11 ستمبر کے واقعے کو 23 سال ہو گئے۔ اس واقعے کے بہانے امریکا نے مغربی ایشیا کے علاقے میں سنجیدگي کے ساتھ اپنی موجودگي شروع کی اور خطے کے مختلف ملکوں کے خلاف اپنے فوجی حملے شروع کیے۔ اس واقعے کے بعد کے بالکل ابتدائي دنوں میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں اپنی تقریر میں، جو ٹی وی چینلوں سے براہ راست نشر ہوئي، کہا: "دہشت گردی کے خلاف القاعدہ سے ہماری جنگ شروع ہو رہی ہے لیکن وہ یہیں پر ختم نہیں ہوگي۔ جب تک پوری دنیا میں کسی بھی دہشت گرد گروہ کو روکا اور ختم نہیں کیا جاتا، یہ جنگ ختم نہیں ہوگي۔"(1) اسی تقریر کے بعد مغربی ایشیا پر امریکا کے غیر قانونی حملے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے نام سے پہچانے گئے۔ دو سال بعد جارج ڈبلیو بش نے صدام کے سقوط اور عراق پر قبضے کے بعد اپنی تقریر میں دنیا سے ایک بڑا وعدہ کیا اور کہا: "عراقی ڈیموکریسی کامیاب ہوگي اور اس کامیابی کی خبر دمشق سے تہران تک بھیجی جائے گي۔ یہ آزادی مستقبل میں ہر قوم کی ہو سکتی ہے۔ مشرق وسطی کے مرکز میں ایک آزاد عراق کا سیاسی اور قانونی ڈھانچہ، عالمی ڈیموکریٹک انقلاب میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا۔" یہ ایسا وعدہ تھا جو ہمیشہ تشنۂ تکمیل رہا اور مغربی ایشیا کے علاقے میں امریکا کی دو عشرے سے زیادہ کی موجودگي کا پھل ڈیموکریسی اور عمومی رفاہ نہیں بلکہ تباہی اور غربت کی صورت میں سامنے آيا۔

براؤن یونیورسٹی کی تازہ ترین تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ 11 ستمبر کے بعد امریکا کی جنگوں میں اب تک براہ راست نو لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ اسی طرح اس یونیورسٹی کے تخمینے کے مطابق پچھلے 23 برس میں ان جنگوں کی وجہ سے 36 لاکھ سے 38 لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر مارے گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امریکی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ اب تک 45 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لے چکی ہے۔ دوسری جانب یہ جنگيں اب تک 3 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے بے گھر کر چکی ہیں اور دسیوں لاکھ بے قصور لوگوں کے گھر مسمار یا تباہ ہو چکے ہیں۔(2)

صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس سال تک جاری رہنے والی فوجی کارروائيوں میں 30 ہزار سے زیادہ عام شہریوں سمیت 1 لاکھ 74 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے ہیں۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عراق، شام اور افغانستان پر امریکا کے 50 ہزار سے زیادہ فضائي حملوں نے دسیوں ہزار عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔(3) امریکی فوج کے وحشیانہ قتل عام کی ایک تازہ مثال، افغانستان سے انخلاء کے وقت اس کی جانب سے افغان شہریوں پر ڈرون حملہ ہے جس میں سات بچوں سمیت کم از کم 10 افغان شہری مارے گئے جن میں سب سے چھوٹے کی عمر 2 سال تھی۔(4)

اس کے علاوہ آج کل دنیا نیویارکر میگزین میں شائع ہونے والی ان تازہ تصاویر اور تفصیلات سے حیرت زدہ ہے جن میں حدیثہ کے قتل عام میں امریکی فوج کی قلعی کھولی گئي ہے۔(5) اس مجرمانہ کارروائي کے تحت امریکی میرینز کے ایک گروپ نے سنہ 2005 میں حدیثہ شہر میں عراق کے 24 عام شہریوں کا قتل عام کر دیا تھا جن میں بچے، عورتیں اور مرد شامل تھے۔(6) امریکی فوجیوں نے اس وقت بہت سی تصویریں کھینچ کر اپنے جرائم کے ثبوت اکٹھا کر لیے تھے تاہم امریکی فوج اب سے کچھ ہفتے پہلے تک ان تصویروں کو عام لوگوں کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔

البتہ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ امریکی عوام بھی اپنی بے رحم حکومت کی جنگي مشین کی ایک بڑی قربانی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اب تک امریکا پر 9 ٹریلین ڈالر کا مالی بوجھ لاد دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کے ٹیکس دہندگان آج تک ہر گھنٹے اوسطاً 9 کروڑ تیس لاکھ ڈالر امریکا کی جنگ افروزی کے لیے ادا کرتے رہے ہیں۔(7) اسی طرح امریکی فوج کو ہونے والا جانی نقصان عراق اور افغانستان کی جنگ کے بعد بھی بدستور جاری ہے۔ چنانچہ 11 ستمبر کی جنگوں کے بعد خود کشی کر کے مرنے والے امریکا کے فوجی اسٹاف کے موجودہ اور سابق کارکنوں کی تعداد میدان جنگ میں مرنے والے فوجیوں سے کم از کم چار گنا زیادہ ہے۔(8)

اس کے علاوہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں کے درمیان وسیع پیمانے پر جنسی جارحیتوں کی رپورٹیں بھی سامنے آئی ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سنہ 2001 سے 2021 تک جاری رہنے والی افغانستان کی جنگ میں امریکا کی 24 فیصد خواتین فوجیوں اور 1.9 فیصد مرد فوجیوں کو جنسی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔(9)

اب نائن الیون کے واقعے اور خطے پر امریکا کے فوجی حملے کے آغاز کو 23 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد سبھی کے لیے یہ بات پہلے سے زیادہ عیاں ہو چکی ہے کہ یہ ساری بے حساب مالی، فوجی اور انسانی قیمت صرف امریکا اور اس ملک کے مجرم حکام کی عسکری صنعت کے کامپلکس کی خوشنودی کے لیے چکائي گئي تھی۔ بش، اوباما، ٹرمپ اور بائيڈن جیسے افراد نے امریکی عوام کے مفادات پر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دے کر لاکھوں بے قصور لوگوں کو دہشت گردی سے جنگ کے بے بنیاد بہانے کی بھینٹ چڑھا دیا اور علاقائي اقوام کے درمیان بہت زیادہ غیظ اور نفرت پیدا کر کے ہمیشہ کے لیے، مغربی ایشیا سے امریکی حکومت کو نکال باہر کیے جانے کا سبب بنے۔

یہ وہ بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے کئي سال پہلے بڑے حکیمانہ انداز میں اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "اس علاقے کے عوام امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس بات کو امریکی سمجھتے کیوں نہیں؟ تم امریکیوں نے عراق میں جرائم کا ارتکاب کیا، افغانستان میں جرائم کا ارتکاب کیا اور لوگوں کو قتل کیا۔ امریکیوں نے صدام کے زوال کے بعد، بلیک واٹر جیسی خبیث سیکورٹی ایجنسیوں کے ذریعے غالباً عراق کے ایک ہزار سے زائد سائنسدانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور قتل کیا، لوگوں کے گھروں پر حملہ کیا، گھر کے مرد کو، اس کی زوجہ اور بچوں کے سامنے زمین پر گرایا اور اپنے بوٹوں سے اس کے چہرے کو کچلا۔ تم نے یہ کام کیے۔ تم امریکیوں نے افغانستان میں بارات پر بمباری کر دی ۔ ایک بار اور دو بار نہیں بلکہ دسیوں بار تم نے اس طرح کی بمباری کی۔ سوگ کے اجتماعات پر بمباری کی۔ تم نے جرائم کا ارتکاب کیا۔ لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔ افغانستان کے عوام، عراق کے عوام ، شام کے عوام اور دوسرے علاقوں کے عوام۔"(10)

 

محمد مہدی عباسی، امریکی مسائل کے تجزیہ نگار

 

https://edition.cnn.com/2001/US/09/20/gen.bush.transcript/

2 https://watson.brown.edu/costsofwar/figures

3 https://www.vox.com/22654167/cost-deaths-war-on-terror-afghanistan-iraq-911

4 https://en.wikipedia.org/wiki/August_2021_Kabul_drone_strike

5 https://www.newyorker.com/podcast/in-the-dark/the-haditha-massacre-photos-that-the-military-didnt-want-the-world-to-see

6 https://en.wikipedia.org/wiki/Haditha_massacre

7 https://www.nationalpriorities.org/cost-of/war/

8 https://watson.brown.edu/costsofwar/papers/2021/Suicides

9https://watson.brown.edu/costsofwar/costs/human/veterans#:~:text=Amongst%20active%2Dduty%20service%20members,assault%20prevalence%20in%20the%20military.

10 https://urdu.khamenei.ir/news/2465