ہم عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ میں اپنے اعضائے جسمانی کا نذرانہ پیش کرنے والے ایک 'جانباز' کے گھر جا کر انھیں رہبر انقلاب اسلامی کا سلام پہنچانے والے تھے۔ جب سب لوگ ان کے گھر میں پہنچ جاتے ہیں تو وہ ایک تبسم اور پرسکون نظر سے سبھی کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ الحاج حسن اپنائیت سے لبریز، منکسر مزاج اور بہت ٹھہر ٹھہر کر بات کرنے والے انسان ہیں۔ اگرچہ وہ برسوں سے وہیل چیئر پر ہیں لیکن ان کے وجود میں تھکن کا کوئي نام و نشان نہیں ہے۔ ان کا گھر بھی عام گھروں کی طرح ہے۔ اس میں وہی چیزیں ہیں جو عام طور پر سبھی گھروں میں ہوتی ہیں۔ کوئي اضافی اور آنکھوں کو چکاچوندھ کرنے والی کوئي چیز نہیں ہے جو مکین کے ٹھاٹ باٹ کی عکاسی کرتی ہو۔

اس گھر میں بیٹھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے اور میں بڑے اشتیاق سے الحاج حسن کے بائيں پہلو میں صوفے پر بیٹھ جاتا ہوں جو اپنی وہیل چیئر پر حاضرین کے سامنے بیٹھے ہیں۔ ان کی گہری آنکھیں میرے دل کی گہرائيوں میں اتر جاتی ہیں۔ بہت سے لوگ کافی پیسے خرچ کرتے ہیں تاکہ جو لباس وہ زیب تن کرتے ہیں یا جو میک اپ کرتے ہیں وہ انھیں بدل دے لیکن ان کے وجود میں ذرہ برابر بھی تبدیلی نہیں آتی یا ان کی باتیں دلوں میں نہیں اترتیں۔ تاہم "حسن مخملی" کے اعضاء و جوارح سے، جنھوں نے The economics of e-health planning کے موضوع پر برطانیہ کی شیفلڈ ہیلم یونیورسوٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہے، 'جانبازی' بڑی خوبصورتی سے مترشح ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اپنا کچھ نہیں ہے اور ہم ملک کے نظام سے بھی کچھ نہیں چاہتے۔ ہمارا جو یہ گھر اور گاڑی ہے، اسے بھی ہم نے مزاحمتی محاذ کی راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا ہے اور اپنے اس معمولی سے ہدیے پر ہمیں فخر ہے۔

سبھی لوگ الحاج حسن کی باتوں میں ڈوبے ہوئے دم بخود بیٹھے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ ایک انسان کی روح کتنی عظیم المرتبہ ہونی چاہیے کہ وہ اس چیز کو، جسے ہم زندگي کہتے ہیں، اتنی سادگي سے، اتنے آرام سے اور پورے ہوش و حواس میں، راہ حقیقت میں دے دے اور اس کے بدلے میں اسے ذرہ برابر بھی کوئي طمع نہ ہو؟ کہاں ہوتے ہیں اس طرح کے لوگ جو طویل عرصے تک وہیل چیئر پر بیٹھنے کی قیمت پر اپنی صحت و سلامتی کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد بھی کچھ اور بخشنے کے لیے ادھر ادھر دیکھ رہے ہوں!؟ میں خود سے شرمسار ہونے لگتا ہوں اور نادانستہ طور پر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں تاکہ اس آئينے میں خود سے نظریں نہ ملاؤں جو میرے سامنے ہے۔ کیا کسی انسان کا ضمیر اور اس کی غیرت اسے اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اس طرح کے حقائق کو دیکھے اور پھر بھی اپنے آپ سے جھوٹ بولے کہ ارے بھئی اس انقلاب نے ہمارے لیے کیا کیا ہے!؟

ڈاکٹر مخملی کی آواز سے میں ایک بار پھر خود کو سمیٹتا ہوں جو کہہ رہے ہیں: ہم خالی ہاتھوں انقلاب لائے، ہمارے دلوں میں کینہ نہیں تھا، حسد نہیں تھا، ہم تنگ نظر نہیں تھے، ہمارے پاس مال اور لوگوں کی تعداد نہیں تھی، ہم میں گھمنڈ نہیں تھا، ہم خود غرض نہیں تھے، ہم مایوس نہیں ہوئے۔ ہم خالی ہاتھوں اور عشق الہی سے لبریز دلوں سے انقلاب لائے، ہم اپنی نجابت اور سچائي کے ساتھ مل کر لڑے، ہم نے خون دیا، شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ہم نے بارودی سرنگوں والے علاقے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی اور اب ہم عالمی برادری میں فخر سے سر اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں! امریکا اور دوسروں کی سمجھ میں نہیں آتا اور ہم نے دل سے یقین کیا کہ ایسا ہو کر رہے گا۔ ان کی باتیں شیریں اور روح میں اتر جانے والی ہیں لیکن وقت ہمیشہ کم پڑ جاتا ہے! یہاں تک کہ انقلاب اور جنگ کی بلبلوں کے ترانے سننے کے لیے بھی۔

حجت الاسلام اختری، الحاج حسن کو رہبر معظم کا پیغام پہنچاتے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان کا گلا رندھ گيا ہے اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئي ہیں۔ رہبر انقلاب نے ان کے لیے جو کوفیا (گردن میں ڈالا جانے والا بڑا رومال جو رضاکاروں اور مزاحمتی محاذ کے جانبازوں کا مظہر ہے) بھیجی ہے، وہ اسے اپنی اہلیہ کو دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے پاس آج جو بھی ہے وہ ان دعاؤں کی وجہ سے ہے جو میری اہلیہ نے کی ہیں۔

الوداع کہنے کا وقت آ گيا ہے۔ الحاج حسن اس ملاقات کے حسن ختام کے طور پر اپنی غزل پڑھتے ہیں۔ جان غزل وہ مصرع ہے جو ہمارے ذہن میں نقش ہو جاتا ہے:

بی پای دویدیم و رسیدیم بہ مقصود

(ہم بغیر پیروں کے دوڑے اور منزل مقصود تک پہنچ گئے)

الحاج حسن مخملی کی تصویر میرے ذہن میں کندہ ہو جاتی ہے۔ ہم انھیں الوداع کہہ کر وہاں سے چلے آتے ہیں۔ میں اپنے گھر پہنچ جاتا ہوں لیکن الحاج حسن کے ہاتھوں کی گرمی میرے پورے وجود میں سرایت کر چکی ہے۔ مجھے انقلاب کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔

راوی: رضا رہسپار

پیر، 3 فروری 2025