پہلی بار ووٹ دینے والا ایک نوجوان، جو مجھ سے آگے کی لائن میں کھڑا تھا، اپنے چہرے کو مفلر سے مضبوطی سے چھپا رہا تھا جبکہ کچھ دوسرے نوجوان، اس موضوع کے بارے میں بات کر رہے تھے جو انھوں نے پچھلے ہفتے اپنی کلاس میں پڑھا تھا۔ اگرچہ موسم بہت زیادہ ٹھنڈا تھا اور امام بارگاہ میں داخلے کی لائن بڑی طویل تھی لیکن پہلی بار ووٹ ڈالنے والے نوجوان، پانی سے بھری نالی کے ساتھ ساتھ، بڑے اشتیاق کے ساتھ لائن میں کھڑے تھے اور اندر داخل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔
میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا: کیا تم پہلی بار ووٹ ڈالوگے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، میں پہلی بار ووٹ ڈالوں گا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ رہبر انقلاب سے ملاقات میں کتنی بار شامل ہو چکے ہو؟ اس نے جواب دیا: میں پہلی بار ملوں گا۔
دلچسپ بات تھی، پہلی بار ووٹ ڈالنے والا نوجوان اور پہلی ہی بار رہبر انقلاب سے ملاقات کرنے جا رہا تھا۔ مجھے وہ الیکشن یاد آ گيا جس میں میں نے پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔ میں نے ایران کا پرچم ہاتھ میں لئے، صبح سویرے اپنا ووٹ ڈالا تھا۔ حالانکہ جس امیدوار کو میں نے ووٹ دیا تھا وہ کامیاب نہیں ہو پایا لیکن مجھے ووٹنگ میں اپنی شرکت پر، اپنے حق رائے دہی کے استعمال پر اور میں نے تمام امیدواروں کے ووٹوں کے فیصد پر جو اثر ڈالا تھا، اس پر مجھے فخر تھا۔ میں اپنے ووٹ ڈالنے پر فخر کرتا تھا کیونکہ الیکشن میں میری شراکت کے مظاہرے نے، رہبر انقلاب کے بقول، ایران کے دشمنوں کو "ملک پر حریص نگاہ ڈالنے" ، "ملک کو نقصان پہنچانے" اور اسی طرح "فتنہ پھیلانے کی اپنی چالوں کو آگے بڑھانے" کی سوچ کی طرف سے مایوس کر دیا تھا۔
پہلی بار ووٹ ڈالنے والا وہ نوجوان مشہد سے آیا تھا اور شریف یونیورسٹی میں فزکس کا اسٹوڈنٹ تھا۔ اسی کی طرح پہلی بار ووٹ ڈالنے والا ایک دوسرا نوجوان اسی لائن میں اپنے دوست سے عربی میں باتیں کر رہا تھا۔ میرا اندازہ صحیح تھا وہ جنوبی ایران کا ایک عرب ہموطن تھا۔ وہ آبادان سے آيا تھا اور وہ بھی ملک کی ایک بہترین یونیورسٹی، تہران یونیورسٹی میں میٹالوجی کا اسٹوڈنٹ تھا۔ وہ ایک توانائي عطا کرنے والا اور امید دلانے والا جمگھٹا تھا۔ ایک طرف، نوجوانی کا جوش اور ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہونے کی سوچ اور دوسری طرف ایک صحیح امیداوار کے انتخاب کے لیے منطق اور استدلال اکٹھا ہو گئے تھے۔ وہ نوجوان رہبر انقلاب کی باتیں بھی سننے کے لیے آئے تھے تاکہ ایک بہتر انتخاب کی کسوٹی میں ان باتوں کو بھی پیش نظر رکھیں۔
ہم جب حسینیۂ امام خمینی میں داخل ہوئے تو وہاں جوانی کا جوش پوری طرح سے عیاں تھا۔ رہبر انقلاب کی آمد سے پہلے امام بارگاہ میں کسی کے اشعار پڑھنے کی آواز گونج رہی تھی۔ وہ سیاسی مضامین کے ساتھ جوش دلانے والے اشعار تھے۔ زیادہ تر اشعار کے بعد جوانوں کی طرف سے تعریف اور واہ واہ کی آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ ان اشعار میں سے ایک شعر یہ تھا۔
رایم اگر بہ درد نخور بود پس چرا دشمن ہراس دارد از این ازدحامہا
(اگر میرا ووٹ بے فائدہ ہے تو پھر کیوں دشمن ان اجتماعات سے ہراساں ہے)
اپنے رہبر کو دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کے لیے مجمع کا اشتیاق ناقابل بیان تھا۔ انتظار کے انہی لمحات میں سے ایک میں، رہبر انقلاب اسلامی امام بارگاہ میں داخل ہوئے۔ انھیں دیکھنے کے لیے وہاں موجود نوجوانوں کا مجمع کھڑا ہو گيا۔ بیٹھنے کی جو ترتیب تھی وہ تقریبا پوری طرح بدل گئی اور میں بھی ایک ستون کے پاس پہنچ گيا، جہاں سے رہبر انقلاب کو دیکھنے کا زاویہ بھی بہت اچھا نہیں تھا۔ اسی اثنا میں، میں اس سوچ میں پڑ گيا کہ ووٹ ڈالنے کا حق، کتنی اقوام اور کتنے افراد کی دلی آرزو رہی ہے جن میں بعض کو یہ حق حاصل ہوا جبکہ بعض دیگر اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ بعض لوگوں نے اس راہ میں اپنی جان کی بھی قربانی دے دی اور اس طرح شاید وہ خود تو نہیں لیکن اپنے بعد کی نسلوں کو اس حق سے بہرہ مند کر گئے۔ آمریت و سلطنت کے خاتمے اور عوام تک اقتدار کی منتقلی کے لیے کتنا خون بہایا گيا اور کتنا خون اقتدار پرست لوگوں کے ذاتی فیصلوں کی وجہ سے پامال کیا گيا یا پھر سیاستدانوں اور دھڑوں کے مفادات کی وجہ سے عوامی مطالبوں کو نظر انداز کر دیا گيا۔
میں ان کی مثالوں پر غور کر ہی رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اس سلسلے میں ایک تاریخی مثال دی: "فرانس کا انقلاب عظیم!" رہبر انقلاب اکثر و بیشتر، تاریخ کے بڑے انقلابوں کی تاریخی عبرتوں کو بیان کرتے ہوئے، انقلاب فرانس کا بھی تذکرہ کرتے ہیں، ایسا انقلاب، جس کے وقوع پذیر ہونے کے بعد، آمریت مخالف اور جمہوریت پسندانہ مطالبہ، زیادہ دنوں تک ٹک نہیں پایا۔ انقلاب کے بعد کی سیاسی کشمکش اور اقتدار کی رسہ کشی نے، بہت سارے لوگوں کی جان بھی لی۔ انقلاب فرانس کی کامیابی کے بعد کے سولہ مہینوں میں ہی تقریبا سترہ ہزار لوگوں کو سزائے موت دے دی گئي! یہ انقلاب کے بعد فرانس کی صورتحال کا صرف ایک نمونہ ہے۔
تاہم میری نظر میں تغیرات اور اقتدار کی منتقلی کے سلسلے میں اسلامی انقلاب اور دیگر انقلابوں میں سب سے اہم فرق، ایک خاص مسئلے میں رہا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پینتالیس سال بعد بھی اٹل ہے اور عوام کے ووٹوں کو میزان اور کسوٹی بتاتی ہے۔ وہ چیز جو آج انقلاب کی پہلی نسل کو، پہلی بار ووٹ ڈالنے والوں کے ساتھ لے آتی ہے اور اپنے مستقبل کے تعین میں عوام کی چار عشروں سے زیادہ کی موجودگي پر فخر کرتی ہے۔ اسلامی انقلاب کی عمر چار عشروں سے زیادہ کی ہو چکی ہے لیکن اس کے ابتدائي اصول اور اہداف میں کوئي تبدیلی نہیں آئي ہے جماعتی، سیاسی اور ذاتی مفادات ان میں تحریف نہیں کر سکے ہیں۔ جس چیز نے عوام کے لیے آزادی، خودمختاری اور جمہوریت کی حفاظت کی ہے اور جو استحکام ساز اتحاد کا محور بنی ہے، وہ "اسلام" ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی نے، الیکشن کے میدان کے سب سے موزوں امیدوار کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "سب سے موزوں کون ہے؟ وہ کون ہے جس میں زیادہ صلاحیت ہے؟ جو دین کا زیادہ پابند ہو، جو دینی احکام پر عمل کا زیادہ پابند ہو، جو شریعت پر زیادہ اور بہتر طریقے سے عمل کرتا ہو۔ جو ملک کی خودمختاری اور دنیا کی اس طاقت اور اس طاقت پر ملک کے منحصر نہ ہونے پر زیادہ اصرار کرتا ہو، حقیقت میں ملک کی خودمختاری کا خواہاں ہو۔ جو بھی بدعنوانی سے مقابلے کا سنجیدہ عزم رکھتا ہو۔ جو بھی قومی مفادات کے سلسلے میں زیادہ مضبوط عزم رکھتا ہو، یعنی قومی مفادات کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو۔ ایسا شخص، میرے خیال میں سب سے زیادہ موزوں ہے۔"
یہ جملے سننے کے بعد میرے لیے یہ بات زیادہ واضح ہو گئي کہ کیوں اسلام، اسلامی انقلاب کو پورے ثبات و استحکام کے ساتھ محفوظ رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ عوام کے منتخب امیدوار کی پہلی خصوصیت، دین کی پابندی بیان کی گئي۔ یعنی جو عوام کی سرنوشت اور عوام کی سیاسی حیات کا حکمراں بنتا ہے اسے خود دینی اخلاق کی حدود کے دائرے میں رہنا چاہیے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا کو اپنے اعمال کا نگراں سمجھنا چاہیے۔
جب میں نے اس کے برعکس نمونوں پر غور کیا تو، دین کی پابندی کی اہمیت میرے لیے زیادہ اجاگر ہو گئي۔ شاید بدعنوانی سے لڑائي، خودمختاری اور قومی مفادات کی حفاظت، بہت سے لوگوں میں دکھائي دے جائے لیکن چونکہ الہی اور دینی حدود کو نظر انداز کر دیا گيا ہے اس لیے ذاتی اور سماجی سطح سے لے کر اعلی سیاسی اور قیادتی سطح تک انحراف، بدعنوانی اور لوٹ مار پوری طرح عیاں ہے۔ جو چیز ٹرمپ کے دور صدارت کے آخری زمانے میں اس کے ہاتھوں امریکی ڈیموکریسی اور مغرب کے نیولبرل سیاسی ڈھانچے کی تباہی کا سبب بنی یا جو چیز غزہ میں صیہونی حکومت کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کی بائيڈن اور دیگر مغربی حکام کی حمایت کے بعد مغرب کی ثقافت و تمدن کی فضیحت کا باعث بنی وہ انسان کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ وہ کون سی حدود ہیں جو لوگوں، ذاتی مفادات یہاں تک کہ قومی یا ملکی توسیع پسندی سے آگے بڑھ کر ہمیں انسانوں کے قانونی مطالبات اور ان کے حقوق کا احترام کرنا سکھاتی ہیں اور ساتھ ہی انسان کی بے پایاں حرص و ہوس اور خواہشات کو لگام لگاتی ہی؟