بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین لا سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
خوش آمدید۔ اس بڑی شیریں ملاقات کے لئے آنے والے اس صنعت سے وابستہ ماہرین، اعلی عہدیداروں اور سائنسدانوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمارے لئے اس بہترین نمائش کا (2) بھی اہتمام کیا ہے۔ بہت اچھی نمائش تھی، طبیعت خوش ہو گئي، امید افزا اور نوید بخش نمائش تھی۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جنہیں عرض کروں گا
پہلی بات ایٹمی صنعت کی اہمیت ہے۔ البتہ آپ جانتے ہیں اور اس صنعت کی اہمیت سے واقف ہیں، (لیکن) بہت سے لوگ نہیں جانتے اور ملک کی ترقی اور عوام کی زندگی میں اس کے اثرات اور مختلف وسیع پہلوؤں سے واقف نہیں ہیں۔ میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں انہیں عرض کروں گا۔ میں نے اس نمائش میں چند بار براداران عزیز سے کہا کہ آپ کی غلطی ہے کہ عوام کو نہیں بتاتے، عوام کو بتائيں کہ آپ کیا کام کررہے ہیں اور اس ادارہ نے کتنے بڑے کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس کو آگے بڑھا رہا ہے۔ آپ جانتے ہیں لیکن عوام نہیں جانتے۔ لہذا میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا۔
جو بات اجمالی طور پر کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ صنعت، ملک کی ترقی کے لحاظ سے بھی اور تکنیکی، معاشی اور صحت وغیرہ کے شعبوں میں بھی ملک کو سربلند اور عوام کی زندگی بہتر کر رہی ہے اور بہت اہم ہے۔ عالمی و بین الاقوامی سیاست میں بھی ملک کا وزن بڑھا رہی ہے۔ یعنی جب آپ اس صنعت کے مختلف شعبوں میں پیشرفت کرتے ہیں، کام کرتے ہیں اور مشکلات حل کرتے ہیں تو دنیا کے انٹیلیجنس کے مراکز، بہت سے سیاستداں اور بہت سے سائنسداں اور اسٹڈی کرنے والے اس کو سمجھتے ہیں اور اس سے ملک کی عزت بڑھتی ہے۔ بنابریں اس صنعت کی ترقی، بین الاقوامی لحاظ سے بھی اور ملک کی پوزیشن نیز ملی عزت و شرف کے لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔
یہ دو پہلو ہیں، تیسرا پہلو قومی خود اعتمادی سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمنوں کے مختلف تشہیراتی ادارے (ہمارے) نوجوانوں میں مایوسی پھیلانے کے لئے پوری قوت سے یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اس ملک کا کوئي مستقبل نہیں ہے۔ یہ ان کے سوشل میڈیا، ٹی وی چینلوں اور سیاسی بیانات میں دیکھا جا رہا ہے۔ آپ کا یہ کام دشمن کی تحریک کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی آپ قوم میں امید اور خود اعتمادی پیدا کر رہے ہیں۔ عوام، ہمارے نوجوان اور دانشور حضرات سمجھتے ہیں کہ کتنے بنیادی اور اہم میدانوں کا پتہ لگا کر انہیں سر کر سکتے ہیں۔ یہ تین پہلو میں نے ایٹمی صنعت کی اہمیت کے تعلق سے عرض کئے۔ ان پہلوؤں کے پیش نظر سب کو اس بات کی تائید کرنا چاہئے کہ ایٹمی صنعت، ملک کے اعتبار اور طاقت و قوت کی جملہ بنیادوں میں سے ہے۔
اگر آپ طاقتور ایران چاہتے ہیں، تو جو بھی ایران سے محبت کرتا ہے، جو بھی اسلامی جمہوریہ سے محبت کرتا ہے، جو بھی قوم سے محبت کرتا ہے اور اس ملک کو طاقتور دیکھنا چاہتا ہے، اس کو چاہئے کہ جو کام اور جو سائنسی، تحقیقاتی اور صنعتی سرگرمیاں یہاں انجام پا رہی ہیں، انہیں اہمیت دے۔ میں کہتا ہوں کہ ایٹمی توانائي پر دشمنوں کی توجہ مرکوز ہونے کی وجہ بھی یہی ہے۔ یہ مسئلہ دشمنوں نے کیوں کھڑا کیا ہے؟ اتنے روڑے کیوں اٹکا رہے ہیں؟ کیا پوری دنیا میں صرف ہمی ہیں جو ایٹمی میدان میں کام کر رہے ہیں؟ البتہ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ہم ایٹمی اسلحہ نہ بنا لیں! جھوٹ بولتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم ایٹمی اسلحہ نہیں بنا رہے ہیں۔ امریکا کے انٹیلیجنس اداروں نے بارہا وضاحت کی ہے کہ ایران ایٹمی اسلحہ بنانے کی فکر میں نہیں ہے۔ ابھی چند ماہ قبل – کوئي چار پانچ مہینے پہلے- دو بار اعتراف کیا اور کہا کہ ایٹمی اسلحہ بنانے کی جانب ایران کے بڑھنے کے کوئی آثار انہیں نظر نہیں آئے۔ (3) وہ سچ کہتے ہیں۔ البتہ ہمارا کام (یعنی ایٹمی اسلحہ نہ بنانا) ان کے ڈر سے یا ان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے۔ ایٹمی اسلحہ اجتماعی قتل عام کے لئے ہوتا ہے اور ہم اجتماعی قتل عام کے مخالف ہیں۔ یہ دین کے خلاف ہے، اسلام کے خلاف ہے، چاہے وہ ایٹمی اسلحہ ہو، چاہے کیمیائي اسلحہ ہو یا ممکنہ طور پر (اجتماعی قتل عام کے) دوسرے اسلحے ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین (علیہ السلام) کے زمانے اور صدر اسلام کی جنگوں میں ہدایت دی جاتی تھی کہ خیال رکھیں لوگوں پر پانی بند نہ ہو۔ اس دور میں جنگوں میں عام طور پر لوگوں پر پانی بند کر دیا جاتا تھا، اس وقت کیمیائي اسلحے وغیرہ تو نہیں تھے۔ ہم اسلامی بنیادوں پر (ایٹمی) اسلحے سے گریز کرتے ہیں۔ اور اگر یہ نہ ہوتا اور ہم چاہتے تو ہمیں روک نہیں سکتے تھے، جیسا کہ اب تک ہماری ایٹمی پیشرفت کو روک سکے ہیں نہ روک سکیں گے۔ اگر ہم ایٹمی اسلحہ بنانا چاہتے تو بنا لیتے، وہ بھی اس بات کو جانتے ہیں۔ لہذا ایٹمی اسلحے کا بہانہ جھوٹا ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے، بات کچھ اور ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایٹمی صنعت میں پیشرفت، مختلف سائنسی میدانوں میں ملک کی ترقی کی کنجی ہے۔ وہ یہی نہیں چاہتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ہم مختلف میدانوں میں نمایاں اور حوصلہ افزا ترقی کریں۔ ایرانی قوم جو بھی ترقی کرے، ایرانی قوم کی فکر، اس کی راہ و روش، ایرانی قوم کی جمہوریت دیگر اقوام پر اثرانداز ہوتی ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتے، وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ ان کا ہدف اہم ترین سائنسی میدان میں جو یہی ایٹمی میدان ہے، ہمارے ملک کی ترقی کو روکنا ہے۔
اس مسئلے نے جو بیس سال سے ایٹمی معاملے میں، دشمنوں کے ساتھ ہمیں در پیش ہے، بعض حقائق روشن کر دیے ہیں۔ بیس سال سے جاری اس مسئلے نے کئي حقیقتیں روشن کر دی ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ اس نے ہمارے نوجوانوں کی غیر معمولی استعداد اور توانائیوں کو ثابت کر دیا۔ یہ چیزیں جو آج دیکھی گئيں_ البتہ حقیقت ان سے بہت زیادہ ہے- یہ سب پابندیوں کے حالات میں انجام پائی ہیں، دھمکیوں کے سائے میں انجام پائی ہیں۔ ہمارے سائنسدانوں کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی تھیں، ہمارے سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا تھا۔ بعض قتل کر دیے گئے اور بعض کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان حالات میں یہ پیشرفت حاصل ہوئی ہے۔ بنابریں افرادی قوت کے لحاظ سے ہم غیر معمولی ہیں۔ افرادی قوت کے لحاظ سے ہم دنیا کے بہت سے ملکوں سے، دنیا کے بہت سے عام ملکوں سے بہت اوپر اور بہت آگے ہیں۔ ایٹمی معاملے میں، ایٹمی صنعت میں یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی۔ یہ ایک حقیقت۔
دوسری حقیقت جو دیکھی گئي، ہمارے مخالفین کی غیر انسانی، غیر منصفانہ اور زور زبردستی کی روش ہے۔ وہ زور زبرستی سے کام لینا چاہتے ہیں۔ دنیا میں رائج سیف گارڈ معاہدوں سے ماورا ہوکر ہمارے ملک سے توقع رکھتے ہیں اور بیجا مطالبہ کرتے ہیں:"وہ کام نہ کرو، وہ کام نہ کرو، سطح زمین سے ماورا اپنی تنصیبات کے لئے اس طرف نہ جاؤ" اچھا کیوں؟ اگر تمھارے ذہن میں کیڑے نہیں ہیں، عناد نہیں ہے، ہمیں دھمکی نہیں دنیا چاہتے تو اس بات سے کیوں ڈرتے ہو کہ ایسی جگہ پر ہماری تنصیبات ہوں کہ جہاں انہیں نقصان نہ پہنچایا جا سکے؟ ان کی غیر انسانی روش اور غیر منصفانہ منطق آشکارا ہو گئی۔ یہ بھی ایک حقیقت تھی جو اس مسئلے میں دیکھی گئي۔
ایک اور حقیقت یہ سامنے آئی کہ ہمارے فریق اور مخالفین اپنے وعدوں میں ناقابل اطمینان ہیں۔ اب تک ان طویل برسوں میں -آپ میں سے جو لوگ اس ایٹمی صنعت میں زیادہ عرصے سے ہیں، سمجھ رہے ہیں کہ میں کن باتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں- مختلف شعبوں میں، ان حکومتوں نے بھی جو ہمارے ساتھ مذاکرات کر رہی تھیں اور خود ایٹمی ایجنسی نے بھی، بارہا وعدہ کیا لیکن ان وعدوں پر عمل نہیں کیا۔ ایسے وعدے کئے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ بنابریں بیس برس سے جاری اس مسئلے میں ایک بات ہم نے یہ بھی سمجھ لی کہ ان کے وعدوں اور ان کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ناقابل اعتماد ہونا ( آشکارا ہو گیا) یہ اہم نتائج ہیں۔ ان کی اہمیت کو سمجھیں۔ بہت سے معاملات میں اسی بے جا اعتماد سے ہم کو چوٹ پہنچی ہے۔ یہ بات کہ قوم اور ملک کے حکام یہ بات جان لیں اور سمجھ لیں کہ کہاں اعتماد کریں اور کہاں نہ کریں، یہ بہت اہم ہے۔ ہم نے یہ باتیں سمجھ لی ہیں۔ ان بیس برسوں میں ہم نے جان لیا کہ کون قابل اعتماد ہے اور کون قابل اعتماد نہیں ہے۔ یہ چند باتیں ایٹمی مسئلے کی اہمیت میں عرض کیں، آپ شاید ہم سے زیادہ جانتے ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ عوام کو بھی معلوم ہو جائے۔
دوسری بات جو میں عرض کروں گا، وہ اس صنعت میں ملک کی پیشرفت کی طرف ایک اشارہ ہے۔ البتہ میں تکنیکی مہارت نہیں رکھتا، اس سلسلے میں عرض کرنے کے لئے کافی اطلاعات بھی نہیں رکھتا، یہ آپ کا کام ہے کہ بتائيں کہ کیا پیشرفت اور ترقیاں حاصل ہوئي ہیں۔ میں مجموعی طور پر کچھ باتیں عرض کروں گا۔
تمہید میں ایک بات یہ عرض کروں گا کہ ہماری سیاسی اصطلاح میں، ایک لفظ "مستضعف" اور "استضعاف" استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ "وہ قوم، مستضعف قوم ہے" یا "ہم انقلاب سے پہلے مستضعف تھے" یہ لفظ "مستضعف" بہت ہی معنی خیز اور فکر انگیز لفظ ہے۔ مستضعف کا مطلب کیا ہے؟ یعنی وہ جس کو کمزور رکھا گیا ہے۔ مستضعف اور ضعیف میں فرق ہے۔ ضعیف یعنی وہ جو کمزور ہے۔ مستضعف یعنی وہ جس کو کمزور رکھا گیا ہے۔ کمزور رکھا جانا، جو لفظ مستضعف کے معنی ہیں، دو طرح سے ہوتا ہے۔ یا کوئي طاقت کسی قوم پر تسلط حاصل کرتی ہے، اس پر مسلط ہوکر اس کو کمزور رکھتی ہے۔ جیسا کہ سامراجی طاقتیں، ان ملکوں کو کمزور رکھتی تھیں جو ان کے استعمار کا نشانہ بنتے تھے (نوآبادیات)۔ اںگریزوں نے برصغیر ہند کے ملکوں کو طویل برسوں تک کمزور رکھا۔ اگر آپ ہندوستان کے سابق وزیر اعظم نہرو (4) کی کتاب جو صاحب علم اور دانشور تھے، تاریخ عالم (Glimpses of world history)کا مطالعہ کریں تو وہ تشریح کرتے ہیں کہ ہندوستان انگریزوں کی آمد سے پہلے کیا تھا اور اس کے بعد کیا ہو گیا، کتنا پیچھے چلا گیا، کتنا غریب ہو گیا۔ یہ ہے۔ پس بنابریں یہ استضعاف کی ایک قسم ہے کہ کوئي طاقت کسی قوم کو پسماندہ رکھے۔ یہ بہت بری چیز ہے، کتنی خطرناک ہے۔ اس سے بھی خطرناک استضعاف کی دوسری قسم ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی قوم خود یقین کر لے کہ وہ کمزور ہے، یقین کر لے کہ بے صلاحیت ہے، یقین کر لے کہ کچھ نہیں کر سکتی، یہ بہت خطرناک ہے۔
آپ میں سے اکثر نے انقلاب سے پہلے کا زمانہ نہیں دیکھا ہے۔ وہ دور نہیں دیکھا ہے۔ ہم نے اس دور میں برسوں زندگی گزاری ہے، (اس دور کے) مسائل سے واقف تھے۔ آپ بھی آج واقف ہو سکتے ہیں۔ اگر مطالعہ کریں، توجہ دیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں کیا ہو رہا تھا۔ میں آپ سے صراحت کے ساتھ عرض کرتا ہوں: انقلاب سے پہلے کے دور میں استضعاف کی دونوں قسمیں یہاں موجود تھیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں کمزور رکھا گیا تھا۔ یعنی جیسے یہی رضائی نژاد (5) جیسے شہریاری (6) جیسے فخری زادہ (7) ان جیسے نوجوان ہیں، یہ انقلاب کے دور میں تیار ہوئے ہیں، انقلاب سے پہلے بھی اس طرح کے نوجوان تھے لیکن اس درجے تک نہیں پہنچتے تھے۔ نہیں پہنچنے دیتے تھے، ایرانی قوم کی تحقیر کرتے تھے اور قوم کی پیشرفت کو روکتے تھے۔ ان برسوں میں ایک بار، ایک میٹنگ میں، اتفاق سے، اس حکومت کے ذمہ دار عہدیداروں میں سے ایک سے ملاقات ہو گئی- ہم ان سے نہیں ملتے تھے- ہم اس میٹنگ میں بیٹھے تھے جس میں اتفاق سے وہ بھی تھا، میں نے بعض چیزوں پر تنقید کرنا شروع کیا- ہم نوجوان تھے اور بات کرنے اور بحث وغیرہ کا حوصلہ بہت تھا- اس کا جواب یہ تھا کہ "جناب آپ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ ہم یہاں بیٹھے ہیں، یورپ والے اور دوسرے نوکروں کی طرح ہمارا کام کر رہے ہیں، ہمارے لئے سامان لاتے ہیں، وہ بناتے ہیں، ہم استعمال کرتے ہیں۔" طرز فکر دیکھیں! اس کی سوچ یہ تھی کہ وہ بناتے ہیں اور ہم استعمال کرتے ہیں، (لہذا) وہ ہمارے نوکر ہیں۔ یورپ والے ہمارا تیل لے جا رہے تھے، ہمارے بازار پر قبضہ کر رہے تھے، ہماری سیاست میں زیادہ سے زیادہ مداخلت کرتے تھے، وہ بے عقل جو ہم سے بات کر رہا تھا ان باتوں کو قوم کے لئے قابل فخر سمجھتا تھا۔ "پسماندہ رکھا جانا"یعنی یہ۔ (استضعاف کی) ایک قسم۔
دوسری قسم یہ تھی کہ عوام کو نوجوانوں، کو یقین دلا دیا تھا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تیل کی صنعت قومیائے جانے کے زمانے میں، مصدق کے دور میں، اس دور کی مجلس شورائے ملی ( پارلیمنٹ) میں بحث شروع ہوئی کہ تیل کی صنعت کو قومی تحویل میں لیا جائے، انگریزوں سے اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔ شاہ کا وزیر اعظم – حاج علی رزم آرا جو فوجی جنرل تھا- پارلیمنٹ میں آیا اور میرا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں یہ بات کہی، میرے ذہن میں ہے کہ اس نے آکر کہا "آپ لوگ، تیل کی صنعت کو قومیائے جانے اور آبادان ریفائنری کو خود چلانے کی یہ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ کیا ہم یہ کام کر سکتے ہیں؟ ایرانی 'لولھنگ' (مٹی کا لوٹا) تو بنا نہیں سکتے ہیں۔" آپ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ لولھنگ کیا ہے؟ لولھنگ دیکھا بھی نہیں ہے۔ لولھنگ مٹی کا لوٹا ہوتا ہے۔ لوٹا دیکھا ہے، لوٹا المونیم اور تانبے وغیرہ سے بناتے تھے۔ لولھنگ بھی ایک طرح کا لوٹا تھا، جو دور دراز کے علاقوں میں، میں نے دیکھا تھا، مٹی سے بناتے تھے۔ یعنی معمولی ترین اور پست ترین چیز جو کوئی انسان بنا سکتا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ایرانی وہی مٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتے، زیادہ سے زیادہ مٹی کا لوٹا بنا لے گا! اس طرح یہ باتیں ذہنوں میں بٹھاتے تھے۔ استضعاف یعنی یہ۔ وہ یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ تم ایرانی کچھ بھی نہیں کر سکتے، بلاوجہ اصرار کیوں کر رہے ہو، کیوں محنت کر رہے ہو۔ لہذا پہلوی دور میں ان آخری برسوں میں جب سوویت یونین سے بھی تعلقات اچھے کر لئے تھے، امریکا سے گندم خریدتے تھے اور گندم رکھنے کے گودام سوویت یونین والے بناتے تھے! یعنی (غلے کا) گودام بنانے پر بھی قادر نہیں تھے۔ ڈیم اور شاہراہ وغیرہ تو دور کی بات ہے۔ حالت یہ تھی۔
اس زمانے میں مغرب پرستوں کی دلیل یہ تھی کہ ایرانی کچھ نہیں کر سکتے، وہ قادر نہیں ہیں، ان میں کچھ بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اب اس نقطہ نگاہ کا آج کی حقیقت سے موازنہ کریں۔ ہمارے نوجوانوں نے اسی ایٹمی میدان میں وہ کام انجام دیے ہیں، جن سے آپ واقف ہیں اور جانتے ہیں۔ دوسرے میدانوں میں بھی اسی طرح ہے۔ دوسرے شعبوں میں بھی اسی طرح پیشرفت ہوئي ہے۔ مختلف شعبوں میں، دفاعی میدانوں میں، نینو ٹکنالوجی میں، بہت سے اہم سائنسی شعبوں میں اسی طرح کی ترقی اور پیشرفت ہوئی ہے۔ یہ آج کا جذبہ، یہ آج کی امید، یہ آج کام کا جو ذوق و شوق پایا جاتا ہے، اس ترقی یافتہ توانائی کا اس دور کی اس حالت سے موازنہ کیجئے! اس دور میں مغرب پرست، قوم کی تحقیر کرتے تھے۔ آج قوم مغرب پرستوں کی تحقیر کرتی ہے۔ آج ہماری قوم ان لوگوں کا مذاق اڑاتی ہے جن کے اندر وہ فکر اور توہم پایا جاتا ہے۔ کس چیز کے ذریعے ان کا مذاق اڑاتی ہے؟ انہیں مصنوعات کے ذریعے جو یہاں ہمیں دکھائي گئي ہیں۔ یہ مغرب پرستوں کی تحقیر ہے۔ یہ ان کی بڑی غلطیوں کی نشاندھی ہے جو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے کہ ایرانی قوم میں کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
بیس سال سے مغربی دنیا نے اپنی کوششیں ہماری ایٹمی توانائی پر مرکوز کر رکھی ہیں۔ آج ہمارے ایٹمی وسائل اور پیشرفت – یعنی ہماری ایٹمی حیثیت، - بیس برس پہلے سے سو گنا زیادہ ہے۔ یعنی ہماری ایٹمی حیثیت، 2003 کے مقابلے میں جب مغرب سے ہمارا ایٹمی مسئلے پر اختلاف شروع ہوا ہے اور ایک کے بعد دوسری پابندیوں کا تسلسل (اس کے باوجود آج ہماری ایٹمی حیثیت) سو گنا زیادہ ہے۔ جو ماہرین ہیں اور جانتے ہیں، وہ یہ کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کی حقیقت ہے۔
انھوں نے اس پیشرفت کو روکنے کے لئے جو بھی ان سے ہو سکا کیا۔ جرائم کا ارتکاب بھی کیا، دہشت گردانہ قتل کیا، اپنے جرائم سے ہمارے عزیز سائنسدانوں کو ہم سے جدا کر دیا۔ انھوں نے سوچا تھا کہ شہریاری اور علی محمدی (8) اور دوسرے سائنسدانوں کو ہم سے چھین لیں گے تو ہمارا کام رک جائے گا۔ لیکن کام نہیں رکا، اس میں کوئی وقفہ نہیں آیا، الحمد للہ آگے بڑھتا رہا۔ یعنی ہمارے نوجوانوں نے، ہمارے سائنسدانوں نے ثابت کر دیا کہ یہ صنعت ایرانی ہو چکی ہے، ملت ایران سے تعلق رکھتی ہے اور اب اس کو اس قوم سے چھینا نہیں جا سکتا۔ وہ بھی اب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔
ایک ذیلی بات یہاں کہوں، ذیلی ہے لیکن اہم ہے۔ دیکھئے! وہ واقعہ جس کو مغرب میں رینیساں (نشاۃ ثانیہ) کے عنوان سے جانا جاتا ہے- مغرب والوں کی زندگی کی راہ و روش کی تبدیلی- اس کو تقریبا پانچ سو سال ہو رہے ہیں۔ رینیساں کے واقعے میں بنیادی ترین نقطہ جو تھا وہ دین اور سائنس کا تقابل تھا۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر سائنسی لحاظ سے ترقی کرنا چاہتے ہو تو دین اور معنویت وغیرہ کو الگ رکھو۔ یہ رینیساں ميں مغرب والوں کی اہم ترین گائڈ لائن، اہم ترین خطوط (گائیڈ لائنوں) میں سے ایک تھا۔ اس واقعے کو پانچ سو سال ہو رہے ہیں۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران میں معنویت اور اسلامی جمہوریت ہے اور اہم ترین سائنسی کارنامے انجام پا رہے ہیں۔ یہ کارنامے کون لوگ انجام دے رہے ہیں؟ مومن نوجوان، فخری زادہ اور شہریاری جیسے نماز شب کے پابند افراد، یہ لوگ یہ کام آگے بڑھا رہے ہیں۔ یعنی سائنس اور دینداری کی ایسی آمیزش پائی جاتی ہے۔ یہ اہم نکتہ ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔
تیسری بات جو عرض کرنا چاہتا ہوں، اب وقت بھی نہیں بچا ہے، صرف چند سفارشیں ہیں۔ پہلی سفارش – جو میں نے عرض کرنے کے لئے یہاں نوٹ کی ہے، لیکن نمائش کے معائنے کے وقت جو وضاحتیں کی گئيں، ان سے معلوم ہوا کہ خوش قسمتی سے اس پر توجہ ہے- (یہ ہے کہ) ایٹمی توانائیوں کو عوام کی زندگی کے مختلف شعبوں میں بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی اور توانائي صنعت، صحت، زراعت، ماحولیات، پانی میٹھا کرنے اور مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج اور معاشرے کے سبھی امور میں مفید ہے۔ خوش قسمتی سے ملک کا محکمہ ایٹمی توانائی یہ کام کر رہا ہے اور ایٹمی صنعت رکی نہیں ہے، بنیادی اور اہم امور انجام پا رہے ہیں، میری تاکید اور اصرار یہ ہے کہ اس کو اہمیت دیں، اس کو جاری رکھیں اور عوام کی زندگی کو ایٹمی صنعت سے متعلق سائنسی پیشرفت سے بہرہ مند کریں۔
ایک سفارش یہ ہے کہ اس چیز کو – یعنی اس عظیم توانائي کو – عوام میں بیان کریں۔ لوگ ایٹمی توانائی سے کیا سمجھتے ہیں؟ ایٹمی توانائی سے اسی توانائی کے مسئلے کو سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایٹمی ٹیکنالوجی سے بجلی پیدا کرنے کا ایک مرکز بنانا چاہتے ہیں۔ بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ عوام کی زندگی کے سبھی شعبوں میں ایٹمی صنعت دخیل اور مفید و موثر واقع ہو سکتی ہے۔ عوام کو یہ بتائيں تاکہ وہ اس صنعت کی قدر کو جانیں اور وہ یہ جو نعرہ لگاتے تھے کہ "یہ ہمارا مسلمہ حق ہے" جان لیں کہ واقعی یہ ان کا مسلمہ حق ہے۔ البتہ اس میں ریڈیو ٹیلی ویژن کا بھی اہم کردار ہے۔ مختلف اداروں کا کردار ہے، لیکن اس کے عامل خود آپ ہیں۔ مختلف طریقوں سے عوام تک یہ بات پہنچائيں۔
ایک سفارش یہ ہے کہ ایٹمی مصنوعات اور سروسیز کو کمرشیل بنایا جائے۔ البتہ ان رپورٹوں میں جو مجھے دی گئی ہیں، کہا گیا ہے کہ بعض ایٹمی مصنوعات کا کمرشیلائیزیشن کر دیا گیا ہے لیکن اس کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری اس پیشرفت کی دنیا کے بازاروں میں اچھی گنجائش ہے اور ملک کی معیشت کے لئے، ملک کی آمدنی کے لئے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ہم خیال ملکوں کے ساتھ جو اس معاملے میں ہمارے مخالف نہیں ہیں، تعاون کیا جائے۔ البتہ ان رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ تعاون ہو رہا ہے۔ یا انھوں نے درخواست کی ہے یا ہم نے چاہا ہے۔ اس سلسلے کو آگے بڑھانا چاہئے۔ تعاون کیا جائے، جتنا ممکن ہو، دنیا کی سہولتوں سے اور دنیا کی سائنسی پیشرفت و ترقی سے فائدہ اٹھایا جائے۔
ایک اور بات بیس ہزار میگاواٹ (بجلی پیدا کرنے کے منصوبے) کے تعلق سے ہے جس کا ہم نے چند سال قبل اعلان کیا ہے۔ (9) اس پر سنجیدگی سے کام کیا جائے۔ فرض کریں کہ مثال کے طور پر اس وقت ہم ایک ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی استعمال کر رہے ہیں اور ہماری ڈیزائننگ اس سے زیادہ کی ہے اور ہدف بیس ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی ہے۔ آئندہ کچھ مدت میں فرض کریں کہ ہمیں اسّی نوے ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوگی، اس میں سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی ایٹمی ہونی چاہئے جو مالی لحاظ سے کفایتی بھی ہے اور ماحولیات کے لحاظ سے بھی بہتر ہے۔ اس پر سنجیدگی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے۔ میں نے یہاں نوٹ کیا ہے اور اوپر بھی (10) میں نے دوستوں سے عرض کیا ہے کہ چھوٹے اور کم گنجائش والے ایٹمی بجلی گھروں پر بھی کام کیا جائے۔ اب ایک ہزار میگاواٹ کے بجلی گھر کی ٹیکنالوجی پر کام ہوا ہے، تجربات بھی حاصل ہوئے ہیں، لیکن ان تجربات سے چھوٹے بجلی گھروں کے سلسلے میں کام لیا جا سکتا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ آج دنیا میں یہ معمول ہے۔ زیادہ تر چھوٹے بجلی گھروں پر کام کرتے ہیں، دو سو میگاواٹ، سو میگاواٹ حتی سو میگاواٹ سے بھی کم گنجائش کے بجلی گھروں پر کام کرتے ہیں۔ میں نے تین چار سال پہلے ایک ملک ( کے سربراہ) سے جس کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے، کہا کہ آپ کے پاس تیس میگاواٹ کا پاور پلانٹ ہے، ہمیں دیں۔ اس نے کہا ہمارے پاس نہیں ہے، میں نے کہا کیوں نہیں، مجھے رپورٹ ملی ہے کہ آپ کے پاس ہے۔ اس کا وزیر وہیں بیٹھا ہوا تھا، اس سے پوچھا، اس نے جو جواب دیا اس سے میں نے سمجھ لیا کہ ان کے پاس ہے لیکن ہمیں نہیں دیں گے۔ یعنی ان کے لئے مشکل ہے۔ مختلف شعبوں کے لئے ہمیں کم توانائی اور کم گنجائش کے چھوٹے بجلی گھروں کی ضرورت ہے۔ اس پر کام کریں۔
اس کے بعد میری سفارش افرادی قوت کے تعلق سے ہے۔ افرادی قوت کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ اس شعبے میں کام کرنے والے یونیورسٹی طلبا کی تعداد بہت کم ہے۔ میں تعداد کا ذکر نہیں کرنا چاہتا، لیکن اس شعبے میں کم سے کم اس سے دس گنا زیادہ یونیورسٹی طلبا کی ضرورت ہے۔ اس کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ کم ہیں۔ اس شعبے میں مشکلات ہیں، اس کی اپنی سختیاں ہیں، ان سختیوں کا تدارک ہونا چاہئے۔ موجودہ سائنسدانوں اور ماہرین سے زیادہ سے زیادہ استفادے کی ضرورت ہے۔ اس کی سیکورٹی کو بھی سنجیدگی سے اہمیت دی جائے۔ بہرحال اس صنعت میں افرادی قوت کا احترام اور حفاظت بہت اہم ہے۔ مختلف پہلوؤں سے کارکردگی کے مد نظر افرادی قوت سے کام لینے کے طریقہ کار میں نظم و نسق بھی بہت اہم ہے۔ دشمن اس میدان میں کوشش کر رہا ہے، آپ لوگوں نے خود دیکھا اور دشمن کے وار کا مزہ چکھا ہے۔ دشمن بعض جگہوں پر دراندازی کرتا ہے، تخریب کاری کرتا ہے اور کیا بھی ہے۔ ہم سب نے دیکھا (11) بہت توجہ کے ساتھ نگرانی کی ضرورت ہے۔ افرادی قوت بہت اہم ہے۔ اس کی حفاظت کریں، کارکردگی کے جائزے میں بھی پوری توجہ اور توانائی سے کام لیں۔
ایک سفارش کا تعلق محکمے میں موجود بعض مسائل سے ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے کے ساتھ رابطے کے تعلق سے، میری پر زور تاکید یہ ہے کہ ایجنسی کے ساتھ رابطے کو محفوظ رکھیں۔ یعنی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون اور افہام وتفہیم کو قائم رکھیں لیکن سیف گارڈ کے قواعد و ضوابط کے دائرے میں۔ یعنی زیادہ دباؤ میں نہ آئيں اور سیف گارڈ قوانین کے مطابق ہمیں جو انجام دینا چاہئے، اس کو انجام دیں۔ شروع سے ہی ان تمام حکام سے جو اس بیس برس سے زائد عرصے کے دوران اس صنعت میں آئے اور گئے، ہمیشہ میری سفارش یہی رہی ہے ۔ میں نے کہا ہے کہ ایٹمی ایجنسی کے ساتھ تعاون جاری رکھیں۔
پارلیمنٹ کے پاس کردہ قانون کی خلاف ورزی بھی نہ کی جائے۔ یہ بھی میری سفارش ہے۔ پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا (12) یہ قانون ہمارے فائدے اور ایٹمی صنعت کے فائدے میں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ قانون ملک کے لئے مشکل ساز ہے۔ وہ غلطی پر ہیں۔ یہ قانون بہت اچھا قانون ہے۔ اصل میں یہ قانون ہے، قانون پر عمل ہونا چاہئے۔ اس میں کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ ان رسائیوں (ایکسس) کے سلسلے میں بھی جو دوسرے ہم سے چاہتے ہیں اور ان اطلاعات کے تعلق سے بھی جو پیش کرتے ہیں، قانون کے مطابق عمل ہونا چاہئے۔
بعض اوقات حقیقت کے منافی دعوے کئے جاتے ہیں اور زور زبرستی کے مطالبات پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کو خاطر میں نہ لائیں۔ ایٹمی محکمہ زور زبردستی کے مطالبات کو نہ مانے۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں۔ جو آپ کا فریضہ ہے وہ انجام دیں۔ اس پر عمل کریں، لیکن زور زبردستی کرنے والے جو آپ سے چاہیں اور مطالبہ کریں اس کو نہ مانیں، قبول نہ کریں۔ بعض اوقات ایسے دعوے کرتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں۔ ان دعوؤں کو قبول نہ کریں: "اس وقت تم نے وہ کام کیا"۔ نہیں، ان کے حقیقت کے منافی دعووں کو تسلیم نہ کریں۔ اب خاص طور پر ایک عہد وپیمان گزشتہ (ہجری شمسی) سال کے آخری مہینے (مارچ 2023 میں ) کیا گیا۔ جو رپورٹ میں نے دیکھی – اور یہ رپورٹ بھی در حقیقت نئی ہے- اس کے مطابق مقابل فریق نے اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا، ہم نے عمل کیا۔ اس معاہدے میں فریق مقابل، ایٹمی ایجنسی ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس نے عمل نہیں کیا۔ بہر حال توجہ رکھیں۔
ایک اور اہم سفارش یہ ہے کہ ملک کی ایٹمی صنعت کے انفراسٹرکچر کو ہاتھ نہ لگایا جائے۔ ان برسوں کے دوران اس صنعت کے حکام، اعلی عہدیداروں اور ماہرین نے اہم امور انجام دیئے، اہم بنیادی ڈھانچے تیار کئے۔ ممکن ہے کہ آپ بعض امور میں معاہدے کرنا چاہیں۔ کوئی حرج نہیں ہے، معاہدہ کریں، لیکن انفراسٹرکچر کو ہاتھ نہ لگایا جائے، انہیں ختم نہ کیا جائے، یہ دوسروں کی محنتوں کا نتیجہ ہیں۔ (14)
آپ نے تکبیر بھی بھیج ہی دی۔ خدا ان شاء اللہ آپ سب کو کامیابی عطا فرمائے۔ ہم نے پینتالیس منٹ تک اس نمائش کے معائنے کی تیاری کی تھی – مجھے جو پروگرام دیا گیا تھا، وہ یہی تھا- اس میں دوگنا وقت لگ گیا یعنی ہم نے ڈیڑھ گھنٹہ اس نمائش میں لگا دیا۔ اس کے بعد آپ کی خدمت میں تھے۔ ان شاء اللہ موید و کامیاب رہیں۔ خدا ان شاء اللہ آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کا واسطہ، ہمارے عزیز نوجوانوں، اس صنعت میں سرگرم ہمارے ماہرین اور ہمارے اعلی عہدیداروں پر اپنا لطف و کرم نازل فرما اور انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھ، ان سبھی کو دنیا و آخرت میں سرخ رو اور سربلند فرما۔ پالنے والے! ہم جو کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں اس میں ہماری نیتوں کو اپنے لئے خالص قرار دے اور قبول فرما۔
والسّلام علیکم و رحمة الله و برکاته
1۔ اس ملاقات میں پہلے (محکمہ ایٹمی توانائی کے سربراہ) محمد اسلامی نے رپورٹ پیش کی۔
2۔ اس ملاقات سے پہلے رہبر معظم نے حسینیہ امام خمینی ( قدس سرہ الشریف) میں ایٹمی صنعت کی نمائش کا معائنہ کیا۔
3۔ مارچ 2023 میں امریکا کی مرکزی انٹیلیجنس ایجنسی - سی آئي اے- کے سربراہ نے سی بی ایس ٹی وی سے انٹرویو میں کہا کہ " جہاں تک ہم جانتے ہیں، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ ایران کے اعلی حکام نے، ایٹمی اسلحہ کے پروگرام کو جس کو 2003 کے آواخرمیں معطل کیا تھا، دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔" اسی طرح اس رپورٹ میں جو امریکی وزارت خارجہ نے گزشتہ مئی میں جاری کی، کہا گیا ہے کہ ایران نے ایٹمی اسلحہ بنانے کا کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
4۔ جواہر لعل نہرو
5۔ شہید داریوش رضائي نژاد کو دشمن کے کارندوں نے 23 جولائي 2011 کو دہشت گردانہ حملے میں قتل کردیا تھا۔
6۔ شہید مجید شہیریاری ایٹمی سائنسداں تھے۔ انہیں 29 نومبر 2010 کو دشمن کے عوامل نے قتل کردیا تھا۔
7۔ شہید محسن فخری زادہ(دفاعی تحقیقات اور ایجادات کے ادارے کے سربراہ)28 نومبر 2020 کو دشمن کے عوامل کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
8۔ شہید مسعود علی محمدی ایٹمی سائنسداں تھے اور 12 جنوری 2010 کو دشمن کے کارندوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
9۔ (3-1-2008کو) صوبہ یزد کی یونیورسٹیوں کے طلبا سے ملاقات میں خطاب
10۔ ملک کی ایٹمی صنعت کی مصنوعات کی نمائش کے معائنے کے دوران
11۔ 2021 میں نطنز کی ایٹمی تنصیبات میں تخریبکاری اور دھماکہ
12۔ " پابندیوں کے خاتمے اور ایرانی قوم کے مفادات کے تحفظ کے لئے اسٹریٹیجک اقدام " کا قانون۔ یہ قانون مجلس شورائے اسلامی نے پاس کیا اور بدھ 3 دسمبر 2020 کو نگران کونسل کی توثیق کے بعد حکومت کے پاس بھیجا گیا۔
13۔ ایران کے محکمہ ایٹمی توانائي اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے 3 مارچ 2023 کو ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے ایران نے رضا کارانہ طور پر ایجنسی کو زیادہ نگرانی کی اجازت دی
14۔ حاضرین کا نعرہ تکبیر