ایک نصیحت کی تھی اور دوستوں سے کہا تھا کہ (7) پروپوزلز کی تعداد کو گورنمنٹ بل پر غالب نہ آنے دیں۔ جب گورنمنٹ بل آتا ہے تو درحقیقت حکومت خود کہہ رہی ہوتی ہے کہ ہم یہ کام کر سکتے ہیں لیکن پرائیویٹ پروپوزل میں یہ بات نہیں ہے۔ ممکن ہے آپ بہت محنت سے کوئی پروپوزل اور پلاننگ تیار کریں اور پھر بہت محنت اور کوششوں کے بعد اس کو پارلیمنٹ سے پاس کروائيں، لیکن جب وہ پروپوزل اور پلان حکومت کے پاس پہنچے تو وہ کہے کہ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے، اس پر عمل نہیں ہو سکتا۔ تو یہ ساری محنتیں خاک میں مل جائيں گی۔ یہ جو ہم نے کہا کہ قانون کو قابل نفاذ ہونا چاہئے، اس کا ایک حصہ یہی پرائیویٹ ممبران پارلیمنٹ کے پروپوزل بلز کی تعداد میں کمی ہے۔ البتہ بعض معاملات میں بل پروپوزل اور پلان ہونا چاہئے جس کی طرف ہم بعد میں اشارہ کریں گے۔ اس کا ایک موقع یہ ہے ک اگر پارلیمنٹ خود کوئی اقدام نہ کرے اور پروپوزل پیش نہ کرے (8) تو ملک تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ لیکن کلی پالیسی یہ ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کا کام پروپوزل سے زیادہ گورنمنٹ بلوں پر مرکوز ہو۔
قانون سازی میں در پیش جملہ مشکلات اور مصیبتوں میں سے ایک بات جو دوستوں پر واضح ہے، قانون سازی میں رکن پارلیمان کا ماحول سے متاثر ہو جانا ہے۔ ماحول سے متاثر ہونا۔ بعض اوقات تشہیراتی ماہرین کا پروپیگنڈہ، چاہے وہ دشمن ہوں یا دشمن نہ ہوں، لیکن بہرحال پرپیگنڈہ مہم کے ماہر ہیں، وہ ایک فضا اور ماحول تیار کرتے ہیں۔ اس کا قانون ساز اور اس کی سوچ پر کوئي اثر نہیں ہونا چاہئے۔ میرا کہنا یہ ہے۔ اب یہ بات کہ "فلاں کو برا لگے گا" " لوگوں کے درمیان ایسا ہو جائے گا" "وہ لوگ اعتراض کریں گے" ان باتوں کا قانون ساز پر کوئي اثر نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو ماحول سے، گروہی تحفظات سے یا مختلف قسم کی گروہ بندیوں سے بالکل متاثر نہیں ہونا چاہئے۔
گروہ بندیاں ہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی ہیں۔ آپ کی پارلیمنٹ میں بھی ہیں، پہلے والی پارلیمنٹ میں بھی تھیں۔ اس کا کوئي چارہ بھی نہیں ہے۔ سوچنے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ ایک گروہ مسائل کے بارے میں ایک طرح سے سوچتا ہے اور دوسرا گروہ دوسری طرح۔ یہ گروہ بندیاں کسی حد تک ناگریز ہیں، لیکن قانون سازی پراس کا اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ جو دو دھڑے بندی کی بات کی جاتی ہے، دو دھڑے اسی معنی میں ہیں۔ دو دھڑے کا مطلب فکر اور سوچ کا اختلاف نہیں ہے۔ سوچ کا اختلاف ہمیشہ ہوتا ہے، ہمیشہ رہا ہے۔ دو دھڑے کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ اختلاف وجود میں آ جائے تو ہر فیصلے میں بجائے اس کے کہ حق اور انصاف کے بارے میں سوچیں، اپنے دھڑے کی پوزیشن کے بارے میں سوچیں کہ ہمارا دھڑا اس طرح چاہتا ہے لہذا یہ ہونا چاہئے۔ اب یہ حق ہو نہ ہو، اس میں مصلحت ہو نہ ہو، (اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا) یہ قانون سازی کے مسائل کی باتیں ہیں۔ قانون صاف ستھرا، صحیح، خدا کے نام پر، خدا کے لئے اس طرح لکھنا چاہئے۔ اگر اس طرح ہوا تو برکت آئے گی۔ قانون اگر ان باتوں کو مد نظر رکھ کر، اچھی نیت سے لکھا جائے اور منظور ہو تو واقعی برکت آتی ہے۔ پھر حکومتیں بھی اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ یہ ایک بات۔
دوسری بات، موجودہ پارلیمنٹ کے بارے میں ہے۔ میں نے اس پارلیمنٹ کی تشکیل کی ابتدا میں ہی، اس پر اپنے یقین اور اپنے لگاؤ کا جو اطلاع اور آگاہی پر مبنی تھا اظہار کر دیا تھا، میں نے کہا کہ یہ انقلابی پارلیمنٹ ہے۔ (9) اس وقت بھی تین سال گزرنے کے بعد اس بات کا اعادہ کرتا ہوں۔ یہ پارلیمنٹ الحمد للہ انقلابی، تعلیم یافتہ، نوجوان، پرجوش اور محنتی ہے۔ البتہ کسی ادارے کے بارے میں انسان جو فیصلہ کرتا ہے، وہ پورے محکمے کو دیکھتے ہوئے ہوتا ہے۔ اب بعض استثنائات بھی ہوسکتے ہیں۔ ان استثنائات سے مجھے کوئي لینا دینا نہیں ہے۔ پورے ادارے کو جب دیکھتا ہوں، تو مجموعی طور پر واقعی یہ پارلیمنٹ انقلابی ہے۔ اب گوشہ وکنار میں، دائیں بائيں، کچھ طنز، کچھ ذیلی باتیں، کوئي چیز پارلیمنٹ کے بارے میں کہی جاتی ہے، تو کہیں! یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ سبھی تعریف کریں۔ نہیں، کچھ مخالفتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن حقیقت یہی ہے جو عرض کیا۔ یعنی مجھے جو اطلاع اور آگاہی ہے،(اس کے مطابق) موجودہ پارلیمنٹ میں یہ خصوصیات ہیں۔
گیارھویں پارلیمنٹ نے ملک کے مسائل کو پہچانا ہے۔ یہ اہم ہے۔ ملک کی مشکلات کو سمجھا گیا اور مشکلات کی شناخت کی بنیاد پر قانون بنایا گیا۔ یہ تفصیل جو جناب قالیباف نے بیان کی ہے- اس سے پہلے ایک تفصیلی رپورٹ انھوں نے میرے لئے بھیجی تھی۔ البتہ مجھے دوسری جگہوں سے بھی رپورٹ ملی ہے، یعنی صرف پارلیمنٹ کی رپورٹ نہیں ہے- جو کام انجام پائے ہیں، جو قوانین پاس ہوئے ہیں یا منظوری کے مراحل میں ہیں، یہ سب مشکلات کی شناخت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جب انسان مسائل کو جان لیتا ہے تو اس کے مطابق قانون بناتا ہے۔ ان قوانین کا مقصد بدعنوانی سے نمٹنا تھا، امتیازت کو ختم کرنا تھا، اجارہ داری کو ختم کرنا تھا، کاروبار کی فضا کو بہتر بنانا تھا اور اسی طرح دیگر اقتصادی مسائل میں۔ یہ قوانین صراحت اور استحکام کے ساتھ وضع اور منظور کئے گئے۔ یہ اہم ہے۔ یعنی ان قوانین میں کسی کو غلط فائدہ پہنچانے اور کچھ چھپانے کی کوشش نہیں کی گئ ہے بلکہ صریح اور واضح ہیں۔
