بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
میں سیدۂ کائنات، جگر گوشۂ پیغمبر خاتم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت با سعادت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ آج ہماری نشست بہت پرنور، روحانی اور شیریں تھی۔ آپ خواہران و برادران سامع نے بھی اور اشعار پڑھنے والوں اور منقبت خوانوں نے بھی واقعی اس دن کی ہم سب کی معنوی ضرورت کو پورا کر دیا۔ خدا ان شاء اللہ آپ سب کو محفوظ رکھے اور مزید توفیق عطا فرمائے۔ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سلسلے میں اختصار سے کچھ باتیں عرض کروں گا، مدح خوانی اور مداحوں کے مسائل کے بارے میں بھی کچھ باتیں کہوں گا اور آج کے حالات اور مسائل کے بارے میں بھی کچھ مختصر باتیں عرض کروں گا۔
خداوند عالم نے تمام انسانوں کے لیے، چاہے وہ مرد ہوں یا عورت، دو خواتین کو نمونۂ عمل قرار دیا ہے: "وَ ضَرَبَ اللَہُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَاَتَ فِرعَون" اور اس کے بعد "وَ مَریَمَ ابنَتَ عِمران"(2) دو خواتین ہیں، جنھیں خداوند عالم نے پوری انسانیت کے لیے نمونۂ عمل اور آئيڈیل قرار دیا ہے، صرف عورتوں کے لیے نہیں، مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے۔ مختلف راویوں کے ذریعے شیعہ اور سنّی دونوں کے یہاں ایک روایت ہے کہ پیغمبر نے فرمایا کہ میری زہرا کی فضیلت ان دونوں خواتین سے برتر و بالاتر ہے۔(3) یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ نمونۂ عمل ہیں، یہ صرف فضیلت نہیں ہے، اس پر توجہ رہے، نمونۂ عمل تو ہیں ہی، اوج ہیں، رفعت ہیں، ممکن ہے کہ میں اور آپ اس اوج پر، اس چوٹی پر نہ پہنچ پائيں لیکن اس کی سمت بڑھنا تو چاہیے ہی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد، روایات کے اختلاف کی بنا پر دو مہینے یا تین مہینے بعد کی اپنی اسی مختصر سی حیات میں حضرت فاطمہ زہرا نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے، انھیں سب نے دیکھا، وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لیے نمونۂ عمل ہو سکتی ہیں۔
یہ بات کہ ایک اکیلی خاتون، ایک جوان خاتون، ایک بڑے مجمع، ایک طاقت، ایک حکومت کے سامنے کھڑی ہو جائے، حق کا دفاع کرے، شجاعت کا مظاہرہ کرے، اس کی منطق، سبھی صاحبان منطق کو مطمئن کر دے، کام کو ادھورا نہ چھوڑے اور اپنی زندگي کے آخری ایام تک، کہ جب مدینے کی عورتیں ان کی عیادت کے لیے آتی ہیں، انہی حقائق کو، دین کی انہی مضبوط بنیادوں کو بیان کرے، یہ ایسی چیزی ہے جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی نمایاں، ممتاز اور یکتا شخصیت کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان میں سے ہر بات آئیڈیل ہے: حق کے لیے قیام، شجاعت، کھل کر بولنا، استدلال کی طاقت، استقامت۔ یہ وہی چیز ہے جو خداوند عالم نے قرآن مجید میں فرمائي ہے کہ "اَن تَقوموا لِلَّہِ مَثنىٰ وَ فُرادىٰ"(4) اگر دو لوگ ہوئے تو خدا کے لیے اس چیز کے سامنے کھڑے ہو جاؤ اور قیام کرو جو امر خدا کے خلاف ہے، اگر دو لوگ نہ ہوئے، ایک ہی ہوئے، اکیلے ہی ہوئے تب بھی قیام کرو۔ اس آیت شریفہ کا وہ حقیقی مصداق، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔
خوارزمی نے جو علمائے اہلسنت میں سے ہیں، ایک روایت نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اے سلمان، آنحضرت یہ بات سلمان سے کہہ رہے ہیں جو پہلے درجے کے صحابی ہیں، پیغمبر اپنی یہ بات اپنے سب سے قریبی صحابی سے بیان کرتے ہیں: فاطمہ کی محبت، سو منزلوں پر فائدہ پہنچائے گي یعنی اس دنیوی زندگي کے بعد کے مرحلے میں سو جگہوں پر تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان منزل موت اور قبر کی ہے۔(5) فاطمہ کی یہ محبت جہاں تمھارے کام آئے گي، ان میں سب سے آسان جگہ موت اور قبر ہے۔ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی محبت کے بارے میں حدیث ہے۔ پہلی نظر میں اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اگر تم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے محبت رکھوگے تو یہ فضیلت تمھارے لیے ہے، یہ ٹھیک بھی ہے، یعنی اس معنی میں کوئي مشکل نہیں ہے۔ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے تمھاری محبت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سو جگہ تمھارے کام آئے گي لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو اس معنی کے ساتھ ایک دوسرا مطلب بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ "کسی سے فاطمہ زہرا کی محبت" کا یہ فائدہ ہے۔ یہ چیز عام بول چال میں بھی رائج ہے، کہتے ہیں فلاں کی دوستی تمھارے کام آئے گي، اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی تم سے ان کی شفقت، یہ بہت اہم ہے، یہ سخت ہے۔ وہ پہلا مطلب آسان ہے، جو بھی اس خورشید عالم تاب کو دیکھے، اس قمر منیر کو دیکھے، اس درخشاں ستارے کو دیکھے، ان فضائل کو دیکھے اسے محبت ہو جائے گي لیکن یہ دوسرا مطلب کہ وہ تمھیں چاہنے لگیں، یہ مشکل حصہ ہے۔
جو چیز مداحوں کی محفل کے لیے مناسب ہے وہ اسی بات کا ایک حصہ ہے: فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس شخص کو چاہیں گي جو ان خصوصیات کو اپنی زندگي میں نمونۂ عمل بنائے۔ ان خصوصیات میں سے ایک، تبیین یا حقائق کا بیان اور حقائق کی تشریح ہے۔ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس پہلے لمحے سے ہی حقائق بیان کرنا شروع کر دیا، انھوں نے ان سبھی سننے والوں اور ان سبھی لوگوں کو جو نہیں جانتے تھے یا جانتے تھے لیکن تجاہل عارفانہ کر رہے تھے یا بھول جانے والوں کو حقائق کے روبرو کر دیا۔ حقائق بیان کرنا، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا اہم ترین کام ہے۔
اہلبیت کی مداحی، حقائق بیان کرنے میں حضرت زہرا کی پیروی ہے۔ میں یہیں جملۂ معترضہ کے طور پر کہوں کہ آج ان حضرات نے جو پروگرام پیش کیا، وہ حقائق کا بیان تھا۔ یعنی اہلبیت علیہم السلام سے عقیدت کے اظہار کے ساتھ، عشق و محبت کے اظہار کے ساتھ انھوں نے حقائق کی تشریح کی، آج کے حقائق کو بیان کیا۔ حضرت فاطمہ زہرا نے بھی اس وقت کے حقائق کو بیان کیا، ان مسائل کو جو اسی دن پیش آئے تھے، اسی وقت کے مسائل تھے، آپ نے انھیں بیان کیا۔ آج کے مسائل کو بیان کرنا، ان کی تشریح کرنا ایک اہم فریضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی روایت میں آيا ہے: "اِنَّ المُؤمِنَ یُجاھِدُ بِسَیفِہِ وَ لِسانِہ"(6) مومن جہاد کرتا ہے، کبھی اپنی جان سے یعنی محاذ پر جاتا ہے، کبھی اپنی تلوار سے یعنی ہتھیار سے کام لیتا ہے اور کبھی اپنی زبان سے۔ زبان سے جہاد، جہاد کی اہم قسموں میں سے ایک ہے اور کبھی کبھی اس کی اہمیت اور اس کا اثر جان سے کیے جانے والے جہاد سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ آپ مداح حضرات جو یہاں پر موجود ہیں اور پورے ملک کے تمام مداح حضرات ان سب کے لئے یہ بات ہے: زبان سے جہاد۔
اس جہاد کے وسائل آپ کے اختیار میں ہیں۔ آپ کے پاس ایک کثیرالجہتی ہنر ہے، مدح خوانی ایک مخلوط ہنر ہے، پیرایا بھی، مواد بھی، دونوں ہنر ہیں، لفظ بھی ہنر ہے، معنی بھی ہنر ہے۔ یعنی یہاں کئي ہنر ایک دوسرے کے ساتھ ہو گئے ہیں اور انھوں نے مداحی کو وجود بخشا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم مداحی کی قدر سمجھیں، ہم بھی سمجھیں اور وہ خود بھی سمجھیں۔ مداحی کئي ہنروں کی آمیزش ہے، آواز کا ہنر، دھن کا ہنر، شعر کا ہنر، مجمع کو کنٹرول کرنے کا ہنر، کہ جو خود ایک بڑا ہنر ہے، لوگوں سے نظریں ملانے کا ہنر۔ آپ سائبر اسپیس میں لوگوں سے نظریں نہیں ملاتے ہیں بلکہ حقیقی محفل یا مجلس میں، حقیقی فضا میں آپ لوگوں سے بات کرتے ہیں، ان سے نظر ملا کر اپنی بات پیش کرتے ہیں، یہ خود ایک اہم ہنر ہے۔ بنابریں مداحی ایک مکمل میڈیا ہے اور چونکہ یہ ایک میڈیا ہے اس لیے یہ حقائق کے بیان کا ذریعہ ہو سکتا ہے، حقیقت کی تشریح کا ایک اہم وسیلہ۔
آج ہمیں حقائق کے بیان اور تشریح کی ضرورت ہے۔ آج لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، دشمن کے بنیادی کاموں میں سے ایک ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح ہوتی ہیں جنھیں آپ بھی دیکھتے ہیں، کچھ چیزیں خبروں میں واضح نہیں ہوتیں اور ان کی ہمیں اطلاع ہوتی ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، پیسے خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہن کو حقیقت کی طرف سے موڑ دیں۔ اس کا جواب کس کو دینا چاہیے؟ کسے اس ٹیڑھی لائن کو سیدھا کرنا چاہیے؟ کسے حقیقت کو بیان کرنا چاہیے؟ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ بڑا کام کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کی مداحی، آگہی بخش ہو، پہلے آگہی اور پھر امید بخش ہو یعنی مایوس کن نہ ہو اور آگے بڑھانے والی بھی ہو تب آپ نے ایک بنیادی اور بڑا کام کیا ہے جو بات کرنے اور پروپیگنڈہ کرنے کے بہت سے وسائل سے نہیں کیا جا سکتا۔ آپ دشمن کی خوف زدہ کرنے کی سازش کا مقابلہ کر سکتے ہیں، دشمن کا ایک اہم کام خوفزدہ کرنا ہے، ڈر پھیلانا ہے، آپ دشمن کے اختلاف پھیلانے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں، آپ دشمن کے مایوسی پیدا کرنے کے کام کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دیکھیے! یہ چیزیں جو میں عرض کر رہا ہوں، ان میں سے ہر ایک، ایک بنیادی عنصر ہے، معاشرے کو بیدار کرنا اور یہی باتیں جو آپ نے یہاں کہیں کہ "ہم بیٹھے نہیں رہیں گے"، "ہم اسلام کا پرچم جولان پر لہرائیں گے"، "ہم شام کے روضۂ اطہر کا دفاع کریں گے" وغیرہ، یہ سب، ان باتوں پر منحصر ہیں، یعنی دشمن کے خوف پھیلانے کے منصوبے کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی اختلاف پیدا کرنے کی چال کا مقابلہ کرنا چاہیے، دشمن کی مایوسی پھیلانے کی سازش کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دشمن کا اصل وسیلہ، ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ آپ مضبوط ہیں، وہ آپ کی کمزوری کا پروپیگنڈہ کرتا ہے تاکہ آپ کو ڈرا دے۔ آپ کے ہاتھ مضبوط ہیں، وہ پرچار کرتا ہے کہ آپ کے ہاتھ خالی ہیں تاکہ آپ کو مایوس کر دے۔ ان باتوں پر توجہ دینا چاہیے۔
اسلام کے ابتدائي زمانے میں جنگ احد میں مسلمانوں کو چوٹ پہنچی، حمزہ سید الشہداء جیسی شخصیت شہید ہو گئی، امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی شخصیت سر سے پیر تک زخمی ہو گئي، خود پیغمبر اکرم کی ذات گرامی کو چوٹ پہنچی، کئي لوگ شہید ہو گئے۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس پہنچے تو منافقین نے دیکھا کہ لوگوں کو ورغلانے اور اس صورتحال سے غلط فائدہ اٹھا کر زہریلے پروپیگنڈے کا اچھا موقع ہے تو انھوں نے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ پیدا کرنا شروع کر دیا: "اِنَّ النّاسَ قَد جَمَعوا لَکُم فَاخشَوھُم"(7) انھوں نے کہا کہ سب تمھارے خلاف ایک ہو گئے، ڈرو۔ انھوں نے اس طرح کی باتیں شروع کیں۔ خداوند عالم نے اس بات کی وجہ سے وحی نازل کی۔ قرآن مجید کی آيت کہتی ہے: "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ فَلا تَخافوھُم"(8) یہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے تمھیں ڈراتا ہے، ان سے نہ ڈرو۔ منافقوں اور وسوسہ ڈالنے والوں کے رخسار پر قرآن مجید نے زوردار تھپڑ رسید کیا۔ آج یہ "اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ" آپ کو کہنا چاہیے، اصحاب شعر و ادب اور فکر کو بیٹھنا چاہیے، سوچنا چاہیے، سننے اور دیکھنے والوں کے لیے قابل قبول اور دلنشیں استدلال تیار کرنے چاہیے، شعر کے لباس میں، مداحی کے آہنگ کے ساتھ اور اہلبیت کی مداحی کے معتبر مقام سے اسے لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔"اِنَّما ذٰلِکُمُ الشَّیطانُ یُخَوِّفُ اَولِیاءَہ"
آج ہمارے علاقے کی خبروں کی شہ سرخی، شام کے مسائل ہیں۔ میں تجزیہ نہیں کرنا چاہتا، دوسرے تجزیہ کریں۔ مجھے اس سلسلے میں بات کرنی ہے، کچھ نکات بیان کرنے ہیں:
پہلی بات۔ ایک ہنگامہ آرائي کرنے والے اور شر انگیز گروہ نے غیر ملکی حکومتوں کی مدد اور ان کی منصوبہ بندی سے، ان کی سازشوں سے، شام کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے میں کامیابی حاصل کی اور ملک کو عدم استحکام میں دھکیل دیا، انارکی کی حالت میں پہنچا دیا۔ میں نے شاید دو تین ہفتے پہلے یہیں پر ایک تقریر(9) میں کہا تھا: ملکوں پر تسلط کے لیے امریکا کی چال، ان دو چیزوں میں سے ایک ہے: یا انفرادی آمرانہ حکومت بنانا کہ جا کر اس سے سازباز کریں، بات کریں، ملک کے مفادات کو آپس میں تقسیم کریں، یا تو یہ ہوگا۔ اگر یہ نہیں ہوا تو پھر انارکی، ہنگامہ آرائی۔ شام میں یہ چیز ہنگاموں پر منتج ہوئی۔ افراتفری پیدا کر دی۔ اب وہ بزعم خود فتح محسوس کر رہے ہیں۔ امریکی، صیہونی حکومت اور جو ان کے ہمراہ ہیں۔ یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ فتحیاب ہو گئے ہیں لہذا بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں۔ شیطان والوں کی خاصیت یہی ہے کہ جب وہ سمجھتے ہیں کہ کامیاب ہو گئے تو اپنی زبان پر سے ان کا کنٹرول ختم ہو جاتا ہے، وہ بڑبولے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، بکواس کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ آج ہرزہ سرائي کرنے لگے ہیں۔ ایک امریکی عہدیدار کے بڑبولے پن کی ایک مثال یہ ہے کہ، اس کی باتوں کا لب لباب یہ ہے، اس نے کھل کر نہیں کہا، ڈھکے چھپے الفاظ میں کہا لیکن پوری طرح سے واضح ہے کہ وہ یہی کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ جو بھی ایران میں ہنگامے کرے گا، ہم اس کی مدد کریں گے۔ احمقوں کو بلی کی طرح خواب میں چھیچھڑے دکھائی دینے لگے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ ایرانی قوم، ہر اس شخص کو جو اس مسئلے میں امریکا کا پٹھو بننا قبول کرے گا، اپنے مضبوط پیروں تلے روند دے گي۔
دوسری بات۔ صیہونی، فتح کا دکھاوا کر رہے ہیں، فتحیاب جیسے لوگوں کا چہرہ بنا رہے ہیں، بڑی بڑی باتیں کر رہے ہیں، رجز خوانی کر رہے ہیں۔ بدبختو! تم کہاں جیتے ہو؟ کیا غزہ میں جیتے ہو؟ وہ انسان جو بم سے چالیس پینتالیس ہزار عورتوں اور بچوں کو قتل کر دے اور اپنے پہلے اعلان کردہ اہداف میں سے ایک بھی حاصل نہ کر پائے، وہ فاتح ہے؟ کیا تم حماس کو ختم کر پائے؟ کیا تم غزہ سے اپنے قیدیوں کو چھڑا پائے؟ تم نے کہا کہ ہم حزب اللہ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں اور تم نے سید حسن نصر اللہ جیسے عظیم شخص کو شہید کر دیا، کیا تم حزب اللہ کو ختم کر پائے؟ حزب اللہ زندہ ہے، فلسطینی مزاحمت زندہ ہے، حماس زندہ ہے، جہاد اسلامی زندہ ہے، تم فاتح نہیں ہو، تمھیں شکست ہوئي ہے۔ ہاں، شام میں تمھارے آگے راستہ صاف تھا، ایک سپاہی بھی ایک بندوق کے ساتھ تمھارے سامنے نہیں تھا اور تم ٹینکوں اور فوجی وسائل کے ساتھ کچھ کلو میٹر آگے بڑھنے میں کامیاب رہے لیکن یہ فتح نہیں ہے، تمھارے سامنے کوئی رکاوٹ تھی ہی نہیں، یہ فتح نہیں ہے۔ البتہ بلاشبہہ شام کے غیور اور شجاع جوان تمھیں یہاں سے نکال باہر کریں گے۔
تیسری بات۔ مختلف پروپیگنڈوں میں - کیونکہ ان کا سامنا اسلامی جمہوریہ سے ہے - لگاتار کہہ رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے خطے میں اپنی پراکسی فورسز کو گنوا دیا! یہ بھی ایک دوسری بکواس ہے! اسلامی جمہوریہ کی کوئي پراکسی فورس نہیں ہے۔ یمن لڑ رہا ہے کیونکہ وہ باایمان ہے، حزب اللہ لڑ رہی ہے کیونکہ ایمان کی طاقت اسے میدان میں لاتی ہے، حماس اور جہاد اسلامی لڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ان سے یہ کام کرواتا ہے، یہ ہمارے پراکسی نہیں ہیں۔ اگر کسی دن ہم کارروائي کرنا چاہیں تو ہمیں پراکسی فورس کی کوئي ضرورت نہیں پڑتی۔ یمن میں، عراق میں، لبنان میں، فلسطین میں اور ان شاء اللہ مستقبل قریب میں شام میں باشرف اور باایمان مرد موجود ہیں جو خود ظلم سے لڑ رہے ہیں، جرم سے لڑ رہے ہیں، مسلط کردہ منحوس صیہونی حکومت سے لڑ رہے ہیں، ہم بھی لڑ رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس حکومت کو خطے سے ختم کر کے رہیں گے۔
جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں وہ سیاسی بیان نہیں بلکہ ایسے حقائق ہیں جنھیں ہم نے قریب سے محسوس کیا ہے۔ یہ جاننا آپ کے لیے بھی بہتر ہے: حزب اللہ لبنان ایک عزت دار، مضبوط، ٹھوس اور فولادی گروہ ہے جو سنہ اسّی کی دہائي میں لبنان میں ہونے والی ہنگامہ آرائیوں سے پیدا ہوا۔ وہاں پورے خطے کو تباہ کر دیا تھا، خانہ جنگي سے، ہنگامہ آرائیوں سے، بدامنی سے، بدامنی اور عدم تحفظ کے درمیان حزب اللہ وجود میں آئي اور اس نے سر ابھارا۔ ہمارے عزیز شہید سید حسن سے پہلے مرحوم سید عباس موسوی بھی تھے، دوسرے بھی تھے، وہ بھی شہید ہو گئے، ان کی شہادت نے حزب اللہ کو کمزور نہیں کیا، اگر ہم یہ یہ نہ کہیں کہ مضبوط کیا۔ آج بھی ایسا ہی ہے، کل بھی ایسا ہی ہوگا۔ خطروں کے بطن سے مواقع نکلتے ہیں، اگر ہم متوجہ رہیں، ذمہ داری محسوس کرتے رہیں، جو کچھ ہمارے دل میں ہے اور ہماری زبان پر ہے، اسے عمل کے وقت دکھائيں تو ایسا ہوگا۔
اور میری پیشگوئی ہے کہ یہ واقعہ یعنی شام میں بھی ایک مضبوط اور باشرف گروہ کے سامنے آنے کا واقعہ ہو کر رہے گا۔ شام کے جوان کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس کی یونیورسٹی غیر محفوظ ہے، اس کا اسکول غیر محفوظ ہے، اس کا گھر غیر محفوظ ہے، اس کی سڑک غیر محفوظ ہے، اس کی زندگي غیر محفوظ ہے، وہ کیا کرے؟ اسے عزم کی طاقت کے ساتھ ان لوگوں کے مقابلے میں جنھوں نے اس بدامنی کی سازش تیار کی ہے اور جنھوں نے اس پر کام کیا ہے، ڈٹ جانا چاہیے اور ان شاء اللہ وہ ان پر غلبہ حاصل کر کے رہے گا۔ اللہ کے لطف و کرم سے خطے کا کل، خطے کے آج سے بہتر ہوگا۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1. اس ملاقات کے آغاز میں کچھ ذاکرین اور مداحوں نے اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فضائل و مناقب بیان کیے اور اس سلسلے میں اشعار پڑھے۔
2. سورۂ تحریم، آيت 11 اور 12، اوراللہ اہلِ ایمان کے لیے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی مثال پیش کرتا ہے ... اور (دوسری) مثال مریم بنت عمران کی ...
3. منجملہ، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، جلد 3، صفحہ 323، سیوطی، در المنثور، جلد 2، صفحہ 23
4. سورۂ سبا، آيت 46، تم دو، دو اور ایک ایک ہو کر خدا کے لیے کھڑے ہو جاؤ ...
5. مقتل الحسین (علیہ السلام) جلد 1، صفحہ 100
6. تفسیر نمونہ، جلد 15، صفحہ 383
7. سورۂ آل عمران، آيت 173، ... لوگوں نے تمھارے خلاف بڑا لشکر جمع کیا ہے لہذا ان سے ڈرو۔
8. سورۂ آل عمران، آيت 175، دراصل یہ شیطان تھا جو تمھیں اپنے حوالی موالی (دوستوں) سے ڈراتا ہے اور تم ان سے نہ ڈرو ...
9. پورے ملک سے آئے بسیجیوں (رضاکاروں سے ملاقات میں خطاب، 25/11/2024)