اندازے مختلف تھے، بعض کا کہنا تھا کہ مظاہروں میں ایک لاکھ لوگ تھے جبکہ بعض یہ تعداد تین لاکھ بتا رہے تھے تاہم کسی نے بھی ہائیڈ پارک سے لے کر ڈاؤننگ اسٹریٹ پر فلسطین کا پرچم اٹھائے ہوئے ان مظاہرین کی بڑی تعداد کا انکار نہیں کیا۔ اسی طرح کے مناظر مینچسٹر، برمنگھم اور گلاسگو میں بھی دکھائي دیے۔ ان جگہوں پر دسیوں ہزار لوگوں نے غزہ کے محاصرے کے خاتمے اور غزہ میں امریکا کی حمایت سے صیہونی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے فلسطینیوں کے نسلی تصفیے کو بند کرنے کے لیے نعرے لگائے۔ امریکا سے لے کر جرمنی تک مسلسل ویک اینڈز پر لوگ، فلسطینیوں سے یکجہتی کے پیغام کے ساتھ سڑکوں پر اترے۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا: اب بہت ہو چکا۔ فلسطینیوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور دنیا کی طرف سے کسی بھی طرح کے ردعمل کے بغیر انھیں نسل کشی کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
اس سے پہلے تک مغرب میں شاید ہی کسی نے اس طرح کے مناظر دیکھے ہوں گے۔ امریکا میں بھی مظاہرے بڑے حیرت انگيز طریقے سے سامنے آئے۔ لاس اینجلس، شکاگو، نیویارک اور ہیوسٹن سمیت دسیوں شہروں میں دسیوں ہزار لوگوں کی شرکت سے بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ سماجی تحریکوں کے مبصرین نے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کو تاریخی قرار دیا۔ غزہ پر صیہونی حکومت کے اس سے پہلے کے حملوں پر مغرب اور امریکا میں جو مظاہرے ہوتے تھے وہ کافی محدود ہوتے تھے لیکن اس بار یہ مظاہرے بہت وسیع پیمانے پر اور لگاتار ہوئے اور ہر ہفتے ان میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گيا اور اسی طرح یہ مظاہرے ان شہروں میں بھی ہوئے جہاں عام طور پر اسپورٹس یا تفریح سے متعلق اجتماعات ہوا کرتے تھے۔ شہری گروہوں، انسان دوستانہ تنظیموں، مسلم، عیسائي اور یہودی مذہبی تنظیموں اور اسی طرح اسٹوڈنٹس یونینوں اور دیگر سماجی کارکنوں نے اکٹھا ہو کر مظاہرے کیے۔ مظاہروں میں گوناگوں شرکاء کی موجودگي نے ان احتجاجات کو ایک ایسی توانائي عطا کی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئي تھی اور مظاہروں کے دوران ان جرائم میں مغرب کی شرکت کی بھرپور مذمت کی گئي۔
اہم موڑ اس وقت سامنے آیا جب احتجاج کی اس لہر میں امریکا کا ایلیٹ طبقہ یعنی یونیورسٹی کے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس بھی شامل ہو گئے۔ جب کولمبیا اور یو سی ایل اے سمیت امریکا کی مشہور یونیورسٹیوں کے طلبہ نے یونیورسٹیوں کے کیمپس میں بڑے بڑے دھرنے اور مظاہرے شروع کیے تو امریکا کی مرکزی حکومت نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔ یہیں پر "اظہار رائے کی آزادی کی علامت کے طور پر احتجاج" "قومی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر احتجاج" میں بدل گيا۔
سنہ 2024 میں اسٹوڈنٹس کے مظاہرے کی عظیم لہر نے امریکا کی تمام یونیورسٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس احتجاج میں امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی حمایت کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا خاص طور پر غزہ میں صیہونی حکومت کی جانب سے نسل کشی میں شدت کے سبب۔ اسی طرح ان کمپنیوں میں یونیورسٹیوں کی سرمایہ کاری کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا تھا جو متعلقہ ہتھیاروں کے پروڈکشن یا نگرانی کا کام کر رہی تھیں کیونکہ اسٹوڈنٹس سمجھ گئے تھے کہ کس طرح ان کی تحقیقات ان بموں کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہیں جن سے غزہ کے بچوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ احتجاج، پرامن تھا لیکن امریکی حکام نے انہیں بڑی بے رحمی سے کچلا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک کے دو ہزار سے زیادہ اسٹوڈنٹس کو گرفتار کر لیا گيا۔ ان مظاہروں کے ایک اصل مرکز، کولمبیا میں پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والے اسٹوڈنٹس کے کیمپوں کو اکھاڑنے اور سو سے زیادہ طلبہ کو گرفتار کرنے کی تصاویر پوری دنیا میں پھیل گئيں۔ یو سی ایل اے میں بھی اسٹوڈنٹس کے ایک مظاہرے پر اینٹی رائٹ پولیس نے حملہ کر دیا اور دو سو سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا۔ ڈارتھ ماؤتھ کالج، نیو ہیمپشائر یونیورسٹی اور بفیلو یونیورسٹی میں بھی کشیدگي پھیل گئي اور یونیورسٹی کیمپس احتجاجی میدان جنگ میں بدل گئے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو گرفتار کیا گيا۔
ان مظاہروں کے پھیل جانے کے بعد 25 مئي 2024 کو رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے ان اسٹوڈنٹس کے نام ایک خط میں انھیں "مزاحمتی محاذ کا ایک حصہ" بتایا اور امریکی حکومت کے بے رحمانہ دباؤ کے باوجود ان کی جدوجہد کو ایک "شرافت مندانہ مجاہدت" سے تعبیر کیا۔
بات گرفتاریوں سے کہیں بڑھ کر تھی، اس مسئلے نے اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع کی آزادی کے سلسلے میں امریکا کے دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیے۔ سول تنظیموں نے امریکی حکومت کے پرتشدد ردعمل کی مذمت کی اور آئین کی پہلی شق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اکیڈمک آزادیوں کی سرکوبی کے سلسلے میں شدید تشویش کا اظہار کیا۔ مارچ 2025 تک وزارت قانون نے کولمبیا کے احتجاجات سے متعلق دہشت گردی مخالف قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی کے سلسلے میں تفتیش شروع کر دی جسے سول آزادی کے بہت سے حامیوں نے قانونی احتجاجات کو دبانے کی کوشش بتایا۔ مسئلہ اس وقت اور شدت اختیار کر گيا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیڈرل بجٹ میں سے چالیس کروڑ ڈالر کم کرنے کا اعلان کیا اور اس کی وجہ، یہودیت مخالف سرگرمیوں کے سلسلے میں کولمبیا کا کمزور ردعمل بتایا۔ اسی مہینے امریکی حکومت نے محمود خلیل نامی ایک فلسطینی طالب علم کے گرین کارڈ کو اچانک منسوخ کر دیا۔ خلیل کو اس کی حاملہ امریکی بیوی کی نظروں کے سامنے امریکی امریگریشن ڈپارٹمنٹ کے اہکاروں نے گرفتار کر لیا۔ یہ منظر بڑی تیزی کے ساتھ امریکا میں اظہار خیال کی آزادی کی خلاف ورزی کے ایک نمونے کے طور پر پوری دنیا میں وائرل ہو گیا۔
یہ سارے واقعات اس وجہ سے ہوئے کہ ان لوگوں نے ایک سطحی نظر سے آگے بڑھتے ہوئے وہ وحشیانہ مناظر دیکھے تھے جو غزہ میں رونما ہو رہے تھے، صیہونی حکومت کی بمباریاں جن میں محلے کے محلے مٹی کا ڈھیر بنتے جا رہے تھے اور گھرانے خاک و خون میں غلطاں ہوئے جا رہے تھے۔ اب ہلا دینے والا سوال یہ ہے: اگر اسٹوڈنٹس کا یہ غصہ بھی ان حقائق کے برفیلے پہاڑ کے صرف اوپری حصے پر مبنی ہو جو سطح سے باہر ہو تو کیا ہوگا؟ اگرچہ سوشل میڈیا اور خبری چینلز چوبیس گھنٹے سرگرم رہتے ہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ مغرب کے لوگوں نے حقیقت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ دیکھا ہو اور اس کا بڑا حصہ، پیچیدہ پروپیگنڈوں کی دیوار کے پیچھے اب بھی پنہاں ہو؟
وہ حقیقت جو میڈیا میں نہیں آتی
