امریکا کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزی
سنہ 2023 میں امریکا میں قریب بارہ سو لوگ پولیس کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس ملک میں سیاہ فام افراد، آبادی کا صرف تیرہ فیصد ہیں لیکن امریکی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے افراد میں چھبیس فیصد سیاہ فام تھے۔ اسی طرح پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تقریباً بیس فیصد سیاہ فام شہری، غیر مسلح تھے۔(1)
گزشتہ سال امریکا نے اپنی جنوبی سرحدوں سے سترہ لاکھ سے زیادہ مہاجروں کو حراست میں لیا تھا جن میں پینتالیس ہزار بچے تھے۔ مہاجرین کے ساتھ امریکی حکومت کے تشدد آمیز رویے میں پچھلے ساتھ بہت سے لوگ مارے بھی گئے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 557 مہاجر امریکا کی بارڈر سیکورٹی فورس کے ہاتھوں مارے گئے۔(2) یہ تعداد سنہ 1998 سے لے کر اب تک اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سرحدوں پر مارے جانے والے مہاجرین کی تعداد ہر سال بڑھتی ہی رہی ہے۔
امریکا، قیدیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ چنانچہ سنہ 2023 میں امریکی جیلوں میں بیس لاکھ کے قریب افراد قید تھے۔(3) اسی طرح پوری دنیا میں خواتین قیدیوں کی ایک تہائي تعداد کے لحاظ سے بھی امریکا دنیا میں خواتین قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد رکھنے والا ملک ہے۔(4) حالیہ برسوں میں امریکی جیلوں میں قیدیوں کی حفظان صحت کی ابتر صورتحال کے بارے میں بھی متعدد رپورٹیں سامنے آئي ہیں۔
انیسویں صدی میں امریکا میں بردہ داری کے خاتمے اور بعض قانونی اصلاحات کے باوجود امریکی معاشرے میں سیاہ فام باشندوں کے خلاف ظلم اور نسلی تفریق کے بہت سارے معاملے پائے جاتے ہیں۔ امریکا میں ایک معتبر سروے رپورٹ کے نتائج بتاتے ہیں کہ ان دنوں 75 فیصد سیاہ فام امریکی، اپنی جلد کے رنگ کے سبب نقصان اٹھانے اور ایذا رسانی کے خوف میں مبتلا ہیں۔(5) امریکا کے اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سیاہ فام لوگوں سے نفرت کی وجہ سے کیے جانے والے جرائم میں تقریباً 40 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
امریکا میں سیاہ فام باشندوں کی معاشی صورتحال، دیگر رنگ و نسل کے لوگوں کی نسبت بہتر نہیں ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ لاس اینجلس شہر میں بے گھر لوگوں کی تعداد کا ایک تہائي حصہ سیاہ فاموں کا ہے(6) اور امریکا کے ہر چھے میں سے ایک سیاہ فام، اپنی زندگي کے کسی نہ کسی حصے میں بے گھر رہا ہے۔(7) اسی طرح سیاہ فاموں کی رہائش کی صورتحال کے بارے میں آخری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا میں سیاہ فام سماج کے قریب بیس فیصد حصے کے پاس اپنا گھر ہے جبکہ یہی شرح سفید فاموں کے سلسلے میں ستّر فیصد سے زیادہ ہے۔(8) دیگر رنگ و نسل کے لوگوں کی نسبت سیاہ فاموں کی آمدنی کی صورتحال کے سلسلے میں بھی یہ فرق پوری طرح سے واضح ہے۔
امریکا میں عمومی سیکورٹی کی صورتحال بھی ہر سال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور اس ملک میں تشدد آمیز جرائم کا دائرہ بدستور بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف سنہ 2021 میں امریکا میں اجتماعی فائرنگ کے 693 کیس سامنے آئے جو اس سے پہلے کی سال کی نسبت 10 فیصد زیادہ تھے۔ ا سی طرح گزشتہ سال 40 ہزار سے امریکی شہری، ہتھیاروں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔(9)
بے گھر لوگوں کی بڑی تعداد امریکا میں بدستور ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ سنہ 2023 میں ساڑھے چھے لاکھ سے زیادہ امریکی شہریوں نے فٹ پاتھوں پر رات گزاری اور ان کے پاس رہنے کے لیے کوئي ٹھکانا نہیں تھا۔(10)
امریکا کا قانونی نظام برسوں پہلے ہی اپنا اعتبار کھو چکا ہے اور اس کے بارے میں بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت امریکا میں ساڑھے گیارہ ہزار سے زیادہ لوگ، غلطی سے جیل میں ہیں۔(11) ان میں سے بہت سے لوگ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ جیل میں گزار رہے ہیں اور شاذ و نادر ہی ان میں سے کسی کو ہرجانہ ملتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ امریکا کی چودہ ریاستوں میں غلطی سے سزا پانے والوں کو ہرجانہ دیے جانے کے سلسلے میں کوئي قانونی دستور العمل ہی نہیں ہے۔
امریکا، ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں ہیومن ٹریفکنگ اور جبری مزدوری کی بازار کافی گرم ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے اندازے کے مطابق ہر سال اندازاً چودہ ہزار سے سترہ ہزار لوگوں کو امریکا اسمگل کیا جاتا ہے۔(12) اسی طرح اندازہ لگایا جاتا ہے کہ امریکا میں تین لاکھ سے زیادہ بچے جنسی زیادتی کے خطرے میں ہیں۔(13) سنہ 2018 میں میکسکو اور فلپائن کے ساتھ امریکا ہیومن ٹریفکنگ کے میدان میں بدترین ملکوں کی لسٹ میں شامل تھا۔(14)
عالمی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی
براؤن یونیورسٹی کی آخری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ نائن الیون کے بعد ہونے والی جنگوں میں اب تک براہ راست تقریباً ساڑھے نو لاکھ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اسی طرح اس مؤقر یونیورسٹی کا اندازہ ہے کہ ان تیئیس برسوں میں چھتیس سے اڑتیس لاکھ لوگ بالواسطہ طور پر ان جنگوں کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
صرف افغانستان میں امریکی فوج کی بیس برسوں تک جاری رہنے والی کارروائيوں میں ایک لاکھ چوہتر ہزار لوگ مارے گئے جن میں تیس ہزاور سے زیادہ عام شہری تھے۔ دسمبر 2021 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپوروٹ کے مطابق عراق، شام اور افغانستان میں امریکا کے پچاس ہزار سے زیادہ فضائي حملوں میں دسیوں ہزار عام شہری جاں بحق ہوئے۔(15)
امریکی حکومت پر پڑنے والے شدید سیاسی اور میڈیا دباؤ کے باوجود گوانتانامو جیسی اس ملک کی جیلیں بدستور کام کر رہی ہیں۔ آخری سرکاری رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ گوانتانامو میں اب بھی قریب چالیس لوگ قید ہیں جن میں سے زیادہ تر کے خلاف مقدمے کے کارروائي ہوئي ہی نہیں ہے۔(16)
سی آئی اے جیسی امریکا کی خفیہ تنظیمیں، پوری دنیا میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرتی ہیں۔ مختلف ملکوں میں ایذا رسانی کے خفیہ اڈے بنانا، خلیل المصری اور اسامہ نصر جیسے لوگوں سمیت پوری دنیا کے بے شمار لوگوں کا اغوا(17) اور اسی طرح کی دوسری غیر انسانی کارروائياں، اس دعوے کی دلیل ہیں۔
آج ہی کی طرح امریکا کی کئي سو سال پر محیط تاریخ، انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے بھری ہوئي ہے۔ اس دعوے کی زندہ دلیل، امریکا کے ریڈ انڈینز ہیں۔ امریکا کے انکشاف کے وقت یعنی سنہ 1492 میں امریکی ریڈ انڈینز کی تعداد قریب پچاس لاکھ تھی۔ مہاجروں کے ہاتھوں ہونے والے بے رحمانہ قتل عام کے سبب کئي سو سال بعد یہ آبادی ڈھائي لاکھ تک پہنچ گئي(18) اور اس وقت امریکا میں ریڈ انڈینز، دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح زندگي گزار رہے ہیں اور ان کے بہت سے حقوق کو بآسانی پامال کر دیا جاتا ہے۔
المختصر یہ کہ امریکا، جو خود کو پوری دنیا میں انسانی حقوق کا سب سے بڑا حامی ظاہر کرتا ہے، ان تمام شواہد کی روشنی میں، اس سلسلے میں بہت ہی سیاہ اور تشویشناک کارکردگي کا حامل ہے۔ بلاشبہ امریکا کو، جسے انسانی حقوق کے سلسلے میں دوسرے ملکوں پر انگلی اٹھانے کا کوئي حق نہیں ہے، اصل ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔ یہ وہی بات ہے جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی نے بھی کچھ سال پہلے اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا: "ہم ریاستہائے متحدہ امریکا کے نظام اور بہت سی مغربی حکومتوں کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی پر ان کے خلاف مدعی ہیں۔ ہم مدعی ہیں، ہم ان سے جواب طلب کریں گے۔"
محمد مہدی عباس؛ امریکا مسائل کے تجزیہ نگار