بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی ‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.

خوش آمدید کہتا ہوں تمام پیارے بھائیوں اور بہنوں کو۔ مولائے متقیان علیہ الصلاۃ و السلام اور امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ شہیدوں کی پاکیزہ ارواح اور ان کے محترم خانوادوں کو تعظیم پیش کرتا ہوں۔ شہیدوں کی یاد میں منائے جانے والے پروگرام کے منتظمین اور متعلقہ افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ احباب نے یہاں جس نمائش کا اہتمام کیا اسے میں نے دیکھا، جو کام انجام پائے ہیں واقعی بہت اچھے ہیں اور ہمارے ان برادر عزیز نے جو باتیں تہران، شہدائے تہران اور شہیدوں کے اہل خانہ کے تعلق سے بیان کیں بالکل درست اور مسلّمہ ہیں۔ میں بھی تہران کے بارے میں چند باتیں عرض کروں گا اور شہیدوں کے تعلق سے بھی کچھ معروضات پیش کروں گا۔

تہران کے بارے میں کم گفتگو ہوئی۔ ملک کے مختلف شہروں کے بارے میں الگ الگ مناسبتوں سے حقیر نے اور دیگر افراد نے بات کی ہے، مگر تہران کے بارے میں افسوس ہے کہ بہت کم بات ہوئی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تہران کو ملت ایران کی بہت سی خصوصیات کا آئینہ سمجھنا چاہئے۔ یہ حقیقت ہے۔ انقلاب سے متعلق واقعات اور انقلاب سے مربوط چیزوں کے بارے میں ملت ایران کی جو خصوصیات نمودار ہوئیں ان میں ملت ایران کی شجاعت ہے، ملت ایران کی حمیت ہے، ملت ایران کی دینداری ہے، ملت ایران کا جذبہ خود مختاری ہے، دشمن سے مقابلے کا جذبہ وغیرہ ہے۔ میری نظر میں ان  تمام خصوصیتوں کا آئینہ تہران ہے۔ یعنی اگر ہم ان تمام خصوصیات کا کسی ایک معین آبادی میں اور مستند انداز میں مطالعہ کرنا چاہیں تو ہمیں تہران کا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ ساری خصوصیات یہاں مجتمع ہیں۔

انقلاب سے مربوط واقعات تو ایک طولانی باب ہے۔ میں مختصرا عرض کروں گا۔ لیکن انقلاب سے متعلق واقعات اور انقلاب کے تمہیدی اقدامات سے پہلے تقریبا گزشتہ 150 سال میں، اس سے پہلے بھی یہی صورت حال تھی لیکن میں خاص طور پر ان ڈیڑھ سو برسوں کے واقعات پر بات کرنا چاہوں گا، جب ہم ان واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں تو اہل تہران کی نمایاں حیثیت ہمیں صاف نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر رویٹر معاہدے کی بات کریں تو الحاج ملا علی کنی نے تہرانی عوام کی قیادت کرتے ہوئے اس خائنانہ معاہدے کو روک دیا۔ یا تنباکو کا قضیہ اور ٹالبوٹ معاہدہ، وہ بھی ایک خائنانہ معاہدہ تھا، جسے تہران میں میرزا محمد حسن آشتیانی مرحوم نے جو تہران کے بہت عظیم اور صف اول کے عالم دین تھے، میرزا شیرازی اور ان کے حرمت کے فتوے کی پیروی کرتے ہوئے ایک تلاطم برپا کر دیا۔ ایسے حالات پیدا کر دئے کہ شاہی خاندان کے اندر خادموں اور نوکروں نے حقے توڑ دئے میراز شیرازی کے فتوے کی وجہ سے۔ یعنی علما کی قیادت میں تہران کے عوام اس انداز سے اکٹھا اور مجتمع رہتے تھے۔ ان واقعات کے بعد آئینی انقلاب کا مسئلہ ہے۔ آئینی انقلاب کے سلسلے میں عام طور پر تہران کے عوام کے رول کو بیان نہیں کیا جاتا۔ محض 'سفارت خانے کے پلاؤ' وغیرہ جیسے واقعات ہی بیان کئے جاتے ہیں۔ جبکہ یہ سب بعد کے مسائل تھے۔ اصلی ماجرا عدل و انصاف کے مطالبے کا تھا جس کے لئے تہران کے عوام اس جامع مسجد میں اور دوسری جگہوں پر جمع ہوئے تھے، اجتماعات ہوئے تھے، وہ انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے، اس کے لئے انہوں نے بڑی زحمتیں اٹھائیں، تکلیفیں برداشت کیں، مار کھائی، لیکن سرانجام نتیجہ آئینی انقلاب کی صورت میں نکلا۔ اس کے بعد جب جب آئینی انقلاب اپنے راستے سے ہٹنے لگتا، جیسا کہ بعد میں وہ ہٹ بھی گيا، تو شیخ فضل اللہ مرحوم کا قیام اور عوام کا حضرت شاہ عبد العظیم کے حرم میں جانا اور وہاں دھرنا دینا اور اس طرح کے اقدامات، یہ سب تہران کے عوام کے کارنامے سامنے آتے رہے۔ ان واقعات سے لیکر شرمناک 'وثوق الدولہ معاہدے' تک، 1951 میں تیل کے نیشنلائیزیشن کی تحریک تک، اس کے بعد 5 جون کے واقعے تک، 5 جون کے واقعے کے بعد سے آج تک آپ جہاں بھی ایران کی تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اور کوئی اہم جدوجہد ان ڈیڑھ سو برسوں میں دیکھیں گے اس کا مظہر تہران کے عوام ہوں گے۔ کچھ مواقع ہیں جہاں صرف تہران کے لوگ میدان میں آئے اور کچھ مواقع پر دوسروں نے بھی ان کا ساتھ دیا لیکن تہران آگے آگے رہا،  پیش قدم رہا۔ یہ بہت اہم ہے۔ کسی شہر کی شناخت اس انداز سے تیار کی جانی چاہئے، کسی شہر کے کارناموں کو اس طرح سمجھنا اور دیکھنا چاہئے۔

جن واقعات کا ہم نے ذکر کیا ان میں بیشتر وہ ہیں جو اسلامی انقلاب سے قبل رونما  ہوئے۔ اسلامی انقلاب کے معاملے میں مختلف شہروں نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔ جیسے قم، جیسے تبریز، جیسے اصفہان، جیسے مشہد نے لیکن ان تمام واقعات میں تہران پیش پیش رہنے والے شہروں میں تھا اور اس کے بعد جب اس فیصلہ کن واقعے کی باری آئی، یعنی 1979 میں جب تحریک نے انقلاب کی شکل اختیار کر لی تو پھر جو کچھ بھی تھا وہ تہران تھا، پورے ملک کو حوصلہ دینے والے تہران کے عوام تھے۔ 1978 میں قیطریہ کی نماز عید فطر کے واقعے کو آپ ذہن میں رکھئے۔ شہید بہشتی مرحوم وغیرہ کی مدبرانہ کوششوں سے وہ نماز عید شروع ہوئی، شہید مفتح اس نماز عید کے امام تھے۔ اس کی صدائے بازگشت پورے ملک میں سنائی دی، یعنی ہم مشہد میں تھے تو تہران کے واقعات کے بارے میں وہاں سنتے تھے۔ جب بھی کسی واقعے کی خبر پہنچتی تو مختلف علاقوں میں ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا۔ تہران اس انداز سے ہراول دستے کا رول ادا کر رہا  تھا۔ قیطریہ کی نماز عید، میدان شہدا کا 7 ستمبر کا واقعہ، تاسوعا کا جلوس، عاشور کا جلوس، یہ جلوس دوسری جگہوں پر بھی نکلے لیکن اسے تہران سے لیڈ کیا جا رہا تھا۔ تہران سے لوگوں نے مشہد میں خود ہم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ تاسوعا کو جلوس نکالنا ہے، عاشورا کو جلوس نکالنا ہے، اس وقت ہم نے مشہد میں انتظامات کئے تھے۔ تو تہران پیش پیش تھا۔

ان تمام واقعات میں، اس پورے ڈیڑھ سو سال کے عرصے میں جو میں نے عرض کیا، اسی طرح 1978 اور 1979 کے واقعات میں، عوام کے جم غفیر میں علمائے دین آگے ہوتے تھے۔ الحاج ملا علی کنی جیسے علما جن کا نام میں نے لیا، میرزا محمد حسن آشتیانی اور آقا شیخ فضل اللہ نوری وغیرہ سے لیکر شہید بہشتی، شہید باہنر، شہید مفتح اور شہید مطہری تک علما پیش پیش تھے اور عوام کی کثیر تعداد جس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے تھے، علما کے پیچھے چلتی تھی۔ یہاں تک کہ تہران یونیورسٹی، تہران یونیورسٹی علما کے مظاہرے کی جگہ بن گئی۔ ہم گئے اور بیٹھ کر بات ہوئی کہ کہاں دھرنا دیا جائے، کئی جگہوں کی تجویز دی گئی، ایک صاحب نے کہا تہران یونیورسٹی، سب نے حمایت کی۔ ہم اٹھے اور ہم نے جاکر تہران یونیورسٹی میں کئی دن دھرنا دیا، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی واپسی تک۔ یعنی تہران یونیورسٹی اسی تحریک کے لئے استعمال ہوئی، یہ کام بھی علما کے مرکزی کردار میں اور ان کی قیادت میں انجام پایا۔

یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ سارے کام تہران میں انجام پائے۔ تہران کہاں ہے؟ تہران کیا ہے؟ تہران وہی شہر ہے جہاں قومی اور اسلامی تشخص ختم کرنے کی سب سے زیادہ کوششیں ہوئیں۔ پہلوی حکمرانوں کے دور میں۔ پہلوی حکمرانوں سے پہلے بھی یہ کوششیں ہوئیں، بعد میں میں ان کا ذکر کروں گا، کوشش کی گئی کہ تہران یورپی شہروں ہم شکل بن جائے، البتہ ترقی کے لحاظ سے نہیں، جنسی بے راہروی اور لا ابالی پن سے لیکر شراب نوشی میں مسلسل اضافے تک، مردوں اور عورتوں کے میک اپ  اور لباس تک، اس طرز کے کیبرے اور کیفے تک، اس زمانے کے 'نوجوانوں کے محل' جیسے فسق و فجور اور فساد کے مراکز تک، صرف اس اعتبار سے۔ حکومتی اداروں کی طرف سے تہران کو اس طرح کی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش تھی۔ ادارے ان چیزوں کی بڑی سنجیدگی سے ترویج کرتے تھے اور اس پر کام کرتے تھے یہ ساری چیزیں انجام پائیں کہ تہران کو ان جیسی چیزوں کے ذریعے بالکل الگ شہر بنا دیں۔ یہ کوششیں تہران میں کی جا رہی تھیں، دوسرے کسی شہر میں انجام نہیں دی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر شیراز کے آرٹ جشن میں، کچھ اقدامات کئے گئے لیکن وہ عارضی تھے۔ تہران میں یہ سب دائمی بنیادوں پر ہوتا تھا۔ لیکن جو کچھ وہ چاہتے تھے وہ نہیں ہوا۔ وہ چاہتے تھے کہ تہران کا دینی تشخص، اسلامی تشخص، مذہبی تشخص اور ملی تشخص ختم ہو جائے اور اسے وہ ایک معیوب شکل میں، یورپی شہروں کی بری کاپی میں تبدیل کر دیں، لیکن وہ جو چاہتے تھے نہیں ہوا۔

کیوں نہیں ہوا؟ بے شک تہران میں کچھ جگہوں پر غلط مغربی جھلک پیدا ہوئی۔ ہم نے قریب سے دیکھا تھا، تہران کی حالت سے ہم آگاہ تھے۔ لیکن تہران میں اسلامی، روحانی اور دینی فکر کے مطابق جو کام انجام دئے گئے وہ ملک کے کسی بھی اور شہر میں ںہیں ہوئے۔ روشن فکر، کھلے ذہن والے اور نئے نظریات پیش کرنے والے فعال دینی حلقے تہران میں ملک کی دوسری جگہوں کی نسبت زیادہ وجود میں آئے اور پروان چڑھے۔ آباد مسجدیں، روشن فکر مجاہد علمائے دین، بڑے دینی اجتماعات، البتہ بڑے اجتماعات اس زمانے کے اعتبار سے، آج کے دور کے اعتبار سے نہیں کہ جب اجتماعات میں شامل ہونے والوں کی تعداد اس زمانے کے اجتماعات کے مقابلے میں دسیوں گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ اس زمانے کے اعتبار سے تہران کے اجتماعات میں لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ مجالس عزا میں بھی اور دیگر دینی پروگراموں میں بھی۔ تہران کے مختلف حصوں میں حالات کا رخ بدل دینے والی مذہبی تقریریں، سیاسی اسلام جو تہران میں مختلف تقریروں میں اور منبروں کے خطبات میں، مختلف مسجدوں میں اور دینی انجمنوں میں ترویج پا رہا تھا، دینی علامات جو نوجوانوں کے لئے بڑی پرکشش ہوتی تھیں، گھروں میں جو انجمنوں کے پروگرام ہوتے تھے۔ یہ باتیں جو میں عرض کر رہا ہوں یہ میں نے قریب سے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔ گھر گھر دینی انجمنوں کے پروگراموں میں یونیورسٹی کے نوجوان شریک ہوتے تھے، ان پروگراموں میں شرکت کے لئے اپنی کلاس تک چھوڑ دیتے تھے۔ تہران میں ایسی صورت حال تھی جو اس ماحول کے عین مخالف تھی جو گمراہ پہلوی حکومت ایران میں اور خاص طور پر دار الحکومت تہران میں پیدا کرنا چاہتی تھی۔

تو 1978-1979 کے دور میں تہران دیگر شہروں کے لئے مثالیہ بن گیا۔ آپ جو دیکھتے تھے کہ مکمل ہم آہنگی کے ساتھ یہ نعرے پورے ملک میں گونجنے لگتے تھے، ان کا سرچشمہ تہران ہوتا تھا۔ چھتوں پر جاکر اللہ اکبر کا نعرہ لگانا تہران والوں نے شروع کیا تھا اور دوسری جگہوں تک اس کی خبر پہنچائی۔ میں خود مشہد میں تھا، رات کے وقت ہمارے ایک تہرانی دوست نے جو جدوجہد میں شامل تھے مجھے فون کیا اور کہا کہ "سنئے" رسیور اوپر کی طرف کر دیا، میں نے سنا کہ 'اللہ اکبر' کے نعرے گونج رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ بھی اللہ اکبر کے نعرے لگائیے۔ میں بھی بچوں کے ساتھ جو اس وقت چھوٹے تھے، چھت پر گیا اور ہم نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگانا شروع کر دیا۔ یہ چیزیں تہران سے شروع ہوتی تھیں اور پورے ملک میں پھیل جاتی تھیں۔ تحریک شروع ہونے کے بعد سے انقلاب کی کامیابی تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ 5 جون کا واقعہ، 8 ستمبر کا واقعہ 20 جون 1981 کو 'منافقین' کا فتنہ، جھنجھوڑ دینے والی تہران کی نماز جمعہ، 'بسیجیوں' کے اقدامات، 1986 میں آزادی اسٹیڈیم میں ایک لاکھ بسیجیوں کا اجتماع، دوسرے گوناگوں اجتماعات جو آج تک جاری ہیں۔ تہران کے عوام نے واقعی کوئی کسر نہیں رکھی۔ تو تہران کے شہیدوں پر پروگرام کے انعقاد کے ساتھ ہی تہران کی انقلابی شناخت کا دستاویز بھی آمادہ ہونا چاہئے۔ جیسے دوسرے شہروں کے بارے میں ہوا ہے۔ یعنی تہران کا یہ انقلابی تشخص نوجوانوں کے سامنے واضح ہونا چاہئے۔ آپ حضرات جو یہاں ہیں ان میں اکثر نے ان واقعات کو نہیں دیکھا ہے۔ ہم نے بھی ان واقعات کو قلمبند کرنے میں کوتاہی کی۔ بہت سے افراد کو واقعات کی خبر نہیں ہے۔ یہ چیزیں بیان کی جانی چاہئیں۔ شہیدوں کی بلند قامت یادگار کے ساتھ جن کے چہرے نور کی طرح چمکتے ہیں اور زندگی اور دلوں میں اجالا بکھیرتے ہیں، اسی طرح عام لوگوں کی کوششوں اور سرگرمیوں کی یادیں بھی بیان کی جائیں، سامنے لائی جائیں۔ یہ کچھ باتیں تھیں تہران کے سلسلے میں۔

شہیدوں کے بارے میں ایک بات عرض کر دوں۔ شہیدوں کے بارے میں پر مغز اور گہر بار کلمات ائمہ علیہم السلام سے منقول ہیں۔ اس کے علاوہ بزرگ ہستیوں، انقلاب کی بڑی شخصیتوں، امام خمینی اور دوسری ہستیوں نے بھی بہت کچھ کہا ہے۔ شہدا کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن ان سب میں سر فہرست قرآن اور اللہ تعالی کا شہدا کے تعلق سے بیان ہے جس کا کسی بھی دوسرے بیان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ جو ارشاد ہوتا ہے: «اِنَّ اللَہَ اشتَرىٰ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَھُم وَ اَموالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّةَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللَهِ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون»، «اِنَّ اللَہَ اشتَرىٰ» یعنی سودا اللہ کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ کہاں بندہ اور کہاں خدا! مگر پھر بھی اللہ سودا کرتا ہے! ہماری جان کا سودا اس سب سے عظیم تحفے کے عوض جو کسی انسان کو نصیب ہو سکتا ہے، یعنی بہشت کے عوض۔ رضائے پروردگار کی جنت۔ اس کے بعد اس طرح واضح الفاظ میں کہتا ہے کہ «یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللَہ» جاکر اللہ کی راہ میں جہاد کریں، جنگ کریں، «فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون» یہ اسلام کے دور تک محدود نہیں ہے۔: وَعدًا عَلَیهِ حَقًّا فی التَّوراةِ وَ الاِنجیلِ وَ القُرآن (2) توریت میں بھی ایسا ہی ہے اور انجیل میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے عزیز قاری نے جو آیت پڑھی وَ کَاَیِّن مِن نَبِیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبِّیّونَ کَثیر(3) ــ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ موضوع سارے انبیا سے مربوط ہے۔ یا یہ آیہ کریمہ: «وَ لا تَحسَبَنَّ الَّذینَ قُتِلوا فی سَبیلِ اللَہِ اَمواتًا بَل اَحیاءٌ عِندَ رَبِّھِم یُرزَقون»؛(4) یہ شہدا اور شہادت کی فضیلت سے مربوط بیان ہے۔ اس سے بالاتر کوئی بیان نہیں ہے۔ انسان کیا کہہ سکتا ہے؟

میں بس ایک نکتہ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شہدا میں سب کے درجات عالی ہیں لیکن سارے شہیدوں کے درجات ایک جیسے نہیں ہیں۔ مثلا شہدائے کربلا سارے شہیدوں سے بالاتر ہیں۔ بعض شہدا کے بارے میں ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوا ہے کہ قیامت کے دن وہ دیگر شہیدوں کے کاندھوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے بہشت میں وارد ہوں گے۔ بعض شہیدوں کے بارے میں کہا گیا کہ ان میں ہر ایک کو دو شہید کا اجر ملے گا۔ اس کا اجر دوگنا ہے۔ تو شہدا ایک جیسے نہیں ہیں۔ شہید کا درجہ و مقام شہادت کے ہدف کی بنیاد پر اور شہادت کے طریقے کی بنیاد پر الگ ہو جاتا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب میں الگ الگ طرح کے شہید جو شہادت سے ہمکنار ہوئے، سارے شہدا، چاہے وہ شہید ہوں جو انقلابی تحریک سے متعلق واقعات میں شہید ہوئے یا وہ شہید ہوں جو مقدس دفاع کے دوران شہید ہوئے، خواہ وہ شہید ہوں جو فتنہ و آشوب کے الگ الگ واقعات میں شہید ہوئے، چاہے وہ شہید ہوں جو سیکورٹی اور میڈیکل شعبے میں خدمات سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوئے یا وہ شہید ہوں جو دفاع حرم میں شہید ہوئے۔ یہ بڑے بلند درجات کے مالک ہیں، اللہ کی بارگاہ میں بڑی رفعتوں والے شہیدوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ وہ ایک ایسی تحریک کے دفاع میں شہید ہوئے اور ایک ایسے واقعے میں شہید ہوئے جو اسلام کے دور میں اور تمام ادیان کی تاریخ میں رونما ہونے والے بہت سارے واقعات میں سب سے اوپر ہے۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ وہ واقعہ ہے اسلامی مملکت کو، دنیائے اسلام کو اغیار پر انحصار سے نجات دلانا اور کفر کی ثقافت اور استکبار کی ثقافت میں جذب ہوکر ختم ہو جانے سے بچانا ہے۔ اسلامی انقلاب میں یہ کام ہوا ہے۔ اسلامی انقلاب نے سب سے پہلے تو ایران کو کفر و استکبار کے کلچر یعنی مغربی کلچر میں جذب ہوکر مٹ جانے سے بچایا اور نجات دی اور اس کے بعد آپ عالم اسلام پر اس کی تاثیر کا ملاحظہ کر رہے ہیں۔ یقینا ہم نے کسی کو بھی لائحہ عمل نہیں دیا ہے۔ بلکہ یہ انقلاب کی تاثیر ہے۔ میں نے بار بار کہا ہے (5) انقلاب بہار کے جھونکے کی مانند ہے، خوشگوار ہوا کی مانند ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا۔ بہار کے دلنشیں موسم میں چمن سے خوشگوار اور معطر ہوا نکلتی ہے اور جا بجا پھیل جاتی ہے۔ اسے روکا نہیں جا سکتا۔ یہ ضرورت نہیں پڑتی کہ کوئی اسے دوسری جگہ  پہنچائے۔ وہ فطری طور پر خود ہی پہنچ جاتی ہے۔ آج آپ عالم اسلام میں اس کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔

فکر و استکبار کے کلچر میں جذب ہو جانے اور گھل جانے کا عمل پہلوی دور حکومت سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔ قاجاریہ دور میں شروع ہو چکا تھا۔ اس کی شروعات کرنے والے یہی دربار اور بادشاہوں سے وابستہ افراد، بد عنوان، مفت خور، آرام طلب، بے مصرف اور بد کردار شہزادے تھے۔ انہوں نے مغربی ثقافت کو لے لیا اور سماج میں ان کا جو اثر تھا، یعنی پیسے اور طاقت وغیرہ کی وجہ سے جو دبدبہ تھا اس کی مدد سے انہوں نے رفتہ رفتہ یہ چیز معاشرے میں رائج کی۔ پہلوی حکمرانوں کی باری آئی تو انہوں نے اس فساد کو، اس متعدی بیماری کو اوج پر پہنچا دیا کہ ملک کو حقیقی معنی میں مغربی طاقتوں سے جوڑ دیں اور انہیں سے آویزاں کر دیں۔ انگریز کافی عرصہ پہلے ایران میں داخل ہو چکے تھے، تمہیدی اقدامات کئے تھے، کچھ کام کر لئے تھے لیکن انہیں نے محسوس کیا کہ یہ مقصد پورا نہیں ہو رہا ہے۔ جو لوگ ان کی تاریخ سے باخبر ہیں انہیں اندازہ ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ وثوق الدولہ معاہدہ ایران کو فروخت کر دینے والا معاہدہ تھا شہید مدرس مرحوم سختی کے ساتھ مخالفت میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے نہیں ہونے دیا۔ جب دیکھا کہ نہیں ہو پا ر ہا ہے تو معاہدہ ختم کر دیا گیا۔ یا تنباکو کے معاہدے میں الگ انداز سے ہوا، ایسے ہی دیگر واقعات ہیں۔ جب دیکھا کہ اس طرح نہیں ہونے والا ہے۔ براہ راست سامنے آنا ہوگا۔ وہ براہ راست وارد ہوئے اور رضاخان کو جو کسی زمانے میں برطانوی سفارت خانے کے محافظ قزاقوں میں تھا، اسے وہ وہیں سے جانتے تھے، اسے اٹھایا، بڑی اہمیت دی، اوپر تک پہنچایا، اسے طاقت دی، اس کے ارد گرد کچھ پٹھو روشن خیال افراد کو جمع کر دیا، لاکر بٹھا دیا۔ رضا خان کے پورے دور حکومت میں جو صورت حال پیدا ہوئی، یہ دین سے دشمنی، اسلام سے دشمنی، خود مختاری سے دشمنی، حجاب سے دشمنی، مجالس عزا سے دشمنی، علمائے دین سے دشمنی، یہ اس طرح شروع ہوئی۔ رضاخان کے دور میں کسی انداز سے، رضا خان کے بعد کے دور میں کسی اور انداز سے، یہ کام ہو رہا  تھا۔

واقعی اللہ نے ملت ایران پر رحم کیا کہ یہ انقلاب آ گیا ورنہ جس انداز سے یہ لوگ آگے جا رہے تھے ہمارے ملک کی حالت ان تمام مغرب زدہ ملکوں سے ابتر ہو جاتی جنہیں ہم جانتے ہیں۔ انقلاب آیا تو اس عمل کا سد باب ہو گیا۔ اسلامی انقلاب نے ایک ٹھوس اقدام کے ذریعے سقوط و انحطاط کے اس عمل کو روک دیا اور ملک کو نجات دلائی۔ جو جدوجہد انقلاب  کے ساتھ شروع  ہوئی وہ تشخص کی لڑائی تھی، وجود کی لڑائی تھی، ملت ایران کے تشخص کی لڑائی تھی، ملت ایران کے وجود کی لڑائی تھی، ملت ایران کی تاریخ نابود ہونے والی تھی اسے بچایا گيا۔ جو لوگ اس راہ میں قتل ہوئے وہ اس ہدف کے لئے قتل ہوئے، جو لوگ اسلامی انقلاب کی راہ میں شہید ہوئے، خواہ وہ کسی طرح کی بھی شہادت ہو، وہ اس راہ کے شہید ہیں۔ اس طرح وہ شہید ہوئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

تو ہمارے شہدا اعلی ترین شہیدوں میں ہیں۔ تہران کے 24 ہزار شہید! البتہ کئی سال پہلے صوبہ تہران کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک پروگرام ہوا۔ صوبہ تہران کے 36 ہزار شہید ہیں۔ ملک کے دیگر مقامات سے تعلق رکھنے والے شہدا خواہ مسلط کردہ جنگ کے شہید ہوں، دفاع حرم اہل بیت کے شہید ہوں، یا بقیہ شہدا ہوں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ سب عظیم شہیدوں میں ہیں۔ ان شہیدوں کے خون سے اس انقلاب کو ثبات و دوام ملا۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ شہیدوں نے آج تک ہمیں اس راہ پر ثابت قدم رکھا ہے۔ جہاں بھی ہمارے اندر کمزوری پیدا ہوئی، کسی شہید کے نام سے، کسی شہید کے عمل سے، کسی شہید کے قیام سے، کسی شہید کی شہادت سے ہمیں پھر نیا حوصلہ ملا اور ہم چاق و چوبند ہو گئے۔ جب شہید سلیمانی شہید ہوتے ہیں تو ملت ایران کو نئی قوت ملتی ہے، انقلاب کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔ لہذا جو کام آپ  نے کیا، شہیدوں کو خراج عقید پیش کرنے کا عمل، وہ بہت عظیم کام ہے، بہت اہم کام ہے، ان پروگراموں کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ شہیدوں نے جو راستہ طے کیا اور جسے انہوں نے ہموار کیا ہمارے نوجوان، ہماری نئی نسلیں جو میدان میں آ رہی ہیں، اس پر گامزن ہوں۔

ایک بات غزہ کے انتہائی اہم مسئلے کے بارے میں عرض کر دوں۔ اسلامی ممالک کے حکام کبھی جمع ہوتے ہیں تو وہ ایک بات کرتے ہیں، انٹرویو دیتے ہیں اور ایک بات کہتے ہیں۔ جو کام انھیں کرنا چاہیے، وہ انجام ہی نہیں پاتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جنگ بندی ہونی چاہیے۔ ارے بھئی جنگ بندی تو آپ کے ہاتھ ہی میں نہیں ہے۔ جنگ بندی اس خبیث کے ہاتھ میں ہے، اس دشمن کے ہاتھ میں ہے، آپ وہ چیز پاس کرتے ہیں جو آپ کے ہاتھ ہی میں نہیں ہے۔ کچھ چیزیں ہیں جو آپ کے ہاتھ میں ہیں، آپ انھیں پاس نہیں کرتے۔ وہ کیا ہے؟ صیہونی حکومت کی حیاتی شریانوں کو کاٹ دینا۔ یہ آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ اس کی مدد نہ کریں، اس کی پشت پناہی نہ کریں، سیاسی و معاشی رابطے کو ختم کر دیجیے، یہ کام آپ کر سکتے ہیں۔ یہ چیز اس دشمن کو کمزور بنائے گی اور اسے میدان سے باہر نکال دے گی، یہ کام آپ کر سکتے ہیں، اسے پاس کیجیے۔ اس چیز کو پاس کیجیے۔ مسلم حکام اس کا ذکر نہیں کرتے، ایسی چیز کو منظوری دیتے ہیں جو ان کے ہاتھ ہی میں نہیں ہے۔ ان سب کے باوجود جیسا کہ خداوند عالم نے فرمایا ہے: إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوا وَّالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ (بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو نیکوکار ہیں۔ سورۂ نحل، آيت 128) 

خدا مومنوں کے ساتھ ہے اور جہاں خدا ہوگا وہاں فتح ہوگی۔ البتہ سختیاں بھی ہیں، سختیاں پائی جاتی ہیں۔ پیغمبر کے بارے میں بھی خداوند متعال فرماتا ہے چاہے ہم آپ کو زندہ رکھیں یا دنیا سے اٹھا لیں، آپ کے دشمنوں کا انجام یہ ہوگا۔ اس کی شرط میرا اور آپ کا زندہ رہنا نہیں ہے لیکن فتح یقینی ہے۔ ان شاء اللہ خداوند متعال یہ فتح پوری امت مسلمہ کو مستقبل قریب میں دکھائے گا اور دلوں کو خوش کرے گا اور سب سے بڑھ کر فلسطینی قوم اور غزہ کے مظلوم عوام کو بھی خوش اور مسرور کرے گا۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس دعا کو مستجاب فرمائے اور رجب کے اس مبارک مہینے، دعا کے مہینے اور استغفار کے مہینے میں ہمارے دلوں کو انوار الہیہ کی تجلی کی میزبانی کے لئے زیادہ سے زیادہ آمادہ فرمائے۔

والسّلام علیکم و رحمۃ ‌الله و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب کی محمد رسول اللہ تہران ڈیویژن کے کمانڈر اور سیمینار کے سکریٹری بریگیڈیئر سردار حسن حسن زادہ نے ایک رپورٹ پیش کی۔
  2. سورہ توبہ آیت نمبر 111: بے شک اللہ تعالیٰ نے مؤمنین سے ان کی جانیں خرید لی ہیں اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے بہشت ہے وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں پس وہ مارتے بھی ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں (ان سے) یہ وعدہ اس (اللہ تعالیٰ) کے ذمہ ہے تورات، انجیل اور قرآن (سب) میں اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا ہے؟ پس اے مسلمانو! تم اس سودے پر جو تم نے خدا سے کیا ہے خوشیاں مناؤ۔ یہی تو بڑی کامیابی ہے۔
  3. سورہ آل عمران آیت 146 کا ایک حصہ: بہت سے پیغمبر ہو سکتے ہیں جن کے ساتھ لوگوں کے جم غفیر نے جنگ کی۔
  4. سورہ آل عمران آیت 169: ہرگز جو راہ خدا میں قتل کر دئے گئے انہیں مردہ گمان نہ کرو، بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں روزی پاتے ہیں۔
  5. بسیج فورس کے افراد کے درمیان خطاب 26 نومبر 2022