بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.

آج کا یہ معائنہ میرے لیے بہت شیریں اور خوش گوار تھا۔ حالانکہ ہم جانتے تھے کہ مسلح فورسز، سپاہ کے ایرواسپیس اور وزارت دفاع کے شعبوں میں ہمارے برادران عزیز بڑے اچھے اور نمایاں کام انجام دے رہے ہیں لیکن معائنہ کرنے اور قریب سے دیکھنے کا فطری طور پر کچھ اور ہی اثر ہوتا ہے۔ اگر ملک کے مختلف شعبوں میں سے ہر ایک، جن میں سے ایک مسلح فورسز ہیں، ضرورتوں کا جائزہ لیں اور ضرورت کے حساب سے کام کریں تو میرے خیال میں ملک کی ترقی و پیشرفت زیادہ بہتر اور زیادہ تیز رفتار ہو جائے گي، یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ جو چیز فیصلہ کن ہے وہ علمی و سائنسی دقت نظر، عملی کام اور تحقیقی کام بھی ہے اور ایسا جوش اور عزم بھی ہے جس کا سرچشمہ ایمان ہو۔ بحمد اللہ ہمارے جوان، آپ جیسے، جس میدان میں عزم و ایمان کے ساتھ اترے، وہاں انھوں نے عظیم کارنامے انجام دیے۔ یہاں بھی ہمیں اسی عزم و ایمان کی نشانیاں دکھائي دیں، ایک دم واضح ہے کہ جو کچھ کیا گيا ہے وہ فولادی ارادے، جہد مسلسل اور انسان کے ذمے جو فریضہ ہے اس پر ایمان کی مدد سے انجام دیا گيا ہے۔ اس فریضے پر عقیدہ بہت مؤثر ہے، بہت مدد کرتا ہے، اصل سہارا انسان کا یہی ایمان اور عقیدہ ہے۔ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ جدت طرازی کے سبب حاصل کیا ہے، جدت طرازی اور نئي سوچ بہت اہم ہے، جدت طرازی کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔

آج بحمد اللہ آپ لوگ ایک اچھی سطح پر پہنچ چکے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سطح جو آج ہماری نظر میں اچھی ہے، کل بھی یہی سطح ہمارے لیے اچھی ہوگي، نہیں! کیونکہ دوسرے بھی کام کر رہے ہیں، دوسرے بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ مختلف جگہوں سے ہمیں مسلسل جو خبریں ملتی رہتی ہیں، مختلف فوجی شعبوں یا غیر فوجی شعبوں سے، وہ یہی بتاتی ہیں کہ دنیا میں پیشرفت کی جانب سفر، ایک دائمی اور اجتماعی امر ہے اور سبھی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پیچھے نہ رہ جائيں، پچھڑ نہ جائيں۔ بحمد اللہ مسلح فورسز کے مختلف شعبوں میں ہماری یعنی آپ کی اور آپ جیسے دوسروں کی جدوجہد اور پیشرفت، ایسی رہی ہے جو تیز رفتار بھی ہے اور مطلوبہ بھی ہے، یعنی پیشرفت ویسی ہے جیسی ہم چاہتے ہیں اور اچھی رفتار سے آگے بھی بڑھ رہی ہے، یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اگر اس تیز رفتاری میں کمی آ گئي تو ہم پیچھے رہ جائيں گے کیونکہ دوسرے بھی آگے بڑھ رہے ہیں، کام کر رہے ہیں، پیشرفت کر رہے ہیں۔ البتہ بعض شعبوں میں ہماری پوزیشن بہت اچھی ہے، منجملہ ان چیزوں میں جن کی آج نمائش کی گئی، لیکن بعض شعبوں میں ایسا نہیں ہے، ان میں ہماری پوزیشن اتنی اچھی نہیں ہے، کچھ کمیاں ہیں، نقائص ہیں، ہمیں انھیں بھی تلاش کرنا چاہیے، اپنی ضرورتوں کا تعین کرنا چاہیے، ضرورتوں کی تکمیل کی سمت بڑھنا چاہیے، یہ ضروری اور لازمی کام ہے اور ہر حال میں ہمیں خداوند عالم سے مدد طلب کرنی چاہیے۔