جو قوانین آپ نے پاس کئے ہیں ان میں سے بعض اسٹریٹیجک ہیں۔ یعنی یہ قوانین وقتی اور عارضی نہیں ہیں، ملک کے لئے اسٹریٹیجک قوانین ہیں جو احترام اور قدردانی کے قابل ہیں۔ چاہے وہ اقتصادی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں یا غیر اقتصادی۔ یہ سبھی۔ " اسٹریٹیجک اقدام " کا قانون (10) تو آپ نے شروع میں ہی پاس کر دیا، یہ ایک اسٹریٹیجک قانون ہے، بہت اہم قانون ہے۔ اس قانون نے جوہری معاملے میں ملک کو پریشانی سے نجات دلائي۔ یعنی وہ حیرانی اور گومگو کی حالت (ختم کی۔) جب حیرانی اور گومگو کی حالت ہو تو انسان ہر قدم پر ایک فیصلہ کرتا ہے اور بعض اوقات متضاد فیصلے ہوتے ہیں! اس قانون نے پوری طرح واضح کر دیا کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے، اس وقت اس کی علامتیں ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح " خاندان کی حمایت اور نوجوان آبادی" کا قانون (11) ہے جو واقعی حیاتی اہمیت کا قانون ہے۔ میں برسوں سے – یعنی چند برس سے – یہ کہہ رہا ہوں، لیکن آپ کا قانون، کچھ کہنے سے مختلف ہے۔ ہمارا کہنا بعض اوقات نصیحت سمجھا جاتا ہے، (لیکن) آپ کا قانون نافذ اور الزامی ہے، اس پر عمل ہونا چاہئے۔ یہ قانون بہت اہم قانون ہے۔ یا "نالج بیسڈ پروڈکشن" (12) کا قانون ہے، یہ قوانین اسٹریٹیجک ہیں۔ اسی طرح کے دیگر قوانین بھی ہیں جو اسٹریٹیجک قوانین ہیں۔
گیارھویں پارلیمنٹ کی ایک خصوصیت جس کا میں ضرور ذکر کرنا اور بیان کرنا چاہتا ہوں، سادگی ہے۔ یعنی جہاں تک مجھے رپورٹ ملی ہے، اس پارلیمنٹ کے بہت سے اراکین میں، اشرافیہ طرز زندگی، خود کو برتر سمجھنا، عوام سے بے اعتنائی، یا تو بالکل نہیں ہے یا بہت کم ہے۔ میں نے عرض کیا کہ استثنائات بھی ہیں۔ یعنی استثنائات اس وقت بھی میری آنکھوں کے سامنے ہیں، لیکن مجموعی روش یہ ہے۔ یہ مجموعی روش بہت اچھی بات ہے۔ اس کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ عوام کے ساتھ نشست و برخاست، یہ عوام کے سامنے انکسار، یہ جو عوام کی باتیں سننا ہے، یہ سلسلہ بند نہ ہونے دیں۔ البتہ لوگوں کی بات سننا ان سے وعدہ کرنا نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ جب آپ اپنے شہر اور اپنے انتخابی حلقے میں گئے اور لوگوں نے آکر شکایت کی تو آپ یونہی ان سے وعدہ کر لیں۔ نہیں ان وعدوں پر آپ بھی عمل نہیں کر سکتے اور بعض اوقات پارلیمنٹ بھی عمل نہیں کر سکتی اور بعض اوقات پورا نظام اس پر عمل نہیں کر سکتا۔ وعدہ نہ کریں۔ سنیں، کہیں کہ کوشش کریں گے، کام کریں گے، شاید حل ہو جائے۔ یعنی لوگوں کی باتوں کو کھلے دل سے اور خندہ روئی کے ساتھ، بغیر پیشانی پر بل ڈالے اور تیوریاں چڑھائے سنیں۔ بعض لوگ پیشانی پر بل ڈال کے اور تیوریاں چڑھا کے سنتے تھے! کہتے ہیں:
چون وا نمیکنی گرهی، خود گره مباش
ابروگشاده باش چو دستت گشاده نیست (13)
< یعنی اگر گرہ نہیں کھول رہے ہو تو خود تو گرہ نہ بنو، اگر ہاتھ کھلا نہیں ہے تو ابرو تو کشادہ رکھو، یعنی خندہ رو تو رہو>
یعنی بغیر تیوریوں پر بل ڈالے کشادہ روئي کے ساتھ لوگوں سے ملنا، یہ بہت اہم ہے، یہ باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ روش رکھیں۔ یہ اچھی باتیں- جو میں نے عرض کیں اور خود آپ بھی مجھ سے بہتر جانتے ہیں- اس لئے کہی ہیں کہ اس آخری سال میں ان باتوں کو جاری رکھیں۔
آخری سال بہت حساس سال ہے۔ ممکن ہے کہ بعد میں، میں اس آخری سال کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں۔
ایک ملک کی مشکلات ہیں، پارلیمنٹ کا آخری سال انتخابات کے نزدیک ہے اور نگاہیں عوام پر ہیں۔ اس آخری سال میں اپنی یہ اچھی باتیں جاری رکھیں۔ صحیح وسالم (پارلیمنٹ میں) داخل ہوئے، صحیح و سالم نکلیں۔ «رَبِّ اَدخِلنی مُدخَلَ صِدقٍ وَ اَخرِجنی مُخرَجَ صِدق»۔(14) اس طرح ہو ان شاء اللہ۔ کام سے، انسان کے لئے جو چیز رہ جاتی ہے، وہ یہی ہے۔ اب یہ کہ بعد کے دور میں ہم منتخب ہوں گے یا نہیں، یہ دنیاوی مسائل ہیں۔ کئی درجہ بعد کے مسائل ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ہم چاہے بعد کی پارلیمنٹ میں آئيں یا نہ آئيں، جو کام ہم نے اب تک کئے ہیں انہیں خدا قبول کرے۔ اصل مسئلہ یہ ہے۔ یہ دوسری بات تھی۔
تیسری بات بعض سفارشات ہیں، چند سفارشات عرض کرتا ہوں۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ پہلے بھی یہ سفارشات آپ کے درمیان رکھ چکا ہوں۔
پہلی سفارش دیگر اداروں بالخصوص مجریہ کے ساتھ پارلیمنٹ کے رابطے کے بارے میں ہے، یہ بنیادی بات ہے۔ رابطے کی نوعیت طے ہونی چاہئے۔ دو نقطۂ نگاہ یہاں پایا جاتا ہے: تخریبی اور قربت پیدا کرنے والا۔ ایک نقطۂ نگاہ قربت والا ہے اور ایک تخریبی ہے۔
تخریبی نقطۂ نگاہ میں دوسرے اداروں کو رقیب سمجھا جاتا ہے۔ عدلیہ کے تعلق سے یہ بات بہت کم ہے، زیادہ تر یہ بات مجریہ اور مقننہ میں پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کو اپنا رقیب سمجھتے ہیں۔ ایسا رقیب جو اپنے فریق مقابل کو گرا دینا چاہتا ہے۔ یہ خطرناک ہے۔ یہ بات ممکن ہے کہ حکومت کی طرف سے ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے ہو۔ یعنی ممکن ہے کہ دونوں ہی یہ غلط نقطۂ نگاہ رکھیں۔ حکومتیں بعض اوقات پارلیمنٹ کو فضول سمجھتی ہیں، اپنی راہ میں رکاوٹ تصور کرتی ہیں اور ضد بحث کرتی ہیں۔ برسوں پہلے ایک اسپیکر صاحب میرے پاس آئے اور حکومت کی شکایت کرنے لگے کہ حکومت ہمارے سامنے بل ہی پیش نہیں کرتی! ہم بیکار بیٹھے ہیں۔ یہ حقیقت ہے! وہ حکومت تعاون نہیں کر رہی تھی۔ کوئی بل پارلیمنٹ ميں پیش نہیں کر رہی تھی۔ یہ جو میں نے کہا کہ بعض اوقات پروپوزل ضروری ہو جاتا ہے، یہی موقع ہے۔ جب حکومت بل پیش نہ کرے تو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ مسلسل ایک کے بعد ایک پروپوزل تیار کریں، پاس کریں، پیش کریں اور حکومت کو ارسال کریں۔ یعنی جب کوئی حکومت پارلیمنٹ کو پریشان کرنا چاہے ( کوئي بل پیش نہ کرے) تو راستہ یہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی بل نہ آئے تو ملک تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقی نمونہ ہے۔ یہ وہ مثال ہے جو واقع ہوئي۔ یا قانون تیار ہو، اس کا اعلان ہو، پھر اسے لاکر دراز میں رکھیں اور اسے تالا لگا دیں، اس کو نافذ نہ کریں۔ (یا) کوئي قانون ہے جس کا اعلان کیا گیا لیکن اس پر انتظامی ادارے کی تجاویز مدتوں تک تیار نہیں کی گئیں۔ قانون بغیرانتظامی ادارے کی تجاویز کے نا قابل نفاذ ہوتا ہے۔ یہ تجاویز ضروری ہوتی ہیں، اس کو (نفاذ کے لئے) دیا جائے۔ یہ کام نہیں ہوتا۔ یہ حکومتوں کی طرف سے ہے۔
پارلیمنٹ کی طرف سے، نگرانی کے ذرائع اور حربوں سے کام لینے میں زیادہ روی۔ جی! آپ کے پاس نگرانی کے اختیارات ہیں۔ سوال، یاددہانی، مواخذہ۔ ان سے اپنی جگہ پر کام لیا جاتا ہے، یہ پارلیمنٹ کے اختیارات ہیں۔ پارلیمنٹ کے پاس کوئي چارہ نہیں ہے، ملک چلانے کے لئے اس کو ان کی ضرورت ہے لیکن انہیں استعمال کرنے میں زیادہ روی نہیں ہونا چاہئے۔ مختلف حکومتوں میں وزرا بارہا میرے پاس آئے ہیں اور ان سوالوں کی تعداد کی شکایت کی ہے جو ان سے کئے جاتے تھے۔ کہتے تھے کہ ان کا زیادہ وقت تو ان سوالوں کا جواب دینے میں ہی نکل جاتا ہے کہ ہم کمیشن میں جائيں، پارلیمنٹ کے ایوان میں جائيں اور سوال کا جواب دیں۔ یا فرض کریں کسی وزیر نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیا، چند ماہ بعد، تین مہینے کے بعد چار مہینے کے بعد اسی وزیر کا مواخدہ کیا جاتا ہے! یہ مواخذہ کس لئے؟ کسی وزارت خانے میں تین مہینے میں کیا کام ہو سکتا ہے کہ اگر نہیں کیا تو اس کا مواخذہ کیا جائے؟ یہ نگرانی کے حربوں کے استعمال میں زیادہ روی ہے۔ اسی طرح کی دیگر باتیں، جنہیں نہ دوہرانا بہتر ہے۔ تو ایک نقطۂ نگاہ تخریبی ہے، فریق مقابل کو اپنا رقیب سمجھنا ہے۔
دوسرا نقطۂ نگاہ، نظام کے سبھی اداروں کو ایک پیکر کا حصہ سمجھنا ہے:
چو عضوی به درد آورد روزگار
دگر عضوها را نماند قرار(15)
(یعنی جب جسم کے کسی حصے میں درد ہو تو دیگر اعضا کو بھی قرار نہیں ہوتا)
