اس وقت مغربی ایشیا کے علاقے میں اور عالمی سطح پر جو حالات ہیں اور میڈیا میں اور سیاسی پلیٹ فارمز پر اس خطے اور اس کے مستقبل کے بارے میں جو بیانات، تجزیے اور پروپیگنڈے سامنے آ رہے ہیں، ان کے پیش نظر آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب اور ان کے ذریعے پیش کیے گئے تجزیوں اور تاریخی شواہد نے ایک بالکل ہی الگ تصویر دکھائي ہے۔
ان کے خطاب میں ایک بہت اہم نکتہ، امریکا کی اندازے کی غلطی کے بارے میں تھا۔ امریکا، صیہونی حکومت اور ان کی چشم و ابرو کے اشارے پر کام کرنے والا عرب اور مغربی میڈیا خطے اور دنیا کے لوگوں کو یہ سمجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ مغربی ایشیا میں مزاحمتی محاذ کی بساط لپٹ چکی ہے اور یہ محاذ بہت زیادہ کمزور پڑ چکا ہے۔ بنابریں "نئے مشرق وسطیٰ" کی تشکیل کی راہ میں موجود رکاوٹیں، جو امریکا اور صیہونی حکومت کا ایک دیرینہ پروجیکٹ ہے، ختم ہو چکی ہیں۔
تاہم رہبر انقلاب کے خطاب میں یہ ٹھوس استدلال موجود تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی عشروں سے، اندازے کی غلطی میں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی خطے کے موجودہ حالات کے بارے میں پوری طرح سے غلط فہمی میں ہیں۔ انھوں نے جو تاریخی اور قرآنی شواہد پیش کیے، وہ واضح طور پر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں: "30 دسمبر 1977 کو کارٹر یہاں آئے، تعریف کی اور کہا کہ یہ "جزیرہ ثبات" ہے اور اسی طرح کی دوسری باتیں کیں اور 9 جنوری کو یعنی نو دن بعد یہ واقعہ رونما ہوا۔ یہ ان کی اندازوں کی غلطی تھی ... اسلامی انقلاب سامراج کے اہم ترین مورچے (امریکی اس وقت ایران کو اپنا اہم ترین مورچہ سمجھتے تھے) سے برآمد ہو۔ یہ امریکا کی اندازوں کی غلطی ہے۔ انھوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ "وَ ظَنُّوا انّھم مانِعَتھم حُصونھم مِنَ اللہ فَاَتاھم اللہ مِن حَیثُ لَم یَحتَسِبوا" (سورۂ حشر، آيت 2) حضرت موسی کی طرح۔ موسوی تحریک، فرعون کے گھر سے، فرعون کے محل سے شروع ہوئی اور قصر فرعون نیز فرعونیوں کی نابودی پر منتج ہوئی۔"
ایک دوسرا اہم نکتہ جو رہبر انقلاب نے پیش کیا وہ دشمن کے میڈیا پروپیگنڈے سے متعلق تھا۔ امریکا اور صیہونی حکومت کے پٹھو میڈیا اور اسی طرح دشمن عرب میڈیا کی کوشش ہے کہ خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے جیسے آدھی ادھوری سچائي بیان کر کے اور ادھورے سچ کی بنیاد پر اپنے پسندیدہ نتائج اور تصویر کو پیش کر کے رائے عامہ کو اصل اور مکمل حقائق سے دور رکھیں اور نفسیاتی دباؤ بڑھاتے رہیں۔ مثال کے طور پر نیویارک ٹائمز نے "حزب اللہ کا خاتمہ"(1) عنوان کے تحت ایک مقالے میں یہی ہتھکنڈہ اختیار کیا۔ اس مقالے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیجروں اور وائر لیس کے دھماکوں کی بات کی گئي اور حزب اللہ کے بڑے عہدیداروں کی شہادت کی طرف بھی اشارہ کیا گيا۔ یہ وہ حقائق ہیں جو رونما ہوئے ہیں لیکن نیویارک ٹائمز ان حقائق کو بیان کر کے پڑھنے والے کے ذہن میں یہ تصور پیدا کرنا چاہتا ہے کہ حزب اللہ کا خاتمہ ہو گيا ہے کہ جو حقیقت کے بالکل برخلاف ہے۔ حزب اللہ اور اسی طرح حماس اور جہاد اسلامی بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود پوری طاقت سے میدان میں ہیں اور مزاحمت کر رہے ہیں۔
رہبر انقلاب نے اپنے خطاب میں رائے عامہ کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کراتے ہوئے کہا: "آپ دیکھیے کہ غزہ میں اتنے لوگوں کو مار دیا، ٹینک آئے، توپیں آئیں، بم گرائے، مشین گنوں سے کام لیا، مائیکرو ڈرون استعمال کیے، بعض ہستیوں کو شہید کیا لیکن تحریک کو ختم نہ کر سکے۔ لبنان ميں سید حسن نصر اللہ جیسے حزب اللہ کے رہنماؤں کو شہید کیا، بہت سے لوگوں کو ختم کر دیا، یہ ہارڈ وئیر والے کام ہیں، لیکن حزب اللہ کو ختم نہ کر سکے، ہرگز ختم نہیں کر سکتے اور مستقبل میں بھی ایسا نہیں کر سکیں گے ... آپ طاقتور ہو رہے ہیں، دشمن پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ آپ کمزور ہو رہے ہیں۔ وہ خود کمزور ہو رہا ہے لیکن پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ طاقتور ہو رہا ہے۔"
اس نکتے پر آيت اللہ خامنہ ای کی تاکید بھی بہت اہم تھی کہ سب سے اہم مسئلے یعنی مسئلۂ فلسطین پر اصل توجہ باقی رہنی چاہیے اور اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ دوسرے واقعات، عالم اسلام کے اس حیاتی مسئلے سے رائے عامہ کی توجہ ہٹنے کا سبب بن جائيں۔ یہ موقف، اسلامی انقلاب، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور رہبر انقلاب کی بنیادی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے، یعنی ہمیشہ اصل دشمن یعنی امریکا اور اسرائيل کی نقل و حرکت پر نظر رکھنی چاہیے اور صحیح منصوبہ بندی اور مؤثر اقدامات کے ذریعے ان کے مقابلے میں ڈٹ جانا چاہیے: "مختلف واقعات کو چاہے ہمارے ملک کے ہوں، یا علاقے کے جیسے شام کے، اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہئے کہ مسئلہ فلسطین پر ہماری توجہ کم ہو جائے۔ استقامت کی اصل بنیاد، خباثت آلود صیہونی حکومت کے مقابلے میں استقامت ہے۔ یہ استقامت ہے۔ استقامت زندہ ہے۔ اس کو زندہ رہنا چاہئے۔ روز بروز قوی تر ہونا چاہئے۔ ہم تحریک استقامت کی حمایت جاری رکھیں۔ غزہ میں، غرب اردن میں ، لبنان میں اور یمن میں، ہر اس جگہ جہاں لوگ صیہونی حکومت کے خباثت آمیز اقدامات کے مقابلے میں ڈٹ جائیں اور استقامت سے کام لیں، ہم وہاں ان کی تحریک استقامت کی حمایت کرتے ہیں۔"
یہ چیز دراصل، شام کے واقعات جیسے حالات کا سامنا کرنے میں اسلامی جمہوریہ اور رہبر انقلاب کی خود اعتمادی کو ظاہر کرتی ہے۔ دشمن اور دشمن میڈیا کی کوشش ہے کہ ان واقعات کو اسلامی جمہوریہ اور مزاحتمی محاذ کے لیے ایک فیصلہ کن شکست اور ان کے منصوبوں کی ناکامی کے طور پر پیش کریں لیکن رہبر انقلاب اسلامی نے اس سے پہلے ہی اس مسئلے میں اپنی پیش بینی کا اعلان کر دیا ہے کہ شام کے غیور جوان، سازشوں کو ناکام بنا دیں گے اور غاصبوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔
اسلامی جمہوریہ کی یہی دور اندیشانہ اور اسٹریٹیجک سوچ اس بات کا سبب بنی ہے کہ دشمنوں یعنی امریکا اور اسرائيل کی جانب سے ایران کو فرقہ پرستی اور علاقائي فتنوں جیسے ذیلی فتنوں میں الجھانے کی کوششیں ناکام ہو جائيں۔ اسلامی جمہوریہ ایران، مسئلۂ فلسطین کو بنیادی مسئلہ قرار دے کر اور اس راہ میں سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعے اور بہت زیادہ قربانیاں دے کر، مسئلۂ فلسطین کے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کی سب سے اہم مسئلے میں تبدیل ہو جانے میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب میں ایک دوسرا اہم نکتہ سنجیدہ کوششوں کے ساتھ امید کا مسئلہ تھا۔ یہ نکتہ موجودہ حالات میں دشمن کے شدید تشہیراتی اور نفسیاتی حملوں کے پیش نظر بہت زیادہ اہم ہے اور مستقبل کو یقینی بنا سکتا ہے۔ انھوں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے ایمان، بصیرت اور توکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قم کے عوام کے خونیں قیام اور پہلوی حکومت کی جانب سے اس کی بے رحمانہ سرکوبی کے بعد امام خمینی کے تاریخی پیغام کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جس میں انھوں نے عوام سے کہا تھا: "میں آپ کو فتح کی بشارت دیتا ہوں!"
یہ صرف امام خمینی کے جملے کی یاد دہانی نہیں تھی بلکہ رہبر انقلاب، موجودہ حالات میں ایک بار پھر عوام اور رائے عامہ سے بالکل یہی کہنا چاہتے تھے کہ "میں آپ کو فتح کی بشارت دیتا ہوں۔"