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ سے دی جانے والی مغربی میڈیا کی بہت سی رپورٹیں باقاعدگي سے سینسر کی جاتی ہیں۔ ایسے عالم میں جب بی بی سی جیسے ذرائع ابلاغ، "قتل عام" "درندگي" اور "جرم" جیسے الفاظ، صیہونیوں کے خلاف حماس کے حملوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، یہی الفاظ وہ صیہونی حکومت کے فضائي حملوں کو بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتے جن میں ہزاروں فلسطین جاں بحق یا بے گھر ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح امریکا کے اخبارات اور نیوز چینلز صیہونی حکومت کے ہونے والے جانی نقصان اور صیہونی فیملیز کے مصائب کو بہت زیادہ کوریج دیتے ہیں جبکہ فلسطینیوں کے مصائب کو وہ اس طرح کے جذباتی احساسات کے بغیر بیان کرتے ہیں۔
امریکا میں ہونے والی بعض تنقیدیں بھی اس نظریے کی تصدیق کرتی ہیں۔ سی این این چینل پر بعض اخبار نویسوں نے ایک طرح کی ادارہ جاتی پارٹی بازی کا الزام عائد کیا ہے، اس معنی میں کہ نیوز ڈیسک کے فیصلے زیادہ تر فلسطینیوں کے اصل مطالبات کے بارے میں لکھنے یا بات کرنے سے جان بوجھ کر روکتے ہیں، جیسے: غزہ کی کئي برسوں سے جاری ناکہ بندی، غیر قانونی کالونیوں کی تعمیر اور چیک پوسٹس پر روزانہ ہونے والی اہانت۔ یہ موقف قریب قریب ہر چیز میں نمایاں ہے، جیسے تجزیاتی پروگراموں کے مہمانوں (زیادہ تر صیہونی حکام اور بہت کم فلسطینیوں) کے انتخاب سے لے کر فلسطینیوں کے قتل کے سلسلے میں جملوں کی ساخت اور الفاظ تک میں (قتل عام کے ذمہ دار کا نام لینے کے بجائے مجہول فعل کا استعمال)
نتیجے میں، خبر بہت غیر متوازن شکل میں تیار ہوتی ہے۔ رپورٹیں زیادہ تر حماس کی جانب سے راکٹ فائر کیے جانے یا مقبوضہ علاقوں میں حماس کے حملوں پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن صیہونی حکومت کے جرائم کی وجہ سے ہونے والی تباہی پر زیادہ روشنی نہیں ڈالی جاتی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق واقعات کے انتخاب کا یہ طریقہ بہت سے مغربی ناظرین کو اس نتیجے تک پہنچاتا ہے کہ تشدد کی جڑیں فلسطینیوں پر ناقابل وضاحت حملے میں نہاں ہیں نہ کہ غاصبانہ قبضے، جلاوطنی اور محاصرے میں کہ جو حماس کے میزائيلوں سے دسیوں سال پہلے شروع ہو چکے ہیں۔ نتیجے میں مغربی رائے عامہ کو بدستور ایک تحریف شدہ تصویر دکھائی جا رہی ہے: ایک مضبوط ڈیموکریسی جو حملہ آوروں کے مقابلے میں اپنا بچاؤ کر رہی ہے۔ دریں اثنا قربانی بننے والے بے شمار غیر فوجی فلسطینی، دکھائي ہی نہیں دیتے۔
سوشل میڈیا کا تسلط
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ڈیجیٹل دنیا میں مین اسٹریم میڈیا اپنے نیوز ڈیسک کی پالیسیوں کے پیچھے نہیں چھپ سکتا۔ غزہ میں جس کے پاس بھی موبائل فون ہے وہ کوئي ویڈیو ریکارڈ کر کے اسی وقت دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے لیکن یہ خیال اس فرضیے پر مبنی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم حقیقت میں ایک آزاد اور بغیر سینسر والا میدان ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔
اکتوبر سنہ 2023 سے ایکس (سابقہ ٹویٹر) نے ایسے سیکڑوں یوزرز کے اکاؤنٹ بند کر دیے جو اس کے بقول حماس سے تعلق رکھتے تھے تاکہ بقول اس کے تشد آمیز اور نفرت پھیلانے والے کنٹینٹ کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ البتہ فلسطینی یوزرز کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر اکاؤنٹس کا مسلح گروہوں سے کوئي تعلق نہیں تھا اور وہ صرف غزہ کے لوگوں کی آواز دنیا تک پہنچا رہے تھے۔ اسی طرح کنٹینٹ کو خفیہ طریقے سے محدود کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا ہے اور یوزرز کا کہنا ہے کہ ان کی ایسی پوسٹس کو، جن میں صیہونی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید یا فلسطینیوں کے حقوق کا دفاع ہوتا ہے، بغیر کسی وضاحت کے نظروں سے اوجھل کر دیا جاتا ہے یا ان کی شیئرنگ کی حد اچانک ہی کم کر دی جاتی ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی 96 فیصد پوسٹس، جن کے نفرت انگیز ہونے کے بارے میں یوزرز نے رپورٹ بھی کی تھی، بدستور آن لائن باقی رہیں کیونکہ ان میں عربوں یا مسلمانوں کی توہین کی گئي تھی۔
فیس بک اور انسٹا گرام کی مدر کمپنی میٹا کو بھی ہدف تنقید بنایا گيا ہے۔ دسمبر سنہ 2023 میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں بتایا گيا کہ میٹا کی پالیسیاں فلسطینیوں کی آواز اور ان کنٹینٹس کو دبائے جانے کا سبب بن رہی ہیں جن میں ان کے حقوق کا دفاع کیا جاتا ہے۔ اس عمل کا طریقۂ کار ممکنہ طور پر اس پلیٹ فارم کے لیے ڈیزائن کیے گئے الگوریدم سے متعلق ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی کے کرتا دھرتا جان بوجھ کر فلسطین کے حامی کنٹینٹس پر زیادہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ مغرب کے لوگوں کے پاس اب بھی غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں بہت تھوڑی معلومات ہیں۔ یہ تھوڑی سی معلومات بھی جو اس فلٹر سے چھن کر باہر نکل آتی ہیں، جیسے چھوٹے بچوں کو ملبے سے باہر نکالنے یا مارے جانے والے گھرانوں کی دہلا دینے والی کلپس، اس چينل کے زرق برق سے بھرے کنٹینٹس کے بازار میں بہت زیادہ وائرل ہونے کی اجازت نہیں پاتیں اور دوسری خبروں کے نیچے دب جاتی ہیں۔ ایسے ماحول میں ذمہ دار یوزرز کو بھی المیے کی مکمل تصویر لوگوں تک پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے اور دیکھنے والا، حقیقت کا صرف ایک حصہ ہی دیکھ پاتا ہے۔
موجودہ حالات کی تبدیلی
دریں اثنا دنیا کے آزاد منش انسانوں کا بیدار ضمیر، ان بہت کم اور محدود معلومات پر بھی ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ لندن یا لاس اینجلس کے مظاہرین یا کولمبیا کے غصے سے بھرے ہوئے اسٹوڈنٹس کہتے ہیں کہ امریکا کی جانب سے صیہونی حکومت کی مالی اور عسکری امداد نے ہی اس حکومت کے حکام کو نسل کشی جاری رکھنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ بہرحال مغرب میں ہونے والے زبردست مظاہروں سے پتہ چلتا ہےکہ وہاں ایک طرح کی بیداری وجود میں آ رہی ہے۔ مغرب کے لوگ اب ایسے سوال پوچھ رہے ہیں جنھیں پہلے اٹھانے کی اجازت ہی نہیں دی جاتی تھی۔ اب وہ حقائق کے ایک حصے سے آگاہ ہونے کے بعد میڈیا سے شائع اور نشر ہونے والی تحریف شدہ تصاویر کو چیلنج کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ حقائق اسی طرح آشکار ہوتے رہے تو ممکن ہے کہ سیاسی حالات بہت زیادہ بدل جائيں۔ جس طرح سے کہ رائے عامہ نے اسرائيلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک "BDS" کے ذریعے صیہونیوں کے حامیوں کو کئي ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا ہے، اسی طرح وہ سیاست کے میدان میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے حامی افراد اور حکومتوں کی مذمت کر کے ان کے سامنے سنجیدہ چیلنج کھڑا کر سکتی ہے۔ رائے عامہ اسرائیل کے حامی سیاستدانوں کو یہ بات بہت اچھی طرح سمجھا سکتی ہے کہ اسرائيل کی حمایت ان کی ریڈ لائن ہے اور جس نے بھی یہ ریڈ لائن کراس کی، اسے عوام کے ووٹ نہیں ملیں گے۔
یہ وہی بات ہے جو اس سال عید فطر کی نماز کے خطبوں میں رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای نے زور دے کر کہی ہے: "دنیا کی اقوام غصے میں ہیں، پریشان ہیں، جس حد تک انہیں اطلاعات ملتی ہیں، دنیا کی قوموں کو بہت سے مسائل اور مظالم کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ یورپ اور حتیٰ امریکا کی سڑکوں پر صیہونی حکومت کے خلاف لوگ نعرے لگا رہے ہیں، تو یہ صرف ان کی محدود معلومات کی وجہ سے ہے۔ اگر انھیں مزید معلومات کا علم ہو، تو وہ اس سے کہیں زیادہ احتجاج کریں گے۔"
تحریر: مجتبیٰ دارابی، تجزیہ نگار اور محقق