بسم اللہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

سب سے پہلے تو میں آپ سبھی بھائي بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو اتنا لمبا راستہ طے کر کے یہاں تشریف لائے اور اپنے جوش و جذبے اور مہر و محبت سے لبریز دلوں سے ہمارے اس امام باڑے کو رونق بخشی۔ ہم، آپ سبھی بھائي بہنوں کے بہت شکر گزار ہیں۔

آپ عزیزوں کا دیدار مجھے ماضی کی یاد دلاتا ہے، بیرجند اور جنوبی خراسان کے لوگوں کا دیدار بھی اور سیستان و بلوچستان کے لوگوں کا دیدار بھی۔ یہ جو بات میں کہہ رہا ہوں، یہ صرف اس لیے نہیں ہے کہ میں صرف تاریخ کے ایک دور کو بیان کروں بلکہ زیادہ تر اس لیے ہے کہ میں اس تصویر پر خط بطلان کھیچنا چاہتا ہوں جو اس قوم کے دشمن، ملک کے بعض علاقوں کے بارے میں پیش کرتے ہیں۔ میں ملک کے مختلف حصوں میں اپنے بھائيوں کے بارے میں رائے عامہ کے لیے حقیقی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

میں نے طاغوتی حکومت کے خلاف کھل کر پہلی جدوجہد بیرجند میں کی تھی۔ اس سے پہلے بھی ہم نے کچھ کام کیے تھے لیکن وہ کھل کر اور اعلانیہ نہیں تھے۔ پہلی کھلی جدوجہد بیرجند میں محرم سنہ 1963 میں ہوئي تھی یعنی ساٹھ سال پہلے۔ آپ لوگوں میں سے اکثر اس وقت نہیں تھے۔ دوسرا واقعہ زاہدان میں پیش آيا تھا، وہ کب ہوا تھا؟ وہ اسی سال رمضان کے مہینے میں ہوا تھا۔ تو آپ دیکھیے کہ آپ کے علاقے سے میری یادیں کب کی ہیں، دس بیس سال کی بات نہیں ہے، نصف صدی سے زیادہ کی بات ہے۔

بیرجند میں نویں محرم کو مجھے گرفتار کر لیا گيا اور پولیس چوکی کے لاک اپ میں رکھا گيا۔ بیرجند کے لوگ عاشورا کے دن پولیس چوکی پر حملہ کرنا اور مجھے وہاں سے باہر نکالنا چاہتے تھے، انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا۔ بیرجند کے بڑے اور اعلی پائے کے عالم دین مرحوم تہامی صاحب (1) نے اپنی بصیرت سے، جو ایک بہت اچھے عالم دین تھے اور اگر قم یا نجف کے اعلی دینی تعلیمی مرکز میں ہوتے تو یقینی طور پر مرجع تقلید بن جاتے لیکن وہ آ کر بیرجند میں رہ گئے تھے، یہ کام نہیں ہونے دیا، انھوں نے کہا کہ اس سے فلاں کے لیے (میرے لیے) مشکل پیدا ہو جائے گی۔ انھوں نے لوگوں کو روک دیا۔ مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ اس وقت لوگ اور علماء، اس جدوجہد کے ساتھ تھے، ہم اکیلے نہیں تھے۔ میں اکیلے بیرجند گيا تھا لیکن پورا بیرجند اپنے تمام لوگوں کے ساتھ، اپنے بزرگ علماء کے ساتھ ہمارے ساتھ ہو گيا۔ یہ بیرجند کی بات ہے۔

اسی سال محرم کے مہینے میں، میں زاہدان گيا۔ زاہدان میں دو بزرگ عالم تھے: اعلی پائے کے شیعہ عالم دین مرحوم جناب کفعمی صاحب(2) اور اعلی پائے کے سنّی عالم دین مرحوم مولوی عبدالعزیز ملّازہی۔ وہاں بھی مجھے گرفتار کر لیا گيا۔ ماہ رمضان کے اواسط میں مجھے زاہدان میں گرفتار کیا گيا اور تہران لایا گیا اور قزل قلعہ کی جیل میں ڈال دیا گيا۔ مرحوم کفعمی نے کھل کر ہماری حمایت کی، مرحوم مولوی عبدالعزیز نے بھی ہماری ان ہی باتوں کی تائيد میں ایک حکم جاری کیا۔ البتہ مجھے یاد نہیں ہے کہ اس حکم کی تاریخ، زاہدان میں میری موجودگي کے وقت کی تھی یا اس کے کچھ عرصہ بعد کی تھی لیکن یہ حکم اسی کام کی سمت میں تھا جو ہم کر رہے تھے۔ اس حکم کی تفصیل طولانی ہے اور میں فی الحال اسے بیان نہیں کرنا چاہتا۔ تو یہ اس سلسلے میں میری یادیں ہیں، یعنی طاغوتی حکومت کے مقابلے میں، میں نے جو کھل کر پہلا کام کیا تھا وہ ان دو اہم شہروں کے تعاون سے، جو آج دو صوبوں کے مرکز ہیں اور ان شہروں کے لوگوں اور علماء کے تعاون سے انجام پایا تھا۔

