بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللّہ فی الارضین.
قوم کی پیشرفت کے لیے شہادت کے ذخیرے کی حفاظت کی ضرورت
یہاں تشریف فرما آپ برادران و خواہران عزیز کی خدمت میں خیر مقدم عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو میں دل کی گہرائي سے آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس بڑی ذمہ داری اور عظیم فریضے یعنی شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھنے پر توجہ دی۔ شہادت ایک ذخیرہ ہے، کسی قوم کے جوانوں کی فداکاری اس قوم کی پیشرفت کے لیے ایک عظیم معنوی اور مادی سہارا ہے، اسے باقی رکھنا چاہیے، اسے محفوظ رکھنا چاہیے، اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، اسے فراموش نہیں ہونے دینا چاہیے اور اس میں تحریف نہیں ہونے دینا چاہیے۔ آپ کے کام کی اہمیت اس میں ہے کہ آپ اس ذخیرے کو محفوظ بنا رہے ہیں، اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔
محترم امام جمعہ نے جو باتیں کہیں اور اسی طرح سپاہ کے ہمارے برادر نے بہترین نوشتہ پڑھا، دونوں ہی میں بہت اچھی اور صحیح باتیں ہیں۔ جہاں تک عہدیداروں سے سفارش کی بات ہے تو ان شاء اللہ میں محترم عہدیداران سے سفارش کر دوں گا، جناب عارف صاحب(1) یہاں تشریف رکھتے ہیں، ان شاء اللہ صدر مملکت صاحب سے بھی کہہ دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ ان افراد پر ان کی شان اور ملک کے لیے ان کی معنوی اور قومی قدروقیمت کے مطابق توجہ دی جائے گي۔
کہگیلویہ و بویر احمد کے علاقے کے لوگوں کی فداکاری اور مجاہدت کی طویل تاریخ
صوبۂ کہگیلویہ و بویر احمد، یعنی وہ پورا علاقہ، چاہے صوبے کی شکل میں ہو یا پہلے جس شکل میں بھی رہا ہو، فداکاری اور مجاہدت کی ایک بڑی لمبی تاریخ رکھتا ہے، جس کی طرف اشارہ کیا گيا۔ پچھلے ادوار تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ہمارے دور میں بھی، جو کچھ مجھے یاد ہے، جدوجہد کے بالکل آغاز سے ہی، سنہ 1964 سے موصوف(2) کے دادا اور جناب ملک حسینی(3) کے مرحوم والد نے، جو اس علاقے کے ایک جید عالم دین تھے، ایک بیان جاری کیا تھا اور ان کا بیان، بے نظیر بیانوں میں سے ایک تھا، مطلب ٹھوس اور شجاعانہ تھا اور حکومتی مشینری بھی اسے اہمیت دیتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اگر انھوں نے جہاد کا حکم دے دیا تو قبائلی اور خانہ بدوش لوگ جہاد شروع کر دیں گے جیسا کہ کچھ کام ہوئے بھی۔ اسی دوران حکومتی مشینری نے ایک دوسری قوم سے، کہ وہ بھی ایک عزیز قوم ہے، کہا تھا وہ جا کر بویر احمد کے خطے کے قبائلی لوگوں سے جنگ کرے اور وہاں کے ایک سنّی عالم دین نے ایسا نہیں ہونے دیا تھا۔ ہمیں اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ اس ملک میں ہمارے مذہبی، قومی اور قبائلی تعلقات کا ماضی کس طرح کا رہا ہے۔ اہلسنت کے ایک مولوی نے بلوچ قوم اور کہگیلویہ و بویر احمد کے قبائل کے درمیان جنگ شروع کروانے کی حکومت کی سازش کو عملی جامہ نہیں پہننے دیا تھا، انھوں نے اسے روک دیا تھا، اس کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ یہ اس خطے کا ماضی ہے۔