(نظام) پیکر واحد ہے: ایک قلب ہے، ایک دماغ ہے، یہ اعصاب کا سسٹم ہے۔ ان سب کو مل کام کرنا چاہئے۔ اگر ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے نہ ہوں، دماغ قلب کی مدد نہ کرے، قلب دماغ کی مدد نہ کرے، اعصاب کا سسٹم دماغ کی مدد نہ کرے تو کام نہیں ہوگا۔ سب کو مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کرنا چاہئے۔ یہ سب ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والے ہیں۔ یہ ایک نقطۂ ںگاہ ہے۔ یہی صحیح نقطۂ ںگاہ ہے۔ یہی حقیقی نقطۂ نگاہ ہے۔ بنابریں، میری پہلی اور اہم سفارش یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس آخری سال میں-آپ چوتھے اور پارلیمنٹ کے آخری سال میں ہیں، پارلیمنٹ کا نقطۂ نگاہ پوری طرح چاہے آپ ہوں یا دوسرے، تعاون بڑھانے کا ہونا چاہئے۔ البتہ ہم حکومت اور عدلیہ کو بھی موقع، موقع سے اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ اس وقت آپ سے کہہ رہے ہیں۔ اجرائي امور حکومت کے کندھوں پر ہیں۔ اس پر توجہ رکھیں! آپ میں سے بعض حضرات خود مجریہ میں رہ چکے ہیں، چاہے وزیر کی سطح پر یا کسی ادارے کے سربراہ کی سطح پر، مجریہ میں رہ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ مجریہ اور مقننہ میں فرق ہوتا ہے۔ وہاں کام ہے، کوشش ہے، کام کا دباؤ ہے، توقع ہے، مطالبہ ہے۔ مجریہ کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بعض غیر منطقی تنازعات کو دخیل نہیں ہونا چاہئے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب پارلیمنٹ حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے تو کچھ بد اخلاق حضرات جو گوشہ و کنار میں بیٹھے ہوتے ہیں، فورا اخبارات میں اورسوشل میڈیا پر کہنے لگتے ہیں کہ "پارلیمنٹ کی خود مختاری ختم ہو گئی ہے، پارلیمنٹ حکومتی ہو گئی ہے۔" ان پر کوئی توجہ نہ دیں۔ یا وہ کسی غرض سے یہ بات کرتے ہیں یا مصلحت نظام سے بے خبری کی وجہ سے یہ باتیں کرتے ہیں۔
ایک بات جس پر میں زور دیتا ہوں، یہی مسئلہ ہے کہ بعض وزیروں کے تعلق سے پارلیمنٹ میں جو سختی سے کام لیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حکومت کے مجوزہ وزیر کے بارے میں غیر ضروری سختی برتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے وزارت خانہ ایک مدت تک بغیر وزیر کے رہتا ہے اور قائم مقام وزير اس کو چلاتا ہے۔ اس سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے۔ بے شک باریک بینی ہونی چاہئے، بیشک صلاحیتوں کا پتہ لگانا چاہئے، لیکن سختی منطقی حد کے اندر، معقول حد تک ہونی چاہئے۔ اس وقت چند وزارتخانے بغیر وزیر کے ہیں یہ سب پارلیمنٹ میں آئيں گے۔
