بسم الله الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین المکرّمین لا سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔
ہمارے امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر پر اللہ کا سلام ہو! ہمارے امام حالیہ صدیوں کی مسلح جاہلیت کے دور میں فرائض الہی کے علمبردار تھے۔
چونتیس برس سے زائد عرصے سے یہ عظیم الشان اور مبارک اجتماع منعقد ہو رہا ہے۔ ان سبھی برسوں میں اس اجتماع میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس اجتماع میں تقریر کا زیادہ حصہ ہمارے عزیز اور بزرگوار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں ہی گفتگو پر مشتمل رہا ہے۔ میرے خیال میں اس ملک کی نئی نسلوں کو امام بزرگوار(امام خمینی رحمت اللہ علیہ) کی شناخت کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہم پرانے لوگوں کو بھی اسی طرح۔ ہم سبھی کو آپ کی عظیم اور ہمہ گیر شخصیت کی شناخت کی ضرورت ہے۔ اس سے ہماری پیشرفت اور اپنے راستے پر آگے بڑھنے میں ہمیں مدد ملے گی۔
آج بھی میں امام بزرگوار کے بارے میں چند باتیں عرض کروں گا۔ کـچھ باتیں، اپنے بارے میں، اس درس کے بارے میں جو ہمیں حاصل کرنا ہے اور اس کے بارے میں جو ہمیں کرنا ہے، عرض کروں گا۔
ہمارے امام بزرگوار کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ ہماری تاریخ کی سربرآوردہ ممتاز ہستیوں میں ہیں۔ صرف عصر حاضر کی ہی سر برآوردہ ممتاز ہستیوں میں نہیں بلکہ ہر دور کی ان ممتاز ہستیوں میں ہیں جو انسانی علوم ومعارف کے کسی بھی شعبے میں سربرآوردہ سمجھے جاتے ہیں۔ عظیم ہستیوں اور صاحبان عظمت حضرات میں کچھ لوگ دوسروں سے آگے ہوتے ہیں۔ انہیں سر برآوردہ اور برگزیدہ ممتاز ہستی کہا جاتا ہے۔ ہر دور میں سربرآوردہ ممتاز ہستیاں ہوتی ہیں لیکن بعض صرف اپنے دورکی ہی ممتاز ہستیوں میں سب سے آگے اور 'سرآمد' نہیں ہوتیں بلکہ تایخ میں 'سرآمد' سمجھی جاتی ہیں۔
سرآمد اور برگزیدہ ممتاز ہستیوں کو تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے پیش نظر یہ اہم نکتہ ہے۔ سر برآوردہ ممتاز ہستیوں کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ ہمارے پیش نظر اہم نکتہ یہ ہے۔
سر برآوردہ ہستیوں کو مٹایا جا سکتا ہے نہ ان میں تحریف کی جا سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مخالفین سر برآوردہ ہستیوں کی شبیہ بگاڑ کے پیش ہی نہیں کر سکتے۔ کیوں نہیں! میڈیا کے ادارے جو روز بروز ماڈرن سے ماڈرن تر ہو رہے ہیں، اپ ٹو ڈیٹ ہو رہے ہیں، زیادہ وسائل سے لیس ہو رہے ہیں، دن کو رات اور رات کو دن بناکے پیش کر سکتے ہیں، ممتاز اور نورانی ہستیوں کے بارے میں جھوٹ بول سکتے ہیں، لیکن یہ مٹھی میں پانی بند کرنے کی کوشش ہے، یہ «فامّا الزّبد فیذھب جفاء» (۲) ہے۔ خورشید بادلوں میں چھپ نہیں سکتا۔ ابن سینا اور شیخ طوسی، ہزار برس گزرنے کے بعد آج بھی اسی طرح جانے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت کو محو نہیں کیا جا سکتا، انہیں تاریخ سے مٹایا نہیں جا سکتا، ان کی شخصیت میں تحریف نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے امام بزرگوار کی شخصیت ابن سینا اور شیخ طوسی سے بھی وسیع تر ہے اور اس میں زیادہ ہمہ گیریت ہے۔ ہمارے امام بزرگوار کی شخصیت کی ممتاز خصوصیات ان دونوں، ممتاز اور سر برآوردہ ہستیوں کی خصوصیات سے زیادہ ہیں- امام فقہ میں، فلسفے میں، نظریاتی عرفان میں ممتاز ہستی ہیں- ایمان، تقوی، پرہیزگاری اور پاکیزہ کردار میں بھی سر برآوردہ ہیں، قوت ارادی اور شخصیت کے استحکام میں بھی سر برآوردہ ہستی ہیں، قیام فی سبیل اللہ، انقلابی سیاست اور نظام بشری میں تغیر لانے میں بھی ممتاز اور یگانہ ہیں۔ یہ سبھی خصوصیات ہماری تاریخ کی کسی بھی سر برآوردہ ہستی میں ایک ساتھ جمع نہیں ہوئی ہیں، لیکن ہمارے امام بزرگوار میں یہ سبھی خصوصیات ایک ساتھ موجود ہیں۔ لہذا ہمارے امام بزرگوار کو کوئی بھی تاریخ کے حافظے سے محو نہیں کر سکتا، نہ آج اور نہ ہی آئندہ صدیوں ميں، آپ کی شخصیت میں کوئی تحریف نہیں کر سکتا۔ چند روز ممکن ہے کہ کوئي جھوٹ بول لے، آپ کی تحریف شدہ شبیہ پیش کرے، لیکن بالآخر آپ کی درخشاں شبیہ خود کو متعارف کر دے گی ۔ اس خورشید تاباں کو بادلوں کے پیچھے چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہ پہلی بات۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے امام بزرگوار نے تین بڑے، عظیم اور تاریخی کام کئے ہیں، تین عظیم تبدیلیاں لائے ہیں، ایک ایران میں ملکی سطح پر، ایک امت اسلامیہ کی سطح پر اور ایک عالمی سطح پر۔ ان تینوں تبدیلیوں میں سے کسی کی کوئی نظیر نہیں، ممکن ہے کہ آئندہ بھی ان کی نظیر پیش نہ کی جا سکے۔ یہ ہمارے امام بزگوار سے مخصوص ہیں۔
ملک کی سطح پر تبدیلی یہ تھی کہ آپ اس ملک میں اسلامی انقلاب لائے۔ انقلاب عوام نے برپا کیا لیکن اسے امام خمینی نے وجود بخشا۔ اس انقلاب نے سلطنتی سیاسی ڈھانچے کو ختم کرکے اس کی جگہ عوامی حکمرانی قائم کی۔ اس انقلاب نے بڑی طاقتوں کے کٹھ پتلی نظام کو ختم کیا اوراس کی جگہ ایک خود مختار اور ملی عزت و شرف کا نظام قائم کیا۔ اس انقلاب نے اسلام مخالف حکومت کو ختم کیا اور اس کی جگہ اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی۔ اس انقلاب نے استبداد کو آزادی سے اور روز افزوں عدم تشخص کو ملی تشخص اور خود اعتمادی سے تبدیل کر دیا۔ اس انقلاب نے غیروں کی دست نگر قوم کو خود اعتمادی عطا کی۔ یہ اس عظیم انقلاب اور بڑی تبدیلی کے معجزات ہیں جو ہمارے امام بزرگوار ملکی سطح پر لائے۔ یہ "خود اعتمادی" جو میں نے کہی، سبھی مشکلات کے حل کی کنجی ہے۔ ہمارے سامنے مشکلات تھیں، ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی، لیکن جو چیز ان مشکلات کو برطرف کر سکتی ہے، جس نے ماضی میں بھی برطرف کیا ہے اور آئندہ بھی ہماری مشکلات کا علاج کر سکتی ہے، یہی خود اعتمادی کا جذبہ اور قوت ہے اور ہمارے امام بزگوار کے انقلاب نے یہ جذبہ اس ملک میں پیدا کیا ہے۔
وہ چیز جو امت اسلامیہ کی سطح پر رونما ہوئي – امت کی سطح پر تبدیلی- (یہ تھی کہ) امام نے اسلامی بیداری کی تحریک شروع کر دی۔ اسلامی دنیا کا عدم تحرک اور جمود کا دور، ہمارے امام کی تحریک سے کمزوری اور نابودی کے راستے پر چل پڑا۔ آج امت اسلامیہ میں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے کے دور کے مقابلے میں زیادہ بیداری، فعالیت، آمادگی اور زندگی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ ابھی اس سلسلے میں زیادہ کام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مسئلہ فلسطین، جو صیہونیوں اور ان کے حامیوں کی نظر میں ختم ہو چکا تھا اور اب فلسطین کی کوئي بات نہیں ہونی تھی، امت اسلامیہ کی سطح پر امام کی لائی ہوئي تبدیلی اور تحریک سے اسلامی دنیا کے اولین مسئلے میں تبدیل ہو گیا۔ آج مسئلہ فلسطین اسلامی دنیا کا اولین مسئلہ شمار ہوتا ہے۔ آج فلسطین مسلم اقوام کی توجہ کا مرکز ہے۔ انقلاب کے فورا بعد تہران میں صیہونی سفارتخانے سے فلسطینی رہنماؤں کی آواز کی گونج نے دنیا کو ہلا دیا۔ سب نے سمجھ لیا کہ فلسطین کے تعلق سے نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ اس نے فلسطینی قوم کے افسردہ پیکر میں نئی جان پھونک دی اور آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ قوم پوری قوت و طاقت سے اپنا وجود منوا رہی ہے اور اپنی آواز دنیا تک پہنچا رہی ہے۔ یوم قدس پر صرف ایران اور تہران میں ہی نہیں بلکہ غیر مسلم ملکوں کے دارالحکومتوں میں بھی لوگ فلسطینیوں کی حمایت اور ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یہ امت اسلامیہ کی سطح پر تبدیلی ہے۔
تیسری تبدیل عالمی سطح کی ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے دنیا میں، حتی غیر مسلم ملکوں میں بھی، دینی فضا اور معنویت پر توجہ کا احیاء کیا۔ دین مخالف مادہ پرستی کی پالیسیوں نے دینداری کو ختم کر دیا تھا۔ مادہ پرستی کی ترویج کے لئے صیہونی اور سامراجی تنظیموں کی یلغار کے مقابلے میں عوامی ردعمل معذرت خواہانہ اور شرمسارانہ تھا۔ دینداری فراموش کر دی گئی تھی۔ ہمارے امام بزرگوار کی تحریک نے دنیا میں دینداری کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس پر انہيں طاقتوں کے مراکز کا ردعمل بہت شدید تھا اور (وہ) آج بھی زیادہ زور و شور سے، پوری دنیا میں جہاں بھی ان سے ہو سکتا ہے، اپنے مخصوص انداز میں دینداری اور معنویت پر حملے کر رہے ہیں اور ان کی اس یلغارکی بعض روشیں اتنی شرمناک ہیں کہ ان کا نام لینے میں بھی شرم آتی ہے۔ یہ امام(خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں دوسری بات۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ کو حافظہ تاریخ سے محو نہیں کیا جا سکتا۔ امام زندہ ہیں۔ امام کی آواز اور صدائے رسا کو خاموش نہیں کیا جا سکتا اور دوسری بات یہ ہے کہ امام اپنی ممتاز اور سر برآوردہ حیثیت میں یہ تین عظیم تبدیلیاں لائے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم خود سے سوال کرتے ہیں کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ عظیم کام کس 'ہارڈ پاور' اور 'سافٹ پاور' کی مدد اور حمایت سے انجام دیے؟ وہ عامل جس نے امام کی مدد کی، امام کو اس میدان میں آگے بڑھایا اور جس کی وجہ سے امام نے تھکن کا احساس کئے بغیر یہ عظیم کارنامے انجام دیئے اور رکاوٹوں کے ان پہاڑوں کے اپنے راستے سے ہٹایا، کیا تھا؟ امام کے پاس ہارڈ پاور کے وسائل نہیں تھے۔ نہ پیسے تھے، نہ تشہیراتی وسائل تھے، نہ ریڈیو تھا، نہ نیوز ایجنسی تھی، دنیا کی کوئی بھی سیاسی طاقت آپ کی حمایت اور آپ کی مدد نہیں کر رہی تھی۔ امام کے ہارڈ پاور کے وسائل میں ایک ورق کاغذ تھا جس پر آپ اپنا اعلامیہ تحریر کرتے تھے اور ایک کیسٹ تھا جس میں اپنی آواز ریکارڈ کرتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ کوئی ہارڈ پاور اور مادی مدد گار نہیں تھا۔ جو بھی تھا وہ سافٹ پاور تھا۔ امام کا سافٹ پاور کیا تھا؟ یہ اہم ہے۔
