بسم‌ اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین (ارواحنا فداه).

 بہت بہت خوش آمدید۔ الحمد للہ آپ لوگوں کے دیدار اور حضرات کی شافی و وافی رپورٹ سے اردبیل کے عوام اور ان کے جذبات و احساسات کی یاد تازہ ہو گئی۔ اردبیل کے عوام کے احساسات و جذبات اور ان کی مخلصانہ فعالیت، الحمد اللہ متعدد مشاہدات سے ہمارے ذہن میں ہمیشہ باقی رہی ہے۔ 

میں دو تین باتیں عرض کروں گا: ایک بات خود اردبیل کے بارے میں ہے۔ میری تاکید ہوتی ہے کہ ہر علاقے، ہر شہر اور ہر صوبے کے باشندوں اور عوام سے ملاقات میں اس صوبے کی نمایاں خصوصیات بیان کروں تاکہ سبھی سن لیں، پورے ایران کے لوگ سمجھ لیں اور خود اس علاقے کے عوام ان خصوصیات کی قدر کو سمجھیں۔ اردبیل وہ خطہ ہے جو ہماری تاریخ میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ ایران پر اردبیل کا بڑا حق ہے۔ میں نے چند برس قبل اردبیل کے عوام سے ملاقات میں، وہاں برادران وخواہران عزیز سے خطاب میں عرض کیا تھا کہ اردبیل والوں نے ایران کے لئے دو بڑے کام کئے ہیں ایک کام ملی ہے اور دوسرا مذہبی ہے(2)۔ ملی کام ملک کے اتحاد سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی یہ وحدت و یکجہتی جو آّپ آج ایران میں دیکھ رہے ہیں، وہ صفویوں کی دین ہے۔ یہ اردبیل سے شروع ہوا۔ شاہ اسماعیل صفوی کے دور سے شروع ہوا۔ صفویوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک میں ملوک الطوایفی تھی۔ اس کا ہر گوشہ کسی ایک کے اختیار میں تھا۔ یہ خطہ جو آج ایران کے نام سے جانا جاتا ہے، البتہ اس وقت اس کا طول و عرض آج سے زیادہ تھا، اس شکل میں جو آج تک باقی ہے، متحد نہیں تھا۔ بنابریں آج  ہم ملک کے اتحاد و یک جہتی کے لئے، یہ ملی اور تاریخی کام جو انجام پایا (اس کے لئے) اردبیل کے احسان مند ہیں۔  

مذہبی کام، مذہب اہل بیت کی نشر و اشاعت ہے۔ البتہ ایرانیوں کو ہمیشہ اہل بیت (علیہم السلام) سے محبت اور لگاؤ رہا ہے، لیکن مذہب اہلبیت رائج نہیں تھا، یہ مذہب عالم غربت میں تھا۔ ملک کے بعض علاقوں میں موجود تھا لیکن اکثرعلاقوں میں نہیں تھا۔ صفویوں نے ایک بڑی خدمت یہ کی کہ مذہب اہل بیت کو پورے ملک میں پھیلا دیا۔ یہ محبت جو آج آپ کو اہل بیت سے ہے، یہ خلوص اور عقیدت جو آپ کو ہے، یہ درس جو ہم مکتب اہل بیت سے، سبھی سیاسی، سماجی اور مذہبی امور میں حاصل کرتے ہیں، یہ ان کی برکت سے ہے۔

بنابریں تاریخی نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو آپ کے ساتھ، ملک ایران کے ساتھ، علاقے کے عوام کے رابطے میں، دو اہم اور ممتاز نکات پائے جاتے ہیں۔ ایک ملی ہے اور دوسرا اسلامی ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسا ہی تھا۔ یعنی صفویوں کے دور میں بھی جب محقق اردبیلی (رضوان اللہ علیہ) جیسے عالم دین نجف میں مرجع علم و فقہ ہوئے اور دور دراز سے، اس وقت کے شام میں آنے والے علاقوں  سے بڑے علما ان کے پاس تحصیل علم کے لئے آتے تھے اور مرحوم آقائے باقر بہبہانی (رضوان اللہ علیہ) تاریخ فقہ شیعہ کے بڑے علما میں شمار ہوتے ہیں، انہیں "شیخ الطائفہ" کا لقب دیتے ہیں۔ "شیخ الطائفہ" وہ لقب ہے جو شیخ طوسی کے لئے مخصوص تھا۔ مرحوم آقائے باقر بہبہانی کہتے ہیں کہ محقق اردبیلی "شیخ الطائفہ" ہیں۔ ہمارے دور سے کچھ پہلے تک خود اردبیل میں مرحوم آقائے میرزا علی اکبر آقائے اردبیلی جیسے بڑے اور ممتاز عالم دین موجود تھے جو بہت صاحب اثر و رسوخ اور فعال تھے۔ ان کی مسجد آج بھی موجود اور مشہور ہے۔ خود ہمارے زمانے میں، ہمارے مشہد میں، مرحوم آقائے سید یونس اردبیلی مرجع تقلید اور مشہد کے صف اول کے عالم دین تھے۔  علما بہت تھے لیکن ان میں سر فہرست مرحوم سید یونس اردبیلی تھے۔

جہاد اور مجاہدت کے میدان میں بھی اردبیل والے اگلی صفوں میں رہے ہیں۔ اس کی تفصیل کی طرف حضرات نے اشارہ کیا اور بیان کیا۔ پینتس ہزار مجاہدین اردبیل سے محاذوں پر گئے۔ یہ بڑی تعداد ہے۔ بہت بڑی تعداد ہے۔ اس علاقے نے تقریبا تین ہزار چار سو یا اس سے زیادہ شہید دیے ہیں۔ یہاں اپنے اعضائے بدن کا نذرانہ پیش کرنے والے جانباز سپاہیوں اور شہیدوں کے لواحقین کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ ان کی حفاظت کی جائے۔ یہ اردبیلیوں کی پہچان ہیں۔ ہمیں اپنے شہروں اور صوبوں کی شناخت میں جغرافیائي اور موسمیاتی خصوصیات وغیرہ پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ اہم یہ ہستیاں ہیں۔ اردبیل کی پہچان یہ ہیں: علمی ماضی، جہاد اور شہادت کا ریکارڈ اور ان میدانوں میں موجودگی جن سے ملی حیات کی تجدید ہوئی ہے، چاہے وہ سیاسی و جہادی زندگی اورخود مختاری ہو یا علمی حیات ہو، یہ بہت اہم ہیں۔

چند باتیں جناب آقائے عاملی نے بیان کیں۔ انھوں نے کہا کہ "ہم شہیدوں کی یاد منانے میں اس اجلاس پر ہی اکتفا نہیں کریں گے۔"  یہ بالکل صحیح ہے۔ یہ کام جو آپ کر رہے ہیں، میں بعد میں عرض کروں گا، ضروری اور بہت اہم ہیں۔ لیکن یہ کام جس بات کی تمہید ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں شہیدوں کے راستے کو باقی رکھنا ہے۔ شہیدوں سے درس حاصل کریں اور اس پر عمل کریں۔ یہ اہم ہے۔  مسئلہ شہادت کے بیان سے واقعی ہماری زبان قاصر ہے کہ ہم شہادت کے رتبے اور شہیدوں کے مرتبے کو بیان کریں۔ یہ آیات جن کی تلاوت کی ہے اِنَّ اللّهَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنينَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّة، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سودا خدا کے ساتھ ہے۔  يُقاتِلونَ فی‏ سَبيلِ اللّهِ فَيَقتُلونَ وَ يُقتَلون‏۔  دونوں، دشمن کو ختم کرنا اور اس راہ میں جان دینا، دونوں اہمیت رکھتے ہیں۔  یہ سودا خداوند عالم سے ہے۔ شہید نے اپنی جان دی ہے اور رضائے الہی کو جو کائنات کی اہم ترین چیز ہے، رضائے الہی، حاصل کی ہے۔ اس کے بعد خدا فرماتا ہے وَعداً عَلَيهِ حَقًّا فِی التَّوراةِ وَ الاِنجيلِ وَ القُرآن۔ (3)

یعنی سبھی ادیان الہی کی تعلیمات میں ہے۔ صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے۔ سبھی ادیان الہی میں راہ خدا میں فداکاری  اور راہ خدا میں جان دینے کی بہت اہمیت ہے۔  یہ سورہ توبہ کی آیت تھی۔ سورہ آل عمران کی آیت بھی بہت اہم ہے: وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا فی‏ سَبيلِ اللّهِ اَمواتًا۔ ایسی ہی ایک آیت سورہ بقرہ میں بھی ہے۔  وَ لا تَقولوا لِمَن يُقتَلُ فی‏ سَبيلِ اللّهِ اَموات،(4) لیکن اس آیہ کریمہ میں جو تاکید ہے، لا تَحسَبَنَّ، بہت واضح تاکید ہے۔ یعنی بہت تاکید کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے فعل «حَسِبَ» (کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے) حتی تصور بھی نہ کرو، اپنے ذہن میں یہ بات نہ آنے دو کہ شہید مردہ ہیں۔ دوسرے 'نون تاکید' ( کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے) بَل اَحياءٌ۔ بلکہ زندہ ہیں۔ خداوند عالم نے ان کی زندگی کی نوعیت کی ہمارے لئے تشریح نہیں کی لیکن فرمایا ہے کہ جوار ربوبیت میں ہیں، جوار الوہیت میں ہیں۔ یہ اس سے بالاتر ہے کہ ان کا زندہ ہونا ہماری عقل میں آ سکے۔ یہ ان باتوں سے بہت ماورا اور بالاتر ہے۔ ان کے مرتبے کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے «بَل اَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقون»‏۔ (5) رزق الہی انہیں مل رہا ہے۔ یہ رزق الہی کیا ہے؟ مومنین کے لئے بہشت میں رزق موجود ہے اور یہ قرآن میں ہے (لیکن) یہ «يُرزَقون»  اس سے مختلف ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ رزق دوسرا ہے، ایک بالاتر رزق ہے۔ ایک یہ مسئلہ ہے کہ ان کا مرتبہ دکھایا جاتا ہے اور اس کے بعد ان کا پیغام (بیان کیا جاتا ہے)  «وَ يَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم اَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَ لا هُم يَحزَنون‏»۔(6) اس راہ میں خوف اور الم نہیں ہے۔ یہ راہ مسرت اور راہ گشایش ہے، راہ خوشنودی اور راہ خوش دلی ہے۔ یہ ان کا پیغام ہے۔ یعنی شہدا ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہم سے کہتے ہیں کہ جس راستے پر ہم چلے ہیں تم بھی اس پر چلو۔ آگے بڑھو۔ شہیدوں کی منزلت یہ ہے۔ اگر انسان قیامت اور برزخ کی  سختیوں کے بارے میں قرآن کریم کی آیات پر غور و فکر کرے ان حسرتوں، ان سختیوں پر غور کرے تو سمجھے گا کہ یہ رزق الہی، جوار ربوبیت میں موجود ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کی کیا اہمیت ہے؟!

میں ایک نکتہ آپ خواہران و برادران عزیز سے عرض کروں گا۔ ہم شہیدوں کے معاصر  تھے، قریب سے شہدا کو دیکھا ہے۔ ہم نے ان کا جہاد بھی دیکھا ہے اور ان کی شہادت بھی دیکھی ہے۔ اس تیرہ چودہ سال کے بچے (7) کو آپ نے خود دیکھا ہے،  اس کی شہادت دیکھی ہے، اس کو پہچانا ہے، اس کو سمجھا ہے، سب کچھ آپ کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ بعد کی نسل اتنی صراحت اور اتنی وضاحت کے ساتھ اس مسئلے کو نہیں دیکھے گی۔ اس کی فکر بھی کرنا چاہئے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ شہیدوں نے کس طرح بڑی مشکلیں حل کی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ دنیا کی سبھی ترقی یافتہ بڑی طاقتیں جمع ہوئيں اور اس ملک پر جہاں ابھی ابھی انقلاب آیا تھا جو بے شمار مشکلات سے دوچار تھا، طاغوتی دور سے وراثت میں ملنے والی تلخ تباہ کاریاں ہر جگہ موجود تھیں، یلغار کر دی تاکہ اس کو ختم کر دیں، نابود کر دیں، شہدا نے ان کے مقابلے میں استقامت کی اور اس ہمہ گیر حملے کو ناکام بنا دیا۔ یہ مذاق نہیں ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ اس آٹھ سالہ مقدس دفاع نے مشکلات کو برطرف کرنے میں ہمارے مجاہدین، ہماری مجاہدتوں اور ہمارے شہیدوں کے  کردار کو دکھا دیا۔ جنگ کے بعد اٹھ سالہ مقدس دفاع کے بعد، فوجی جنگ ختم ہو گئی لیکن شناخت کی جنگ، معرفت کی جنگ، اقتصادی جنک، سیاسی جنگ اور سلامتی کی جنگ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتی گئي اور آج تک یہ تمام جنگیں اسی استقامت اور مزاحمت کی برکت سے اور شہادتوں کی برکت سے ناکام ہوئي ہیں۔ 

بنابریں ہمارے لئے راستہ واضح ہے۔ راہ، راہ مجاہدت ہے، راہ استقامت ہے اور راہ مزاحمت ہے۔ یہ وہ راستہ ہے کہ جس کو ہموار کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہے، فکر کرنی ہے۔ علما کو اپنے طور پر، روشن فکر حضرات کو اپنے طور پر، یونیورسٹیوں سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے طور پر اور اسی طرح مختلف حکومتی منصبوں اور عہدوں پر فائز لوگوں کو بھی، ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔ یہ وہ کام ہے جو ہمیں انجام دینا ہے۔ خدا برکت عطا کرے گا۔ جس طرح اس نے خون شہدا میں برکت عطا فرمائی۔ آپ ملاحظہ فرمائيں، مثال کے طور پر فرض کریں کہ شہید قاسم سلیمانی کی طرح کوئی راہ خدا میں شہید ہوتا ہے تو پوری قوم ہل جاتی ہے۔ ایک پوری قوم حرکت میں آ جاتی ہے اور یہ جو فرضی خطوط لوگوں کے درمیان ہیں، سب ختم ہو جاتے ہیں اور پوری قوم متحد ہو جاتی ہے۔ یہ وہ برکت ہے جو خدا نے خون شہید کو عطا کی ہے۔ اس کی نمایاں ترین مثال حضرت امام حسین علیہ الصلاۃ و السلام کا خون ہے۔ اس سال دشمن نے کتنی کوشش کی کہ محرم کی رونق کو کم کر دے۔ نہیں کر سکا۔ اس کے برعکس ہوا، وہ جو چاہتا تھا اس کے بر عکس ہوا۔ اس سال کا محرم اور عاشورا گزشتہ سبھی برسوں سے زیادہ پر جوش، ولولہ انگیز با معنی تر  تھا اور زیادہ معرفت کے ساتھ منایا گیا۔ یہ کام خدا ہے کہ واقعہ کربلا جو ایک بیابان میں، ایک دن یا آدھے دن میں رونما ہوا، اس طرح تاریخ میں روز بروز اس کے تعلق سے جوش و ولولہ بڑھتا رہے اور حسین کی محبت مسلمان اور غیر مسلمان سے ماورا ہو جائے۔ آپ دیکھ رہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے امام حسین سے محبت کرتے ہیں۔غیر مسلمان بھی اسی طرح۔ عیسائي، پارسی، ہندو۔ اربعین مارچ میں آپ نے دیکھا  اور دیکھتے ہیں! یہ سب اس بات کی علامتیں ہیں کہ  خداوند عالم، شہادت، خون  شہید اور راہ شہدا کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اس کو باقی رکھنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت آج آپ جو ذمہ داری پوری کر رہے ہیں، یہ عظیم کام جو کر رہے ہیں اور شہیدوں کی یاد منا رہے ہیں، یہ امام سجاد (علیہ السلام ) اور حضرت زینب (سلام اللہ علیہا)کے کام جیسا ہے۔ انھوں نے واقعہ عاشورا کی حفاظت کی۔ اس کو باقی رکھا، اس میں استحکام پیدا کیا اور تاریخ میں اس کو زندہ جاوید  بنا دیا۔ اس کو صفحہ تاریخ سے مٹنے نہیں دیا۔ آپ بھی یہی کام کر رہے ہیں۔ یعنی آپ کے کام کی اہمیت، آثار شہدا کے تحفظ کی اہمیت یہ ہے۔

امید ہے کہ خداوند عالم ان شاء اللہ شہیدوں کے نام، شہیدوں  کی  یاد، ان کی شہادت کے واقعات اور رودادوں کی حفاظت میں آپ کو کامیابی عطا فرمائے گا کہ آپ یہ ضروری روشیں جاری رکھیں۔ سب سے اہم آرٹ اور ہنر کی روش ہے۔ آرٹ اور ہنر کی روش پر زیادہ سے زیادہ سے کام کریں۔ ان شاء اللہ خداوند عالم آپ کو اجر عطا فرمائے گا اور یہ راستہ باقی رہے گا۔ 

و السّلام ‌علیکم ‌و رحمة اللّه ‌و برکاته

1۔ رہبر انقلاب  اسلامی کے خطاب سے پہلے، حجت الاسلام والمسلمیں سید حسن عاملی (صوبہ اردبیل میں نمائندہ ولی فقیہ اور امام جمعہ اردبیل) اور بریگیڈیئر غلام حسین محمد اصل ( صوبہ اردبیل کی سپاہ عباس کے کمانڈر اور کانفرنس کے سیکریٹری) نے رپورٹیں پیش کیں۔

2۔ جولائی  2000 میں  اپنے سفر صوبہ اردبیل کی طرف اشارہ۔ رجوع کریں صوبہ اردبیل کے عوام سے رہبر انقلاب کے خطاب سے۔ 25-07-2000

3۔ سورہ توبہ، آیت نمبر 111 کا ایک حصہ۔ " درحقیقت خدا نے مومنین سے ان کی جان اور مال کو اس قیمت پر خرید لیا کہ بہشت ان کے لئے ہو۔ یہ وہی لوگ ہیں جو راہ خدا میں جنگ کرتے ہیں، مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔ (یہ) توریت، انجیل اور قرآن میں کئے گئے وعدہ حق کے عنوان سے اس کے ذمے ہے۔۔۔ "

 4۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 154 : " اور جو لوگ راہ خدا ميں قتل ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو۔۔۔۔ :

5۔ سورہ آل عمران، آیت نمبر 169 ۔ " جو لوگ راہ خدا میں قتل ہوئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو، بلکہ وہ زںدہ ہیں اور اپنے پروردگار کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔"

6۔ سورہ آل عمران آیت نمبر 169 اور آیت نمبر 170 کا ایک حصہ ۔ "۔۔ اور جو لوگ ان کے راستے پر ہیں اور ابھی ان تک نہیں پہنچے ہیں، ان کے لئے نہ خوف ہے اور نہ الم ہے بلکہ خوش ہیں۔

7۔ شهید مرحمت بالازاده