البتہ صرف یہی بات نہیں ہے۔ یہ واقعات سنہ 1963 میں اسلامی انقلاب سے تقریبا پندرہ سال پہلے کے ہیں۔ انقلاب کی کامیابی سے کچھ عرصے پہلے مجھے جلاوطن کر کے ایرانشہر بھیج دیا گيا۔(3) اسی طرح انقلاب کی کامیابی کے بعد پورے بلوچستان کے سنّی علماء سے ہمارے رابطے ہوئے۔ انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے مجھے سیستان و بلوچستان بھیجا تاکہ میں وہاں جا کر وہاں کے عوام کے حالات اور وہاں کی صورتحال سے آگاہی حاصل کروں اور آ کر انھیں رپورٹ دوں اور وہاں کے لیے ضروری کاموں کو انجام دیں(4) کیونکہ میں پہلے سے وہاں کے حالات سے قدرے واقف تھا۔ میں اس سفر میں بلوچستان کے اہلسنت کے علماء کی مدد کو فراموش نہیں کر سکتا کیونکہ اس وقت اس کام کے لیے جرئت و حوصلے کی ضرورت تھی۔ سراوان کے بزرگ اور ضعیف عالم دین مرحوم مولوی عبدالعزیز ساداتی نے کھل کر اور اعلانیہ ہماری حمایت کی اور انقلاب کی جہت میں آ گئے، یہ سب شناخت ہے، یہ اس صوبے کے شناختی کارڈ ہیں، عوام کے شناختی کارڈ ہیں۔ دشمن نہیں چاہتا کہ یہ حقائق میری اور آپ کی یادداشت میں محفوظ رہیں، وہ چاہتا ہے کہ انھیں بھلا دیا جائے۔ چابہار میں، سراوان میں، ایرانشہر میں، خود زاہدان اور سیستان میں جو حقیقی معنی میں زابلی دلاوروں کا مرکز ہے، بہادر لوگ، وفادار لوگ ہیں، یہ وہاں کی سرگرمیوں کا ماضی ہے۔

انھوں نے بڑے نمایاں شہیدوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے۔ مسلط کردہ جنگ کے شہیدوں کے علاوہ ان دو صوبوں نے منافقین سے جنگ میں اور سیکورٹی کے دفاع کے مختلف واقعات میں، تب سے لے کر اب تک لگاتار انقلاب کی خدمت میں نمایاں شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہم آج بھی شہیدوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں، سنہ اکاسی میں بھی ہم نے شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا تھا، زابل کے مرحوم سید محمد تقی حسینی طباطبائي(5)، اہلسنت کے مولویوں میں سے ایک مرحوم مولوی حسین بر(6) یہ لوگ سنہ اکاسی کے ہیں، ان سے لے کر حال تک کے ہمارے نمایاں برادران جیسے مرحوم شہید شوشتری(7) یا شہید عبدالواحد ریگي(8) جو خاش کے علاقے کے مولوی تھے اور ایسے ہی دوسرے شہداء، مطلب یہ کہ یہ علاقہ، انقلاب کا خطہ ہے، شہیدوں کا نذرانہ پیش کرنے والا علاقہ ہے، اللہ کی راہ میں آگے بڑھنے والا علاقہ ہے۔ دشمن یہ چیز نہیں دیکھ سکتا، برداشت نہیں کر سکتا۔ یہاں پر اتحاد کی راہ کے بھی شہید ہیں، مقدس دفاع کے بھی شہید ہیں اور سیکورٹی کی راہ کے بھی شہید ہیں جن میں سے بعض کے نام میں نے عرض کیے۔

یہیں پر ایک بات میں ضمنی طور پر عرض کرتا چلوں، البتہ یہ بات بڑی اہم اور بنیادی ہے اور وہ یہ کہ عہدیداران، عوام کی قدر سمجھیں اور خدمت کریں۔ البتہ سیستان و بلوچستان میں کافی خدمت ہوئي ہے، بہت کام کیا گیا ہے۔ وہ بلوچستان جو آپ آج دیکھ رہے ہیں، طاغوتی حکومت کے دور کا بلوچستان نہیں ہے، میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے، لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ پہلے دن سے، بالکل شروعاتی دنوں سے اس علاقے میں کام شروع کر دیا گيا، وہاں بھی، زابل میں بھی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی، آج بھی کام ہو رہا ہے۔ یہ کام پوری طاقت سے جاری رہنے چاہیے۔