میں کچھ باتیں فلسطین میں جاری حالات کے بارے میں بھی عرض کروں کہ وہ بھی بہت اہم ہے۔ غزہ میں جو حالات چل رہے ہیں انھوں نے پوری دنیا کے لوگوں کے لیے بہت سے پوشیدہ حقائق کو برملا کر دیا ہے۔ ان پوشیدہ حقائق میں سے ایک یہ ہے کہ مغرب کے مشہور اور معتبر ملکوں کے حکام، اپنے تمام تر دعووں کے برخلاف، نسل پرستی کے بالکل بھی مخالف نہیں ہیں بلکہ نسل پرستی کے حامی ہیں، کیسے؟ اس لیے کہ صیہونی حکومت نسل پرستی کا مظہر ہے۔ صیہونی اپنے آپ کو بہتر و برتر نسل سمجھتے ہیں اور دیگر تمام انسانوں کو، غیر صیہونی اور غیر یہودی تمام انسانوں کو، پست نسل مانتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب مثال کے طور پر وہ کچھ ہی دنوں کے اندر کئي ہزار بچوں کو قتل کر دیتے ہیں تو ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا اور وہ گناہ کا احساس نہیں کرتے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے انھوں نے مثال کے طور پر کئي ہزار جانوروں کو ختم کر دیا ہو! صیہونیوں کی حقیقت یہ ہے۔ امریکا کے صدر، جرمنی کے چانسلر، فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم اس طرح کے ایک وجود اور اس طرح کا تشخص رکھنے والے کا بچاؤ کر رہے ہیں اور اس کی مدد کر رہے ہیں، اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ نسل پرستی، جو آج دنیا کے اہم مسائل میں سے ایک ہے اور انسان کی آنکھ کھل چکی ہے اور نسل پرستی، سب سے نفرت انگیز عقائد اور رجحانوں میں سے ایک ہے لیکن یہ سارے مشہور حضرات، نسل پرستی کے قائل ہیں اور نسل پرستی کی ذرہ برابر بھی مخالفت نہیں کرتے ورنہ اگر وہ اس کے مخالف ہوتے تو یہ چیز غزہ اور فلسطین کے معاملے میں ان کی کارکردگي میں دکھائي دیتی۔ یورپ کے عوام، امریکا کے عوام اور اقوام اس صورتحال کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری طے کر لیں، سمجھ لیں کہ وہ حقیقت میں اپنے حکام کی طرح نسل پرستی کی حامی ہیں یا نہیں، اگر نہیں ہیں تو اپنے موقف کو طے کر لیں۔ یہ ایک بات ہوئي۔

دوسری بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت اپنی تمام تر رعونت کے باوجود، جس کا وہ بمباری اور حملوں وغیرہ کی صورت میں مظاہرہ کرتی رہتی ہے، اب تک اپنے مشن میں ناکام رہی ہے۔ صیہونی حکام نے شروع ہی سے کہا کہ ان کا ہدف یہ ہے کہ مثال کے طور پر حماس اور استقامتی فورسز کو ختم کر دیں، شکست دے دیں اور مٹی میں ملا دیں لیکن وہ اب تک ایسا نہیں کر پائے ہیں۔ اس وقت چالیس دن یا اس سے بھی زیادہ ہو چکے ہیں کہ صیہونی اپنی تمام تر فوجی توانائي اور اپنے سبھی وسائل کے ساتھ اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن وہ یہ کام نہیں کر پائے ہیں۔ لوگوں پر وہ جو بم برسا رہے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بوکھلائے ہوئے ہیں، اس ناتوانی اور ناکامی کی وجہ سے طیش میں ہیں۔ اس وقت صیہونی حکومت بہت زیادہ طیش میں ہے، تلملا رہی ہے اور اسی لیے یہ جرائم کر رہی ہے، اسپتالوں پر حملے کر رہی ہے، مریضوں پر حملے کر رہی ہے، بچوں کو قتل کر رہی ہے کیونکہ وہ ہار گئي ہے۔ یہ جو ہم نے کہا کہ "صیہونی حکومت ہار گئي ہے"(2) یہ ایک حقیقت ہے۔ فلاں اسپتال تک پیشروی کرنا اور نہتے لوگوں کے گھروں میں گھس جانا تو فتح نہیں ہے، فتح اس وقت ہوتی جب وہ اپنے فریق مقابل کو، اپنے اوپر حملہ کرنے والی طاقت کو، اپنے مقابلے میں موجود فوجی طاقت کو شکست دیتی، صیہونی اب تک ایسا نہیں کر پائے ہیں اور ان شاء اللہ آگے بھی نہیں کر پائيں گے۔

