بسم اللہ الرّحمن‌الرّحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین.

سب سے پہلے تو شکریہ ادا کرتا ہوں اور بہت خوشی ہے کہ حاضرین کے اندر یہ خیال عملی جامہ پہن سکا اور آپ پوری سنجیدگی سے اس کام کو انجام دے رہے ہیں۔ اللہ کی رحمت ہو شہید سلیمانی پر، جناب نے اشارہ کیا کہ اس فکر اور اس عمل کے موجد مرحوم شہید سلیمانی تھے۔

'حرم کے پاسبانوں' کا موضوع اور حرم کے پاسبان نام کی یہ حقیقت، محیر العقول حقیقت ہے، بڑی اہم حقیقت ہے۔ اس کے گوناگوں پہلو ہیں اور میرے خیال میں اگرچہ گفتگو میں اور تقاریر وغیرہ میں ان میں سے بعض پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے، ان کا تذکرہ ہوا ہے لیکن ان پہلوؤں کو جامع اور کامل شکل میں بیان کیا جانا ضروری ہے۔ میں نے آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنے کے لئے کچھ پوائنٹ نوٹ کئے ہیں جو انہیں اہم اور حیرت انگیز پہلوؤں سے متعلق ہیں۔

میں نے یہاں چار پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ ایک تو اس عمل کا 'علامتی پہلو' ہے۔ یعنی مختلف جگہوں سے حرم کی سمت اور حرم وغیرہ کے دفاع کے لئے شروع ہونے والی حرکت ایک علامتی اور رمزی مفہوم کی حامل ہے۔ اس کا ایک علامتی پہلو ہے جو میں ابھی عرض کروں گا۔ ایک 'انقلاب کے عالمی وژن' کا پہلو ہے، کہ انقلاب کی نگاہیں علاقے کے مسائل، عالمی مسائل اور عالمی تغیرات پر مرکوز ہیں۔ اس پہلو سے بھی مطالعے کی ضرورت ہے جو میں عرض کروں گا۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس عمل نے بہت بڑے خطرے کو اس علاقے سے اور خاص طور پر ہمارے ملک سے دور کر دیا۔ یہ بھی بہت اہم مسئلہ ہے جس پر تفصیلی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔ البتہ کبھی کبھار کچھ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ اس واقعے نے دکھا دیا کہ انقلاب چار عشرے گزر جانے کے بعد ہنوز اپنے ذاتی تغیرات کو دوبارہ جنم دینے اور وجود میں لانے کی توانائی رکھتا ہے جو انقلاب کے آغاز میں بہت نمایاں تھی۔ ان چاروں میں سے ہر پوائنٹ کے بارے میں اختصار کے ساتھ میں تشریح پیش کروں گا۔

علامتی اور رمزی پہلو یہ ہے کہ یہ تو صحیح ہے کہ اہل بیت کے حرم کی سمت پیش قدمی اور اہل بیت کے حرم کا دفاع در حقیقت روضے کی حفاظت اور روضے کی تعظیم سے عبارت ہے لیکن یہ اس پاکیزہ  پیکر کے پیغام اور مکتب فکر کی تعظیم کے معنی میں ہے جو وہاں دفن ہے۔ جو چیز بہت اہم ہے وہ یہی ہے۔ یعنی اگر کوئی اس فکر اور ان اہداف کا احترام نہ کرتا ہو تو اس کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہاں جائے اور روضے کی حفاظت کرے یا اس گنبد کا دفاع کرے، بچاؤ کرے۔ جو لوگ حرم کی حفاظت کی مہم میں جاکر شریک ہوئے ان میں بعض ایسے تھے جو شیعہ نہیں تھے۔ ہم جانتے ہیں ایسے افراد کو جو ہمارے ملک سے اور دوسری جگہوں سے تعلق رکھتے تھے اور شیعہ نہیں تھے۔ یعنی ممکن ہے کہ وہ فقہ اہل بیت پر عمل کرنے والے نہ رہے ہوں، لیکن اہل بیت کے اہداف کے ماننے والے تھے۔ یہ بہت اہم ہے۔

اہل بیت کے بہت اعلی اہداف ہیں جو کبھی کہنہ نہیں ہوں گے اور تمام پاکیزہ ضمیروں اور آزاد منش انسانوں کے مطالبات میں سر فہرست رہیں گے۔ جیسے عدل، جیسے حریت، جیسے ظالم و ستمگر طاقتوں سے پیکار، جیسے راہ حق میں ایثار کا لازمی ہونا، قربانی دینا۔ یہ ایسے اعلی مفاہیم ہیں جو ائمہ کی زندگی میں موجود ہیں۔ یہ عمل انہیں اہداف کی حفاظت اور ان سے لگاؤ اور عقیدت کا عمل تھا۔ یہ بہت اہم ہے۔ ہم اگر اسی پہلو کو، یعنی اعلی اہداف کی حفاظت کے پہلو کو، اس تبلیغ کے ذریعے جس کا ذکر جناب نے کیا، دنیا کے لوگوں کے کانوں تک پہنچائیں تو گویا ہم نے حرم اہل بیت کی حفاظت کی حمایت کی ہے اور خود ان اہداف کی بھی حمایت کی ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ دنیا میں کچھ غیر آلودہ ضمیر موجود ہیں۔ آپ ذرا غور کیجئے، خود امریکہ میں، معنوی و اخلاقی برائیوں کے اس مرکز میں مٹھی بھر نوجوان غزہ کے  مردوں کا عورتوں کا دفاع کر رہے ہیں، جبکہ ان میں بہتوں کو یہ معلوم بھی نہیں کہ وہ دنیا کے کس حصے میں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر جگہ پاکیزہ دل و ضمیر کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ان تک اپنی بات پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ان پاکیزہ ضمیروں سے مخاطب ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ان سے غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ ایک چیز جو ان تک پہنچانے اور منتقل کرنے کی ضرورت ہے وہ یہی اعلی اہداف ہیں۔ ان اہداف میں ایسی کشش ہے کہ نوجوان کے گھربار، زندگی، باپ بیٹے کی محبت اور شوہر بیوی کے عشق و الفت سے اکھاڑ کر اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور اپنے دفاع کے لئے لے جاتی ہے۔ یہ پہلا نکتہ ہے جو اس عمل میں پایا جاتا ہے۔

ان لوگوں کی دشمنی، جو سبب بنے کہ یہ مہم چل پڑے، یعنی وہ عناصر جنہوں نے حرم کے لئے خطرات پیدا کئے، در حقیقت انہی اعلی اہداف کے خلاف ہے۔ ایسے افراد جو برسوں اور صدیوں پہلے اس دنیا سے جا چکے ہیں، جیسے متوکل عباسی۔ متوکل عباسی قبر امام حسین کے خلاف وہ بے ادبی کیوں کر رہا تھا؟ اس وقت ڈیڑھ سو سال پہلے ہی امام حسین علیہ السلام اس دار فانی سے جا چکے تھے، پرواز کر چکے تھے، وہ موجود نہیں تھے۔ جو چیز متوکل کو مجبور کر رہی تھی کہ وہ اٹھے اور یہ حرکتیں کرے، ہاتھ کاٹے، پاؤں کاٹے، قتل کیا، پانی میں ڈبو دیا، اس طرح کے دوسرے کام کئے، وہ وہی حقیقت تھی کہ جو اس قبر کے ماورا اور اس گنبد کے ماورا، اس مزار اور اس ضریح کے ماورا موجود ہے۔ وہ اسی حقیقت سے پریشان تھا۔ البتہ اس کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری تھا۔ کیونکہ وہ حقیقت متوکل جیسے افراد کو کچل دیتی ہے۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ یہ پہلا نکتہ۔

دوسرا نکتہ ہم نے کہا کہ انقلاب کے عالمی وژن کا موضوع ہے۔ تحریکوں کی ایک لازمی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ خود اپنے دائرے میں اور اپنی موجودگی کی حدود میں محدود نہ ہوں۔ بلکہ اپنے دائرے کے باہر بھی نظر رکھیں۔ خاص طور پر ایسے حالات میں جو آج دنیا میں ہیں کہ کچھ طاقتور ممالک ہیں جو جارحیت کر سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا کے ملکوں میں امریکہ کی چھاونیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں ہر جگہ ان کی چھاونیاں ہیں۔ ایسے حالات میں، جو بھی تحریک، جو بھی انقلاب اور جو موومنٹ اپنی حدود کے اندر ساری توجہ مرکوز رکھے گی اور بیرونی تغیرات و حالات سے بے خبر رہے گی، اسے یقینا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ بنابریں ہر تحریک اور ہر موومنٹ کے لئے، سماجی تحریک ہو یا سیاسی تحریک ہو عالمی پلیٹ فارم پر نظر رکھنا، علاقائی حالات پر توجہ دینا، انٹر ایکشن، روابط، تعلقات وغیرہ اہم ضرورتیں ہیں۔

اس میدان میں ماضی میں بہت زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ ہم کم از کم دو بار ڈسے گئے۔ ایک آئینی انقلاب کے معاملے میں اور ایک تیل کے نیشنلائیزیشن کی تحریک کے مسئلے میں۔ آئینی انقلاب کے مسئلے میں، اب شروعات میں انگریزوں کی جو مداخلتیں رہیں وہ تو اپنی جگہ، مگر جب آئینی تحریک چل پڑی اور مضبوطی سے کھڑی ہو گئی تو آئینی انقلاب سے دلچسپی رکھنے والوں، اس کے ذمہ داروں، ہمدردوں اور آئینی انقلاب پر کام کرنے والوں کی توجہ ملک کے داخلی مسائل پر مرکوز ہو گئی، رسہ کشی، ایک دوسرے سے ٹکراؤ اور تنازعہ، بیرونی حالات سے توجہ ہٹ گئی۔ سب اس بات سے غافل ہو گئے کہ برطانیہ اپنی سیاست کے تقاضے کے مطابق ممکن ہے کہ رضاخان جیسے کسی شخص کو لاکر آئینی انقلاب وغیرہ سب کو برباد کر سکتا ہے، نتیجے میں ان پر یہ مصیبت ٹوٹ پڑی۔ برطانیہ کی مداخلت کی طرف سے غفلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ رائج مقولے کے مطابق صبح آنکھ کھلی تو نظارہ یہ تھا کہ ایک غنڈہ اور جابر رضاخان اقتدار میں پہنچ گیا ہے۔ پہلے سپہ سالار بنا اور پھر شاہ بن گیا۔ میں نے ان میں سے کسی ایک کے رشتہ دار کی یادداشتوں میں رضاخان کا یہ جملہ پڑھا ہے کہ وہ کہتا ہے: اگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ بننا اتنا آسان ہے تو بہت پہلے شاہ بن گیا ہوتا۔" یعنی یہ لوگ غافل ہو گئے۔ انہیں اقتدار ملا تو انگریزوں نے مداخلت کرکے اس کو اقتدار دلوا دیا۔ آپ دیکھئے کہ رضاخان کو اقتدار آئینی انقلاب کے پندرہ سال بعد ملا۔ یعنی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ پندرہ سال کے اندر ملک کے اندر کیسے مسائل پیدا ہو گئے کہ یہ لوگ غافل ہو گئے۔ یہ ایک مثال ہے۔

دوسری مثال تیل کے نیشنلائیزیشن کی ہے۔ اتنا جوش و خروش، مجھے کسی حد تک عوام کا وہ جوش و خروش یاد ہے، وہ مظاہرے، وہ میٹنگیں جو ہوا کرتی تھیں، ہم مشہد میں اس کا ایک نمونہ دیکھتے تھے، لوگوں کا لگاؤ وغیرہ، سب کچھ ایک ایسی بغاوت سے جسے واقعی بہت کمزور اور بے وقعت کہنا چاہئے، ختم ہو گیا۔ یعنی واقعی اس میں حقیقی فوجی بغاوت جیسی کوئی چیز نہیں ہوئی تھی۔ مٹھی بھر اوباشوں اور بدمعاشوں وغیرہ نے جو تہران میں برطانیہ کے سفارت خانے کے اندر سے امریکی پیسوں کے ایک بیگ کی مدد سے کنٹرول ہو رہے تھے، عوام کی منتخب ایک قومی حکومت کو جو بھرپور عوامی جوش و خروش سے اقتدار میں پہنچی تھی، گرا دیا، وہ ختم ہو گئی، مٹ گئی، اس کا کوئی نام و نشان نہیں بچا، غفلت کی وجہ سے۔

داخلی مسائل میں الجھ کر رہ جانا اور بیرونی طاقتوں کی مداخلت کی طرف سے غافل ہو جانا، ملک کو ایسی مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔

ایران کا اسلامی انقلاب اور ایران کی اسلامی تحریک روز اول سے اس پہلو پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ امام خمینی نے اپنی شروعاتی تقریروں میں ہی شاہ کی حکومت کی شرمناک کرتوتوں وغیرہ کا ذکر کرنے کے ساتھ ہی امریکہ کا نام بھی لیا، صیہونزم کا نام لیا، اسرائیل کا نام لیا۔ وہ شروع سے ان مسائل کی طرف متوجہ تھے۔ تحریک کے آغاز کو تقریبا ایک سال اور دو تین مہینے ہی گزرے تھے کہ امام خمینی نے کیپیچولیشن (2) کے خلاف اپنی وہ تقریر کی۔ یعنی امام خمینی کی نظر کیپیچولیشن پر تھی، پارلیمنٹ میں پاس ہونے والے بل پر تھی، ملک کے داخلی امور میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت پر تھی۔ انقلاب کی کامیابی کے شروعاتی دنوں سے ہی امام خمینی کی نظر ملک کے باہر کے تغیرات پر تھی۔ امام خمینی کے فرمودات میں داخلی مسائل کو حل کرنے اور داخلی مسائل پر توجہ دینے سے متعلق باتیں بھری پڑی ہیں، لیکن آپ امام خمینی کے بیشتر فرمودات میں پائیں گے کہ بیرونی خطروں کا ذکر اور ملک کے لئے مشکلات پیدا کرنے والے اندیشوں کا ذکر ہے۔ عالمی زاویہ نظر، علاقائی زاویہ نظر، جامع نگاہ، غافل نہ ہونا، صرف داخلی مسائل میں مصروف نہ ہو جانا، منہمک نہ ہو جانا۔ یہ چیز انقلاب کے سلسلے میں موجود تھی۔

اس کی ایک بنیادی اور اہم مثال یہی ہمارے مجاہدین کا ان ملکوں میں جانا جہاں کے لئے دشمن نے اپنی سازش تیار کی تھی، اپنے منصوبے تیار کئے تھے۔ وہاں بڑی اہم منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ سب سے پہلے تو عراق میں، شام میں اور کسی حد تک لبنان میں، دشمن نے منصوبہ سازی کی تھی اور منصوبہ بہت اہم تھا۔ ایک گروہ کو اسلام کے نام پر اور دینی جذبات کی مدد سے، جو بہت اہم جذبہ ہوتا ہے اور بڑی اہم تاثیر کا حامل ہوتا ہے، امریکہ کی مٹھی میں اور امریکہ کے چنگل میں تیار کیا گیا۔ داعشی میدان جنگ میں اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے اور ان کے زخمیوں کو اسرائیل میں، وہاں کے اسپتالوں کے اندر ایڈمٹ کیا جاتا تھا اور صیہونی حکومت کے سربراہان ان کی عیادت کرنے جاتے تھے۔ یہ تو نشر بھی ہوا اور سب نے دیکھا۔ یہ بڑی خطرناک سازش تھی۔ اس منصوبے کا ٹارگٹ علاقے کو اپنے چنگل میں جکڑنا تھا، ایران کو اپنے کنٹرول میں لینا تھا۔ یعنی پورے علاقے کے ساتھ ہی ایران بھی امریکہ کے چنگل میں اور استکبار و استعمار کے چنگل میں چلا جاتا۔ سات ٹریلین ڈالر خرچ کئے۔ یعنی یہ وہ رقم ہے جس کا اعلان امریکہ کے سربراہ نے کیا (3)۔ اس علاقے میں ان لوگوں نے سات ٹریلین ڈالر خرچ کر دئے اور سب کا سب برباد ہوا۔ ان کا سارا پیسہ رائیگاں چلا گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ داعش کے ذریعے اسلام کے نام پر حکومتیں تشکیل دیں اور اسلامی مملکت ایران کے دونوں طرف، ہمارے مشرق میں ایک ملک کے اندر اور مغرب میں بھی ایک ملک کے اندر تکفیری اسلام کھڑا کر دیں اور اسلامی جمہوریہ کو اقتصادی مشکلات کے ساتھ ساتھ  گوناگوں مسلکی، فکری، اعتقادی تنازعات میں الجھا کر تحلیل کر دیں، نگل جائیں، مٹا دیں۔ پاسبان حرم مجاہدین نے جو قدم اٹھایا اس سے یہ منصوبہ ناکام ہو گیا۔ یعنی الگ الگ ملکوں سے پیر و جواں افراد کا ایک گروہ اسلامی جمہوریہ کی محوریت میں اس اہم سازش کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوا جسے استکباری و استعماری نظام نے بڑی باریکی اور توجہ سے تیار کیا تھا۔ تو انقلاب کی عالمی نگاہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

جدید مشرق وسطی جو وہ کہتے تھے اس سے مراد یہی مشرق وسطی تھا جہاں ایسے حالات ہوں۔ پوری طرح امریکہ کے چنگل میں ہو، عراق میں بھی اور شام میں بھی دین کے نام پر حکومت قائم ہو لیکن اسرائیل اور امریکہ کے زیر اثر ہو اور اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالے۔ پاسبان حرم مجاہدین کے عمل نے اس پہلو سے دیکھا جائے تو علاقے کو نجات دلائی۔ یعنی یہ بہت بڑی بات ہے کہ علاقے کو بہت بڑے خطرے سے، بڑی خطرناک سازش کی مصیبتوں سے بچا لیا۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔

تیسرا نکتہ جو ہم نے ذکر کیا وہ کیا تھا؟ وہ ایک بڑی داخلی سازش یعنی بد امنی کی سازش کو ناکام بنانے کے پہلو سے تھا۔ داعش اور دیگر گروہ جو شام و عراق میں اسی کی راہ پر چلنے والے، اس کے ہمراہ اور اس کے رقیب کے طور پر سرگرم تھے، اگر اسی ڈھانچے، اسی آرائش کے ساتھ آج تک موجود ہوتے تو پورے علاقے سے امن و سلامتی رخصت ہو چکی ہوتی۔ منجملہ ایران سے۔ ہمیں ہر دن کئی بار اپنے ملک کے اندر شیراز کے شاہ چراغ (4) جیسے اور کرمان جیسے (5) واقعات  دیکھنا پڑتے۔ عراق میں بھی یہی سب کچھ ہوتا، شام میں بھی یہی سب چلتا رہتا اس وقت تک جب تک ان کے ہاتھ میں اقتدار نہ پہنچ جاتا۔ پاسبان حرم مجاہدین نے اس خطرے کو رفع کر دیا۔

بے شک وہ گوشہ و کنار میں ہیں اور امریکہ کے زیر سایہ اب بھی ہیں، داعشی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا تنظیمی ڈھانچہ ختم ہو چکا ہے۔ یہ تصور کہ اگر یہ گروہ منتشر نہ کر دیا گیا ہوتا تو کیا ہوتا، واقعی گہری تشویش پیدا کر دیتا ہے۔ یہ سفاک افراد، یہ بے رحم گروہ ایسی حرکتیں کر رہا تھا جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ہے۔ کیمرے کے سامنے انسانوں کو زںدہ جلا دیں، زندہ پانی میں غرق کر دیں اور انہیں امریکہ کی پشت پناہی بھی حاصل رہے، مغربی پروپیگنڈا ذرائع کا سپورٹ بھی انہیں حاصل رہے! جو حرکتیں وہ کرتے تھے، اس کی ویڈیو گرافی، فوٹوگرافی اور ان کے ان سارے کاموں میں وہ ٹیکنیکل باریکیاں جو ہوتی تھیں وہ سب ان مٹھی بھر ان پڑھ افراد کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان کی مدد کی جاتی تھی۔ انہیں سپورٹ مل رہا تھا۔ یہ منصوبہ تھا کہ یہ لوگ آکر اس علاقے میں پاؤں جما لیں، ایسی صورت میں امن و سلامتی نام کی کوئی چیز نہیں رہ جائے گی۔ ایک اہم نکتہ یہ تھا۔

آخری نکتہ یہ ہے جو ہم نے عرض کیا کہ پاسبان حرم مجاہدین کے آگے آنے سے ثابت ہو گیا کہ اسلامی انقلاب کے اندر وہی اوائل انقلاب کا جوش و جذبہ دوبارہ پیدا کرنے اور اسے جاری رکھنے کی توانائی موجود ہے۔ یعنی یہ ثابت ہو گیا۔ عام طور پر تحریک کے آغاز میں بہت جوش و خروش رہتا ہے، پھر گوناگوں علل و اسباب کی وجہ سے وہ جوش و خروش، وہ جذبہ پہلے تو کمزور پڑتا ہے، اس کے بعد پوری طرح ختم ہو جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس تحریک کی بساط سمیٹ دی جائے۔ ہم نے یہ چیز اپنی معاصر تاریخ میں دیکھی ہے۔ جیسے فرانس کے انقلاب، سوویت یونین کے انقلاب وغیرہ میں ہم نے مشاہدہ کیا۔ فرانس جیسے ملک میں عظیم عوامی تحریک شروع ہوتی ہے اور پورے فرانس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ پھر بارہ تیرہ سال کی مدت میں کچھ واقعات رونما ہوتے ہیں، کچھ نشیب و فراز آتے ہیں، اور یہ سب ان کے روحانی و اخلاقی کمزوری کی علامتیں ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ تحریک پوری طرح مٹ جاتی ہے اور نیپولین جیسا مستبد ڈکٹیٹر اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے۔ عام طور پے ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے سلسلے میں بھی کچھ لوگوں کو امید تھی کہ یہی حالات دہرائے جائیں لیکن پاسبان حرم مجاہدین کی موجودگی نے ثابت کر دیا کہ چار دہائی گزر جانے کے بعد بھی وہ جذبہ قائم ہے۔

ان نوجوانوں کی سرگذشت جو اپنے گھر بار سے اور اپنی زندگی سے جدا ہوکر گئے، میں نے ان میں کچھ کتابوں کا مطالعہ کیا ہے،  ہلا کر رکھ دیتی ہیں، واقعی ہلا کر رکھ دیتی ہیں! ایک نوجوان جسے نوجوانی کے سارے وسائل مہیا ہیں، جوانی کا دور گزارنے کی سہولیات فراہم ہیں، آسائش سے، محبتوں سے، مادی وسائل سے، تعلیمی ترقی کے وسائل سے خود کو الگ کرتا ہے اور روانہ ہو جاتا ہے ایک نظرئے، ایک تحریک، ایک انقلاب، ایک موومنٹ کے دفاع کے لئے! یہ بہت بڑی بات ہے۔ انہوں نے نہ تو امام خمینی کو دیکھا ہے، نہ جنگ اور مقدس دفاع کا زمانہ دیکھا ہے، لیکن دیکھنے میں آتا ہے کہ اسی انداز سے، اسی جذبے کے ساتھ، بسا اوقات تو اس سے بھی بہتر انداز میں، زیادہ بصیرت کے ساتھ جاتے ہیں اور اس انداز سے جنگ کرتے ہیں۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں، ان میں بعض شہید ہوتے ہیں، بعض شہید نہیں ہوتے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انقلاب کے اندر یہ عجیب توانائی قائم ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ البتہ دوسری بھی گوناگوں شکلوں میں جیسے یہی انقلاب کی سالگرہ کی ریلیاں ہیں، یا عجیب و غریب انداز سے بہت بڑے پیمانے پر جلوس جنازہ ہے جس کی مثال ساری دنیا میں کہیں نہیں ملتی، یہی حالیہ ایام کا جلوس جنازہ اور شہید سلیمانی کا جلوس جنازہ وغیرہ واقعی دنیا میں کہیں بھی اس کی کوئی مثال دکھائی نہیں دی۔ ہم نے یہ چیزیں دیکھی تھیں، لیکن ان سے بڑھ کر یہی میدان جنگ میں پاسبان حرم مجاہدین کی موجودگی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں سے  بھی بعض افراد کہ مادی تجزیہ کی عادت جنہیں پڑ گئی ہے، آپ کچھ بھی کیجئے، کوئی بھی استدلال پیش کر دیجئے وہ اس استدلال کو اپنے ذہن میں اتارنے اور اپنے ذہن کو مطمئن کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور بعض کو کہنا پڑا: 

هر درونی کو خیال‌اندیش شد

چون دلیل آری خیالش بیش شد(7)

(جس کا بھی باطن تخیلات کا عادی ہو گیا اگر اس کے لئے آپ دلیلیں لائیں گے تو اس کا توہم بڑھتا ہی جائے گا۔)

ان کی نگاہیں مغرب کی غلط فکری بنیادوں پر لگی رہتی ہیں، وہ اس امید میں تھے کہ یہ انقلاب جو اس مادی سوچ کے خلاف آیا بتدریج کمزور پڑتا جائے گا۔ ان میں کچھ تو شروع میں انقلابی تھے، بعد میں وہ مخالف یا فریق مقابل میں بدل گئے یا کم از کم انقلابی فکر سے انہوں نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ وہ کہتے تھے کہ جو لوگ مقدس دفاع میں گئے اگر آج حیات ہوتے تو ہماری طرح ہوتے۔ اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔ مگر ان نوجوانوں نے ثابت کر دیا کہ نہیں! یہ غلط سوچ ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ پاکیزگی، شجاعت، ایثار، اخلاص اسلامی و انقلابی اصولوں پر گہرا ایمان و اعتقاد ان نوجوانوں کے اندر جو گئے واقعی محیر العقول ہے، واقعی ایک بے نظیر حقیقت ہے۔ انسان تعجب کرتا ہے۔ لطف خدا کے علاوہ، ہدایت پروردگار کے علاوہ، ائمہ علیہم السلام کی انگشت ہدایت کے اشارے کے علاوہ یہ کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ اب ان میں جو بزرگان ہیں جیسے شہید سلیمانی، شہید ہمدانی اور دوسرے بزرگ جو اس راہ میں شہید ہوئے ان کا مرتبہ اپنی جگہ ہے۔

اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کروں گا کہ پاسبان حرم مجاہدین اور ان کے خاندان اسلامی مملکت ایران کے لئے مایہ افتخار و سربلندی ہیں، اسلامی انقلاب کی نجات و کامیابی کا ذریعہ ہیں۔ اسلامی جمہوریہ یقینا ان عزیزوں کی، ان شہیدوں، ان کے اہل خانہ اور ان مجاہدین کی مقروض ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی ارواح طیبہ کو پیغمبر کے ساتھ محشور کرے۔ انہیں ہم سے راضی رکھے، ہمیں بھی ان میں شامل کر دے۔

 

والسّلام‌علیکم‌و رحمۃ اللہ و برکاتہ

  1. اس ملاقات کے آغاز میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر سردار اسماعیل قاآنی اور کانفرنس کے نگران اعلی حجت الاسلام و المسلمین علی شیرازی نے رپورٹیں پیش کیں۔
  2. ایران میں امریکی مشیروں کو ویانا ایگریمنٹ کے تحت امیونٹی  دینے والا کیپیچولیشن بل 13 اکتوبر 1964 کو ایران کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور شورائے ملی سے پاس ہوا تو 26 اکتوبر 1964 کو امام خمینی نے ایک بیان جاری کیا اور دنداں شکن تقریر کرکے بتایا کہ کیپیچولیشن قانون در اصل ایران کے نو آبادی ہونے کا اعتراف ہے اور سینیٹ اور شورائے ملی کا بل اسلام و قرآن کے منافی ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس تقریر پراغیار کی غلام پہلوی حکومت نے 4 نومبر 1964 کو امام خمینی کو جلا وطن کرکے ترکیہ بھیج دیا۔ صحیفہ امام جلد 1 صفحہ 415، عوام کے درمیان خطاب مورخہ 26 اکتوبر 1964
  3. ڈونالڈ ٹرمپ
  4. ایک مسلح شخص 26 اکتوبر 2022 کو شیراز میں حضرت احمد بن موسی علیہ السلام کے روضے میں داخل ہوا اور زائرین پر گولیاں چلانے لگا۔ اس سانحے میں 13 افراد شہید ہو گئے اور بہت سارے لوگ زخمی ہوئے۔ اس واقعے کے بعد دہشت گرد گروہ داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔
  5.  شہید سلیمانی کی چوتھی برسی کے دن 3 جنوری 2024 کو بھیڑ بھاڑ ولی جگہ پر دو بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں تقریبا 100 افراد شہید اور بہت سارے لوگ زخمی ہوئے، یہ سب گلزار شہدائے کرمان میں برسی کے پروگرام کے لئے جمع ہوئے تھے۔
  6. مولانا روم، مثنوی معنوی، دفتر دوم، اس غزل کا شعر جس کا مطلع یہ ہے:
  7. «گفت هر مردی که باشد بدگمان / نشنود او راست را با صد نشان»