ریلوے لائن کا معاملہ بہت اہم ہے، یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ملک کا شمالی اور جنوبی حصہ ریلوے لائن کے ذریعے متصل ہو جائے، صوبے اور راستے میں پڑنے والے صوبوں کے لیے بھی اہم ہے اور خود ملک کے لیے بھی اہم ہے۔ زابل کے پانی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ پانی کے سلسلے میں عوام کا حق انھیں دینے کے لیے تمام کام کیے جانے چاہیے، ہر راہ کی جستجو ہونی چاہیے اور ان شاء اللہ لوگوں کا یہ حق پورا ہوگا، یہ کام ہوں گے۔ بہت سارے کام ہوئے ہیں اور بہت سارے کام ہمارے سامنے ہیں جو انجام پانے ہیں۔ اگر حکومتوں نے ان فیصلوں پر، جو سن دو ہزار کے عشرے میں، جب میں بلوچستان آيا تھا(9) طے پائے تھے، عمل کیا ہوتا تو آج صوبے کا چہرہ کچھ اور ہوتا۔ بعض حکومتوں کی جانب سے تساہلی کی گئی، توجہ نہیں دی گئي، بحمد اللہ آج کام ہو رہا ہے، کام میں مصروف ہیں، کوشش کر رہے ہیں۔ میں پرامید ہوں اور ان شاء اللہ یہ امید نتیجے تک پہنچے گي۔ خیر تو یہ باتیں، اس خطے سے متعلق تھیں۔

ایک عمومی بات بھی ہے جو سبھی سے متعلق ہے جس پر مجھ حقیر سے لے کر پوری ایرانی قوم اور تمام عہدیداران کو توجہ دینی چاہیے، وہ کون سی بات ہے؟ وہ نکتہ جس پر میں چاہتا ہوں کہ سبھی خاص طور پر نوجوان بہت زیادہ توجہ دیں یہ ہے کہ جب دنیا میں بڑی تبدیلیاں آتی ہیں یا آنا شروع ہوتی ہیں تو قوموں اور ملکوں کے عہدیداران کی ذمہ داری ہے کہ کئي گنا زیادہ چوکنا ہو جائيں، اپنی نگرانی کئی گنا بڑھا دیں۔ میں اس سلسلے میں تفصیل سے عرض کروں گا۔ اگر یہ نگرانی انجام پائي تو قومیں فریب نہیں کھائيں گي اور اپنے مفادات کے برخلاف راستے پر چلنے پر مجبور نہیں ہوں گی۔ اگر یہ ہوشیاری اور نگرانی انجام نہیں پائي اور غفلت سے کام لیا گیا تو قوموں پر طویل مدتی ضربیں لگیں گي۔ میں مثال پیش کرتا ہوں:

ایک مثال سامراج کے عروج کے زمانے کی ہے۔ مثال کے طور پر فرض کیجیے اٹھارویں صدی میں، جب برطانوی سامراج ہمارے علاقے میں آيا اور اس نے بہت سارے ممالک کو خاص طور پر وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا میں اپنے تسلط میں لے لیا کیونکہ قومیں سو رہی تھیں، حکام اور عہدیداران کی توجہ نہیں تھی۔ انگریز آئے اور انھوں نے رفتہ رفتہ برصغیر ہند اور ہندوستان کے مشرق و مغرب میں واقع ممالک کے حیاتی وسائل کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ میں نے جو ہندوستان کا نام لیا ہے تو یہ ایک نمونہ ہے ورنہ افریقا میں بھی ایسا ہی تھا، لاطینی امریکا میں بھی ایسا ہی تھا، شمالی امریکا میں بھی صورتحال یہی تھی۔ انگریزوں نے ان قوموں کے مفادات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور انھیں اپنی کالونی بنا دیا، ان قوموں اور ملکوں کو دسیوں سال یا اس سے بھی زیادہ، شاید دو سو سال پیچھے دھکیل دیا اور یہ قومیں کتنی تکلیفیں برداشت کر کے اپنے آپ کو اس تسلط کے چنگل سے رہا کروانے میں کامیاب ہوئيں۔ انگریزوں کا نام نمونے کے طور پر پیش کیا گيا، ورنہ فرانس نے بھی یہی کیا، پرتگال نے بھی یہی کیا، بیلجیم نے بھی یہی کیا اور یورپ کے دیگر ملکوں نے بھی کم و بیش یہی کام کیا۔ جب اپنی خاص وجوہات کی بنا پر یورپ میں سامراجی دور شروع ہوا تو قوموں کو بیدار ہونا چاہیے تھا، ملکوں کے حکام اور ذمہ داروں کو چوکنا ہونا چاہیے تھا، ان کے حواس بجا ہونے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں تھا، نتیجہ دنیا کے ایک وسیع علاقے کے دو تین صدیوں تک سامراج کے چنگل میں پھنسے رہنے کی صورت میں سامنے آيا۔ یہ ایک مثال ہوئي۔

اگلی مثال جو زیادہ قریب کی ہے، وہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کی ہے، زیادہ تر پہلی عالمی جنگ اور کچھ کچھ دوسری عالمی جنگ کے بعد خود ہمارے اس خطے میں ہی یعنی مغربی ایشیا میں، وہی علاقہ جیسے یورپ والے مشرق وسطی کہنا پسند کرتے ہیں جبکہ یہ غلط لفظ ہے، ہمیں مغربی ایشیا کہنا چاہیے، اس خطے میں انھوں نے جو تباہی مچائي، اگر اس علاقے میں، مغربی ایشیا اور شمالی افریقا میں ہماری اقوام بیدار ہوتیں تو وہ یہ تباہی نہیں مچا سکتے تھے، برطانیہ نے ایک طرح سے، فرانس نے دوسری طرح سے، اٹلی نے کسی اور طرح سے۔ ہمارا علاقہ پیشرفت کے کارواں سے کم از کم سو سال پچھڑ گيا۔ تو دیکھیے! جب دنیا میں کوئي تبدیلی شروع ہوتی ہے تو قوموں کو چوکنا رہنا چاہیے کہ یہ تبدیلی ان کے نقصان میں نہ ہو، ملکوں کے حکام اور عہدیداروں کو چوکنا ہونا چاہیے، البتہ حکام، قوموں کی پشت پناہی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔

میری عرض یہ ہے: میں کہتا ہوں کہ آج دنیا میں ایک بڑی تبدیلی یا تو شروع ہو رہی ہے یا شروع ہو چکی ہے۔ آج وہ دن ہے جب قوموں کو اس غفلت میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے جس میں وہ سامراج کے دور میں یا پہلی عالمی جنگ کے بعد مبتلا ہو گئي تھیں، خطے کی قوموں کو بیدار اور چوکنا ہونا چاہیے۔ میری گزارش ہے کہ جو بات میں عرض کر رہا ہوں اسے بغور سنیے، خاص طور ہمارے پیارے نوجوان۔ ہم نے کہا کہ دنیا ایک تبدیلی کے دہانے پر ہے یا ایک تبدیلی کے شروعاتی دور میں ہے۔ یہ تبدیلی کیا ہے؟ دنیا میں کیا ہو رہا ہے جسے ہم تبدیلی کا نام دے رہے ہیں؟ اس کے اصلی خطوط اور بنیادی علامتیں، کچھ چیزیں ہیں: پہلے مرحلے میں دنیا کی سامراجی طاقتوں کا کمزور ہو جانا ہے، یہ اس تبدیلی کے بنیادی خطوط میں سے ایک ہے جو شروع ہو چکی ہے۔ امریکا کی سامراجی طاقت کمزور پڑ چکی ہے اور مزید کمزور ہو رہی ہے، میں اس پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالوں گا، اسی طرح بعض یورپی ممالک کی طاقت بھی۔ یہ اس تبدیلی کی بنیادی علامتوں میں سے ایک ہے۔ اس تبدیلی کی ایک دوسری بنیادی علامت نئي علاقائي اور عالمی طاقتوں کا سامنے آنا ہے، نئي طاقتیں وجود میں آ رہی ہیں جو یا تو علاقائي طاقتیں ہیں یا عالمی طاقتیں ہیں، تو یہ تبدیلی ہے۔