مقدس دفاع اور مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی ان لوگوں نے واقعی بہت اچھا کام کیا، جب بریگيڈ تشکیل پائي تب بھی اور بریگیڈ بننے سے پہلے بھی، جس کے افراد مختلف یونٹس میں بکھرے ہوئے تھے، اس خطے کے مجاہد افراد نے بہت زیادہ جدوجہد کی، بہت اچھے کام کیے۔ اس وقت کی کچھ یادیں ہیں جو مقدس دفاع کے مسائل اور تاریخی رپورٹوں میں درج ہیں۔ مثال کے طور پر فتح بریگیڈ کی ایک بٹالین، جزیرۂ مجنون میں عراق کے ایک بڑے بعثی فوجی لشکر کے سامنے ڈٹی رہی، استقامت کرتی رہی، پيچھے نہیں ہٹی۔ البتہ کچھ لوگ شہید بھی ہوئے لیکن وہ اس علاقے کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے، مطلب یہ ہے کہ اس طرح کے کام بھی وہاں، مقدس دفاع کی تاريخ اور حافظے میں ثبت ہیں۔
دشمن کو بڑا دکھانا؛ دشمن کی نفسیاتی جنگ کا ایک ستون
میں اختصار سے عرض کروں کہ کسی بھی قوم کے دشمنوں اور سب سے زیادہ ہمارے زمانے میں خود ہماری عزیز قوم اور ہمارے اسلامی ایران کے دشمنوں کی نفسیاتی جنگ کا ایک ستون یہ ہے کہ اس قوم کے دشمن کو بڑا بنا کر پیش کیا جائے، اسلامی انقلاب کی شروعات سے یہ چیز موجود رہی ہے۔ مختلف طریقوں سے مسلسل ہماری قوم کو یہ سمجھایا جاتا رہا ہے، یہ ذہن میں ڈالا جاتا رہا ہے اور یہ بات انجیکٹ کی جاتی رہی ہے کہ ڈرو، امریکا سے ڈرو، صیہونیوں سے ڈرو، برطانیہ سے ڈرو، ان جیسوں سے ڈرو، ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے قوم کے دل سے یہ خوف نکال دیا، قوم کو اعتماد عطا کیا، خود اعتمادی عطا کی، قوم نے محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک توانائی اور طاقت ہے جس پر بھروسہ کر کے وہ بڑے بڑے کام کر سکتی ہے اور دشمن اسے روک نہیں سکتا اور جیسا کہ وہ ظاہر کرتا ہے، اس کے ہاتھ اتنے مضبوط نہیں ہیں۔
خوف، فوجی میدان میں دشمن کو بڑا دکھانے کا نتیجہ
نفسیاتی جنگ کا دشمن کا یہ حربہ جب فوجی میدان میں پہنچتا ہے تو اس کا نتیجہ خوف ہے، پسپائي ہے، اور قرآن مجید نے اس پسپائي کو در حقیقت غضب الہی کا سبب بتایا ہے اور اس کی تشریح کی ہے۔ وَمَن يُوَلِّھِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَہُ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلَىٰ فِئَۃٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ(4) اگر تم پر حملہ آور دشمن کے مقابلے میں، کسی بھی طرح کا حملہ آور ہو، کبھی تلوار لے کر اور میدان میں دو بدو حملہ آور ہوتا ہے، کبھی پروپیگنڈے کا حملہ کرتا ہے، کبھی معاشی حملہ آور ہوتا ہے، کبھی نئے وسائل کے ساتھ فوجی حملہ کرتا ہے، اگر اس کے مقابلے میں تم نے غیر ٹیکٹیکل پسپائي اختیار کی؛ کبھی کبھی پسپائی، ٹیکٹیکل ہوتی ہے۔ پسپائي بھی کبھی، پیشقدمی کی طرح ایک ٹیکٹیک ہوتی ہے، اس میں کوئي قباحت نہیں ہے۔ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلَىٰ فِئَۃٍ ٹیکٹک یہ ہے۔ اگر اس کے علاوہ کسی اور بات کے لیے پسپائی اختیار کروگے فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ فوجی میدان میں ایسا ہے، سیاسی میدان بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ (غضب الہی کا سبب بنتا ہے۔)
کمزوری اور الگ تھلگ پڑ جانا، سیاسی میدان میں دشمن کو بڑا ظاہر کرنے کا نتیجہ
سیاسی میدان میں بھی دشمن کو بڑا کر کے پیش کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان یہ محسوس کرے کہ وہ الگ تھلگ پڑ گيا ہے، یہ محسوس کرے کہ وہ کمزور ہے، یہ محسوس کرے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ دشمن کے مطالبے کے سامنے جھک جائے، وہ کہے کہ یہ کام کرو تو یہ کہے کہ بسر و چشم، وہ کام نہ کرو، سر آنکھوں پر، جیسا کہ اس وقت چھوٹی بڑی اقوام والی طرح طرح کی حکومتیں ہیں جو اسی طرح کی ہیں، جو بھی ان سے کہا جاتا ہے، وہ کہتی ہیں بسر و چشم، ان کا اپنا کوئي ارادہ نہیں ہے۔ البتہ سفارتکاری اور سفارتی مذاکرات کی میز کے کچھ آداب اور شرائط ہیں۔ اس "بسر و چشم" کو مختلف طرح سے کہا جا سکتا ہے لیکن درحقیقت یہ وہی بسر و چشم ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ اگر وہی حکومتیں اپنی اقوام پر تکیہ کریں، اگر اپنی داخلی صلاحیتوں پر بھروسہ کریں، اگر اس دشمن کے وجود کی حقیقت کو سمجھ لیں اور یہ جان لیں کہ اس کا ہاتھ اتنا بھی مضبوط نہیں ہے جتنا وہ ظاہر کر رہا ہے تو چاہیں تو بسر و چشم نہ کہیں لیکن وہ ان باتوں پر توجہ نہیں دیتیں، کہتی ہیں بسر و چشم۔ یہ سیاسی میدان کی بات ہوئي۔
اپنی ثقافت کو کمتر اور حقیر سمجھنا، ثقافت کے میدان میں دشمن کو بڑا دکھانے کا نتیجہ
ثقافت کے میدان میں بھی دشمن کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا نتیجہ ایک دوسری صورت میں سامنے آتا ہے۔ الگ تھلگ پڑنے کا احساس، فریق مقابل کے کلچر پر فریفتہ ہونا، اپنی ثقافت کو حقیر سمجھنا، غیر کلچر کی پابندی پر فخر کرنا۔ کچھ لوگ ہیں جو جب بات کرتے ہیں یا کچھ لکھتے ہیں تو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ کوئي غیر ملکی لفظ استعمال کریں، وہ فخر کرتے ہیں کہ اس کا ہم معنی فارسی لفظ استعمال نہ کریں بلکہ غیر ملکی لفظ استعمال کریں۔ ہاں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس اس لفظ کے لیے کوئي ایرانی لفظ نہیں ہے جیسے ٹیلی ویژن، ہمارے پاس اس کے لیے کوئي ایرانی لفظ نہیں ہے، جب یہ آیا تھا اسی وقت اس کے لیے لفظ بنایا جا سکتا تھا لیکن اب ہم ٹیلی ویژن ہی کہنے کے لیے مجبور ہیں لیکن بہت سی غیر ملکی زبانوں میں رائج الفاظ کو استعمال کرنا ہمارے لیے ضروری نہیں ہے۔ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کے کلچر کو، اس کی رسومات کو، اس کے آداب زندگي کو، اس کے طرز زندگي کو تسلیم کر لیتے ہیں، مان لیتے ہیں، دیکھیے یہ دشمن کی نفسیاتی جنگ ہے۔
دشمن کی نفسیاتی جنگ کے مقابلے میں ڈٹ جانے والوں کے طور پر شہیدوں کو پیش کرنا
وہ جو پورے وجود سے اس نفسیاتی جنگ کے سامنے ڈٹ گيا، وہ کون ہے؟ وہ وہی جوان ہیں جن کے لیے آپ خراج عقیدت کی کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ اسے عظمت عطا کر رہے ہیں اور واقعی وہ عظیم ہیں۔ ملک کے فلاں مقام، فلاں شہر، فلاں قوم اور فلاں صوبے کا رہنے والا جوان جو جا کر دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ وہ نہ تو فوجی میدان میں خوفزدہ ہوتا ہے، نہ اس کی سیاسی باتوں سے متاثر ہوتا ہے اور نہ اس کے کلچر کو قبول کرتا ہے۔ وہ یہی جوان ہے جس کی قدردانی کی جانی چاہیے اور قدرشناسی کی جانی چاہیے۔ وہی ہے جو اس نفسیاتی جنگ میں پورے وجود سے ڈٹا رہا۔ خراج عقیدت کی ان کانفرنسوں میں اس بات کو زندہ کیجیے، اس حقیقت کو مجسّم شکل عطا کیجیے اور اسے لوگوں کو دکھائيے۔ میری عرض یہ ہے۔
کتاب، شہیدوں کے تعارف اور لوگوں کی سوچ اور زندگي پر اثر ڈالنے کے لیے ایک جاوداں ذریعہ
یہ ساری باتیں جو آپ نے کہیں: تحریریں، کتابیں، فلمیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگرام، گلیوں، سڑکوں اور اسٹیڈیموں وغیرہ کے نام رکھنا، اچھی ہیں، یہ سب ضروری ہیں۔ ان میں سے بعض پرانی ہو جاتی ہیں۔ یعنی مثال کے طور پر آپ سڑک کا نام شہید کے نام پر رکھتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن جب تین چار سال گزر جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں، "شہید بہشتی روڈ" اور اس سے انھیں شہید بہشتی کی یاد بالکل نہیں آتی۔ آپ اس وقت مثال کے طور پر شہید بہشتی روڈ جانا چاہتے ہیں، آپ سے پوچھا جاتا ہے: جناب کہاں جائيں گے؟ آپ کہتے ہیں: شہید بہشتی روڈ، انسان کے ذہن میں عزیز شہید بہشتی کی تصویر نہیں آتی۔ تو ان میں سے بعض چیزیں ایسی ہیں، کوئي بات نہیں، انھیں رہنا چاہیے۔ ان میں سے بعض چیزیں باقی رہ جانے والی ہیں جیسے فلم اور سب سے بڑھ کر کتاب، یہ باقی رہنے والی ہیں، کچھ ایسا کیجیے کہ یہ نتیجہ خیز ہوں۔ یعنی آپ کتاب چھاپتے ہیں، بہت اچھی بات ہے، کتنے لوگ اس کتاب کو پڑھتے ہیں؟ کتنے لوگ اسے پڑھنے کے بعد اس سے نوٹس تیار کرتے ہیں؟ کتنے لوگ ہیں جو جب اپنے دوستانہ حلقے میں بیٹھتے ہیں تو ان نوٹس سے استفادہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انھیں ایکسچینج کرتے ہیں؟ ان سب کو مد نظر رکھیے۔ دیکھیے کہ اس کا کیا راستہ ہے، آپ کیا کریں کہ یہ کتاب، کہ سب سے زیادہ جاودانگي کتاب کی ہے، کتاب فلم وغیرہ سے زیادہ جاوداں ہوتی ہے، قاری میں ایک تبدیلی پیدا کر دے۔
ہمارے ملک میں کئي کروڑ جوان ہیں۔ اس کتاب کے نسخے، مثال کے طور پر فرض کیجیے کہ یہ کتاب دس بار شائع ہو تو، ہر بار زیادہ سے زیادہ دو ہزار نسخے شائع ہوتے ہیں تو اس کتاب کے کل نسخے بیس ہزار ہوں گے۔ دو کروڑ لوگوں کے مقابلے میں بیس ہزار نسخے بہت کم ہیں۔ ایسا کام کیجیے کہ پہلے تو بیس ہزار لوگ اس کتاب کو پڑھیں اور پھر وہی بیس ہزار لوگ جو اس کتاب کو پڑھ چکے ہیں، ان کے طرز زندگي میں، ان کے وجود میں، ان کی سوچ میں، ان کے کلچر میں یہ شخصیت، جس کی آپ نے اس کتاب میں توصیف کی ہے، اس کی تصویر کشی کی ہے، اثر انداز ہو جائے، آپ کی پوری کوشش یہ ہو۔ میں ان افراد سے جو شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے آپ کی طرح ہم سے آ کر ملاقات کرتے ہیں، یہ سفارش کرتا ہوں: صرف کام کافی نہیں ہے، کام کے نتیجے کو مدنظر رکھیے، یہ کام وسیلہ ہے اور وسیلہ کسی نتیجے کے لیے ہوتا ہے۔ ورنہ اگر آپ کے پاس مثال کے طور پر ایک اسکرو ڈرائيور ہو اور آپ اس سے کوئي کام نہ لیں یا وہ کوئي پیچ کھولنے میں آپ کے کام نہ آئے تو اس کا کوئي فائدہ نہیں ہے۔ ایسا کام ہونا چاہیے، ایسی چیز ہونی چاہیے، ایسا وسیلہ ہونا چاہیے جو اثر انداز ہو سکے۔
ان شاء اللہ خداوند عالم آپ سب کو کامیاب کرے، آپ کو توفیق عطا کرے، اس علاقے کے، اس صوبے کے عزیز شہیدوں پر خداوند متعال رحمت کرے، ان کے درجات بلند کرے، ہمیں ان کی شفاعت نصیب ہو، خداوند عالم اپنے لطف و کرم سے ہمیں بھی ان سے ملحق کر دے۔
و السّلام علیکم و رحمۃ اللّہ و برکاتہ
(1) نائب صدر جناب ڈاکٹر محمد رضا عارف
(2) حجت الاسلام و المسلمین سید شرف الدین ملک حسینی (ماہرین اسمبلی میں صوبۂ کہگیلویہ و بویر احمد کے عوام کے نمائندے)
(3) حجت الاسلام و المسلمین سید کرامت اللہ ملک حسینی (صوبۂ کہگیلویہ و بویر احمد میں ولی فقیہ کے سابق نمائندے اور حجت الاسلام سید صدر الدین ملک حسینی کے فرزند)
(4) سورۂ انفال، آيت 16، سوائے اس کے جو جنگی چال کے طور پر ہٹ جائے۔ یا کسی (اپنے) فوجی دستے کے پاس جگہ لینے کے لیے ایسا کرے (کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے) تو وہ خدا کے قہر و غضب میں آجائے گا۔