یہ معاملہ اس وقت زیادہ اہم پہلوؤں کا حامل ہو جاتا ہے جب انسان اس بات پر توجہ دیتا ہے کہ یہ "ناتوانی" صرف صیہونی حکومت تک محدود نہیں ہے، امریکا بھی ناکام رہا ہے، امریکی میدان میں موجود ہیں نا؟! امریکا میدان میں ہے، مغربی ممالک بھی، صیہونی حکومت کی مدد کر رہے ہیں، ناکام رہے ہیں۔ انسانی تاریخ کے سفر پر نظر ڈالی جائے تو یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں بھرپور فوجی وسائل کی حامل اور طرح طرح کے ہتھیاروں سے لیس ایک حکومت، اس طرح کے ایک میدان میں اپنے فریق مقابل پر، جس کے پاس بظاہر ان وسائل میں سے کچھ بھی نہیں ہے، غلبہ حاصل نہیں کر سکی ہے! یہ بہت اہم مسئلہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے۔

ایک بات مسلم حکومتوں کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھی عرض کر دوں۔ بعض مسلم حکومتیں، عالمی اداروں اور بیانوں وغیرہ میں کبھی کبھی بمباری کی مذمت کرتی ہیں، بعض تو یہ بھی نہیں کرتیں! لیکن یہ کافی نہیں ہے، صیہونی حکومت کی رگ حیات کو کاٹ دینا چاہیے، تیل، اینرجی، سامان وغیرہ صیہونی حکومت تک نہیں پہنچنے دینا چاہیے۔ انھیں صیہونی حکومت سے اپنے سیاسی تعلقات کو، کم از کم ایک محدود مدت کے لیے ہی سہی، مثال کے طور پر ایک سال یا اس سے کم و بیش کے لیے ختم کر لینا چاہیے۔ اگر وہ چاہتی  ہیں کہ یہ جرائم نہ ہوں، یہ المیہ رک جائے اور ختم ہو جائے تو یہ کام، ان کی ذمہ داری ہے۔ اقوام کو  چاہئے کہ فلسطینی عوام کی مظلومیت کو فراموش نہ ہونے دیں، ان مظاہروں اور ریلیوں وغیرہ کو ان شاء اللہ جاری رکھنا چاہیے۔

ہم مستقبل کی طرف سے پوری طرح پرامید ہیں، اللہ کے وعدے پر ہمیں پورا یقین ہے کہ ان شاء اللہ وعدۂ الہی عملی جامہ پہنے گا اور ہم ہر اس چیز پر، جسے ہم اپنا فریضہ سمجھیں گے، ان شاء اللہ عمل کریں گے۔

و السّلام علیکم و رحمت ‌اللہ و برکاتہ

(1) اس پروگرام کی ابتداء میں، جو، عاشورہ ایرواسپیس سائنسز یونیورسٹی میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی ایرواسپیس فورس کی مستقل نمائشگاہ میں منعقد ہوا، آئي آر جی سی کی ایرواسپیس فورس کے کمانڈر امیر علی حاجی زادہ نے ایک رپورٹ پیش کی۔

(2) منجملہ، امام علی علیہ السلام آرمی آفیسرز یونیورسٹی میں گریجویشن تقریب سے خطاب (2023/10/10)