تو ہم نے کہا کہ امریکا کمزور ہو رہا ہے یا مغربی طاقتیں، سامراجی طاقتیں  کمزور ہو رہی ہیں، یہ ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے اور ایسی بات ہے جسے وہ خود کہہ رہے ہیں۔وہ خود کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں امریکا کی طاقت کے انڈیکس رو بہ زوال ہیں۔ کون سے انڈیکس؟ جیسے معیشت؛ امریکا کی طاقت کے سب سے اہم اشاریوں میں سے ایک امریکا کی مضبوط معیشت تھی جسے وہ کہہ رہے ہیں کہ رو بہ زوال ہے۔ طاقت کا ایک دوسرا انڈیکس حکومتوں کے امور میں مداخلت کا امکان تھا۔ امریکا مختلف حکومتوں میں مداخلت کرتا تھا، آج یہ حالت زوال کا شکار ہے۔ یورپ والے کسی طرح سے، دوسرے کسی اور طرح۔ آپ سنتے ہی رہتے ہیں، جرائد میں، ریڈیو ٹی وی کی خبروں میں اور دنیا کی خبروں میں آپ سنتے ہیں کہ وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں۔ امریکا میں طاقت کا ایک اشاریہ حکومتوں اور ملکوں کو تبدیل کرنے کی صلاحیت تھی۔ توجہ دیجیے! یہ باتیں اہم ہیں۔ ایک زمانے میں امریکا نے اپنے ایک ایجنٹ کو پیسوں، ڈالر سے بھرے ہوئے ایک بیگ کے ساتھ ایران بھیجا، اس ایجنٹ کا نام درج بھی ہے اور سبھی اسے جانتے بھی ہیں، کم روزویلٹ، اس کا نام کم روزویلٹ تھا۔ یہ پوشیدہ چیزیں نہیں ہیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی زمانے میں پوشیدہ تھیں، بعد میں سامنے آ گئيں۔ امریکا اپنے ایک ایجنٹ کو پیسوں سے بھرے ایک بیگ، ایک سوٹ کیس کے ساتھ ایران بھیجتا ہے اور 19 اگست جیسی ایک بغاوت کروا دیتا ہے! امریکا اور برطانیہ کی مشترکہ سازش سے اور ایک امریکی ایجنٹ کے ہاتھ جو یہاں پیسے لے کر آيا اور اسے غنڈوں، موالیوں اور مختلف طرح کے لوگوں کے درمیان بانٹ دیا اور انھوں نے19 اگست کی بغاوت کرا دی، مصدق کی حکومت جیسی ایک حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔

کبھی امریکا ایسا تھا، کیا آج بھی امریکا یہ کام کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! صرف ایران کے سلسلے میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی دوسرے ملک کے سلسلے میں بھی نہیں کر سکتا۔ آج امریکا جن حکومتوں کو چوٹ پہنچاناچاہتا ہے، انھیں نقصان پہنچانے کے لیے وہ ہائی برڈ جنگ شروع کرنے پر مجبور ہے اور ہائی برڈ جنگ اس کو بہت مہنگي پڑتی ہے اور  آخر میں اسے نتیجہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کیا انٹیلی جنس اور سیکورٹی کے وسائل کی اتنی غیر معمولی پیشرفت کے باوجود، جو امریکا کے پاس دوسروں سے کہیں زیادہ ہیں، آپ نے پچھلے دس سال میں کہیں پر دیکھا کہ امریکا ان ہی ہائی برڈ جنگوں کے ذریعے کسی ملک میں کسی حکومت کا تختہ پلٹ سکا ہو، کسی دوسری حکومت کو اس کی جگہ لا سکا ہو؟ انھوں نے دس سال تک شام میں سازشیں کیں لیکن کچھ نہیں کر سکے، بیس سال تک افغانستان میں جمے رہے، اپنے تمام فوجی وسائل بھی لے آئے لیکن آپ نے دیکھا ہی کہ وہ کتنی ذلت سے افغانستان سے باہر نکلے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ امریکا کمزور ہو گيا ہے تو اس کے معنی یہ سب چیزیں ہیں۔

یورپ کی حالت بھی اس سے بہتر نہیں ہے۔ آپ آج کل افریقا کے مسائل کے بارے میں سنتے ہی ہیں، جو ممالک فرانس کے زیر تسلط تھے، وہ یکے بعد دیگرے فرانس کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں اور فرانس کی پٹھو حکومتوں کو گرا رہے ہیں(10) اور وہ بھی عوام! البتہ ان کی فوجیں مصروف ہیں لیکن عوام ان کے پشت پناہ ہیں۔ مطلب یہ کہ مغربی قوتوں کے پاس جن میں سب سے اوپر امریکا اور پھر یورپ ہیں، پہلے جیسی طاقت نہیں رہ گئي ہے، وہ کمزور پڑتی جا رہی ہیں اور یہ کمزوری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ نئي طاقتیں سر ابھار رہی ہیں اور میں ان طاقتوں کا نام نہیں لینا چاہتا، اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ یہ بڑی عالمی تبدیلی ہے۔

تو یہ تبدیلی آ رہی ہے۔ میں نے کہا کہ بڑی عالمی تبدیلیوں کے وقت، قوموں کو ہوشیار رہنا چاہیے، ملکوں کے حکام اور عہدیداروں کو چوکنا رہنا چاہیے۔ یہ وہی وقت ہے جس میں اس وقت ہم ہیں، ہمیں چوکنا رہنا چاہیے۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ دشمن کمزور ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ مکر و فریب نہیں کر سکتا، دشمنی نہیں کر سکتا، چوٹ نہیں پہنچا سکتا، کیوں نہیں وہ یہ کر سکتا، وہ سازشیں تیار کر رہا ہے، ہمیں سو نہیں جانا چاہیے، ہمیں غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ہم یعنی کون؟ یعنی حکام اور عوام۔ میں نے عرض کیا کہ عوام کی پشت پناہی کے بغیر کسی بھی ملک کے حکام اور عہدیداران کوئي بھی بڑا اور اہم کام نہیں کر سکتے، عوام کو ان کی پشت پر ہونا چاہیے، عوام کو بیدار ہونا چاہیے۔ حکام اور عہدیداران کو بھی غافل نہیں ہونا چاہیے، بیدار رہنا چاہیے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے: "مَن نامَ لَم یُنَم عَنہ"(11) اگر آپ محاذ پر سو گئے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کے دشمن کو بھی محاذ پر نیند آ گئي ہے، نہیں، ممکن ہے وہ بیدار ہو، ممکن ہے وہ آپ پر نظر رکھے ہوئے ہو، ممکن ہے وہ آپ کی نیند سے فائدہ اٹھائے۔ یہ بنیادی مسئلہ ہے: غافل نہیں ہونا چاہیے۔

دشمن کی چال کی طرف سے چوکنا رہنا چاہیے۔ کیا دشمن کی کوئي چال ہے؟ ہال بالکل ہے، اس کے پاس چال ہے، منصوبہ بندی ہے، صرف ہمارے لیے ہی نہیں ، آج امریکا کے پاس اس خطے میں عراق کے لیے سازش ہے، شام کے لیے سازش ہے، لبنان کے لیے سازش ہے، یمن کے لیے سازش ہے، افغانستان کے لیےسازش ہے، خلیج فارس کے ساحلی ممالک کے لیے بھی اس کے پاس سازشیں ہیں جو اس کے پرانے روایتی دوست ہیں! ان سب کے لیے اس کے پاس چالیں ہیں۔ ان کے لیے امریکا کی جو چالیں ہیں ان سے ہمارا کوئي مطلب نہیں ہے لیکن ہمارے بارے میں اس کی کیا پلاننگ ہے؟ ہم اس سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہمارے پاس ایسی اطلاعات ہیں جو ہمیں بتاتی ہیں کہ امریکی حکومت نے امریکا میں کرائسس گروپ کے نام سے ایک ٹیم تیار کی ہے، اس کا کام کیا ہے؟ اس گروہ کا مشن، ہمارے ملک سمیت دنیا کے ملکوں میں بحران پیدا کرنا ہے۔ اس ٹیم کا مشن یہ ہے کہ بحران پیدا کرے، ایسے معاملوں کو تلاش کرے جو ان کے خیال میں ملک میں بحران پیدا کر سکتے ہیں، پھر ان معاملوں کو ہوا دے، یہ امریکا کے کرائسس گروپ کا مشن ہے۔ یہ امریکی ٹیم کافی غور و خوض اور مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایران میں بحران پیدا کرنے والے کچھ امور ہیں جنھیں ہوا دی جا سکتی ہے، جنھیں فعال کیا جا سکتا ہے، جن میں سے ایک قومیتی اختلاف ہے، ایک مسلکی اختلاف اور ایک جنسی مسئلہ اور خواتین کا معاملہ ہے، انھیں ان چیزوں کو ایران میں ہوا دینی ہے تاکہ یہ بحران پیدا کریں اور امریکا بحران کے ذریعے ہمارے وطن عزیز کو نقصان پہنچا سکے، یہ امریکا کی چال ہے لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔

امریکیوں نے کھل کر کہا! انھوں نے کھل کر کہا کہ وہ ایران میں شام اور یمن جیسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ بات انھوں نے واضح الفاظ میں کہی ہے۔ البتہ انھوں نے بکواس کی ہے اور وہ ایسا نہیں کر سکتے، اس میں کوئي شک نہیں ہے بشرطیکہ ہم چوکنا رہیں، ہمارے حواس جمع رہیں۔ اگر آپ سوئے ہوئے ہوں تو ایک بچہ بھی آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے، مسلح اور حملے کے لیے تیار دشمن کی تو بات ہی الگ ہے۔ ہمیں غفلت کا شکار نہیں ہونا چاہیے، سوتے نہیں رہ جانا چاہیے۔ ہوشیار رہنا چاہیے کہ غلط راستے پر نہ چل پڑیں، غلط راستے کا انتخاب نہ کریں، غلطی نہ کریں۔ اگر ہم چوکنا رہے، ہم نے دشمن کو پہچان لیا، دشمن کے طریقوں کو سمجھ لیا، کوشش کی کہ اپنی باتوں میں، اپنی سوچ میں، اپنے عمل میں اور اپنے کسی بھی اقدام میں دشمن کی چال میں مدد نہ کریں تو دشمن کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ ہمیں چوکنا رہنا چاہیے کہ غلط راہ پر نہ چل پڑیں، غلطی نہ کریں، باطل کو حق نہ سمجھ لیں۔

قرآن مجید نے ہمیں معیار دیا ہے۔ قرآن فرماتا ہے کہ "مُحَمَّدٌ رَسولُ اللَہِ وَ الَّذینَ مَعَہ" جو لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ ہماری بات اس پر ہے کہ ہم پیغمبر کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں، راستہ تو یہی ہے نا، اس کی علامت ہے: "وَ الَّذینَ مَعَہُ اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار"(12) اگر آپ نے دیکھا کہ یہ راستہ جس پر ہم چل رہے ہیں، یہ کافروں کو خوش کرتا ہے تو جان لیجیے کہ آپ اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار نہیں ہیں، تو پھر آپ "مع رسول اللہ" بھی نہیں ہیں، پیغمبر کے ساتھ نہیں ہیں لیکن اگر آپ نے دیکھا کہ نہیں، یہ راستہ جس پر آپ چل رہے ہیں وہ سامراج کو، دین اور اسلام کی مخالف ظالم حکومتوں کو غصہ دلاتا ہے، طیش میں لاتا ہے تو یہ ٹھیک ہے، یہ اَشِدّاءُ عَلَى الکُفّار ہے۔ تو یہ معیار ہوا۔ ہمیں بہت چوکنا رہنا چاہیے اور ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، معلوم ہونا چاہیے کہ کیا بول رہے ہیں، ہم جو بات کر رہے ہیں وہ دشمن کی چال میں معاون نہ ہو، دشمن کے پزل کو پورا نہ کر دے۔ کبھی ممکن ہے کہ کوئي غفلت کر جائے اور کوئي ایسا کام کر دے، کوئي ایسی بات کر دے جو دشمن کی چال کے پزل کو پورا کر دے، یہ خطرناک ہے۔ ہوشیار رہنا چاہیے کہ ایسا نہ ہو۔ اگر ہم چوکنا رہیں تو دشمن ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ ان چالیس پینتالیس برسوں میں آج کے ان ہی دشمنوں نے اور ان دشمنوں نے جو پہلے تھے اور اب ختم ہو چکے ہیں جیسے سابق سوویت یونین، یہ بھی ہمارے دشمن تھے، انھوں نے بار بار اور لگاتار ہمارے خلاف جو چاہا کیا لیکن ایرانی قوم بیدار تھی، چوکنا تھی، وہ امام خمینی کے بتائے ہوئے خطوط پر آگے بڑھتی رہی، آج امام خمینی کی ہدایات ہمارے لیے راہنما ہیں، دیکھیے کہ وہ کیا کہتے تھے، کیا چاہتے تھے، ہمیں کس سمت میں آگے بڑھا رہے تھے۔ قوم نے یہ کام کیا اور اسی لیے وہ آج تک کامیاب ہے، آج بھی ایسا ہی ہے، آج بھی سب کو چوکنا رہنا چاہیے۔

دشمن نے دو بنیادی چیزوں کو نشانہ بنا رکھا ہے: ایک قومی اتحاد اور دوسرے قومی سلامتی۔ قومی اتحاد اہم ہے، اتحاد کو پارہ پارہ نہ ہونے دیجیے۔ اتحاد کا کیا مطلب ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ملک کے بنیادی مسائل میں، جہاں قوم کے مفادات کا سوال ہے، مذہبی اختلافات، سیاسی اختلافات، گروہی اختلافات اور قومیتی اختلافات کو کنارے رکھ دیا جائے، سبھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جائيں، مختلف اقوام ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہوں، مختلف مذاہب و مسالک ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہو جائيں، جہاں ایک طے شدہ موقف ہو، یہ اتحاد ہے۔ جہاں تک سلامتی کی بات ہے تو جو لوگ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، وہ قوم کے دشمن ہیں، دشمن کے لیے کام کر رہے ہیں، چاہے وہ اسے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ کبھی کوئي کام کرتے ہیں اور خود انھیں نہیں سمجھ میں آتا کہ کیا کر رہے ہیں! بنابریں یہ دونوں باتیں بہت اہم ہیں۔ دشمن نے ان دونوں کو یعنی اتحاد اور سلامتی کو، اپنے حملوں کا نشانہ بنا رکھا ہے جس کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے۔

بحمد اللہ ہماری قوم بیدار ہے، اپنی عزیز قوم کی بیداری سے میں بہت پرامید ہوں، چالیس پینتالیس برس کے تجربے کے سبب، نعرے اور رجزخوانی وغیرہ کی وجہ سے نہیں کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے اور دیکھا ہے، اور جو چیز انسان اس ملک کے جوانوں میں دیکھتا ہے، اس کی وجہ سے: یہ وفاداری، یہ محبت، یہ اخلاص جس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، یہ زبردست موجودگي جیسے یہ اربعین، میں اربعین کے بارے میں بھی کچھ جملے عرض کروں گا، یہ ساری چیزیں امید کو عیاں کرتی ہیں۔ اسی طاقت کے ساتھ، اسی جذبے کے ساتھ، اسی ایمان کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ دشمن اپنی عداوت میں اور سازش تیار کرنے میں سنجیدہ ہے، ہم بھی دشمن کے مقابلے میں پوری طرح سے سنجیدہ ہیں۔

میں اپنے معروضات کے آخر میں اربعین کے پروگرام کی گرانقدر مہمان نوازی اور خاطر تواضع کے لیے عراقی قوم کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ معمولی بات اور مذاق نہیں ہے! عراقیوں نے نجف اور کربلا یا کاظمین اور کربلا کے درمیان کی راہوں پر کئي دن تک دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد زائرین کی مہمان نوازی کی، ان کی میزبانی کی، اپنا سب کچھ لگا دیا، واقعی یہ شکریے کا مقام ہے۔ میں دل کی گہرائي سے عراقی بھائي بہنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، عراقی عہدیداران کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، خاص طور پر الحشد الشعبی (عراقی رضاکار فورس) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، عراق کی پولیس فورس کا شکریہ ادا کرتا ہوں، عراقی حکومت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو سیکورٹی قائم رکھنے میں کامیاب رہی، ان لوگوں نے بڑے کام انجام دیے ہیں۔ اپنی پولیس فورس کا بھی میں دل کی گہرائي سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہماری پولیس فورس نے سرحدوں سے لوگوں کی آمد و رفت کے سلسلے میں واقعی بہترین کام، رات دن کام کیا، یہ سب بہت گرانقدر ہے۔ ہمیں مختلف شعبوں میں ان فداکار اور اچھے نوجوان پولیس اہلکاروں کی قدردانی کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے، ایک دوسرے کی قدر کرنی چاہیے، ایک دوسرے سے مہربانی سے پیش آنا چاہیے، خدا بھی ان شاء اللہ ہم پر رحم کرے گا۔

اے پروردگار! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد کا، اپنی رحمت و برکت ایرانی قوم پر اور ان دو صوبوں کے لوگوں پر نازل فرما۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. آیت اللہ سید حسن تہامی
  2.  آیت اللہ محمّد کفعمی خراسانی
  3. 18 دسمبر 1977
  4. صحیفۂ امام خمینی، جلد 6، صفحہ 429؛ سیستان و بلوچستان کے عوام کے مسائل دور کرنے کے لیے آقائے خامنہ ای کو دیا گيا حکم، (29 مارچ 1979)
  5. ایران کی پارلمینٹ مجلس شورائے اسلامی کے پہلے دور میں زابل کے رکن پارلیمنٹ جو 28 جون 1981 کو جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہوئے۔
  6. مولوی فیض محمد حسین بر جو گشت سراوان کے علاقے میں بڑے نمایاں سنّی عالم دین اور اس علاقے میں اسلامی انقلاب کے حامی اور مبلغ تھے جنھیں 12 مئي 1981 کو اسلامی انقلاب کے مخالفوں اور شر پسندوں نے ان کے ہی گھر میں شہید کر دیا۔
  7. آئي آر جی سی کے قدس ہیڈکوارٹر کے کمانڈر شہید نور علی شوشتری جو 18 اکتوبر 2009 کو ایک دھماکے میں کچھ دیگر افراد کے ساتھ شہید ہو گئے۔
  8. خاش کاؤنٹی کے اہلسنت کے امام جمعہ جو شیعہ سنی اتحاد کے داعی تھے جنھیں نامعلوم افراد نے 9 دسمبر 2022 کو اغوا کر کے شہید کر دیا۔
  9. 21 فروری 2003 کو شروع ہونے والا رہبر انقلاب اسلامی کا سیستان و بلوچستان صوبے کا گيارہ روزہ دورہ۔
  10. منجملہ 26 جولائي 2023 کو فرانس کی پٹھو حکومت کے خلاف نیجر کے فوجیوں کی بغاوت اور گيبن میں 30 اگست 2023 کو ہونے والی بغاوت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
  11. نہج البلاغہ، خط نمبر 62

(12) سورۂ فتح، آيت 29، محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں ...‏