اس سافٹ پاور کو مختلف بیانوں کی شکل میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج میں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی مدد کرنے والے اس سافٹ پاور کی دو تعبیرات اور دو جہتوں کا انتخاب کیا ہے جنہیں پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ یہ دو عامل ایمان اور امید ہیں۔ وہ چیز جس نے اس راہ میں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو آگے بڑھایا اور آپ کو ملک کی سطح پر، امت کی سطح پر اور عالمی سطح یہ عظیم تبدیلیاں لانے کی قوت دی، وہ 'ایمان' اور 'امید' ہے۔ ایمان اور امید۔
شہید مطہری (رضوان اللہ علیہ) نے پیرس میں آپ سے ملاقات کی – خود شہید مطہری کوہ ایمان تھے۔ وہ امام کے ایمان پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے تھے- واپسی پر انھوں نے کہا کہ میں نے امام میں چار یقین دیکھے: ایک ہدف پر یقین۔ ہدف یعنی اسلام۔ امام کا ہدف اسلام تھا۔ ایک راہ پر یقین، امام نے جس راہ کا انتخاب کیا تھا۔ امام کی راہ، راہ مجاہدت تھی۔ ایک عوام پر یقین، مومنین پر یقین۔ یعنی وہی چیزجو خداوند عالم پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرماتا ہے: یومن باللہ و یومن للمومنین۔ (۳) اس کے بارے میں، میں چند جملے عرض کروں گا۔ اور چوتھے جو سب سے بالاتر ہے، پروردگار پر یقین اپنے خدا پر ایمان، خدا پر اعتماد۔ میں اس چوتھے یقین، یعنی خدا پر ایمان کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کروں گا۔
جب ہم عینی مسائل میں استکبار اور سامراجی قوتوں سے مجاہدت کے مسئلے میں خدا پر یقین کی بات کرتے ہیں تو اس کے خاص معنی ہوتے ہیں۔ اس جگہ خدا پر یقین سے مراد اس کے وعدوں پر یقین ہے۔ خداوند عالم نے قرآن کریم میں کچھ وعدے کئے ہیں، ان وعدوں کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ «اِن تَنصُرُوا اللَهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِّت اَقدامَکُم»۔ (۴) اس نے وعدہ کیا ہے کہ «وَ لَیَنصُرَنَّ اللَهُ مَن یَنصُرُه»۔ (۵) اس نے وعدہ کیا ہے کہ اِنَّ اللَهَ یُدافِعُ عَنِ الَّذینَ آمَنوا»۔(۶) اس نے وعدہ کیا ہے کہ «وَ اَمّا ما یَنفَعُ النّاسَ فَیَمکُثُ فِی الاَرض»۔(۷) اگر خدا کی نصرت کرو تو خدا تمہیں ثبات قدم عطا کرے گا اور تمھاری نصرت کرے گا۔ جو لوگوں کے فائدے میں ہے، باقی رہنے والا ہے، باقی رہےگا، پانی کے اوپر جو جھاگ ہے، وہ جانے والا ہے اور ناحق اور باطل، پانی کے اوپر وہی جھاگ ہے اور حق یعنی حقیقت اسلام، وہ چیز ہے جو باقی رہے گی۔ یہ خدا کے وعدے ہیں۔ اِنَّ اللَهَ لا یُخلِفُ المیعاد۔ (۸) اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرے گا۔ اللہ پر یقین اور رب پر ایمان جو شہید مطہری امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، اس کے معنی یہی ہیں۔ یعنی آپ کو خدا کے وعدوں پر یقین ہے، ایمان ہے۔ یہ کہاں، اور یہ کہ کوئي کسی راستے پر چلے اور کہے کہ چلتے ہیں پھر دیکھیں گے کیا ہوتا ہے؟ خدا کے وعدے پربھروسہ ہے جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے قدم میں استواری پیدا کرتا ہے اور آپ کو آگے بڑھاتا ہے۔
اسلام پر ایمان ان چار یقینوں میں سے ایک ہے جو امام خمینی کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ امام ( خمینی رضوان اللہ علیہ) نے اس اسلام کو اپنے مختلف ارشادات میں بیان کیا ہے۔ یہ اسلام نہ سرمایہ دارانہ اسلام ہے، نہ اشتراکی اسلام ہے اور نہ ہی بے اطلاع اور بے خبر اور خود کو روشنفکر ظاہر کرنے والوں کا اسلام ہے۔
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اسلام کے ادراک اور تشریح میں نہ ان کمزور اور نام نہاد روشنفکرانہ نظریات کو قبول کرتے ہیں- جن کے نظریات میں اسلامی شریعت کو قبول نہیں کیا جاتا اور نہ ہی فقہ اسلامی کو قبول کرتے ہیں لیکن اسلام کا دعوی کرتے ہیں! انہیں امام سختی سے مسترد کرتے ہیں– اور نہ ہی رجعت پسندوں کے اسلام کو قبول کرتے ہیں جو نہ متون اسلامی سے نئے استنباط کی توانائي رکھتے ہیں، نہ اس کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی قبول کرتے ہیں، امام (خمینی رحمت االلہ علیہ) ان میں سے کسی کے بھی اسلام کی بات نہیں کرتے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) محکم اجتہاد اور صحیح فہم کے ساتھ کتاب اور سنت کے اسلام کو مد نظر رکھتے ہیں۔ یہ امام بزرگوار کا اسلام ہے۔ رجعت پسندوں کا اسلام ایسا ہے کہ وہ اسلام کا نام لیتے ہیں، ممکن ہے کہ اسلام کے درس کی بات کریں، لیکن اس اسلام کو قبول نہیں کرتے جس کے زیادہ تر احکام سماجی زندگی، حکومت اور سیاست سے تعلق رکھتے ہیں، اور سیاسی اور سماجی امور میں غیر ذمہ داری کی ترویج کرتے ہیں (یعنی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں ہماری کوئي ذمہ داری نہیں ہے) امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ان کے اسلام کو قبول نہیں کرتے۔ یہ اسلام ہے۔
عوام پر یقین۔ «یُؤمِنُ بِاللهِ وَ یُؤمِنُ لِلمُؤمِنین» جو قرآن کریم کی آیت میں موجود ہے، ممکن ہے کہ بعض لوگ اس کے معنی کسی اور طرح بیان کریں۔ «یُؤمِنُ لِلمُؤمِنین» کے صحیح معنی وہی «یؤمن بالمؤمنین» ہے۔ ایمان قرآن کریم میں، لام کے ساتھ متعدی ہو گیا ہے۔ مثلا «فَآمَنَ لَهُ لوط».(۹) «یُؤمِنُ لِلمُؤمِنین» یعنی عوام پر اعتماد، عوام پر یقین۔ ان برسوں کے دوران لوگ مسلسل امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے پاس جاکر اس تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ ممکن ہے کہ عوام تاب نہ لائيں اور یہ دشوار اور سخت راستہ امام کے قدموں سے قدم ملاکر نہ چل سکیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ان سے فرمایا کرتے تھے کہ جی نہیں! میں عوام کو آپ سے زیادہ اور بہتر پہچانتا ہوں۔ اور وہ حق بجانب تھے۔ جانتے تھے کہ اگر عوام یہ سمجھ لیں کہ یہ راہ، راہ خدا ہے تو اس راہ میں سبھی مشکلات کو برداشت کريں گے۔ جن گھرانوں کے لوگ شہید ہوئے، انہوں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس ادراک کی تصدیق کی ۔ ان طویل برسوں کے دوران فداکار نوجوانوں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس تاثر کی تصدیق کی۔ دین، دینی مسائل اور انقلابی موضوعات پر قوم کے عظیم اجتماعات نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس خیال کی تصدیق کی۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) عوام پر بھروسہ کرتے تھے۔ عوام کے عمل پر بھی، ان کے افکار پر بھی اور ان کے ووٹ پر بھی۔ اسلامی جمہوریہ، اسلامی جمہوریہ میں یہ عوامی حکمرانی، "جمہوریت" کا سرچشمہ عوام پر امام بزرگوار کا یہی اعتماد تھا۔ بعض لوگوں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے اس اقدام کو غلط سمجھا اور اپنی سمجھ کے مطابق دوسری طرح بیان کیا۔ یہ ظاہر کیا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے لفظ جمہوریت کو مروت میں استعمال کیا ہے! امام ایسے آدمی نہیں تھے کہ تکلف میں پڑ جائيں۔ امام ایسے نہیں تھے کہ کسی کو خوش کرنے کے لئے یہ بات کرتے۔ ان کا یقین تھا۔ اس لئےعوامی حکمرانی کی بات کی۔ امام نے اپنی عمر کے اواخر میں بیان کیا کہ اس پہلے (صدر) کو ووٹ نہیں دیا تھا۔ (10) لوگ کہتے تھے کہ ووٹ دیا لیکن امام نے وضاحت کی کہ میں نے فلاں کو ووٹ نہیں دیا۔ لیکن اسی صدر جمہوریہ کو جو خود امام کو قبول نہیں تھا اور آپ نے اس کو ووٹ نہیں دیا تھا، اس کو ملنے والے مینڈیٹ کی توثیق کی تھی۔ کیوں؟ اس لئے کہ عوام نے ووٹ دیا تھا۔ آپ عوام کے ووٹ کو اہمیت دیتے تھے۔ امام کی بنیادی فکر یہ تھی۔ یہ امام کے ایمان اور یقین کے مختلف پہلو تھے جنہیں چند مختصر کلمات میں عرض کیا۔
اور اب امام کی "امید"۔ امام کے دل میں امید ایک دائمی قوت تھی۔ امید امام بزرگوارکے لئے قوت محرکہ تھی۔ امام کی گفتار میں اور امام کے کردار میں یہ امید نمایاں نظر آتی تھی۔
امام نے 1940 کے عشرے میں اپنی اس معروف تحریر میں جس میں آپ اللہ کے لئے قیام کی بات کرتے ہیں، (11) «اَن تَقوموا لِلّهِ مَثنیٰ وَ فُرادیٰ» (۱۲) کی آیت لکھی ہے۔ یہ تحریر جو خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہینڈ رائٹنگ میں ہے، یزد میں وزیری مرحوم کے کتب خانے میں موجود ہے، یہ 1940 کے عشرے کی تحریر ہے۔ 1960 کے عشرے میں آپ نے خود عملی طور پر یہ قیام انجام دیا اور میدان قیام میں اترے۔ 1980 کے عشرے میں جو مہیب، (13) فوجی، سیکورٹی اور سیاسی طوفانوں کا عشرہ تھا، آپ کی پیشانی پر بل نہیں آئے۔ 1940 کے عشرے سے 1960 کے عشرے تک اور پھر 1980 کے عشرے تک، امید کا دائمی اور کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، امام کے دل میں موجزن اس چشمہ امید کے یہ اثرات مرتب ہوئے۔ خود امام بزرگوار اپنے ایک بیان میں جو آپ کی تحریروں میں موجود ہے اور شایع ہو چکا ہے، فرماتے ہیں کہ میں جدوجہد کے دوران کامیابی کے حصول تک کبھی مایوس نہیں ہوا اور مجھے یقین تھا کہ قوم کچھ چاہتی ہے تو وہ بات ہوکے رہتی ہے۔ (14) امام کی اس امید کا سرچشمہ آپ کا ایمان تھا۔ جب آپ مبداء حقیقی پر، خداوند عالم پر روشن ایمان رکھتے ہیں تو آپ کے دل میں یہ شعلہ امید روشن ہوتا ہے جو کبھی خاموش نہیں ہوتا۔ امید اور ایمان ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہیں۔ ایمان امید پیدا کرتا ہے اور امیدوں کے پورا ہونے سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
البتہ جب ہم 'امید' کہتے ہیں تو پر فریب تخیلات اور تصورات کو امید نہیں سمجھنا چاہئے۔ امید یعنی وہ حالت جو عملی اقدام کے ہمراہ ہوتی ہے۔ امید کاہلی اورعدم تحرک سے میل نہیں کھاتی۔ جس کو امید ہوتی ہے وہ منزل تک پہنچنے کے لئے راستہ چلتا ہے۔ کوئی بیٹھا رہے اور یہ امید رکھے کہ منزل تک پہنچ جائے گا تو یہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ خود کو فریب دینا ہے۔ اس کو روایات اور دعاؤں میں "اغترار باللہ" کہا گیا ہے اور اس کی مذمت کی گئي ہے۔ یہ کہ انسان کوئی اقدام نہ کرے، بغیر سعی و کوشش کے یہ آرزو کرتا رہے کہ مقصود حاصل ہو جائے! نہیں، بلکہ کوشش ضروری ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ کو یہ امید تھی اور اس کے لئے آپ کوشش کرتے تھے۔
یہاں تک یہ تین اہم نکات امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بارے میں عرض کئے۔ اب ہم ہیں اور امام سے ملنے والے درس پر عمل آوری کا مرحلہ۔ آج ہم سے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی سفارش کیا ہے؟ برادران و خواہران عزیز! ایران کے عظیم عوام! اچھے جذبے کے مالک محنتی نوجوانو! امام کی سفارش پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) بہت عظیم ہیں، ممتاز ہستی ہیں، زندہ ہیں، ہم سے باتیں کرتے ہیں اور کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ہمارے سامنے لمبا سفر ہے۔ ہمارے سامنے بھی عظیم کام ہیں۔ (لہذا) ہمیں امام کی سفارشات کی ضرورت ہے۔ امام ہم سے کیا سفارش کرتے ہیں؟ یقینا امام کی سب سے بڑی سفارش یہ ہے کہ ہم ان کے راستے پر باقی رہیں۔ ان کی میراث کی حفاظت کریں۔ یہ ہم سے ہمارے امام بزرگوار کی سب سے بڑی سفارش ہے۔ ہم انہیں تین تغیرات پر جو امام ملک کے اندر، امت کی سطح پر اور عالمی سطح پر لائے، عمل کریں، انہیں آگے بڑھائيں اور ان کی حفاظت کریں۔ اس ہدف پر عمل کرنے کے کچھ تقاضے ہیں جو ہمارے دور کے تقاضوں سے مختلف ہیں۔ اس کو ہم جانتے ہیں۔ یہ بات تو مسلّمہ ہے کہ آج مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) کوانٹم اور انٹرنیٹ وغیرہ جیسی سائنسی پیشرفت کے دور میں چالیس برس پہلے کے، اس زمانے کے ٹیلیفون اور ٹیپ ریکارڈر کے زمانے کے وسائل سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ آج اس راہ میں آگے بڑھنے کے لئے آج کے زمانے کی مناسبت سے وسائل کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ وسائل بدلتے رہتے ہیں، لیکن جو چیز نہیں بدلتی وہ محاذ بندی ہے۔ محاذ نہیں بدلے ہیں، ان میں تبدیلی نہیں آئي ہے اور نہ آئے گی۔ اہداف میں تبدلی نہیں آتی ۔ محاذ نہیں بدلتے۔ دشمن کا محاذ، سامراج اور استکبار کا محاذ، زور زبردستی کا محاذ، صیہونزم کا محاذ اور دنیا کی جارح اور خودسر طاقتوں کا محاذ، آج بھی کل کی طرح ایرانی قوم کے سامنے صف آرا ہے۔ اس محاذ آرائي میں جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم قوی تر ہوئي ہے اور وہ (دشمن) کمزور ہوئے ہیں۔ لیکن محاذ آرآئي، وہی ہے۔ آج جوچیز ایک خطرناک کھائی کی طرح ہمارے سامنے رونما ہو سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس دشمنی کو بھول جائيں، اس محاذ آرائی کو فراموش کر دیں۔ جب بھی فراموش کیا، مار کھائي۔ یہ تبدیلیاں جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) لائے اور آج ایرانی قوم کو ان کی ضرورت ہے، ان پر کاربند رہنے کی ضرورت ہے۔ آج ایرانی قوم کی زندگی، اس کی طاقت، اس کی عزت اور ایرانی عوام کے امور کی اصلاح امام خمینی کی لائی ہوئي تبدیلیوں سے وابستہ ہے۔ ان تغیرات کے دشمن بہت سختگیر ہیں، ان تغیرات کے دشمن بڑے کینہ پرور اور بغض رکھنے والے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ ایسے لوگ ہیں جو اقوام اور ملکوں پر جارحیت کی فکر میں رہتے ہیں، جس ملک پر بھی ان کے لئے ممکن ہو، چڑھائي کر دیتے ہیں، وہاں اپنے اڈے بناتے ہیں اس کا تیل لوٹتے ہیں اور اس کے عوام کا قتل عام کرتے ہیں۔ جہاں بھی ان کے لئے ممکن ہوتا ہے، ہر جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یہ چیز موجود ہے۔ اگر ایرانی قوم ان کے مقابلے میں اٹھنا چاہے تو اس کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ میں عرض کرتا ہوں۔ اس کو اسی عامل کی ضرورت ہے جو امام کے اندر موجود تھا اور جس کی امام نے عوام سے سفارش کی ہے۔ یعنی ایمان اور امید۔
اس بات پر ہمارے نوجوان خاص طور پر توجہ دیں کہ ایرانی عوام سے استکبار و سامراج کی دشمنی، موقف سے پیچھے ہٹنے سے ختم نہیں ہوگی۔ بعض لوگ غلطی پر ہیں جو سوچتے ہیں کہ اگر ہم فلاں معاملے میں پیچھے ہٹ جائيں تو اس سے امریکا یا عالمی سامراج یا صیہونیوں کی دشمنی کم ہو جائے گی۔ نہیں یہ غلط فہمی ہے۔ بہت سے معاملات میں ہماری پسپائی ان کے آگے آنے اور زیادہ گستاخ ہونے کا باعث بنی ہے۔ ان چند عشروں کے دوران بعض حکومتوں میں کچھ لوگ ایسے تھے جن کا نظریہ تھا کہ بعض معاملات میں ہمیں فریق مقابل کو، مقابل محاذ کو کچھ رعایت دینی چاہئے، تھوڑی سی پسپائی کر لینی چاہئے۔ انہيں میں سے ایک حکومت کے دور میں، انہیں ملکوں نے جن کے مقابلے میں ہم اپنے موقف سے پیچھے ہٹے، ہمارے صدر جمہوریہ پر ان کی غیر موجودگی میں مقدمہ چلایا اور فرد جرم کا اعلان کر دیا۔(15) ان میں سے ایک حکومت کے دور میں افسوس کہ ایک طرح سے امریکیوں کی مدد بھی ہوئی تھی، انھوں نے ایران کو شرپسندی کا محور قرار دیا۔(16) وہ اس پسپائی پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ وہ جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایران کو انقلاب سے پہلے کے دور میں واپس لے جائيں۔ ایران کو دوسروں پر منحصر، تشخص سے عاری، اپنا دست نگر بنا دیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں۔ وہ پسپائی پر مطمئن نہیں ہوں گے۔ ہم یہ غلطی نہ کریں۔
ہم ایرانی عوام اور آپ نوجوانوں سے جو عرض کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس کو بھی ایران عزیز ہے، جس کو ملک کے قومی مفادات عزیز ہیں، جو بھی ملک کی معیشت کی بہتری چاہتا ہے جس کو ملک کی اقتصادی اور معاشی مشکلات سے تکلیف ہے اور وہ ان کی اصلاح چاہتا ہے، جو بھی موجودہ عالمی نظام میں ایران کی باعزت پوزیشن چاہتا ہے، جس کو بھی یہ باتیں عزیز ہیں، اس کو عوام میں ایمان اور امید کی ترویج کرنی چاہئے۔ یہ سب کا فریضہ ہے۔ یہ بات میں ملک کے سبھی ممتاز اور نابغہ دانشوروں سے اور ان لوگوں سے جو انقلابی ستونوں کی حیثیت رکھتے ہیں، تمام سیاسی اداروں سے اور عوام کی ایک ایک فرد سے کہتا ہوں۔ سب کوشش کریں کہ اس ملک میں ایمان اور امید زندہ رہے۔
میری سفارش ایمان اور امید کی تقویت ہے اور دشمن کی زد پر بھی یہی ایمان اور امید ہے۔ دشمنوں کی وسیع کوشش – میں چند جملے ان کے بارے میں بھی عرض کروں گا- یہ ہے کہ عوام کا ایمان اور امید ختم کر دیں۔ عوام کا ایمان کمزور کر دیں، عوام کے دلوں میں بالخصوص نوجوانوں کے دلوں میں شعلہ امید کو بجھا دیں۔ ہم تاکید کرتے ہیں کہ ایمان اور امید کی تقویت کی جائے۔ دشمن کوشش کر رہا ہے کہ ایمان اور امید ختم کر دے۔ قومی خود مختاری کے تحفظ کا انحصار ایمان اور امید پر ہے۔ ملی عزت و شرف اور ملی مفادات کی بقا ایمان اور امید پر منحصر ہے۔ ان ساری چیزوں کے دشمن موجود ہیں۔ ہم سے بغض رکھنے والے، ہمارے ملی مفادات کے تحفظ کے دشمن ہیں، کٹر اور سخت دشمن ہیں۔ دشمنوں سے جو بھی ہو سکتا ہے کر رہے ہیں اور آج تک انھوں نے کیا ہے۔ ان چند عشروں کے دوران استکبار اور سامراج کے دشمن اور ضدی اداروں، ان کی سیکورٹی ایجنسیوں، ان کے سیاسی اداروں اور ان کے مالی حمایت کے اداروں نے ایرانی عوام کے خلاف ان سے جو بھی ہو سکا ہے، کیا ہے۔ چند معاملات میں کامیاب بھی ہوئے ہیں، لیکن اکثر معاملات میں توفیق الہی سے ایرانی قوم سے مغلوب اور شکست سے دوچار ہوئے۔
سبھی توجہ کریں! دشمن کی آخری کوشش -البتہ اب تک کی آخری کوشش، آئندہ وہ کچھ نہ کچھ کریں گے- یہی گزشتہ موسم خزاں کے بلوے تھے۔ توجہ فرمائیں! موسم خزاں کے ہنگاموں کی پلاننگ مغربی ملکوں کے تھنک ٹینکوں میں کی گئی تھی۔ پلاننگ بہت جامع تھی۔ مغربی تھنک ٹینکوں میں پلاننگ۔ مغربی سیکورٹی اداروں کے ذریعے مالی، صحافتی اور اسلحہ جاتی حمایت کی۔ وسیع پیمانے پر میڈیا کے پلیٹ فارم سے حمایت کی۔ ان کی پیغام رسانی کا کام وطن عزیز سے روگرداں ہو جانے والے خائن عناصر نے کیا۔ پیغام رسانی کا کام ان لوگوں نے کیا جنہوں نے وطن سے خیانت کی۔ یہاں سے بیرون ملک گئے اور ایران دشمن پالیسیوں کے مہرے اور دشمنوں کے زر خرید بن گئے۔ صرف اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے نہیں بلکہ ایران کے دشمن۔ ان کے کچھ پیادے غلام ملک کے اندر تھے۔ ان پیادہ غلاموں میں کچھ تو بغض رکھتے تھے، زیادہ تر سطحی سوچ رکھنے والے جذباتی اور غافل افراد تھے اور کچھ غنڈے بد معاش تھے۔ یہ ان بلوؤں کے پیادے تھے۔ مغربی ملکوں کے تھنک ٹینکوں سے لے کر تہران اور بعض دیگر شہروں کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے والے غنڈوں بد معاشوں تک، اس بلوائی مہم کے عناصر تھے۔ انتظام انھوں نے پورا کیا تھا۔ کسی بھی اصول کی پرواہ نہ کرنے والے بیرونی ممالک کے ریڈیو اور ٹیلیویژن چینلوں نے، بغیر کسی بات کا لحاظ کئے، لوگوں کو دستی بم بنانے کی ترکیب بتائی۔ انہیں ایران کے ٹکڑے کرنے کی نعرے دیئے، اسمگلنگ کے ذریعے ملک کے اندر پہنچائے جانے والے ہتھیاروں سے سڑکوں پر مسلحانہ تشدد پھیلایا۔ ان کے زرخرید غنڈوں، بد معاشوں نے سڑکوں پر لوگوں کی آنکھوں کے سامنے، یونیورسٹی طلبا، پولیس کے اہلکاروں اور بسیج فورس کے سپاہیوں کو بے دردی سے قتل اور شہید کیا۔ (17) توجہ دیں! تاکہ ایرانی قوم کی عظمت اور ملت ایران کے اندر فکر و ایمان کی جو عظمت ہے، وہ زیادہ واضح ہو سکے۔ ملک کے اندر غنڈوں اور بدمعاشوں نے اس طرح کام کیا، بغض رکھنے والوں نے اس طرح نعرے لگائے، ملک سے باہر بعض اعلی سطح کے حکومتی عہدیداروں نے انہیں دشمنوں کے ساتھ یادگار تصویریں کھنچوائيں۔ یہ سمجھ رہے تھے کہ بس اب ختم ہو گیا۔ انھوں نے ایسی پلاننگ کی تھی کہ سوچ رہے تھے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام تمام ہو گیا، سوچ رہے تھے کہ اب ایرانی قوم کو اپنا مطیع بنالیں گے۔ ان احمقوں نے (ایرانی قوم کو پہچاننے میں) پھر غلطی کی! قوم کو اس بار بھی پہچان نہ سکے۔ ایرانی عوام نے ان سے بے اعتنائی کی، ان کے اعلانات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کچھ مومن نوجوانوں نے سڑکوں پر اور یونیورسٹیوں میں بڑے کام کئے۔ یونیورسٹی طلبا کے بسیج ونگ، شہروں کے اندر مختلف عوامی طبقات کے بسیج ونگ اور مومن اور متدین عوام نے اپنا فریضہ انجام دیا اور دشمن کو شکست دی۔ دشمن کے منصوبے پر پانی پھیر دیا لیکن یہ سب کے لئے ایک انتباہ تھا کہ دشمن کی مکاریوں سے کبھی غافل نہ ہوں۔ دشمن کی سازشوں سے غفلت نہ کریں!
دشمن کی کوشش یہ ہے کہ ایرانی نوجوانوں میں مایوسی پیدا کریں۔ ملک کے اندر مشکلات ہیں۔ ایرانی نوجوانوں کے سامنے تسلسل کے ساتھ یہ مشکلات بیان کرتے ہیں۔ معیشتی مشکل، گرانی کی مشکل، مہنگآئي کی مشکل ہے۔ بے شک یہ مشکلات ہیں۔ دشمن کی کوشش ہے کہ ان مشکلات کو –یہ سبھی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں اور ان شاء اللہ توفیق الہی سے دور ہوں گی، قوت و نصرت الہی سے دور ہوں گی- نوجوانوں کے دلوں میں نور امید بجھا دینے کے لئے ایک حربے کے طور پر استعمال کرے۔ جبکہ یہ سبھی مسائل قابل حل ہیں۔ مشکلات سے امید کمزور نہیں ہونی چاہئے۔ مشکلات کو دیکھ کر انہیں دور کرنے کی راہیں پیدا کرنے اور ان لوگوں کی مدد کے لئے جو ان مشکلات کے مقابلے میں میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہمارا جذبہ اور قوی ہونا چاہئے۔ ہمیں مشکلات در پیش ہیں لیکن ان کے مقابلے میں امید افزا چیزیں بھی ہیں۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں سے عرض کروں گا کہ دشمن نہیں چاہتا کہ ہم ان امید افزا چیزوں کو دیکھیں۔ امید افزا امور مشکلات سے کہیں زیادہ ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ملک کی پیشرفت، صنعتی اور زراعتی انفراسٹرکچر کی تعمیر، نقل و حمل کے بہت اہم انفراسٹرکچر کی تیاری، افرادی قوت کی ٹریننگ میں ملک کی پیشرفت، ملک کے دور دراز کے محروم علاقوں میں ترقیاتی کام –یہ سب اس وقت انجام پا رہے ہیں- بین الاقوامی سیاست کے میدان میں ملی سربلندی اور عزت میں اضافہ، ملک کی دفاعی اور فوجی قوت میں اضافہ۔ یہ سب امید افزا حقائق ہیں۔ دشمن چاہتا ہے کہ ہم ان حقائق کو فراموش کر دیں، بھول جائيں، ہمارے نوجوان ان سے واقف نہ ہوں۔ یہ حقائق روشن مستقبل کی نوید دے رہے ہیں۔
جب آپ امید کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان مشکلات کے ذریعے آپ کی امید میں خلل ڈال دیں۔ جب آپ امید کی بات کریں تو کہتے ہیں آپ کو حقائق کا پتہ ہی نہیں ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حقائق سے واقف نہ ہو؟ جن حقائق کی بات وہ کرتے ہیں، یہی اقتصادی حقائق ہیں، یہی معیشتی مشکلات ہیں۔ ان کا سب کو علم ہے۔ سبھی ان کی وجہ سے تکلیف میں ہیں۔ اس میں شک نہیں۔
بعض لوگ دلوں سے امید ختم کر دینے کے لئے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ سماج میں ایسے لوگ ہیں جنیں دین، ایمان اور انقلاب کی پرواہ نہیں ہے۔ ٹھیک ہے لیکن یہ بات صرف آج سے ہی مخصوص نہیں ہے۔ 1980 کے عشرے میں بھی کہ جب محاذ اس طرح مومن نوجوانوں سے مملو تھے، بڑے شہروں میں، تہران میں کچھ لا ابالی لوگ موجود تھے جو نہ صرف یہ کہ خود کسی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ حکام کا مذاق بھی اڑاتے تھے! آپ شہیدوں اور مجاہدین کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں، وہ جب بڑے شہروں، خاص طور پر بڑے شہروں میں آتے تھے تو انہیں دلی تکلیف ہوتی تھی، اس کی وجہ یہی تھی۔ 1980 کے عشرے میں، انقلاب کے پہلے عشرے میں یہ باتیں تھیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو انقلاب کے، اسلام کے، حتی ایرانی قومیت کے تقاضوں کے بھی پابند نہیں ہیں۔ لیکن یہ ایرانی عوام نہیں ہیں۔ خود رسول کے زمانے میں بھی کچھ لوگ شہادت کے عاشق تھے، جہاد کے مشتاق تھے، محاذ پر جانے کو نہیں ملتا تھا تو گریہ کرتے تھے لیکن اسی مدینے میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو «مَرَدوا عَلَی النِّفاق»۔( 18) تھے، قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے «مَرَدوا عَلَی النِّفاق»، ایک اور جگہ پر کہتا ہے لَئِن لَم یَنتَهِ المُنافِقونَ وَ الَّذینَ فی قُلوبِهِم مَرَضٌ وَ المُرجِفونَ فِی المَدینَة»۔(۱۹) خود پیغمبر کے مدینے میں کچھ لوگ تھے جنہیں قرآن مرجفون سے تعبیر کرتا ہے۔ افواہیں پھیلانے والے، خوف و ہراس پھیلانے والے، شک و تردد پھیلانے والے، شبہات پھیلانے والے۔ پیغمبر کے زمانے میں! جبکہ پیغمبر کے زمانے میں نہ انٹرنٹ تھا، نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ ہی اتنے ٹی وی چینل تھے۔ آج ان سب چیزوں کے باوجود، آپ دیکھیں کہ ایرانی نوجوان کیسی عظمتوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں!
آج ہمارے پاس پورے ملک میں، مسجدوں میں اور انجمنوں میں استقامت کے ہزاروں مراکز ہیں۔ ان استقامتی مراکز سے ایسے نوجوان نکل رہے ہیں جو 'پاسبان حرم' اور 'پاسبان سلامتی' ہیں، بسیج کی طلبا ونگ کے رکن ہیں۔
دشمن کی ان تمام کوششوں کے درمیان یہ امید افزا بات ہے، آپ دیکھیں کہ ان حالات میں کہ دشمن شمشیر بکف ہے، کسی یونیورسٹی میں عزت و ناموس کی بات ہوتی ہے تو انقلابی طالب علم میدان سے نہیں بھاگتا۔ بسیجی طالب علم ایذائيں برداشت کرتے کرتے شہید ہو جاتا ہے لیکن وہ بات زبان پر لانے کے لئے تیار نہیں ہوتا جو دشمن کہلوانا چاہتا ہے۔ فداکار مجاہدین، پاسبان حرم، محاذ تبلیغ کے سخت کوش سپاہی، مومنانہ امداد رسانی کے گروہ، جہادی کیمپ، یہ سب ملک کے نوجوان ہیں۔ انٹرنٹ، سوشل میڈیا اور ان تمام گمراہ کن وسائل اور حربوں کے باوجود ہمارے نوجوان اس راہ پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک گاؤں سے ایک نورانی اور منور ہستی اٹھتی ہے۔ شہریار(تہران کے مضافات میں واقع ایک بستی) کے اطراف کے ایک گاؤں سے مصطفی صدر زادہ جیسا فداکار اور نورانی نوجوان سامنے آتا ہے۔ مصطفی صدر جیسے نوجوان پورے ملک میں بہت ہیں، ہزاروں ہیں۔ یہ سب امید افزا حقائق ہیں۔ ہم سب کا فریضہ ہے۔ ہمارے ممتاز دانشور طبقے کا فریضہ ہے۔ انقلابی مراکز کا فریضہ ہے۔ یونیورسٹیوں اور دینی تعلیم کے مراکز میں سرگرم افراد کا فریضہ ہے۔ سماج اور معاشرے کے ممتاز افراد کا جن کی باتیں لوگوں تک پہنچتی ہیں، جن کی باتیں لوگ سنتے ہیں، ان سب کا فریضہ ہے کہ ایمان کی تقویت کریں، امید کی تقویت کریں، شبہات کو برطرف کریں اور دشمن کی شبہات پیدا کرنے اور مایوسی پھیلانی کی چالوں کو ناکام بنائيں۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ان کا ایک طریقہ نوجوانوں کو ملک کے حکام سے بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے۔ ملک کی پیشرفت سے، ملک کی سیاسی سمت سے، ملک کی معیشتی کوششوں سے اور ایک دوسرے کی طرف سے بدگمانی میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ دشمن کی ایک روش ہے۔ اس کا مقابلہ کریں۔
دشمن کی ایک روش انتخابات کی طرف سے بدظن کرنا ہے۔ میں انتخابات کے بارے میں سال کے آخر میں ان شاء اللہ اگر زندہ رہا اور خدا نے توفیق عطا کی تو کچھ عرض کروں گا۔ اس وقت صرف اتنا کہوں گا کہ یہ انتخابات بہت اہم انتخابات ہیں اور دشمن نے ابھی سے اپنی توپوں کا رخ ان انتخابات کی طرف کر دیا ہے۔ انتخاباتی بمباری شروع کر دی ہے جبکہ ابھی انتخابات میں کم سے کم نو ماہ باقی ہیں۔
ان شاء اللہ ہمارے ایرانی عوام، عزیز نوجوان اس بیداری کو، اس ہوشیاری کو، اس جذبے کو، اس ایمان اور امید کو روز بروز بڑھائيں اور دشمن کو ناکام بنائيں۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، اپنی رحمت، اپنی برکت، اپنی ہدایت اور مکمل کامیابی اس عزیز قوم کو عطا فرما۔ پالنے والے! ہمارے امام بزرگوار کی روح مطہر کو پیغمبر کے ساتھ محشور فرما۔ پالنے والے! ہمیں امام زمانہ کے سپاہیوں میں قرار دے۔ پالنے والے! آپ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما۔ دعائے امام زمانہ کو ہمارے شامل حال فرما، خصوصا ہمارے نوجوانوں کے شامل حال فرما۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، ملک کی مشکلات کو حکام کے عزم و ارادے اور کاوشوں سے برطرف فرما۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته