بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.
اس اجتماع میں جو ممتاز جوش و ولولہ نظر آ رہا ہے، خداوند عالم سے اس کے باقی رہنے کی دعا کرتا ہوں۔ آپ سبھی محترم حاضرین، بالخصوص شہیدوں کے لواحقین، صدر محترم (2) اور حکام کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
اپنی گفتگو شروع کرنے سے پہلے، تبریز کے شہید امام جمعہ جناب آل ہاشم کو یاد کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو گزشتہ سال، اس جلسے میں موجود تھے اور بہت ہی فصیح و بلیغ اور متین تقریر کی تھی۔ خداوند عالم ان شاء اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ یہ ان کی سعادت تھی کہ ان کی خدمات کا انہیں یہ صلہ عطا ہوا۔ خداوند عالم کے ارادے سے، اس طرح خدمات کا صلہ ملتا ہے۔ اسی طرح آذربائیجان کے جواں سال انقلابی گورنر(3) کو بھی یاد کریں، جو اس حادثے کے شہیدوں میں شامل ہيں اور اس تلخ حادثے کے دیگر شہیدوں کو بھی یاد کیا جائے، جن سے ملت ایران اس حادثے کے نتیجے میں محروم ہو گئی ۔
18 فروری 1978 کو جو کچھ ہوا وہ بہت بڑا واقعہ تھا۔ میں آج اس واقعے کو ان لوگوں کے نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہتا ہوں جنہوں نے یہ عظیم واقعہ رقم کیا۔ چند جملے اس سلسلے میں عرض کروں گا کیونکہ مختلف پہلوؤں سے آذربائیجان کے قابل فخر کارنامے بہت ہیں، متعدد ہیں، بہت زیادہ ہیں اور میں نے ان کے بارے میں بارہا اور بارہا گفتگو کی ہے۔ آپ کے بارے میں، آذربائیجان کے لوگوں کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ آج ہمارے تبریزی نوجوان، علاقے کے حالات پر نظر ڈالتے ہيں تو دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے ہیں اور انہیں تشخیص دیتے ہیں۔ ادھر سے ایک شخص جو ڈینگیں مارتا ہے اور ہرزہ سرائی کرتا ہے، اس سے نہیں ڈرتے، کمزوری کا احساس نہیں کرتے بلکہ اس کے مقابلے میں طاقت کا احساس کرتے ہیں۔
آذربائیجانی نوجوان، تبریزی نوجوان، ان حوادث کے مقابلے میں جو ماہر سیاستدانوں کے پیروں میں بھی لرزہ پیدا کر دیتے ہیں، پہاڑ کی طرح استوار کھڑے ہیں۔ ان نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ انہیں یہ جذبہ کن لوگوں سے وراثت میں ملا ہے۔ اس کا تعلق کس واقعے سے ہے۔ اگر ہمارے نوجوان، اسلامی انقلاب کے زمانے کو سمجھ نہ سکیں، 18 فروری کے واقعے کے بارے میں، اس کے نام کے علاوہ، انہیں کچھ نہ معلوم ہو، انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ ماضی میں جن لوگوں نے یہ عظیم واقعہ رقم کیا، وہ کون تھے، کیا تھے، کیا کام کرتے تھے اور کس جذبے کے ساتھ میدان میں آئے تھے تو دشمن کی گڑھی ہوئی غلط روایتیں ان کے ذہنوں میں گھر کر جائیں گی۔ ميں آج اس حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
آذربائیجان اور تبریز درحقیقت مختلف ادوار میں اغیار کی یلغار اور جارحیتوں کے مقابلے میں محکم دیوار تھے۔ ایک وقت ، مرکز اور دارالحکومت میں بیٹھے لوگوں کی ناتوانی کی وجہ سے، بعض علاقوں حتی خود تبریز پر زار روس اور سلطنت عثمانیہ کا قبضہ ہو گیا لیکن یہاں کے لوگوں نے اپنے تحمل اور پائیداری سے دشمن کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
زار روس کے کارندوں کا ستار خان سے اصرار تھا کہ اپنے گھر پر سفید پرچم نصب کریں تاکہ روسی فوجیوں کے حملے سے، جو وہاں موجود تھے، محفوظ رہیں۔ ستار خان نے کہا کہ میں "یا اباالفضل العباس" کے پرچم کے سائے میں ہوں، کسی دوسرے پرچم کے سائے میں نہیں جاؤں گا۔
مختلف ادوار میں، کچھ لوگ، جنہیں اغیار کا کارندہ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن، بہرحال منحرف تھے اور دور طاغوت کی حکومت میں شامل تھے، ان کی طرف سے کوشش ہوتی تھی کہ آذربائیجان پر قومی، دین مخالف اور نام نہاد سیکولر خصوصیت چسپاں کر دیں اور آذربائیجان سے غیر اسلامی تشخص منسوب کر دیں۔ لیکن اس تحریک کے مقابلے میں جو ہوا وہ بینا آنکھوں کے لئے درس آموز ہے۔ اسی دور میں جب یہ کوشش ہو رہی تھی، تبریز نے علامہ طباطبائی(4) اور علامہ امینی(5) جیسے گوہر درخشاں اور ادب کے میدان میں محمد حسین شہریار جیسی عظیم ہستی معاشرے کو دی ہے جنہوں نے ایران کا نام اور اعتبار بلند کیا۔
آذربائيجان کی ان ممتاز خصوصیات میں جنہوں نے 18 فروری کے قیام جیسے واقعات رقم کئے، آذربائیجان کے عوام کا اسلامی ایمان اور غیرت دینی ہے۔ تبریز کے عوام اور اسی طرح اس صوبے کے دیگر علاقوں کے ان لوگوں نے جو اس وقت تبریز میں تھے، اس قیام میں حصہ لیا اور یہ عظیم واقعہ رقم کیا۔ اس حادثے کی عظمت صرف یہ نہيں ہے کہ طاغوتی حکومت عوام کے مقابلے میں سڑکوں پر ٹینک لانے پر مجبور ہو گئی بلکہ اس کی اصل عظمت یہ تھی کہ یہ قیام پورے ایران کے لئے آئیڈیل بن گیا اور مختلف شہروں میں ایرانی عوام نے اس کی تقلید میں قیام کیا اور بالآخر 1979 کی عظیم انقلابی تحریک سامنے آئی، اس واقعے کی اصل عظمت یہ ہے۔
تبریز اور آذربائیجان کے عوام کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ مختلف امور میں آگے آگے رہے ہیں۔ مختلف واقعات میں، ہم نے آذربائیجان کی پیشقدمی کو دیکھا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ مختلف معاملات میں چاہے وہ علمی اور ثقافتی ہوں یا سیاسی اور چاہے ملک کے دفاع کی بات ہو، یہ آگے رہے ہیں۔ انھوں نے تحریک شروع کی ہے اور اس کا آغاز کیا ہے۔ یہ یہاں کے عوام کی خصوصیت ہے۔ آج کے نوجوانوں کو یہ باتیں معلوم ہونی چاہیئں۔ یہ استقامت کی میراث، طاقت اور توانائی کا احساس، مختلف حوادث کا سامنا ہونے پر کمزوری محسوس نہ کرنا، جو احساس کہ آج ہمارے آذربائیجانی اور تبریزی نوجوانوں میں موجود ہے، اس دور کی یاد گار ہے۔
آذربائیجان اور تبریز کی ایک خصوصیت، نمونہ عمل پیش کرنا ہے۔ خود یہ واقعہ بھی نمونہ عمل تھا۔ جن ہستیوں نے آذربائیجان اور تبریز میں بنیادی کردار ادا کئے، وہ بھی نمونہ عمل ہیں۔ یہ ایسی ممتاز آئیڈیل ہستیاں ہیں جو ایران اور ایرانی عوام کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیں گی۔ ممتازعالم دین ثقۃ الاسلام(6) یا عالم دین، شیخ محمد خیابانی، یہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے اغیار کی مداخلت کے مقابلے میں جان دی ہے۔ ستارخان اور باقر خان جیسی عظیم ہستیاں آئینی تحریک کی علمبردار تھیں۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جو ایران کے آئینی انقلاب کی عظیم تحریک کے دلیروں کے لئے نمونہ عمل بن گئی تھیں۔
دفاع مقدس میں آذربائیجان کے ممتاز نوجوانوں کا ایک نمونہ شہید برادران باکری تھے(7) جو مثال بن گئے۔
ادبیات، ثقافت اور علمی میدان میں بھی آذربائیجان کی مثالی ہستیاں بہت ہیں۔ ایک دور میں، تبریز کے حوزہ علمیہ نے معاشرے کو جو علما دیے، وہ اصفہان کو چھوڑ کر ہر جگہ سے زیادہ تھے۔ تبریز اور اصفہان، دو شہروں نے، جو ممتاز اور عظیم علما دیے ہیں، وہ ملک کے سبھی دینی مدارس اور شہروں ميں ممتاز تھے۔ یہ ان لوگوں کی خصوصیت ہے جنہوں نے یہ واقعہ اور ایسے عظیم واقعات رقم کئے ہیں۔ بنابریں آج آذربائیجان کے نوجوانوں کو تبریز کے مردوں اور عورتوں کو، ایمان اور غیرت دینی کی خصوصیت، آگے آگے رہنے کی خصوصیت اور نمونہ عمل پیش کرنے کی خصوصیت کو اپنی زںدہ جاوید اخلاقی اور سماجی میراث سمجھنا چاہئے اور ان سے ملک کی پیشرفت کے لئے، اور اس چیز کے لئے جس کا میں ذکروں گا کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے، استفادہ کرنا چاہئے۔
ہمارے عزیز بھائيو اور بہنو! آج ہمیں اپنے نوجوانوں کی مساعی کی برکت سے، اپنے سائسدانوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی کوششوں کی برکت سے، اسلحہ جاتی دفاع کے میدان میں، دشمن کی جنگ اور اسلحے کے استعمال کی دھمکیوں کے مقابلے میں کوئی تشویش اور مشکل نہیں ہے۔ آج الحمد للہ ہم بھی جانتے ہیں اور ہمارے دوست اور دشمن بھی جانتے ہیں کہ ایران اسلامی دشمن کی دھمکیوں کے مقابلے کے لحاظ سے توانائیوں کی اعلی سطح پر ہے اور اس لحاظ سے عوام خود کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔ بنابریں آج دشمن کی اسلحے کے استعمال کی دھمکیاں ہمارے لئے اہمیت نہيں رکھتیں۔
لیکن ایک اہم خطرہ موجود ہے جس کے مقابلے کے لئے ہمیں آمادہ رہنا چاہئے اور وہ سافٹ وار کے وسائل کا خطرہ ہے۔ آج ہمارے دشمن اعتراف کرتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر وہ ملت ایران پر غلبہ حاصل کرنا چاہیں اور اسلامی جمہوریہ کو اس کے طاقتور موقف سے پیچھے دھکیلنا چاہیں تو اس کی راہ یہ ہے کہ ملک کے اندر ، خود قوم کے اندر مشکلات کھڑی کریں، عوام کو مشکلات میں ڈالیں اور سافٹ وار کے وسائل سے کام لیں۔
سافٹ وار کا خطرہ کیا ہے؟ سافٹ وار کا خطریہ ہے کہ عوامی افکار کو مسموم کریں، اختلافات پیدا کریں، انقلاب اسلامی کے محکم اصولوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔ یہ سافٹ وار اور اس کے خطرات ہیں۔ سافٹ وار کے وسائل کے استعمال سے دشمن کے مقابلے میں پائیداری کے بارے میں شک پیدا کرنا، یہ خطرہ ہے اور اس پر کام کر رہے ہیں۔ خدا کے فضل سے آج تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ آج تک دشمن کے پیدا کردہ وسوسے عوام کے دلوں میں جگہ نہیں بنا سکے ہیں، ہمارے نوجوانوں کے عزم و ارادے کے متاثر کرنے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ اس کی ایک مثال اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کی ریلی ہے۔ دنیا میں کہاں یہ بات ہے کہ انقلاب کی کامیابی کے چھالیس برس بعد، انقلاب کی سالگرہ عوام، نہ کہ مسلح افواج کے افراد اور حکام بلکہ عام لوگ، عوام اس طرح منا تے ہوں؟ اور اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہوں؟ یہ چھالیس برس مشکلات سے پر رہے ہیں، عوام کو مشکلات کا سامنا ہے۔ عوام کو توقعات ہیں اور ان کی توقعات برحق ہیں، لیکن یہ باتیں اپنے انقلاب کے دفاع میں مانع نہیں ہیں۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کی جانب سے پیدا کئے جانے والے، نرم جںگ کے خطرات بھی آج تک اس قوم پر کارگر نہیں ہو سکے ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ دشمن کا یہ حیلہ اسی طرح جاری رہے اور مستقبل میں موثر واقع ہو۔
تشہیراتی وسائل کے مالکین، بولنے والے، صاحبان قلم، آرٹ اور فن کے ماہرین، صاحبان علم و دانش، وہ لوگ جو ابلاغیاتی اور آرٹ و فن کی تعلیم کے اداروں سے وابستہ ہیں، ان اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر ہیں، ہمارے وہ نوجوان جو سوشل میڈيا سے سروکار رکھتے ہیں، یہ سبھی لوگ، اپنی کوششیں اس بات پر مرکوز کر دیں اور یہ دیکھیں کہ دشمن کس پوائنٹ پر کام کر رہا ہے، اس کی انگلی کس نقطے پر ہے، وہ کس راستے سے عوام کے اذہان اور رائے عامہ میں نفوذ کی کوشش کر رہا ہے، اس راستے کو بند کر دیں۔ اس میدان میں کام کریں، اس حوالے سے پروڈکشن پر کام کریں، مفکر حضرات، فکر اور سوچ پیش کریں، اور اپنی ان کاوشوں سے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ آج یہ کام دشمن کے جنگی اسلحے کے مقابلے سے زیادہ اہم ہے۔ سخت جنگ کے مقابلے میں دفاع میں کوئي نقص ہو تو سافٹ وار کے میدان میں اس کی تلافی ہو سکتی ہے، اس کمزوری کو دور کیا جا سکتا ہے، اور بارہا یہ کام کیا گیا ہے۔ لیکن اگر سافٹ وار میں دفاع میں مشکل پیش آئی تو اس مشکل کو فوجی جنگ کے وسائل دور نہیں کر سکتے۔ اس پر توجہ رکھیں۔
ہمارے نوجوان، انقلاب کے مفاہیم، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات، اور ان طولانی برسوں کے دوران انقلاب اور اس کی خصوصیات کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، اس سے واقفیت حاصل کریں اور اس کو سمجھیں۔ ہمارا انقلاب تاریکی سے نور اور باطل سے حق کی جنگ تھی۔ یہ انقلاب ایران کی سربلندی، ملت ایران کی سربلندی ، ایران کے مستقبل کی عظمت اور ملت ایران کو اس کا تشخص دلانے کے لئے آیا تھا۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آلحمد للہ آج تک ہم کامیاب رہے ہیں، آج تک اس راہ میں آگے بڑھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ انقلاب نے ہمارے سامنے جو اہداف رکھے تھے، ہم پوری طرح انہیں حاصل نہیں کر سکے۔ آج ہم انصاف کی فراہمی میں پیچھے ہیں، سماجی ترقی میں پیچھے ہیں، بہت سے بنیادی مسائل میں ہم پیچھے ہیں اور ہمیں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے، لیکن یہ انقلاب ایک مستقل پہچان اور تشخص بننے، علاقے کی اقوام اور علاقے سے باہر کی بعض اقوام کے لئے بھی امیدوں کا عظیم مرکز بن جانے میں اور اپنی اس حیثیت کی حفاظت میں کامیاب رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ سے مستکبرین عالم اور سامراجی طاقتوں اور ان کے ذلیل کارندوں کی جو اچھے ناموں سے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، برہمی کی وجہ یہی ہے کہ یہ نظام باقی رہنے میں اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے میں کامیاب رہا اور اس نظام سے انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔
کچھ لوگ اپنے ناقص تجزیے میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایرانی قوم خود دشمن پیدا کر رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ جابر امریکا کے پالیسی ساز ادارے ایرانی عوام کے خلاف مسلسل کوشاں ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ "امریکا مردہ باد" کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران اپنے عوام کی ہمت سے ان کی فداکاریوں سے، سامراجی طاقتوں کے تسلط سے خود کو آزاد کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ ایرانی قوم سے دشمنی کی وجہ یہ ہے۔ وہ ایرانی قوم سے اس لئے برہم ہیں کہ یہ قوم ان کا تسلط قبول نہیں کر رہی ہے۔ وہ اپنی بات منوانے کے عادی ہیں، آپ سنتے ہیں (کہ وہ کہتے ہیں) کہ وہ جگہ ہمیں دے دیں، وہ جگہ ہمارے نام کر دیں! یہ ان کا کہنا ہے۔ اور ان کا عمل اس سے بھی زیادہ سخت، اس سے بدتر اور پست تر ہے۔ اقوام کی دولت و ثروت کی لوٹ مار اور اقوام کے عزم و ارادے پر تسلط، مستکبرین اور ان میں سر فہرست امریکا اور صیہونزم کے پیچیدہ نیٹ ورک کے بڑے جرائم ميں شامل ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے کہ کوئی قوم ملت ایران کی طرح، اپنے پیروں پر کھڑی ہو، ان کے ظلم کے مقابلے پر، ان کی مداخلتوں کے خلاف کھڑی ہو اور ان کی جارحیتوں پر معترض ہو۔ وہ یہ نہیں دیکھ پا رہے ہیں کہ اس قوم نے اپنا ایک نظام تشکیل دیا، چھالیس برس سے اس نظام کو باقی رکھے ہوئے ہے اور روز بروز اس کو محکم تر کر رہی ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھ سکتے۔
آج ہمارے مخاطبین، سب سے پہلے تو آپ آذربائیجان اور تبریز کے نوجوان ہیں، لیکن ہماری یہ بات ملک کے سبھی نوجوانوں کے لئے ہے کہ آج آپ کی ذمہ داری اس جذبے کی حفاظت، اس تحریک کی تقویت اور ان اہداف کی راہ میں پیشرفت ہے جو انقلاب نے معین کئے ہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں سے امید ہے اور ان شاء اللہ سبھی شعبوں میں یہ عظیم عوامی تحریک پیشرفت حاصل کرے گی۔ خداوند عالم آپ کی حفاظت فرمائے، خداوند عالم، ان شاء اللہ آپ لوگوں پر، تبریز اور آذربائیجان کے عوام پر رحمت نازل فرمائے ۔
والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں تبریز کے امام جمعہ اور نمائندہ ولی فقیہ، حجت الاسلام احمد مطہری اصل نے مختصر تقریر کی۔
2۔ ڈاکٹر مسعود پزشکیان
3۔ جناب مالک رحمتی
4۔ صاحب تفسیر المیزان، علامہ سید محمد حسین طباطبائی
5۔ صاحب کتاب الغدیر، علامہ غلام حسین امینی
6۔ میرزا علی آقا تبریزی، معروف بہ ثقۃ الاسلام تبریزی (آئینی انقلاب کی تحریک کے دور کے ممتاز عالم دین)
7۔ برادران شہید مہدی باکری اور شہید حمید باکری