ایک اور سفارش جو میں کرنا چاہتا ہوں، ( یہ ہے کہ) آزادی اور صراحت جو آپ کے اندر ہے بہت اچھی ہے۔ اس پارلیمنٹ کی آزادی اور صراحت اچھی ہے۔ اس آزادی اور صراحت میں تقوے اور صداقت کی آمیزش کریں۔ یعنی اگر کچھ کہنا ہے، کوئی بات کہنی ہے تو صراحت کے ساتھ کہی جائے، اچھی بات ہے لیکن صداقت کا خیال بھی رکھنا چاہئے، تقوا کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے۔ قرآن کریم فرماتا ہے: «اِنَّ الَّذینَ یُحِبّونَ اَن تَشیعَ الفاحِشَةُ فِی الَّذینَ آمَنوا».(16) اگر کوئی بات ہے جو ذمہ دار اداروں سے، انٹیلیجنس کے اداروں سے، حکومتی اداروں سے کہی جا سکتی ہے، اس کو بتاکر اس کی روک تھام کی جا سکتی ہے تو اس کو آشکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ بعض معاملات میں، کیوں نہیں، ضروری ہوتا ہے لیکن اس میں تقوا اور صداقت کی پابندی ضروری ہے۔ کبھی ہم کسی عہدیدار کو فرض کریں طمانچہ مارنا چاہتے ہیں، پارلیمنٹ کو طمانچہ مارنا چاہتے ہیں۔ تو یہ ہے۔ یعنی بعض اوقات کسی فرد پر وار ہوتا ہے تو پارلیمنٹ پر وار لگتا ہے۔ یہ غلط نہیں ہے؟ حیف نہیں ہے کہ اتنی کوششوں اور زحمتوں کے باوجود پارلیمنٹ کی شبیہ خراب کی جائے! مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ جائز نہیں ہے۔ لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ، ان کے دینی اور انقلابی تشخص پر حملہ ہے۔ البتہ یہ باتیں آپ سے مخصوص نہیں ہیں۔ یہ پورے ملک کے لئے ہے، اوپر سے نیچے تک سبھی لوگوں کے لئے ہیں۔ لیکن ہم اور آپ جیسے لوگ ٹریبیون کے سب سے اوپر ہیں، ہماری آواز سبھی سن رہے ہوتے ہیں، ہمیں ان باتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے۔
ایک اور سفارش یہی آخری سال کی بات ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا۔ اپنی باتوں اور نعروں میں ساکھ بنانے کی چاہت کا اثر نہ آنے دیں۔ یعنی یہ کہ اگر ہم یہ باتیں کریں اور یہ نعرے دیں تو لوگوں میں ہم سے لگاؤ پیدا ہوگا، اور ممکن ہے کہ ہماری عزت و آبرو میں اضافہ ہو، اس کو اپنے ذہن سے بالکل نکال دیں۔ یہ ضروری اور لازمی کوششوں میں سے ہے۔ یہ بھی ایک سفارش ہے۔
آخری سفارش یہ ہے کہ آپ اس سال یعنی آئندہ سال تک – انتخابات سال کے آخر میں ہیں لیکن یہی مہینے جو آپ کے سامنے ہیں، اہم ہیں- آپ کے سامنے عظیم کام ہیں: ایک ساتواں ترقیاتی منصوبہ ہے۔ ایک یہی سال کے سلوگن کا مسئلہ ہے۔ افراط زرکو کنٹرول کرنے کا مسئلہ ہے، پیداواربڑھانے کا مسئلہ ہے۔ یہ اہم کام ہیں۔ ایک ان بلوں کا مسئلہ ہے جو ادھورے رہ گئے ہیں جن کی طرف اشارہ کیا گیا کہ بعض بل یا تجاویز کو پاس ہونا ہے اور ابھی پاس نہیں ہو سکی ہیں۔ انہیں ایک جگہ اور ایک نقطے تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
یہ آخری سال اس بات کا موقع ہے کہ اپنے پیچھے(گزشتہ برسوں پر) ایک ںگاہ ڈالی جائے۔ اگر ان دو تین برسوں میں کوئي خلا رہ گیا ہے، کوئي کمی رہ گئی ہے تو اس کو پورا کریں اور (جس طرح کہ) سربلندی کے ساتھ پارلیمنٹ میں داخل ہوئے، ان شاء اللہ سرافراز پارلینمنٹ سے نکلیں۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته