بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین (عجّل اللہ تعالی فرجہ الشّریف)
عزیز بھائیو اور بہنو! خوزستان کے عزیز عوام، کرمان کے پیارے عوام! خوش آمدید!
یہ جلسہ بڑا محبت آمیز اور ان شاء اللہ مورد لطف پروردگار جلسہ ہے۔ اس حقیر کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ان دونوں صوبوں کے عوام کی ایک تعداد کی زیارت کا موقع میسر آیا۔ آپ سب کو، ایک ایک فرد کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خاص طور پر عزیز شہیدوں کے اہل خانہ اور پیارے 'جانبازوں' (دفاع وطن میں زخمی ہوکر معذور ہو جانے والے افراد) کو۔
اس شیریں اور پر تپاک جلسے کے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک تو چند جملے ان دونوں صوبوں کے بارے میں عرض کروں گا۔ ہماری نوجوان نسل، ہماری نئی نسل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نسلی و تاریخی افتخارات اور مایہ ناز میراث سے بخوبی آشنا ہو۔ یہ کام آج بھی ضروری ہے اور آئندہ کے لئے بھی لازمی ہے۔ ملک کے مختلف شعبوں کی گراں قدر میراث کا تاریخی تسلسل ملک اور انقلاب کے تمام خیر خواہ افراد کا منصوبہ بند کام ہونا چاہئے۔ چند جملے خوزستان کے بارے میں اور چند باتیں صوبہ کرمان کے تعلق سے عرض کرنا چاہوں گا۔ اس کے بعد ایک اہم ملّی موضوع کا ذکر کروں گا اور وہ انتخابات(1) کا موضوع ہے جو عنقریب ہونے والے ہیں۔ اس کے بعد چند جملے اس انتہائی اہم عالمی اسلامی مسئلے یعنی غزہ کے بارے میں عرض کروں گا۔ یہ آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں سے ہماری آج کی گفتگو اور آج کے معروضات کا خاکہ ہے
جہاں تک خوزستان کی بات ہے تو شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کی گزشتہ 120 اور 130 سال کی تاریخ میں خوزستان ملت ایران کی مزاحمت کے سب سے بنیادی اور سب سے اہم مراکز میں سے ایک رہا ہے۔ اگر ہمارے نوجوان تاریخ سے با خبر ہوں تو انہیں علم ہوگا کہ 100 سال سے زیادہ عرصہ قبل، پہلی عالمی جنگ کے بعد جب آئے اور ایران کے اس علاقے اور عراق پر حملہ کیا خوزستان کے عوام کی مزاحمت نے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ خوزستان کے غیور عوام نے علمائے نجف کا فتوی اپنے ہاتھ میں اٹھایا، پرچم بلند کیا اور انگریزوں کے مقابلے میں ثابت قدمی سے ڈٹ گئے۔ انگزیز وہاں اور فوج اور بڑی طاقت کے ساتھ پہنچے تھے، صرف پروپیگنڈے وغیرہ کی بات نہیں تھی۔ عراق پر انہوں نے کنٹرول حاصل کر لیا تھا، اب ایران کے اس علاقے پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ خوزستان کے عوام علمائے نجف، آقا میرزا محمد تقی شیراز اور دیگر علما کے فتوے کے مطابق انگریزوں کے سامنے ڈٹ گئے۔ کئی سال پہلے میں نے خوزستان کو جو سفر کیا تھا(2) تو اس وقت کی مزاحمت کے لئے استعمال ہونے والا پرچم لایا گیا اور ہم نے وہ پرچم آستانۂ امام رضا علیہ السلام کو ہدیہ کر دیا۔ خوزستان کے عوام کا وہ پرچم آج بھی موجود ہے۔ تاریخ کی یہ چیزیں اہم ہیں، ان کی بڑی قیمت ہے۔ خوزستان سینہ سپر کرکے کھڑا ہو گیا انگریزوں کے مقابل صرف خوزستان کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ پورے ایران کی حفاظت کے لئے۔
تیل کی صنعت کی تحریک کے مسئلے میں بھی، 1940 کے عشرے کے آخری برسوں میں، خوزستان، ایران اور برطانیہ کے درمیان تصادم کا میدان تھا، آبادان ریفائنری پر قبضے کی صورت میں، جس پر انگریزوں کا کنٹرول تھا، اور اسی طرح ان علاقوں اور مراکز پر قبضے کی صورت میں جو انگریزوں نے اپنے لیے تیار کیے تھے۔ خوزستان والے یہاں بھی پہلی صف میں اور ہراول دستے میں تھے۔
ان سب سے زیادہ اہم، 1980 میں صدام کے حملے کے مقابلے میں خوزستان کے عوام کی استقامت تھی۔ دفاع کا پہلا گروہ خود خوزستان کے لوگوں کا تھا۔ صدام نے ایک غلط اندازہ لگایا تھا اور وہ یہ تھا کہ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر خوزستان کے شہروں، آبادان، خرمشہر اور اہواز وغیرہ پر حملہ کر دے گا تو ان علاقوں میں جو عرب رہتے ہیں، وہ اپنے ملک کے خلاف اس کا ساتھ دیں گے۔ صدام کو بڑی غلط فہمی تھی، وہ سوچ رہا تھا کہ خوزستان اس کے کنٹرول میں آ جائے گا اور خوزستان عرب ایرانی اس کی مدد کریں گے۔ جن لوگ سب سے پہلے سینہ سپر کر کھڑے ہوئے، وہ یہی لوگ تھے جن سے اس نے امید لگا رکھی تھی۔ شہید عزیز علی ہاشمی رحمت اللہ علیہ، ایک آئيڈیل ہیں۔ جنگ کے اوائل میں صدام کے لوگوں نے ان کا شہرہ سن رکھا تھا اور کئي سال سے ان کی تلاش میں تھے، جنگ میں وہ جسے بھی قید کرتے، اس سے پوچھتے تھے کہ علی ہاشمی کہاں ہے؟ وہ لوگ علی ہاشمی کے متلاشی تھے۔ شہید کی والدہ ابھی حال تک حیات تھیں۔ خوزستان کے لوگ، چاہے وہ عرب ہوں یا غیر عرب، لُر ہوں، بختیاری ہوں یا کسی دوسرے قبیلے کے ہوں، ان اولین افراد میں سے تھے جو صدام کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور انھوں نے مقابلے کے لیے ایک صف تشکیل دی، یہ بہت بڑا افتخار ہے، یہ ایک بڑی تعریف ہے، یہ کوئي معمولی چیز نہیں ہے۔
ایک دوسرے پہلو سے بھی خوزستان ایک ممتاز صوبہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کے تمام صوبوں کے شہیدوں کا خون، خوزستان کی مٹی پر بہا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ خوزستان پوری ایرانی قوم کی ہمدلی اور یکجہتی کا مظہر ہے۔ پورے ملک کے تمام مقامات سے نوجوان، صف اول میں لڑنے والے، جان کی قربانی دینے والے خوزستان پہنچے اور اپنے ایمان اور جوش و جذبے کے ساتھ لڑے اور انھوں نے اسلام کی راہ میں، ایران کی راہ میں اور اسلامی جمہوریہ کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور خوزستان ایرانی قوم کی یکجہتی کا مظہر بن گيا۔ ہم نے تاریخ میں ایرانی قوم کی شجاعت کے بارے میں جو کچھ سنا تھا، اس کی فداکاریوں کے بارے میں، ایثار کے بارے میں، استقامت کے بارے میں، وہ سب ہم نے خود اپنی آنکھوں سے خوزستان میں دیکھ لیا۔ بنابریں خوزستان، ایرانی قوم کی نمایاں خصوصیات کا مظہر بن گيا۔ تو یہ کچھ باتیں خوزستان کے بارے میں تھیں، ہمارے عزیز جوان ان کچھ باتوں کو، ملک کے اس اہم خطے کی تعریف کے دسیوں برابر یا سیکڑوں برابر سمجھ کر سنیں۔
جہاں تک کرمان کی بات ہے تو میں نے کرمان اور کرمان کے لوگوں کے ساتھ اپنی برسوں کی انسیت کے دوران، اس صوبے اور اس صوبے کے لوگوں کے درخشاں پہلوؤں کا بذات خود مشاہدہ کیا ہے، یہ سنی جانے والی باتیں نہیں ہیں، دیکھنے والی باتیں ہیں، محسوس کرنے والی باتیں ہیں۔ اگر ہم کچھ جملوں میں ان خصوصیات میں سے سب سے اہم خصوصیات کا نام لینا چاہیں تو میں عرض کروں گا کہ سب سے پہلے کرامان کا گہرا ثقافتی تشخص ہے، دوسرے کرمان کی غیر معمولی صلاحیت والے افراد کی پرورش ہے، اس صوبے کی ایک خصوصیت غیر معمولی صلاحیت والے افراد کی پرورش ہے، اسی طرح کرمان کے لوگوں کی اخلاقی بزرگ منشی اور سچا ایمان ہے، ایک اور خصوصیت اسلامی و انقلابی تحریک سے جڑنے میں کرمان کے لوگوں کا پیش پیش رہنا ہے۔ میں یہ بات بھولا نہیں ہوں کہ 1963 میں کرمان کے مدرسۂ معصومیہ میں، اگر یہ نام مجھے صحیح سے یاد رہ گيا ہو تو، کرمان کے بچے اور نوجوان ایک زنجیر کی طرح، وہاں موجود انقلابیوں اور (شاہی حکومت سے) لڑنے والے دینی طلباء اور علمائے دین کے ساتھ مسلسل اس مدرسے میں آتے جاتے رہتے تھے، پمفلٹ دیتے تھے، پمفلٹ لیتے تھے، پیغام لیتے تھے، سبق لیتے تھے اور جا کر پورے صوبے میں پھیلا دیتے تھے۔ الحاج قاسم سلیمانی جیسی عظیم شخصیت کے سامنے آنے کے عوامل، یہ سب ہیں۔ غیر معمولی صلاحیت والے افراد پیدا کرنا، نمایاں اسلامی تعلیمات سے جڑے رہنا اور ان کی راہ میں جدوجہد کرنا وہ عظیم خصوصیت ہے جو حقیر نے اپنی آنکھوں سے کرمان کے لوگوں میں دیکھی ہے۔
جی ہاں! ایک قاسم سلیمانی کافی ہے کہ نہ صرف صوبۂ کرمان بلکہ پوری ایرانی قوم اس پر فخر و مباہات کرے، یہ بالکل صحیح بات ہے لیکن اسی کے ساتھ ایک دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ ثقافتی ڈھانچہ جو قاسم سلیمانی کی تربیت کرتا ہے، کیا ہے؟ اس ثقافتی ڈھانچے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس سچے ایمان، اس ایثار، اس صحیح فکر اور ہدایت الہی جو خداوند متعال کچھ لوگوں کو عطا کرتا ہے، ثقافتی ڈھانچے ہیں۔ البتہ یہ ڈھانچے ہمیشہ ہوتے ہیں لیکن جب اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ نہ ہو تو یہ توانائياں سامنے نہیں آ پاتیں، جب اسلامی جمہوریہ وجود میں آ جاتی ہے تب یہ شخصیات یکے بعد دیگرے سامنے آنے لگتی ہیں، منصۂ وجود پر آ جاتی ہیں: وہ، شہید حسین علم الہدیٰ ہیں، وہ، شہید علی ہاشمی ہیں، وہ، شہید ہمت ہیں، وہ، شہید الحاج قاسم سلیمانی ہیں۔
میں آپ عزیز جوانوں، خوزستان اور کرمان کے جوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان خصوصیات پر ناز کریں، فخر کریں، افتخار کریں، اس تاریخی اور آبائي ورثے کی قدر سمجھیں، ان خصوصیات سے اپنے ملک کے مستقبل کی تعمیر کے لیے استفادہ کریں۔ اس ملک کی تعمیر ہونی چاہیے، ابھی کافی کمیاں ہیں، ابھی ہم بہت پیچھے ہیں۔ دسیوں سال بلکہ سیکڑوں سال تک جابروں کی حکمرانی نے ہمارے ملک کو بہت سی چیزوں میں پیچھے رکھا۔ تاریخی ماضی کے پیش نظر آج ہمیں علم و سائنس میں، دنیا کے قافلۂ علمی کا علمبردار ہونا چاہیے تھا، جو کہ ہم نہیں ہیں، آج ہمیں اسلامی احکام اور اسلامی تعلیمات کو اپنے ملک کی زندگي کے ہر ہر حصے میں کھل کر دکھانا چاہیے تھا، اسلام کی تعمیر کا، ملک کا انتظام چلانے میں اسلام کی توانائی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، ہم ایسا نہ کر سکے اور اب ہم پچھڑے ہوئے ہیں، اس پچھڑے پن کی تلافی ہونی چاہیے۔ آپ جوان یہ کام کر سکتے ہیں، ایرانی قوم یہ کام کر سکتی ہے۔ خداوند عالم ان شاء اللہ آپ کو محفوظ رکھے، ان تیاریوں میں خدا اضافہ کرے اور یہ تیاریاں مختلف میدانوں میں عملی میدان میں پہنچیں۔ خیر تو یہ کچھ جملے خوزستان کے بارے میں اور کرمان کے بارے میں تھے۔
اور اب انتخابات کا اہم مسئلہ۔ تقریبا دو مہینے بعد ملک میں دو اہم انتخابات ہونے والے ہیں۔ میں نے اس سال کے آغاز میں ان انتخابات کی طرف اشارہ کیا تھا(3) اس وقت زیادہ مدت باقی تھی، اب وہ مدت کم ہو گئي ہے۔ ایرانی قوم کو بہترین انداز میں ان انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک الیکشن، مجلس خبرگان رہبری (ماہرین کونسل) کا ہے۔ ماہرین کونسل کی اہمیت اس بات میں ہے کہ وہ ضروری مواقع پر ملک کے لیے مناسب رہبر کا انتخاب کر سکتی ہے اور موجودہ رہبر کی زندگی کے دوران بھی اس کے اندر قیادت کی شرائط پر نظر رکھ سکتی ہے اور نظر رکھنا ہی چاہیے۔ یہ ماہرین کونسل کی اہمیت ہے جس پر ایرانی قوم اور صوبوں کے لوگوں کو غور کرنا چاہیے، دھیان دینا چاہیے اور اس الیکشن کو بہترین ڈھنگ سے منعقد کرنا چاہیے۔ دوسری طرف مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) کا الیکشن بھی، یہ دونوں الیکشن ایک ساتھ منعقد ہوتے ہیں، بہت اہم ہے۔ آئين کی رو سے پارلیمنٹ، ملک کے مستقبل کو ترسیم کرنے والی ہے، ملک کے مستقبل کی راہ ہموار کرنے والی ہے۔ اگر ملک میں کچھ مشکلات ہیں تو انھیں دو کرنے کے لیے پارلیمنٹ کی جانب سے قانون بنائے جانے اور پارلیمنٹ کی مدبرانہ موجودگي کی ضرورت ہے، اس الیکشن کی اہمیت اس بات میں ہے۔ دو دونوں انتخابات پرشکوہ طریقے سے منعقد ہونے چاہیے۔
میں نے اس سال کے آغاز پر ان انتخابات کے سلسلے میں چار خصوصیات قوم سے عرض کی تھیں: اول بھرپور شرکت، دوم حقیقی رقابت، سوم حقیقی معنی میں شفافیت اور چوتھے الیکشن کی حفاظت، یہ چاروں خصوصیات انجام پانی چاہیے۔ اس سے پہلے کہ ہم ان چاروں خصوصیات کے بارے میں بات کریں، آج میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا اور اگر اس دو مہینے کے عرصے میں ہم زندہ رہے اور توفیق حاصل ہوئي تو عزیز عوام سے دوبارہ اس سلسلے میں گفتگو کروں گا، اسلامی جمہوریہ میں الیکشن کا اصل فلسفہ واضح ہونا چاہیے۔ ہم کیوں الیکشن کرواتے ہیں؟ میں عرض کرتا ہوں کہ "جمہوری" اور "اسلامی" دونوں ہی الفاظ، الیکشن سے وابستہ ہیں۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوامی حکمرانی یعنی ملک کی حکمرانی عوام کے ہاتھوں میں ہو۔ تو عوام کس طرح حکمرانی میں دخیل ہوں؟ الیکشن کے علاوہ اور کوئي راستہ نہیں ہے۔ بعض لوگ، انتخابات کی ضرورت کے بارے میں اعتراض کرتے ہیں، لوگوں میں مایوسی پھیلاتے ہیں، وہ اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ اگر ملک میں انتخابات نہ ہوں گے تو پھر یا تو آمریت ہوگي یا انارکی اور بدامنی ہوگي۔ جو چیز ملک میں آمریت کو سامنے آنے سے روکتی ہے، وہ الیکشن ہے، جو چیز نراج، ہنگاموں اور بدامنی کو روکتی ہے، وہ انتخابات ہیں۔ الیکشن وہ صحیح راستہ ہے جس کے ذریعے لوگ ملک میں قومی حاکمیت کو، عوام کی حکمرانی کو، جمہوریت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ یہ تو جمہوریت کی بات ہوئي۔ الیکشن، ملک میں ولی فقیہ کا انتخاب کر سکتا ہے اور اسے سامنے لا سکتا ہے یعنی اسلامیت کو یقینی بنا سکتا ہے۔ الیکشن، پارلیمنٹ میں ایسے اراکین کو بھیج سکتا ہے جو اسلامی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر ملک چلانے کے لیے قوانین وضع کر سکتے ہیں۔ بنابریں جمہوریت بھی اور اسلامیت بھی، انتخابات پر منحصر ہے، اسلامی جمہوری نظام میں انتخابات ضروری ہیں۔
ان انتخابات میں، وہ چار نکات جو ہم نے بیان کیے، اہم ہیں۔ سب سے پہلے شرکت؛ شرکت کا مطلب ہے انتخابات میں عوام کی پرجوش اور بھرپور موجودگي۔ اگر انتخابات میں عوام کی شرکت، پرجوش اور بھرپور ہو تو یہ قومی اتحاد کی عکاسی کرتی ہے، یہ میدان میں موجودگي کے لیے ایرانی قوم کے جذبے کی نشاندہی کرتی ہے، ایرانی قوم کا جذبہ اور قومی اتحاد، قومی طاقت پیدا کرتا ہے، قومی طاقت، ملک میں کے محفوظ رہنے کا سبب بنتی ہے، جب ملک محفوظ ہو جاتا ہے تب اس ملک میں علم و سائنس کی پیشرفت ہوتی ہے، اس ملک میں معیشت پھلتی پھولتی ہے، ملک کی مختلف ثقافتی، معاشی اور سیاسی مشکلات حل ہونے لگتی ہیں، تو شرکت اس طرح کا معجزہ کرتی ہے۔ انتخابات ملک میں تبدیلیاں لاتے ہیں۔ بعض لوگ تبدیلی کی بات کرتے ہیں، تبدیلی کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن عملی طور پر اس چیز کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے جو تبدیلی کی ضروری تمہید ہے؛ یعنی انتخابات۔ انتخابات کے ذریعے ملک میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ مختلف سیاسی، معاشی اور ثقافتی نظریات رکھنے والے لوگ اپنے سیاسی، ثقافتی یا معاشی نظریات کے حق میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں، اچھی بات ہے لیکن اس کا راستہ کیا ہے؟ اس کا راستہ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے، چاہے وہ پارلیمانی الیکشن ہو، چاہے ماہرین کونسل کا الیکشن ہو، چاہے صدارتی الیکشن ہو یا شہری اور دیہی کونسلوں کا الیکشن ہو، ایسے لوگوں کو اقتدار میں لائیں جو ان کی اس سیاسی سوچ، ان کے سیاسی یا معاشی یا ثقافتی نظریے کے حامی ہوں، یہ ہوگي تبدیلی۔ بنابریں تبدیلی کی اساس، الیکشن ہے۔
ان سارے لوگوں کی، جن کے کچھ سننے، دیکھنے اور پڑھنے والے ہیں، ذمہ داری ہے کہ عوام کو انتخابات میں شرکت کی دعوت دیں۔ بڑے علماء، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، حوزہ (اعلی دینی تعلیمی مرکز) کے اساتذہ، ریڈیو اور ٹی وی کا ادارہ، پریس والے، جوان، گھر والے، یہ سب انتخابات کے منادی ہو سکتے ہیں اور اپنے سننے، دیکھنے اور پڑھنے والوں کو انتخابات کی دعوت دے سکتے ہیں، ایسی صورت میں الیکشن، پرجوش اور بھرپور الیکشن ہوگا۔ اگر الیکشن میں لوگوں کی شرکت کم ہو تو پارلیمنٹ کمزور ہوگي اور کمزور پارلیمنٹ میں مسائل و مشکلات کو دور کرنے کی پوری طاقت نہیں ہوگي۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسائل دور ہوں تو ہمیں انتخابات میں شرکت بڑھانی ہوگي، یہ سبھی کی ذمہ داری ہے۔ جو بھی چاہتا ہے کہ ملک کے مسائل دور ہوں، اس کے لیے راستہ یہی ہے۔ تو یہ ہوا انتخابات میں شرکت کا مسئلہ، البتہ اگر عمر باقی رہی اور موقع رہا تو میں آئندہ بھی اس سلسلے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
جہاں تک رقابت اور کمپیٹیشن کی بات ہے تو سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ رقابت کیا ہے؟ رقابت کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی دھڑے انتخابات میں شرکت کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ آرائي کریں، مختلف سیاسی و معاشی رجحان رکھنے والے افراد اور گروہ انتخابات میں ایک دوسرے سے کمپیٹیشن کریں، سیاسی دھڑوں، سیاسی نظریات اور سیاسی خیالات اور اسی طرح معاشی اور ثقافتی نظریات و خیالات کے درمیان مقابلہ آرائي کے لیے میدان کھلا ہوا ہو، رقابت کے معنی یہ ہیں۔ رقابت کا مطلب یہ ہے کہ وہ نوجوان جو الیکشن کے میدان میں اترنا چاہتے ہیں وہ تجربہ کار اور پرانے لوگوں سے مقابلہ آرائي کریں، یہ لوگ کوشش کریں، وہ بھی کوشش کریں۔ ایک اچھی اور مضبوط پارلیمنٹ وہ پارلیمنٹ ہے جس میں ایسے جوان بھی ہوں اور ویسے تجربہ کار اور پرانے لوگ بھی ہوں۔ رقابت کا مطلب یہ ہے، انتخابات کے سلسلے میں ایک سب سے اہم بات، یہ مقابلہ آرائي اور کمپیٹیشن ہے۔ رقابت کا مطلب یہ ہے کہ سبھی پرچار کر سکیں البتہ صحیح پرچار۔ اگر حیات رہی تو ان شاء اللہ میں بعد میں پرچار کے سلسلے میں بھی کچھ عرض کروں گا۔ پرچار، اخلاق و مذہب کی حدود میں رہ کر کرنا چاہیے۔ پرچار کا مطلب الزام تراشی نہیں ہے، پرچار کا مطلب جھوٹ بولنا نہیں ہے، جھوٹے وعدے کرنا نہیں ہے۔ پرچار کا مطلب یہ ہے کہ انسان لوگوں کے سامنے اپنے خیالات اور نظریات کو بیان کرے، پرچار کا مطلب یہ ہے اور ان شاء اللہ یہ سبھی کے لیے فراہم ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں باتیں کافی زیادہ ہیں۔ انتخابات کے صحیح و سالم اور بحفاظت انعقاد کے بارے میں بھی ان شاء اللہ اگر عمر رہی تو بعد میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔
بنابریں انتخابات کے مسئلے کو ہمیشہ یاد رکھیے۔ بعض لوگ، انتخابات کے سلسلے میں عوام کے جوش پر پانی ڈال دیتے ہیں، یہ ایک غلط کام ہے، یہ بالکل نامناسب ہے اور ملک کے نقصان میں ہے۔ یہ "ملک" کے نقصان میں ہے، فلاں شخص اور فلاں انسان کے نقصان میں نہیں ہے، ملک کے نقصان میں ہے۔ کچھ لوگ، انتخابات کے سلسلے میں عوام کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے، مسلسل ملک کے مسائل کو نظروں کے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ اگر مسائل موجود ہیں تو ان کا حل کیا ہے؟ مسائل کے حل کا راستہ الیکشن ہے۔ اتفاق سے مشکلات کو دور کرنے کے لیے انتخابات میں شرکت کرنی چاہیے۔ تو یہ باتیں انتخابات کے سلسلے میں تھیں۔
اور اب غزہ کے بین الاقوامی اور اسلامی مسئلے کے بارے میں کچھ باتیں۔ غزہ کے واقعے کو شروع ہوئے ڈھائي مہینے ہو چکے ہیں۔ یہ واقعہ، عالم اسلام کی حالیہ تاریخ کا ایک بے نظیر واقعہ ہے، حالیہ تاریخ میں، شاید پچھلی ایک صدی میں، ہمارے سامنے ایسا کوئي واقعہ نہیں ہے، یہ ایک بہت غیر معمولی واقعہ ہے، ایک بے مثال واقعہ ہے۔ کس طرح سے بے مثال واقعہ ہے؟ دو پہلوؤں سے، دو جہات سے یہ واقعہ بے مثال ہے۔ صیہونی حکومت کے پہلو سے یہ واقعہ بے مثال ہے، کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی سفاکی، اس طرح کے جرائم، اس طرح کی حیوانیت تاریخ کے اس دور میں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا، ہرگز نہیں دیکھی گئي، اس طرح بچوں کا قتل، اس طرح اسپتالوں کے مریضوں پر بنکر بسٹر بم گرانا، اس طرح کی بے رحمی، اس طرح کی خباثت عدیم المثال ہے اور کبھی نہیں دیکھی گئي۔ یہ بات صیہونی حکومت کے پہلو سے تھی۔ دوسری طرف فلسطینی عوام اور فلسطینی مجاہدین کی جانب سے بھی ایسی مزاحمت، ایسا صبر، ایسی استقامت اور دشمن کو اس طرح پاگل بنا دینا دیکھا نہیں گیا۔ غزہ کے لوگ، غزہ کے مجاہدین چٹان کی طرح، پہاڑ کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں، یہ بہت اہم چیز ہے۔ پانی نہیں پہنچ رہا ہے، کھانا نہیں مل رہا ہے، ایندھن نہیں پہنچ رہا ہے، پانی نہیں پہنچ رہا ہے! لیکن وہ ڈٹے ہوئے ہیں اور گھٹنے نہیں ٹیک رہے ہیں، یہ بہت اہم چیز ہے، یہی گھٹنے نہ ٹیکنا، انھیں فاتح بنائے گا جیسا کہ فتح کی علامتیں آج دکھائي دے رہی ہیں۔ "اِنَّ اللہَ مَعَ الصّابِرین"(4) خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صیہونی حکومت، اپنے تمام تر جنگي ہتھیاروں کے ساتھ، تمام تر وسائل کے ساتھ، فلسطینی مجاہدین کے مقابلے میں، جن کے ہتھیاروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت کے ہتھیاروں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں، ناتواں ہو گئي ہے، اس نے اپنی فوج کے کئي اہم اور سرگرم حصوں کو میدان سے باہر نکال لیا ہے۔(5) کیونکہ اس نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے اور صرف جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے، یہ باتیں اہم ہیں، یہ بے مثال واقعات ہیں۔
ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس واقعے میں صیہونی حکومت کی شکست صرف صیہونی حکومت کی شکست نہیں ہے، امریکا کی بھی شکست ہے۔ آج دنیا میں کوئي بھی صیہونی حکومت اور امریکا یا برطانیہ میں کوئي فرق نہیں سمجھتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ ایک ہیں۔ امریکا بڑی بے شرمی سے بمباری رکوانے اور جنگ بندی کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کر دیتا ہے(6)۔ ان میں کوئي فرق نہیں ہے، یہ سب ایک ہیں۔ اس کے ویٹو کرنے کا مطلب کیا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ وہ بچوں، عورتوں، مریضوں، بوڑھوں اور نہتے لوگوں پر بم گرانے میں صیہونی حکومت کا ساتھ دیتا ہے۔ اس واقعے میں امریکا رسوا ہو گيا، مغربی تمدن کے چہرے سے نقاب اتر گئي۔ فلسطینی قوم کی عظیم فتح اس بات میں ہے کہ اس نے مغرب کو، امریکا کو، انسانی حقوق کے جھوٹے دعووں کو رسوا کر دیا۔ اب سبھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ دکھاوا، انسانی حقوق وغیرہ کا نام لینے کے پیچھے حقیقت کیا ہے۔ امریکا اور برطانیہ کے منحوس عفریت کا کریہہ چہرہ عیاں ہو گيا، پوری دنیا کے تمام لوگوں کے لیے آشکار ہو گيا۔ اسرائيل، امریکا کے بغیر ایسی سفاکی نہیں کر سکتا تھا، اگر امریکا تیار نہ ہوتا تو اسرائيل کی ہمت نہ پڑتی۔ صیہونی حکومت نے امریکا کی پشتپناہی کی وجہ سے ہی اس ڈھائی مہینے کے عرصے میں اتنے زیادہ جرائم کا ارتکاب کیا، یہ بات دنیا میں سبھی لوگ جانتے ہیں۔ امریکا رسوا ہو گيا، خود یہی سب سے بڑی کامیابی ہے، یہ حق کے محاذ اور مزاحمتی محاذ کی سب سے بڑی فتح ہے۔ میدان میں این مجرموں کی شکست کی نشانیاں یکے بعد دیگر سامنے آتی جا رہی ہیں، انسانی محاذ پر بھی یہ پوری طرح سے شکست کھا چکے ہیں، یہ اس میدان کی حقیقت ہے۔ وائٹ ہاؤس کی اصلیت سامنے آ گئي، امریکا اور برطانیہ کی حکومت کا باطن سامنے آ گيا۔
خیر تو آج فریضہ کیا ہے؟ مزاحمت و استقامت کی مدد۔ ہر شخص، جس طرح سے بھی ممکن ہے، مزاحمت و استقامت کی مدد کرے۔ مزاحمت و استقامت کی مدد، ایک فریضہ اور ذمہ داری ہے، صیہونی حکومت کی مدد، جرم اور غداری ہے۔ افسوس کہ بعض مسلم حکومتیں اس جرم کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن انھیں جان لینا چاہیے کہ مسلم اقوام اسے فراموش نہیں کریں گي۔ آج مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ صیہونی حکومت تک اشیاء تیل اور ایندھن وغیرہ نہ پہنچنے دیں جس طرح وہ غزہ کے لوکوں تک پانی نہیں پہنچنے دے رہا ہے، یہ مسلمان حکومتوں کا وظیفہ ہے۔ اور مسلم اقوام کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی حکومتوں سے مطالبہ کریں کہ وہ صیہونی حکومت کی کسی بھی طرح کی مدد کو ختم کر دیں بلکہ اس سے اپنے سارے روابط منقطع کر لیں اور اگر مستقل طور صیہونی حکومت سے رابطہ توڑ لینا ان کے لیے ممکن نہ ہو تو کم از کم عارضی طور پر تعلقات توڑ کر اس خبیث، ظالم، درندہ صفت اور خونخوار حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ آج پوری دنیا کا ضمیر مجروح ہوا ہے، وہ درد محسوس کر رہا ہے۔ امریکا میں، یورپی ممالک میں لوگ سڑکوں پر آ رہے ہیں، یہ مذاق نہیں ہے۔ ان میں سے بعض ممالک اور حکومتوں کی سیاسی شخصیات اپنی حکومتوں کی جانب سے (صیہونی حکومت کی) مدد کی وجہ سے استعفیٰ دے رہی ہیں، یونیورسٹیوں کے چانسلر استعفیٰ دے رہے ہیں، سائنسداں، مفکر اور اہم افراد تنقید کر رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں۔ اپنی حکومت کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت پر اعتراض کر رہے ہیں۔ دنیا کا ضمیر مجروح ہوا ہے لیکن اس کے باوجود، بعض (حکومتیں) بدستور اس سفاک اور جلاد حکومت کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات میں بالکل بھی شک نہ کیجیے کہ فتح، حق کے محاذ کی ہوگي۔ اس بات میں بالکل بھی شک نہ کیجیے کہ ایک دن صیہونی حکومت کا جڑ سے خاتمہ ہو جائے گا اور یہ چیز حتمی مستقبل کا حصہ ہے، خدا کی مدد، طاقت اور اذن سے یہ کام ہو کر رہے گا اور ہمیں امید ہے کہ ان شاء اللہ آپ نوجوان، اس دن کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔
و السّلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
(1) مجلس شورائے اسلامی (پارلیمنٹ) اور ماہرین کونسل کے انتخابات 1 مارچ 2024 کو منعقد ہوں گے۔
(2) 8 مارچ 1997 کو صوبۂ خوزستان کا آٹھ روزہ دورہ۔
(3) 4 اپریل 2023 کو اسلامی جمہوری نظام کے اعلی عہدیداروں سے ملاقات میں خطاب
(4) منجملہ، سورۂ بقرہ، آيت 153، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
(5) غزہ پٹی سے صیہونی فوج کی گولانی بریگیڈ کی پسپائي کی طرف اشارہ
(6) منجملہ، 8 دسمبر 2023 کو غزہ پٹی میں جنگ بندی نافذ کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئي قرارداد کو امریکا کی جانب سے ویٹو کیا جانا۔